WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category رمضان اسپیشل

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل:

قرآن و حدیث میں اہل اسلام کے لیے فرضیت  صلوۃ و صوم اور حج و زکوۃ کے ساتھ  صدقہ فطر کو بھی واجب قرار دیا ہے، صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اسی سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔

اللہ رب العزت جل جلالہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى،وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(سورۃالاعلی  آیت 14/15)
ترجَمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔(کنز الایمان)
اس آیت کریمہ کےتحت حضورصدرالا فاضل
مفسر قرآن حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ و الرضوان ’’ خزائن العرفان‘‘ میں لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقہ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نماز عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص1064)

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(بخاری شریف، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مقام پر صدقہ فطر کے بارے میں ارشاد فرمایا:
،، بندۂ مومن کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک بندہ مومن صدقہ فطر ادا نہ کرے۔(ملخصا۔الفردوس بمأثور الخطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)

صدقہ فطر واجب اور لغو باتوں کا کفارہ ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکہ مکرمہ  کے گلی کوچوں میں اعلان کر دو،کہ ’’صد قہ فطر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مقرر فرمایا تاکہ فضول اور بیہودہ کلام سے روزوں کی طہارت و صفائی ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔ 
(ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2 :  28، رقم :  1609)

صدقہ فطر واجب ہونے کے  16 مسائل:

(1)صدقہ فطر  ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور ان کا نصاب حاجات اصلیہ (یعنی ضروریات زندگی مثلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارغ ہو۔
(فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
(2)جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مال تجارت ہو (اور یہ سب حاجات اصلیہ سے فارغ ہوں ) یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اس کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے (مزید تفصیل  بہار شریعت ملاحظہ فرمائیں)۔
(3) صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مجنوون،پاگل بھی اگر صاحب نصاب ہوتو اس کے مال میں سے ان کا ولی، سرپرست صدقہ فطر ادا کرے۔
 (ردالمحتار ۳ص۳۶۵)
’’صدقہ فطر ‘‘ کے لئے مقدار نصاب تو وہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ صدقہ فطر  کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں زیارتی و بڑھنےکی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (جیسے عام ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہ وغیرہ)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملخصا)
(4) مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مجنون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مجنون خود صاحب نصاب ہے تو پھر اس کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(5) مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
(ایضاً ص۱۹۳ملخصا)
(6)والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے ان پہ صدقہ فطر  دینا واجب ہے۔ (درمختار ج۳ص۳۶۸)
(7) ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر  دینا واجب نہیں ۔ ( رد المحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
(8) باپ پر اپنی عاقل بالغ اولاد کا فطرہ واجب نہیں ۔ (درمختار مع ردالمحتار ج۳ص۳۷۰)
(9) کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ بغیر مجبوری کے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صدقہ فطر واجب ہے۔ (ردالمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
(10) بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذمے ہے، وہ اگر ان کی اجازت کے بغیر ہی ان کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے مثلاً بالغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان و نفقہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذمہ دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
(11)بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸)
(12) عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے وقت جو صاحب نصاب تھا اسی پر صدقہ فطر واجب ہے ،اگر صبح صادق کے بعد صاحب نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(13) صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت تو یہی ہے کہ عید کو صبح صادق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن بلکہ رمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (ایضاً)
(14)اگر عید کا دن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (ایضاً)
(15)صدقہ فطر کے مصا رف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کوفطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (ایضاًص۱۹۴ ملخصاً)
(16)سادات کرام کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔

صدقہ فطر کی مقدار:

گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے۔ 
(عالمگیری ج۱ص۱۹۱،درمختارج۳ص۳۷۲)
 ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو351/اکاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پچھتر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (ایضاً)
حاصل کلام:
قرآن و حدیث سےواضح ہوگیا کہ ہر مسلمان پر صدقہ فطر کا ادا کرنا نماز عید الفطر سے قبل یہ زیادہ افضل ہے ۔

اللہ رب العزت جل جلالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب مسلمانان اہل سنت کے صدقہ فطر، صوم و صلوۃ کو قبول فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

باعث کیف و فرحت ہےعید سعید، ازقلم، سید خادم رسول عینی

عید سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید

عید گاہوں کا کہتا ہے بڑھتا ہجوم
ہر مسلماں کی شوکت ہے عید سعید

ہر مسلماں کے چہرے پہ مسکان ہے
باعث کیف و فرحت ہے عید سعید

دوست ہوں یا کہ دشمن گلے ملتے ہیں
کس قدر وجہ الفت ہے عید سعید

خوب رکھو خیال اپنے احباب کا
روز احسان و نصرت ہے عید سعید

رحمت حق سے ہوتے ہیں ہم مالا مال
یوں ہماری سعادت ہے عید سعید

مغفرت سے نوازے گئے صائمین
بخشش رب کی ساعت ہے عید سعید

“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

شبِ قدر.. از: سید خادم رسول عینی

شب قدر۔۔۔۔۔۔

براءے مسلماں ہے نعمت شب قدر

رضاءے خدا کی بشارت شب قدر

مسلمان کرتے ہیں مل کر عبادت

بڑھاتی ہے آپس میں ملت شب قدر

نزول کرم صبح تک ہورہا ہے

ہے اعلان امن و صیانت شب قدر

بڑے فخر اور ناز سے قدسیوں کو

دکھاتی ہے عابد کی عظمت شب قدر

کئی درجہ نیکی کا ہے اجر اس ‌رات

عبادت کو دیتی ہے برکت شب قدر

تری منزلت پر مکمل ہے سورہ

نہ کیوں پھر ہو تجھ سے عقیدت شب قدر

ہیں حامل تشکر کے احمد ضیاءی

کیا خوب قراں تلاوت شب قدر

اراکین مسجد کو بھی تہنیت ہو

کیا اہتمام جماعت شب قدر

کریں جستجو قدر کی رات “عینی “

ہے شان کریمی کی حکمت شب قدر۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan……

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan………………………….

For all of us benevolent month of Ramadan

, Full of divinity quotient month of Ramadan

Believer’s happiness and delight know no bounds

, To behold your moon the crescent month of Ramadan

This is one of the five pillars of great Islam,

To observe your fast incumbent month of Ramadan

The Spiritual rewards are getting multiplied,

In you sanctity is present month of Ramadan

The Quran was revealed on the day of Power,

In you this sacred day present month of Ramadan

You inculcate the discipline and self control,

You are truly an excellent month of Ramadan

The paradise is opened on your arrival,

“Aini” is also your adherent month of Ramadan…..

.By: Sayed khadime Rasul Aini

شب قدر کی اہمیت و فضیلت از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!

از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

یہ بات شریعت اسلامیہ کے مسلمات میں سے ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک نے ماہ و سال کا نظام بنایا اور کائنات میں مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے مقابلے میں شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا پھر عالم دنیا کے ہر ایک شعبہ کو آیت کریمہ ” فضلنا بعضھم علیٰ بعض ” کا مصداق بنایا- چنانچہ بعض مہینوں کو بعض پر اور بعض ایام کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اسی طرح بعض راتوں کو بعض راتوں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے جس سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں، بقول حضرت امام غزالی “سال میں 15 راتیں خیر کی تجارت گاہیں ہیں اور طالب آخرت تاجر ہے، اس لیے آخرت کے طالبین کو ان راتوں میں غافل نہیں رہنا چاہئے ورنہ نقصان ہوگا” انہیں 15 راتوں میں سے ایک مبارک و مسعود رات “شب قدر” بھی ہے جو اللہ رب العزت کی رحمتوں کا خزانہ اور برکتوں کا گنجینہ ہے اور کم از کم ایسی 30 ‘ہزار راتوں سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو-
شب قدرست طےشدہ نامہ ہجر
سلام فیه حتی مطلع الفجر

اور تو اور اس رات کو تقدیر ساز رات بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اسی رات میں قرآن مجید جیسی تقدیر ساز کتاب نازل ہوئی بقول شاعر

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں،جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گذری گویا اس نےتراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا،عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
اگر دنیا کے کسی سوداگر کو یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے قریبی شہر میں فلاں مہینہ اور تاریخ کو ایک ایسا میلہ لگنے والا ہے جس میں اتنی آمدنی ہوگی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزار گنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیر معمولی نفع ہوگا تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دےگا؟ اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر یوں ہی ضائع کردےگا؟ بلکہ عقلمند شخص وہی ہوگا جو اس اسکیم سے بھرپور نفع اٹھائے اور مستقبل کے لیے ذخیرہ اندوزی کی فکر کرے،بلکہ بتانے والے نے اگر تاریخ نہ بھی بتائی ہو تو کسی نہ کسی طرح وہ تاریخ کاپتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کرےگا اور اگر تاریخ میں کچھ شبہ رہ جائے تواحتیاطاً کئی دن پہلے اس جگہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دےگا-ٹھیک یہی حال اخیر عشرے کی طاق راتوں اور بالخصوص شب قدر کا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتیں اور مغفرتیں اپنے عروج پرہوتی ہیں،کوشش کرنے والے اپنی عبادت وریاضت اور اخلاص وطاعت کے ذریعہ حتی المقدور دامن مراد کو بھرلیتے ہیں، جب کہ غافل ولاپرواہ لوگ اس بے پایاں فضل وانعام کے باوجود محروم ونامراد ہوجاتے ہیں،غرض شب قدر بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے،یہ آسمانوں پر فرشتوں کے لیے عید کی رات ہے اور زمین پر انسانیت کے لیے معراج کمال کے حصول کی رات ہے،اس میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے اتھاہ سمندر پُرجوش ہوتے ہیں، پوری رات میں رحمت الٰہی کی برسات اور خیرو مغفرت کا نزول ہوتا رہتاہے، اطمینان وسکون کی خنک ہواؤں کے جھونکے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں،اس رات میں مردہ دلوں کو زندگی عطاکی جاتی ہے اور روحوں کی تاریک دنیا کو انوار وتجلیات سے جگمگادیا جاتا ہےاور جبرئیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں پھر شب بیداروں کو ان کاسلام ملتا ہےاور شیطانی القاء کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور شیاطین کے ہرقسم کے داؤ پیچ اور تگ ودو پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں شب بھر غیر معمولی روحانی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے،پھر کسی بھی صاحب خیر کو محروم نہیں کیا جاتا ہے-اس لیے اگر کوئی بندہ شب قدر کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک رات میں اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزاروں راتوں میں نہیں کرسکتا ہے-
شب قدر کو شب قدر کہنے کی وجہ:
1:امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنیٰ مرتبہ کے ہیں،چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ یعنی “شب قدر” کہا جاتا ہے۔(القرطبی‘ 20: 130)

2:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے،اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 130)

  1. اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ “اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی،یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے”۔(تفسیر کبیر‘ 32: 28)

4:قدر کا معنیٰ تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔(تفسیر الخازن‘ 4: 395)

5:امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے، اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 131)

یہ مبارک رات کیوں عطا ہوئی؟
اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی،جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔(موطا امام مالک، 1: 319‘ کتاب الصیام،باب ماجاء فی لیلة القدر،رقم حدیث: 15)

اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کیا تھا۔

فعجب رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم لذلک و تمنی ذالک لامته فقال یا رب جعلت امتی أقصر الامم الاعمارا و أقلها أعمالا فاعطاه ﷲ تبارک و تعالیٰ لیلة القدر.(تفسیر الخازن‘ 4: 397)

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سامنے مختلف انبیائے کرام حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یا محمد عجبت امتک من عبادة هولاء النفر ثمانین سنة ‘ فقد انزل ﷲ علیک خیراً من ذلک ثم مقرأنا اَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَة القَدْرِ فسر بذلک رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.
اے نبی محترم! آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی، اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 132)

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلۃ القدر عنایت فرما دی اور اس کی عبادت کو اسی نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا-

امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت:لیلۃ القدر فقط حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم.(الدر المنثور‘ 6: 371)
یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔

پہلی امتوں میں عابد کسے کہا جاتا تھا؟:مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا ،جو ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔

قیل ان العابد کان فیما مضی یسمی عابداً حتی یعبد ﷲ الف شهر عبادة، فجعل ﷲ تعالی لامة محمد صلی الله علیه وآله وسلم عبادة لیلة خیر من الف شهر کانوا یعبدونها.
سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کو یہ شبِ قدر عطا کر دی،جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔(فتح القدیر‘ 5: 472)

گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت محمدیہ کو نصیب ہوئی ہے۔

فضیلتِ شب قدر:احادیث کی روشنی میں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(بخاری،ج1ص626، حدیث:1901)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرّحمہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں: رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص134)

علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا۔(فیض القدیر،ج6ص248،تحت الحدیث:8902ماخوذاً)
مذکورہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر، عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا، چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان هذا الشهر قد حضرکم و فیه لیلة خیر من الف شهر من حرمها فقد حرم الخیر کله ولا یحرم خیرها الا حرم الخیر.

یہ جو ماہ تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے،جو ہزار ماہ سے افضل ہے،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعةً محروم ہو۔(سنن ابن ماجه: 20‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1644)

ایسے شخص کی محرومی میں کیا شک ہو سکتاہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا؟-

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اذا کان لیلة القدر نزل جبرائیل علیه السلام فی کبکة من الملئکة یصلون علی کل عبد قائم او قاعد یذکر ﷲ عزوجل.

شب قدر کو جبرائیل امین علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے، بیٹھے (یعنی کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔(شعب الایمان، 3: 343)

شبِ قدرکب ہوتی ہے؟
قارئین کرام: اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی مَشِیَّت (مرضی)کے تَحت شَبِ قَدر کوپوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا ہمیں یقین کےساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث: 2017) ”فیضانِ رمضان“ صفحہ199 پر ہے:اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالیٰ علیہم اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے، تاہَم بھاری اکثریَّت [اکثرصحابۂ کرام اور جمہور علماءِ کرام] کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے۔ (مسلم،ص383،حدیث:762)
سیدالمفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی نظریہ ہے آپ نے اپنے اس نظریہ پر کئی دلائل پیش کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ “تنزل الملٰئکة والرّوح فیھا” میں “فیھا” (مراد:شب قدر ) سورۂ قدر کا ستائیسواں کلمہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے- اور بعض علماء نے ستائیسویں شب میں شب قدر ہونے پر علم حساب سے بھی استدلال کیا ہے وہ اس طرح کہ لیلة القدر میں کل نو حروف ہیں اور سورۂ قدر میں لیلة القدر کا تذکرہ تین مرتبہ ہوا ہے، اب اگر ۹/ کو ۳/ میں ضرب دے دیا جائے تو نتیجہ ۲۷/ نکلے گا-

شب قدر کو مخفی کیوں رکھا گیا؟
اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم‘ جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔
اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا،ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے،اس لئے رات تعین نہ فرمائی،تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔
عدمِ تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے،کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔ (التفسیر الکبیر‘ 32: 28)

ایک جھگڑا علمِ شبِ قدر سے محرومی کا سبب بنا: ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی جھگڑا بھی ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیاکہ آپ اس رات کی تعین کی بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے، لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے بتلانے سے منع فرما دیا، روایت کے الفاظ یوں ہیں:خرج النبی صلی الله علیه وآله وسلم لیخبر بلیلة القدر، فتلاحی رجلان من المسلمین،فقال: خرجت لأخبرکم بلیلة القدر،فتلاحی فلاں و فلاں فرفعت-
ایک مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کی تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے، لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا،مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کی تعین اٹھا لی گئی۔(صحیح البخاری، 1: 271‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1919)

اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ مذکورہ روایت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید اس کے بعد تعین شب قدر کا آپ کو علم نہ رہا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ شارحین حدیث نے تصریح کر دی ہے کہ تعین کا علم جو اٹھا لیا گیا تھا تو صرف اسی ایک سال کی بات تھی، ہمیشہ کے لئے نہیں۔

امام بدر الدین عینی شرح بخاری میں رقمطراز ہیں:

فان قلت لما تقرر ان الذی ارتفع علم تعینها فی تلک السنة فهل اعلم النبی صلی الله علیه وآله وسلم بعد ذلک بتعینها؟ قلت روی عن ابن عینیه انه اعلم بعد ذلک بتعینیها.

اس سال تعین شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعین کا علم رہا یا نہ؟میں کہتا ہوں کہ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس کے تعین کا علم تھا-(عمدة القاری‘ 11: 138)

ہمارے نزدیک آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف تعین کا علم ہے،بلکہ آپ بعض غلاموں کو اس پر آگاہ بھی فرماتے ہیں۔

شبِ قدر کے نوافل: فقیہ ابواللّیث رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں،جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے۔(روح البیان،ج10ص483)

شبِ قدر کی دعا اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔( ترمذی،ج5ص306، حدیث:3524)

شبِ قدرِ مبیں کا نور دیکھے نوری بھی یارب
یہ حسرت لے کے تیرے در پہ یہ نوری غلام آیا

اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے۔
آمین-

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت

فضائل شب قدر اور نزول قرآن مجید، تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناج پور مغربی بنگال

فضائل شب قدر اور نزول قرآن مجید
تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناج پور مغربی بنگال

         ‏لیلۃ القدر وہ اعلی ترین اور مقدس رات ہے جس میں اللہ تعالی کے بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے جس کے گوناگوں فضائل و مراتب قرآن و احادیث میں وارد ہوئے ہیں اس رات میں اللہ تعالی اپنے بندوں کی طرف خاص نظر کرم فرماتا ہے،اس رات میں وہ لوگ جو بیٹھ کر اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ومصروف رہتے ہیں ان کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور رحمت بھیجتے اور بخشش کی دعا کرتے ہیں،اس مبارک رات کی فضیلت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کی عظمت و فضیلت پر اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں پوری سورت نازل فرمادی فرمایا،

ترجمہ کنزالعرفان:
بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور ﷺنے فرمایا جس نے لیلۃالقدر بیدار ہوکر گزاری اور اس میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالی سے بخشش طلب کی تو اللہ تعالی نے اسے بخش دیا، اسے اپنی رحمت میں جگہ دیتا ہے اور جبرئیل علیہ السلام نے اس پر اپنے پرپھیرے اور جس پر جبرئیل علیہ السلام نے اپنے پر پھیرے وہ جنت میں داخل ہوا (مکاشفۃ القلوب)
شب قدر نام رکھنے اور ہم کو کیوں عطا کی گئ،وجہ تسمیہ
شب قدر کو شب قدر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس رات کو سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں اور ملائکہ کو سال بھر کے وظائف و خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رات کی شرافت و قدر کے باعث اس کو شب قدر کہتے ہیں، اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں اعمال صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر اس کو شب قدر کہتے ہیں
(تفسیر خزائن العرفان)

       *کیوں عطاکی گئ*
    یہ مقدس رات امت محمدیہ ﷺکو خاص طور پر عطا کی گئی ہے باقی امتوں کو عطا نہیں کی گئی تھی 

اور اسلئے عطا کی گئ کہ نبی کریمﷺ نے امم گذشتہ کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو تمام رات عبادت کرتا اور پورا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے مسلمانوں کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو یہ مبارک رات عطا فرمائ (تفسیر خزائن العرفان)
بنی اسرائل کے لوگوں کی عمریں بہت ہی زیادہ طویل ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ عبادت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو ایک ایسی رات عطا کی جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے تاکہ آپ کی امت بھی ان کے مقام و مرتبہ کو پہنچ سکے
اب اگر کوئ شخص اس مقدس ترین رات کو بھی بسترپر ،مبائل چلانے میں اور لہو لعب میں گزارے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں سے محروم رہے گا
نزول قرآن مجید
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا جس کی وجہ سے شب قدر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے بے (بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا)قرآن مجید کو تیس سال میں وقتا فوقتا نازل کیا گیا لیکن شب قدر میں قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یکبارگی اتارا گیا ،آج لوگ شب قدر کو پانے کے لیے انتظار کر رہے ہوتے ہیں لیکن صد افسوس جس کی وجہ سےشب قدر کو بےشمارفضیلتیں ملی اس قرآن کو چھوڑ رہے ہیں آج لوگ قرآن کی جگہ ناول کی کتابوں کو پڑھنا اور موبائل چلانا زیادہ پسند کرتے ہیں آج مسلمان قرآن کے حقوق کو پامال کررہے ہیں قرآن مجید کے حقوق یہ ہیں، (1)قرآن مجید پر ایمان رکھنا (2)اس کو سمجھنا (3)اس پر عمل کرنا(4) اس کی تلاوت کرنا(5) اس کی تبلیغ کرنا


 اللہ تعالی ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی  اور شب قدر میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق عطافرماۓ 

آمین بجاہ النبی الامینﷺ

شب قدر ہے فضل خداوندی کے حصول کی رات از ۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی دارالعلوم اہلسنت قادریہ سراج العلوم برگدھی ضلع مہراج گنج یوپی وسرپرست مرکزی اصلاح رویت ہلال کمیٹی دفتر سالماری ، کٹیہار ،بہار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالی کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے خیر امت،امت محمدیہ کو لیلة القدر جیسی عظيم نعمت سےنوازکر افضل الامم بنا یاروزے تو اللہ تعالی نےپہلی امتوں پر بھی فرض کۓ تھے ،لیکن روزوں میں امتیازی اہميت و فضيلت اور مقام و مرتبہ والی رات ”لیلة القدر“صرف اس امت کوعطا فرماٸ اور حضور کی دعانےایسی جلیل القدر نعمت سے سرفراز فرمایا جس کی اگلی امتوں میں کوٸ نظیر نہیں ملتی۔حضرت ابن عباس فرماتےہیں، ”فاعطاہ اللہ تعالی لیلةَالقَدرِ خیراًمِّن اَلفِ شَھرٍ ،مُدَّةَ حَملِ الاِسرَاٸِیلِی السَّلَاحَ فِی سَبِیلِ الّٰلہِ لَہ،وَلِامتِہ الیٰ یومِ القِیَامَةِ، فھِیَ مِن خَصَاٸِصِ ھٰذِہِ الاُمَّةِ اللہ تعالی نےآپ کو شب قدر عطا فرمائی ،جو ہزار مہینےکی عبادت ،اور اس جہاد سےافضل ہے جو اسراٸیلی مجاہد نے خدا کے راستے میں کیاتھاتو یہ عظیم رات اس امت کے خصاٸص سے ہے۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آنے والی رات کے” لیلةالقدر“کے نام سے موسوم ہونے کی متعدد وجہیں بیان کی جاتی ہیںاول۔۔یہ کہ بندہ ٕمسلم چوںکہ اس رات بکثرت عبادت اور نیک اعمال کرتاہے ،اس لۓوہ اللہ تعالی کے ہاں بڑی قدرو منزلت کا مستحق ٹہر تاہےدوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی نےبڑی ہی قدر و منزلت والی کتاب قرآن مجید کا اپنے بہت ہی محبوب و معزز نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نزول فرمایاسوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی آٸندہ سال تک کے لۓلوگوں کے بارے میں اہم تقدیریں اور فیصلے تحریر فرماتا ہے ،چنانچہ تقدیر کی مناسبت سے اسے لیلة القدر کہا گیاچہارم۔۔عربی زبان میں ”قدر “کا مطلب تنگی بھی ہوتا ہے،یعنی اس رات آسمان سےزمین کی طرف نازل ہونےوالے فرشتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زمین ان کے لۓ تنگ پڑ جاتی ہے۔انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی عظمت و شان کا صحیح معنوں میں ادراک کر سکے ۔چنانچہ اس مبارک رات کو وہ شان عطا ہوٸ ہے کہ انسانی ذہن و دماغ اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے ۔اس ایک رات کی جانے والی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔۔اس رات حضرت جبرٸیل امین علیہ السلام کی قیادت میں اپنے رب کے خصوصی حکم سے فرشتے زمين پر اترتےہیں اور طلوع فجر تک ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہےاس کی اہمیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ سابقہ امتوں میں لوگوں کی عمریں لمبی ہوتی تھیں جب کہ اس امت میں اللہ تعالی نےبندوں کی عمریں کم کردیں تو بدلے میں انہيں یہ رات عطافرماٸ ،تاکہ یہ امت خیر و برکت اور نیکی کے کاموں میں کسی سےپیچھے نہ رہ جاۓ ۔یہ بھی اللہ تعالی کافضل ہےکہ نیکیوں کا یہ موسم بہار وقتی اور عارضی نہیں ، بلکہ داٸمی اور قیامت تک کے لۓ ہے۔شب قدر کی اہمیت و فضیلت واضح ہو جانے کےبعد اس کےفواٸد نورنظرہیں ۔آقاۓ کاٸنات کے فرمان کے مطابق شب قدر کی عبادت سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔۔چنانچہ حدیث پاک کےالفاظ یہ ہیںعن ابی ھریرةرضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ،من قام لیلةالقدر ایماناًواحتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ”بخاری“ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ٕکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدرمیں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرےگا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاٸیں گے آقاۓ کریم کایہ بھی ارشاد ہے کہ میری امت میں جو یہ خواہش کرے کہ میری قبرروشنی سے منور رہے تو ایسے شخص کو چاہۓ کہ شب قدر میں زیادہ سے زیادہ رب کی عبادت کرے تاکہ پرور دگار عالم ان متبرک راتوں کی عبادت سےاس کےنامہ ٕاعمال سےبراٸیاں ختم کر کےنیکیوں سے پر فر ما دےشب قدر جب اس درجہ با برکت و با فواٸد ہے تو وہ کس تاریخ میں ہے ؟ کہ اس کی برکتوں اور فاٸدوں سے عبادت گزار نفع مند ہو سکیں؟نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتو ں میں سے کسی رات میں ہےعن ابی سلمة قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی اریت لیلة القدر ثم انسیتھااونُسیتھا فالتمسوھا فی العشر الأواخر فی الوتر۔۔صحیح بخاری۔۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھےوہ رات دکھاٸ گٸ تھی مگر پھر بھلا دی گٸ لھٰذا اب تم اسے رمضان کی آخری دس کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اسی مفہوم کی ایک اور حدیث پاک ہےعن عاٸشة رضی اللہ عنہا، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ۔تحروا لیلة القدر فی الوتر من العشرالأواخر من رمضان۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔حضرت عاٸشہ سے اور ایک روایت اس طرح ہےعن عا ٸشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یجاور فی العشرالاواخر من رمضان و یقول تحروالیلة القدر فی العشر الأواخر من رمضان ۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا روایت کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کےآخری عشرہ میں اعتکاف میں ہوتے تھےاور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔آج امت مسلمہ کا جس تاریخ پر باعتبار” لیلة“القدر سب سے زیادہ عمل ہے وہ ستاٸیسویں رمضان کی شب ہے اور ایک حدیث پاک میں اس کی صرا حت بھی موجود ہے چنانچہ روایت ہے۔عن ابی ذر قال ۔سمعت ابی ابن کعب یقول واللہ انی لاعلم ای لیلة ھی،ھی اللیلة التی امرنا بھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیامھاھی لیلةصبیحة سبع وعشرین واماراتھا ان تطلع الشمس فی صبیحة یومھا بیضا ٕ لا شعا ع لھا۔۔صحیح مسلم۔۔حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےابی ابن کعب سے سنا وہ کہر ہے تھے کہ اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کو نسی رات ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنے کا حکم دیا ہے؟ یہ ستاٸیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہےاور اس میں شعاٸیں نہیں ہوتی ہیں ۔اور کچھ اہل علم نے یہ نکتہ آفرینی بھی کی ہے کہ ”کلمہ ٕلیلةالقدر“کے اندر نو حروف ہیں اور کلمہ ٕلیلة القدر اس سورہ میں تین بار آیاہے ، جس کا مجموعہ ستاٸیس ہے اس سے شب قدر کے ستاٸیسویں شب میں ہونے کی طرف اشارہ ہے۔۔مگر آپ کا طرز عمل آخری عشرہٕ رمضان میں کثرت عبادت کی شکل میں نظر آتا ۔اس کے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے عن عاٸشة رضی اللہ عنھا انھاقالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل العشر شد مٸزرہ واحیا لیلہ وایقظ اھلہ۔۔۔بخاری۔۔۔ حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہو تےتو”عبادت “کے لۓ کمر کس لیتے خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والو ں کوبھی جگاتے تھےشب قدر کی دعا ٕ کے متعلق آقاۓکریم کا ارشاد ہےعن عاٸشة انھا قالت یا رسول اللہ أرأیت ان وافقت لیلة القدر ماادعو؟قال ”تقولین اللھم انک عفو فاعف عنی۔۔سنن ابن ماجہ۔۔عا ٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جاۓ تو میں کون سی دعا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو ”الّٰلھم انک عفو فاعف عنی اے اللہ تو معافی کو پسند کرتاہے لھٰذا تو ہمییں معاف کردے متذکرہ احادیث کا ما حصل یہ ہے کہ شب قدر کون سی رات ہے اس تعلق سے کوٸ حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٢١۔۔٢٣ ٢٥۔۔٢٧۔۔اور ٢٩ ویں رمضان کی تمام راتوں کے بارےمیں حدیثیں ملتی ہیں بایں وجہ محدثین کرام کا فرمان ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے ،ایسے میں کسی ایک رات کو یقینی طورپر اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کاسبب ہے ،کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جس رات کو شب قدر مان بیٹھے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو جب کہ آخری عشرہ کی سبھی راتوں میں تلا ش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ اور مخفی رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ز یادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کر سکے اللہ تعالی ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرما ۓ اٰمین

لیلةالقدر کی فضیلت سے بہرہ ور ہونے والا خوش قسمت ،اور اس کی فضیلت سے محروم ہو نے والا ہر قسم کی بھلا ٸ سے محروم ہےحدیث شریف میں ہے ”دخل رمضان فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ان ھٰذالشھر قد حضرکم و فیہ لیلة خیر من الف شھر منحرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم ۔۔۔صحیح ابن ماجہ۔۔۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے ،جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلا ٸ سے محروم رہ گیا۔۔اب ہمیں غور کرنا ہے کہ اس محرومی سے نجات کیسے ہو گی؟ تو اس کا حل یہ ہےکہ اس رات عبادت الٰہی سے ہم یہ محرومی ٹالنے میں کامياب ہو سکیں گے، درود پاک کاپڑھنا بھی قبولیت دعا اور محرومی کو ٹالنے کا تیر بہدف سبب ہے ،حدیث شریف میں ہے،”الدعا ُٕ محجوب عن اللہ حتی یصلی علی محمد وَّاھل بیتہ“دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی جب تک کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور آپ کے اھل بیت پر درود نہ بھیجا جا ۓ۔اس حدیث کو ابوالشیخ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔۔۔۔الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔۔

کثرت سے نفل نمازیں پڑھےاور ہر رکعت میں زیادہ سےزیادہ قرآن شریف پڑھے ،حدیث شریف میں ہےقرا ٕةُ القرآن فی غیر الصلوٰة افضل من التسبیح والتکبیر ۔۔مشکوٰة شریف۔۔۔۔نماز میں قرآن پاک کی تلاوت نماز سے باہر تلاوت سے افضل ہے چنانچہ اس باب میں جو نمازیں بزرگوں سے منقول ہیں اس میں بکثرت تلاوت قرآن کی تصریح موجود ہے آیۓ ہم بزگوں سے منقول شب قدر کی نماز کا طریقہ تحریر کریں تا کہ قارٸین اس رات کے فیضا ن سے دامن مرا د کو پُر کر سکیں اٰمینشب قدر کے نوافل کے طریقےایک طریقہ۔۔دورکعت بنیت نفل پڑھے۔ہر رکعت میں الحمد شریف ایک بار، انا انزلنا ایک بار سورہ ٕاخلاص تین بار پڑھے تو اس کو شب قدر کا ثواب حاصل ہو گا اور ثواب حضرت ادریس،حضرت شعیب، حضرت داٶد،اورحضرت نوح علیہھم الصلوٰة والسلام جیسا عطا ہوگا اور اس کوایک شہر جنت میں دیا جاۓگا جو مشرق سے مغرب تک لمبا ہوگا۔دوسرا طریقہ جو شخص ستاٸیسویں شب رمضان کو چار رکعت پڑھے ،ہر رکعت میں بعد الحمد شریف ،انا انزلناہ تین بار ،اور قل ھواللہ شریف پچاس مرتبہ پڑھے ،بعد ختم نماز سجدہ میں سر رکھ کر یہ کلمات مقدسہ پڑھے ”سبحان اللہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الَّااللہ واللہ اکبر “ان شا ٕاللہ جو دعامانگے قبول ہو گیاللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ اس شب قدر کو عبا دت و تلاوت میں گزا ریں اور موجودہ مہلک مرض کورونا سے نجات کی بالخصوص اور بالعموم تمام مرض سے حفا ظت وصیانت کی الحاح و زاری کے ساتھ دعا ما نگیں امید ہے کہ ہماری خستہ حالی پر رب کی رحمت متوجہ ہو گی اور ہم ایسی زندگی گزاریں گے جس میں رب کی رضا شامل ہو اللہ ہم سب کا بھلا کرے اٰمین