WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞سورہ فاتحہ(قسط نمبر: 6)ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
اِھدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

اردو ترجمہ
ہم کو سیدھا راستہ چلا !

हिंदी अनुवाद
हमको सीधा रास्ता चला!

English translation
Guide us on the Straight Path!

تشریح و توضیح
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت کے بعد اس کی عبادت اور حقیقی مددگار ہونے کا ذکر کیا گیا اور اب یہاں سے ایک دعا سکھائی جا رہی ہے کہ بندہ یوں عرض کرے: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، تو نے اپنی توفیق سے ہمیں سیدھاراستہ دکھا دیا اب ہماری اس راستے کی طرف ہدایت میں اضافہ فرما اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ!
ہدایت کا معنیٰ
ہدایت کا لغوی معنی ہوتا ہے لطف و عنایت سے کسی کو منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ “الھدایة دلالة بلطف”۔
صراطِ مستقیم کا معنی:
صراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کا سیدھا راستہ ‘‘ہے، جس پر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلتے رہیں، یا اِس سے مراد ’’اسلام کا سیدھا راستہ‘‘ ہے جس پرصحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، بزرگانِ اور اولیاے عِظام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ چلتے آرہے ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں موجود بھی ہے اور بحمدہٖ تعالیٰ یہی راستہ اہل سنّت والجماعت کا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞ قسط نمبر 5 ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ

اردو ترجمہ
ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔
हिंदी अनुवाद
हम तुझी को पूजें और तुझी से मदद चाहें।

English translation
You alone we worship and from You alone we seek help (and may we always).

تشریح و توضیح
اللہ رب العزت کی تعریف و توصیف کے بیان کے بعد اب اس کے حقوق کا بیان ہے کہ اے اللہ تعریفیں سب تیرے لیے ہیں کہ تو ہی سارے جہان کا پالنہار ہے تو خوب خوب رحم فرمانے والا ہے اور تو ہی روز جزا کا مالک ہے لہذا اے اللہ جب تیری یہ شان ہے تو ہماری عبادت کا حق دار بھی صرف اور صرف تو ہی ہے اور ہمارے لیے تجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے جس سے ہم مدد مانگیں پس صرف تجھی سے مدد مانگنا مناسب و ضروری ہے اس لیے ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور کریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے۔
“نعبد” اور “نستعین” میں جمع کا صیغہ کیوں؟
اگر کوئی کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ جمع کے لیے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لیے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لیے پیدا کیئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لیے آگے بڑھا ہوا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती)मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞قسط نمبر 4ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ

اردو ترجمہ(کنزالایمان)
روز جزا کا مالک۔

हिंदी अनुवाद
इन्साफ के दिन का मालिक।

English translation
Owner of the Day of Recompense.

تشریح و توضیح
جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہ ا س دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لیے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا، کیوں کہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی، اس دن کوئی ملکیت کا دعوے دار بھی نہ ہوگا۔ اس لیے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔

واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞سورة الفاتحة: قسط نمبر 2ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل: دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ۞

اردو ترجمہ(کنزالایمان)
سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔

हिंदी अनुवाद
सब खूबियाँ अल्लाह को(के लिए हैं) जो मालिक है सारे संसार वालों का।

Englsh translation
All praise is to Allah, the Lord of all the worlds (the entire Creation.)

تشریح و توضیح
الحمد اللہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالی کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی اللہ کی طرف سے ہیں۔ اس نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اس نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بے شمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کر وہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے۔ الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی ثنا خود کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔
حمد و شکر کے فضائل
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العالمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالی کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالی تمہیں برکت دے گا۔
حضرت اسود بن سریع ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالی کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالی کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی)
حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) ایک حدیث پاک میں ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالی نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد اللہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گیا۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالی تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد اللہ کے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہوگا۔
رب کسے کہتے ہیں؟
رب کا معنی ہوتا ہے؛ پالنے والا، مالک اور متصرف۔ لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لیے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے۔ بہرحال ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالی کے لیے یہ خوب جچتا ہے۔ بے شک دنیا کو اللہ ہی نے پیدا کیا اور وہی کھلاتا، پلاتا، مارتا جلاتا ہے وہی سب کو پالتا ہے۔
رب کا لفظ بھی سواۓ اللہ تعالی کے دوسرے پر نہیں کہا جاسکتا، ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔
عالم(دنیا) کتنے ہیں
اس آیت مبارکہ میں “العالمین”(سارا عالم) بیان ہوا اس کی تشریح میں حضرت ابوالعالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالی نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہو تیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ حضرت سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہو گئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آۓ اور امیر المومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اللہ تعالی نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے کچھ سو تری میں ہیں اور چار سو مکلی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے در پے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جاۓ اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔
حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالی نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

۞۞۞ درس قرآن ۞۞۞قسط نمبر 1ازقلم: (مفتی) محمد شعیب رضا نظامی فیضیپرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیارابطہ نمبر: 9792125987

القرآن
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اردو ترجمہ(کنرالایمان)
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحم والا۔

हिंदी अनुवाद
अल्लाह निहायत मेहरबान रहम वाले के नाम से शुरू।

English translation
Allah – beginning with the name of – the Most Gracious, the Most Merciful.

مختصر تشریح و توضیح
اللہ جل مدہ اعلیٰ نے اپنے پیارے محبوب صاحب لولاکﷺ کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا اور ایک ایسی پاکزہ کتاب عنایت فرمائی جو لاریب اور ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے۔ اور اس پاکیزہ قرآن کی ابتدا جس آیت سے ہوتی ہے وہ ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یوں تو یہ ہر ایک سورت کے شروع میں مشروع ہے مگر سورہ نمل کے درمیان میں بھی اللہ نے اسے نازل فرمایا۔
حضرت عیسی علیہ السلام اور بسم اللہ کا مطلب
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عیسی کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے بسم اللہ حضرت عیسی نے کہا بسم اللہ کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا ” ب ” سے مراد اللہ تعالی کا ” بہا ” یعنی بلندی ہے اور ” س ” سے مراد اس کی سنا یعنی نور اور روشنی ہے اور ” م ” سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور ” اللہ ” کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور ” رحمٰن ” کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو ” رحیم ” کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو۔ (ابن جریر 140، بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
فضائل و برکات
اس کے فضائل و برکات کے حوالے سے درج ذیل احادیث بڑی اہمیت کی حامل ہیں…
بسم اللہ کی برکت
رسول اللہﷺ نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سواۓ حضرت سلیمان” کے نہیں اتری۔ وہ آیت “بسم اللہ الرحمن الرحیم” ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت “بسم اللہ الرحمن الرحيم” اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیئے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جاۓ گا اس میں ضرور برکت ہوگی۔
جہنم کے سبھی 19 داروغہ سے چھٹکارا
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ “بسم اللہ الرحمن الرحیم” پڑھے۔ بسم اللہ کے بھی انیس حروف ہیں لہذق ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جاۓ گا۔
بسم اللہ کی برکت سے شیطان کی ذلت
نسائی نے اپنی کتاب عمل اليوم والی لہ میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں حضرت اسامہ بن عمیر سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بسم اللہ کہا کر کہ بسم اللہ کی برکت سے شیطان ذلیل ہوگا۔ اس لیے ہر کام کے آغاز میں بسم اللہ کہہ لینا مستحب ہے؛
خطبہ کے شروع میں بھی بسم اللہ کہنی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جاۓ وہ بے برکت ہوتا ہے۔ بعض علما نے یہ بھی لکھا ہےکہ پاخانہ میں جانے کسے پہلے بسم اللہ پڑھ لے۔
وضو کے شروع میں بسم اللہ
مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ، سعید بن زید اور ابو سعید” سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا۔” اسی حدیث کے پیش نظر بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔ لیکن ہمارے علماے احناف کے یہاں وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے واجب نہیں۔
جانور کو ذبح کرتے وقت اس کا پڑھنا ضرور ہے مگر اس میں رحمان و رحیم کا ذکر نہ کرکے اللہ اکبر بڑھا لے اور یوں کہے “بسم اللہ اللہ اکبر”۔
بیوی کے پاس جاتے وقت بسم اللہ کہنا مستحب اور بڑا فائدہ مند ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ” جب تو اپنی بیوی کے پاس جاۓ اور بسم اللہ پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی ” مگر اس روایت کو ابن کثیر نے بے اصل لکھا ہے۔ لیکن درج ذیل روایت اس باب میں بڑی اہم ہے؛
صحیحین میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے “بسم اللہ اللھم جنبنا الشيطان و جنب الشيطان ما رزقتنا” یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے ་་ اسے شیطان سے بچا ” فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جاۓ تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
حاصل یہ کہ بسم اللہ میں اللہ رب العزت نے بڑی برکتیں عطا فرمائی ہے لہذا ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी