WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

عید قرباں ،،از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


۔‌۔۔‌‌

منائیں نہ کیوں مل کے ہم عید قرباں
حدیثوں میں ھے جب رقم عید قرباں

براہیم کا ہے کرم عید قرباں
ہے اپنے لیے ذی حشم عید قرباں

پسندیدہ چشم شریعت میں تو ھے
ھے عظمت پہ سر اپنا خم عید قرباں

ہے سنت خلیل الہی کی اس میں
دلاتی ہے یاد حرم عید قرباں

ہمیں جذبہء بندگی اور ایثار
سکھاتی ھے ہر ہر قدم عید قرباں

خیال خلیل ‌خدا‌ میں ہیں گم ہم
مٹاتی ھے درد و الم عید قرباں

زمانے میں ھے یہ ہمارے لیے شاں
اٹھاتی ہے دیں کا علم عید قرباں

ہر اک بال کے بدلے ملتی ہے نیکی
ہمارے لیے ہے اہم عید قرباں

خدا‌ نے دیا جن کو انعام ، ان کا
دکھاتی ہے نقش قدم عید قرباں

ہمیں دیتی ہے پھول خوشیوں کا “عینی”
کہ ہے قاطع خار غم عید قرباں
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

کے مسلمانوں کی عید، تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال

آج کے مسلمانوں کی عید
تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال
اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیبﷺ کے صدقے طفیل ہمیں رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا فرمایا، تو جس مسلمان نے خالص اپنے رب کے لیے رمضان کے روزے رکھےنماز پڑھی اور سنت جان کر سحر و افطار کی نماز تراویح ادا کی رات کی تاریکیوں اور تنہائیوں میں اپنے رب کو راضی کیا اس مہینے میں غرباء اور مساکین کا خیال رکھا اور رمضان شریف کا ادب و احترام بجا لایا یعنی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو کہ ناجائز حرام ہے رمضان کا پورا مہینہ اسی طریقے سے گزارا اور اللہ تعالی اس سے راضی ہوگیا تو ان لوگوں کے لئے عید سعید کا انعام عطا فرمایا، عید کی رات اور دن بہت فضیلت والا ہے عید کی رات کو (لیلۃ الجائزہ) یعنی انعام کی رات کہا جاتا ہے اس لیے کہ جس نے روزہ رکھ کر مشقت برداشت کی ان کے لیے انعامات اس رات کو تقسیم کیے جاتے ہیں اور اسی رات میں روزے دار کے تمام گناہوں کو معاف بھی کر دیا جاتا ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے عید کی رات طلب ثواب کے لئے قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن تمام دل مر جائیں گے (مکاشفۃ القلوب) تو مسلمانوں کو چاہیے کہ عید کی پوری رات عید کی تیاری میں نہ گزارے بلکہ عبادت ریاضت میں گزار کر انعام و اکرام کا حقدار بنے، عموماًہر مذہب والے کسی نہ کسی دین عید ضرور مناتے ہیں اور خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں مگر ان کا عید منانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہ ان کی خوشی میں شامل ہوں مثلا ناچنا،گانا، شراب نوشی اور زنا کا عام ہونا،فحاشی،فضول خرچی اور کھیل کود اب اگر آج کے حالات کا محاسبہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح غیر مسلم کی عید میں طرح طرح کی برائیاں شامل ہوتی ہیں اسی طرح مسلمانوں کی عید میں بھی طرح طرح کی برائیاں شامل ہوتی ہیں جیسے ہی عید کا دین آیا لوگ مسجدوں سے دور ہو جاتے ہیں پورا دن نمازیں قضا کر کے گھومنے میں گزار دیتے ہیں پھر عید گاہ کے قریب یا دو چار دن کے بعد عجیب و غریب میلے لگتے ہیں اور دن بھر ہمارے مسلمان بھائی اور ان کے بچے میلہ گاہوں میں کھیل تماشے کرتے ہیں اور عورتیں بے پردہ ہو کر میلہ گاہوں کی زینت بن رہی ہوتی ہیں عید کے دن ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھومنے کے بہانے پارکوں میں مل کر عید کی مبارک بادی دیتے ہیں اور بے حیائی کا کھلم کھلا ارتکاب کر کے حیا کا جنازہ نکالتےہیں،

سکھائے ہیں محبت کے نئے انداز مغرب نے-

حیا سر پیٹتی ہے عصمتیں فریاد کرتی ہیں،

یہاں تک کہ ایک سے بڑھ کر ایک گناہ عید کے دن لوگ کرتے نظر آتے ہیں اے مسلمانو؛ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم عید کے دن گناہ کرنے کے بجائے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے اور دعائیں کرتے کہ اے اللہ تو نے ہمیں رمضان جیسا رحمت والا مہینہ عطا کیا اور تیری دی ہوئی توفیق سے ہم نے روزے رکھے اور نماز تراویح ادا کی تلاوت قرآن کی مالک ہماری ان تمام عبادات کو قبول فرما اور ہماری عمروں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں بار بار رمضان المبارک کا مہینہ عطا فرما ،لیکن افسوس آج کے مسلمان اگر اپنی عید برائیوں کو شامل کرکے نہ منائے تو ان کی عید ہی ادھوری رہ جائے گی
حضور نبی کریم ﷺجب مکہ شریف سے مدینہ تشریف لائے تو ان (اہل مدینہ )کے دو دن تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے نبی کریم ﷺنے دریافت فرمایا وہ دو دن کیا ہیں تواہل مدینہ نے عرض کی ہم دور جہالت میں ان دونوں میں کھیل کود کیا کرتے ہیں یہ سننے کے بعد رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں تمہیں دوبہترین دن عید الاضحی اور عید الفطر کے عطا فرما دیے ہیں
اس حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہوئی کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کھیل کود کر اپنی عید منایا کرتے تھے لیکن جب اسلام آیا تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عید منانے کے لیے دو دن عید الاضحیٰ اور عیدالفطر عطا فرمایا اگر اس زمانے میں بھی لوگ کھیل کود کر عید منایا کریں تو پھر زمانہ جاہلیت اور اس زمانے میں کیا فرق رہ جائے گا
اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور عید کے دن ہونے والے تمام خرفات سے بچائے
میری طرف سے آپ سب کو عید مبارک اللہ تعالی آپ کی زندگی کے ہر لمحہ کو عید بنا دے
آمین بجاہ النبی الامین

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل:

قرآن و حدیث میں اہل اسلام کے لیے فرضیت  صلوۃ و صوم اور حج و زکوۃ کے ساتھ  صدقہ فطر کو بھی واجب قرار دیا ہے، صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اسی سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔

اللہ رب العزت جل جلالہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى،وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(سورۃالاعلی  آیت 14/15)
ترجَمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔(کنز الایمان)
اس آیت کریمہ کےتحت حضورصدرالا فاضل
مفسر قرآن حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ و الرضوان ’’ خزائن العرفان‘‘ میں لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقہ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نماز عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص1064)

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(بخاری شریف، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مقام پر صدقہ فطر کے بارے میں ارشاد فرمایا:
،، بندۂ مومن کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک بندہ مومن صدقہ فطر ادا نہ کرے۔(ملخصا۔الفردوس بمأثور الخطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)

صدقہ فطر واجب اور لغو باتوں کا کفارہ ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکہ مکرمہ  کے گلی کوچوں میں اعلان کر دو،کہ ’’صد قہ فطر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مقرر فرمایا تاکہ فضول اور بیہودہ کلام سے روزوں کی طہارت و صفائی ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔ 
(ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2 :  28، رقم :  1609)

صدقہ فطر واجب ہونے کے  16 مسائل:

(1)صدقہ فطر  ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور ان کا نصاب حاجات اصلیہ (یعنی ضروریات زندگی مثلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارغ ہو۔
(فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
(2)جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مال تجارت ہو (اور یہ سب حاجات اصلیہ سے فارغ ہوں ) یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اس کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے (مزید تفصیل  بہار شریعت ملاحظہ فرمائیں)۔
(3) صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مجنوون،پاگل بھی اگر صاحب نصاب ہوتو اس کے مال میں سے ان کا ولی، سرپرست صدقہ فطر ادا کرے۔
 (ردالمحتار ۳ص۳۶۵)
’’صدقہ فطر ‘‘ کے لئے مقدار نصاب تو وہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ صدقہ فطر  کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں زیارتی و بڑھنےکی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (جیسے عام ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہ وغیرہ)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملخصا)
(4) مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مجنون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مجنون خود صاحب نصاب ہے تو پھر اس کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(5) مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
(ایضاً ص۱۹۳ملخصا)
(6)والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے ان پہ صدقہ فطر  دینا واجب ہے۔ (درمختار ج۳ص۳۶۸)
(7) ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر  دینا واجب نہیں ۔ ( رد المحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
(8) باپ پر اپنی عاقل بالغ اولاد کا فطرہ واجب نہیں ۔ (درمختار مع ردالمحتار ج۳ص۳۷۰)
(9) کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ بغیر مجبوری کے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صدقہ فطر واجب ہے۔ (ردالمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
(10) بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذمے ہے، وہ اگر ان کی اجازت کے بغیر ہی ان کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے مثلاً بالغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان و نفقہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذمہ دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
(11)بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸)
(12) عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے وقت جو صاحب نصاب تھا اسی پر صدقہ فطر واجب ہے ،اگر صبح صادق کے بعد صاحب نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(13) صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت تو یہی ہے کہ عید کو صبح صادق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن بلکہ رمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (ایضاً)
(14)اگر عید کا دن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (ایضاً)
(15)صدقہ فطر کے مصا رف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کوفطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (ایضاًص۱۹۴ ملخصاً)
(16)سادات کرام کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔

صدقہ فطر کی مقدار:

گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے۔ 
(عالمگیری ج۱ص۱۹۱،درمختارج۳ص۳۷۲)
 ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو351/اکاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پچھتر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (ایضاً)
حاصل کلام:
قرآن و حدیث سےواضح ہوگیا کہ ہر مسلمان پر صدقہ فطر کا ادا کرنا نماز عید الفطر سے قبل یہ زیادہ افضل ہے ۔

اللہ رب العزت جل جلالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب مسلمانان اہل سنت کے صدقہ فطر، صوم و صلوۃ کو قبول فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

سب کو سینے سے لگاؤ دن ہے عیدالفطر کا ہیں،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں “عید” اور “الفطر” سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے “عود” عاد یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا ، پھر آنا- چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے ‘سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو “عید” کہتے ہیں۔
فطر کے معنیٰ کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے “فطور” کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے- مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادری کے ان افراد کو بھی صدقۂ فطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۂ فطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔
ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اس روز عید منائی تھی جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی امت اس روز عید مناتی تھی جس روز حضرت یونس کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم اس روز عید مناتی تھی، جس روز حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔

دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریمﷺ جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ چھوٹے چھوٹے تہواروں کے علاوہ نو روز کا جشن اور کچھ بڑے بڑے بتوں کی پوجا کا تہوار بھی مناتے تھے حضور ﷺ نے ان باتوں کو سخت نا پسند فرمایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا ضحیٰ منایا کرو۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا ہے۔ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا بڑا امیر غریب مرد عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک واحتشام سے عید الفطر مناتے ہیں۔

عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے “اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے” عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔ لہٰذا آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا ہی نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔

یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو

کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو

اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر عموماً رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ صدقۂ فطر دیا جاتا ہے-

اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں غربت وافلاس کی وجہ سے کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گی ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو اوائل رمضان میں ہی ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکیں ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے اگر ہم کو مال ودولت سے نوازا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہےکہ ہم اللّٰہ کے عطاکردہ مال سے اپنے ان بھائیوں کی بھی ضرورتوں کی تکمیل کرنے کی کوشش کریں جو اس کے مستحق ہیں-

اصل عید کیا ہے؟
رمضان کی ایک مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد دو رکعت شکرانہ کے طور پر نماز عید ادا کی جاتی ہے یہ اس بات کی خوشی کا نام ہے کہ ہم نے اللہ کے فریضہ کو ادا کرلیا [ذٰلک فضل اللہ] اللہ تعالی نے جو انعام اس پر عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ہم اس پر خوش ہیں، اللہ کے حکم کی پاسداری پر خوش ہیں، رمضان کا احترام بجا لانے پر خوش ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ رمضان میں ہر طرح کے گناہوں سے بچایا، رمضان کے شب و روز کو ذکر و تلاوت، دعا و استغفار، صدقہ و خیرات غرباء پر کرنے اور گناہوں سے اجتناب کی توفیق عطا ہوئی،رمضان درس تقویٰ ہے،حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان اور اس کے اعمال کی برکت سے ظاہر و باطن کا تقویٰ حاصل ہو اور گیارہ مہینے رمضان کے سبق کے ذریعہ اہتمام تقویٰ پر قوت اور توفیق ملتی رہے، اور پھر بار بار ماہ مبارک ملتا رہے تاکہ تقویٰ میں نکھار پیدا ہوتا رہے- ہماری عید تو اللہ کی مرضیات پر قربان ہونے میں ہے، ہماری عید رمضان کے پورے ہونے پر فطرہ کی ادائیگی،غرباء کو عید کے دن خوش رکھنے میں ہے، ہماری خوشی اس میں ہے کہ امیر غریب سب عید اچھے کپڑے میں ادا کریں، ہماری عیداس میں ہے کہ یتیم، بیوہ، غریب،مسکین سب خوشی میں شریک رہیں، سب کے گھر خوشی کے کھانے پکیں اور سب کے گھر خوشی کے گیت گائے جائیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ شب عید میں “عتق من النار” کا فیصلہ سب لوگ سن لیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک عید گاہ “الله اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد” کا ترانہ عید میں اپنے من میں اور آہستہ گنگناتا جائے اور عیدالاضحیٰ میں بآواز بلند گاتا جائے اور ایک راستہ سے جائے اور دوسرے راستہ سے واپس آئے اس میں خوشی میں مچلنا بھی ہے اور دونوں راستوں کو گواہ بنانا بھی ہے- اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ھٰذا عیدنا”
ہماری عید آپے سے باہر ہونے کا نام نہیں ہے- ہماری عید ظلم و ستم کی غماز نہیں ہے، ہماری عید کسی پر کیچڑ اچھالنے کا نام نہیں ہے، ہماری عید تو باربار خوشی کے لانے اور لوگوں کو بار بار خوش کرنے کا نام ہے-آپس میں اگر کچھ دوری بھی رہی ہو تو قرب سے بدل جائے، دشمنی دوستی سے بدل جائے،بےوفائی وفاداری سے بدل جائے-

عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا خوش کن اعلان ہوتا ہے بیہقی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب لوگوں کی عید یعنی افطار[عیدالفطر] کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اظہار فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر دیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! اس کا بدلہ یہ ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری بندیوں نے میرا فریضہ جو ان کے ذمہ تھا پورا کردیا پھر فریاد کرتے ہوئے دعا کرتے ہوئے نکل پڑے ہیں، میری عزت وجلال اور میرے کرم اور میری علو شان اور میرے مقام کی بلندی کی قسم میں ان کی فریاد اور دعا ضرور سنوں گا اور ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، اس کے بعد اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے “ارجعوا قد غفرتُ لکم وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات” لوٹ جاؤ میں نے تم سب کی مغفرت کر دی اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا چنانچہ بندے عید کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے ہیں تو ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے-

ایک گنہگار بندے کی سب سے بڑی ضرورت اور حاجت اس کی معافی اور مغفرت ہے جس کا اعلان عید کے روز جاتا ہے، اب سنبھلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کسی نعمت کو حاصل کرنے کے بعد اس کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے-

آج ہمارے معاشرے میں کیا چل رہا ہے؟عید کی نماز سے فراغت کے بعد جہاں تقویٰ اور اعمال صالحہ میں روزافزوں ترقی ہونی چاہییے تھی،مسلمان بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ پلٹ کر گناہوں میں ملوث ہونے لگتاہے،شراب،جوا،بدچلنی،بدفعلی،زنا،بدنگاہی،بدزبانی،فسق وفجور،نماز سے لاپرواہی،تلاوت سے غفلت، اضاعتِ حقوق اور مختلف قسم کے معاصی کادروازہ پلٹ کر کھول دیتا ہے اور رمضان وروزہ کا سکھایا ہوا سبق بھول جاتا ہے-

عید الفطر خوشی کا دن: عیدالفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقۂ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا-
اور عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیساکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيُنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ وَ يَوْمِ الْاَضْحَی.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے دو دنوں فطر اور اضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘(ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی صوم العيدين، 2: 314، رقم: 2417)

چاندرات کی فضیلت:چاندرات بڑی اہمیت وفضیلت کی حامل رات ہے،اسے “لیلة الجائزہ” بھی کہاجاتا ہے،مسلمانوں نے رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھ کر حکم خداوندی کو سرانجام دیا-ان کا یہ پاکیزہ عمل مکمل ہوگیا تو آج کی رات ان کے انعام کی رات ہے –
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کانام “لیلة الجائزہ” [یعنی انعام حاصل کرنے والی رات] رکھاجاتاہے-(شعب الایمان للبیہقی ج/5 ص/278 رقم الحدیث:3421)
اس لیے اس رات کو فضولیات میں ضائع نہیں کرناچاہییے بلکہ اس کی برکات، رحمتوں اور من جانب اللہ مغفرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہییے-اس رات کی اہمیت وفضیلت پر چندروایات ملاحظہ کریں!
★حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے عیدین کی راتوں میں اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کیا[یعنی عبادات کوسرانجام دیا]تو اس کادل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے-(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:1772)
★حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کی جانے والی دعاکو رد نہیں کیا جاتا- 1…جمعہ کی رات،2…رجب کی پہلی رات،3…شعبان کی پندرہویں رات،4…عیدالفطر،5… اور عیدالاضحیٰ کی دو راتیں-
ان روایات اور دیگر کئی روایات کے پیش نظر محدّثین نے اس رات کی عبادت کو خاص طور پر ذکر کیا ہے-لہٰذا اس رات کی اہمیت کے پیش نظر اس رات زیادہ سے زیادہ عبادت،ذکرواذکار اور درود شریف کاورد کرناچاہییے اور اگر زیادہ عبادت وریاضت نہ کرسکیں تو کم ازکم فسق وفجور اور لایعنی کاموں میں تو نہ پڑیں،عشاء کی نماز باجماعت مسجد میں اداکرکے آرام کریں اور صبح جلدی اٹھ کر نمازتہجد اداکریں اور پھر نماز فجر باجماعت اداکریں-اللّٰہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو پوری رات عبادت کاثواب عطافرمائےگا،اس طریقے سے گناہوں سے حفاظت بھی رہےگی اور ثواب بھی ملےگا [ان شاء اللہ تعالیٰ]-

اس رات یہ کام کریں:

چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دیتے ہوں ۔
مگر عموماً معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے-

عید کی رات کو مندرجہ ذیل چندامور انجام دینے کی کوشش کرنی چاہییے!
(1)نوافل پڑھنا…(2)قرآن مقدس کی تلاوت کرنا…(3)صدقہ وخیرات کرنا…(4)دعاؤں کااہتمام کرنا…(5)ذکرواذکار اور درود شریف کا ورد…(6)توبہ واستغفار اور اپنے گناہوں سے بصدق دل معافی مانگنا…(7)امت مسلمہ کی بھلائی وعافیت کی دعا کرنا…(8)رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا…(9)اگر کسی کی حق تلفی ہوگئی ہو تو اس سے معافی مانگنا…(10)اگر کسی نے ظلم وزیادتی کی ہو تو اسے معاف کرنا…(11)آپسی نااتفاقی کو دور کرکے اتفاق واتحاد اور صلح وآشتی کے فضا کوقائم کرنے کی کوشش کرنا-

چاند رات کی جس قدر اہمیت ہے لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے ،اس رات کو عموماً عبادات کے بجائے فضولیات ولغویات میں ضائع کردیتے ہیں،جب کہ ایک مسلمان کی یہ شان ہونی چاہییے کہ وہ نیکیوں کوجمع کرنے میں ہی حتی الامکان مصروف عمل رہے،کچھ بعید نہیں کہ اس رات کی ہماری تھوڑی سی عبادت ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری قبولیت کاسبب بن جائے،اس لیے شوق اور ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ عبادات سرانجام دینی چاہییے-
بعض لوگ اس رات میں آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہیں،اس سے یکسر اجتناب کرناچاہییے کہ اس میں جانی نقصان کا خطرہ ہونے کے ساتھ مالی نقصان اور اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسراف[فضول خرچی]کرنے والوں کو شیطان کابھائی قرار دیا ہے،اس لیے شیطانی کاموں سے بچتے ہوئے نیک امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی کوشش کریں-
بعض لوگ اس رات کو گلیوں اور بازاوں میں گھوم کر ضائع کردیتے ہیں-اس سے بھی اجتناب ضروری ہے،ہاں!اگر واقعی میں کسی چیز کی ضرورت ہو اور بازار جاناپڑے تو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مطلوبہ چیز لے کر فوراًاپنے گھر واپس آناچاہییے،بازاروں میں بلاضرورت گھومنے کے بجائے یہ رات اپنے گھروں یا پھر مساجدوغیرہ میں عبادت وریاضت میں گذارنی چاہییے-

عید کی کچھ سنتیں اور مستحبات:
(1)نمازعید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا(2)غسل کرنا(3)طہارت ونظافت کا خصوصی اہتمام کرنا(4)حسبِ استطاعت نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنا (5)خوشبو لگانا(6)عدگاہ جانے سے پہلےکھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا،حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی(بخاری:9530)
(7)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے-حضرت ابورافع روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:1300)
(8) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(9) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

شوال کے چھ روزے رکھنا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث مبارکہ میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں اور شوال کے ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہےحضرت عمر بن ثابت خزرجی سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے( صحیح مسلم رقم الحدیث:1164)
اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے-(مسنداحمد:14302)
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو”پورے زمانے کے روزے”اور دوسری حدیث میں “پورے سال کے روزے”رکھنے کی مانند قرار دیاگیا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو بقاعدہ “الحسنة بعشر امثالھا” [ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنا ہے] اس ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں-اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابربن جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے،اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح طور پر سمجھ میں آتا ہےکہ “گویا اس نے پورےسال کے روزے رکھے” نیز اگر مسلمانوں کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گذاری ہو-
اس توجیہ سے حدیث مذکور کا مضمون “یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے” بالکل واضح ہو جاتا ہے-لہٰذاکوشش کرنی چاہییے کہ اس فضیلت کو حاصل کرلیا جائے-
نوٹ:اگر کسی کے ذمہ رمضان کےروزے ہوں تو احتیاطاً پہلے ان روزوں کی قضا کی جائے،بعد میں شوال کے بقیہ دنوں میں ان چھ روزوں کو رکھاجائے-اور شوال کے یہ چھ روزے عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے بعد جب بھی چاہے رکھ سکتے ہیں،بس اس بات کااہتمام کر لیاجائے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال ہی میں مکمل ہونی چاہییے-
بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اور اگر عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ متواتر رکھ لیے جائیں جب بھی کوئی حرج نہیں-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو عید الفطر کی حقیقی خوشیاں نصیب کرے-آمین!

خدا کا انعام اور عید سعید۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

خاتم النبیین ، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کے predecessor تھے روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے just پہلے جو نبی تشریف لائے تھے ان کا نام ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے بھی عید منائی تھی۔ لیکن عید کیوں منائی تھی؟ کچھ تو سبب ہوگا ۔کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ ضرور خوشی کے کچھ اسباب ہونگے۔کیونکہ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں ۔ عید ، عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے۔ گویا انسان عید اس وقت مناتا ہے جب اس کو کوئی اہم نفع ملے یا فائدہ ملے۔
تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی امت کو کون سے فائدے ملے کہ انھوں نے عید منائی؟

کتابوں میں مذکور واقعہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تاکہ ہماری بھوک بھی مٹ جاۓ اور یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں اور ہم بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ خدا کی توحید اور آپ کی رسالت کی تبلیغ کر سکیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے دعا فرمائی:
اے اللہ ، اے ہمارے رب ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے۔

قادر مطلق رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا فرمایا کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ، اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزار نوجوان چلے اور سب نے عیسیٰ علیہ السلام سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان سب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوان نعمت اتارا ۔سب نے مل کر کھایا یہاں تک کہ سب شکم سیر ہوگیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سب کے سب ایمان لے آئے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے عید ہوگئی۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے اللہ کی طرف سے خوان نعمت کا اترنا عید / خوشی کا سبب بنا ۔

آنے والا یکم شوال بھی امت محمدی کے لیے عید ہے۔سارے ممالک میں ، سارے بر اعظموں میں بلکہ ساری دنیا میں یکم شوال کو مسلمان عید منائیں گے، نئے کپڑے پہنینگے، عطر لگائینگے، عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعات کی نماز پڑھیں گے، گلے مل مل‌ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کرینگے۔آخر کون سی خوشی ہے مسلمانوں کے لیے؟ کیا آسمان سے کوئی خوان نعمت اتارا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو بے بہا دولتیں مل گئی ہیں ؟ کیا مسلمانوں کو کسی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس روز ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔پھر بھی مسلمان عید کیوں منارہے ہیں ؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطر کی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ شب عید الفطر کا نام شب جائزہ / انعام کی رات رکھا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ ان پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے لیے روزے رکھے ، میرے لیے نمازیں پڑھیں اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔

تو اب سوچیے ایک مسلمان کے لئے اس بڑھ کر مسرت و شادمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کا پورا اجر عطا فرمائے،رب کریم مسلمانوں کے گناہوں کو بخش دے، بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔مسلمانون کے لیے سب سے بڑی نعمت تو یہی ہے کہ رب خود فرمائے کہ اے میرے بندو ! جاؤ تمھاری بخشش ہوگئی‌ ۔

مسلمانوں کے لیے آسمان سے کوئی خوان نعمت نہیں اترا بلکہ اللہ کی طرف بخشش کا مژدہء جانفزا آیا۔
مسلمانوں کے لیے کوئی materialistic چیز نہیں آئی، بلکہ روحانی سکون کا سامان نعمت لازوال بن کر آیا ۔کسی اور امت کے لیے خوان نعمت ایک بار آیا یا چند بار آیا ہوگا ، لیکن امت محمدی کے لیے شب جائزہ اور عید سعید کا دن ہر سال آتا ہے اور انعام بخشش گناہ لیکے آتا ہے۔اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
فبای آلاء ربکما تکذبان
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوگے؟
اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحمان و رحیم‌ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے ایک جلیل القدر پیغمبر تشریف لائے تھے جن کا نام ہے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام۔آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے جادوگر کے ساتھ تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مرعوب کرنے کے لیے فرعون کے ٧٣ ساحروں نے اپنی لاٹھیوں کو بظاھر سانپ بنا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جادو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم مرعوب ہوجائے اور راہ حق سے بھٹک جائے ، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی تو لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نمودار ہوا اور اس نے سارے سانپوں کو یکبارگی نگل لیا۔یہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے۔موسی’ علیہ السلام کے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر فرعون کی قوم‌ میں بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ کے نتیجے میں فرعون کی قوم کے پچاس ہزار آدمی مر گیے۔گویا حق کی جیت ہوئی اور باطل کو شکست فاش کا منھ دیکھنا پڑا ۔جس دن‌ یہ واقعہ رونما ہوا وہ دن امت موسیٰ کے لیے یوم زینت ہے، یوم عید ہے ۔

امت محمدی نے ماہ رمضان میں اپنے نفس کا قتل عام کیا ہے۔نفس امارہ کو مار مار کر یہ کہا ہے یا ایھا الذین ء آمنوا کتب علیکم الصیام ، رب کے حکم کے مطابق ، صرف رب کی رضا کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہے ، بھوکا بھی رہنا ہے اور پیاسا بھی رہنا ہے ۔ چاہے دھوپ کی تمازت پچاس یا ساٹھ ڈگری کیوں نہ ہوجائے ہمیں رب کی اطاعت میں صوم کی پابندی کرنی ہے۔ ہمیں نفس کو مار کر، نفس کو شکست فاش دےکر فتح و کامرانی سے سرفراز ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ صیام میں مسلمانوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔یوم عید الفطر میں باغ ایمان کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے۔کیا ایسے major event میں مسلمان عید نہ منائیں ؟ سرور و انبساط سے سرشار نہ ہوں؟ ایک دوسرے کو مبارک بادیاں پیش نہ کریں ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعت نماز نہ پڑھیں ؟ ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ نہ کریں ؟

بیشک۔ رب کے انھی انعامات کی خوشی میں عید کے دن ہم عمدہ اور اچھے لباس پہنیں ، عطر سے خود کو معطر کریں ، عید گاہ میں دو رکعت نماز پڑھیں، خطبہ سنیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کریں ، ایک دوسرے کو تہنیتیں پیش کریں تاکہ عید مبارک کے کلمے سے فضا گونج اٹھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر اجتماعی طور پر دعا مانگیں ، خاص طور پر ملک عزیز میں امن کی بحالی اور پوری دنیا میں مسلم قوم کے جان و مال و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے رب سے دعا کریں ۔خاص طور پر ان مواقع پر اللہ کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا۔ ان شا ء اللہ آپ اپنے گھروں کو مغفور ہوکر لوٹینگے اور خود کو بامراد اور کامیاب و کامران پائینگے۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید
“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
(سید عینی)

باعث کیف و فرحت ہےعید سعید، ازقلم، سید خادم رسول عینی

عید سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید

عید گاہوں کا کہتا ہے بڑھتا ہجوم
ہر مسلماں کی شوکت ہے عید سعید

ہر مسلماں کے چہرے پہ مسکان ہے
باعث کیف و فرحت ہے عید سعید

دوست ہوں یا کہ دشمن گلے ملتے ہیں
کس قدر وجہ الفت ہے عید سعید

خوب رکھو خیال اپنے احباب کا
روز احسان و نصرت ہے عید سعید

رحمت حق سے ہوتے ہیں ہم مالا مال
یوں ہماری سعادت ہے عید سعید

مغفرت سے نوازے گئے صائمین
بخشش رب کی ساعت ہے عید سعید

“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی