القرآن
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ۞
اردو ترجمہ(کنزالایمان)
سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔
हिंदी अनुवाद
सब खूबियाँ अल्लाह को(के लिए हैं) जो मालिक है सारे संसार वालों का।
Englsh translation
All praise is to Allah, the Lord of all the worlds (the entire Creation.)
تشریح و توضیح
الحمد اللہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالی کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی اللہ کی طرف سے ہیں۔ اس نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اس نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بے شمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کر وہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے۔ الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی ثنا خود کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔
حمد و شکر کے فضائل
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العالمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالی کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالی تمہیں برکت دے گا۔
حضرت اسود بن سریع ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالی کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالی کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی)
حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) ایک حدیث پاک میں ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالی نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد اللہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گیا۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالی تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد اللہ کے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہوگا۔
رب کسے کہتے ہیں؟
رب کا معنی ہوتا ہے؛ پالنے والا، مالک اور متصرف۔ لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لیے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے۔ بہرحال ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالی کے لیے یہ خوب جچتا ہے۔ بے شک دنیا کو اللہ ہی نے پیدا کیا اور وہی کھلاتا، پلاتا، مارتا جلاتا ہے وہی سب کو پالتا ہے۔
رب کا لفظ بھی سواۓ اللہ تعالی کے دوسرے پر نہیں کہا جاسکتا، ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔
عالم(دنیا) کتنے ہیں
اس آیت مبارکہ میں “العالمین”(سارا عالم) بیان ہوا اس کی تشریح میں حضرت ابوالعالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالی نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہو تیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ حضرت سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہو گئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آۓ اور امیر المومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اللہ تعالی نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے کچھ سو تری میں ہیں اور چار سو مکلی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے در پے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جاۓ اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔
حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالی نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी