WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

شب برأت۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

مسرتوں میں مسلمان آج کی شب ہے

اہم تریں شب شعبان آج کی شب ہے

جزا کے باغ کا ریحان آج کی شب ہے

یہ نفس دیکھ کے حیران آج کی شب ہے

حسد ، عناد کو بالائے طاق رکھیں آپ

نزول رحمت رحمان آج کی شب ہے

درود پاک کی آیت کا ہوگیا ہے نزول

نہ کیوں میں کہہ دوں کہ ذیشان آج کی شب ہے

گنہ معاف ہوئے اور مل گیا مژدہ

سبھی کے ہونٹ پہ مسکان آج کی شب ہے

شفاعتوں کا ملا اختیار آقا کو

خدا کا خوب یہ فیضان آج کی شب ہے

اے بندے مانگ ، تجھے جو بھی مانگنا ہے اب

خدائے پاک کا اعلان آج کی شب ہے

خدا کریگا نمازی کی حاجتیں پوری

نماز خیر کا اعلان آج کی شب ہے

ملک کے واسطے ہے عید “عینی ” آج کی رات

زمین کا بھی خوش انسان آج کی شب ہے

کورٹ کا فیصلہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔۔l

کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ حجاب کے خلاف آیا۔یہ خبر پڑھ کر افسوس ہوا کیونکہ یہ فیصلہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ مڈل کلاس کے خلاف بھی ہے۔اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ ایلایٹ فیمیلی کی مستورات نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتیں ،البتہ جو مستورات مڈل کلاس یا لوور کلاس سے وابسطہ ہیں وہ کالجوں میں برقع یا نقاب کا استعمال کرتی ہیں ۔ یہ ان کا پرسنل چوائس ہے۔انھیں علمائے کرام نے مجبور نہیں کیا کہ آپ لوگ نقاب / حجاب میں ہی رہو۔نقاب پہننا ان کا پرسنل ڈیسیزن/ فیصلہ ہے کیونکہ وہ موڈیسٹی / حیا پسند کرتی ہیں اور ان کے گھر میں ان کی تربیت بھی ایسی رہی ہوگی۔نقاب پہننا شریعت اسلامی میں لازم ہے کہ نہیں یہ ایک الگ مسءلہ ہے ۔کورٹ کا حجاب کے خلاف فیصلہ دینا انسان کی آزادی کے خلاف ہے، مستورات کے رائیٹس کے خلاف ہے ۔ہمیں کورٹ سے ایسے فیصلے کی قطعاً امید نہیں تھی۔ آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کیرلا کے ایک اسکول میں ایک عیسائی طالب علم مورننگ پرئیر کے وقت نیشنل اینتھم پڑھنے سے انکار کردیا اس وجہ سے کہ اس گیت کے پڑھنے کی اجازت اس کا مذہب نہیں دیتا۔یہ معاملہ کورٹ تک پہنچا اور کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ انڈین کانسٹیچیوشن کے مطابق سب کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے ، لہذا طالب علم کے لیے نیشنل اینتھم کا پڑھنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اس عمل کو ملک سے غداری سے تعبیر کیا جائےگا۔لیکن افسوس کہ آج کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف مذہبی آزادی کے خلاف رہا بلکہ انسانی آزادی کے بھی خلاف ہوا۔لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے‌۔ایوری کلاؤڈ ہیز اے سلور لاءننگ ٹھو۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر مہاراشٹرا کے ہائی کورٹ نے حجاب کی حمایت میں فیصلہ صادر کیا۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر اقوام متحدہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہر سال مارچ ١٥ کو عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا۔اسلامو پھوبیا کسے‌ کہتے ہیں ؟ عوام کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کا خوف پیوست کرنا اسلامو پھوبیا ہے۔سماج میں یہ احساس دلانا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اسلامو پھوبیا ہے۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے اسلامو پھوبیا ہے۔جارج برنارڈ شا نے کبھی کہا تھا کہ اسلام از دی بیسٹ ریلیزین اینڈ مسلمز آر دی ورسٹ کامیونیٹی۔اس قسم کے کئی کوٹس غیر مسلم دانشوروں کی جانب سے تاریخ میں رقم ہیں ۔ان کوٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمو پھوبیا پہلے بھی تھا ، لیکن اسلامو پھوبیا نہیں تھا ۔مذہب اسلام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔اسلامو پھوبیا ایک نئی اصطلاح ہے۔غالبا” سن ٢٠٠٠ ء سے اس لفظ کا استعمال ہورہا ہے اور اسلام کے خلاف ، اسلام کے قوانین کے خلاف سازشیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں میڈیا نے اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے اس لفظ کی خوب تشہیر کی۔ انڈین جرنلسٹ برکھا دت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بھی اسلامو پھوبیا کی شکار ہے اور ڈرتی ہے کہ شاید اس کے پڑوسی فلیٹ میں رہتا ہوا مسلم شخص بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دہشت گرد بن گیا ہو ۔اسلامو پھوبیا کے خلاف اس سے پہلے بھی آوازیں اٹھی ہیں ۔ ٢٦ ستمبر ٢٠١٨ میں بروسیلس کے پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پاس ہوا تھا جس کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی تھی کہ پورے یوروپ میں اسلامو پھوبیا کے خلاف ایک مہم چلائی جاۓ اور لوگوں کو سمجھایا جاۓ کہ اسلام ایک پر امن مذہب کا نام ہے،اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردی نہیں سکھاتا ۔لیکن بروسیلس کا یہ قرار داد یوروپ کے لیے تھا ، اس‌کا دائرء عمل یوروپی ممالک تک محدود تھا ۔پورے کرہء ارض کے لیے اس قسم کی تحریک کبھی چلائی نہیں گئی تھی ۔پہلی بار ایسا ہوا جیسا کہ اقوام متحدہ نے ١٦ مارچ ٢٠٢٢ میں یہ فیصلہ لیا کہ ہر سال ١٥ مارچ ٢٠٢٢ عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا تاکہ عوام کا نظریہ اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے تعلق سے صاف ہوجائے اور عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ شانتی کے پرتیک ہیں ۔ہم اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کے ساتھ کرتے ہیں :جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیںاِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔

اعمال شب برات ،ان میں ہے امت محمدیہ کے لیے پروانہ نجات–مفتی قاضی فضل رسول مصباحی دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم بر گدھی مہراج گنج یوپی۔ورکن مرکزی اصلاحی رویت ہلال کمیٹی دفتر سالماری کٹیہار ، بہار

۔ اسلامی کیلنڈر کے اعتبار سے شعبان المعظم سال کا آٹھواں مہینہ ہے اور پندرہویں شعبان کی رات مخصوص فضیلت و اہمیت کی حامل ہے ۔ کیوں کہ رب کریم کا فرمان عالی شان ہے “وذکرھم بایام اللہ” اور انہیں اللہ کے دن یا دلاؤ۔ اس آیت میں چند مخصوص دنوں کو اللہ نے یاد کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان مخصوص دنوں کے تعلق سے مفسرین صحابہ کرام حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنھم اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایام اللہ سے مراد وہ ایام و دن ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر انعامات و احسانات فرمایا ۔ یہ ظاہر و باہر ہے کہ شب قدر اور شب ولادت کی طرح شب برات بھی اللہ کے مخصوص ایام میں سے ایک خاص دن ہے ۔ اس کا مخصوص دنوں میں شمار ہونا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ” جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ کیوں کہ اس رات میں اللہ تعالی کی تجلی آفتاب غروب ہونے کے وقت سے آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے ۔ اور اللہ تعالی فرماتا ہے کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ اسے بخش دوں۔ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ اسے عطا کردوں ۔ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اسے چھٹکارادلاؤں ۔کیا کوئی ایسی ایسی حاجت والا ہے کہ میں حاجت کو پوری کردوں ۔ یہاں تک کہ صبح ہو لے ” اس ارشاد رسول سے اس امر کی تاکید مترشح ہوتی ہے کہ اس مبارک رات میں بندہ کثرت عبادت کے ذریعہ اپنے معبود کی رضا و خوشنودی حاصل کرکے قرب خداوندی کا حقدار بن جائے ۔ جو ایک صالح انسان کا منزل مقصود بھی ہے ۔ رب کریم کی رضا کے متلاشی کے لیے یہ رات ایسی پر مسرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے رحم و کرم کا دریا جوش پر ہوتا ہے ۔ اور بے شمار گناہ گاروں کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔حدیث پاک میں ہے ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گنہ گاروں کو بخشتا ہے ” سرکار علیہ السلام کے مذکورہ فرمان سے واضح ہوگیا کہ یہ رات ہم گنہ گاروں کے لیے عبادات نافلہ کرکے پروانہ نجات حاصل کرنے کی رات ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ” بے شک اللہ تعالی اس رات تمام مسلمانوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ اسی حدیث میں آقانے فرمایا کہ اور کچھ لوگوں کو یہ نجات کا پروانہ نہیں ملتا وہ یہ ہیں ” کاہن ، جادو گر ، ہمیشہ کا شرابی ، ماں باپ کا نافرمان اور زنا کے خوگر یعنی زنا جن کی عادت بن گئی ہو ” ۔ اعمال شب برات کے فائدے بہت ہیں ان میں سے چند یہ ہیں نماز: اس رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی نماز پڑھی اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی اے علی جس نے پندرہویں شعبان کی شب میں سو رکعت نمازپڑھی اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد گیارہ گیارہ بار قل اللہ پڑھی ، کاتبین کو حکم ہوگا میرے اس بندے کے گناہ مت لکھو اور اس کے حسنات آئندہ سال تک برابر لکھتے رہو ۔ جو کوئی یہ نماز پڑھے تو اللہ تعالی اس کے لیے اس رات کے عابدوں میں حصہ مقرر کردیتا ہے ۔صالحین امت سے یہ طریقہ بھی معروف ہے کہ شب برات میں دورکعت نماز اس طرح پڑھنی چاہئے کہ ہر رکعت سورئہ فاتحہ کے بعد آیتہ الکرسی ایک مرتبہ سورئہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں تو خالق کائنات اس کو دوزخ سے آزاد کردے گا اور بہشت میں بہترین محل عطا فرمائےگا علمائے کرام ایک طریقہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شخص شب برات میں چار رکعت نفل نماز اس طرح پڑھے کہ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کے پچاس برس کے گناہ معاف فرما دے گا۔نماز شب برات کی فضیلت ”نزھة المجالس“میں بایں مفہوم موجودہے ،ایک مرتبہ سیدنا عیسی علیہ الصلوة والسلام ایک پہاڑ کی سیر میں مصروف تھے کہ آپ کو اس جگہ ایک خوب صورت اور صاف وشفاف چٹان نظر آئ ۔جس کی خوب صورتی آپ کو اتنی پسند آئ کہ آپ اس کو بغور دیکھنے لگے۔خالق کائنات نے دریافت فرمایا،اے عیسی! کیا یہ چٹان بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، عرض کیا ۔ہاں۔ ارشاد ربانی ہواکہ تم اس کے اندر کی چیز کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو،عرض کیا ضرور،رب کائنات کے حکم سے وہ چٹان بیچ میں پھٹ گئ، حضرت عیسی علیہ السلام نے دیکھاکہ چٹان کے اندر ایک نورانی شخص نماز پڑھ رہاے۔اس کےقریب ہی پانی کا چشمہ بہہ رہا ہےاور ایک طرف انگور کی بیل بھی ہے جس میں انگور کے ترو تازہ خوشے لگے ہیں،جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا ،تو آپ نے اس کو سلام کیااور مصافحہ فرمایا۔حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تم کون ہو؟اور کب سے ہو اور کیا کرتے ہو؟ اس شخص نے جواب دیامیں حضرت موسی علیہ الصلوة والسلام کی امت کاایک شخص ہوں ،میں نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ مجھے عبادت کرنے کےلۓسب سےالگ جگہ عنایت فرما۔چنانچہ اس نے مجھے یہ تنہائ کی جگہ عطا فرمائ ۔یہاں میں چارسو سال سےعبادت میں مصروف ہوں،پیاس لگتی ہےتواس چشمہ سے پانی پی لیتاہوں۔اور بھوک محسوس ہوتی ہے تو اس بیل سے انگور توڑ کر کھا لیتا ہوں۔ حضرت عسی علیہ السلام بہت مسرور و شاداں ہوۓ اور عرض کیا ،یا اللہ اس سے بڑھ کر کون عبادت گذار ہوگااور اس سے زیادہ ثواب کس نے جمع کیا ہوگا۔ ارشاد باری ہوا ،اے عیسی!” من صلی لیلة النصف من شعبان من امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فھو افضل من عبادة اربع ماءة سنة“ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سےجو شخص شعبان کی پندرہویں شب کو دورکعت نماز پڑھےگا وہ چار سو سال کی عبادت سے زیادہ ثواب پاۓ گا۔اللہ تعالی اس طرز کی کسی بھی نماز کی ادائے گی سے ہماری جبینوں کو آشنا فرمادے ، اس رات اور اس شب کی عبادت کےطفیل ہمارے ملک کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا دے اور اسلامیات پر عمل پیرا رہنے کے مواقع عطا فرما آمین

شب برات۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

میرے خدا کی خوب ہے نعمت شب برات

دیتی ہے سب کو راہ ہدایت شب برات

کرتے رہو عبادت رب اجتماعی بھی

مومن کو دے رہی ہے یہ دعوت شب برات

تشریف لے گئے تھے نبی جنت البقیع

ہم کو دکھاتی ہے رہ سنت شب برات

اے میرے بندے مانگ تو کیا مانگتا ہے آج

کہتا ہے رب بطور عنایت شب برات

بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سے

تم پر کرے گی ہر گھڑی نصرت شب برات

تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ

رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برات

یارب بنادے زندگی تابندہ “عینی” کی

نوری ہے تیری شب مہ نکہت شب برات

شب برأت°°°°°°از فریدی صدیقی مصباحی باره بنکوی مسقط عمان0096899633908

(1) بندےکی التجائیں

یارب ترے کرم کی دُہائی شبِ برات
بَھر دے مرا بھی دستِ گدائی شبِ برات

سوکھا ہوا ہے باغِ عمل اے مرے کریم
اس کو ملے بَہارِ عطائی شبِ برات

مجھ کو بھی اپنی چادرِ رحمت میں ڈهانپ لے
کتنوں کی لاج تو نے بچائی شب برات

شرمندہ ہوں گناہوں کی آلودگی سے میں
عِصیاں کی ہو جگر سے صفائ ، شب برات

ہموار ہوں مرے لیے نیکی کے راستے
پَٹ جائے ہر گناه کی “کھائی” شب برات

ٹوٹا ہے بارِ غم سے مرا پیکرِ وجود
یارب تو کردے رنج کُشائی شب برات

سارے فریب ، نفس پرستی کے دور ہوں
دل سے دُهلے ، ہر ایک بُرائی شب برات

ہوں سارے خوش عقیده مسلمان متّحد
مل جائے ہر ” اِکائی دَہائی ” شب برات

تو اپنی رحمتوں سے ، بنادے اِنھیں گُہر
ہم نے جو بزمِ اشک سجائی شب برات

تیرے کرم سے پایا ہے نیکوں نے جو مقام
اُس درپہ ہو مری بھی رَسائی شب برات
°°°°°°°°
(2) رب کی عطائیں

فرمایا رب نے ، اے مرے بندے بغور سُن !
مقبول ہوگی، عرض نوائی شب برات

اپنی خطا پہ نادم و شرمنده ہو کے آ
تائب کو نار سے ہے رِہائی شب برات

ظاہر کو تو نے خوب سجایا سنوارا ہے
باطن کی کر رَنگائ پُتائ ، شب برات

جو سچّی توبہ کرتے ہیں، اُن سب کے واسطے
پیغام مغفرت کا ہے لائی شب برات

سب سے “کَہے سُنے” کی معافی طلب کریں
غصہ رہے نہ بھائی سے بھائی شب برات

ہستی کے آئینے میں کرم جگمگائے گا
زخمِ گناه کی ہے دوائی شب برات

ہوں گے نصیب ، اس کو اُجالے بہشت کے
جس نے بھی شمعِ توبہ جلائی شب برات

دنیا بھلے ہی دے کہ نہ دے اُن کو اہمیت
ہے بھاؤ خاکساروں کا “ہائی” شب برات

رو رو کے ، گِڑگڑا کے جو مجھ کو مناتے ہیں
پاتے ہیں خلد کی وه بَدهائی شب برات

تو بھی فریدی ! اپنی جبینِ نیاز رکھ
کر نیکیوں کی خوب کمائی شب برات

رنگائ پُتائ ، رنگنا، کَلَرکرنا

شعبان اور شب برات۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ایک مَثَل مشہور ہے

تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برأت۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو دعاؤں سے نوازتا ہے تو یہ کہتا ہے:تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برات، عید سے مراد عید الفطر یعنی شوال کی پہلی تاریخ ہے اور شب برآت سے مراد پندرہویں شعبان المعظم کی رات۔ شوال کی پہلی تاریخ عید کے طور پر اس لیے منائی جاتی ہے کہ مسلمان رمضان کے تیس روزے مکمل کرتا ہے اور تکمیل روزہ کی خوشی میں وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور مسرت سے سرشار ہوکر شوال کی پہلی تاریخ کو وہ عید مناتا ہے۔

تو پھر شب برات کس خوشی میں منائی جاتی ہے ؟ ہر رات شب برات جیسی ہو ، یہ دعا کیوں دی جاتی ہے؟ آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاریخ اپنی قوم اور دیگر اقوام میں کیوں اہمیت رکھتی ہے۔پندرہ شعبان کو فارس کے لوگ خوشیاں مناتے آئے ہیں اور اسے وہ جشن مھر کا نام دیتے ہیں اور اس جشن میں وہ اپنے یزتھا مترا کی تعظیم بجالاتے ہیں ۔اہل تشیع پندرہویں شعبان میں خوشیاں اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق پندرہ شعبان ٢٥٦ ہجری کو بارھویں امام محمد بن الحسن المھدی پیدا ہوئے تھے۔اور ہر گھر میں اس رات امام محمد الحسن المھدی کے نام فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔یہ منظر ہم نے دبئی میں دیکھا تھا کیونکہ ہمارے کچھ کسٹومرز اہل تشیع تھے جو اپنے گھروں میں بہت دھوم دھام سے یوم ولادت امام محمد الحسن المھدی کے طور پر پندرھویں شعبان کی خوشیاں مناتے تھے۔لیکن ہم اہل سنت کے لیے کون سی خوشی کی بات ہے کہ ہم اس قدر اہتمام سے شب برات مناتے ہیں۔ غسل کرتے ہیں ۔خوشبو لگاتے ہیں، نئے کپڑے/ صاف ستھرے پہنتے ہیں، ، رات میں مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اور رات بھر مسجدوں میں خدا کی عبادات کرتے ہیں ۔ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ہم زندگی ایسی گزاریں کہ آخرت میں خدا و رسول کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ نہ ہوں ۔اگر مسلمان شریعت مطہرہ کے بتائےہوئے ہوئے طریقوں پر چلے تو اس کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی۔لیکن مسلمان آخر ایک انسان ہی تو ہے ، ایک بشر ہی تو ہے۔انسان کے اندر جہاں نفس مطمئنہ و نفس لوامہ ہیں وہیں نفس امارہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غلطیاں کر بیٹھتا ہے ۔ان غلطیوں کی مغفرت کیسے ہو؟ ان غلطیوں کی معافی کی راہ ہموار کیسے ہو ؟ کیا کوئی راستہ ہے جس سے انسان کی غلطیاں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے سے پہلے معاف ہوجائیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔خدا غفور الرحیم ہے، خدا کریم ہے،خدا غفار ہے ، خدا رحمان ہے۔خدا قادر مطلق ہے ۔ وہ جب چاہے ہماری توبہ قبول فرمالے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اللہ کا ہم پر بے پایاں احسان ہے کہ رب کریم نے کچھ خاص راتیں مقرر کی ہیں جن میں خصوصی رحمت باری کا نزول ہوتا ہے ۔ان راتوں میں اگر مسلمان اخلاص کے ساتھ توبہ و استغفار کرے تو خدا مسلمان پر خصوصی کرم فرماتے ہوئے معاف فرمادیتا ہے۔ انھی راتوں میں سے ایک رات ہے جس کا نام ہے شب برات یعنی پندرہویں شعبان کی رات۔ چونکہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں اور گناہ کی معافی ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ باعث مسرت و شادمانی ، وجہ کیف و سرور ہوتی ہے ، اس لیے مسلمان اس رات کو خوشیاں مناتا ہے کہ شب برات گناہ بخشوانے کی رات ہے ، شب برات مغفرت کی رات ہے ،شب برات رحمتوں کے نزول ہونے کی رات ہے ۔شب برات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے کے بارے میں رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان میرا مہینہ ہے۔جس مہینے کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا مہینہ کہیں اس مہینے کی عظمت کا کیا کہنا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کو اپنا مہینہ کیوں فرمایا؟ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے :١.شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اختیار شفاعت عطا فرمایا ۔٢.شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دلی خواہش کی تکمیل رب کریم نے فرمائی یعنی تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کے عوض کعبہء معظمہ بن گیا ۔ ٣.شعبان میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔شب برات وہ رات ہے جس کو فرشتوں کے لیے عید سے تعبیر کیا گیا ۔شب برآت اسلامی تاریخ کی اہم ترین رات ہے۔شب برأت جود و عطا کی رات ہے شب برأت اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی تھیشب برات وہ رات ہے جس رات کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔ شب برات برکتوں والی رات ہے شب برات دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات ہے شب برات دستاویز والی رات ہے شب برأت اللہ تعالیٰ کی رحمت ‌خاصہ کے نزول کی رات ہے شب برأت وہ رات ہے جس کا نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا کیونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں شب برات وہ رات ہے جس رات میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔شب برأت وہ رات ہے جس میں دعا رد نہیں ہوتی بلکہ قبول ہوتی ہے ۔شب برأت تقدیس والی رات ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برآتجس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح ماہ شعبان تمام مہینوں سے افضل ہے ۔لہذا ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ماہ شعبان میں خصوصاً پندرہویں شعبان میں روزے رکھیں اور پندرہویں شعبان کی رات میں رب کی عبادت کریں ، نبی پر درود بھیجنے کا اہتمام کریں اور خوب توبہ و استغفار کریں ۔ابو نصر نے اپنے والد سے نقل کی ہے جو انھوں نے بالاسناد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے والے اور بدکار عورت کے سوا تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے۔لہذا اگر ہمیں شب ‌برات کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی بخشش کا سامان کریں ۔الحمد لللہ ہم مسلمان ہیں ، شرک نہیں کرتے ۔آپس میں اگر دل کے اندر بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں تو بغض و کینہ کو دل سے نکال دیں ، رشتہ داروں سے اگر قطع تعلق ہے تو رشتہ داری کو استوار/ بحال کریں ، اگر کوئی شخص رشتہ داری کو استوار/ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے نہ روکیں ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔حقوق العباد کا خیال رکھیں ، کسی کا دل نہ توڑیں ، کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں ، کسی کی زمین کو ناجائز طور پر ہڑپنے کی کوشش نہ کریں ، دل کو صاف و شفاف رکھیں اور دل سے حسد،بغض ، کینہ ، عناد کے کیڑے مکوڑوں کو نکال کر باہر پھینک دیں ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سےتم پر کرےگی ہر گھڑی نصرت شب برآت شب برأت میں مسجد کو آباد کریں ، قرآن کی تلاوت کریں ، درود کا ورد کریں ۔نفل نمازوں کا اہتمام کریں ، لیکن یہ نہ بھولیں کہ آپ کو عشاء اور فجر کی نمازیں جو فرض ہیں انھیں بھی ادا کرنی ہیں اور باجماعت ادا کرنی ہیں ۔ایسا ہر گز نہ کریں کہ رات بھر نفل پڑھیں اور فجر کی نماز کے وقت سوجائیں۔مستحبات کو فرض پر ترجیح نہ دیں ۔پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا ہر حال میں ضروری ہے ۔سفر ہو کہ حضر، گھر ہو کہ باہر ، حالت امن ہو یا حالت مصیبت، ہر حال میں ایک مسلمان کو پنج وقتہ نمازوں کا قائم کرنا ضروری ہے۔صحابہء کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں، صحابہء کرام کے دور کو یاد کریں ۔صحابہء کرام دوران جنگ بھی فرض نمازوں کا اہتمام کرتے تھے ۔قرآن کا مطالعہ کریں ۔قرآن میں ہے :اور اے محبوب جب تم ان میں تشریف فرماہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہیے کہ تم میں ایک جماعت تمھارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمہارے مقتدی ہوں اور چاہیے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہوجاؤ تو ایک دفعہ تم پر جھک پڑیں اور تم پر مضائقہ نہیں مینھ کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی پناہ لیے رہو بیشک اللہ نے کافروں کے لئے خواری کا عذاب تیار کر رکھا ہے پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے پھر جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر حسب دستور نماز قائم کرو بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ مندرجہ بالا ترجمہء آیت قرآن میں نماز خوف کا بیان ہے۔جہاد میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے مع تمام اصحاب کے نماز ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انھیں افسوس ہوا انھوں نے اس وقت کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا جب بعضوں نے ان سے کہا اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نماز عصر جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری طاقت سے حملہ کرکے انھیں قتل کردو اس وقت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور انھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ یہ نماز خوف ہے اور اللہ عز و جل فرماتا ہے واذا کنت فیھم ۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ایک ان میں سے آپ کے ساتھ رہے آپ انھیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں قائم رہے ۔نماز خوف کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ پہلی جماعت امام کے ساتھ ایک رکعت پوری کرکے دشمن کے مقابل جائے اور دوسری جماعت جو دشمن کے مقابل کھڑی تھی وہ آکر امام کے ساتھ دوسرے رکعت پڑھے فقط امام سلام پھیرے اور پہلی جماعت آکر دوسری رکعت بغیر قرآت کے پڑھے اور سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابل چلی جائے پھر دوسری جماعت اپنی جگہ آکر ایک رکعت جو باقی رہی تھی اس کو قرآت کے ساتھ پورا کرکے سلام پھیرے ۔حالت خوف میں دشمن کے مقابل اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کس قدر ضروری ہے ۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان شب معراج یا شب برآت کا روزہ رکھے اور رمضان کے فرض روزے ترک کردے؟ اگر ایسا کوئی کرے تو کیا وہ گنہگار نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی شب معراج یا شب برآت میں نفل نمازیں ادا کرے مگر عشاء اور فجر کی نماز چھوڑ دے یا فرض نمازیں جماعت سے نہ پڑھے تو وہ بھی گنہگار ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،ماہ شعبان و شب برآت کی قدر کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ، شب برآت میں عبادت کے لیے قیام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شعبان کے پندرہویں دن میں روزہ رکھنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

तंज़ीम फारग़ीन -ए- अमजदिया ने की हिजाब फैसले की निंदा__ रिपोर्ट _आसिफ जमील अमजदी

__तंज़ीम फारग़ीन-ए- अमजदिया 2010 के उलेमा ने हिजाब मामले में कर्नाटक उच्च न्यायालय के फैसले पर प्रतिक्रिया व्यक्त की और निर्णय को खेदजनक बताया कि यह पूरी तरह से इस्लाम के खिलाफ है और यह इस्लामी शिक्षाओं और शरयी नियमों में हस्तक्षेप है जो हमें स्वीकार्य नहीं है . ऐसे में हमें कानूनी विशेषज्ञों और बड़ों के प्रयासों का इंतजार है जो इस मामले में कोर्ट का दरवाजा जरूर खटखटाएंगे. क्योंकि अगर ऐसा नहीं किया गया और फैसले पर खामोश रहे तो इसके कई नकारात्मक प्रभाव पड़ सकते हैं, खासकर मुस्लिम लड़कियों की शिक्षा पर. फैसला सुनाने से पहले सरकार को यह विचार करना चाहिए कि सभी धर्मों के छात्रों के लिए शिक्षण संस्थानों में उनके धार्मिक प्रतीकों के साथ अध्ययन करने की प्रथा रही है, लेकिन हमेशा की तरह, मुसलमानों को अभी भी निशाना बनाया जा रहा है। इस संगठन के एक युवा सक्रिय धार्मिक विद्वान हज़रत मौलाना आसिफ जमील अमजदी गोंडवी ने अपने बयान में कहा कि निर्णय आने की देरी थी सो हमने कर्नाटक उच्च न्यायालय को भी देखा लिया। मुस्लिम छात्र-छात्राएं नाराज न हों। धैर्य रखें, अपनी परीक्षा ऑनलाइन लें यदि संभव हो तो ,यह बहुत महत्वपूर्ण है। अदालत के इस फैसले के आधार पर बदमाशों के लिए समाज में अशांति फैलाना संभव है, इसलिए मुस्लिम छात्राओं को बहुत समझदारी से काम लेने की जरूरत है, ऐसे में कभी भी भावुक न हों.

حجاب فیصلہ پر تنظیم فارغین امجدیہ کا اظہار مذمت_ رپورٹ :- آصف جمیل امجدی

حجاب معاملہ میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تنظیم فارغین امجدیہ 2010؁ء کے علماۓ کرام نے رد عمل ظاہر کیا اور اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے علماء نے اپنا ایک بیان رلیز کیا کہ عدالت کا یہ فیصلہ دستور ہند کے دفعہ 15/ کے سراسر خلاف ہے اور یہ اسلامی تعلیمات نیز شرعی احکام میں مداخلت ہے جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں انتظار ہے ماہرین قانون اور عمائدین کی کوششوں کا کہ وہ اس معاملہ میں ضرور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا بل فیصلہ پر چپی سادھے رہے تو اس کے کئی منفی اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں بالخصوص مسلم بچیوں کی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔ فیصلہ سے قبل حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کا یہ رواج رہا ہے کہ بلاتفریق مذہب کے طلبہ و طالبات ادارے میں اپنی مذہبی علامتوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی مسلمانوں کو نشان زد پر لیا گیا۔تنظیم ھذا کے متحرک فعال نوجوان عالم دین حضرت مولانا آصف جمیل امجدی گونڈوی نے اپنے بیان میں کہا کہ فیصلہ آنے کی دیری تھی سو وہ بھی ہم نے کرناٹک کے ہائی کورٹ کو دیکھ لیا، لہذا اس سے مسلم طلبہ و طالبات مشتعل نہ ہوں بل کہ صبر سے کام لیں، آن لائن ممکن ہو سکے تو اپنا امتحان دیں یہ بہت ضروری ہے۔ کورٹ کے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر ممکن ہے کہ شر پسند کی طرف سے سماج میں بدامنی پھیلائی جاۓ ، لہذا مسلم طالبات کو ایسی صورت میں بہت ہی دانشمندی اور مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہے، جذباتی ہرگز نہ بنیں۔

کشمیر فائلس: مسلم نسل کشی کی بھیانک تیاری…..مشتاق نوری ۱۶؍مارچ ۲۰۲۲ء

. 😢😢😢

کل ایک پرنٹ اخبار سو توپ کے برابر تھا۔آج ایک الیکٹرانک میڈیا ہاوس ہزار توپ کے برابر ہے۔اور جب میڈیا فرقہ واریت کا قائل ہو تب تو یہ توپ سے آگے نکل کر کسی جان لیوا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔تب انصاف و رواداری تیل بیچنے نکل جاتا ہے۔وہاں صرف طاقتور خیمے کا متعصبانہ ایجنڈہ ہی حق ہوتا ہے۔تب کورٹ قانون سب لولہے لنگڑے بنے رہنے میں بھلائی خیال کرتا ہے۔باقی کمزور طبقے کا دکھ درد سب ڈھکوسلا یا ڈھونگ کہلاتا ہے۔یہ کام میڈیا کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔یہ میڈیا بھی نا بڑا پاور فل ہوتا ہے راتوں رات ہیرو کو ویلن، ظالم کو مظلوم اور فرقہ پرست کو روادار بنا دیتا ہے۔کچھ یہی حال اہل کشمیر کا ہوا۔جو اب تک مظلوم ہیں جن کی آواز تک دبا دی گئی ہے۔جن پر طویل عرصے تک لاک ڈاؤن مسلط رکھا گیا۔ایک فلم کے ذریعے انہیں دنیا کے سامنے دہشت گرد،ظالم، کٹر پنتھ، علیحدگی پسند بنا کر پیش کر دیا گیا۔سب جرم میری ذات سے منسوب ہے محسن کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارےکشمیر فائلس کو ایک ایک فرد تک پہنچانے کے لیے اس وقت ملک کا ہر ہندو خود میں میڈیا ہاؤس بنا ہوا ہے۔بہار کے ایک یوٹیوبر نے اپنے خرچے سے ۲۵ سو لوگوں کو فلم دکھانے کا اعلان کیا ہے اور ٹکٹیں بک کروا چکا ہے۔اس فلم کو واشنگٹن ڈی سی میں دکھایا گیا۔کئی دوسرے ملکوں میں دکھاۓ جانے کے قواعد چل رہے ہیں۔انوپم کھیر ویڈیو جاری کر کے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو راشٹر بھکت ہوگا جو اصلی ہندو ہوگا وہ ضرور اس فلم کو دیکھے گا۔ایسے میں کون ظالم اپنی راشٹر بھکتی یا ہندوتو کو خطرے میں ڈالے گا۔مسلم سماج کے خیر خواہ اب تک صرف اسی غم میں مبتلا رہے کہ ہندووں نے کئی سینائیں، کئی طرح کے تشدد آمادہ دل بنا لیے ہیں۔کرنی سینا، رام سینا،شیو سینا، بجرنگ دل، ہندو رکشا دل، وغیرہ ملک میں اس طرح کے قریب قریب چھوٹے بڑے ۳۰ ہزار گروپ کام پر لگے ہیں جن کا اصل مقصد ہی ہے دنگا بھڑکانا، اقلیتی طبقے کو نشانہ بنانا۔ہر ایک کا لنک بجرنگ دل سے ملتا ہے اور بجرنگ دل آر ایس ایس کا ٹرینڈ لڑاکو دستہ ہے جس میں ہر شعبے کے لوگ جڑے ہوۓ ہیں۔ہم یہ بھول ہی گئے کہ یہ ۲۱ ویں صدی ہے اب گولی، بارود و بم سے جنگ نہیں لڑی جائے گی اس برقی دور میں ڈیجیٹل وار سے اپنے دشمنوں کو گھات لگا کر مات دیا جاۓ گا۔یہ کشمیر فائلس تو آج آئی ہے۔ورنہ بالی ووڈ میں ہزاروں ایسی فلمیں بن چکی ہیں جس میں ہمیں ہر بار اتنکوادی اور ظالم دکھایا گیا ہے۔جس فلم میں بھی اس طرح کا کردار پلے کیا جاتا ہے اسے ڈراونا بنانے، مسلم سماج کے تئیں نفرت برپا کرنے کے لیے ویلن کو کرتا پاجامہ پہنا کر اس کے کندھوں پر سلیقے سے عربی رومال بھی ڈال دیا جاتا ہے۔یہیں تک نہیں رکتے بلکہ جب بھی کسی اتنکوادی کردار کو دکھانا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح بھی تھما دی جاتی ہے۔وہ اللہ اکبر اللہ اکبر بھی کہتا رہتا ہے۔یہ حال صرف بالی ووڈ کا نہیں بلکہ جنوبی ہند کے مختلف صوبوں میں بنی فلموں سے لے کر بھوجپوری فلموں تک یہی کچھ دکھایا جاتا رہا ہے۔آج سے لگ بھگ دس ماہ قبل فیسبک چلاتے ہوئے نرہوا کی کسی فلم کی ۹ منٹ کی ایک ویڈیو کلپ سامنے چلنے لگی۔اس میں ویلن کرتا پا جامہ، کندھے پر عربی رومال اور ہاتھ میں تسبیح لے کر ایک ہندو فیملی کے گھر پر دھاوا بول دیتا ہے۔ویلن کا چھوٹا بھائی یہ کہتے ہوۓ ہندو لڑکی کا بلاتکار کر دیتا ہے چل تجھے جنت بھیج دیتا ہوں۔قسم خدا کی میں نے اسی وقت اس کلپ کے کمینٹس چیک کیے تو دماغ کو زور کا جھٹکا لگا کہ اس میں سارے کمینٹ کرنے والے کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو مسلم عورتوں کو بھدی بھدی گالیاں دے چکے تھے۔دس منٹ کے ویڈیو کلپ کے ویوز اس وقت 4.5 ملین تھا یعنی صرف فیسبک کے اس پیج پر اس ویڈیو کو تقریبا ۴۵ لاکھ لوگ دیکھ کر مسلمانوں کے تئیں اپنے دل میں نفرت کی آگ مزید بھڑکا چکے تھے۔غالبا ۲۰۰۳ میں طالبان نام کی ایک فلم آئی تھی جس میں طالبانیوں کو صرف دہشت گرد نہیں دکھایا گیا ہے بلکہ انہیں عورت کا دشمن، جاہل، گنوار اور عیاش دکھایا گیا ہے۔اس فلم کو دیکھ کر کوئی بھی ہندو طالبان سے شدید نفرت کرے گایہ صرف ایک مووی کی بات نہیں ہے۔ایسی ہزاروں موویز آ چکی ہیں جس میں دین و شریعت کی کھِلی اڑائی گئی ہے۔دین کو دہشت گردی کا اڈہ دکھایا گیا ہے۔مسلم سماج کو سیدھے ظالم و جابر دکھایا گیا ہے۔اکثر فلموں میں چکلہ یعنی رنڈی خانہ چلانے والا کسی مسلم کو دکھایا جاتا ہے۔اس سے سماج پر کتنا برا اثر پڑا ہے ہم تو سیریس لیتے ہی نہیں۔فلمی دنیا نے ہمیں چکلہ چلانے والا باور کرا دیا کہ سارے قحبہ خانے ہم ہی چلاتے ہیں۔اور ہمارے نوجوان دیکھ کر خوش ہیں۔کشمیر فائلس آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا اہم ستون ہے۔آپ محسوس کر رہے ہیں؟ آج سارا میڈیا دن رات کشمیر فائلس پر ہی پروگرام کر رہا ہے۔مطلب وہ اپنے ٹارگٹ کی طرف تیزی بڑھ رہے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے جو کام میڈیا یا آر ایس ایس کے ہرکارے نہیں کر پاۓ تھے کشمیر فائلس نے ایک رات میں سب کر دیا۔سارے ہندو جذباتی ہو کر فلم دیکھنے ہال تک جاتے ہیں اور روتے ہوۓ نکل رہے ہیں۔کوئی نکلتے ہی اپنا غصہ ظاہر کرنے لگتا ہے۔ابھی ایک ویڈیو دیکھا اس میں کشمیر فائلس دیکھنے کے بعد ایک آدمی سارے ہندو نوجوانوں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو کاٹنے کی اپیل کرتا ہے۔اور جذباتی ہو کر یہ بھی کہتا ہے کہ میں بیس کو کاٹوں گا۔کشمیر فائلس سے آر ایس ایس کا پلان بالکل کامیاب ہوتا دکھ رہا ہے۔۲۰۲۴ میں پھر مودی کی سرکار بن رہی ہے۔اس کا معنی مخالف، رام راج کا راستہ کلیئر ہونے کو ہے۔اس فلم سے آنے والے وقتوں میں ہندو مسلم کھائی مزید گہراتی چلی جاۓ گی۔ہندو لڑکے اور نفرتی بن جائیں گے۔ماب لنچنگ کی واردات بڑھ جاۓ گی۔ورنہ اس فلم کے اس قدر ہنگامہ خیز پروموشن کا مقصد ہی کیا ہے؟اس فلم کا منفی اثر جو کبھی مالی کبھی بدنی تو کبھی سماجی ضیاع کو بڑھاوا دے گا۔اقلیت کے خلاف تشدد و نفرت کو لوگ اپنا دھرم سدھ ادھیکار (مذہب کا دیا گیا حق) سمجھیں گے۔اس کی چپیٹ میں سب سے زیادہ کشمیر کے وہ طلبہ، وینڈرس،پھیری والے تجار ہوں گے جو ملک کے مختلف قریات و امصار میں رہ رہے ہیں۔ان کو زد و کوب ہی نہیں ان کا گلہ کاٹ کر لوگ کہیں گے کہ سنودھان کی رکشا کے لیے، لا اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کے لیے ان کی لنچنگ ضروری تھی۔کشمیری پنڈتوں جو کشمیر کی پتھریلی زمین پر کاشت کاری کرکے گزر بسر کر رہے تھے۔پہلے سے ہر فیملی کو دس ہزار روپے، مہینہ بھر کا راشن اور کم سے کم ایک آدمی کو نوکری دے دی گئی ہے اب انہیں مزید ہمدردیاں ملیں گی۔پیسے بھی برسیں گے۔دوسرا وہ طبقہ جس پر اس فلم کی نحوست پڑنے والی ہے۔وہ ہے کرتا پا جامہ والے مولوی برادری کے لوگ جو ملک کے ٗ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔یہ بات میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ اس فلم کی ایک سین میں دکھایا گیا ہے کہ پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے کے لیے مسجدوں کے منبروں سے امام لوگ اعلان کر رہے ہیں۔فلم میکر یہیں پر نہیں رکے، اس نے تو ہندو جذبات کو مزید بھڑکانے کے لیے یہ بھی بڑھا دیا ہے کہ ہر مسجد کا امام اعلان میں کہ رہا ہے کہ “سارے ہندو اپنی اپنی جوان لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جائیں یہ ہماری گزارش نہیں، حکم ہے”پوری فلم نہ بھی دکھائی جاۓ، صرف تیس سیکنڈ کی چھوٹی سی یہی کلپ دکھا دی جاۓ تب بھی اتنی آگ لگ جاۓ گی جتنی لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بدترین جملے سے کس کے جذبات نہیں بھڑکیں گے؟ کس کو طیش نہیں آۓ گا؟ کون ہوگا جو مسجد کے امام کا یہ اعلان سنے گا اور آج علما و طلبہ سے سخت ترین نفرت نہیں کرے گا؟آخر ظلم کا یہ تسلسل کہاں جا کر ٹوٹے گا؟اور خون کتنا بہے گا؟ساحر لدھیانوی کے لفظوں میںظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہےخون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گااگر مان بھی لیں کہ کشمیریوں نے پنڈتوں کی نسل کشی کی اور انہیں وہاں سے بھگا دیا تاہم یہ بات کبھی قابل قبول نہیں کہ مسجدوں سے یہ اعلان کیا گیا تھا “کہ اپنی اپنی لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جاو”۔ایک خراب سے خراب ترین مسلمان بھی یہ کام نہیں کرے گا۔مگر نفرت کے پجاریوں نے فلم میں وہ سارا مسالہ ڈال دیا ہے جس سے ہندو سماج برافروختہ ہو جاۓ۔طیش میں آکر بدلہ لینے کے لیے مسلم گھروں میں گھس کر خواتین کی آبرو سے کھیلے۔ہم آپ سوچتے رہیں گے مگر فلم جس کام کے لیے بنائی گئی تھی اس میں وہ ۱۱۰ فیصد کامیاب ہے۔آج مودی کا اپنا سارا بھاشن اسی فلم پر رہا ہے۔اس نے زور دے کر کہا کہ ایسی فلمیں بار بار بننی چاہیے۔انوپم کھیر کی لوٹری لگ گئی اب ہر ہندو اس فلم کو سنیماگھروں میں جاکر بڑے پردے پر دیکھ رہا ہے۔اس سے اس کی کمائی بھی ہوئی۔ہندوؤں کا ہیرو بھی بن گیا۔اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا خواب بھی پورا ہونے کو ہے۔جب کشمیر فائلس بن گئی تو اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے کہاوت ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ کشمیر فائلس کا مقابلہ گجرات فائلس، بھاگل پور فائلس،ہاشم پورا فائلس،میرٹھ فائلس بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔اس فلم کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ستم کہیے کہ مسلم سماج کسی طرح کی بھی فائلس بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔جب یہ کرناٹکا میں حجاب معاملے میں مات کھا گیا تو اتنے بڑے معاملے کو ہینڈل کرنا اس کے بس میں نہیں۔جانے کب سے سارے اسکولس کالجوں میں سرسوتی پوجا کا آیوجن کیا جاتا رہا ہے۔اگر اس گرم توے پر روٹی سیکنی ہو تو ملک بھر کے تھانوں کچہریوں میں اس پوجا کے خلاف پی آئی ایل داخل کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے کیا نہیں۔کشمیر فائلس کے کتنے پنے کھلے، کتنے جان بوجھ کر چھپاۓ گئے۔کتنے پنے سے نظریں چرائی گئیں اس کا فیصلہ تو اب ملک کی عدالت میں بھی نہیں ہو سکتا۔اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

حجاب،اسلام کا لازمی حصہ نہیں- ہائی کورٹ:-📝حسن نوری گونڈوی

اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن فقیر میں آئے ہیں کوئی بھائی اس کا جواب تلاش کریں

1) کیا جو اسلام کا لازمی حصہ ہوگا اسے کورٹ اسکول و کالج میں کرنے دے گی؟

2) کیا ہندو، جین، بودھ، سکھ وغیرہ کے مذہبی معاملات کو یہی کہہ کر اسکول و کالج و یونیورسٹی سے خارج کیا جائے گا؟

3) کیا جو اسلام کا لازمی حصہ نہیں اسے اپنی مرضی سے کرنے پر روک لگایا جائے گا؟

4) کیا ہندوستان میں بسنے والے تمام دھرم کے لوگ اب وہی کر سکتے ہیں جو دھرم کا لازمی حصہ ہو؟

5) یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں کام یا فلاں عمل دھرم کا لازمی حصہ نہیں؟؟

6) کیا دھارمک پستکوں اور مذہبی اسکالر کے علاوہ کوئی اور شخص کسی دھرم کے بابت یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں کام دھرم کا لازمی حصہ ہے اور فلاں نہیں؟

7) جس کا کا حکم کوئی دھرم دے لیکن اس دھرم کے لوگ اس میں غفلت برتیں(یعنی کوئی کرے اور کوئی نہ کرے) کیا اسے دھرم کا لازمی حصہ نہیں مانا جائے گا؟؟

8) ہَوَن جو ہندو دھرم میں ایک عظیم عبادت ہے اسے اکثر ہندو نہیں کرتے کیا اسے دھرم سے نکالا جائے گا؟

9) اگر اسکول، کالج، یونیورسٹی میں اسلامی وضع قطع سے روک لگایا جا رہا ہے تو آخر، تلک لگانا، بھجن گانا، پراتھنا کرنا، مخصوص دھرم کی تعلیم دینا، پگڑی پہن کر آنا، جنیو اور چوٹی رکھ کر آنے پر کب روک لگایا جائے گا؟

10) “آئین ہند” میں جو یہ کہا گیا کہ ” رنگ و نسل، ذات پات کی تفریق نہ کی جائے گی

نوٹ: یہ سوالات کسی بھی دھرم کو ٹارگٹ کرنے کے لیے نہیں ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورٹ، دھرم گرو سے سوال کرتی دھارمک کتابوں پر گفتگو کرتی