WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ

مجدد الف ثانی اپنے اقوال وارشادات کے آئینے میں.. ازقلم : محمد علاؤالدین قادری رضوی..صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا ,میراروڈ ممبئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       تزکیہ نفس کے باب میں بزرگوں کے اقوال وارشادات کی اہمیت و افادیت سے قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا, اہل اللہ کے قول و ارشاد میں دینی و فلاحی دعوت وتبلیغ کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ان کی نظر ہمہ وقت لوح محفوظ پرہوتی ہے, ان کے اقوال وارشادات عین منشاء الہی کے مطابق ہوتے ہیں وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے ,انانیت, ونفس پرستی کی وہاں گزرنہیں ہوتی ,وہ خودی میں جیتے ہیں, بے خود ہوتے ہیں, کشف کے ذریعہ انہیں ہر اچھی اور بری باتوں کا علم ہوتا رہتا ہے, تجدید دین و ایمان کے امین یہی ہوتے ہیں, اخلاق کریمانہ سے, تو کبھی قلم وقرطاس سے ,تو کھبی شیریں اقوال وارشادات سے ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم وبربیت کا وافی شافی علاج فرماتے ہیں  اور کسی کا جانی ومالی نقصان بھی نہیں ہوتا ہے, بلکہ وہ شخصیت اپنے اس مدبرانہ, حکیمانہ اور منصفانہ عمل کی وجہ سے ایک صدی پر محیط ہوجاتی ہیں ,انہیں اشخاص میں ایک نام,, حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ ,, کا بھی آتا ہے ۔آپ نے اپنے اقوال و ارشادات,قلم وقرطاس سے اکبری دین اور اس کی تخت وتاج کا بیڑا ہمیشہ کے لئے غرق کردیا ۔ اور دین اسلام میں مجتہد و مجدد کا یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری رہے گا ,جب بھی دین میں کسی طرح کی غیرشرعی باتیں داخل کی جائیں گی تو ان کی سدباب کے لئے اللہ عزوجل ایک مجدد بھیجتا ہے جو اپنی تجدیدی صلاحیتوں سے باطل کا قلع قمع کردیتا ہے اور دین اسلام کو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک وصاف کرکے وہی امتیازی شان وشوکت بخشتاہے,اور امت فرامین الہی کا پھر سے پابند ہوجاتی ہے ,یہی وہ مقدس شخصیتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ عزوجل کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فریا ہے کہ,, میری یہ امت کبھی گمراہی پر متفق نہ ہوگی,, اور آپ کا یہ ارشاد کہ,, اللہ تعالی اس امت کے لئے ہرصدی کے شروع میں ایسے بندے پیدا کرتا رہے گا جو اس کے لئے اس کے دین کو تازہ کرتے اور نکھارتے رہیں گے ۔ ,, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی وضاحت اور تشریح ان احادیث سے ہوتی ہیں جو کتب حدیث میں مروی ہے کہ,, میرے لائے ہوئے اس علم ( یعنی دین)  کی امانت کو ہرزمانے کے اچھے اور نیک بندے سنبھالیں گے اور اس کی خدمت وحفاظت کا حق ادا کریں گے وہ افراط وتفریط کی تحریفوں, کھوٹے سکے کی ملمع کاریوں اورجاہلوں کی فاسد تاویلوں سے دین حنیف کی حفاظت وصیانت کرتے رہیں گے ۔فتنہ اکبری کا آپ نے خاتمہ کیا, یہ فتنہ اکبری آخرکیاتھا ؟ یہ دین میں شرک کی آمیزش تھی, سورج, آگ, پانی اور ہرطاقت کی بندگی بادشاہ اکبر سے لے کر اس کے حواریین کرنے لگے تھے, رفتہ رفتہ اکبربادشاہ کا سجدہ کیاجانے لگا تھا, تمام ادیان ومذاہب کو ایک نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا یعنی ہر مذہب کو حق کہاجانے لگا, معاذ اللہ ۔ان ملعونوں نے دجال کی صفات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جوڑکر بیان کرنا شروع کردیا تھا, شاتمان رسول اس قدر نڈر اور بےخوف ہوچکے تھے کہ کھلم کھلا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے تھے اور انہیں ٹوکنے والا کوئی نہ تھا, ان باتوں سے اکبربادشاہ کی پیشانی پر بل تک نہ پڑتا بلکہ ان گستاخ پادریوں کا استقبال انتہائی خندہ جبینی سے کرتا,اور اپنے شاہزادہ مراد کو حکم دیتا کہ,, چند اسباق ان پادریوں سے پڑھ لیا کرو ۔ ,, نمازوں کا یہ حال تھا کہ دربار میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز پڑھے, جبکہ کبھی اسی دربار میں باضابطہ پنجگانہ نمازوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور دربار میں موجود افراد باجماعت نماز پڑھا کرتے تھے, نماز, روزہ حج یہ سب پہلے ہی  ساقط ہوچکے تھے, سود اور جوا حلال کردیا گیا تھا اسی پر دوسری حرام چیزوں کو قیاس کرلیں!  حالت یہ تھی کہ ایک,, جوا گھر ,, خاص دربار میں بنایا گیا اور جواریوں کو شاہی خزانہ سے جوا کھیلنے کے لئے سودی قرض دیا جاتا تھا ,درباری مولویوں سے شراب کی حلت پر فتوی لے لیاگیا تھا اور دربار کے ایک حصہ میں شراب کی دوکان کھول دی گئی تھی اور نوروز کی مجلس خاص میں دنیادار علما, صلحا, قاضی ومفتی تک شراب کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے, حد تو یہ تھی کہ وہ  ,, شراب کے ہر پیالہ کو کسی نہ کسی فقیہ کے نام سے موسوم کیا ہواتھا اور کہتا کہ یہ پیالہ فلاں فقیہ اندھاپن کے نام سے پیتاہوں ۔ ,, داڑھی کا مذاح اڑایا جاتا تھا اور نہ رکھنے کی یہ بدبختانہ دلیل دیتے کہ داڑھی خصیتین سے پانی لیتی ہے اس لئے اس کے رکھنے کی قطعا ضرورت نہیں اور درباری قاضیان کوئی بھی داڑھی نہیں رکھتے تھے ۔ مسائل نکاح میں اپنی ذاتی شرط شریعت سے الگ اور چودہ چودہ عورتوں کو ایک ساتھ رکھنے کی اجازت ملی ہوئی تھی, خود اکبر ایک ساتھ چودہ عورتوں کو اپنے پاس رکھا ہواتھا ,گو شریعت کے تمام مسائل احکام شرع کے بجاۓ منشاء طبیعت کے موافق ڈھال لئیے گئے تھے ۔ ایسے نازک وقت میں آپ نے اپنی زبان وقلم سے وہ جرآت مندانہ کام کیا کہ تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصروعاجز ہے ۔ اور دین میں شرک وبدعت, صلح کلیت کا رواج جب ہوتا ہے ۔جب علما فروعی مسائل کو لے کر آپس میں دست بگریباں ہوتے ہیں۔ اسی کا فائدہ سربراہان حکومت اور اس کے عملہ یعنی وزرا , کارکنان اور ملازم اٹھاکر دین میں تحریف وتغیر کرنا شروع کردیتے ہیں جیساکہ حضرت عالم ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ۔ ,, پچھلے دور میں علما کے اختلافات نے دنیا کو ایک مصیبت میں مبتلا کردیاتھا, اب پھر وہی بات سامنے ہے,  دین کارواج کیا ہوگا, اس کی بھلا کیا گنجائش ہے, بلکہ دین کی بربادی اس سے ضرور ہوگی ۔,, ایک موقع سے علما کی اسی فتنہ رسانی کو دیکھتے ہوۓ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ,, ایک صاحب نے ملعون ابلیس کو دیکھا کہ فارغ اور بیکار بیٹھا ہوا ہے, پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہے ۔ابلیس بولا کہ اس زمانے کے علما میرا کام انجام دے رہے ہیں, راہ مارنے اور بھٹکانے کے لئے اب وہی کافی ہے ۔

          ( تذکرہ مجددالف ثانی, ص: ١٢٦ ) 

حضرت مجدد الف ثانی کا اس مثال سے   مطلب صاف تھا کہ وہ علوم اور علما کس کام کہ ان کے رہتے ہوۓ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخانہ کلمات کا بے دریغ استعمال ہوں ,وحدانیت پر شب خون مارے جارہے ہوں, شرک وبدعات کا رواج عام ہوں, دوستوں نے ہی دشمنی کے لئے کمر باندھ رکھی ہو ,جو بظاہر اللہ کی فوج ہیں وہی شیطان کے صفوں میں شریک ہوکر اسلام وسنت کی دھجیاں اڑاےنے پر بضد بیٹھا ہو , جب رہنما ہی راہزن ہوں تو اسلام کا شجر کیوں کر پھلے پھولے گا ۔یہی وہ ماحول تھا جسے دیکھ کر حضرت عالم ربانی مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو کہنا پڑا کہ,, دنیا بدعت کے دریا میں غرقاب ہے, شب ظلمت سے فرحاں ہے, دفع بدعت کے لئے کس کی مجال کہ وہ اٹھ کھڑے ہو, احیاۓ سنت کے لئے لب کشاں ہو اس دور کے علما تو خودہی بدعت کورواج دینے اور سنت کو مٹانے کے درپے ہیں ۔

                          ( مکتوب : ٥٤ , ج ۔٢ )

واقعی یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ مدارس , خانقاہوں کے قیام کا مقصد حضور فخرموجودات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت کے دلوں میں وحدانیت وربوبیت اور عشق رسول کا وہ نور پیدا کرنے کے لئے کیا گیاتھا جس سے تمام جہاں روشن ومنور ہوں, مگر یہاں کے فارغین علما, خانقاہوں کے گدڑی پوش صوفیا ہی بدعت کی طرف رہنمائی کریں اور غیر شرعی امور کے تعلق سے اس کے مستحسن ہونے کا فتوی صادر کرے, تو دین حنیف کا تحفظ کون کرے گا ۔لیکن ایسے پرفتن ماحول میں اللہ عزوجل کی نصرت اپنے بندوں پر اترتی ہے اور وہی کسی عالم ربانی کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت فرماتا ہے ۔اور یوں صدا بلند ہوتی ہے ۔

اس راز کو پھر فاش کر اۓ روح محمد! 

اس عہد میں اب تیرا مسلماں کدھر جاۓ

اور پھر حضرت عالم ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے دین حنیف کی حفاظت وصیانت کے لئے کمر باندھ کر میدان عمل میں اترجاتے ہیں اور کفار و مشرکین,الحاد وارتداد, بد مذہب و صلح کلیت اور شاتمان رسول کا اپنی زبان وقلم سے شکست فاش دیتے ہیں اور ایک مجدد کا جو کام ہوتا ہے اسے مکمل کرکے ہی دنیا سے یوں کہتے ہوۓ کہ(,, ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں,,) رخصت ہوجاتے ہیں ۔ آپ کی متبرک ذات اس دارگیتی سے ٢٨ / صفرالمظفر ١٠٣٤ ھ میں بعمر ترسٹھ سال مطابق عمر شریف نبوی ( علیہ الصلوة والسلام)  واصل جنت ہوۓ ۔ 

 ترسیل دعوت :  صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی عفی عنہ

 رکن اعلی : شیرمھاراشٹرتعلیمی فاؤنڈیشن ,میراروڈ ,ممبئی 

١٥/ شوال المکرم ١٤٤١ ھ مطابق ٧ / جون ٢٠٢٠ ء

مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ کی مختصر سوانح حیات.. پیشکش_تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین و خلیفہ ارشد ملت مفتی عبدالرشیدامجدی اشرفی دیناجپوری خادم… سنی حنفی دارالافتاءزیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مقیم حال حیدرآبادرابطہ نمبر7030 786 828rashidamjadi00@gamil.com


آپ کا نام ’’احمد‘‘
لقب ’’بدرالدین‘‘
کنیت ’’ابوالبرکات‘‘
اور عرف امام ربانی ہے، آپ حنفی تھے۔ آپ کا طریقہ مجددیہ جامع کمالات جمیع طریق قادریہ ، سہروردیہ ، کبرویہ ، قلندریہ ، مداریہ، نقشبندیہ، چشتیہ ، نظامیہ اور صابریہ ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ جو ایک ممتاز عالم دین و صوفی کامل تھے آپ کا نسب عالی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے جملہ بزرگ چرخ ولایت وعرفان کے آفتاب برج ہدایت وایمان کے ماہتاب تھے۔ شیخ احمدفاروقی سرہندی مجددالف ثانی علیہ الرحمہ کی ولادت با سعادت 14 شوال بروز جمعہ 971؍ہجری بمطابق 26؍مئی 1564؍کو پنجاب کے ایک مقام سرہند میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور پھر حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر بیعت کی اس کے بعد مجدد الف ثانی دعوت دین میں مصروف ہو گئے مجدد الف ثانی نے اپنی تمام عمر احیائے دین میں صرف کی
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯﺣﺎﻻﺕ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮐﻦ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ تحریر فرماتے ہیں : ﻏﻮﺙ ﺍﻟﻮﺍﺻﻠﯿﻦ ، ﻗﻄﺐﺍﻟﻌﺎﺭﻓﯿﻦ، ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻤﺪﺍﻧﯽ ،ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ،ﻣﺠﺪﺩﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽﺍﻣﺎﻡ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯼﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺁﭖ ﻧﺴﺒﺘًﺎ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﯿﮟ ۔
حضرت ﺳﯿﺪﻧﺎﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺁﺑﺎﺀ
ﻭﺍﺟﺪﺍﺩ،ﺻﻠﺤﺎﺀ ﻭﻋﻠﻤﺎﺀ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺯﺑﺪۃ ﺍﻟﻤﻘﺎﻣﺎﺕ،ﻣﺘﺮﺟﻢ،ﺹ 131: ،ﺗﺬﮐﺮۂﻣﺸﺎﺋﺦﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ،ﺹ 252
شیخ عبدالاحد کی ﺍﯾﮏ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﻮﺍﺏ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺳﮯ
ﻗﺒﻞ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﻗﺪﻭۃ ﺍﻟﻌﺎﺭﻓﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪ ﺍﻻﺣﺪ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ،ﺧﻨﺰﯾﺮ،ﺑﻨﺪﺭ ﺍﻭﺭﺭﯾﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻼﮎ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﮮﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻮﺭ ﻧﮑﻼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﻭﺷﻦ ﻭﻣﻨﻮﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﻼﮐﺮ ﺧﺎﮎ ﮐﺮﺩﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﻮﺭ ﻣﯿﮞﺎﯾﮏ
ﺗﺨﺖ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺍ،ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﻣﺴﻨﺪ ﻧﺸﯿﮟ ﮨﯿﮟ،ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﺎﺍﺩﺏ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ،ﺯﻧﺪﯾﻘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮑﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ :
ﻭَﻗُﻞْ ﺟَﺂﺉَ ﺍﻟْﺤَﻖُّ ﻭَﺯَﮬَﻖَ ﺍﻟْﺒَﺎﻃِﻞُ ، ﺍِﻥَّ ﺍﻟْﺒَﺎﻃِﻞَ ﮐَﺎﻥَ ﺯَﮬُﻮْﻗًﺎ
ﺣﻖ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﭧ ﮔﯿﺎ ،ﺑﯿﺸﮏ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﭩﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﯽﮨﮯ۔
ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻻﺣﺪ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﯿﺘﮭﻠﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ
ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮍﮐﺎ ﺗﻮﻟﺪ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺻﻒ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯﯼ ﺷﺎﻥﮨﻮﮔﯽ،ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯﺍﻟﺤﺎﺩ ﻭﺑﺪﻋﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦﻣﺤﻤﺪﯼﮐﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻭﻍ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮔﺎ
ﺗﺬﮐﺮۂ ﻣﺸﺎئخ نقشبندیہ’ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻣﺠﺪﺩﯾﮧ،ﺹ 16
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ 14 ﺷﻮﺍﻝ ﺍﻟﻤﮑﺮﻡ،ﺷﺐ ﺟﻤﻌﮧ، 971 ﮪ ﺍﺱﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺗﻮﻟﺪ ﮨﻮﺋﮯ
ﺑﯿﻌﺖ ﻭﺧﻼﻓﺖ
ﺟﺐ 1007 ﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﻣﺎﺟﺪﮐﺎﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﭼﮑﺎﺗﻮﺁﭖ
1008 ﮪ ﻣﯿﮟ ﺣﺞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ،ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﮨﻠﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ،ﺩﮨﻠﯽ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﺷﺮﻑ ﻣﻼﻗﺎﺕﺣﺎﺻﻞ ﮐﺌﮯ،ﺣﻀﺮﺕ ﺁﭖ ﮐﻮﻧﮩﺎﯾﺖ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﻭﺗﮑﺮﯾﻢ ﺳﮯ
ﻟﺌﮯ، ﺩﻭﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮﺩﺍﻋﯿﮧ ﺑﯿﻌﺖ ﭘﯿﺪﺍﮨﻮﺍ،ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺧﻼﻑ ﻋﺎﺩﺕ ﺑﻐﯿﺮﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ، ﺁﭖ ﮐﻮﺳﻠﺴﻠﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻓﺮﻣﺎﮐﺮﺍﭘﻨﺎﮔﺬﺷﺘﮧ ﺧﻮﺍﺏ
ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﮨﻮﺋﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﺏﺩﯾﮑﮭﺎﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮕﯽ ﺍﻣﮑﻨﮕﯽ
ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻄﺐ
ﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ﻓﯿﺾ ﭘﺎﺋﮯﮔﺎ،ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺁﺛﺎﺭﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺗﻢ ﮨﯽ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻗﻄﺐ ﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ۔ﭘﮭﺮﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻃﺮﯾﻘﮧ
ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﮐﮯ ﺭﯾﺎﺿﺎﺕ ﻭﻣﺠﺎﮨﺪﺍﺕ ،ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻭﺍﺫﮐﺎﺭ
ﺍﻭﺭﻣﺮﺍﻗﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﺘﻐﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﺧﺪﺍﮐﯽ ﺷﺎﻥ ! ﺩﻭﻣﮩﯿﻨﮯﺍﻭﺭﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﻣﯿﮟﻋﻠﻮﻣِﻠﺪﻧﯿﮧ ،ﻣﻌﺎﺭِﻑ ﯾﻘﯿﻨﯿﮧ ،ﺍﺳﺮﺍﺭِﻭﻻﯾﺖ،ﻣﻘﺎﻣﺎﺕِ ﺳَﻨِﯿَّﮧْ،ﺍﻧﻮﺍﺭُﺕﺎﺿﻮﯿﻓِ ﻭﺑﺮﮐﺎﺕِ ﺍﻟٰﮩﯿﮧﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻣﮉﮮ ﭼﻠﮯ ﺁﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻘﻠﯿﮟ ﺩﻧﮓ ﺗﮭﯿﮟ :
ﺫٰﻟِﮏَ ﻓَﻀْﻞُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﯾُﺆْﺗِﯿْﮧِ ﻣَﻦْ ﯾَّﺸَﺎﺀ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﻀﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮﭼﺎﮨﺘﺎﮨﮯ ﺩﯾﺘﺎﮨﮯ۔
ﭘﮭﺮﺍﺟﺎﺯﺕ ﻭﺧﻼﻓﺖ ﺳﮯ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯﮨﻮﮐﺮﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﻣﯿﮟ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ، ﺩﻭﺭﺩﻭﺭﺳﮯ ﻋﻄﺸﺎﻥِ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺁﮐﺮﻓﯿﺾ ﯾﺎﺏ
ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ، ﮔﻮﺁﭖ ﭼﺸﺘﯿﮧ ﻭﻗﺎﺩﺭﯾﮧ ﻭﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﮐﻞ ﻧﺴﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻊ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﮐﯽ
ﺗﺮﻭﯾﺞ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺹ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ،ﻏﺮﺽ ﺁﭖ ﮐﯽ
ﺣﺎﻟﺖ ﺍﺱ ﻣﻘﻮﻟﮧ ﮐﮯ ﻣﺼﺪﺍﻕ ﮨﮯ :
ﻣﺆﻣﻦِ ﻣﺘﻘﯽ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﻮﭼﺎﮨﺎﮐﺮﺗﺎﺍﻭﺭﺍﭖﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ
ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻟﺌﮯ ﺭﮨﺘﺎﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺟﺮﺷﻘﯽ، ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﺍﺯﻟﯽ
ﮨﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﻭﻋﺪﺍﻭﺕ ﺭﮐﮭﺘﺎﮨﮯ ۔
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﺮ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻦِﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺠﺪﯾﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺮﺍﻓﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻋﻈﻤﺖ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ؛ﺟﻮ ﻣﻨﺸﺎٔﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﻭﻣﺮﺿﯽٔ ﺭﺳﺎﻟﺖ
ﭘﻨﺎﮨﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﯾﻦِ ﻣﺘﯿﻦ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺭ ﺁﺋﯽ ﺧﺮﺍﺑﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺯﺍﻟﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺻﻼﺡﺍﻣﺖ ﮐﺎ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ
ﺳﻨﻦﺍﺑﻮﺩﺍﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ :
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯﮨﯿﮟ ، ﺣﻀﺮﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﺻﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺟﻮﺩ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﺱ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﺠﺪﯾﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، شریف
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﺮﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻔﻮﺱ ﻗﺪﺳﯿﮧ ﮐﻮ ﻭﺟﻮﺩ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺣﮑﺎﻡِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦِ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺳﺒﺎﮞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻋﻈﻤﺖ
ﺷﺨﺼﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ
ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞﻣﻘﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ
ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽﺁﻣﺪﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺕ
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣُﺴَﻠَّﻤﮧ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐو ﻣﺎﮐﺎﻥ ،ﻭﻣﺎﯾﮑﻮﻥ ‘‘ﯾﻌﻨﯽﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﮔﺎ ‘ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﻭﮞﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻄﺎﮐﺮﺩﮦ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﺮﺍﻡ ﻭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻋﻈﺎﻡ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻢ ﮐﯽ ﻭﺳﺎﻃﺖ ﺳﮯ ﺍﻣﺖ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺍﻣﯿﻦ
ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﻭﮨﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ
ﭼﻨﺎبچہ ﺟﻤﻊ ﺍﻟﺠﻮﺍﻣﻊ،ﺣﻠﯿۃ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀ، ﺍﻭﺭﮐﻨﺰﺍﻟﻌﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ :ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﯾﺰﯾﺪ ﺑﻦ ﺟﺎﺑﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﮨﻮﮔﺎ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺧﺎﻟﻖ ﺳﮯ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﮩﺎﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭﺍﻓﺮﺍﺩ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔
ﺟﻤﻊ ﺍﻟﺠﻮﺍﻣﻊ۔ﺣﻠﯿۃ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀجلد دوم ﮐﻨﺰﺍﻟﻌﻤﺎﻝ
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭحمۃﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩِ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﮯ،ﺍﻣﺖ ﮐﮯﺍﮐﺎﺑﺮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺍﻕﻗﺮﺍﺭﺩﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﺍﻟﺬﯼ ﺟﻌﻠﻨﯽ ﺻﻠۃ۔ﺍﻟﺦ۔…..ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺗﻤﺎﻡ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﺱ ﺧﺪﺍﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯﺩﻭﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ( ﺻﻠﮧ ) ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺻﻠﺢ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﻭﺳﻼﻡ ﮨﻮﮨﻤﺎﺭﮮﺁﻗﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﺟﻮﺳﺎﺭﯼ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﯿﮟ،ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻭﻣﻼﺋﮑﮧ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻭﺩ ﻭﺳﻼﻡ ﮨﻮ۔
ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ،ﺩﻓﺘﺮﺩﻭم
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺟﻦﺩﻭﺳﻤﻨﺪﻭﺭﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭﻃﺮﯾﻘﺖ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﯿﮟ،ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮔﺮﻭﮨﻮں ﺳﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﻓﯿﺎں ﻣﺮﺍﺩ ﮨﯿﮟ۔
ﺗﺬﮐﺮۂ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ_
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﻭﺭﻭﺣﺎﻧﯽﻣﻘﺎﻡ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽﻣﻘﺎﻡ ﻭﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎﺟﺎﺳﮑﺘﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﻣﺮﺷﺪﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ
ﻣﺤﻤﺪﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﻟﻠﮧﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’: ﺷﯿﺦ
اﺣﻤﺪ ﻭﮦ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﺳﺘﺎﺭﮮﮔﻢ ﮨﯿﮟ ‘‘۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﮦ
ﺑﺎﮐﻤﺎﻝ ﮨﺴﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻓﯿﺾ ﺳﺎﺭﮮ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟﭘﮭﯿﻼﮨﻮﺍﮨﮯ،ﺁﭖ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺭﺑﺎﻧﯿﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﺸﻮﺍﺑﮭﯽﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﺍﺭﺑﺎﺏ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﮐﮯ ﻣﻘﺘﺪﺍﺀ ﺑﮭﯽ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺩﯾﻦ
ﺍﻭﺭﺍﺣﯿﺎﺀ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺎ،ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻨﺼﺐ ﭘﺮﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺟﻼﻟﺖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧﺗﻔﺴﯿﺮﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮﺍﺑﻮﺍﻟﻔﻀﻞ ﮐﻮ- ﺟﻮﺍﯾﮏ ﻧﺎﺩﺭﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻧﻘﻂ ﺣﺮﻭﻑ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ
ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ – ﺩﺷﻮﺍﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭﻭﮦ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ، ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﻭﮨﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺟﻠﻮﮦ ﺍﻓﺮﻭﺯ
ﮨﻮﺋﮯ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ پرﯾﺸﺎﻥ ہوں کہ ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﮯ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﮐﻮﺑﯿﺎﻥﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮯ ﻧﻘﻂ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،ﺗﻮﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻗﻠﻢ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭﻓﯽﺍﻟﺒﺪﯾﮧ ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻧﻘﻂ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻟﮑﮫ ﮐﺮﺍﺑﻮﺍﻟﻔﻀﻞ ﮐﮯﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﺍﺑﻮﺍﻟﻔﻀﻞ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺗﺒﺤﺮﻋﻠﻤﯽ ﮐﻮﺩﯾﮑﮫﮐﺮﻣﺤﻮﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺯﺑﺪۃ ﺍﻟﻤﻘﺎﻣﺎﺕ،ﺹ 138
امام ربانی مجدد الف ثانی کے حق میں غوث اعظم کی بشارت
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺴﻼﺳﻞ ﺑﺰﺭﮒ ﮨﯿﮟ،ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻏﻮﺙ ﺍﻋﻈﻢ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻓﯿﺾ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ،ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻏﻮﺙﺍﻋﻈﻢ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ
ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺗﮭﮯ،ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ
ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻮﺭﻇﺎﮨﺮﮨﻮﺍ؛ﺟﺲ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍﻋﺎﻟﻢ ﺭﻭﺷﻦﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪﺟﺐ ﺑﮯﺩﯾﻨﯽ ﺍﻭﺭﺑﮕﺎﮌﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻣﺖ
ﭘﯿﺪﺍﮨﻮﮔﺎ؛ﺟﻮﺍﻟﺤﺎﺩﻭﺑﮯ ﺩﯾﻨﯽ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺁﻭﺍﺯﺍﭨﮭﺎﺋﮯﮔﺎﺍﻭﺭﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺮﻗۂﺧﺎﺹ ﮐﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺎﻻﻣﺎﻝ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮﻋﻄﺎﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﻭﮦ ﺧﺮﻗﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮞ ﻤﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﺎﺭﮨﺎ؛ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏﮐﮧﺣﻀﺮﺕﺳﯿﺪﺷﺎﮦﺳﮑﻨﺪﺭقادری ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻭﮦﺧﺮﻗۂ ﻧﻌﻤﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﮐﻮﻋﻄﺎﮐﯽ۔
ﺭﻭضۃ ﻗﯿﻮﻣﯿﮧ۔ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻣﺠﺪﺩﯾﮧ،ﺹ 13
ﺗﺬﮐﺮﮦٔ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ
ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧ ’’ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﻢ ﻃﺮﺍﺯ ﮨﯿﮟ : ﺗﺮﺟﻤﮧ :ﮐﺘﺎﺏﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺎئے
ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮔﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﺯﺑﺪۃ ﺍﻟﻤﻘﺮﺑﯿﻦ ،ﻗﻄﺐﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ،ﻣﻈﮩﺮ ﺗﺠﻠﯿﺎﺕ ﺍﻟﮩٰﯽ ،ﻣﺼﺪﺭ ﺑﺮﮐﺎﺕ ﻻﻣﺘﻨﺎﮨﯽ،ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ، ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﻻﺕ ﺗﺤﺮﯾﺮﻧﮧ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔
ﻣﺠﮫ ﻣﺼﻨﻒ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﺣﺎﺻﻞﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﻣﻘﺪﻡ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻣﻠﯿﻦ ﻭﺳﺎﺑﻖ ﺗﺮﯾﻦﻭﺍﺻﻠﯿﻦ ﺍﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﻝ ﻭﺁﺧﺮ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ،ﻣﯿﺮﺍ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉﮨﻮﻧﺎ ﺛﻘﮧ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ
ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ – (ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﻻﺧﯿﺎﺭ،ﺹ728 )
اولاد و امجاد
مجدد الف ثانی کے سات صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یوں ہیں:
صاحبزادگان ترميم
1 خواجہ محمد صادق
2 خواجہ محمد سعید
3 خواجہ محمد معصوم
4 خواجہ محمد فرخ
5 خواجہ محمد عیسیٰ
6 خواجہ محمد اشرف
7 خواجہ محمد یحیی
صاحبزادیاں ترميم
1 بی بی رقیہ بانو
2 بی بی خدیجہ بانو
3 بی بی ام کلثوم
خلفائے امام ربانی مجدد الف ثانی
بے شمار سالکین نے شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل کیا۔ منقول ہے کہ آپ کے مریدوں کی تعداد نو لاکھ کے قریب تھی اور تقریبا پانچ ہزارخوش نصیب حضرات کو آپ سے اجازت و خلافت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ چند خلفا کے نام درج ذیل ہیں۔
1 الحاج خضر خان افغان بہلول پوری
2 الحاج محمد فرگنی
3 حاجی حسین
4 حافظ محمود لاہوری
5 خواجہ ہاشم برہانپوری
6 خواجہ محمد سعید متوفی 1070
7 خواجہ شاه محمد یحیی
متوفی 1096ھ
8 خواجہ محمد صادق
9 خواجہ محمد صدیق کشمی دہلوی
10 خواجہ عبدالله خورد
11 خواجہ عبیداللہ کلاں
12 خواجہ محمد معصوم
13 خواجہ محمد فرخ
14 سید باقر سارنگ پوری
امام ربانی مجدد الف ثانی کی تصنیفات
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمدفاروقی سرہندی علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی میں متعددکتابیں لکھیں جو پائیدار علمی اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں اثبات النبوۃ(عربی) ، رد روافض (فارسی)، رسالہ تہلیلیہ (عربی)، شرح رباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ،رسالہ حالات خواجگاں نقشبند، معارف لدنیہ، مبداومعاد، مکاشفات عینیہ،آداب المریدین مشہور ہیں لیکن جو شہرت’’مکتوبات امام ربانی‘‘ کوحاصل ہوئی اور جو فیض ان مکتوبات سے اہل علم وخواص نے اٹھایا اس کی کچھ بات ہی اور ہے۔
ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﺭﻭﺯﺳﮧ ﺷﻨﺒﮧ28 ﺻﻔﺮ 1034 ﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺴﻨﻮﻥ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯿﭧ ﮐﺮﺩﺳﺖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺍﭘﻨﮯﺭﺧﺴﺎﺭﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ
ﺍﺭﺷﺎﺩﻓﺮﻣﺎﯾﺎﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ
ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺻﺎﻟﺤﮧ ﮐﺌﮯ ﻣﮕﺮﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺟﻮﺩﻭﺭﮐﻌﺖ ﻧﻤﺎﺯﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺁﺝ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺍﻭﺭﺍﺷﺮﺍﻕ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﻣﺒﺎﺭﮎﺍﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﯿﻦ ﮐﻮﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ،ﻟﻔﻆ ﺻﻠﻮۃ ﭘﺮﮨﯽ ﺧﺎﺗﻤﮧ
ﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺍﻭﺭﯾﮩﯽ ﺻﻠﻮٰﺕ ﻧﺴﺒﺖ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽﮨﮯ ۔
ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺭﺣﻠﺖ ’’ ﺭَﻓِﯿﻊُ ﺍﻟﻤَﺮَﺍﺗِﺐْ ‘‘ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﮐﻮﻧﻮﺭ سے منور ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﮯﺳِﺮْﮐﻮﭘﺎﮎ
ﮐﺮﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺀ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻄﻔﯿﻞ ﺣﺒﯿﺐ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﻤﯿﮟ ﻋﻘﺎﺋﺪﺣﻘﮧ ﭘﺮﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﮯﺍﻭﺭﺣﻀﺮﺕاﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﻭﮨﺪﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﻓﺮﻣﺎﺋﮯ،ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻓﯿﻮﺽ ﻭﺑﺮﮐﺎﺕ ﺳﮯ ﮨﻢ
ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺎﻻﻣﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔
آمین ثم آمین یارب العالمین بجائے سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم