WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category رمضان اسپیشل

زکواۃدیتے رہو۔۔از: سید خادم رسول عینی

زکواۃ۔۔۔۔۔۔

کرو سماج کی خدمت زکواۃ دیتے رہو

ہے یہ اصول جماعت زکواۃ دیتے رہو

تمھیں غریب نوازیں گے سب دعاؤں سے

بڑھیگا نفع تجارت زکواۃ دیتے رہو

کتاب رب میں ملا حکم رب کا کتنی بار

ملےگی گھر میں بھی برکت زکواۃ دیتے رہو

جو مستحق ہیں انھیں ڈھونڈو اور مدد بھی کرو

گھٹےگی ملک سے غربت زکواۃ دیتے رہو

خدا نے ذکر کیا اس کا بھی نماز کے ساتھ

ہے ظاہر اس سے فضیلت زکواۃ دیتے رہو

مہ صیام میں نیکی میں ضرب ہوتا ہے

ہے وقت کتنا غنیمت زکواۃ دیتے رہو

نکالنا ہے تمھیں” عینی “ڈھاءی فیصد بس

کرم ہے رب کا نہایت زکواۃ دیتے رہو۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رمضان میں روزوں کے ایام کا تعین روایت ودرایت کے موافق۔۔ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی- استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،مہراج گنج،یوپی

۔ اسلامی اعمال واحکام میں ایام کا تعین چاند سے ،اور اوقات کاتقرر سورج کے اعتبا رسے ہوتا ہے ،ایام وشھور شرعا قمری لحاظ سےمتعین ہوتے ہیں،شب معراج،شب قدر،ایام بیض،یوم عاشورا،ایام عیدین اور ایام حج چاند سے تعین پانے کی صورتیں ہیں،اسی طرح فرض روزے کے دنوں کی تعئین کہ یہ پہلا روزہ،یہ اکیسواں روزہ،یہ ستائیسواں روزہ،یہ انتیسواں روزہ ہے،یہ سب بحساب قمری ماہ ، رمضان کے اعتبار سےہیں،ایام حج کی تقدیر بھی قمری ماہ ذی الحجہ کے حساب سے طے ہوتی ہے ۔اور یوں زباں زد خلائق ہوتے ہیں ،آج یوم الترویہ،آج یوم الحج اورآج یوم الاضحی ہے وغیر ذالک۔۔۔لیکن ۔جب ہمارا ذہن تعئین اوقات کی طرف مبذول ہوتاہےتو ان میں شمس یعنی سورج کا شرعا اعتبار کرتاہے۔ہم نمازوں کےاوقات کا قیام سورج کی گردش سے متعلق کر تے ہیں،فجر ،ظہر ،عصر ،مغرب،عشا اور دیگرنوافل جیسے اوقات سے موسوم کرتے ہوۓ انہیں گردش شمس کا نتیجہ تصور کرتے ہیں،آفتاب کی گردش کا دورانیہ کم ہو جاۓ تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے،چنانچہ ہماری روز مرہ کی نمازیں سورج کے اعتبا ر سے ہیں۔یوں ہی رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہےیہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے آغاز صوم ،اور غروب آفتاب پر اس کا اختتام ہوتا ہے،اسی طرح حج کے اعمال میں بھی اوقات کا علآقہ سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے ،مزدلفہ کب جانا ہے،عرفات سے کب لوٹنا ہے وغیرہ؟ عام طور پر یہ خیال فکر انسانی میں رچا بساہےکہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے ،یہ خیال صحیح نہیں،چاند کا اعتبار دنوں کے تعین میں ہے ،مگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں ہماری روش گردش شمس کے مطابق ہے ،اس لحاظ سےہمارے عبادات شمس وقمر دونوں سےیکساں متعلق ہیں۔تاہم قمری سال شمسی سال سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے،تقریبا دس دن کا فرق ہے،مفسرین کی بیان کردہ حکمتو ں میں سے ایک یہ ہےکہ قمری مہینہ ہر تینتیس سال میں ایک چکر مکمل کر لیتاہے ،یعنی تینتیس سال میں چار موسم( دنیا میں جہاں بھی چار موسم وقوع پذیرہوتے ہیں)کی گردش پوری کرلیتا ہے ،اگر ایک مسلمان بلوغیت کے مراحل سے گزرکرمزید تیںتیس سال کی اور زندگی پالےتو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ کر رضاۓ الہی کا حقدار بن جاۓگا،اسے سردو گرم ،اور چھوٹے،درمیانےولمبےسب ایام کے روزے رکھنےکے مواقع میسر ہو نگے،حج کابھی یہی معاملہ ہے،حج بھی تینتیس سال میں مختلف موسم کی گردش پوری کرتاہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ فقہا فرماتے ہیں” زکوۃ کا حساب قمری سال کے مطابق کرنا چاہئے،اور ایسا کرنا شرعا ضروری ہے،ورنہ اگرہم شمسی سال کےاعتبار سےزکوۃکا حساب کریں گےتوتینتیس سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ادا ہوگی ،ہماری زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں(جنوری اورفروری وغیرہ)کے حساب سےچلتے ہیں،اب اگر کوئ اپنی سالانہ زکوۃ بھی اسی حساب سے دیتاہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے ،اس حساب سےایک سال زکوۃ ادا ہونے سےرہ جاۓگی۔ آج اگر کوئ شریعت کو طبیعت کے موافق بنانے کی خواہش رکھے اورایک ماہ کے فرض روزے کوقمری سال کے ماہ رمضان کی جگہ شمسی سال کے فروری ماہ میں متعین کرنے کی علما سے گزارش کرے تو علما بیک زبان اس کی اس اپیل کو رد کر دیں گےکہ یہ عقل ونقل اور روایت ودرایت کے خلاف ہے،اس لۓکہ” ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دیۓ گۓہیں”جعل اللہ صیامہ فریضۃ، فر ما کر آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ” رمضان کے مہینہ کےروزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے”لہذا مروی حدیث کے الفاظ سےیہ عیاں ہو گیا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں ،خواہ وہ شمسی ماہ کے جون ،جولائ اور اگست میں ہو ،جو نہایت سخت ایام والےماہ ہیں۔یا ۔جنوری وفروری میں جو سرد وراحت رساں ہیں،عقل ودرایت بھی اسی کی رہنمائ کرتی ہے کہ اگر فروری ماہ کا تعین فرض روزو ں کے لۓ کیا جاتا توروزے رکھنے والوں کو سال کے دیگر موسم سے لطف اندوز ہونے موقع نہیں ملتا جو یک گونہ حرما ں نصیبی ہوتی۔مفسرین کی تفسیر کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کےروزے تھے ان کا رمضان بھی ساراسال گھومتا تھا،ان کے لۓ بھی جولائ اور اگست کے روزے تکلیف دہ تھے،انہوں نے اپنے علما کے سامنے کسی اچھے موسم میں روزے متعین کرنے کی تجویز پیش کی،اس تجویز پر بنی اسرائیلی علما نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتےہیں کہ وہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کریں۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑ بڑ کر رہے ہیں ،اس لۓ تیس روزے تو پورے رکھیں گے،لیکن ساتھ ہی دس روزےکفارے کےبھی رکھیں گے،چنانچہ یہ مذہبی عیسائ چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل ماہ کےپہلے عشرے کے دوران کسی اتوار کو یہ قرار دیتے ہیں گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ،یعنی تیس روزے مکمل اور ساتھ دس روزے کفارے کے بھی۔ تفسیری روایات پر ہماری نظر مرکوز رہے تو یہ امر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی فرض روزے کا مہینہ قمری یعنی رمضان ہی تھا ،وہ بھی سال کے سارے موسم کادور کر لیتا تھا انہوں نے اپنی سہولت کے لۓ اس میں ردو بدل کیا،لیکن اسلام نے سابقہ حیثیت بحال کردی کہ فرض روزے قمری ماہ رمضان ہی میں ادا کۓ جائیں گے اور سارے موسم میں اس کی گردش جاری رہےگی اور روزہ دار تمام موسم کی تکلیف وراحت کا احساس کرتے ہوۓ روزہ رکھ کر رضاۓ خداوندی کے متلاشی بنیں گے،رات میں نیندسے جاگنے کے بعد رات کا باقی حصہ جو ابتداءاسلام میں روزےکاجزو تھا،اب اس کا دورانیہ کم کرکےمکمل رات روزے سے خارج کردی گئ ،اور فر مان خداوندی(روزے کو رات تک پورے کرو)امت محمدیہ کےلۓ سایئہ رحمت بن کر آئ ، رات کو کھانے پینے کی اجازت مرحمت ہوئ،اور فکر انسانی نے یہ باور کرلیا کہ طلوع فجر صادق سے روزہ شروع ہوگااور غروب آفتاب تک رہےگا تا قیام قیامت اس میں کسی قسم تبدیلی اور ردو بدل کی گذارش کی راہیں مسدود رہیں گی،اسلام نے روزے کے نظام میں یہ دوبڑی اصلاحات کی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو شریعت مصطفویہ کے نظام پر قائم ودائم رکھے اور رمضان کی سعادتوں وبرکتوں سے بہرہ ور فرماۓ۔آمین

کم سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا،

سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا……گھر کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچی کی لمبی عمر کی دعا کی!ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ [جسے “جہنم سے آزادی” کا عشرہ کہا گیا ہے] چل رہا ہے، احادیث کی روشنی میں اس عشرہ کے عبادت وریاضت کی بہت ہی فضیلت ہے- الحمدللّٰہ! القادری کیپ کے مالک حضرت مولانا اعجاز احمد قادری کی کم سن بھتیجی عزیزہ ام حبیبہ خان بنت جناب ریاض احمد خان سینانگر سیوڑی،ویسٹ ممبئ مہاراشٹر [ساکن:دھنوری،بڑھنی،سدھارتھ نگر] جو ابھی صرف 7 سال کی ہے اس نے آج مسلسل 20 واں روزہ مکمل کیا، مزید آخری عشرہ کے مابقیہ مکمل روزے رکھنے اور اس میں خوب خوب عبادت وتلاوت کے لیے پر عزم بھی ہے-اس کم سن بچی کے مسلسل روزہ رکھنے پر اس کے رشتہ داروں، اور آس پاس کے لوگوں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ اس کو دعاؤں سے نوازا-اور اہل خانہ بالخصوص بچی کے والدین کو مبارکباد پیش کی-خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے مبارکباد پیش کی، جناب امراللّٰہ خان،جناب امتیازاحمد خان اور سراج احمد خان- اللّٰہ تعالیٰ اس بچی کو طویل زندگی بخشے اور عمدہ واحسن تعلیم وتربیت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے اور والدین کےلیے ذریعۂ نجات ومغفرت بنائے-قارئین سے گذارش ہے کہ اس کم سن بچی کی بہترین مستقبل اور عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی دعا کریں،اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو بلاعذرشرعی روزہ نہیں رکھتے اور کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں اور بلاخوف الٰہی دھڑلے کے ساتھ اسلامی شعار کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ اس کم سن خوش قسمت بچی ام حبیبہ کی روزہ داری سے عبرت حاصل کریں-

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

محمدتوصیف رضا برکاتی نے ۸ سال کی عمر میں روزہ رکھا

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ شدید دھوپ اور گرمی کی تپش میں آخری عشرہ میں داخل ہوچکا ہے،گرم ہواؤں کی تمازت،صبح اٹھتے ہی پیاس کا احساس،۱۴،ا۴ گھنٹہ بغیر دانہ پانی کے گذارنا یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ تو توفیق الٰہی کی بات ہے کہ جس طرح بالغ مسلمان مردو وخواتین عبادت کی لذت سے سرشار ذوق وشوق سے اس گرمی و دھوپ کو مات دے کر اپنے ایمانی جذبے کو قائم رکھے ہوئے ہیں،وہیں کچھ ننھے اور کم عمر بچے وبچیاں بھی اپنے جذبۂ ایمانی کے اظہار میں بڑوں سے پیچھے نہیں ہیں اور روزہ فرض نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھ رہے ہیں،انہیں خوش نصیب اور باحوصلہ بچوں میں حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (ساکن:بھوانی پور،اسکابازار،ضلع: سدھارتھ نگر) کے صاحبزادے ۸ سالہ محمدتوصیف رضا برکاتی بھی ہیں،جنہوں نے ۸ سال کی مختصر عمر میں روزہ رکھ کر ہمت وحوصلہ اور شوق عبادت کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے، جب کہ عزیزہ ترنم پروین [عمر:۹ سال] بنت حضرت مولانا سراج احمد صاحب قادری علیمی نے بھی بھوک وپیاس کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اس سال کئی روزے رکھ کر اپنے ایمان ویقین کو جلا بخشا-قابل صد رشک ہیں ایسے والدین اور ان کی اولادیں جن کو دین اور اس سے محبت کی ایسی تعلیم وتربیت مل رہی ہے کہ انشاء اللّٰہ وہ آگے چل کر دین کے مضبوط علمبردار بنیں گے- ان ننھے بچوں کے اس پرعزم عمل پر ان کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچوں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کر نے کے ساتھ ان بچوں کو دعاؤں سے نوازا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی -بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کے سبھی بچوں کو روزہ رکھنے کے صدقے صحت وتندرستی عطا فرمائے،اور ان کے روزے کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں دارین میں کامیابی عطا فرمائے،اور نیکی کے جذبے میں اضافہ کرے اور ہرطرح سے ان کو اور ان کے والدین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے-آمین

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت از: (مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،گرڈیا، ضلع:باڑمیر (راجستھان)

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں تیزی سے گذررہی ہیں،آخری عشرہ جسے حدیث میں”جہنّم سے آزادی وخالصی کاعشرہ”کہا گیا ہے،اس کی چند راتیں اورباقی رہ گئی ہیں-کتنے خوش نصیب ہوں گے اللّٰہ کے وہ بندے جو موجودہ ُپرآشوب حالت میں بھی رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرکے اپنی آخرت کو بنانے کی فکر میں۔ روزوں، فرض اور نفلی عبادتوں اور دیگر امور خیر میں نمایاں حصہ لئے ہوں گے اور اب وہ آخری عشرہ کی دہلیز پر پہنچ کر اپنے رب کی بارگاہ میں خالصی و مغفرت کے امیدوار ہوں گے۔ یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت و ریاضت اوراجروثواب کے اعتبار سے دیگر تمام مہینوں سے افضل واعلیٰ ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دن کے فضائل، برکات اور خصوصیات اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے تیس شعبان کو رمضان کی آمد پر جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے یہ بھی کہا تھا کہ “یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کے ساتھ خاص ہے۔” اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان المبارک اپنے تینوں عشروں میں کچھ مخصوص کیفیتیں رکھتا ہے لیکن آخری عشرہ کو پہلے دو عشروں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اہمیت حاصل ہے-چونکہ آخری عشرے کو حضور نبِئ کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے جہنم کی آگ سے آزادی کاوقفہ قرار دیا ہے،اسی عشرہ میں قرآن مقدّس نازل ہوا، شب قدر کی مبارک گھڑیاں اسی عشرہ میں پائی جاتی ہیں، جس کےمتعلق بتایا گیا ہے کہ یہ رات انتہائی قیمتی اور بے حد بابرکت ہے، اس رات کو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل اور باعث خیروبرکت فرمایا گیا ہے، ان راتوں میں حضرت جبرئیل امین سمیت بڑی تعداد میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں ،اور انہیں راتوں میں سال بھر کے امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لوگوں کی رزق، ان کے اعمال اور ان کی موت و حیات کی تعین کی جاتی ہےاس لئے یہ عشرہ علمائے امت کے نزدیک بہت خاص اہمیت و فضیلت رکھتا ہےاور اس میں اظہار عبودیت اور تقرّب الی اللّٰہ کی زیادہ سے زیادہ کوش کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے! اعتکاف بھی اسی عشرۂ اخیر کی خصوصیت ہے، جس میں بندہ سراسر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر پورے دس دن سرگوشیاں کرتا ہے اور ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے بندگی کا اظہار ہو اور اللّٰہ وحد ٗہ لاشریک کی الوہیت، اس کی ربوبیت اور کبریائی کے سامنے وہ اپنے آپ کو بالکل بے قیمت اور بے حقیقت کرکے پیش کر سکے، یہاں تک کہ رمضان کا آخری دن اس کے لئے رحمت ومغفرت اور سب سے بڑھ کر جہنم کی آگ سے آزادی کی بشارت کا دن ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم رمضان المبارک کے پورے مہینے میں خوب خوب عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دیگر امور سے اپنی توجہ ہٹا کر خصوصی طور پر عبادت میں لگ جاتے جیسا کہ حضرت عائشہ صدّ یقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں ” کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه تعالیٰ علیه وسلّم یجتھدفی العشر الاواخر مالایجتھدفی غیرھا” نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ میں اتنی محنت فرماتے تھے کہ دوسرے ایّام میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی الہ تعالیٰ عنہا سےمروی ہے “کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم اذادخل العشراالخیرہ شدّ میزرہ و احی لیله وایقظ اھله” جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدس صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے، اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے-( بخاری جلد /۱، صفحہ ۲۷۱،مشکوٰة صفحہ/۱۸۲ )) جب حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں یہ تھا کہ آپ عبادت و ریاضت کے معاملے میں اس عشرہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے جب کہ آپ معصوم عن الخطاء ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حضور کی امت کے دلوں میں اس عشرہ کی اہمیت کم ہو؟ اور اس مبارک مہینے کے اس آخری حصے کو ہر حیثیت سے مہتم بالشان نہ سمجھیں؟ اس آخری عشرے میں نہ صرف یہ کہ حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اس کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ اپنے ساتھ اپنےاہل وعیال اور متعلّقین کوبھی اس کار خیر میں شریک فرماتے تھے، اور ان کو شب بیداری اور نوافل و عبادات کے اہتمام کے سلسلے میں راتوں کو جگا دیا کرتے تھے -اس عشرہ کے شروع ہوتے ہی آپ تیار ہو جاتے اور مزید محنت و جانفشانی کا سلسلہ شروع ہوجاتا، پوری پوری رات بیداری میں گزارتے، مناجات و استغفار اور دعا ونوافل کی کثرت فرماتے اور صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دلاتے۔ لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہم حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے قیمتی لمحات اور اس کی بیش بہاگھڑیوں کوبےکار ضائع نہ ہونے دیں اور خصوصیت کے ساتھ عشرۂ اخیرہ کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی رحمتوں وبرکتوں سے بہرہ ور ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو فیضانِ رمضان سے مالامال فرمائے !…آمین-

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔۔تبصرہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کا کلام بعنوان ماہ صیام تبصرے کی میز پر ہے۔آپ کا یہ کلام بہت ہی دیدہ زیب اور پسندیدہ ہے۔ کلام معنویت، پیکر تراشی ،سرشاری و شیفتگی ،فصاحت و بلاغت ،حلاوت و ملاحت ،جذب و کیف ، سوز و گداز ، سلاست و روانی ، حسن کلام ، طرز ادا کا بانکپن ، تشبیہات و استعارات، صنایع لفظی و معنوی اور سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہے۔

کلام کا مطلع یوں ہے:

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام
فرحتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

گویا ردیف لمبی ہے:
لیکے آیا ہے ماہ صیام
لمبی ردیف میں شعر کہنا بہت مشکل امر ہے۔
اس کلام میں ردیف کے علاوہ ہر شعر کے ثانی میں صرف قافیہ رہ جاتا ہے ، کسی دوسرے سبب یا وتد کے لیے جگہ نہیں رہتی۔اس کے باوجود علامہ قدسی نے ہر شعر کو بہت عمدگی سے نبھایا ہے اور کلام میں مقناطیسیت پیدا کردی ہے۔

علم عروض
‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلام جس بحر میں کہا گیا ہے اس کے افاعیل ہیں:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
چونکہ مصرع کے آخر میں لفظ صیام ہے اس لیے آخری رکن فاعلان ہوجاتا ہے۔گویا آپ نے کلام میں زحاف ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور زمانہ کلام سلام میں یہ زحاف پایا جاتا ہے۔

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کے افاعیل یوں ہوئے:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان

علم قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔
علامہ قدسی کے اس کلام میں قوافی یوں ہیں :
رحمتیں، فرحتیں،وسعتیں،برکتیں،رفعتیں وغیرہ۔
ہر قافیہ کے آخر میں یں زائد ہیں ۔لہذا حرف روی بنا ت ۔
اگر کسی بھی شعر میں قافیہ کے طور پر کاغذیں ، کروٹیں قسم کا لفظ لایا گیا ہوتا تو انحراف حرف روی کا عیب در آتا۔
الحمد لللہ شاعر محترم نے ایسے قوافی کا استعمال نہیں کیا ہے، گویا آپ کا کلام عیب در قافیہ سے پاک ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر جملہء خبریہ ہے اور صدق پر مبنی ہے۔ ہر خبر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔
غرض خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے اور ان کو ماہ رمضان کے روزے ( جو فرض عظیم ہیں) کی اہمیت و افادیت بتا کر روزے رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔

بدیع
۔۔۔۔۔۔۔

صنعت تضاد کا حسن ان اشعار میں پایا جاتا ہے:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

بھوک اور پیاس میں نفس سے جنگ کی
قوتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

صنعت تجنیس تام کی رعنائی اس شعر میں جلوہ گر ہے:

قدر اس کی کریں جس قدر ہوسکے
رفعتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنا ایک شعر اس صنعت کے قبیل کا یاد آرہا ہے:

ان کے عدو کا حشر برا ہوگا حشر میں
عاشق وہاں اٹھیگا بڑی آب و تاب سے

صنعت اقتباس سے مزین یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

مژدہ الصوم لی کا سناتا ہوا
حکمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر ایک حدیث قدسی کی روشنی میں کہا گیا ہے۔وہ حدیث یوں ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ
یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دونگا ۔

صنعت تلمیح سے مزین یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

فرض کا اجر ستر گنا لیجیے
کثرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ان دو اشعار میں ایک مشہور حدیث رسول کے طرف اشارہ ہے اور ان کا مفہوم حدیث سے مستعار ہے۔

کلام میں بصری و شامی پیکر تراشی کا حسن بھی ملاحظہ فرمائیں:

عشق شاہ دوعالم کے گلزار کی
نکہتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

تفہیم
۔۔۔۔۔۔

قرب رب دوعالم کی تحصیل کی
حسرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

جب ایک روزہ دار شام کو افطار کرتا ہے تو اس کو دو خوشیاں ملتی ہیں ۔ایک روزہ کھولنے کی اور دوسرا قرب خدا کی۔افطار کے وقت اور افطار کی بڑی فضیلت ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اس وقت روزہ داروں کی دعا خصوصیت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔

حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق ہے سحری کا کھانا۔اس لیے علامہ قدسی نے کہا:
صرف پانی سہی پھر بھی سحری کرو
رغبتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اس میں نازل ہوئی قدسی قرآن پاک
عظمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کررہا ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس آیت میں قران کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے۔مکمل قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا اور یہاں سے وقتاً فوقتاً حکمت کے مطابق حضرت جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے زمین تک لاتے رہے اور یہ نزول تئیس سال کے عرصے میں پورا ہوا۔

گویا ہر شعر قابل تعریف ہے۔
خاص طور پر یہ شعر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا:

سخت گرمی کے موسم میں روزوں کی یہ
لذتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔

ایک قوم ایسی بھی تھی کہ اس قوم پر تیس روزے فرض کئے گئے تھے ، لیکن ان لوگوں نے موسم کے اعتبار سے روزے کے مہینے کو تبدیل کیا ۔یعنی اگر روزہ کا مہینہ سردی میں نمودار ہوا تو پورا مہینہ روزہ رکھا ، لیکن اگر گرمی کے موسم میں آیا تو روزوں کو ملتوی کردیا اس وقت تک جب تک کہ سردی کا موسم نہ آجاتا۔

امت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ماہ رمضان کسی بھی موسم میں آئے اسی مہینے میں مسلمان روزہ رکھتا ہے اور مسلمانوں نے پچاس / پچپن ڈگری تمازت میں بھی روزہ رکھا ہے ۔
الحمد لللہ
تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں روزہ دار کو خود اجر دونگا ۔گویا اس اجر کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے :

صائموں کی افضلیت” عینی” اس سے جان لو
اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

عصر حاضر میں خدمت خلق کی ضرورت و اہمیت ازقلم:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رضائے الٰہی کے حصول کے لیے جائز امور میں مخلوقِ خدا کی خدمت، اعانت اور مدد کرنے کو خدمتِ خلق کہتے ہیں-خدمت خلق یعنی انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے کاموں کی اہمیت وضروت کو ہردور میں تسلیم کیا گیا اور اس نیک کام کو ہر دین ومذہب میں تحسین کی نظرسے دیکھا جاتا ہےلیکن مذہب اسلام نے تو خدمت خلق پر بہت ہی زور دیا ہے-چنانچہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا خیر ورحمت،حسن سلوک اور خیر خواہی سے عبارت ہے،اور مخلوق خدا کی خدمت اس کا طرّۂ امتیازہے،یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت، اس کے خدا کو رحمٰن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمة اللعٰلمین کہا گیاہے- خدمت خلق محبت الٰہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخ روئی کا ذریعہ ہے، صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ،مفید مشورہ دینا ،کسی کوکوئی ہنر سکھانا، علمی سرپرستی کرنا، تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔ اسلام میں احترام انسانیت اور مخلوقِ خدا کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے،چناں چہ قرآن مقدس اور احادیث نبویہ میں جگہ جگہ خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قراردیا گیا ہےجیسا کہ قرآن مجید میں اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے بندوں کو خدمت خلق پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا” لیس البرّ ان تولّو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولٰکنّ البرّ من آمن باللّٰه والیوم الآخر والملٰئکة والکتاب والنّبیّین وآتی المال علیٰ حبّه ذوی القربیٰ والیتٰمیٰ والمسکین وابن السبیل والسائلین وفی الرّقاب الخ…(سورۂ بقرہ:۱۷۷)ترجمہ:اس بات میں کوئی کمال اور نیکی نہیں ہے کہ تم اپنارخ مشرق کی جانب کرو یا مغرب کی جانب،لیکن اصلی کمال اور نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللّٰہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتاہو اللّٰہ کی محبت میں اپنے حاجتمند رشتہ داروں کواور نادار مومنوں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو بھی اور بےخرچ مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو-قرآن مقدّس میں ایک مقام پراس تعلق سے یہ ارشاد ہے”وتعاونوا علی البرّ والتّقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان”(سورۂ مائدہ:۲)۔ترجمہ: اے ایمان والو!نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے سے تعاون و مدد کرو اورگناہ اور برائی [کے کاموں] میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو- اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و امداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گناہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے-ایک حدیث شریف میں رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: خیر الناس من ینفع الناس ترجمہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے(ترمذی)۔ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمہ “اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے”(صحیح مسلم) قرآن مقدّس اوررسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات وارشادات نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم میں بہترین اور سب سے اچھا اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کرتا ہو-اوروہ اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے، اور کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج و غم سے پاک کرنے کی کوشش کرے، چند لمحوں کے لئے ہی سہی، فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کرکے ان کے درد و الم اور حزن و ملال کو ہلکا کرے،انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کرسکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آکر،ان کی دلجوئی اور میٹھی بات کرکے ان کے تفکرات کو دور کرےدردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کوورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاںالغرض قرآن کی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ بات بالکل ظاہر و باہر ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے- بیواؤں، مزدوروں، یتیموں،غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کے ساتھ غمخواری اور اظہار ہمدردی کی ترغیب دیتا ہےخصوصاً آج کے اس ماحول میں جب کہ عالمی وبا سے کئی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں، مزدور، کسان اور بہت سے لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے ہمارے ہہت سےعلما و ٹیچرس بھی فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں-لہٰذا ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے محض انسانیت کی بنیاد پر ذات پات، رنگ و نسل کا لحاظ کئے بغیر پریشان حال لوگوں کا تعاون جس طرح سے بھی ہوسکے کرکے آپسی ہمدردی، مساوات اور رواداری کا عملی نمونہ پیش کریں-اس ضمن میں قابل مبارک باد ہیں ہمارے علاقے کی نہایت متحرّک وفعّال رفاہی تنظیم “تحریک پیغام انسانیت” کے ذمہ داران جو مسلسل بلاتفریق مذہب وملّت پریشان حال انسانیت کی اپنے طور پر ہر ممکن تعاون و خدمت میں لگے ہوئے ہیں-اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس تنظیم کو مزید مستحکم اور پائیدار بنائے،تاکہ اس تنظیم کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خدمت خلق ہو سکےاور ہم سبھی لوگوں کو بھی چاہییے کہ ہم انفرادی یااجتماعی طور پر جس طرح بھی ممکن ہو مفلوک الحال اور پریشاں حال مخلوق خدا کی حتی الامکان خدمت اور تعاون کریں، کیوں کہ مخلوقِ خدا کو تو حدیث شریف میں اللّٰہ کا کنبہ کہاگیا ہے،اوران کے ساتھ بھلائی وہمدردی کو محبّت الٰہی کے حصول کاذریعہ بتایا گیا ہےجیسا کہ ارشاد نبوی ہے” الخلق عیال اللّٰه فاحبّ الخلق الی اللّٰه من احسن الیٰ عیاله”(مشکوٰة)۔ترجمہ : ساری مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کاکنبہ ہے اور مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ اللّٰہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اللّٰہ کے عیال کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے- انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گذارسکتا،اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے،مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہےاس لیے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون ،ہمدردی ،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے،مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علم بردار ہےاس لیے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکرسماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرے۔کمال یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرۂ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیا، روایتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےجہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیااس سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوئی ہیں،پڑوسی کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا مسئلہ ،غرباء کی امداد کی بات ہو یا مسافروں کے حقوق کا معاملہ ،اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا-حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے مذہب اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے، جب کہ سچائی اورحقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آپس میں [بلا تفریق مذہب وملّت]ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، بلکہ اسلام نے تو جانوروں کے ساتھ بھی حسن معاملہ کا حکم دیا ہے،اس پر بہت سی روایات وشواہد موجودہیں- مذہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، قرآن مجید کے مطابق تخلیق انسانی کا مقصد بلاشبہ عبادت ہے،لیکن عبادت سے مراد محض نماز ،روزہ ،حج وزکوۃ نہیں ہے بلکہ عبادت کا لفظ عام ہے جو حقوق اللّٰہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی شامل ہے-علامہ رازی نے عبادت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے کہ پوری عبادت کا خلاصہ صرف دوچیزیں ہیں ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرے خلق خداپر شفقت،علامہ رازی کی یہ بات دل کو چھو لینے والی اور بہت صحیح ہے،علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے علما جانتے ہیں کہ فرامین نبوی کے ایک بڑے حصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق سے ہے،طول کلامی سے اجتناب ان روایتوں کے تذکرہ کی اجازت نہیں دیتا ورنہ بہت ساری روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں، تاہم چند مشہوراحادیث کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے-(۱)رحم کرنےوالوں پر رحمٰن رحم فرماتاہے تم زمین والوں پر رحم کرو اللّٰہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائےگا-(۲)تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پہونچے-(۳)قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے(۴)اللّٰہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ اللّٰہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اللّٰہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے اللّٰہ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نوازتارہےگا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محروم کردیں گے تو اللّٰہ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فر دیتاہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطا فرما دیتا ہے-(۵)اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پررحم نہیں کرتا- (۶)اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے-(۷)جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے[اسے تسلی دے] اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو-مذکورہ روایتوں سے جہاں خدمت خلق کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام خدمت خلق کے دائرہ کار کو کسی ایک فرد یا چند جماعتوں کے بجائے تمام افراد امت پر تقسیم کردیا ہے، غریب ہو ،امیر ہو یا بادشاہِ وقت، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کی انجام دہی کا ذمہ دار ہے-یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی عملی زندگی خدمت خلق سے لبریز ہے-سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت سے قبل سے آپ خدمت خلق میں مشہور تھے، بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال پر رحم وکرم ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورں کی مدد آپ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آپ کو خدا اور خلقِ خدا سے جوڑ رکھا تھا،حلف الفضول میں شرکت ،غیر مسلم بڑھیا کی گٹھری اٹھاکر چلنا ،فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کا اعلان اور مدینہ منورہ کی باندیوں کا آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم سے کام کروالینا اس کی روشن مثالیں ہیں،آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم کے اصحاب [رضوان اللّٰہ علیہھم اجمعین] بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے-حضرت ابوبکر صدّیق کا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرانا ،حضرت عمرفاروق اعظم کا راتوں کو لباس بدل کر خلق خدا کی دادرسی کے لئے نکلنا ،حضرت عثمان غنی کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کے لیے وقف کردینا تاریخ کے مشہور واقعات میں سے ہیں،انصار کا مہاجرین کے لیے بے مثال تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے، خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابۂ کرام میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے تمام اصحاب کا یہی حال تھا کہ انہوں نے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اتباع کرتے ہوئے نظام مصطفیٰ کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کیں، اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام حیات پیش نہیں کرسکتاـیہ تو ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ اس نے نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج کو عبادات کا حدود اربعہ سمجھ رکھا ہے اور معاشرت ،معاملات اور اخلاقیات کو مذہب سے باہر کردیا ہے، حالانکہ یہ بھی دین کے اٹوٹ حصے ہیں۔فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں،دنیا کو اپنے عمل سے انسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں ،نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دی جائے، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے، خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔کرومہربانی تم اہل زمیں پرخدامہرباں ہوگا عرش بریں پرخلق خدا کی خدمت سے انسان نہ صرف یہ کی لوگوں کے دلوں میں محترم ہو جاتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں بھی بڑی عزت و احترام پاتا ہے-ایساشخص اللّٰہ وحدہ لاشریک کی رضا اور قرب کا حق دار بن جاتا ہےاور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا حضرت شیخ سعدی شیرازی کے اس مصرع کا مصداق بن جاتا ہے “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد” یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے [ایک وقت ایسا آتا ہے کہ] لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،یعنی وہ خادم سے مخدوم بن جاتا ہے-حاصل کلام یہ ہے کہ خد متِ خلق وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت اور بہت بڑی عبادت بھی ہے، کسی انسان کے دکھ دردکو بانٹنا جہاں اس کےساتھ ایک اخلاقی ذمہ داری وہمدردی ہے وہیں حصولِ جنت کا ذریعہ بھی ہے، کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللّٰہ کی رضا و خوش نودی کا ذریعہ ہے،کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللّٰہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم بھی ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا نیکی اور ایمان کی علامت ہے،کیوں کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے جیسا کہ کسی دانشور کا کا یہ فکرانگیزقول بہت مشہور ہے کہ “اپنے لیے تو سب جیتے ہیں صحیح معنوں میں انسان تو وہ ہے جو اللّٰہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو” شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میںہیں لوگ وہی جہاں میں اچھےآتے ہیں جو کام دوسروں کےایک سچے مسلمان بلکہ ایک اچھے انسان کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا کام کرے جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے مثلا کوئی رفاہی ادارہ قائم کردے، اسپتال وشفاء خانہ بنوا دے، مدرسہ، اسکول و کالجز تعمیر کرا دے اور راستے میں یا کسی ایسی جگہ جہاں سے لوگ سیرابی حاصل کرسکیں،کنواں و تالاب کھودوادے یا نل وپیاؤ بنوا دےـیہ سب ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوق خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے اورچیزیں ہیں جو صدقۂ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں- یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اور اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے-اس اعتبار سے یقیناً قابل مبارکباد ہیں وہ سبھی حضرات جو خالصاً لوجہ اللّٰہ اس طرح کے ادارے یا تنظیمیں قائم کرکے زمینی سطح پر مخلوقِ خداکی خدمت کرتے ہیں،اس موقع پر ہم مباک باد پیش کرتے ہیں ۔مکارم الاخلاق حضرت علّامہ ومولانا نظام احمد خان مصباحی کو جنہوں نے اپنے رفقا کے معاونت ومشاورت سے اس طرح کےایک رفاہی ادارہ “تنظیم تحریک پیغام انسانیت” کی داغ بیل ڈالی، اور الحمدللّٰہ اس تنظیم کے ذریعہ [اہل خیر سے تعاون حاصل کرکے] ضرورت مندوں کی خوب خوب خدمت کررہے ہیں-اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس طرح کی سبھی تحریکوں وتنظیموں [بالخصوص تحریک پیغام انسانیت] کی غیب سے مدد فرمائے-اور اہل ثروت واہل خیر حضرات کو اس طرح کی تنظیموں کی معاونت کی جانب راغب فرمادے آمین بجاہ سیّدالمرسلین[صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم]۔

”رمضان المبارک “ امت کی غم خواری وہمدردی کا بھی مہینہ ہے۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

(پریس ریلیز)اقوام ملل کی وہ تاریخیں جو مختلف فرائض وواجبات کےآغاز کی شاہد عدل ہیں ان میں ماہ رمضان کے ”روزے“ کےسن آغاز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسے بھی امت مسلمہ کےشعور وآگہی کا حصہ ہونا چاہیۓ۔فرمان خداوندی”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض ہوۓ جیسے اگلوں پر فرض ہوۓ تھے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے“کےنزول کے ساتھ رمضان کے روزے کی فرضیت کا خدائ حکم ١٠دس شعبان المعظم سن ٢دو ہجری کو امت محمدیہ کےلۓ نافذ ہوا۔مذکورہ آیت کریمہ کا اسلوب بھی نہایت دلنشیں و دل پذیر اور جاذب جگر ہےکہ تکلیف دہ اس حکم کو دیگر امم سابقہ کی طرح امت محمدیہ بھی بخوشی انجام دےکر رب کی خوشنودی حاصل کرلے۔کیوں کہ انسانی طبع ومزاج ہمیشہ اسی امر کا خوگر رہا ہے کہ دوسروں کےپر مشقت فعل کو دیکھ کر اپنی تکلیف بھول جاۓاور مصروف عمل رہے۔اب دیکھناہے اس امت سےپہلے کن انبیا ء وامم سابقہ کے روزے تھے اور ان کی کیفیت ونوع کیا تھی؟تفسیر خازن کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام ایام بیض یعنی ہرماہ کے ١٣\١٤\١٥تاریخ کے روزے رکھتے تھے،حضرت نوح علیہ السلام عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے،حضرت موسی علیہ السلام عاشورہ {دسویں}محرم اور ہر ہفتہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے،حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن افطار کرتے تھے،حضرت سلیمان علیہ السلام ہرماہ کے شروع کے تین ، درمیان کے تین اورآخر کے تین ایام یعنی ہر ماہ کے نو روزے ذکر کردہ ترتیب سےرکھتے تھےاور حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ با صوم رہتے تھے۔ان تمام روزوں کا انتساب گوکہ انبیا کی طرف ہےتا ہم بمطابق آیت کریمہ یہ مسلم ہےکہ اگلی امتوں پربھی روزے فرض تھے خواہ ان کے فرض روزے وہی رہے ہوں جو ان انبیا کے تھے جن کے یہ امتی تھے۔ یا۔نوع وکیفیت میں قدرے تغیر و اختلاف کے ساتھ مختلف رہے ہوں بہر حال انسانی طبع ومزاج کے مطابق امت محمدیہ کے روزہ رکھنے کی ذہن سازی خلاق کائنات نے یوں فرمائ کہ یہ مشقت کی چیزاگلے لوگوں پر فر ض ہوئ ۔انہوں نےاس کو رکھا تم بھی بخوشی رکھو۔مگر افسوس ان لوگوں پر ہے جو اس فرمان عالی شان سے مستفید ہونے کی بجاۓ روزہ نہ رکھ کر بدباطنی کا ثبوت دیتے ، اور غضب جبار کے شکار بنتے ہیں ،مذکورہ باتیں دار العلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ نے ایک پریس ریلیز میں بتائیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رمضان شریف غریبوں ،بے سہاروں اور بےکسوں کی غم خواری وہمدردی کا مہینہ بھی ہے۔کیوں کہ آدمی جب بھوکا پیا سا ہوتا ہے تو اس کی شدت وتکلیف کااحساس ہوتاہے جب کہ سال کے اور مہینوں کے دنوں میں کھانے پینے کاعمل جاری رہتاے اس لۓ اس شدت کااندازہ ان دنوں میں نہیں ہوتا اور غربا کی تکلیف یاد نہیں آتی۔ مگر ماہ رمضان میں غم خواری و خیر خواہی امت محمدیہ کے روزہ داروں کے دلوں میں مؤجزن ہوتی ہے ،اور دست تعاون ان کی طرف دراز ہوتا ہوا نظر آتا ہےاور روزہ فرض ہونے کی ایک حکمت علما وحکمانے یہ بھی بیان فرمائ ہے ۔فرمان آقاۓ کریم میں اس کو غم خواری وخیر خواہی کا مہینہ بایں الفاظ کہا گیاہے “ھو شھر المؤاساة“ یعنی یہ رمضان شریف غربا سے غم خواری وہمدردی کا مہینہ ہے۔حضور کاعمل بھی یہی تھا آپ غربا کی مفلوک الحالی دیکھ کر بے چین،بے قرار ہو جاتے تھے اور خود بھی ان کی اعانت فرماتے ، دوسرو ں کو ان کی امداد کی طرف متوجہ فرماتے اور بعد امداد مسرت وشادمانی کےآثار آپ کی جبین اقدس سے ہویدا ہوتے تھے۔چنانچہ ایک بار کچھ لوگ کاشانئہ اقدس پر حاضر ہۓ جو ننگے پاؤں ،ننگے بدن ،ننگے سر اور بوسیدہ حال تھے ،حضور ان کی حالت زار دیکھ کر بے قرار ہو گۓ ،پریشانی کے عالم میں آپ کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر آتے ۔بظاہر کچھ نہ رہنے کی وجہ سے آپ انتہائ متفکر تھے ،اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوگیا ،آپ نے حضرت بلال کو آذان کہنے کا حکم دیا ،پھر آپ نے نماز پڑھائ نماز کے بعد حاضرین کی توجہ ان کی مفلوک الحالی کی طرف دلائ ،ان کی امداد کے بعد آپ کے جبین اقدس پر طمانیت ومسرت کے آثا نمودا ر ہوۓ ۔اللہ کریم ہم سب کو ماہ رمضان کے روزے اور غربا وپریشان حال کی اعانت کی توفیق، اور ان کی غم خواری وہمدردی کے اظہار کی ہمت عطا فرماۓ ۔آمین

زکوٰة احادیث کے آئینے میں- از:(علامہ)پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن اور اہم ترین مالی فریضہ ہے جس کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے دوسرے سال میں مسلمانوں پر زکوٰة کی فرضیت کا حکم نافذ فرما یا

زکوٰة کے لغوی معنیٰ پاکیزگی اور بڑھوتری کے آتے ہیں ، کیونکہ زکوٰۃ کے ادا کرنے سے مال میں خیر و برکت کی زیادتی اور پاکیزگی ہو جاتی ہے اس لیے ایسا مال جو ظاہر اور باطن کی پاکیزگی کا ذریعہ بنتا ہے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے-

شرعی اِعتبار سے زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر غریبوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کے لیے چند شرطوں کے ساتھ واجب کیا جو سال گزرنے کے بعد مقررہ نصاب کے مطابق محتاجوں کو دیا جاتا ہے-

اسلام میں زکوٰۃ اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے کسی مسلمان فقیر کو اپنے مال میں سے مقررہ حصوں کے مالک بنا دینے کا نام ہے، لیکن زکوٰۃ کی رقم ہاشمی کو نہیں دی جا سکتی، نہ شوہر اپنی بیوی کو، نہ بیوی اپنے شوہر کو، نہ کوئی شخص اپنی اولاد یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کو دے سکتا ہے، نہ اپنی اصل یعنی ماں باپ دادا دادی وغیرہ کو دے سکتا ہے، بلکہ ان کی مدد و اعانت اپنی ذاتی مال سے کرنی ہوگی- (ردالمحتار ج/ ۲ ص/۶۳)

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ قرآن و احادیث میں زکوٰۃ دینے پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور زکوۃ کے نہ دینے پر بہت سی وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، صرف قرآن کے اندر بیسوں آیتوں میں زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے، حدیث کی کتابوں میں بھی جا بجا زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے جس سے زکوٰۃ کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت سمجھ میں آتی ہے-

آئییے زکوٰة کی ادائیگی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث[فرمودات وارشادات] ملاحظہ کریں جو درج ذیل ہیں!★ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: کہ اپنے مال کی زکوۃ دے کہ پاک کرنے والی ہے ،تجھے پاک کردےگی،اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر، اور مسکین اور پڑوسی اور سائل کا حق پہچان- (مسند احمد)★ حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اسلام کا پورا ہونا اور مکمل ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں،اور جو زکوٰة نہ دے اس کی نماز قبول نہیں-(طبرانی) ★ حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں چار چیزیں فرض کی ہیں جو ان میں سے تین ادا کرے [استطاعت ہوتے ہوئے] وہ اسے کچھ کام نہ دیں گی جب تک کہ پوری چاروں ادا نہ کریے، وہ چار چیزیں یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، ماہ رمضان کا روزہ، اور حج بیت اللہ-(مسند احمد) ★ حاکم مستدرک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس سے شر کو دور فرما دیا-★ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰة ادا کر کے اپنے مالوں کو مضبوط قلعہ میں محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور مصیبت نازل ہونے پر دعا اور عاجزی سے مدد مانگو-★حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازیں پابندی سے پڑھے، ماہ رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا- (نسائی شریف)زکوٰة مال کی حفاظت کا ذریعہ ہے: یہ ایک عجیب فلسفہ ہے کہ انسان مال کی زکوٰة دے اور اس کا مال محفوظ ہو جائے یعنی مال چوری ہونے سے بچ جائے،قدرتی آفتوں سے اسے نقصان نہ پہنچے،گویا ہر نقصان ہونے والے ذریعہ سے محفوظ رہے، یقین محکم اور ایمان کی پختگی ہے کہ جب مسلمان اللہ کی راہ میں حلال روزی ہی سے زکوٰۃ دے گا تو اللہ کی رحمت اس کے مال کو ہر آفت و بلا سے بچائے گی، ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ کعبہ میں تشریف فرما تھے کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص کا بڑا نقصان ہوگیا ہے، سمندر کی طغیانی نے اس کے مال کو ضائع و برباد کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگل ہو یا دریا، گویا کسی جگہ بھی جو مال ضائع وبرباد ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے، اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کر کے حفاظت کیا کرو اور اپنے بیماروں کی بیماری صدقہ سے دور کرو-زکوٰة نہ دینے والوں کےلیے وعیدیں:اب آئیے دیکھتے ہیں کہ صاحب نصاب [مال دار] ہوتے ہوئے اگر کوئی آدمی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو اس کے لیے کیسی کیسی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یوں تو قرآن مقدس میں زکوٰة نہ دینے والوں کے لیے مختلف مقامات پر شدید ترین وعیدیں نازل ہوئی ہیں جنہیں اگر ذکر کیا جائے تو مضمون طویل ہو جائے گی اس لیے صرف حضور کی حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں، زکوۃ نہ دینے والوں کے لیے وعیدوں وسزاؤں پر مشتمل کچھ حدیثیں ملاحظہ فرمائیں! حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کو اللہ نے مال دیا اوراس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو اس کا یہ مال اس کے لئے گنجا سانپ بن جائے گا جس کی آنکھوں میں دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ سانپ قیامت کے دن اس کی گردن میں بطور طوق ڈال دیا جائے گا پھر سانپ منہ کے دونوں کناروں کویعنی باہوں کو پکڑ لے گا پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے “اور وہ لوگ جو بخیلی کرتے ہیں وہ گمان نہ کریں کہ اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ان کے لیے یہ اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت بری چیز ہے، عنقریب قیامت کے دن ان کے گلے میں اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا”- (بخاری شریف)★ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا- (رواہ الطبرانی فی الاوسط)★ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خشکی اورتری میں جو مال تلف اور ہلاک ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ہلاک ہوتا ہے- (طبرانی)★رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار ہوگا جو اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا تھا یعنی زکوۃ نہیں دیتا تھا- (طبرانی) ★ فرمان نبوی ہے کہ معراج کی رات میں میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جنہوں نے آگے پیچھے چتھرے لگائے ہوئے تھے اور جہنم کا تھوہر،ایلوا اور بدبودار گھاس جانوروں کی طرح کھا رہے تھے، پوچھا: جبریل: یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے عرض کی: حضور! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کا صدقہ [زکوٰة] نہیں دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا ہے-

عبرت کے لئے اوپر ذکر کی گئی حدیثیں ہی کافی ہیں ورنہ! قرآن مقدس وکتب احادیث میں اس کے علاوہ بھی بہت سی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جنہیں اگر اکٹھا کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے- سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے