WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category مارہرہ شریف

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ و محترم جناب عمران دادانی صاحب کی یاد میں خانقاہ برکاتیہ میں محفل کا انعقاد..محمد حسن رضاجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف15/فروری 2023ء

جیسے ہی یہ دل خراش خبر کانوں میں پڑی ، کہ خادم قرآن ناشرِ کنزالایمان الحاج محمد عمران دادانی رضوی صاحب (بانی نشانِ اختر ممبئی) [14؍فروری 2023ء مطابق 22 / رجب المرجب 1444ھ بروز منگل] وصال فرما گئے ، تو فوراً ہی بے ساختہ زبان سے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کی صدا بلند ہوئی ، سبحان اللہ دن بھی کیا پیارا نصیب ہوا ، کہ جس دن کو کاتب وحی خال المومنین صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے نسبت ہے ، اسی سلسلے میں آج 22/ رجب المرجب 1444ھ کو بعد نماز مغرب برکاتی مسجد (خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف) میں ایصال ثواب کی محفل منعقد ہوئی ، تلاوت قرآن و حمد و نعت و منقبت کے بعد برکاتی دولہا حضور رفیق ملت دامت برکاتہم العالیہ تشریف لائے ، میں یہاں پر مرشد کریم کے اقوال نقل سے پہلے دادانی صاحب کے عظیم کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ کی جھلک پیش کرنا چاہوں گا۔
دادانی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ الفی قرآن کی اشاعت ہے ، جس کا ہر صفحہ الف سے شروع ہوتا ہے ، اس کام کے لئے چار کاتبوں وچھ علما نے پیرطریقت حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی مدظلہ العالی کی سرپرستی میں کام کیا۔ ساتھ ہی کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن کی از سر نو تصحیح کراکے شائع کرایا۔
اس قرآن پاک کی اشاعت کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ پورا قرآن‌ پاک ہاتھ سے تحریر کیا گیا اور ڈیزائننگ بھی کاتبوں نے ہی کی۔ جو قابل دید ہے۔ جب یہ قرآن‌ پاک سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے پاس گیا تو شاہ نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور ایوارڈ دینے کے لئے بلایا اور قرآن پاک کا یہ عظیم پروجیکٹ حاصل کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی مگر دادانی صاحب نے اس پروجیکٹ کو اپنے پاس ہی رہنے دیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج ان کا ذکر ، اس عظیم خانقاہ (خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف) میں بھی کیا گیا۔ مرشد نے خود فرمایا:
کہ انسان اپنے کام کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے ، اگر عمران دادانی صاحب یہ کام نہیں کرتے تو خانقاہ برکاتیہ میں انہیں یاد نہیں کیا جاتا ، خانقاہ برکاتیہ نہ کسی کو امول لگاتی ہے نہ پولش کرتی ہے ، جو کام کرتا ہے اسی کا ذکر کرتی ہے ، تو ہم سب کو بھی چاہیے کہ کام کی طرف متوجہ ہوں ، کام ہی انسان کو معزز بناتا ہے ، اللہ کا وہ نیک بندہ جس نے آج سے سو سال پہلے جو کام کیا ، دنیا آج بھی اس کے کام کو یاد کرتی نظر آتی ہے ، جس کا نام ہے امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی۔ (علیہ الرحمہ)
اب تقریر کا کچھ رنگ بدلا ، کیونکہ برکاتیوں کی محفل میں جب امام کا نام آتا ہے ، تو چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ، اور خانقاہ برکاتیہ کی تو کوئی ایسی محفل ہی نہیں ہوتی جس میں اعلیٰ حضرت کا ذکر نہ ہوتا ہو ، ہر محفل میں یہی اعلان ہوتا ہے کہ مسلک اعلیٰ حضرت کو مضبوطی سے تھامے رہنا کیونکہ
تیری الفت میرے مرشد نے مجھے
دی ہے گھٹی میں پلا احمد رضا

اس کے بعد ابا حضور نے ہم سب سے پوچھا کہ آج 22 رجب المرجب ہے آج کس کا دن ہے ، ہم سب نے بیک زباں ہو کر بلند آواز سے عرض کیا حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا پھر فرمایا حضرت امیر معاویہ کون ہیں ، ہم سب نے عرض کیا کاتب وحی و صحابی رسول ہیں ، اس کے بعد فرمایا انبیا کے بعد سب سے افضل بشر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور فضیلت کی ترتیب وہی ہے جو ترتیبِ خلافت ہے ، یہی عقیدہ تمہیں جامعہ احسن البرکات میں پلایا گیا ہے ، اس عقیدہ کو ہمیشہ مضبوطی سے تھامے رہنا ، اور اس عقیدہ کو اپنے ساتھ لے کر جانا کہ انبیاء کے بعد سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں۔

ہمیں مولی علی سے پیار ہے
مگر افضل یار غار ہے

اس کے بعد صلاوۃ و سلام پڑھا گیا اور دعا کے ساتھ محفل کا اختتام ہوا۔


محمد حسن رضا
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
15/فروری 2023ء

خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں ترکی وسیریا کے مسلمانوں کے لیے خاص دعا کا اہتمام.رپورٹ:محمدحسن رضاجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف9/ فروری 2023ء

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ

ترجمہ: جب زمین تھرتھرا دی جائے گی جیسے اس کا تھرتھرانا طے ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ، کہ اس وقت ترکی ، سیریا (Syria) وغیرہ میں ، بڑا غم کا ماحول ہے ، ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آ رہی ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے ، بڑی بڑی عمارتوں تلے دب کر رہ گئے ہیں ، یقیناً یہ منظر دیکھ کر رونا آتا ہے۔ اسی غم کے ماحول میں ،
آج (9 فروری 2023ء) خانقاہ برکاتیہ (مارہرہ شریف) کے تحت چلنے والے ادارے جامعہ احسن البرکات ، کی اسمبلی میں ، شفیق العلما و الطلبا حضور رفیق ملت دامت برکاتہم العالیہ تشریف لائے اور ہم طلبہ کو ترکی کے مسلمانوں کے حالات ارشاد فرماتے ہوئے رو دیے ، اور فرمایا:
“بیٹا! یہ غرور و گھمنڈ کس بات کا، یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا اور باقی رہ جانے والی ذات بس اللہ کی ہے، یہ زمین و آسمان سب اس کے حکم کے تحت ہیں۔”

اور فرمایا: “آج سب کو معلوم ہے کہ ترکی وغیرہ میں کیسی تباہی مچی ہوئی ہے، چھوٹے چھوٹے بچے زیرو ٹیمپریچر (zero temperature) میں بغیر کپڑوں کے بڑی بڑی عمارتوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں”
اور پھر بڑی دردناک آواز میں فرمایا: “ہم مالی اور جسمانی مدد تو نہیں کر سکتے لیکن ہم ایک طرح سے ان کی مدد کر سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ ہم ان مسلمانوں کے لیے جو شہید ہو گئے ہیں ، ایصال ثواب کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ پاک ان کے گناہوں کو معاف فرمائے،اور تمام مسلمانوں پر رحم فرمائے، ان کی پریشانیوں کو دور فرمائے، پھر ہم طلبہ کو تاکیداً فرمایا:”آپ جو کچھ پڑھیں (اور ظاہر ہے آپ اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی پڑھو گے) تو اس کا ثواب ترکی وغیرہ میں زلزلے کے سبب شہید ہونے والے مسلمانوں کی ارواح کو بخش دینا۔”

یہ اللہ کے نیک بندوں کی ہی شان ہوا کرتی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر پریشانیاں آتی ہیں تو ان کے دل پیچین ہو جاتے ہیں ، وہ اپنی ہر مجلس میں ان کے لیے دعا کرتے ہیں ، اور ہم نے بھی یہی دیکھا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی بڑی مصیبت آئی ہے ، تو خانقاہ برکاتیہ (مارہرہ شریف) میں ،اس کے دفاع کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں ، حضور رفیق ملت نے خود ارشاد فرمایا “آج اپنے مسلمان بھائیوں کی یہ حالت دیکھ کر دل بہت غمگین اور بیچین ہے ،اسی لیے آج دعا کا خاص اہتمام کیا گیا ہے،اور بیٹا آپ لوگ اپنی ہر نماز میں ان کے لیے دعائیں کرنا ، کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد مسلمانوں کو اس سے نجات عطا فرمائے- آمین”

اور پھر ترکی ، سیریا (Syria) وغیرہ میں شہید ہونے والے مرحومین کے لیے خاص طور پر سورۂ فاتحہ و سورۂ اخلاص پڑھ کر ایصال ثواب کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولی تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارک کے صدقے مسلمانوں کی مدد فرمائے اور جلد از جلد اس آفت سے نجات عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

محمدحسن رضا
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
9/ فروری 2023ء

عرس نوری کے نورانی پیغامات✒️ کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

١-اپنے بچوں اور بچیوں پر شفقت کے ساتھ ان کی خصوصی نگرانی بھی رکھیں،خصوصاً انہیں موبائل کے بے جا استعمال سے دور رکھیں .
٢-حلال کمائیں ،حلال کھائیں،اور حلال کمائی ہی سے مسجد، مدرسے کا تعاون کریں.
٣-شادی یا دیگر تقریبات میں کھانے میں اعتدال برتنے کے ساتھ رزق الہی کا احترام کریں ، بلا وجہ تضییع رزق سے بچیں.
٤- علم خصوصاً علم دین حاصل کرکے اس کی ترویج و اشاعت کریں.
٥-بڑے چھوٹوں پر شفقت اور چھوٹے بڑوں کا ادب کریں.
٦-طلبہ اپنے اساتذہ کا حد درجہ احترام کریں کہ اس کے بغیر حصول علم ممکن نہیں.
٧-مسلک حق، مسلک اعلی حضرت پر قائم رہیں.
٨-حضرات خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں وہی عقیدہ رکھیں جو ہمارے اسلاف سے متوارث ہے.
٩-علما کا احترام کریں.
١٠ – پیران عظام اپنے مریدوں سے لینے کے بجائے انہیں دینے کی کوشش کریں.
١١-طریقت بغیر شریعت مقبول نہیں، لہٰذا طریقت سے فیض یابی کے لئے شریعت کی پابندی کریں.
١٢-جلسہ جلوس اور عرس وغیرہ میں جانے کے ساتھ مسجد میں بھی جایا کریں.
١٣-اگر اپنے ابا(حضور رفیق ملت) کو بھی مسلک سے منحرف دیکھنا تو انہیں بھی چھوڑ دینا مگر مسلک نہ چھوڑنا(فارغین احسن البرکات کو حضور رفیق ملت کی نصیحت)
١٤ – علماوطلبہ دنیاوی جاہ و منصب والوں سے کبھی مرعوب نہ ہوں۔
١٥-خوب کمائیں اور زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ نکال کر مستحقین تک پہنچائیں.

✒️ کمال احمد علیمی نظامی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

مولانا محمد عرفان ازہری صاحب کو تاج المشائخ حضور امینِ ملت نے خلافت سے نوازا محمد ارقم رضا نوریجامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف

     ماہر درسیات، استاذ العلما، حضرت علامہ و مولانا محمد عرفان ازہری  مرادآبادی صاحب قبلہ (أدامه اللہ بالعز والکرامة) جماعتِ اہل سنت کے عظیم المرتبت عالمِ دین اور رفیع الشان مدرس ہیں۔ آپ بر صغیر کی مشہور و معروف خانقاہ، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے تحت چلنے والے گراں قدر جامعہ، جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف کے صدر المدرسین ہیں۔ جب سے آپ کو یہ عہدہ سپرد کیا گیا ہے تب سے لےکر آج تک آپ بڑے ہی خلوص کے ساتھ جامعہ احسن البرکات کی خدمت کر رہے ہیں اور ہر لمحہ جامعہ کو ترقی دینے میں کوشاں رہتے ہیں، جامعہ کی ترقی میں آپ کا اہم کردار ہے، آپ کی انتھک محنتوں اور کوششوں سے جامعہ کا تعلیمی نظام نہایت عمدہ ہے، خصوصاً امسال آپ کی خصوصی توجہ اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کے سبب طلبہ کے اندر قلمی شوق بیدار ہوا ہے جس کے نتیجے میں جامعہ احسن البرکات کے درجنوں طلبہ بہترین مقالہ نگار بن گئے ہیں، سہ ماہی القلم ڈیجیٹل آپ کی محنتوں کا مرہونِ منت ہے، الغرض یہ کہ آپ جامعہ کی ترقی، طلبہ کی مہارت اور کامیابی کے سلسلے میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور دل و جان سے جامعہ کی خدمت کرتے ہیں۔ 
     راقم الحروف نے بفضلہ تعالی حضرت  قبلہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے، فقیر بلا مبالغہ یہ حقیقت بیان کر رہا ہے کہ حضرت جامعہ احسن البرکات کے لیے واقعی بہت مخلص ہیں، جب بھی حضرت کی بارگاہ میں حاضری ہوئی تو جامعہ کا کام کرتا ہوا ہی پایا. 
     حضرت کی جامعہ کے لیے خدمات جلیلہ کو گر بیان کیا جائے تو کتاب تیار ہو سکتی ہے مگر ہم یہاں اختصار کا دامن تھامے ہوئے ہیں لہذا مذکورہ باتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور اب اپنے اصلی مقصد کو بیان کرتے ہیں:
     یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ شریف ہمیشہ سے ہی دین متین کی خدمت کرنے والوں اور محنت و مشقت سے میدان عمل میں اترنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، ان کو طرح طرح کے انعامات سے نوازتی ہے۔ اور یقیناً استاذ محترم حضرت مولانا  محمد عرفان ازہری مرادآبادی صاحب قبلہ کی خدمات رفیعہ اور جہد مسلسل بہت بڑے انعام کی مستحق تھیں، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے دنیوی انعام نہ دےکر مفتی صاحب قبلہ کو اخروی انعام سے نوازا اور ایسا انعام جو دنیا کہ تمام تر انعامات پر بھاری ہے اور اس وقت کا سب سے بڑا انعام ہے، یعنی کل حضرت کو آپ کی محنتوں اور کوششوں کے اعتراف میں، عرس نوری برکاتی کی خرقہ پوشی کی شب کی محفل میں شہزادہ و نائبِ حضور احسن العلما، امین الملۃ والدین، امینِ ملت، حضور تاج المشائخ، سید شاہ ڈاکٹر محمد امین میاں قادری برکاتی (نفعنا اللہ بطول بقائه و أطال اللہ عمرہ) سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے سلسلۂ عالیہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا، اور اس کا اعلان شہزادۂ حضور احسن العلما، شفیق العلماء والطلبا، رفیق ملت حضور سید شاہ نجیب حیدر نوری (أدامه اللہ بالعز والمجد والکرامة) نے فرمایا اور آپ کے سر پر دستار شریف باندھی اور فرمایا: "مارہرہ مطہرہ کی خلافت ریوڑی نہیں ہے جو ایسے ہی مل جائے، حضرت عرفان ازہری نے بہت محنت کی ہے اس کے صلے میں یہ خلافت حضور تاج المشائخ نے عطا فرمائی ہے"- 
     بہر حال حضرت قبلہ کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے منبر نور سے علمائے کرام و مشائخ عظام اور عوام اہل سنت کے جم غفیر کے سامنے جب اجازت و خلافت سے نوازا گیا تو ہر جانب خوشی سے نعرۂ تکبیر و رسالت کی صدائیں بلند ہو گئیں، خصوصاً جامعہ احسن البرکات کے ہر طالب علم اور اساتذۂ ذی وقار کی خوشی کی انہتا نہ رہی، سب بہت ہی خوش ہوئے اور حضرت کو بے پناہ دعاؤں سے نوازا، طلبہ نے اپنی محبتوں کا اظہار کرکے حضرت کی خوشی میں شرکت کی اور حضرت کی دعائیں حاصل کیں۔ اللہ کریم استاذ محترم کو یہ اجازت و خلافت مبارک فرمائے اور مسلک اعلی حضرت کی غیر معمولی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے جامعہ احسن البرکات کو روز بروز خوب ترقی عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و سلم 

محمد ارقم رضا نوری
جامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف

سرکار نوری میاں کی نصیحت و وصیت(عرس نوری کی مناسبت سے گنجہاے گراں مایہ)…📝 انیس القمر امجدیجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

سرکار نوری میاں کی نصیحت و وصیت
(عرس نوری کی مناسبت سے گنجہاے گراں مایہ)

  خانوادہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے مہر درخشاں، کوکب کون ومکاں،نور بہاربوستاں،صاحب دورزماں، 

وارث پیغمبراں،افتخاردودماں،شاہبازلامکاں،قبلہ گاہ قدسیاں،مالک گنج نہاں،صاحب بخت جواں سراج العارفین قدوۃ الواصلين سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ کا زمانہ تحفظِ دین وسنت کے لحاظ سے بڑا ہی پرآشوب تھا۔رافضیت،وہابیت،مرزائیت اور نیچریت کی تحریکیں سواداعظم اہل سنت کے عقیدہ و مسلک پر شب خون مارنے میں ایک دو سرے پر سبقت لےجانے کی کوششیں کر رہی تھیں۔ ایسے پرانتشار ماحول میں سرکار نورعلیہ الرحمہ نے جس مومنانہ فراست اور مجاہدانہ عزیمت کےساتھ اپنے مختلف رسائل کے ذریعہ اہل سنت وجماعت کے عقائد و اعمال کی حفاظت وحمایت کی۔اس کی مثال اُس دورکی کسی دوسری خانقاہ یاشیخ طریقت کے یہاں نہیں ملتی۔

کثرت اوراد وظائف اور مصروفیات کے باوجود ایک درجن کے قریب چھوٹے بڑے رسائل آپ کی یادگار ہیں ۔انھیں میں سے ایک مختلف خصوصیات و فوائد پر مشتمل قلمی شاہکار بنام “سراج العوارف فی الوصايا والمعارف” بھی ہے۔
عوام اہل سنت کو بالعموم اورخانقاہ برکاتیہ کے جملہ مریدین و متوسلین کو بالخصوص اس کا دیکھنا،پڑھنا اور پاس رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ رسالہ بزبان فارسی لکھا گیاہے،اس میں سات لمعات ہیں،پہلا لمعہ وصایا میں ہے۔اس میں گیارہ وصیتیں ہیں۔اردو ترجمہ سے قدرے ترمیم کے ساتھ دس وصیتیں ہدیہ قارئین ہیں ۔
(١) ایمان اوراسلام کے قبول کےبعد اہل سنت وجماعت کےمذہب پرمضبوطی سےقائم رہیں۔ مسلک حنفیہ اور مشرب قادریہ پر اپنےظاہر اورباطن کو آراستہ اور پیراستہ رکھیں،اسلام کےسارے احکام کی پابندی اور فرماں برداری اپنے اوپر لازم کرلیں۔ علماےدین اور فقرا کے مخلصین کا ادب کرنےکی کوشش کریں۔
درگاہ وخانقاہ کی خدمت بجالائیں اور نماز باجماعت کے لیے مسجدوں میں حاضرہوں۔ والدین،مرشد،علوم دین کےاساتذہ اور ان کی اولاد کانہایت ادب کریں ۔
اپنے پیرکو اپنےحق میں زمانےکےسارے شیوخ طریقت سے بڑھ کرجانیں،اپنےآپ کو تمام مخلوق خدامیں سب سے زیادہ کمتر اورحقیرسمجھیں۔
(٢) قول اورفعل میں شریعت محمدیہ کی پیروی اور طریقت کےاحکام پر قائم رہنے کے بعد ایسے پیر کے ہاتھ پر مرید ہوں جس میں یہ تین شرطیں دیکھ لیں
پہلی یہ کہ وہ مسلمان اور سنی مذہب کا پیرو ہو، دوسری شریعت کی پوری پابندی کرتاہو، تیسری اس کا مسلک صحیح ہو یعنی اسلام میں اہل سنت وجماعت کامذہب رکھتا ہو اور شریعت کاپابندہو اورطریقت میں کسی صحیح السلسلہ پیر کامرید اور خلیفہ ہو۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہے۔اورخدا سےخدا کو طلب کرے جب خدا کو لیا توسب چیزوں کو حاصل کرلیا۔

(٣) کتاب وسنت سے اپنی ضرورت بھر علم دین حاصل کرنےکی پوری کوشش کریں اور اس کام کو سب کاموں پرمقدم رکھیں اسکے بعد ہی طریقہ باطنی میں قدم رکھیں کیونکہ جاہل صوفی اور بےعلم عابد شیطان کامسخرہ اوربالکل نکما اورناقابل قبول ہے۔اس کےعلاوہ درجوں میں ترقی،عروج کی بلندی اور باریکیوں کی سمجھ بوجھ جوعالم کو اس راہ میں حاصل ہوتی ہے،جاہل کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔
(٤) اگر اللہ تعالی کےخاص بندوں میں سے کوئی نظر پڑے تو تمہارا ہاتھ ہو اور اس کا دامن۔ اس سے نیاز مندی سے پیش آئیں اور اس کی خدمت کو دونوں جہاں کی سعادت جانیں۔ آنے والے مہمانوں کی اپنی استطاعت کے مطابق خدمت و تواضع کریں اور اگر کوئی شخص کچھ مانگے تو اپنی وسعت بھر محروم نہ پھیریں ۔اپنے ذاتی کام کے لیے کسی دنیادار کی چاپلوسی اورخوشامد نہ کریں کہ کاموں کا بنانے والا اللہ تعالی ہے۔
(٥) آیہ شریفہ “اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ”(اللہ کی فرماں برداری کرو اور اس کےرسول کی فرماں برداری کرو) کے مضمون پر مطلع ہونے کے بعد عمل کرناضروری ہے،یہی آیت ہمارے شیخ( خاتم الاکابر سیدنا شاہ آل رسول قدس سرہ) کی وصیت تھی۔
جھگڑوں کو ختم کرنے اور لڑائیوں سے دور ہونے کے لیے موجودہ دور کےمحکموں میں مقدمات نہ کریں بلکہ قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ کی سنت و شریعت یعنی حدیث،فقہ،اصول اور تفسیر سے رجوع کریں اور ان کی روشنی میں معاملات طے کریں۔
(٦) اپنےسچےدین پر اتنےسخت اور مضبوط ہوں کہ دوسرے متعصب جانیں اس لیے کہ دین حق میں مضبوطی پسندیدہ بات ہے اور دین باطل پر مضبوطی حماقت اور بری چیز ہے۔ فقیروں، مسکینوں اورغربیوں سےمحبت اور ہمدردی کریں۔امیروں اور دنیاداروں سے دور بھاگیں۔
فاسق،فاجر،بدکردار،کافراور مشرک سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ خاص طور سے دین اسلام میں کھلم کھلا فاسق،کافر اور مشرک کی صحبت اور ان سے محبت کرنے سے دور رہیں،کیونکہ بری صحبت مقناطیس اور لوہے کی مثل ہے یعنی بری صحبت بری عادت کی طرف ایسے کھینچتی ہے جیسے لوہےکو مقناطیس۔
( ٧) خدا کی مخلوق کو نہ ستائیں تاکہ خود بھی تکلیف نہ پائیں۔ حدیث شریف کے مطابق رحم کرنے والوں پر رحمن تبارک وتعالی رحم فرماتا ہے،تم زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
اور اپنے اندراچھی باتیں مثلاً محبت،خلوص، دوستی،ہم دردی اوراحسان وغیرہ پیداکریں اور بری باتوں مثلاً لڑائی،جھگڑا،نفاق،خود پسندی،غرور، جھوٹ،زنا،لواطت وغیرہ سے پاک صاف رہیں تاکہ صفت ملکوتی پیدا ہو اورحیوانی،شیطانی صفت دور ہو۔ بڑے اور چھوٹے گناہوں سے دور رہیں۔
(٨) فقیر کا سالانہ فاتحہ جسے”عرس”بھی کہتے ہیں ہر گز تکلف سے نہ کریں اس لیے کہ تکلف شریعت میں منع ہے اور فقیر تکلف سے دور رہتا ہے جو کچھ میسر آئے،اس میں تھوڑا سا اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں اور قرض میں نہ پھنسیں اور فکر وتشویش کی بلاسے بچے رہیں۔
عرس میں قرآن شریف،حدیث شریف،درودشریف اورکلمہ طیبہ کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کےعلاوہ اورکوئی نیاکام نہ ہوجیسا کہ اس زمانہ میں رواج ہے۔
نااہلوں کے سنوانے کے لیے قوالی ہرگز ہرگز نہ کریں۔جس چیز کو شریعت منع کرے اسے چھوڑ دیں۔ اگرچہ فقیر سماع کا جس طرح سے کہ چشتیہ سلسلے کے پرانے بزرگوں نے سنا ہے،منکر نہیں ہے۔اور کبھی کبھی مزارات اولیائے کرام کی مجالس میں حاضر ہو کر سماع سنا بھی ہے،مگر چونکہ اس زمانہ میں سماع، جوازکی شرائط کے ساتھ نہیں ہوتا،اس لیے مجبوراً چھوڑ دینے کےعلاوہ کوئی اور علاج نہیں۔ سماع سننے کی اہلیت اس پرآشوب دور میں مفقود ہے اور بقیہ شرائط بھی نہیں پائی جاتیں اس لیے مجبور ہوکر ترک سماع واجب اور ضروری ہے۔
(٩) خانقاہ اور درگاہ کےاوراد و وظائف،قرآن مجید کی تلاوت،درود شریف خصوصاًدلائل الخیرات،حصن حصین،حرز یمانی،حزب البحر،اسمائےاربعین وغیرہ خاندان برکاتیہ کےمعمول کےمطابق ہمیشہ پڑھتےرہیں اورمسجدکی حاضری نہ چھوڑیں اورپانچوں وقت کی نمازباجماعت ادا کریں،ذکروشغل اور مراقبہ کرتے رہیں اورخاندان برکاتیہ کےاس طریقے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی نہ کریں،اپنے سے عمر میں بڑے اور بزرگ سے بات کرنےاورچلنےمیں سبقت نہ کریں ہاں ضرورت اورمجبوری ہو جیسے جماعت کی پہلی تکبیر چھوٹ جانےکا ڈر،توآگےبڑھ کرشامل ہوجائیں۔اگر کوئی غریب اپناحال سنائے تو اسے پوری توجہ سے سنیں اور اس کے ساتھ ہمدردی اور نرمی برتیں۔

(١٠) حدیث،تفسیر،فقہ،اصول،تصوف،سلوک اور دیگر شرعی کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیں اور ان کتابوں سے مناسبت پیدا کریں۔ دن رات کا اکثر وقت ان کاموں میں صرف کریں ۔ شریعت اورطریقت میں اپنے آپ کو صرف مقلد سمجھیں۔ان دونوں پسندیدہ طریقوں میں سے کسی میں بھی ہرگز ہرگز اجتہاد کا دعوی نہ کریں۔ شریعت میں حنفی اور طریقت میں قادری رہیں اور اپنے آپ کو انھیں حضرات کا مقلد جانیں ورنہ انجام خراب ہو گا اس لیے کہ اس زمانہ میں تقلید چھوڑنے کا انجام الحاد و زندقہ ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ سرکار نور کے اقوال عالیہ پر عمل کی توفیق بخشے،آمین
📝 انیس القمر امجدی
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف ۔
٢/فروری،٢٠٢٣ء ١٠/رجب المرجب، ١٤٤٤ھ

“حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہ (صاحب عرس نوری) کا مختصر تعارف” از محمد حسن رضاجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

“اسم مبارک”: حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہُ العزیز ہے۔ اور تاریخی نام ” مظہر علی” اور لقب “میاں صاحب” ہے، جو آپ کے دادا اور مرشد خاتم الاکابر نے عطا فرمایا تھا۔ (تذکرہ نوری،ص، 146)

“ولادت با سعادت”: 19/ شوال المکرم 1255ھ مطابق 26/ دسمبر 1839ء بروز پنجشنبہ( جمعرات) مارہرہ شریف میں ہوئی۔(تذکرہ نوری،ص، 146)

“والد ماجد”: سرکار نور قدس سرہ کے والد ماجد، حضرت سید شاہ ظہور حسن صاحب علیہ الرحمہ، خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ کے بڑے صاحب زادے تھے، ابھی سرکار نور کی عمر شریف کل گیارہ برس کی تھی ، کہ آپ کے والد ماجد کا (26/جمادی الاولی 1266ھ کاٹھیاواڑ میں) وصال ہو گیا۔ [انا للّٰہ وانا الیہ راجعون] ( سراج العوارف ، مقدمہ: حضرت سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی، ص، 8)

“والدہ ماجدہ”: آپ ( علیہ الرحمہ) کی والدہ ماجدہ سیّدہ اکرام فاطمہ ، حضرت سید شاہ دلدار صاحب کی صاحب زادی اور حضرت سید شاہ آل برکات ستھرے میاں صاحب قدس سرہ کی نواسی اور سید محمد صغریٰ بلگرامی قدس سرہ کی بیسوی پشت سے تھیں۔ ابھی سرکار نور قدس سرہ کی عمر شریف کل ڈھائی سال ہی کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔ [ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون] اسی وقت سے آپ کی جدۂ ماجدہ ( دادی جان) قدست اسرارہا نے تمام کفالات حضور اپنے ذمہ لے لیں۔ ( تذکرہ نوری، ص، 146)

“تعلیم و تربیت”: حضور نوری میاں صاحب قدس سرہ کی تعلیم کے ابتدائی مراحل میاں جی رحمت اللہ صاحب و میاں جی الہی خیر ، میاں جی اشرف علی صاحب وغیرہم نے طے کراۓ ۔ قران کریم قاری محمد فیاض صاحب رام پوری سے پڑھا ۔ صرف ونحو کی تعلیم مولانا محمد سعید بدایونی اورمولانا فضل احمد جالیسری ( تلمیذ حضرت تاج الفحول) سے حاصل کی ۔ مولانا نور احمد عثمانی بدایونی ( تلمیذ علامہ فضل حق خیر آبادی) سے معقولات کی تکمیل فرمائی ۔ علم تصوف وسلوک کی تعلیم اپنے جد کریم حضور خاتم الاکابر قدس سرہ کے ساتھ ساتھ مولانا احمد حسن صوفی مراد آبادی اور مفتی عین الحسن بلگرامی سے حاصل فرمائی ، اصولِ فقہ و حدیث مولانا تراب علی امروہوی، مولانا محمد حسین بخاری کشمیری اور مولانا حسین شاہ محدث ولایتی سے تحصیل فرمائے، علوم دعوت و تکسیر حضرت شاہ شمس الحق قادری عرف تنکا شاہ تعلیم فرماتے تھے۔( عقائد نوری، ص،4-5)

” بیعت و خلافت”: نور العارفین حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت اپنے جد کریم ( مرشدِ اعلیٰ حضرت) حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ سے حاصل تھی۔ بوقت بیعت و خلافت حضور سرکار نور کی عمر شریف صرف 12 برس کی تھی ، جس کا تفصیلی ذکر آپ نے اپنی کتاب “سراج العوارف فی الوصایا والمعارف” میں تحریر فرمایا ہے۔(اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء، ص، 31)

“عقد مسنون و اولاد و امجاد” سرکار نور کا پہلا عقد دخترِ حضرت سید شاہ ظہور حسین عرف چھٹو میاں صاحب سے ہوا ، ان بی بی صاحبہ کا وصال 17/ جمادی الاخری 1286ء میں بمقام مارہرہ ہوا۔ اور دوسرا عقد حضرت سید شاہ حسین حیدرحسینی میاں رحمۃ اللہ علیہ(حقیقی نواسہ حضور خاتم الا اکا بر قدس سرہ) کی حقیقی بہن یعنی دختر سید محمد حیدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے 1287ء میں ہوا۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے سید محی الدین جیلانی 1288ء میں تولد ہوۓ لیکن ان صاحبزادے کا وصال 1سال7 ماہ کی عمر میں بمقام مارہرہ شریف ہوا۔ تب آپ نے اپنا جانشین اپنے عم زاد بھائی کے صاحب زادے سید علی حسن عرف اقبال کو مقرر کیا لیکن ان صاحب زادے کا وصال بھی حضور میاں صاحب کے سامنے ہو گیا۔(اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء، ص، 57-58)

“تیری خوبیوں کا شمار کیا”: یقیناً آپ (سرکار نور) کی خوبیاں بے شمار ہیں جن کی تفصیل صاحب تذکرۂ نوری نے کی ہے، اس ہی عظیم خزانے سے چند موتی ہدیۂ ناظرین ہیں ، ملاحظہ ہوں!

“التزام ظاہر شریعت”: عبادات و عادات میں مستحبات تک کبھی حضور سے ترک نہ ہوتے ، وقت بیعت کبھی مریدہ کا ہاتھ نہ چھوتے ، اور نہ ہی روبرو آنے کی اجازت دیتے۔(تذکرہ نوری،ص،153)

“صبر”: ایک مرتبہ شدید بخار ہوا ، نہایت ہی فرحت و سرور سے فرمایا ، تمام اذکار و اشغال سلوک سے ایک حرارت ، قلب کو پہنچانا ہے ، وہ بلا محنت بخار میں حاصل ہے۔ شدت مرض میں سوائے افسوس ترک مسجد ، کبھی شکایت مرض نہ فرماتے۔ بلکہ فرماتے ، خدائے تعالیٰ مرض عصیان اور افلاس ایمان سے بچائے۔ ( تذکرہ نوری،ص، 161-162)

” فقراء سے محبت”: کتنے فقرا خدام تھے جن کی کفالت سرکار نور قدس سرہ خود فرماتے ، اور وہ بھی ایک عجیب شان سے ، کہ کسی کو معلوم نہ ہو ، غرباء خدام کے مکانوں پر قیام فرماتے ، مریدین آتے نذر و ہدیہ پیش کرتے، وہ سب ان گھر والوں کا حصہ ہوتا۔ بہت سے غرباء کی تنخواہیں مقرر تھیں ، جو ایک پردے سے ان تک پہنچتی تھیں۔ (تذکرہ نوری ،ص،170)

“کشف و کرامات”: جب بندہ شریعت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ طریقت کی راہوں میں گم ہو کر فنا فی اللہ کی منزلیں طے کر لیتا ہے ، تو اس سے کرامتوں کا ظہور ہوتا ہی رہتا ہے ، سرکار نور کی بھی بے شمار کرامات ہیں ان میں سے صرف ایک ملاحظہ فرمائیں!

سرکار نور قدس سرہ کی حقیقی بھانجی حضرت شاہ جی میاں قدس سرہ کے عقد میں تھیں۔ ان کے یہاں ولادت ہونے والی تھی۔ وہ تکلیف سے پریشان تھیں۔ حضرت نوری میاں قدس سرہ تشریف لائے اور “تحفہ قلندری” یعنی تسبیح غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک منکا نکال کر ان کے گلے میں ڈال دیا اور فرمایا کہ پریشان کیوں ہوتی ہو۔ تمہاری جواولاد پیدا ہوگی اس کے سبب دین کا بہت کام ہو گا اور وہ بیٹا مجھ جیسا ہو گا۔ یہ خوش خبری تھی سراج العرفاء تاج العلماء حضرت سید شاہ اولا درسول محمد میاں صاحب قدس سرہ کی پیدائش کی۔ بزرگ اہل خاندان بتاتے ہیں کہ حضرت محمد میاں صاحب قدس سره کی شکل وصورت حضرت نوری میاں صاحب قدس سرہ سے بیحد مشابہ تھی۔ (اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء،ص،98)

“آپ کی تصانیف”: کثیر ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں۔
“سراج العوارف فی الوصایا والمعارف”(مطبوعہ)
دلیل الیقین من کلمات العارفین”(مطبوعہ)
رسالہ سوال و جواب
عقیدہ اہل سنت نسبت محاربین جمل و صفین و نہروان” ( غیر مطبوعہ)
تحقیق تراویح” ، “الجفر” ، “صلاۃ غوثیہ و صلاۃ معینیہ”
“تخییل نوری”: حضور سرکار نور قدس سرہ شاعری بھی فرمایا کرتے تھے۔ یہ آپ کا شعری دیوان ہے۔ جس میں آپ نے عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں عارفانہ غزلیں نعتیں رقم فرمائی ہیں۔ آپ ( علیہ الرحمہ) پہلے “سعید” تخلص فرماتے ، بعد میں بدل کر “نوری” کر لیا۔ اس مجموعۂ کلام کو حضور تاج العلماء حضرت سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی قدس سرہ نے شائع کیا۔
“خلفائے کرام”: آپ کے خلفاے کرام کے چند اسما یہ ہیں!
مجدد برکاتیت حضرت حاجی سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں رحمتہ اللہ تعالی علیہ صاحبِ عرس قاسمی،
“حضرت سید شاہ مہدی حسن علیہ الرحمہ” ،
“حضرت سید شاہ محمد میاں قدس سرہٗ” ،
“حضرت تاج الفحول محب رسول بدایونی علیہ الرحمہ”۔
“اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ”
“مفتی اعظم ہند حضرت مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ”

“وصال سرکار نور قدس سرہ”: حضور سرکار نور قدس سرہ کا وصال 11/رجب 1324ھ ، مطابق 31/ اگست 1906ء کو مارہرہ مطہرہ میں ہوا۔ اور ” خاتم اکابر ہند”(1324ھ) تاریخ وصال ہے۔(تذکرہ نوری ،ص، 275-276)

“نور جان و نور ایماں نور قبر و حشر دے”
بو الحسین احمد نوری لقا کے واسطے”


محمد حسن رضا
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
1/فروری 2023ء

مرشد اعظم ہند حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کا تصلب فی الدین.. از قلم :محمد ہاشم رضا برکاتی جماعت فضیلت! جامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف،ایٹہ[یوپی]

مارہرہ مقدسہ میں آباد خاندان رسالت وہ مبارک ومسعود خاندان ہے جس کے تمام شیوخ واکابر کی پیشانیوں میں تصلب فی الدین کا نورچمکتا تھا،چنانچہ سلطان العاشقین حضور صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ عشقی مارہروی کی سب سے بڑی کرامت استقامت و تصلب فی الدین اور تقویٰ و طہارت بتائی جاتی ہے-
اسی صاحب تقویٰ و طہارت اور متصلب خانوادے کی ایک عظیم اور جلیل القدر شخصیت جنہیں دنیا حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کے پیکر میں جانتی اور پہچانتی ہے-
آپ 13/ فروری سنہ 1927ء کو جنت نشاں مارہرہ مقدسہ میں پیدا ہوئے-اور اپنے وقت کے جید اور ممتاز علماء سے نورعلم کشید کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کی بافیض درسگاہوں سے حافظ قاری مولانا مفتی اور مرشد کی منزلیں طے کرتے ہوئے حسن سے احسن کے مرتبہ پر فائز ہوئے- یوں تو آپ کو خاندانی وراثت کے طور پر بے شمار اوصاف وکمالات حاصل ہوئے-مگر اس وقت میرے قلم کا محورومرکز حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کا تصلب فی الدین ہے- آپ اپنے اکابر واعاظم کے اس وصف خاص کے مظہراتم تھے-آپ کے اقوال ہوں یا افعال، تحریر ہو یا تقریر، ظاہر وباطن، ہر چیز میں تصلب فی الدین کا نورچمکتا تھا-فقیہ اعظم، شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے ایک انٹرویو لیا گیا جس کے سوالات شرف ملت دام ظلہ العالی نے مرتب فرمائے تھے ۔اس انڑویو میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی سیرت کے کس پہلو نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ؟ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی سیرت کے اس زریں پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ آپ مذہب حق اہل سنت وجماعت ، خصوصاً مسلک اعلی حضرت کے اعلیٰ درجے کے پابند تھے اور اس میں اتنا تصلب تھا کہ کم بینوں کو تعصب کا دھوکہ ہوتا تھا ۔مسلک اعلیٰ حضرت میں نہ ادنیٰ سی مداہنت خود فرماتے تھے اور نہ اس کو برداشت فرماتے تھے-

آج کے دور میں متصلب فی الدین کی واضح پہچان مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے محبت و وابستگی ہے- اس زاویہ سے دیکھا جائے تو بھی حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کو سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے غایت درجہ کا عشق تھا- اسلام وسنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت ان کا خصوصی مشن تھا- حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ احقاق حق اور ابطال باطل کے ذریعہ اپنے تصلب فی الدین کی صاف ونمایاں تصویر تھے-
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی تحریر فرماتے ہیں کہ جب مولوی خلیل احمد بجنوری ثم بدایونی نے اپنی چھپی ہوئی وہابیت کا اعلان کیا تو لوگوں نے حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ سے شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا کہ میں مفتی شریف الحق سے بات کرتا ہوں ۔ چوں کہ یہ شخص تقیہ کرکے حضور تاج العلما علیہ الرحمہ سے مرید ہوا اور ان کا خلیفۂ مجاز تھا ۔ اور ابتداءً متصلب سنی بنتا تھا. اسی وجہ حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کو کچھ تردد تھا ۔
میں ایک بار حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا کہ مفتی صاحب! مولوی خلیل کے بارے میں کیا سنا اور دیکھا ہے ؟ میں نے بدایوں کے مناظرے کی پوری رپورٹ سنا دی اور عرض کیا : یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ دیوبندیوں کے وہ اکابر جن کی علمائے اہلسنت کی طرف سے تکفیر ہو چکی ہے وہ انکی تکفیر سے کف لسان ہی نہیں کرتا بلکہ انکو اپنا پیشوا مانتا ہے اور بلاشبہ من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفرہ کی رو سے کافر ومرتد ہو چکا ہے ، اور بلاشبہ اس کی بیعت واجازت فسخ ہو چکی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے عرس قاسمی کے مبارک ومسعود موقع پر قل شریف کی محفل میں اس سے اعلان براءت فرمایا کہ یہ شخص اب سنی نہیں رہا ، اس کی اجازت و خلافت ختم ہو گئی ۔ میرے مریدین اور اہل سنت اس سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھیں-
حضور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ ہم بھائیوں سے کہتے تھے کہ میرا مرید مسلک اعلیٰ حضرت سے ذرا بھی ہٹ جائے تو میں اس کی بیعت سے بیزار ہوں ۔اور میرا کوئی ذمہ نہیں ہے ۔فرماتے تھے کہ یہ میری زندگی میں نصیحت ہے اور وصال کے بعد وصیت ہے-
ابا حضور ،حضور رفیق ملت ہم طالبان علوم نبویہ کو مسلک اعلیٰ حضرت پر پابند رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کئی مرتبہ یہ بیان فرما چکے ہیں کہ جب حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو ہم چاروں بھائیوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ” بیٹا! مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے مسلک کو مضبوطی سے تھامے رہنا“ ۔
علامہ ارشد القادری ایک تاثراتی تحریر میں فرماتے ہیں کہ حضور احسن العلماء نے دم رخصت ارشاد فرمایا: مسلک اعلی حضرت پر ڈٹے رھنا! آج سوچتا ہوں تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے کہ ان کے ایمان کی حس کتنی بیدار تھی کہ موت کا فرشتہ ان کے سرہانے کھڑا تھا اور اس عالم میں بھی انہیں اپنے خاندان کی نہیں صرف مسلک اعلیٰ حضرت کی فکر دامن گیر تھی ۔
یقینا حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کے کردار وعمل میں استقامت علی الحق اور تصلب فی الدین کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا تھا ، اسی طرح آپ کے اقوال و خطبات اور نصائح ووصایا کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ نے فروغ مسلک اعلیٰ حضرت کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ آب ذر سے لکھے جانے کے قابل ہیں-
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق ورفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالمرسلین[ﷺ]

“چشم دید” از قلم: محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

8/صفر المظفر 1444ھ مطابق 6/ ستمبر 2022 کی صبح “النقش کالحجر ” کی طرح میرے دل میں گھر کر چکی ہے ۔ تقریباً صبح 7 بج کر 45 منٹ پر جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ) کی اسمبلی میں قبلہ پرنسپل صاحب نے اعلان کیا کہ” آج اہل سنت کے بہت بڑے عالم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المبین صاحب نعمانی تشریف لا رہے ہیں۔ ” یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اب سے پہلے حضرت کی چند کتابیں اور مضامین پڑھ چکا تھا ۔(حضرت کی چالیس سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں)
آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا شدت سے انتظار تھا۔ کہ بڑے بڑے بزرگوں سے فیض حاصل کرنے والا مرد قلندر، اپنے قیمتی نصائح سے سے ہماری جھولیاں بھرنے کے لیئے ،ہمارے درمیان تشریف لے آئے ۔ حضرت نے تقریباً 1 گھنٹہ 10 منٹ تک ہماری تشنگی کو دور کیا ، لیکن یہ تشنگی تو وعظ کے بعد اور زیادہ بڑھ گئی ۔ حضرت نے جو واقعات بیان فرمائے ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے یاد آتا ہے، کہ آپ نے پورے بیان میں کوئی ایسا واقعہ بیان نہیں فرمایا جس کے آپ “چشم دید” گواہ نہ ہوں ۔سوائے ایک دو کے۔حضرت نعمانی صاحب نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ “میرا تجربہ ہے کہ طلبہ جمعرات کے دن خوب مستی کرتے ہیں ۔ پورا پورا دن کرکٹ کھیلنے میں گزار دیتے ہیں۔ بلکہ چاہیے تو یہ تھا، کہ جمعرات کو خوب مطالعہ کرتے، درسی کتب یاد کرتے وغیرہ ۔ گفتگو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔” الحمدللہ! زمانۂ طالب علمی میں میرا طریقہ یہ تھا کہ ذرا سا بھی وقت ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ایک بات کہوں تو آپ لوگوں کو خراب لگے گی ، کہ “سب طلبہ سوتے تو میں پڑھتا”!۔ آج جو کچھ ہے اپنی محنت ہے ، بزرگوں کا فیض ہے، اساتذہ کا فیص ہے۔”
میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ “جتنا زیادہ غور کرو گے اتنے زیادہ موتی پاؤ گے ” اگر آپ ان (مفتی صاحب کے) جملوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کامیابی کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں ۔ نمبر ایک ، محنت ، کہ اس کے بغیر کوئی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ، اگر کامیاب ہونا ہے تو راتوں کو جاگنا ہوگا۔ صرف اور صرف مطالعہ کے لیے نہ کہ موبائل کے لیے۔ شاعر کہتا ہے۔
بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالی”
یعنی کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔
اور دوسری چیز ہے۔ اساتذہ کا ادب، آپ کتنے ہی بڑے عالم ہو جائیں اگر اساتذہ کا ادب نہیں کرتے، تو وہ علم آپ کو کوئی نفع نہ دےگا۔ بقول شاعر۔
ما وصلَ مِن وصلٍ الا بالحُرمة
وما سقَط مِن سقطٍ الا بترك الحرمة
يعنی۔ جس نے جو کچھ بھی پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
حضور حافظ ملت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ۔ “حضرت جب سفر سے واپس آتے تو آرام گاہ نہ جاتے راستے میں جو طالب علم ملتا،فرماتے،جلد فلاں کلاس کے طلبہ کو بھیج دو !” آپ نے حضور حافظ ملت ، حضور مجاہد ملت ، حضور مفتی اعظم ہند اور علامہ ارشد القادری وغیرہ ، کے آنکھوں دیکھے واقعات بیان فرمائے۔
اگر موقع ملا تو ضرور سب کو ضبط تحریر کرنے کی سعی کروں گا (ان شاءاللہ)
آخر میں آپ نے خصوصی طور پر بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی، فرمایا۔ آپ ہر جمعرات کو ایک صفحہ ضرور لکھیں اور اپنے اساتذہ سے اس کی اصلاح کروائیں ۔ اس طرح آپ کی ایک کاپی تیار ہو جائے گی۔ “اور جتنا قلم گھسے گا اتنا ہی مضبوط اور بہتر ہوگا”۔۔

تمباکو نوشی کے مضر اثرات.. از: عبدالقادر [بہرائچ شریف] متعلم:جامعہ احسن البرکات مارہرہ مقدسہ،ایٹہ[یوپی]

تمباکو نوشی کو بھی نشہ آور اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے باقاعدہ استعمال سے عادت پڑ جاتی ہے اور نشہ آور اشیاء اور ادویات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی عادت چھڑانے سے نہیں چھوٹتی اور اگر زبردستی چھڑایا جاے تو وہ فرد اچھا خاصا مریض بن جاتا ہے لیکِن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یہ حالت ہمیشہ نہیں رہتی اگر ثابت قدمی اور حوصلہ مندی سے کام لیا جائے تو اس لعنت سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔اگرچہ ساری دنیا تمباکو نوشی کے مضر اثرات کومانتی ہے مگر پھر بھی ساری دنیا میں اس کااستعمال دن بدن بڑھ رہا ہے اور استعمال کے طریقے بھی نۓ نۓ آرہے ہیں : سگریٹ نوشی۔ سگار۔گٹکہ۔اورکچھ عرصہ پہلے سے متعارف شیشہ سموکنگ شامل ہے
تمباکو نوشی کے بعد شیشہ سموکنگ کا نشہ ہماری نوجوان نسل میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جس نے ناصرف ہماری نوجوان نسل کو بلکہ ملک کو بھی تباہی وبربادی کی طرف ڈھکیل دیا ہےWHOورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہمارے ملک میں شیشہ سموکنگ کے استعمال میں اضافہ ہورہاہے پرانے زمانے میں اسے حقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا اور اس کو پینے کی روایت تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے اس بات سے تو آپ سب اچھی طرح واقف ہیں کہ حقہ بنانے کے لئے تمباکو نوشی نگوٹین اور ٹارکو استعمال کیا جاتا ہے لیکِن اب اس کی جدید شکل شیشہ میں تمباکو کی بو یعنی Smellزائل کرنےکے لیے سویٹ فلیورزبھی شامل کردیا گیاہے
اگر چہ ہندوستانی قانون کے مطابق 18سال سے کم عمر نوجوانوں کو سگریٹ بیچنا قانوناً جرم ہےمگر اس قانون کا اطلاق آج تک کما حقہ نظر نہیں آیا کم عمر لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں تفریحی پارکوں کالجوں یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر کھلے عام سموکنگ کرتے نظر آتے ہیں اور اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نےاس کو بطور فیشن اختیار کر رکھا ہے کیونکہ وہ اس کے خطرناک نتائج سے لاعلم ہیں یوں تو ہر دور میں تمباکو نوشی کے نقصانات کے بارے حکما اور طبیبوں نے خوب لکھا ہے مگر امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ تمباکو نوشی سے ستر(70) سے زیادہ امراض پیدا ہوتے ہیں جن میں دل کی بیماریاں۔سانس سے جڑی تکالیف۔دمہ۔خوراک کی نالی کاکینسر۔نمونیہ۔نومولودبچوں میں سانس کی بیماریاں ۔حاملہ خواتین میں وقت سے پہلے بچے کی پیدائش ۔پھیپھڑؤں کاکینسر۔
جنسی کمزوری ۔اعصابی کمزوری ۔خواتین میں بڑھتا ہوا بانجھ پن ۔اور معدے کے امراض وغیرہ شامل ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام کونشہ آور اشیاء اور ادویات کے استعمال سے محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین ۔

کمال یہ ہے کہ مجھ میں کوئی کمال نہیں… ( آل انڈیا مسابقۂ خطاب میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے پر ایک تاثراتی اور تشکراتی تحریر)از قلم: محمد ہاشم برکاتی متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ مقدسہ،ضلع:ایٹہ(یوپی)

آج سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل، جامعہ امیر العلوم مینائیہ گونڈہ سے آل انڈیا مقابلۂ قرأت اور مسابقۂ خطاب کا ایک اشتہار شائع ہوا، جس کو میرے ہم جماعت اور عزیز دوست فخر عالم بھائی نے ہماری جماعت کے واٹس ایپ گروپ میں ارسال کیا اور خصوصاً مجھ احقر کی توجہ اس کی طرف مبذول کرائی اور اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ : “ہاشم حصہ لے لو”۔
چونکہ اس وقت ہم تمام طالبان علوم نبویہ عید قرباں کی تعطیل کی وجہ سے اپنے اپنےگھروں پہ سکونت پذیر تھے، مدرسہ میں نہ ہونے اور ساتھیوں کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بات کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی، مگر موصوف نے دل سے کہا تھا، اس لیے میری کاہلی کو جب دیکھا تو اگلے ہی دن کال کی اور پوچھا کہ : مسابقۂ خطاب میں حصہ لینے کے متعلق کیا سوچا؟ میں نے کہا کہ: بھائی! وہ آل انڈیا مسابقہ خطاب ہے، میں اس میں کیسے حصہ لے سکتا ہوں؟ کس شمار و قطار میں آؤں گا میں؟۔ میرا یہ جواب سن کر انہوں نے مجھے سمجھایا، موٹیویٹ کیا اور حوصلہ دیا کہ تم سے امید ہے اس لیے صرف تمہیں کہہ رہا ہوں ۔ ان کے ان پرخلوص کلمات کی میں نے لاج رکھ لی اور کہا کہ ٹھیک ہے بھائی! میں حصہ لے لوں گا۔ لیکن میرا دل حصہ لینے کے لیے بالکل بھی آمادہ نہیں تھا۔

🔸 کچھ دنوں بعد عید قرباں کی تعطیل ختم ہوئی اور ہم تمام طلبہ مادر علمی “جامعہ احسن البرکات” پہنچے، فخر عالم بھائی نے پہلی ہی ملاقات میں پوچھ لیا کہ کیا ہوا بھائی! حصہ لیے کہ نہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ میرا جواب سن کر انہوں نے خوب رنج و ملال کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ تم کو توحصہ لینا چاہیے-
رجسٹریشن کی تاریخ ابھی باقی تھی میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، حصہ لے لوں گا، گزرتے دن کے ساتھ ان کے سوالات جاری رہے اور جواباََ میرا ٹال مٹول چلتا رہا بالآخر رجسٹریشن کی آخری تاریخ یکم محرم الحرام آ گئی۔ بلکہ اس نئے سال کے پہلے دن کا سورج رجسٹریشن کے آخری لمحات بھی لے کر ڈوبنے کے قریب آچکا تھا، تمام طلبہ نماز مغرب کی تیاری میں مصروف تھے اور وضو کرکے یکے بعد دیگرے روم میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت تمام ساتھیوں نے بیک زبان مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لیے مجھے ابھارا اور بالآخر بالکل آخری لمحے میں اپنا نام رجسٹریشن کروا ہی لیا۔
نام کا اندراج تو ہوگیا مگر تقریر کہاں سے بولوں، وہ بھی اس شخصیت کو عنوان بنا کر جن کا صرف تصور بوجهٍ مَّا مجھے حاصل تھا، اسی ٹینشن کے ساتھ جامعہ کے ایک لائق وفائق استاد حضرت مفتی شاداب احمد امجدی صاحب کے پاس گیا اور حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ تو انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا، اور فرمایا کہ یہ ہمارے لئے بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے شاگرد آل انڈیا مقابلہ میں شرکت کر رہے ہیں. پھر میں نے اپنا عریضہ پیش کیا کہ حضرت! اس مقابلہ میں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ تو حضرت نے کہا کہ : کیوں نہیں انشاءاللہ ضرور جو مجھ سے ہو سکے گا کروں گا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریر ریکارڈ کرکے بھیجنے میں صرف پانچ دن باقی تھے. ان پانچ دنوں میں حضرت کو تقریری مواد بھی فراہم کرناتھا اور مجھے تقریر یاد بھی کرنی تھی۔
حضرت اس وقت جداریوں کی اشاعت اور تدریسی خدمات میں بہت مصروف تھے اس لیے آخری وقت پر میرے لیے گئے اس فیصلے پر زجر و توبیخ بھی کی کہ اور پہلے بتانا چاہیے تھا تاکہ ڈھنگ سے کچھ لکھ سکوں ۔
پھر بھی موصوف نے ایک طالب علم کی حوصلہ شکنی نہ ہو بس اس لیے اس کم وقت میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود تیار ہوگئے اور بالآخر حضرت نے ایک دن پہلے تقریر دی اور اس فقیر نے حضرت کی دعاؤں کا توشہ لیتے ہوئے یاد بھی کرلی اور دوسرے دن ریکارڈ کرکے بھیج بھی دی۔

مقابلے کا انعقاد کرنے والوں نے یہ طریقہ اپنایا تھا کہ جتنے طلبہ بھی ریکارڈنگ بھیجیں گے ان میں سے ہم دس کا انتخاب اپنی صواب دید پر کریں گے اس لیے اب دس منتخب طلبہ کی لسٹ جاری ہونے کا انتظار تھا. بالآخر منتخب طلبہ کی لسٹ جاری ہو گئی اور اس میں اپنا نام دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی، کیوں کہ معلوم ہوا تھا کہ کثیر تعداد میں طلبہ نے شرکت کی ہے (بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہزار کے قریب طلبہ نے ریکارڈنگ ارسال کی تھی) اور ان میں میرا نام آنا صرف فضل الٰہی سے ہی ممکن ہوا، لسٹ میں اپنا نام دیکھا اور یہ خوشخبری جب میں نے اپنے ساتھیوں کو دی تو پورے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ اور سبحان اللہ. ماشاءاللہ کے ساتھ مبارکبادیوں کی صدائیں گونجنے لگیں. اپنے ساتھیوں سے مبارکبادیاں حاصل کرنے کے بعد استاد مکرم مفتی شاداب امجدی کے پاس خوشخبری سنانے کے لئے گیا تو دیکھا کہ حضرت سونے کی تیاریاں کر رہے تھے جیسے ہی میں نے حضرت کو یہ خوشخبری سنائی تو حضرت خوشی سے جھوم گئے اور فرمایا کہ بابو! تم نے تو میری نیند ہی غائب کردی۔ دوسرے دن صبح فجر کے وقت جامعہ احسن البرکات کے پرنسپل حضرت علامہ عرفان ازہری صاحب کو جب یہ خوشکن خبر دی تو انہوں نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا اور پرنسپل صاحب نے اساتذۂ جامعہ کے گروپ میں یہ بات شیئر کی تو ابا حضور اور تمام اساتذہ نے دعاؤں سے نوازا ۔ 26/ اگست بروز جمعہ مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لئے روانہ ہوتے وقت ابا حضور سے دعائیں بٹورنے کے لئے گیا تو ابا حضور نے اپنی عادت کے مطابق اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور فقیر کو دیتے ہوئے کہا کہ : جاؤ اللہ تعالٰی آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و احباب سے دعاؤں کی سوغات لئے ہوئے جامعہ سے نکلا اور خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں فاتحہ پڑھ کر خانقاہ عالیہ مینائیہ مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لئے روانہ ہوا۔
اگلے دن سفر طے کرکے جامعہ امیر العلوم مینائیہ گونڈہ پہنچا، جامعہ کی فلک بوس عمارتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا اور پھر وہاں کے انتظام وانصرام کا عالم یہ تھا کہ وہاں کے خدام چپل تک کو ترتیب سے رکھ رہے تھے اور مسابقہ کی شفافیت کا عالم یہ تھا کہ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے ہم کو نگرانی میں لے لیا گیا تاکہ کسی سے مل نہ سکیں اور ایک خادم ہمارے ساتھ کر دیا گیا تاکہ وہ ہماری ضرورت پوری کرے۔ بالآخر وہ گھڑی آ گئی جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا یعنی مسابقۂ خطاب شروع ہونے والا تھا کہ اچانک استاذ معظم حضرت مولانا تنویر احمد علیمی صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ ابھی ابا حضور کا فون آیا تھا اور وہ پوچھ رہے تھے کہ ہاشم کیسے ہیں؟ انکا کیا حال ہے؟ ان سے کہ دینا کہ بے فکر ہوکر تقریر کریں، میں دعائیں کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں نے یہ جملہ سنا میرے دل سے خوف وہراس ختم ہو گیا. اور مجلس میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا اور جب باری آئی تو چونکہ ابا حضور کا جملہ رہ رہ کر مجھے یاد آ رہا تھا اس لیے بلا خوف وخطر پوری دل جمعی اور مکمل اعتماد کے ساتھ خطاب کیا۔ جیسے ہی خطاب سے فارغ ہوا مفتی شاداب صاحب کا میسیج آیا ( چونکہ حضرت لائیو پروگرام دیکھ رہے تھے ) کہ بیٹا ایک نمبر تمہارا ہی ہے۔
اس کے بعد ہم سبق ساتھیوں کا فون آیا اور وہ بھی یہی جملے ادا کر رہے تھے جو حضرت نے فرمائے تھے۔ لیکن ابھی رژلٹ آنا باقی تھا، دوسرے دن جیسے ہی 7:50 پر بیدار ہوا تو دیکھا کہ حضرت کی دعاؤں سے لبریز میسیج اسکرین کی زینت بنے ہوئے ہیں، پڑھ کر دل تو مطمئن تھا ہی لیکن بہرحال رژلٹ کا انتظار تھا۔ وقت مقررہ پہ رژلٹ آوٹ ہوا دیکھ کر رب کی بارگاہ میں شکرانہ پیش کیا، پہلے پہل مجھے اپنی بصارت پہ یقین نہیں ہورہا تھا کہ میں نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے، پھر دل میں خیال آیا کہ کامیاب کیوں نہ ہوتا جب کہ ابھی کچھ دن پہلے عرس حضور صاحب البرکات کے مبارک موقع پر جب میں نے حضور صاحب البرکات کی حیات و خدمات پر تقریر کی تھی، اس وقت حضور امین ملت نے خوب خوب دعاؤں سے نوازا تھا اور حضور شرف ملت نے کہا تھا کہ “ایسی مختصر اور جامع تقریریں میں نے بہت کم سنی ہے” اور جنگ آزادی کے موقع پر اس فقیر نے ایک مضمون لکھا تھا اس وقت ابا حضور نے انعام و اکرام اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے کہا کہ “اللہ تعالیٰ آپ کی زبان اور قلم دونوں کو مضبوط بنائے” ۔ میرے سرکاروں اور میرے اساتذہ کی دعاؤں کا سہرا میرے سر تھا تو پھر ناکام کیوں کر ہوتا ۔
سب سے پہلے قبلہ پرنسپل صاحب کو خوشخبری سنائی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھے : ارے! ماشاءاللہ بیٹا! تم نے تو دل خوش کر دیا مبارک ہو بیٹا! ۔ پھر مفتی شاداب صاحب کے پاس فون کیا وہ بھی خوشخبری سننے کا انتظار ہی کر رہے تھے، جب میں نے ان کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ “بابو! تم نے ہمارا سر فخر سے اونچا کر دیا اور ہمارے جامعہ کا نام روشن کر دیا” ۔ پھر ابا حضور کو فون کیا تو ابا حضور نے فون اٹھاتے ہی فوراً کہا کہ “بیٹا! مبارک ہو”- اور خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔
شام کے وقت جماعت اہل سنت کی مشہور ومعروف شخصیت، مناظر اہل سنت تاج الفقہاء حضرت علامہ مفتی اختر حسین صاحب علیمی دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی اور خانقاہ عالیہ مینائیہ کے سجادہ نشین سرکار شاہ جمال مینا صاحب کے ہاتھوں خوبصورت ٹرافی اور فتاویٰ فقیہ ملت اور پچیس ہزار روپیے [25000] نقد انعام و اکرام سے نوازا گیا-[فالحمدلله علیٰ ذالک] اگلے دن جیسے ہی خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مقدسہ پہنچا اساتذہ و طلبہ اور خانقاہ کے تمام خدام کے چہرے کھل اٹھے، پرجوش استقبال کیا اور مبارکبادیوں سے نوازا- ابا حضور سے ملاقات کی تو ابا حضور کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور خوب خوب دعاؤں سے نوازا- میں اپنی اس نمایاں کامیابی پر تمام شہزادگان وآقایانِ خاندان برکات اورجملہ اساتذۂ کرام اور علاقۂ تھار کی بہت ہی عظیم شخصیت اور مغربی راجستھان کی ممتاز و منفرد دینی درسگاہ دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف کے مہتمم وشیخ الحدیث اور میرے اوپر خصوصی طور پر ماں باپ سی شفقت فرمانے والے مفکر قوم وملت نورالعلماء والمشائخ حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری کا ( جو وقتاً فوقتاً اپنی دعاؤں سے نوازتے رہتے ہیں، جن کی دعاؤں کا صدقہ مجھے یہ ملتا ہے کہ میں جس میدان میں بھی قدم رکھتا ہوں ان کی دعاؤں سے کامیاب ہوتا ہوں) اور دارالعلوم انوار مصطفیٰ کے ناظم تعلیمات اور لائق و فائق استاد اور ہندوستان کے مشہور ومعروف قلم کار حضرت مولانا شمیم احمد نوری مصباحی کہ جن کے مشوروں نے کئی جگہوں پر مجھے کامیاب کروایا. اللہ تعالٰی میرے تمام اساتذہ اور کرم فرماؤں کو سلامت رکھے اور عمر خضر عطا فرمائے-
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین آباد