WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شرعی مسائل

ہکلے کی امامت کا حکم،، از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکا تہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع عظام کوئی حافظ ھکلے پن کا شکار ھے دوران نماز ہکلاتے ہیں ہکلاہٹ سے ایسا لگتا ھے لمبا سکتہ کیا ھے تلاوت بار بار کرتے ہیں اس طرح بہت مرتبہ پیش أتاھے اس معاملے میں مصلیان میں اختلاف ھو چکا ھے ایسے میں مذکورھ حافظ قران کے پیچھے نماز ھوگی یا نھی لو گو میں اشد اختلاف ھے انکو امامت وہاں کرنا چاہئے یا نھی. جواب عنایت فرمائے کرم ھوگا المستفتی شیخ عبد الجلیل باکھرا پیٹ M p
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔
لا یصح اقتداء غیر الالثغ بہ و حرر
غیر تو تلے کی اقتداء توتلے کے پیچھے درست نہیں

 الحلبی و ابن الشحنۃ انہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالامی فلو یؤم الامثلہ ولا تصح صلوتہ اذاامکنہ الاقتداء بمن یحسنہ او ترك جھدہ او وجد قدرالفرض مما لالثغ فیہ ھذا ھو الصحیح المختار فی حکم الالثغ وکذا من لا یقدر علی التلفظ بحرف من الحروف  ملتقطا

الثغ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی زبان سے ایك حرف کی جگہ دوسرا نکلے)حلبی اورابن شحنہ نے لکھا ہے کہ ہمیشہ کی حتمی کوشش کے بعد توتلے کا حکم اُمّی کی طرح ہے پس وُہ اپنے ہم مثل کا امام بن سکتا ہے (یعنی اپنے جیسے توتلے کے سوا دوسرے کی امامت نہ کرے) جب اچھی درست ادائیگی والے کی اقتداء ممکن ہو یا اس نے محنت ترك کردی یا فرض کی مقدار بغیر توتلے پن کے پڑھ سکتا ہے ان صورتوں میں اسکی نماز درست نہ ہوگی توتلے کے متعلق یہی مختار اورصحیح حکم ہے اور اسی طرح اس شخص کا بھی یہی حکم ہےجو حروفِ تہجی میں سے کوئی حرف نہ بول سکے یعنی صحیح تلفظ پر قادر نہ ہو اھ ملخصًا۔

 فتاوٰی محقق علّامہ ابوعبدﷲ محمد بن عبدﷲ غزی تمر تاشی میں ہے 

الراجع المفتی بہ عدم صحۃ امامۃ الالثغ لغیرہ [

راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ توتلے کی امامت غیر کے لئے جائز نہیں۔۔مختار یہی ہے کہ اس پر تصحیح زبان کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا ضروری ہے اور اس کے ترك پر معذور نہیں سمجھا جائے گا اگرچہ اس کی زبان کا اجراء درست نہ ہو جس کو وُہ اچھی طرح ادا نہیں کرسکتا تو اب اس کی نماز اس آیت سے درست ہوگی البتہ وُہ غیر کی امامت نہ کروائے ، پس وہ صحیح ادائیگی کرنے والے کے حق میں امّی کی طرح ہوگا اس آیۃ میں جس سے عاجز ہے، اور جب مذکورہ شخص کو ایسے آدمی کی اقتدا ممکن ہو جوصحیح ادا کرسکتا ہے، تو اس کی تنہا نماز نہ ہوگی، اور اگر وہ ایسی آیۃ پر قادر ہے جس میں مذکورہ حرف نہیں تو اس حرف والی آیۃ پڑھنے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی کیونکہ اس حر ف کا درست پڑھنا نماز کے لئے ضروری تھا جب وہ تقاضا معدوم ہے تو نماز کا وجود بھی نہ ہو گا ۔توتلے اور اس جیسے شخص کے لئے یہی حکم ہے اور یہی صحیح ہے۔(ملخصا فتاوی امجدیہ ج اول ص 87 )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف۔۔14/صفر۔1444
(نوٹ ) بہتر کہ پہلے کسی ماہر قاری کو انکی قرأت کو سنادیں۔)

حج و عمرہ کے دوران حلق کیوں کرایا جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ حج و عمرہ کے دوران حلق کیوں کرایا جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے مفصل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورت مسؤلہ میں اس کی ایک اہم حکمت صفائی و ستھرائی ہے۔حج اور عمرہ کے اعمال ختم ہونے پر  سر منڈانا یا بال کتروانا بھی ایک عبادت ہے، گویا یہ حج اور عمرہ سے فارغ ہونے کی نشانی ہے ، جیسے نماز کے لیے فارغ ہونے کی نشانی “سلام” ہے، اور روزہ سے فارغ ہونے کی نشانی “افطار” ہے۔۔ احرام کی حالت میں پراگندہ اور غبار آلود رہ کر بارگاہِ عالی میں حاضر ہونے کا حکم تھا، اور احرام کے بعد صاف ستھرا رہنا پسندیدہ ہے، تو  بالوں کو کاٹنے میں  ان پراگندہ بالوں سے مکمل صفائی اور ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی بدرجہ اتم موجود ہے۔

حجة الله البالغة (2/ 94)
“والسر في الحلق؛ أنه تعيين طريق للخروج من الإحرام بفعل لا ينافي الوقار، فلو تركهم وأنفسهم لذهب كل مذهباً، وأيضاً ففيه تحقيق انقضاء التشعث والتغبر بالوجه الأتم، ومثله كمثل السلام من الصلاة”.اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ہندہ نے زید سے نکاح کیا اور 3 دن بعد بغیر ہمبستری کے زید نے ہندہ کو طلاق دے دیا اب ہندہ دوسری نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہندہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اور مفتیان کرام اس مسلئہ کے بارے میں ہندہ نے زید سے نکاح کیا اور 3 دن بعد بغیر ہمبستری کے زید ہندہ کو طلاق دے دیا اب ہندہ دوسری نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہندہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے ( کیا ہندہ کو عدت گزارنا پڑےگا ) قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

السائل محمــــــــد سلیمان بہرائچ شریف
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورتِ مستفسرہ میں اگر زوج وزوجہ تنہائی کے مکان میں یکجا ہولئے ہوں اور اُن میں کوئی مانع حقیقی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے وطی اصلاً نہ ہوسکے اس کے بعد زید نے طلاق د ی تو بیشک ہندہ پر عدت واجب ہے اگرچہ مبا شرت نہ ہوئی۔
خلوۃالصحیحۃ فی النکاح الصحیح مثل الوطی فی ایجاب العدّۃٰ وصحۃ الخلوۃ ھٰھنا العدم المانع الحقیقی وان جد مانع شرعی کالصوم۔
ہاںاگرخلوت بھی نہ ہوئی اور ویسے ہی طلاق دے دی تو ہندہ پر عدت نہیں، اسے اختیار ہے کہ اسی وقت جس سے چاہے نکاح کرلے۔
درمختار باب العدّۃ ( مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۵۵ ) میں ہے
سبب وجوبھا (یعنی العدۃ) عقد النکاح المتأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت او خلوت الخ
۔یعنی وجوبِ عدت کا سبب وہ نکاح ہے جس میں بیوی سپرد کردی گئی ہو یا وہ جو اس کے قائم مقام ہو مثلاً موت یا خلوت ہو، الخ، لہذا اگرزید نے ہندہ کو خلوت صحیحہ سےبھی قبل طلاق دیا ہے تو اس پر عدت نہیں جیسا کہ مذکور ہوا۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
11/12/2022

مسجد میں اگر ممبر کی وجہ سے اگلی صف میں جگہ خالی رہ جائے تو نماز باجماعت کا کیا حکم ہے؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

حضور مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں بعض ایسی مسجدیں جہاں ممبر تھوڑا آگے ہونے کی وجہ سے پہلی صف میں ممبر کے سامنے 2/ لوگوں کی جگہ رہ جاتی ہے اسی وجہ سے پہلی صف کے بیچ میں 2 لوگوں کی جگہ چھوڑ کر پہلی صف کی تکمیل ہوتی ہے
1 تو کیا ایسی صورت میں صف منقطع ہو جاتی ہے ؟
2 اوراس صورت میں ان لوگوں کی نماز کا حکم کیا ہے ؟اور كس طرح نماز ادا كريں
بيينوا توجروا

محمد صائم رضا
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔     صفوں کے بارے میں تین باتوں کی بڑی تاکید ہے، پہلی بات:    تَسوِيه: کہ صف برابر ہو، خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے، پیچھے نہ ہوں. دوسری بات:   إتمام: کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف نہ لگائیں. تیسری بات:    تراصّ: یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ شانہ سے چھلے. یہ تینوں امر شرعاً واجب ہیں.
     (فتاوی رضویہ- التقاط و تسہیل کے ساتھ- ج:3،ص:387،386،385، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) لہذا  صفوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑنا جائز نہیں، جو نمازی خالی جگہ بھرنے پر قادر ہوں اور نہ بھریں تو گنہ گار ہوں گے.
     ہاں کسی وجہ سے انھیں وہ خالی جگہ بھرنے پر قدرت نہ ہو تو معذور ہوں گے، انھیں بقدر میسور پر عمل چاہیے واضح ہو کہ صفوں کے اتمام اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے احکام واجباتِ نماز سے نہیں، بلکہ واجباتِ صفوف سے ہیں، چناں چہ عمدۃ القاری میں ہے:
“التسوية وَاجبَة بمقْتضى الْأَمر، ولكنها ليست من واجبات الصَّلاَة بِحَيث أَنه إِذا تركهَا فسدتْ صلَاته أَو نقصتها.” (عمدۃ القاری، ج:5، ص:371، دار الکتب العلمیۃ)
ترجمہ: فرمان رسالت کے مطابق صفوں کو سیدھی رکھنا واجب ہے، لیکن یہ واجباتِ نماز سے نہیں کہ چھوڑ دے تو نماز فاسد یا ناقص ہو جائے.
یوں بھی کتبِ فقہ میں فرائض اور واجباتِ نماز میں کہیں اس کا ذکر نہیں جو اس کے واجباتِ نماز سے نہ ہونے کی کھلی دلیل ہے، یہی حال اِتمام اور تراصّ کا بھی ہے کہ یہ بھی واجباتِ نماز سے نہیں، نہ ہی کتب فقہ میں واجباتِ نماز میں کہیں ان کا ذکر ہے.
ایسے واجبات کا ترک قصداً، بلا عذر ہو تو گناہ ہوتا ہے مگر نماز بلا کراہت صحیح ہوتی ہے اور اگر ترک، عذر کی وجہ سے ہو تو قطعِ صف کا گناہ بھی نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہوتی ہے. اس کی دلیل حضرت ابو بکرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رکوع میں پایا تو صف کے پیچھے ہی تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلے گئے تو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: “زادك اللّٰه حرصا ولا تعد” اللّٰہ تجھے اور زیادہ نماز کا شوق بخشے، دوبارہ ایسا نہ کرنا. (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ باب إذا رکع دون الصّف) ظاہر یہ ہے کہ اگلی صف میں گنجائش تھی تو ان پر اتمام واجب تھا اس لیے سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے لازمی طور پر انھیں دوبارہ ایسا کرنے سے ممانعت فرمادی مگر نماز کے اعادہ کا حکم نہ دیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتمام صف واجبات نماز سے نہیں. فتاوی رضویہ میں ہے کہ:
“زید نے در میں نماز ناجائز بتائی، یہ زیادت ہے، ناجائز نہیں، ہاں امام کو مکروہ ہے.” (ج:3، ص:43، باب اماکن الصلاۃ، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) “نماز ناجائز نہیں” یعنی مکروہ تحریمی نہیں، ہاں امام کا فعل مکروہ ہے.خلاصہ کلام یہ کہ مسجد میں ممبر اس طرح بنانا چاہیے کہ پہلی صف کا کچھ بھی حصہ منبر کی زد میں نہ آئے؛ منبر قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھاکر پہلی صف خالی کردینی چاہیے؛ تاکہ نماز کے دوران پہلی صف میں منبر کے سامنے جگہ خالی نہ رکھنی پڑی یا اس جگہ جو شخص نماز پڑھے، اسے سجدہ میں زحمت نہ ہو۔ اور اگر منبر کو قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھانا ممکن ہو تو بڑھا دیئں ورنہ لکڑی کا منبر بنالیا جائے جو خطبہ کے وقت رکھا جائے اور اس کے بعد ہٹادیا جائے۔ اور جب تک نظم نہ ہوتو مجبوری میں منبر کے سامنے کی جگہ خالی چھوڑکر نماز پڑھتے رہیں ۔ نماز ہوجاۓ گی جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

شوہر کے انتقال کے بعد عورت عمرہ کے لئے اپنے دیور کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ ذیل میں
شوہر کے انتقال کے بعد عورت عمرہ کے لئے اپنے دیور کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں

قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں

عین نوازش ھوگی
ممتاز رضا
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورت مسئولہ میں دیور کے ساتھ حج یا عمرہ کرنے لئے سفر کرنا حرام ہےکیونکہ جب تک عورت کے ساتھ شوہر یا محرم بالغ قابل اطمینان نہ ہو جس سے نکاح ہمیشہ حرام ہے سفر حرام ہےاوردیورمحرمات ابدیہ سے نہیں ہے اس لئے اس ساتھ حج کے لئے سفر کرنا حرام ہے اگر کرے گی حج ہوجائے گا مگر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تسافر مسيرة يوم و ليلة إلا مع ذى محرم عليها ” اھ ( نصب الرایہ لتخریج احادیث الھدایہ ج 3 ص 11 ) اور علامہ برہان الدین مرغینانی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” يعتبر فى المرأة ان يكون لها محرم تحج به او زوج ولا يجوز لها ان تحج بغيرهما اذا كان بينهما و بين مكة ثلاثة أيام ” اھ ( ھدایہ ج 1 ص 213 ) اور علامہ ابن نجیم مصری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” يشترط محرم أو زوج لامرأة فى سفر لما فى الصحيحين لا تسافر امراة ثلاثا و معها محرم ” اھ ( البحر الرائق ج 2 ص 314 ) اور سیدی اعلی حضرت احمد رضا خان قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ عورت کے ساتھ جب تک شوہر یا محرم بالغ قابل اطمینان نہ ہو جس سے نکاح ہمیشہ حرام ہے سفر حرام ہے اور اگر کرے گی حج ہوجائے گا مگر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا “اھ ( انور البشارة فی مسائل الحج و الزیارة ص 3 )ان تمام تفصیلات سے واضح ہوا کہ عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر حج و عمرہ کو جانا ناجائز اور گناہ ہے اگر چلی گئی جائے تو حج ہوجائے گا مگر گنہ گار ہوگی ۔ *والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
19/ربیع الغوث /144 ھ

کیا طالبِ علم کا حفظ مکمّل ہونے کے بعد ایک نشست میں پورا قرآن سنانا درست ہے؟؟ از قلم مفتی احمد رضا صاحب مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
حفظ مکمل ہونے کے بعد طلبا ایک نشست میں پورا قرآن پاک سناتے ہیں تجوید کی رعایت کے ساتھ تو کیا ایک نشست میں پورا قرآن سنانا درست ہے جبکہ بہار شریعت میں ہے کہ
تین دن سے کم میں قرآن مکمل کرنا خلاف اولی ہے
2/بہار شریعت میں ہے کہ مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے قرآن مجید پڑھیں یہ حرام ہے
اور حفظ کی درسگاہ میں یا یاد کرنے کے وقت سب بچے بلند آواز سے ہی پڑھتے ہیں تو کیا یہ حرام ہے ؟
مکمل وضاحت کے ساتھ دلائل کی روشنی میں نیز بہار شریعت کے مسئلہ کی بھی کا مل طور پر وضاحت کردیں
سائل عاشق علی مصباحی
بہرائچ
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔مدارس اسلامیہ میں بلند آواز سے بچوں کا قرآن پاک حفظ (یاد)کرنا یا ناظرہ پڑھنا یا نششت میں پورا قرآن سنانا تعلیم قرآن ہے نہ کہ تلاوت قرآن پاک ۔جیسا کہ جا ءالحق میں اسی طرح کے سوال کا جواب ہے ۔فرماتےہیں وہاں تعلیم قرآن ہے تلاوت قرآن نہیں ۔تلاوت کا سننا فرض ہے ۔نہ کہ تعلیم قرآن پاک ‘ اس لئے رب العزت نے اذاقرئ فرمای ,تعلم نہیں اذاقرأت القرآن فاستعذباللہ (سورہ نحل 98)جب قرآن پڑھو تواعوذ باللہ پڑھ لیا کرو۔تلاوت قرآنپر اعوذ پڑھنا چاہیئے ,جب شاگرد استاد کو قرآن سناۓ تو اعوذ نہ پڑھے , یہ تلاوت قرآن نہیں ۔قرآن ہے (شامی)ایسے ہی قرآن کریم تر تیب کے خلاف چھاپنا منع ہے ترتیل وترتیب چاہئیے ,مگر بچوں کی تعلیم کے لیے آخری( 30)پارہ الٹا چھاپتے بھی ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں ,تعلیم وقرأۃ کے احکام میں فرق ہوتا ہے ۔قرآن نے بھی تلاوت قرآن وتعلیم میں فرق کیا ۔قال تعالی یتلو علیھم آیۃ یزکیہ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ اھ۔(سورہ جمعہ آیت 2 )وہ نبی مسلمانوں پر آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور قرآن وحکمت سکھاتے ہیں ۔اگر تلاوت اور تعلیم میں فرق نہیں ہوتا تو یہاں ان دونوں کا ذکر علیحدہ کیوں ہوا ۔(جا ءالحق دوم ص 395۔ قادری پبلیشرز )
مذکورہ دلائل سے بالکل ظاہر وباہر ہے کہ تلاوت قرآن وتعلیم قرآن میں فرق ہے۔لہذا تلاوت کے احکام کلی طور تعلیم پر نافذ نہیں ہونگے ۔لہذا جو بہارے شریعت میں مسئلہ مذکور ہے وہ تلاوت قرآن کے تعلق سے ہے ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 13/صفر 1444

کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنے یا بدن کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟ از قلم، مفتی احمد رضا صاحب دارالفکر بہراٸچ شریف

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنا یا کوئی اور کام انجام دینے سے مثلاً موبائل-فون بند کرنے یا بدن کے کسی حصے کو کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

العارض
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسئولہ میں کہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون واطمینان مطلوب ہے، اس لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ نماز شروع کرنے کے بعد نمازی کا کوئی عضو بلاوجہ حرکت نہ کرے؛ تاہم معمولی حرکت سے نماز نہیں ٹوٹتی؛ بلکہ نماز اس وقت فاسد ہو تی ہے جب کہ یہ حرکت اس قدر کثیر ہو کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، ایک رُکن میں تین مرتبہ کھجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، یعنی ایک بار کُھجا کر ہاتھ ہٹایا پھر دوسری بار کُھجا کر ہٹایا اب تیسری بار جیسے ہی کھجائے گا نماز ٹوٹ جائے گی اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند بار حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کُھجانا کہا جائیگا، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلی ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا
(بہار شریعت ج1 صفحہ 614،مکتبۃ المدینہ)،
اور فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کہ حالت نماز میں کجھلی ہو تو کھجائے یا نہیں اور کھجاوے تو کتنی مرتبہ ، میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ضبط کرے اور نہ ہو سکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو تو کھجالے مگر ایک رکن مثلاً قیام یا قعود یا رکوع یا سجود میں تین مرتبہ نہ کھجائے دو بار تک اجازت ہے،(فتاوی رضویہ قدیم ج3 صفحہ 446)،
تو واضح ہو گیا کہ دائیں ہاتھ سے کھجائے یا بائیں ہاتھ سے دو بار تک اجازت ہے، اور اگر تین بار کھجائے نماز ہی فاسد ہو جائے گی،جیسا کہ مذکورہوا، ہاں قیام کی حالت میں کھجانے کی ضرورت ہو تو دائیں ہاتھ سے کھجائے جیسا کہ نظام شریعت میں جماہی روکنے کے تعلق سے اخیر میں ہے: قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ سے ڈھانکے اور دوسرے موقع پر بائیں سے(نظام شریعت صفحہ 140)، اور فتاوی عالمگیری جلداول مطبوعہ مصر صفحہ ٩٧)* 
میں ھے ،، *اذا حک ثلاثا فی رکن واحد تفسد صلاته ھٰذا اذا رفع یدہ فی کل مرة ۔ اما اذا لم یر فع فی کل مرة فلاتفسد کذا فی الخلاصة* ۔
 (فتاوی فیض الرسول جلداول باب ما یفسد الصلاة صفحہ ٣٥٠)* 
یہی حکم فون بند کرنے کا ہے کہ دوران نماز ایک رکن میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ دو بار جیب کے اوپر سے موبائل کی گھنٹی بند کرنے کی اجازت ہے کہ اس عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر ایک رکن میں مثلا صرف قیام میں یا صرف رکوع میں تین بار گھنٹی بند کی تو نماز فاسد ہوجائے گی جس طرح ایک رکن میں تین بار کھجلانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ (موبائل فون کے ضروری مسائل صفحہ 111 112)خلاصہ : دوران نماز موبائل کی گھنٹی بجے تو ایک رکن میں ایک یا دو مرتبہ موبائل کی گھنٹی بند کر سکتے ہیں اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی ایک رکن میں تین بار گھنٹی بند کرنے سے نماز فاسد ہوجائے گی؛ نمازی کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ نماز کے وقت جب موبائل جیب میں تو سوئچ آف کر دینا چاہئیے یا کم سے کم سائلنٹ تو کر ہی دینا چاہئیے تاکہ کہ خود کے نماز میں خلل نہ ہو اور دوسروں کے نماز میں بھی خلل نہ ہو؛۔لہذ ا حالت نماز فون بند کرنا  یا کھجلانا اگر عمل قلیل کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہٗ احمد رضا قادری منظری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 8 /ستمبر 2022

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل:

قرآن و حدیث میں اہل اسلام کے لیے فرضیت  صلوۃ و صوم اور حج و زکوۃ کے ساتھ  صدقہ فطر کو بھی واجب قرار دیا ہے، صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اسی سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔

اللہ رب العزت جل جلالہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى،وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(سورۃالاعلی  آیت 14/15)
ترجَمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔(کنز الایمان)
اس آیت کریمہ کےتحت حضورصدرالا فاضل
مفسر قرآن حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ و الرضوان ’’ خزائن العرفان‘‘ میں لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقہ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نماز عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص1064)

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(بخاری شریف، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مقام پر صدقہ فطر کے بارے میں ارشاد فرمایا:
،، بندۂ مومن کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک بندہ مومن صدقہ فطر ادا نہ کرے۔(ملخصا۔الفردوس بمأثور الخطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)

صدقہ فطر واجب اور لغو باتوں کا کفارہ ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکہ مکرمہ  کے گلی کوچوں میں اعلان کر دو،کہ ’’صد قہ فطر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مقرر فرمایا تاکہ فضول اور بیہودہ کلام سے روزوں کی طہارت و صفائی ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔ 
(ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2 :  28، رقم :  1609)

صدقہ فطر واجب ہونے کے  16 مسائل:

(1)صدقہ فطر  ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور ان کا نصاب حاجات اصلیہ (یعنی ضروریات زندگی مثلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارغ ہو۔
(فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
(2)جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مال تجارت ہو (اور یہ سب حاجات اصلیہ سے فارغ ہوں ) یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اس کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے (مزید تفصیل  بہار شریعت ملاحظہ فرمائیں)۔
(3) صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مجنوون،پاگل بھی اگر صاحب نصاب ہوتو اس کے مال میں سے ان کا ولی، سرپرست صدقہ فطر ادا کرے۔
 (ردالمحتار ۳ص۳۶۵)
’’صدقہ فطر ‘‘ کے لئے مقدار نصاب تو وہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ صدقہ فطر  کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں زیارتی و بڑھنےکی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (جیسے عام ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہ وغیرہ)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملخصا)
(4) مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مجنون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مجنون خود صاحب نصاب ہے تو پھر اس کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(5) مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
(ایضاً ص۱۹۳ملخصا)
(6)والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے ان پہ صدقہ فطر  دینا واجب ہے۔ (درمختار ج۳ص۳۶۸)
(7) ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر  دینا واجب نہیں ۔ ( رد المحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
(8) باپ پر اپنی عاقل بالغ اولاد کا فطرہ واجب نہیں ۔ (درمختار مع ردالمحتار ج۳ص۳۷۰)
(9) کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ بغیر مجبوری کے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صدقہ فطر واجب ہے۔ (ردالمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
(10) بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذمے ہے، وہ اگر ان کی اجازت کے بغیر ہی ان کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے مثلاً بالغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان و نفقہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذمہ دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
(11)بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸)
(12) عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے وقت جو صاحب نصاب تھا اسی پر صدقہ فطر واجب ہے ،اگر صبح صادق کے بعد صاحب نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(13) صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت تو یہی ہے کہ عید کو صبح صادق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن بلکہ رمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (ایضاً)
(14)اگر عید کا دن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (ایضاً)
(15)صدقہ فطر کے مصا رف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کوفطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (ایضاًص۱۹۴ ملخصاً)
(16)سادات کرام کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔

صدقہ فطر کی مقدار:

گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے۔ 
(عالمگیری ج۱ص۱۹۱،درمختارج۳ص۳۷۲)
 ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو351/اکاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پچھتر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (ایضاً)
حاصل کلام:
قرآن و حدیث سےواضح ہوگیا کہ ہر مسلمان پر صدقہ فطر کا ادا کرنا نماز عید الفطر سے قبل یہ زیادہ افضل ہے ۔

اللہ رب العزت جل جلالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب مسلمانان اہل سنت کے صدقہ فطر، صوم و صلوۃ کو قبول فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

خدا کا انعام اور عید سعید۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

خاتم النبیین ، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کے predecessor تھے روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے just پہلے جو نبی تشریف لائے تھے ان کا نام ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے بھی عید منائی تھی۔ لیکن عید کیوں منائی تھی؟ کچھ تو سبب ہوگا ۔کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ ضرور خوشی کے کچھ اسباب ہونگے۔کیونکہ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں ۔ عید ، عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے۔ گویا انسان عید اس وقت مناتا ہے جب اس کو کوئی اہم نفع ملے یا فائدہ ملے۔
تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی امت کو کون سے فائدے ملے کہ انھوں نے عید منائی؟

کتابوں میں مذکور واقعہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تاکہ ہماری بھوک بھی مٹ جاۓ اور یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں اور ہم بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ خدا کی توحید اور آپ کی رسالت کی تبلیغ کر سکیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے دعا فرمائی:
اے اللہ ، اے ہمارے رب ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے۔

قادر مطلق رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا فرمایا کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ، اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزار نوجوان چلے اور سب نے عیسیٰ علیہ السلام سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان سب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوان نعمت اتارا ۔سب نے مل کر کھایا یہاں تک کہ سب شکم سیر ہوگیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سب کے سب ایمان لے آئے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے عید ہوگئی۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے اللہ کی طرف سے خوان نعمت کا اترنا عید / خوشی کا سبب بنا ۔

آنے والا یکم شوال بھی امت محمدی کے لیے عید ہے۔سارے ممالک میں ، سارے بر اعظموں میں بلکہ ساری دنیا میں یکم شوال کو مسلمان عید منائیں گے، نئے کپڑے پہنینگے، عطر لگائینگے، عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعات کی نماز پڑھیں گے، گلے مل مل‌ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کرینگے۔آخر کون سی خوشی ہے مسلمانوں کے لیے؟ کیا آسمان سے کوئی خوان نعمت اتارا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو بے بہا دولتیں مل گئی ہیں ؟ کیا مسلمانوں کو کسی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس روز ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔پھر بھی مسلمان عید کیوں منارہے ہیں ؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطر کی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ شب عید الفطر کا نام شب جائزہ / انعام کی رات رکھا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ ان پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے لیے روزے رکھے ، میرے لیے نمازیں پڑھیں اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔

تو اب سوچیے ایک مسلمان کے لئے اس بڑھ کر مسرت و شادمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کا پورا اجر عطا فرمائے،رب کریم مسلمانوں کے گناہوں کو بخش دے، بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔مسلمانون کے لیے سب سے بڑی نعمت تو یہی ہے کہ رب خود فرمائے کہ اے میرے بندو ! جاؤ تمھاری بخشش ہوگئی‌ ۔

مسلمانوں کے لیے آسمان سے کوئی خوان نعمت نہیں اترا بلکہ اللہ کی طرف بخشش کا مژدہء جانفزا آیا۔
مسلمانوں کے لیے کوئی materialistic چیز نہیں آئی، بلکہ روحانی سکون کا سامان نعمت لازوال بن کر آیا ۔کسی اور امت کے لیے خوان نعمت ایک بار آیا یا چند بار آیا ہوگا ، لیکن امت محمدی کے لیے شب جائزہ اور عید سعید کا دن ہر سال آتا ہے اور انعام بخشش گناہ لیکے آتا ہے۔اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
فبای آلاء ربکما تکذبان
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوگے؟
اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحمان و رحیم‌ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے ایک جلیل القدر پیغمبر تشریف لائے تھے جن کا نام ہے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام۔آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے جادوگر کے ساتھ تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مرعوب کرنے کے لیے فرعون کے ٧٣ ساحروں نے اپنی لاٹھیوں کو بظاھر سانپ بنا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جادو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم مرعوب ہوجائے اور راہ حق سے بھٹک جائے ، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی تو لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نمودار ہوا اور اس نے سارے سانپوں کو یکبارگی نگل لیا۔یہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے۔موسی’ علیہ السلام کے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر فرعون کی قوم‌ میں بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ کے نتیجے میں فرعون کی قوم کے پچاس ہزار آدمی مر گیے۔گویا حق کی جیت ہوئی اور باطل کو شکست فاش کا منھ دیکھنا پڑا ۔جس دن‌ یہ واقعہ رونما ہوا وہ دن امت موسیٰ کے لیے یوم زینت ہے، یوم عید ہے ۔

امت محمدی نے ماہ رمضان میں اپنے نفس کا قتل عام کیا ہے۔نفس امارہ کو مار مار کر یہ کہا ہے یا ایھا الذین ء آمنوا کتب علیکم الصیام ، رب کے حکم کے مطابق ، صرف رب کی رضا کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہے ، بھوکا بھی رہنا ہے اور پیاسا بھی رہنا ہے ۔ چاہے دھوپ کی تمازت پچاس یا ساٹھ ڈگری کیوں نہ ہوجائے ہمیں رب کی اطاعت میں صوم کی پابندی کرنی ہے۔ ہمیں نفس کو مار کر، نفس کو شکست فاش دےکر فتح و کامرانی سے سرفراز ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ صیام میں مسلمانوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔یوم عید الفطر میں باغ ایمان کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے۔کیا ایسے major event میں مسلمان عید نہ منائیں ؟ سرور و انبساط سے سرشار نہ ہوں؟ ایک دوسرے کو مبارک بادیاں پیش نہ کریں ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعت نماز نہ پڑھیں ؟ ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ نہ کریں ؟

بیشک۔ رب کے انھی انعامات کی خوشی میں عید کے دن ہم عمدہ اور اچھے لباس پہنیں ، عطر سے خود کو معطر کریں ، عید گاہ میں دو رکعت نماز پڑھیں، خطبہ سنیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کریں ، ایک دوسرے کو تہنیتیں پیش کریں تاکہ عید مبارک کے کلمے سے فضا گونج اٹھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر اجتماعی طور پر دعا مانگیں ، خاص طور پر ملک عزیز میں امن کی بحالی اور پوری دنیا میں مسلم قوم کے جان و مال و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے رب سے دعا کریں ۔خاص طور پر ان مواقع پر اللہ کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا۔ ان شا ء اللہ آپ اپنے گھروں کو مغفور ہوکر لوٹینگے اور خود کو بامراد اور کامیاب و کامران پائینگے۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید
“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
(سید عینی)

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔