WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category یومِ آزادی مبارک

خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ مطہرہ میں “جشن یوم آزادی” تزک واحتشام کےساتھ منایا گیا”” محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)


غیر منقسم ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ”خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ شریف” کے تحت چلنے والے ادارہ “جامعہ احسن البرکات” کے وسیع و عریض گراونڈ میں یوم آزادی کی مناسبت سے ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا،جس میں جامعہ کے سرپرست حضور رفیق ملت (ابا حضور) سید شاہ نجیب حیدر نوری برکاتی مد ظلہ النورانی ورعاہ اور جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی-صاحب سجادہ(جنہیں ہم تمام طلبہ اور اساتذۂ جامعہ پیار کی بولی میں ابا حضور کہتے ہیں) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پرچم کشائی فرمائی، اور جامعہ کے دو شاہین صفت طلبہ (محمد برکت علی برکاتی راجستھانی درجہ سادسہ اور محمد اکرم علی برکاتی گجراتی درجہ اعدادیہ) نے شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا لکھا ہوا مشہور زمانہ ترانۂ ہندی “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا… ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا” اپنی دل نشیں اور اچھوتے انداز میں پیش کیا- اس کے بعد جامعہ کے سرپرست صاحب سجادہ حضور رفیق ملت نے جنگ آزادی کا مطلب سمجھایا اور تحریک آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں ہمارے علما اور ہمارے آباء و اجداد نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں ملک ہندوستان ہمارا ہے اور اس ملک میں ہمارے آباء واجداد اور اولیائے کرام کے مزارات ہیں- الحمدللہ ہم بائی چوائز ہندوستانی ہیں اور اخیر میں صاحب سجادہ (ابا حضور) حضور رفیق ملت نے اپنی گفتگو کے دوران مجھ احقر کو نام لے کر پکارا کہ محمد ہاشم برکاتی سلمہ جہاں بھی ہوں آگے آئیں، جیسے ہی ابا حضور کی زبان مبارک سے اپنا نام سنا دل باغ باغ سا ہوگیا اور فوراً آگے آیا پھر ابا حضور نے مائک میں بتایا کہ ہاشم برکاتی نے ابھی حال ہی میں جو مضمون لکھا تھا اسے میں نے حضور امین ملت،حضور شرف ملت، احمد مجتبیٰ صدیقی اور جناب عتیق برکاتی کانپوری اور اس کے علاوہ بڑے بڑے ادیبوں کے پاس بھیجا جن کو آپ جانتے بھی نہیں ہیں سب نے اس مضمون کی خوب خوب تعریف کی،اور شرف ملت نے خصوصی طور پر دادو تحسین سے نوازا اور کہاکہ ماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالٰی میرے بچے کو سلامت رکھے اور حضور امین ملت مد ظلہ النورانی ورعاہ نے دعائیہ وحوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت مارہرہ شریف میں نہیں ہوں ورنہ میں خود اس بچہ کو انعام و اکرام سے نوازتا. آپ میری طرف سے اس بچہ کو 1100 دے دینا. آپ نے یہ کلمات ارشاد فرماتے ہوئے 1100 گیارہ سو روپیے اپنی جیب سے نکالے اور مجھے عطا فرمایا. اس کے بعد دوبارہ 1100 نکالا اور جامعہ کے پرنسپل استاذگرامی وقار حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعہ کی طرف سے آپ اپنے ہاتھ سے اس بچے کو بطور انعام دے دیجیے. اس کے بعد جب فقیر انعام حاصل کرکے جانے لگا تو آپ نے اپنے پیارے اور مخصوص لہجے میں ارشاد فرمایا کہ بیٹا ابھی کہاں جا رہے ہو؟ تو فقیر وہیں کھڑا ہو گیا بعدہ ابا حضور نے اپنے گلے سے رومال نکالا اور فرمایا کہ یہ مدینہ شریف کا رومال ہے میں اپنی طرف سے یہ رومال عطا کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے میرے کندھے پر رومال رکھ دیا اور دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم اور آپ کی زبان(چونکہ ابا حضور کے سامنے کئی مرتبہ تقریر کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے اور آپ میری تقریر کو کافی پسند بھی فرماتے ہیں) دونوں کو تقویت عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تر پریشانیوں کو دور فرمائے- ابا حضور کے یہ جملے سن کر فقیر کے دل کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ آج کے بعد ان شاءاللہ کبھی بھی فقیر کو کم از کم کوئی بڑی پریشانی لاحق نہیں ہوگی- پھر ابا حضور نے نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ شاگرد چاہے جتنا بھی قابل ہو جائے اپنے استاذ کے سامنے ہمیشہ چھوٹا سا چوزہ ہی رہتا ہے (چونکہ میری اس تمام کامیابی کے پیچھے خصوصی طور پر ہمارے مشفق و مہربان استاد حضرت علامہ مفتی شاداب امجدی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے) اس کے بعد ابا حضور نے مفتی صاحب قبلہ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا اور مفتی صاحب قبلہ کو بھی مدینہ منورہ کا مصلی عطا فرمایا. اور ارشاد فرمایا کہ آپ اس مصلی پر نماز پڑھ کر اپنے شاگردوں کے لئے دعا فرمایا کریں. اسکے بعد جامعہ کے کانفرنس ہال میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا اس میں اول پوزیشن جماعت اعدادیہ نے حاصل کی اور دوم پوزیشن جماعت خامسہ نے حاصل کی. اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں کو بھی جامعہ کی طرف سے گراں قدر انعام و اکرام سے نوازا گیا-
صلوٰة و سلام اور دعا پر پروگرام تکمیل کو پہنچا-

محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو علامہ فضل حق خیر آبادی،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


فلسفہ اور منطق کے امام ،عربی اور فارسی کے جید عالم، بلند مرتبت شاعر و ادیب اور آزادی کے سرخیل مولانا فضل حق خیر آبادی کی عظیم شخصیت سے کون واقف نہیں ہوگا۔ ان کا تعلق خیر آباد ضلع سیتا پور کے گہوارہ علم وادب کے خاندان سے تھا۔ جن کا نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ہندوستانی صوفی و مفتی مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند علامہ فضل حق شہید بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔
ولادتِ باسعادت ۔۔ علامہ فضل حق 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔،
تحریک آزادی کو فتویٰ “جہاد” سے ملا نیا رخ
مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار فوج جمع ہوگئی تھی
فتویٰ “جہاد” مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد محسوس ہوا- دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی.الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی و مددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مددگاروں کو مرتد و بے دین سمجھتے تھے۔ وہ علم و فضل کے بحرِ بےکنار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا حق ادا کر دیا۔ سنتِ حسین پر عمل پیرا ہوکر اپنی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوئے۔
وصال: جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر “آزادی” کی آذانیں سنا رہی ہے۔

دعائیہ ترانۂ وطن، از تاج الشعراء حضرت علامہ سلمان فریدی صدیقی مصباحی بارہ بنکوی صاحب مسقط عمان


یہ ترانہ آج کی ضرورت کے اعتبار سے لکھا گیا ہے،ملکی وقومی مسائل کو لیکر دعا کی گئ ہے، جو یقینا ہر مُحبّ وطن کے دل کی آواز ہے، اسلوب سادہ اور الفاظ سہل ہیں تاکہ بچے بھی آسانی کے ساتھ یاد کرسکیں ،
اللہ تعالی ہمارے وطن کو گہوارۂ امن و اماں بنائے اور اِس گلشن کو فتنوں کی خزاں سے بچاکر ہمیشہ شاداب رکھے … آمین
🌹🇳🇪🌹
پھولوں سا مسکراتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
تاروں سا جگمگاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

یا رب دلوں سے ختم ہوں آپس کی دوریاں
ہر ایک کو ملاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

بھارت کی آنکھ روئے نہ دکھ درد سے کبھی
بس ہنستا کِھلکِھلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

اِس ملک سے اندھیرا جہالت کا دور ہو
علم وہنر سکھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

سارے برادران وطن امن سے رہیں
الفت کے گیت گاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

لیکر اونچائیوں پہ چڑھے سب کو ساتھ ساتھ
گِرتوں کو بھی اٹھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

تکلیف ہو کسی کو تو سب مل کے کم کریں
خوشیوں سے گُنگناتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

سب کو برابری سے ہی دیکھیں عدالتیں
ہر اک کا حق دلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

آٸیں نہ لوگ اھل سیاست کی چال میں
ہر فتنے کو مٹاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ہرگز کسی ستم پہ نہ خاموش ہو زباں
آوازِ حق اٹھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ظالم پہ سخت اِسکی ہمیشہ رہے نظر
مظلوم کو بچاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

فتنہ اٹھانے والوں کی کرکے سدا پکڑ
اِس آگ کو بجھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

پیغام شانتی کا بڑوں نے دیا ہے جو
نغمے وہی سناتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ہم میں کبھی یہ پیار یہ سَدبھاؤ کم نہ ہو
سیدھی ڈگر چلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

جامِ وفا جو پی کے جیالوں نے جان دی
سب کو وہ مے پلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

دنیا کی شانتی کے لیے یہ بنے سفیر
امن واماں بڑھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ٹوٹے نہ اے فریدی کبھی ایکتا کی ڈور
سب کو گلے لگاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

قومی ترانہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

خاک وطن ہے پیاری ہم سب کو اپنی جاں سے
کرتے ہیں پیار جیسے افراد اپنی ماں سے

ہندوستاں سے مجھ کو کیونکر نہ ہو محبت
میر عرب کو آءی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

ہے مادر وطن کے قدموں کی خوشبو ایسی
آتی ہے اس کی خوشبو ہر قلب کے مکاں سے

پودے نرالے اس کے اور گل بھی ہیں نرالے
مجھ کو لگا ہے بھارت نیارا ہر اک جہاں سے

ٹیگور ہو کہ بنکم، بیکل ہو یا وہ اجمل
ہم کو ہے پیار ہر اک بھارت کے مدح خواں سے

پیدا ہوءے ہیں اس میں ، اس میں ہی دفن ہونگے
مت پوچھنا اے ظالم ، آءے ہو تم کہاں سے

صدیوں سے اس وطن میں ہے بود و باش اپنی
پڑھ کے تو دیکھو تاریخ اور پوچھو نکتہ داں سے

آپس میں کررہے ہیں سرگوشیاں ستارے
دیکھو زمین بھارت اونچی ہے آسماں سے

حق کی حصول یابی کے واسطے لڑیں گے
اور فرض بھی نبھاءینگے دل‌سے اور جاں سے

حب وطن کو جزو ایماں بتایا شہ نے
کرتا ہوں خوب توصیف اس واسطے زباں سے

یہ کہہ کے رکھ دیا ہے ہم نے قلم بھی عینی
تعریف کیا کروں میں ، باہر ہے یہ بیاں سے

۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

جنگ آزادی میں علماۓ کرام کی قربانیاں{ موجِ فکر }✍ آصفــ جمیل امجدی

………..75/ویں یوم آزادی کا سورج اپنی پوری آب و تاب کیساتھ افق ہند پر جلوہ پاشی کررہاہےـ
ہر سال ہم 15/ اگست کو یوم آزادی اور 26/ جنوری کو یوم جمہوریہ مناتے ہیں ـ اس دن ہم اپنے ان رہنماؤں کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا تھاـ آزادی حاصل ھوۓ 75/ برس ھوگئے جسے ہم بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں یہ ہمارا فریضہ ہے اور نصب العین بھی.

  74/سال قبل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • جب ساون اور بھادوں کے مہینے میں آسمان پر بدلیاں چھائی تھیں۔
  • جب گھٹائیں ہندوستان کے دامن سے غلامی کی نجاستوں کو پاک کررہی تھیں۔
  • جب ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں پر ہماری آزادی کا سورج جلوہ فگن ہورہاتھا۔
  • جب غلامی کی بیڑیاں کٹ رہی تھیں۔ اس وقت ملک کے لوگ یہ فیصلہ کررہے تھے کہ یہ ملک کسی ایک فرقے کا نہ ہوگا، یہاں ہر مذہب و ملت کا احترام ہوگا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔

آج پھر گھنگور گھٹائیں چھائی ہیں اور پانی کی بوندیں تازہ ترانا گنگنارہی ہیں اور ہم اس ملک کی یوم آزادی کی 75/ ویں سال گرہ منارہے ہیں۔
لیکن یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان کو نظر انداز کردیاگیا تاریخ کی کتابوں سے لے کر عجائب خانوں تک ان کے نام و نشاں مٹا دیئے گئے…..
اب ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بیان کی جاتی ہے یا لکھی جاتی ہے اس سے مسلم اور غیر مسلم نوجوان طلباء یہی تأثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں “مولانا عبد الکلام آزاد اور شہید اشفاق اللہ خاں” کے علاوہ بس ایک دو مسلم اورتھے۔ ایسے تاثر لینے پر نئی نسل مجبور ہے کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جد و جہد کی ہے۔ مصیبتیں جھیلیں ہیں اور جان کی بازیاں لگائی ہیں پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی ہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف جنگ چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان ، قید کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیلے جانے والے مسلمان رہے ہیں۔
بھارت کے بٹوارے کے وقت ہمیں حق تھا پاکستان جانے کا آپ کونہیں تھا۔ ہمیں حق تھا، لیکن ہمارے اسلاف نے یہ طے کیا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارے اجداد کی قبریں ہیں یہاں، ہمارے بزرگوں کے مزارات ہیں یہاں۔ جامع مسجد ہے دلی کی، تاج محل ہے، قلعیں ہیں بزرگوں کی یادیں ہیں یہاں اور یہ سب بھارت کی شان ہیں آج انہیں مسلمانوں کو غدار ٹھہرایا جارہا ہے۔ انہی کا نام لے کر سڑکوں پر مارا جارہا ہے ۔ ہم اپنی مرضی سے رکے تھے، ہمیں کسی نے زبردستی نہیں روکا تھا، جو اپنی مرضی سے رکے ان کے لیے آج یہ کہا جارہاہے کہ جو “وندے ماترم” نہیں کہے گا اسے بھارت میں رہنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ حالانکہ سپرم کورٹ کہہ رہا ہے کہ “وندے ماترم” کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاۓ گا سب سے بڑی عدالت تو وہ بھی ہے ۔

بھارت کو آزاد کرانے کےلیے ”ریشمی رومال تحریک“ میں لاتعداد علماۓ کرام نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا آج بھی اس بھارت ملک کی مٹی میں نہ جانے کتنے آزادی کے متوالے مسلم شہداء کی لاشیں دفن ہیں ۔
حضرت مولانا ہدایت رسول قادری برکاتی رحمتہ اللہ لکھنوی متوفی 1915ع نے لکھنؤ میں انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی تھی اور “لکھنؤ بند” کا اعلان عام کیا تھا۔ لکھنؤ بند کے دن ساری دکانیں بند تھیں پورے شہر میں کسی طرح کی خرید و فروخت نہیں ہوتی تھی ۔ کسی انگریز نے ایک بوڑھیا خاتون سے (جو سبزی بیچا کرتی تھی) کہا کہ مجھے سبزی کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔ بوڑھیا نے برجستہ اور بلاخوف و خطر انگریز کو جواب دیا ”نہیں! آج کچھ نہیں مل سکتا ہے“ ہمارے مولانا نے آج لکھنؤ والوں کو منع کیا ہے کہ کوئی بھی دوکان نہیں کھول سکتا ہے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکتا ہے؎
شیر میسور ٹیپو سلطان (شہادت 1799ع) پورے متحدہ ہندوستان کا یکلوتا بادشاہ جنھوں نے انگریزوں سے لڑتے ہوۓ میدان جنگ کے اندر عین حالت جنگ میں شہادت پائی۔ اور انگریز کمانڈر نے سلطان ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا “آج سے ہندوستان ہمارا ہے” اسی شیرِ دل نے للکار کر دہاڑا تھا کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“
16/رمضان المبارک 1274ھ مطابق 30/ اپریل 1858ع کو مفتی کفایت اللہ کافی رحمتہ اللہ علیہ کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا 4/مئ
1858ٕٕع کو آپ کا مقدمہ پیش ہوا اور سر سری سماعت کے بعد 5….6/مئ کو آپ کے پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا۔
نہایت صبر و استقلال اور خندہ پیشانی کے ساتھ آپ نے یہ ظالمانہ فیصلہ سنا۔ مفتی کفایت اللہ کافی جب پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے تھے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔

؏ ۔۔۔۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جاۓ گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جاۓ گا۔

سن 1942ء میں جب ہندو مسلم نے ایک برتن میں کھانا کھایا تھا تب انگریزوں کو لگا تھا کہ اب ہم ہندوستان میں راج نہیں کرپائیں گے۔اور سن 1942ء سے ہی انگریز اپنا بستر باندھنا شروع کردیئے تھے ۔
سن 1947ء میں ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔

(ناچیز زخمی قلب و جگر کیساتھ آگے کی منظر کشی کررہا ہے۔)

سن 1870ع کی تحریک میں تنہا مسلمان انگریزوں سے آزادی کیلئے لڑتے رہے ـ جس میں علمائے اہلِ سنت کی مقدس جماعت پیش پیش تھی.
(1) جلیاں والا باغ میں مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھاکر یہ بتایا کہ مسلمان ملک کا کیسا وفادرا ہے۔

(2) نمک تحریک میں 78 ہزار مسلمان گرفتار ہوۓ، گرفتاری بھی مسلمانوں کی وفاداری کی عکاسی ہے۔

(3) سن1920 سے 1922ع تک کی تحریک آزادی میں 20ہزار مسلمان گرفتار ھوئے۔

ان گنت مسلمانوں کو کالا پانی کی قید میں ڈالا گیا. بے شمار علما کی لاشوں کو درختوں سے لٹکایا گیا.
اس طرح بے شمار قربانیاں جو مسلمانوں نے انجام دیں وہ سب مٹانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں.
ہماری یہ قربانیاں شاید آج لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہیں یا پھر چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے.

دہلی میں چار ہزار دینی مدرسےقائم تھے۔
تحریک آزادئِ ھند 1857ء کی لہر اٹھی تو نہ صرف یہ سارے مدرسے گرا دیئے گئے بلکہ پورے دلی شہر میں ایک بھی طالب علم زندہ نہ بچ سکا
انگریز مورخ لکھتاہےکہ
میں نے دلی شہر اور مضافات میں 50 کلومٹر فاصلے کا چکر لگایا ایسا کوٸی درخت اور شاخ نظر نہ آیا جس پر ایک عالم دین اور تحریک آزادی کے جانثار کی لاش نہ لٹکی ہوئی ہو۔

نادان! پوچھتے ہیں تحریک آزادی میں علما کا کیا کردار رہا۔

مسلمانو! اٹھو اور اپنی قربانیوں کی داستانیں بچے بچے تک پہنچادو تاکہ دوبارہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس ملک کے لیے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. نسل نو پھر سے محبت کا پیغام لیکر اٹھے, جو ہمارے ملک کو عظمت کی بلندیوں تک لے جائے۔

{مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
9161943293/6306397662

جنگ آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیاں، از قلم ،محمدہاشم رضا متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف


ملک ہندوستان جہاں اپنی زرخیزی ،صنعت وحرفت کی وجہ سے ہمیشہ ایک خاص شہرت کا مالک رہا ہے ۔ وہیں اہل فضل و کمال کا گہوارہ بھی رہا ہے ۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی ہندوستان پوری دنیا کے لئے قابل رشک بنا ہوا تھا ، دنیا کے بیش قیمتی سامان ہندوستان میں تیار ہوا کرتے تھے ، کھیتوں میں بھی طرح طرح کے اناج اور غلے ہوا کرتے تھے ، جب ہندوستان کی اس حیثیت کو دوسرممالک کے لوگوں نے دیکھا تو انکی بھی رال ہندوستان پر ٹپکنے لگی کہ ہمیں بھی ہندوستان سے کچھ ملنا چاہیے ۔ کیونکہ ہندوستان کو اس زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔اور پوری دنیا کے تاجروںکی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ، پندرہویںصدی سے غیرملکی تاجروں نے یہاں تجارت کا آغاز کیا ۔۱۶۰۰میں انگریزبھی بغرض تجارت ہندوستان پہنچے اور ساحلی علاقوں میں تجارت شروع کردی مگر ٹیکس کی واجبی ادائیگی کی وجہ سے انہیں خاص نفع حاصل نہ ہوا کہ انہیں دنوں شاہجہاں کی شہزادی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوئی جسکا ہندوستانی طبیبوں سے علاج ممکن نہ ہو سکا ، اور ایک انگریز طبیب نے کامیاب علاج کیا جسکی خوشی میں بادشاہ نے بنگال میں انگریزوں کو کمپنی شروع کرنے کی اجازت دی ۔ اور ٹیکس بھی معاف کر دیا ۔ بنگال میں انہوںنے ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی ، یہ انگریزوں کے ہندوستان میں عروج کی خشت اولین تھی ، کمپنی میں انہوںنے ملازمین کو جنگی تربیت بھی دی ۔ اور ۱۷۵۷ء؁ میں بنگال کے نواب سراج الدولہ پہ الزام لگا کر اعلان جنگ کر دیا اور نواب کے وزیر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح سازشی انداز میں نواب کو پلاسی کے میدان میں شکست دیکر انگریزبنگال میں قابض ہو گئے ۔ پھر اس وقت کے مغل بادشاہ شاہ عالم کے پاس جاکر جبرا یہ فرمان جاری کروادیا کہ بنگال ،بہار ،اڑیسہ ،اور الہ آباد پر انگریزوں کی حکومت رہے گی ۔ ان شہروں پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چا ل (لڑاؤ اور حکومت کرو) کے پیش نظر دوسرے نوابوں اور راجاوں میں پھوٹ ڈالنا شروع کردی ۔ انگریزوں نے اپنی پالیسی پر عمل کرکے ۱۸۵۶ء؁ میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے جو ظلم و بربریت کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی ہے وہ یقینا بھلائی نہں جا سکتی ۔ پھر ۱۸۵۷ء؁ میں جنگ آزادی لڑی گئی ۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے ملک کی ہر قوم اپنی بساط کے مطابق جدو جہد میں لگ گئی ۔ مگر ہندوستانی عوام اس کشمکش میں تھی کہ پہل کرے اس وقت ہمارے علمائے اہلسنت نے جنگ آزادی میں نہ صرف اپنا قائدانہ کردار ادا کیا ہے بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ۔ ملک کی آزادی میں جن مایہ نازہستیوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ان میں سے چند علماکی قربانیوں کو آنے والی سطروں میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱)علامہ فضل حق خیر آبادی : آپ کو اللہ تعالی نے جس ذہانت وفطانت کی وافر دولت سے مالا مال کیا تھا وہ آاب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ آپ علوم عقلیہ میں امامت واجتہاد کے منصب پر فائز تھے ۔ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آپ کے علم و فضل کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ جس وقت انگریزہندوستان میں مسلمانوں کے خو ن کے ساتھ ہولی کھیل رہے تھے اسوقت سب سے پہلے دہلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جسنے جہاد کی آواز بلند کی وہ علامہ فضل حق خیر آبادی ہی کی ذات تھی ۔ جیسے ہی یہ خبر شائع ہوئی پورے ہندوستان میں شورش بڑ گئی ۔ ۹۰ ہزار سپاہی دہلی کی جامع مسجد میں ہو گئے ۔علامہ صاحب دل و جان سے انگریزی استعمار کے خلاف ڈتے رہے انکی اشتعال انگیزیوں سے متأثر ہوکر شہزادے بھی میدان میں نکل آئے ۔ لیکن حالت یہ تھی کہ اپنوں میں کئی دغاباز تھے علامہ صاحب نے جو فتوی دیا تھا اسکی خبر انگریزوں تک پہنچا دی گئی ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کی بڑے زوروں سے تلاشی کی جا رہی تھی۔ اسی حالت میں وہ اپنے خاندان کو لیکر دہلی نکل گئے ،اور علی گڑھ کے نواب کے یہاں پناہ لی ۔ وہاں اٹھارہ دن رہنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ بدایوں تشریف لے گئے ۔ علامہ صاحب تقریبا ۲سال تک ادھر ادھر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے رہے۔پھر کچھ دنوں بعد گرفتار کر لئے گئے ۔ مقدمہ چلایا گیا ْ ْ ۔اتفاق سے جج علامہ صاحب کا شاگرد تھا ۔اس نے چاہاکہ علامہ صاحب جھوٹ بول دیں اور انکو چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن آپ نے جھوٹ بولنے سے انکارکر دیا ۔جج نے آپ کے لئے انڈمان میں کالے پانی کی سزا تجویز کی ۔۱۸۶۱ء؁میں وہیں علامہ صاحب کا انتقال ہو گیا ۔
خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی فرماتے ہیں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی زندگی کے دو پہلو ہیں ۔آپ کی علمی و ادبی زندگی دیکھ کر بو علی سینا ، غزالی ، رازی ، ابو حنیفہ کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ اور آپکے مجاہدانہ کردار سے حسین ابن علی کی مظلومیت کی خونی داستان آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے(۲)مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی صاحب قبلہ :آپکی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ شیخ طریقت بھی تھے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ انگریز ہندوستانی باشندوں کے خاندانی وقار اور عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں تو آپ اپنے مریدوں کے ساتھ میدان کارزار میں تشریف لے آئے ۔ اور آپنے آزادی کے متوالوں کی ٹیم تیار کی ۔ اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ۔ جہاد کرتے کرتے آدھے لکھنؤ پر قبضہ کر لیا تھا ۔ لیکن یہاں بھی وہی معاملہ پیش آیا کہ ایک نا اہل شخص انگریزوں کے ساتھ مل گیا۔ اور آپ شہید کر دیے گئے ۔ مولانا مدراسی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے آزادی کا صور پھونکنے کے لئے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ ہندوؤں کو بھی منتخب کیا تھا ۔ انگریزوں کے لئے آپکی شخصیت قہر ذوالجلال بنی ہوئی تھی ۔ ہزاروں انگریزوں کو آپنے کیفر کردار تک پہچایا تھا (۳)سید کفایت علی کافی مرادآبادی :مجاہد آزادی ،چشم و چراغ خاندان رسالت حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مراد آبادی ایک جیداور ممتازعالم دین تھے ۔ جس وقت آپنے آنکھیں کھولی وہ انگریزوں کے ظلم وبربریت کے عروج کا دور تھا ۔انگریز پورے ملک میں اپنی مکاری کا جال پھیلا چکے تھے ۔ ایسے پر آشوب دور میں آپنے جب اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو آپکی وطنی اور مذہبی غیرت نے آ پ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ پھر اسکے بعد آپنے انگریزوں کے ناپاک وجود سے مادر وطن کو پاک کرنے کا جو عزم مصمم کیا تھا آخری دم تک اس پر دٹے رہے ۔ ہزاروں آندھیاں چلیں ۔لاکھوں طوفان آئے ۔ مگر آپکے ارادہ میں ذرہ برابر بھی جنبش نہ آئی ۔آخر کار انگریزوں نے آپ کو گرفتار کرکے قید خانہ میں بڑی درد ناک اذیتیں دیں ۔آپکو مراد آباد کے بیچ چوراہے پر پھانسی دے دی مگر آپکے چہرے پر ذرہ برابرا خوف کے آثار ظاہر نہ ہوئے بلکہ راضی برضائے الٰہی یہ کہتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا ۔
کو ئی گل با قی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا پررسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہندوستان کی جنگ آزادی میں ایسے سورماؤں کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی مگر اسکے باوجود جب بھی آزادی کا جشن منایا جاتاہے تو برادران وطن انکی قربانیوںکو خراج عقیدت پیش نہیں کرتے ۔لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے علما کی ان قربانیوں کو جانیں اور عام کریں ۔