﷽قربانی :فضائل و مسائل!از:حبیب اللہ قادری انواری! آفس انچارج: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف ،پوسٹ گرڈیا، تحصیل: رامسرضلع:باڑمیر (راجستھان)
مسلمانوں کے درمیان بہت سے تہوار مروج ہیں ان میں عید الفطر اور عید الاضحٰی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،عید الاضحٰی میں کچھ مخصوص جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو اللہ نے اپنے صاحب استطاعت بندوں پر واجب کی ہے،اور صرف رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے ،اور یوں بھی قربانی کی اصل اور روح بھی یہی ہے کہ بندہ صرف بصرف اپنے خالق و مالک کو خوش کرنے اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے اپنا مال و متاع اور اپنی عزیز ترین چیزیں اس کے حکم کے مطابق قربان کردے ،جانوروں کی قربانیاں تو اپنے اسی جزبے کا مظہر اور عبدیت اور بندگی کے اظہار کا ذریعہ ہیں ،اگر ان میں نام و نمود اور شہرت و ناموری اور رسم و رواج کا دخل ہوگا تو نہ صرف یہ کہ یہ قربانیاں مقبول نہ ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت مواخذہ کا بھی خطرہ ہے ۔اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی قربانیاں خالصۃً لوجہ اللہ کریں ۔
قربانی ایک اہم ترین عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے،زمانۂ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا ۔مگر وہ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے ،اسی طرح آج بھی کچھ مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے، اور ان مذاہب کےپیروکار بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کوثر میں اپنے محبوب نبی حضور احمد مجتبیٰ محمدمصطفیٰ ﷺکو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی قربانی بھی اسی کے نام پر (اس کے رضا کے لئے)ہونی چاہیئے چنانچہ “فصل لربک وانحر “کا یہی مفہوم ہے اور دوسری آیت کریمہ میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے عالم کا پالنہار ہے ۔
قربانی کے فضائل: بلا شبہ اسلام میں قربانی کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ “قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ،ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہوجاتا ہے، اور ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حدیث میں قربانی کی بڑی مؤثر تاکید فرمائی کہ “اےلوگو!بڑے خلوص و للّہیت کے ساتھ قربانی کیاکرو “
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بعض صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کی ان قربانیوں کی حقیقت اور بنیاد کیا ہے ؟تو حضور نبی رحمت ﷺنے فرمایاکہ یہ ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے ۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پھر عرض کیا کہ اس میں ہمارے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟تو حضور نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی،صحابۂکرام نے پھر عرض کیا کہ بھیڑ کے بالوں کا بھی یہی معاملہ ہوگا ؟تو حضور ﷺنے فرمایا !ہاں !بھیڑ کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی (مفہوم حدیث)
سبحان اللہ !قربانی کرنے پر اس سے بڑھ کر اور کیا اجر و ثواب ہوگا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ہیں ۔اس کے باوجود اگر استطاعت ہوتے ہوئے ہم اور آپ قربانی نہ کریں تو اس سے بڑھ کر محرومی کی بات کیا ہوگی ؟۔اور ویسے بھی قربانی کرنے والوں کی جس قدراہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کی ترغیب و تاکید قرآن و احادیث میں مذکور ہیں اسی طرح قدرت و استطاعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنے والوں کے لئے حضور نبی اکرم ﷺسے بڑی وعید اور دھمکی بھی وارد ہے چنانچہ قربانی نہ کرنے والوں پر حضور نے اپنی شدید خفگی و ناراضگی ظاہر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ “جو آسودہ حال ہو نے کے با وجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے”۔
قربانی واجب ہونے کے لئے چار شرطیں ہیں: (۱)مسلمان ہونا (۲)مقیم ہونا(۳)بالغ ہونا(۴)مالک نصاب ہونا(مالک نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان کے دام کی مقدارروپیےکا مالک ہونا ہے )مندرجہ بالا شرائط مرد و عورت میں سے جس میں بھی ایام قربانی کے حصہ میں پائے جائیں اس پر قربانی واجب ہے (درمختار ج/۹ص/۵۲۴)
قربانی کا وقت: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی طلوع صبح صادق سے بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں ،ان ایام کو ایام نحر کہتے ہیں ،پہلے دن قربانی سب سے افضل ،دوسرے دن اس سے کم اور آخری دن سب سے کم درجہ ہے (درمختارج/۹ص/۵۲۰)
کن جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے ؟: قربانی کے جانور تین طرح کے ہیں (۱)اونٹ(۲)گائے(۳)بکری یہ سب جانور چاہے نر ہو ں یا مادہ خصی ہوں یا غیر خصی سب حکم میں یکساں ہیں، یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہے ۔(عالمگیر ی ج/۵ص/۲۹۷)
جانور کی عمریں: قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیئے اونٹ پانچ سال کا ،گائے دوسال کی ،بکری ایک سال کی ،اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ،ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھہ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (در مختارج/۹ ص/۲۹۷)
کن جانوروں کی قربانی نہیں ہو سکتی ؟: (۱)قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیئے ،لہٰذا خرید تے وقت اس کا خاص خیا ل رکھیں تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں (۲) اندھے اور کانے کی(۳)جس جانور کی ناک کٹی ہو(۴)اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ ہو(۵)جس کے پیدائشی دونوں کان نہ ہوں (۶)جانور اتنا لنگڑا ہو کہ قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے (۷) جس جانور میں اتنا جنون ہوکہ چرتا بھی نہ ہو (۸)جس جانور کے دانت نہ ہوں (۹)جس کا تھن کٹا ہو یاتھن سوکھا(چاروں میں سے اگر صرف ایک سوکھا ہوتو حرج نہیں ) (۱۰)خنثیٰ جانور (یعنی جس کے نر اور مادہ دونوں طرح کی علامتیں ہوں ) (۱۱) وہ جانور جو صرف غلاظت کھاتا ہو ،ان سب کی قربانی جائز نہیں (در مختارج/۹ص/۵۳۵،بہارشریعت )
قربانی سے قبل جانور سے نفع اٹھانا: (۱)ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لئے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنامکروہ و ممنوع ہے (۲)قربانی کے جانور پر سوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو اجرت پر دینا ممنوع ہے، غرض اس سے منافع حاصل کرنا منع ہے ،اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوھ لیا تو اسے صدقہ کرے اور اجرت پر جانور کو دیا ہے تو اجرت کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تو اس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔(درمختار ج/۹ص/۵۴۴)
اب آئیئے ہم قربانی کے کچھ مزید اہم و ضروری مسائل مستند کتب فقہ کے حوالے سے درج کر نے کی سعادت حاصل کررہے ہیں!
(۱) قربانی کے دن گزرجانے کے بعد قربانی فوت ہو گئی اب نہیں ہو سکتی ہے ،اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خریدرکھا ہے تو اس کا صدقہ کرے-
(۲)قربانی کا جانور خرید نے کے بعد قربانی سے پہلے بچہ دے دے تو اسے بھی ذبح کر ڈالے اور اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کرے اور اگر قربانی کے دنوں میں ذبح نہ کیا تو زندہ صدقہ کرے-
(۳)جس پر قربانی واجب ہے اسے ایک بکری کا ،یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ذبح کرنا واجب ہے-
(۴)دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پہ رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے ،اگر ایک نے نہ کہا تو جانور حلال نہ ہوگا-
(۵)اگر جا نور مشترکہ ہو جیسے گائے ،اونٹ،بھینس تو گوشت اندازے سے ہر گز نہ تقسیم کریں بلکہ وزن سے تقسیم کریں (البحر الرائق ج/۲ص/۵۷)
(۶)وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہو سکتی، وحشی اور گھر یلو جانور سے مل کر بچہ پیدا ہوا مثلاًہرن اور بکری سے اس میں ماں کا اعتبار ہے یعنی اس بچہ کی ماں بکری ہے تو جائز ہے، اور بکرے اور ہرنی سے پیداہوا ہے تو نا جائز۔(عالمگیری ج/۵ص/۲۹۷)
(۷)قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب، ایسی چیزوں سے بدل نہیں سکتا ہے جس کو ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جا تا ہو جیسے روٹی ،گوشت،سرکہ،روپیہ ،اور اگر اس نے ان چیزوں کو چمڑے کے عوض میں حاصل کیا تو ان چیزوں کو صدقہ کرے۔(در مختار ج/۹ص/۵۴۳)
(۸)گوشت کا بھی وہی حکم ہے جو چمڑے کا ہے کہ اگر اس کو ایسی چیز کے بدلے میں بیچا جس کو ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جائے تو صدقہ کرے۔ (ہدایہ ج/۲ص/۳۶۰)
(۹)قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں نہیں دے سکتا کہ اس کو اجرت میں دینا بھی بیچنے ہی کے معنیٰ میں ہے (ہدایہ ج/۲ص/۳۶۱)
(۱۰)میت یا مرحوم کی وصیت پر کی جانےوالی قربانی کا سب گوشت فقرا اور مساکین کو صدقہ کرنا واجب ہے نہ خود کھائے اور نہ مالداروں کو دے (بہار شریعت ج/۳ص/۳۴۵)
(۱۱) اگر شرکاء حضرات اپنا اپنا حصہ لے جانا چاہتے ہوں تو وزن کی مشقت سے بچنے کے لئے دو حیلے کر سکتے ہیں (۱)ذبح کے بعد اس گائے کا سارا گوشت ایک ایسے بالغ مسلمان کو ہبہ (یعنی تحفۃً مالک)کردیں جو ان کی قربانی میں شریک نہ ہو اور اب وہ اندازے سے سب میں تقسیم کر سکتا ہے (۲)دوسرا حیلہ اس سے بھی آسان یہ ہے جیسا کہ فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیھم فرماتے ہیں :گوشت تقسیم کرتے وقت اس میں کوئی دوسری جنس (مثلاًکلیجی مغز وغیرہ )شامل کی جائے تو بھی اندازے سے تقسیم کرسکتے ہیں ۔(درمختار ج/۹ص/۵۲۷)
اگر کئی چیزیں ڈالی ہیں تو ہر ایک میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا لازمی نہیں ،گوشت کے ساتھ صرف ایک چیز دینا بھی کافی ہے۔ مثلاًکلیجی ،سری ،پائے ڈالے ہیں تو گوشت کے ساتھ کسی کو تلیّ دیدی، کسی کو کلیجی کا ٹکڑا کسی کو پایہ ،کسی کو سری اگر ساری چیزوں میں سے ٹکڑا ٹکڑا دینا چاہیں تب بھی حرج نہیں-
(۱۲)کرفیو یا کسی دوسرے فتنے کے سبب شہر میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں دسویں ذی الحجہ ہی کو شہر میں بھی طلوع فجر کے بعد ہی سے قربانی کرنا جائز ہے (درمختار ج/۵ص/۲۰۳)
(۱۳) شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہو چکی ہو ،لہٰذا عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد ہی سے قربانی ہو سکتی ہے ،اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے (عالمگیری ج/۵ص/۲۵۹)
(۱۴) قربانی کے لئے بکرا اور بکری کی عمر پورے ایک سال کی ہونا ضروری ہے اگر ایک دن بھی کم ہوگی تو اس کی قربانی شرعاً جائز نہ ہوگی (ایضاً)
(۱۵) عورت کی طرف سے قربانی ہو تو صرف عورت کا نام لینا کافی ہے فلاں بنت فلاں یا فلاں زوجہ فلاں کہنا ضروری نہیں ،اور اگر کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں (فتاویٰ فیض الرسول ج/۲ص/۴۴۸)
(۱۶)جرسی گائے یا بیل جب کہ گائے کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی قربانی کرنا ان کا گوشت کھانا جائز ہے اور جرسی گائے کا دودھ پینا بھی جائز ہے اس لئے کہ جانوروں میں ماں کا اعتبار ہے (فتاویٰ برکاتیہ ص/۲۲۹)
(۱۷)جانوروں کو اس طرح ذبح کریں کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرے تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ تکلیف ہے (بہار شریعت ج/۳ص/۳۵۳)
نماز عید کا طریقہ : نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نیت کرکے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دو تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیئے جائیں اور جہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں پھر امام اعوذاور بسم اللہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے پھر رکوع و سجدہ کرے، دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جاکر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور باقی نماز پوری کرے (بہار شریعت ج/۱ص/۷۸۲)
قربانی کرنے کا طریقہ : جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اس کا منہ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے ذبح کرے اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے ۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ط لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے اس کے بعد یہ دعا پڑھے اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہ السَّلاَمُ و حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ رسول اللہﷺ اگر قربانی دوسرے کی طرف سے ہو تو منی کی جگہ من کہے ۔