بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالی کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے خیر امت،امت محمدیہ کو لیلة القدر جیسی عظيم نعمت سےنوازکر افضل الامم بنا یاروزے تو اللہ تعالی نےپہلی امتوں پر بھی فرض کۓ تھے ،لیکن روزوں میں امتیازی اہميت و فضيلت اور مقام و مرتبہ والی رات ”لیلة القدر“صرف اس امت کوعطا فرماٸ اور حضور کی دعانےایسی جلیل القدر نعمت سے سرفراز فرمایا جس کی اگلی امتوں میں کوٸ نظیر نہیں ملتی۔حضرت ابن عباس فرماتےہیں، ”فاعطاہ اللہ تعالی لیلةَالقَدرِ خیراًمِّن اَلفِ شَھرٍ ،مُدَّةَ حَملِ الاِسرَاٸِیلِی السَّلَاحَ فِی سَبِیلِ الّٰلہِ لَہ،وَلِامتِہ الیٰ یومِ القِیَامَةِ، فھِیَ مِن خَصَاٸِصِ ھٰذِہِ الاُمَّةِ اللہ تعالی نےآپ کو شب قدر عطا فرمائی ،جو ہزار مہینےکی عبادت ،اور اس جہاد سےافضل ہے جو اسراٸیلی مجاہد نے خدا کے راستے میں کیاتھاتو یہ عظیم رات اس امت کے خصاٸص سے ہے۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آنے والی رات کے” لیلةالقدر“کے نام سے موسوم ہونے کی متعدد وجہیں بیان کی جاتی ہیںاول۔۔یہ کہ بندہ ٕمسلم چوںکہ اس رات بکثرت عبادت اور نیک اعمال کرتاہے ،اس لۓوہ اللہ تعالی کے ہاں بڑی قدرو منزلت کا مستحق ٹہر تاہےدوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی نےبڑی ہی قدر و منزلت والی کتاب قرآن مجید کا اپنے بہت ہی محبوب و معزز نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نزول فرمایاسوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی آٸندہ سال تک کے لۓلوگوں کے بارے میں اہم تقدیریں اور فیصلے تحریر فرماتا ہے ،چنانچہ تقدیر کی مناسبت سے اسے لیلة القدر کہا گیاچہارم۔۔عربی زبان میں ”قدر “کا مطلب تنگی بھی ہوتا ہے،یعنی اس رات آسمان سےزمین کی طرف نازل ہونےوالے فرشتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زمین ان کے لۓ تنگ پڑ جاتی ہے۔انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی عظمت و شان کا صحیح معنوں میں ادراک کر سکے ۔چنانچہ اس مبارک رات کو وہ شان عطا ہوٸ ہے کہ انسانی ذہن و دماغ اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے ۔اس ایک رات کی جانے والی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔۔اس رات حضرت جبرٸیل امین علیہ السلام کی قیادت میں اپنے رب کے خصوصی حکم سے فرشتے زمين پر اترتےہیں اور طلوع فجر تک ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہےاس کی اہمیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ سابقہ امتوں میں لوگوں کی عمریں لمبی ہوتی تھیں جب کہ اس امت میں اللہ تعالی نےبندوں کی عمریں کم کردیں تو بدلے میں انہيں یہ رات عطافرماٸ ،تاکہ یہ امت خیر و برکت اور نیکی کے کاموں میں کسی سےپیچھے نہ رہ جاۓ ۔یہ بھی اللہ تعالی کافضل ہےکہ نیکیوں کا یہ موسم بہار وقتی اور عارضی نہیں ، بلکہ داٸمی اور قیامت تک کے لۓ ہے۔شب قدر کی اہمیت و فضیلت واضح ہو جانے کےبعد اس کےفواٸد نورنظرہیں ۔آقاۓ کاٸنات کے فرمان کے مطابق شب قدر کی عبادت سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔۔چنانچہ حدیث پاک کےالفاظ یہ ہیںعن ابی ھریرةرضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ،من قام لیلةالقدر ایماناًواحتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ”بخاری“ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ٕکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدرمیں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرےگا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاٸیں گے آقاۓ کریم کایہ بھی ارشاد ہے کہ میری امت میں جو یہ خواہش کرے کہ میری قبرروشنی سے منور رہے تو ایسے شخص کو چاہۓ کہ شب قدر میں زیادہ سے زیادہ رب کی عبادت کرے تاکہ پرور دگار عالم ان متبرک راتوں کی عبادت سےاس کےنامہ ٕاعمال سےبراٸیاں ختم کر کےنیکیوں سے پر فر ما دےشب قدر جب اس درجہ با برکت و با فواٸد ہے تو وہ کس تاریخ میں ہے ؟ کہ اس کی برکتوں اور فاٸدوں سے عبادت گزار نفع مند ہو سکیں؟نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتو ں میں سے کسی رات میں ہےعن ابی سلمة قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی اریت لیلة القدر ثم انسیتھااونُسیتھا فالتمسوھا فی العشر الأواخر فی الوتر۔۔صحیح بخاری۔۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھےوہ رات دکھاٸ گٸ تھی مگر پھر بھلا دی گٸ لھٰذا اب تم اسے رمضان کی آخری دس کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اسی مفہوم کی ایک اور حدیث پاک ہےعن عاٸشة رضی اللہ عنہا، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ۔تحروا لیلة القدر فی الوتر من العشرالأواخر من رمضان۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔حضرت عاٸشہ سے اور ایک روایت اس طرح ہےعن عا ٸشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یجاور فی العشرالاواخر من رمضان و یقول تحروالیلة القدر فی العشر الأواخر من رمضان ۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا روایت کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کےآخری عشرہ میں اعتکاف میں ہوتے تھےاور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔آج امت مسلمہ کا جس تاریخ پر باعتبار” لیلة“القدر سب سے زیادہ عمل ہے وہ ستاٸیسویں رمضان کی شب ہے اور ایک حدیث پاک میں اس کی صرا حت بھی موجود ہے چنانچہ روایت ہے۔عن ابی ذر قال ۔سمعت ابی ابن کعب یقول واللہ انی لاعلم ای لیلة ھی،ھی اللیلة التی امرنا بھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیامھاھی لیلةصبیحة سبع وعشرین واماراتھا ان تطلع الشمس فی صبیحة یومھا بیضا ٕ لا شعا ع لھا۔۔صحیح مسلم۔۔حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےابی ابن کعب سے سنا وہ کہر ہے تھے کہ اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کو نسی رات ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنے کا حکم دیا ہے؟ یہ ستاٸیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہےاور اس میں شعاٸیں نہیں ہوتی ہیں ۔اور کچھ اہل علم نے یہ نکتہ آفرینی بھی کی ہے کہ ”کلمہ ٕلیلةالقدر“کے اندر نو حروف ہیں اور کلمہ ٕلیلة القدر اس سورہ میں تین بار آیاہے ، جس کا مجموعہ ستاٸیس ہے اس سے شب قدر کے ستاٸیسویں شب میں ہونے کی طرف اشارہ ہے۔۔مگر آپ کا طرز عمل آخری عشرہٕ رمضان میں کثرت عبادت کی شکل میں نظر آتا ۔اس کے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے عن عاٸشة رضی اللہ عنھا انھاقالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل العشر شد مٸزرہ واحیا لیلہ وایقظ اھلہ۔۔۔بخاری۔۔۔ حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہو تےتو”عبادت “کے لۓ کمر کس لیتے خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والو ں کوبھی جگاتے تھےشب قدر کی دعا ٕ کے متعلق آقاۓکریم کا ارشاد ہےعن عاٸشة انھا قالت یا رسول اللہ أرأیت ان وافقت لیلة القدر ماادعو؟قال ”تقولین اللھم انک عفو فاعف عنی۔۔سنن ابن ماجہ۔۔عا ٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جاۓ تو میں کون سی دعا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو ”الّٰلھم انک عفو فاعف عنی اے اللہ تو معافی کو پسند کرتاہے لھٰذا تو ہمییں معاف کردے متذکرہ احادیث کا ما حصل یہ ہے کہ شب قدر کون سی رات ہے اس تعلق سے کوٸ حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٢١۔۔٢٣ ٢٥۔۔٢٧۔۔اور ٢٩ ویں رمضان کی تمام راتوں کے بارےمیں حدیثیں ملتی ہیں بایں وجہ محدثین کرام کا فرمان ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے ،ایسے میں کسی ایک رات کو یقینی طورپر اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کاسبب ہے ،کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جس رات کو شب قدر مان بیٹھے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو جب کہ آخری عشرہ کی سبھی راتوں میں تلا ش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ اور مخفی رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ز یادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کر سکے اللہ تعالی ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرما ۓ اٰمین
لیلةالقدر کی فضیلت سے بہرہ ور ہونے والا خوش قسمت ،اور اس کی فضیلت سے محروم ہو نے والا ہر قسم کی بھلا ٸ سے محروم ہےحدیث شریف میں ہے ”دخل رمضان فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ان ھٰذالشھر قد حضرکم و فیہ لیلة خیر من الف شھر منحرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم ۔۔۔صحیح ابن ماجہ۔۔۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے ،جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلا ٸ سے محروم رہ گیا۔۔اب ہمیں غور کرنا ہے کہ اس محرومی سے نجات کیسے ہو گی؟ تو اس کا حل یہ ہےکہ اس رات عبادت الٰہی سے ہم یہ محرومی ٹالنے میں کامياب ہو سکیں گے، درود پاک کاپڑھنا بھی قبولیت دعا اور محرومی کو ٹالنے کا تیر بہدف سبب ہے ،حدیث شریف میں ہے،”الدعا ُٕ محجوب عن اللہ حتی یصلی علی محمد وَّاھل بیتہ“دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی جب تک کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور آپ کے اھل بیت پر درود نہ بھیجا جا ۓ۔اس حدیث کو ابوالشیخ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔۔۔۔الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔۔
کثرت سے نفل نمازیں پڑھےاور ہر رکعت میں زیادہ سےزیادہ قرآن شریف پڑھے ،حدیث شریف میں ہےقرا ٕةُ القرآن فی غیر الصلوٰة افضل من التسبیح والتکبیر ۔۔مشکوٰة شریف۔۔۔۔نماز میں قرآن پاک کی تلاوت نماز سے باہر تلاوت سے افضل ہے چنانچہ اس باب میں جو نمازیں بزرگوں سے منقول ہیں اس میں بکثرت تلاوت قرآن کی تصریح موجود ہے آیۓ ہم بزگوں سے منقول شب قدر کی نماز کا طریقہ تحریر کریں تا کہ قارٸین اس رات کے فیضا ن سے دامن مرا د کو پُر کر سکیں اٰمینشب قدر کے نوافل کے طریقےایک طریقہ۔۔دورکعت بنیت نفل پڑھے۔ہر رکعت میں الحمد شریف ایک بار، انا انزلنا ایک بار سورہ ٕاخلاص تین بار پڑھے تو اس کو شب قدر کا ثواب حاصل ہو گا اور ثواب حضرت ادریس،حضرت شعیب، حضرت داٶد،اورحضرت نوح علیہھم الصلوٰة والسلام جیسا عطا ہوگا اور اس کوایک شہر جنت میں دیا جاۓگا جو مشرق سے مغرب تک لمبا ہوگا۔دوسرا طریقہ جو شخص ستاٸیسویں شب رمضان کو چار رکعت پڑھے ،ہر رکعت میں بعد الحمد شریف ،انا انزلناہ تین بار ،اور قل ھواللہ شریف پچاس مرتبہ پڑھے ،بعد ختم نماز سجدہ میں سر رکھ کر یہ کلمات مقدسہ پڑھے ”سبحان اللہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الَّااللہ واللہ اکبر “ان شا ٕاللہ جو دعامانگے قبول ہو گیاللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ اس شب قدر کو عبا دت و تلاوت میں گزا ریں اور موجودہ مہلک مرض کورونا سے نجات کی بالخصوص اور بالعموم تمام مرض سے حفا ظت وصیانت کی الحاح و زاری کے ساتھ دعا ما نگیں امید ہے کہ ہماری خستہ حالی پر رب کی رحمت متوجہ ہو گی اور ہم ایسی زندگی گزاریں گے جس میں رب کی رضا شامل ہو اللہ ہم سب کا بھلا کرے اٰمین
Leave a Reply