WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category رمضان اسپیشل

شیطان کا خط قوم مسلم کے نام!✍️آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662📲

اے قوم مسلم! میرے خط کا مضمون دیکھ کر آپ کو پتہ ہوگیا ہوگا کہ اگر یہ خط کس کا ہے۔ آپ قطعی پریشان نہ ہوں ہم آپ کو بہکانے پھسلانے کے لیے یہ خط نہیں لکھ رہے ہیں۔ میں کون ہوں؟ کیا شان تھی میری، میرا مسکن کیا تھا،کیسا تھا، میں کیوں دھتکارا گیا یہ سب کچھ آپ کو پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ آخر اس مقدس مہینہ رمضان کریم میں میں کہاں ہوں، میری کیفیت کیا ہے، میرے گلے میں کیسا طوق پڑا ہے۔ بروز حشر میری کیا حالت ہوگی اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔!!!!لیکن میں آپ لوگ کو آگاہ کرنے کے لیے یہ خط لکھا ہوں کہ کبھی کبھی ہم بھی اچھا کام کر جاتے ہیں جیسے کہ یہی میرا نصیحت آمیز خط لے لیجئے۔ رمضان شریف اللہ عزوجل کے نزدیک اس قدر باعظمت و متبرک ہے کہ خدا نے اس ماہ میں پورا قرآن ہی نازل فرما دیا۔ گویا اپنے بندوں کو معصیت سے بچانے کے لیے ان کو راہ نجات کا سائیکلوپیڈیا عطا فرما دیا۔ اور اس ماہ میں اپنی رحمت و برکت نیز مغفرت و بخشش کا بیش بہا خزانہ ہی کھول دیا۔ لوگ خود گناہ کر کے اس نحوست کا مورد الزام جسے ٹھہراتے تھے رب تعالیٰ نے اسے بھی ازسرنو اس ماہ میں ختم فرمادیا یعنی مجھ شیاطین کو مع اہل و عیال قید و بند میں ڈال دیا، تاکہ تم راہ مستقیم سے بھٹک نہ سکو تم سے گناہ سرزد نہ ہو، تم خالص اپنے رب کی رضا جوئی میں مست و مگن رہو۔ تصور گناہ بھی تمہارے قریب پھٹکنے نہ پاۓ۔ اے قوم مسلم! تم معصیت کے بعد مجھے یا تو اپنے نفس کی شامت گردانتے تھے۔ تمہارے رب نے تم پر اپنا اتنا فضل فرمایا کہ روزے کو فرض قرار دے دیا۔ تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔ روزہ رکھنے سے آدمی کو سب سے اہم فائدہ ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ نفس امارہ اس کا اس قدر پژمردہ ہوجاتا ہے کہ اس کا ایک بھی ہتھکنڈا اپنے مالک پر کارگر نہیں ہوتا۔ گویا رب تعالیٰ اپنے مومن بندے سے تصورگناہ کا زاویہ اور اس کے رموز کا بالکلیہ خاتمہ فرمادیتا ہے۔ اس قید و بند میں رہ کر ہم سبھی شیاطین اتنا غمزدہ نہیں ہیں جتنا کہ میرے بغیر تمہارا شیطانی کام مجھے غمزدہ کر رکھا ہے۔ اس ماہ کی عظمت و برکت خود تمہاری بداعمالیوں کی بدولت روٹھی ہے۔ تمہاری بد اعمالیوں پر کبھی کبھی ہم شیاطین آپس میں خوب ٹھٹھابازی کرتے ہیں اور کبھی کبھی افسوس کے مارے ٹینشن میں ایک دوسرے کو نوچنا شروع کردیتے ہیں کہ آخر قوم مسلم کو ہو کیا گیا ہے، ہم سے بڑے شیطان تو یہ خود بنے بیٹھے ہیں اگر ایک سال ہم لوگ یوں ہی نظر بند رہیں تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ باوجود اس کے بھی تم اپنی نازیبا حرکتوں اور بداعمالیوں نیز گھناؤنے کرتوتوں سے جہنم کا ایندھن بن جاؤگے۔ دیکھتا ہوں کہ تندرست و توانا صحت مند ہونے کے باوجود بھی مسلمان روزہ نہیں رکھتا، نماز کی پابندی نہیں کرتا۔ اے قوم مسلم! میں اگرچہ شیطان ہوں لیکن آج آپ لوگوں کے نام اس خط کو لکھنے کی غایت یہ ہے کہ یہ مہینہ جس قدر رحمت و برکت سے لبریز اور معطر ہے اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیت میں ڈوبے رہنے والے مسلمانوں کے لیے قہر و غضب بھی ہے۔ الے لوگو! یاد رکھنا اس ماہ کا حساب و کتاب بڑا سخت ہوگا، اس وقت نہ مجھے مورد الزام ٹھہرا پاؤگے اور نہ ہی اپنے نفس کو۔ کیوں کہ اس کا شافی حل تمہارے رب نے تمہیں پہلے ہی عطا فرما دیا، مجھے قید کرکے اور روزے سے نفس کو مقید کرکے۔ تو اس وقت جب تم سے رب رمضان المبارک کے متعلق سوال کریگا کبھی اپنی بیش قیمت رحمتوں کو یاد دلا کر، تو کبھی مغفرت و بخشش کی مقدس ساعتوں کو یاد دلاکر اور جہنم سے بالکلیہ آزاد ہو جانے کے لیے ہم نے تمہیں پورے کے پورے دس دن عطا فرماۓ (یہاں تک کہ پورا رمضان اس قدر عظمتوں والا ہے کہ بنی آدم اگر فرمان خدا وندی کا پختہ عامل ہو جائے تو وہ خالص اسی ماہ میں اپنے گناہوں کو بخشوا سکتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے) تو اس وقت رب کی بارگاہ میں تم سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ میں بھی تمہاری طرح اپنے رب کا فرمان نہ مانا تھا ہمیشہ اپنے نفس کے بہکاوے میں مست و مگن رہتا تھا جیسا کہ اس وقت آپ لوگ ہیں۔ میرے رب نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا وہ تم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اتنا سب کچھ جانتے ہوۓ اور دیکھتے ہوۓ کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کے ساتھ کیسا غضب ناک معاملہ فرماتا ہے۔ پھر بھی تم لوگ اس پاکیزہ ماہ میں گناہوں میں ملوث ہو۔ میری بات سمجھ میں آگئی ہو تو خدارا ابھی وقت ہے اپنے اعمال کو درست کرلو، گناہوں سے باز آجاؤ تاکہ تمہارا رب تم سے راضی ہوجائے۔ رب اتنا رحیم و کریم ہے کہ مجھے قید میں ڈال کر تم پر مہربانی فرما رہا ہے۔ روزے کی فرضیت سے نفس امارہ کو مقید کرکے تم پر مہربانی فرمارہا۔ اب تو معصیت کو چھوڑ دو، روزہ رکھ کر نمازوں کی پابندی کرکے رمضان کا احترام کرلو۔ اسی میں زندگی کی ساری سعادتیں اور بہاریں مضمر ہیں۔ رب راضی ہوگیا تو دوجہاں کا ذرہ ذرہ آپ سے راضی ہوجائے گا۔ اپنے رسول کے قول و فعل کی توقیر کیا کرو، ان کی تعظیم سے سر منہ نہ پھیرنا، کیوں کہ بارگاہ خدا وندی سے میرے دھتکارے جانے کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ پیغمبر خدا (حضرت) آدم (علیہ السلام) کی میں نے تعظیم نہ کی تھی۔

نوٹ: اے لوگو! میرے اس ناصحانہ خط کو اطمنان و سکون سے پڑھنا اور بار بار پڑھنا، عمل میں لانا۔ ہرگز ہرگز یہ تصور کرکے میرا خط پھاڑ(ڈلیڈ) نہ دینا کہ یہ ایک شیطان کا خط ہے۔ فقط مع السلام خدا حافظ

ہم رمضان المبارک کیسے گذاریں؟-از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر [راجستھان]

اللہ جل شانہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لئے بھیجا ہے، یہ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے ، اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گا ۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ، جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے ، جس کا ہر عمل سنت نبوی ﷺ کے مطابق ہو، جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو، ایساانسان فَقَدْ فَازَفَوْزًا عَظِیْمًا کے بمصداق دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب وکامران ہوگا- یقیناً رمضان المبارک بڑی برکتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کو خصوصی سہولیات ملتی ہیں اور اس کے خصوصی انعام دنیائے انسانیت پر ہوتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کے فیضان کے کیا کہنے،اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے،اس مبارک مہینے میں اجر وثواب بہت ہی بڑھ جاتا ہے،نفل کاثواب فرض کے برابر اور فرض کاثواب ستر گناکردیاجاتاہے، بلکہ اس مہینے میں تو روزہ دار کا سونا بھی عبادت میں شمار کیا جاتا ہے،عرش کے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں،اور ایک حدیث پاک کے مطابق “رمضان کے روزہ دار کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں” اس ماہ میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں اور ان سے انوار و برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں،اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس ماہ کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے۔ قرآن و احادیث میں تو رمضان المبارک کے فضائل اتنی کثرت سے آئے ہیں کہ اگران سب کو رقم کردیا جائے تو ایک مسقل کتاب تیار ہوسکتی ہے- رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں حاضرین سے فرمایا کہ تم لوگ منبر کے قریب آ جاؤ۔ جب لوگ قریب آ گئے تو آپ منبر پر چڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: “آمین”- اس کے بعد دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا کہ “آمین”۔ اس کے بعد تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا “آمین”۔ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی بات سنی جو کبھی نہیں سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جبرئیل (علیہ السلام) آ گئے اور انھوں نے کہا کہ برباد ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ ملا، لیکن وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا، تو میں نے کہا آمین۔ یہ ایک طویل روایت ہے۔ متعدد کتب احادیث میں مروی ہے۔ اس حدیث کے دو حصے اور ہیں لیکن اس کا پہلا حصہ خاص رمضان سے متعلق ہے۔ اس لیے یہاں اس کو ذکر کیا۔قابل غور بات یہ ہےکہ رمضان المبارک تو اللہ رب العالمین کا عطیہ ہے لیکن اس عطیہ سے بہرہ مند ہونے کی ذمہ داری خود انسان کی ہے۔ یعنی انسان کو کوشش کرکے اس ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے طور پر ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کی مغفرت کی شکل پیدا ہو سکے۔ اس نقطۂ نظر سے رمضان المبارک کی مبارک ساعات کو بہت احتیاط اور پورے دھیان سے گزارنے کی ضرورت ہے۔*ہماری خوش نصیبی:* بلاشبہ ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا با برکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے۔جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے۔ اس کے روزے رکھتا ہے،گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ *بزرگی کا معیار:* سلف صالحین کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی کی بزرگی کا تذکرہ کرتے تو یوں کہتے کہ فلاں آدمی تو بہت بزرگ آدمی ہے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ اس نے تو اپنی زندگی کے اتنے رمضان گزارے ہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کا یہ پیمانہ تھا۔ بزرگی اور ترقی درجات کا اندازہ لگانے کا یہ معیار تھا کہ فلاں انسان زندگی کے اتنے رمضان المبارک گزار چکا اب اس کے درجے کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے ۔ اللہ اکبر۔ *حضور نبی اکرمﷺ کی ترغیب:*ایک مرتبہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے ، اس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتاہے اور تم پر رحمتیں نازل فرماتا ہے ، تمہاری خطاؤں کو معاف کرتاہے ، دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔اور فرمایا کہ یَنْظُرُ اللّٰہُ تَعَالیٰ الیٰ تَنَافُسِکُمْ فِیْہِ (رواہ الطبرانی)(اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے)تنافس کہتے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو ،کسی بات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو۔ تو گویا اللہ کے رسول نے ہمیں اس بات کی ترغیب دی کہ ہم رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال اور عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اس لئے اس مہینے میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جاؤں، جیسے کلاس میں امتحان ہو تاہے تو ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ میں فرسٹ آجاؤں،اسی طرح رمضان المبارک میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والے بن جائیں ۔*رمضان المبارک میں معمولات نبویﷺ:* صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہﷺ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے ۔ پہلی بات…آپﷺ عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ ’’حَتّٰی یَتَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ‘‘ یعنی آپﷺ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہو جایا کرتی تھی-دوسری بات…آپ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے ۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔ تیسری بات…آپﷺ مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔ ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ رب العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دعاؤں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔*ہم رمضان کیسے گزاریں:* اب ہم اگر نیکیوں کے اس سیزن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں …روٹھے ہوئے رب کو منانا چاہتے ہیں… اپنی بگڑی بنانا چاہتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں چند چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کریں ۔ ان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے فیوضات و برکات سے مالامال کر دے گا۔*(۱) روزے کی حفاظت:* ہمیں چاہیے کہ ہم روزہ رکھیں تو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھیں ۔ روزے میں کھانے پینے اور جماع کی پابندی توہے ہی ۔ اس بات کی بھی پابندی ہو کہ جسم کے کسی عضو سے کوئی گناہ نہ ہو۔ روزے دار آدمی کی آنکھ بھی روزہ دار ہو، زبان بھی روز دار ہو ،کان بھی روزے دار ہوں ، شرمگاہ بھی روزہ دار ہو، دل ودماغ بھی روزہ دار ہوں ۔اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں ۔اسی لیے حدیث شریف میں آیا: اَلصِّیَامُ جُنَّة مَا لَمْ یَخْرِقْھَا [روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے]ڈھال سے مراد یہ ہے کہ روزہ انسان کےلیے شیطان سے حفاظت کا کام کرتا ہے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟حضورﷺ نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت سے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَه مِنْ صَیَامِهِ اِلَّا الْجُوْعِ وَ الْعَطْشِ[کتنے لوگ ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا]کیوں ؟ …اس لیے کہ اس نےروزہ بھی رکھا اور فلمی گانے بھی سنے ۔ روزہ بھی رکھا اور بازار میں جاتے ہوئے غیر محرم کا نظارہ بھی کیا، روزہ بھی رکھا اور لوگوں پہ بہتان لگائے، جھوٹ بولا ، دھوکا دیا، تو ایسا روزہ اللہ کے یہاں اجر نہیں پاتا۔یہ تو صرف ریاکاری کر رہا ہے۔ روزے کی حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔اسی لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْسِ[ کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تو لغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ]اسی طرح ایک اور جگہ پر روزہ داروں کے متعلق فرمایا: منْ لَمْ یَزَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَل بِه فَلَیْسَ له حاجة فی اَنْ یَّضع طعامه وشرابه ۔ [جو بندہ جھوٹ اور اپنے عمل کے کھوٹ کو نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کواس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواه نہیں ]کہ ویسے تو روزہ دار ہیں اور کم تول رہے ہیں ، ملاوٹ کر رہے ہیں ، رشوت لے رہے ہیں ، بہتان لگا رہے ہیں، غیبت کر رہے ہیں ، ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کیا ضرورت۔ *(۲)عبادت کی کثرت* ہم رمضان المبارک میں فرض نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دیگر مسنون اعمال ،نفلی عبادات، ذکر و اذکار کی کثرت کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لئے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لئے تھک جایا کریں، کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں۔*(۳) دعاؤں کی کثرت:* رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ عطا کرناچاہتا ہے۔ اس لیے اس میں دعاؤں کی کثرت کرنی چاہییے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہوَ اِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَةٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَةٍ [رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی ہرشب و روزمیں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔] اس لیے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرنی چاہییے نہ معلوم کون سی گھڑی میں دعا قبول ہو جائے۔تہجد کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔ لہٰذا سحری سے پہلے تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کے آگے گریہ و زاری کی جائے اوراپنی تمام حاجات اللہ کے سامنے پیش کی جائیں۔ اللہ کو منایا جائے۔احادیث میں افطار کے وقت روزہ دارکی دعائیں قبول ہوتی ہیں فرمایا گیا ہے،جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا، تیسرے مظلوم کی دعا۔‘‘ اس لیے افطار کے وقت دعاؤں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے ۔ایک بات پر غور کیجئے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت ہی نیک اور برگزیدہ بندہ ہو اور وہ آدمی آپ کو کسی وقت بتا دے کہ ابھی مجھے خواب کے ذریعے بشارت ملی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ، تم جو کچھ مانگ سکتے ہو ، اللہ رب العزت سے مانگ لو ۔ اگر وہ آپ کو بتائے تو آپ کیسے دعا مانگیں گے؟ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ رو رو کر اللہ رب العزت سے سب کچھ مانگیں گے کیونکہ دل میں یہ استحضار ہو گا کہ اللہ کے ایک ولی نے ہمیں بتادیا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ جب ایک ولی بتائے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو ہم اتنے شوق کے ساتھ دعا مانگیں گے اب ذرا سوچئے کہ ولیوں اور نبیوں کے سردار، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺنے فرمایا کہ روزہ دار آدمی کی افطار کے وقت اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتا ہے تو ہمیں افطار کے وقت کتنے شوق اور لجاجت سے اور پر امید ہو کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنی چاہییے؟ ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو افطاری کاآخری آدھا گھنٹہ ہے اس آدھے گھنٹے میں خوب توجہ الی اللہ کے ساتھ بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات بیان کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی اور جان و ایمان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ ویسے بھی دستور یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو مزدوری کے لیے اپنے گھر لائیں اور وہ سارا دن پسینہ بہائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے آپ سے مزدوری مانگے تو آپ اس کی مزدوری کبھی نہیں روکیں گے ، حالانکہ ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں ۔ بغض ہے، کینہ ہے، حسد ہے ، بخل ہے ، لیکن جو ہمارے اندر تھوڑی سی شرافت نفس ہے وہ اس بات کو گورا نہیں کرتی کہ جس بندے نے سارا دن محنت کی ہے ہم اس کو شام کے وقت مزدوری دیئے بغیر خالی بھیج دیں ۔ اگر ہمارا دل یہ نہیں چاہتا تو جس بندے نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی اور افطاری کے وقت اس کا مزدوری لینے کا وقت آئے تو کیا اللہ تعالیٰ بغیر مزدوری دیئے اس کو چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں ۔ اس لیے صدق یقین کے ساتھ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ قبول فرمائےگا۔حدیث شریف میں اس بات کی ترغیب آئی ہے کہ رمضان شریف میں استغفار کی کثرت کریں ،جنت کو طلب کریں اور جہنم سے پناہ مانگیں۔ لہٰذ اپنی دعاؤں میں ان تینوں چیزوں کو بار بار مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بامراد فرمائےگا۔ *(۴) تلاوت قرآن مجید کی کثرت*رمضان المبارک کوقرآن پاک سے خاص نسبت ہی کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنَ (البقرۃ : ۱۸۵)(رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا)اس سے پہلے بھی جتنی آسمانی کتابیں اورصحیفے آئے وہ بھی اسی مہینے میں نازل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اس مہینے کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اس مہینے میں کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ اصحاب رسولﷺ سے لے کر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اس ماہ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر اس ماہ میں ایک دن میں ایک قرآن پاک اور بعض دو قرآن پاک بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اکابر کی اتباع میں کثرت تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ *سلف صالحین کے واقعات:* سلف صالحین اس مہینہ کی برکات سے کیسے فائدہ اٹھاتے تھے اس کی چند مثالیں عرض کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ہمارے اسلاف یہ مہینہ کیسے گزارتے تھے ۔*بزرگانِ دِین اور شوقِ تلاوت:* (1)ہمارے امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں مَع عیدُ الفطر 62 قرآنِ پاک خَتم کرتے(دن کوایک ، رات کوایک ، پورے ماہ کی تراویح میں ایک اور عید کے روز ایک)۔ [الخیرات الحسان ، ص۵۰] (2)حضرت امام شافعی رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ ماہِ رَمَضان میں 60قرآنِ پاک ختم کرتے تھے اور سب نمازمیں ختم کرتے۔ [حلیۃ الاولیاء ، الامام الشافعی ، ۹ / ۱۴۲ ، رقم : ۱۳۴۲۶] (3) حضرت اسود بن یزید رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر دو راتوں میں پوراقرآن پڑھتےاورصرف مغرب و عشاء کے درمیان آرام فرماتے تھے اور رَمَضانُ الْمُبارَک کےعلاوہ 6راتوں میں ایک ختمِ قرآن کر لیا کرتے تھے۔ [طبقات ابن سعد ، رقم : ۱۹۷۶ ، اسودبن یزید ، ۶ / ۱۳۶بتغیر قلیل۔ حلیۃ الاولیاء ، اسود بن یزید ، ۲ / ۱۲۰ ، رقم : ۱۶۵۲] (4)حضرت امام مالک اور حضرت سفیان ثوری رحمہمااللّٰہ تعالیٰ علیہما کے بارے میں بھی کتابوں میں یہ درج ہےکہ یہ دونوں حضرات بھی رمضان المبارک میں اپنی دیگر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے اکثر اوقات تلاوت قرآن میں گذارتے تھے-تلاش وتحقیق کرنے پر سیکڑوں ایسے واقعات اکابر واسلاف کے ملتے ہیں جن کا رمضان المبارک کے پاک مہینے کا نزول ہوتے ہی عبادت وریاضت میں کثرت ہو جاتی،عام معمولات زندگی کو ترک کر کے اس خاص اور بابرکت مہینے کا پورا پورا لطف اٹھاتے-یہ ہے ہمارے کچھ بزرگوں کےرمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا شوق وذوق، ہمیں بھی چاہییے کہ ہم ان بزرگان دین کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے حتی الامکان تلاوت قرآن پاک زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں-یاد رکھنا چاہییے کہ بزرگوں کے یہ واقعات کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور محض کرامت نہیں بلکہ نفس واقعہ ہیں،اکابر کے معمولات اس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے ،یا کوئی تفریحی فقرہ ان کو کہہ دیاجائے،بلکہ اس لئے لکھے اور بتائے جاتےہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے،اور حتی الوسع پوراکرنے کا اہتمام کیا جائے کہ ان حضرات کے افعال واقوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جو جامع کمالات کا سچا مصداق ہیں،آپ ﷺ ہی کے مختلف احوال کا پرتو ہیں-*(۵)صدقہ وخیرات کی کثرت:* رمضان المبارک کاایک بڑا اور اہم عمل زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنا ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے،آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی”آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں اتنی زیادہ اور عام ہوتی جیسے تیز ہواہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ”(مفہوم حدیث)اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے صدقہ وخیرات کا زیادہ اہتمام کرناچاہییے، صدقہ وخیرات کا مطلب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے فقراء ومساکین،یتامیٰ وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا، بےلباسوں کو لباس پہنانا،بھوکوں کو کھانافراہم کرنا،بیماروں کا علاج ومعالجہ کرنا وکرانا،یتیموں وبیواؤں اور بے سہارالوگوں کی سرپرستی اور دیکھ ریکھ کرنا،معذوروں وکمزوروں کا سہارابننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سےنجات دلانا اور اس طرح کے دیگر ضرورت مند افراد کےساتھ تعاون وہمدردی کرنا-*(۶)رمضان المبارک کااحترام کریں اور اس کی بےحرمتی سے بچیں:* شعائراسلام، مذہبی ودینی علامات اور نیکی وبھلائی کی قدراور احترام کرنا اور ان کی عظمت وحرمت کو گلے سے لگانا جس طرح نیکی اور سعادت مندی کی علامت ہے اسی طرح ان چیزوں کی ناقدری اور بےحرمتی کرنا انتہائی شقاوت وبدبختی کی بات ہے،رمضان المبارک کی عزت وتوقیر پر جہاں ڈھیروں نیکیاں ملتی ہیں وہیں اس کی بے حرمتی کرنے پر دردناک عذاب کا تذکرہ کیاگیا ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ “جس نے اس ماہ مبارک میں کوئی نشہ آور چیز پی یا کسی مومن پر بہتان باندھا یا اس میں گناہ کیا تواللّٰہ رب العزت اس کے ایک سال کے اعمال برباد فرمادے گا،پس تم ماہ رمضان میں کوتاہی کرنے سے ڈرو،کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے،اللّٰہ عزّوجل نے تمہارے لیے گیارہ مہینے کردییے کہ ان میں نعمتوں سے لطف اندوز ہو اور لذت حاصل کرو اور اپنے لیے ایک مہینہ خاص کرلیا پس تم ماہ رمضان کے معاملہ میں ڈرو-[رمضان کے تیس اسباق ص/۳۱ بحوالہ: المعجم الاوسط ج/۲ ص/۴۱۴]حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “میری امت ذلیل ورسوا نہ ہوگی جب تک رمضان کاحق ادا کرتی رہےگی،عرض کیاگیا:یارسول اللّٰہ!رمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل ورسوا ہونا کیا ہے؟فرمایا:اس ماہ میں ان کاحرام کاموں کو کرنا،پھرفرمایا جس نے اس ماہ میں زناکیا یاشراب پی تو اگلے رمضان المبارک تک اللہ رب العزت اور جتنے فرشتے ہیں سب اس پر لعنت کرتے ہیں،پس اگر یہ شخص اگلے رمضان کو پانے سے پہلے مرگیا تواس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچاسکے گی،پس تم ماہ رمضان کے معاملے میں ڈرو،کیونکہ جس طرح اس ماہ میں اور مہینوں کے اعتبار سے نیکیاں بڑھادی جاتی ہیں اسی طرح گناہوں کامعاملہ بھی ہے-[ایضاً ص/۳۲ بحوالہ:المعجم الصغیر للطبرانی ج/۵ ص/۶۰]حاصل کلام یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک کااحترام ہم سبھی مسلمانوں کے لیے بہت ہی ضروری ہے اور رمضان کے احترام کا مطلب یہ ہےکہ اس میں گناہوں سے بچا جائے، جھوٹ،غیبت وچغلی اور بدکلامی سے اپنے آپ کو بچایاجائے،جملہ منہیات شرعیہ سے بچتے ہوئے اوامر پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے کیونکہ صرف کھاناپینا بند کر دینے کو رمضان کا کامل احترام نہیں کہا جاسکتا،رمضان کے اصل مقصدکو حاصل کرنا ہی اصل میں رمضان کا احترام ہے-اللّٰہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے احترام اور روزوں کی پابندی اور حفاظت کی توفیق بخشے،اور رمضان کے احترام کے ساتھ اس کی بے حرمتی سے بچائے-آمین ثمّ آمین-

ماہ رمضان کی آن بان شان، رحمتوں کی باران۔آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]

اللہ کریم کے خزانۂ رحمت کے بیش بہا خزانے کا نام ‘رمضان کریم’ ہے۔ اس ماہ مقدس کا اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتے ہی مومن بندے اور بندیوں کے چہرے مسرت و شادمانی سے کھل اٹھتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں کم عبادت کرنے پر بھی ڈھیروں ثواب ملتا ہے۔ پنج وقتہ نماز میں تراویح کی اضافہ ذات کے ساتھ ثواب بھی بکثرت عطا ہوتا ہے۔ اس میں اور دنوں کے بالمقابل عبادت کا ذوق و شوق مزید بڑھ جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا لطف نہایت نرالا ہو جاتا ہے۔ اس ماہ کا ہر کام نظام الاوقات کے عین مطابق ہونے لگتا ہے۔ افطاری کرنے کا ایک سنہرا نظم ہوتا ہے کہ اذان مغرب سے قبل مختلف النوع لذیذ پکوان سے پہلے دسترخوان کو سجا کر گھر کے چھوٹے بڑےسبھی افراد ایک ساتھ بارگاہ صمدیت مآب عزوجل میں دست بدعا ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی بھلائی و بہتری مغفرت و بخشش کے لیے دعاکرتے ہیں۔ اذان مغرب سنتے ہی ایک دوسرے کا پاس و لحاظ کرتے ہوۓ بادب افطاری کرتے ہیں۔ اور سحری کا ضابطہ بھی بڑا حسین ہوتا ہے۔ گویا ہر کام معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ صحت و سلامتی سے بھری ہوئی زندگی ہوتی ہے۔ جہاں نوع بنوع پر مغز شفاف صحت بخش غذا کھانے کو ملتی ہے، وہیں گناہ صغیرہ و کبیرہ سے بچے رہنے کے لیے روزہ جیسی عظیم نعمت رہتی ہے۔ اگر ماہ صیام میں نازل ہونے والی باران رحمت و بخشش کا انکشاف کردیا جاۓ تو بغیر روزے کے رہنا در کنار، لوگ تمنا کریں گے کہ کاش مجھے کبھی موت نہ آئے اور یوں ہی ماہ صیام کی سوغات لوٹتے رہیں۔ اس میں ثواب کا خزانہ ہے، روزہ دار کا سانس لینا بھی ثواب، دیکھنا بھی ثواب، بولنا بھی ثواب، سننا بھی ثواب، سونا بھی ثواب، جاگنا بھی ثواب، چلنا پھرنا بھی ثواب نیز نماز، صدقات، فطرات، عطیات، زکات، افطار کرنا و کرانا ثواب گویا اس کے ہر آن ہر لمحہ ہر ساعت میں ثواب ہی ثواب ہے اور یہی حصول رضاۓ الہی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئیے کہ اس ماہ کی تعظیم و تکریم بجالاۓ۔ احکام خدا وندی کو اپنا سرمایۂ حیات (مستعار) سمجھے۔ اسی میں دونوں جہاں کی بھلائی مضمر ہے۔ یہ کیسے زیبا دے سکتا ہے ایک مسلمان کو کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے (کہلاۓ) اور ماہ رمضان میں (کھلم کھلا) سر عام اسلام کی توہین و بے حرمتی کرتا ہوا پھرے۔ لیکن دور حاضر کے مسلمان کو اس کیفیت میں بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ اگر تم اپنی اس نازیبا حرکتوں سے باز نہ آۓ تو غضب الٰہی کے مستحق ہوگے اور پھر تمہارا ٹھکانہ نار جہنم ہوگا۔ جو قطعی اسے مومن کے لیے نہیں بنایا گیا۔ بل کہ نعیم جنت تمہاری خاطر کب سے اپنی باہیں پھیلائے ہوئے ہے۔ تو اے لوگو! ابھی وقت ہے اپنی سابقہ غلط روش سے منازل کا بعد مت بڑھاؤ۔ بل کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا سامان مہیا کرو، اور وہ بایں وقت سایہ فگن یہی ماہ مقدس رمضان کریم ہے اس کا احترام کرکے اپنی جہاں آباد کرلو۔ اس کی سوغات کو سوہان جان سمجھو۔ اور مکمل انہماک شوق و ذوق کے ساتھ عبادت و ریاضت میں لگ جاؤ۔ یہ رمضان کریم ہے اس کی شان بڑی عظیم ہے، اس کی آن بڑی لطیف ہے، اس کی بان بڑی نرالی ہے۔ گویا اس کی آن بان شان مسلمانوں کے لیے سفینۂ بخشش ہے۔ تو اس سفینے کو نیکیوں کے ذریعہ نہایت مستحکم بناؤ ناکہ آلۂ معصیت سے اس میں سوراخ بناؤ۔

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443

کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہایک مسلہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے ہیں

محمد شمیم قادری

👆👇

الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے، تو اسے زکوۃ کی رقم کا  مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں، تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔کما فی الھندیۃ:أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: دار الفکر)وفی الشامیۃ:ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر(ج: 2، ص: 244، ط: دار الفکر)وفی بدائع الصنائع:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها(ج: 2، ص: 43، ط: دار الکتب العلمیہ)

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/ رمضان المبارک 1443

رمضان المبارک کا پیغام:امت مسلمہ کے ناماز:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے اس میں رحمت الہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے- اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے- رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے،جنت کے دروازے کھول دییے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردییے جاتے ہیں،ایک نیکی کے بدلے ستر[۷۰]نیکی کا ثواب ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس مبارک مہینہ میں ایک روپیہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے دوسرے مہینوں کےاعتبار سےستر[۷۰] روپیے خرچ کرنے کےبرابر ثواب ملےگا،نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،بیروت)دوسری جگہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ [شروع کے دس دن] رحمت کا، دوسرا عشرہ [یعنی بیچ کے ۱۰ دن] مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ [یعنی آخر کے ۱۰ دن] جہنم سے آزادی کا ہے”… ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ “جنت چار لوگوں کے لئے خود مشتاق ہے-(۱)زبان کی حفاظت کرنے والے کے لئے-(۲) قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے- (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانے والوں کے لیے- (۴)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنے والے کے لئے”… اس لئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- اور اللہ تعالی کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی سب سے پیاری چیزوں میں مال ہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ “تم ہر گز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو” یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)(ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے ، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگا ر ہے ۔ یہ پرہیزگاری اور تقویٰ کیاہے ؟ خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت تقویٰ؛یعنی پرہیزگاری کیاہے؟ آپ نے پوچھنے والے سے سوال کیا کہ کیا کسی ایسی جگہ سے گذرے ہو ، جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہو تی ہیں ، انہوں نے کہا ، جی، گذرا ہوں،پوچھا کیسے گذرتے ہو؟ جواب دیا:حضرت! اپنے دامن کو اپنے ہاتھو ں سے سمیٹ لیتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا دامن میں نہ لگ جائے۔ آپ نے جواب دیا:یہی مثال تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے کہ انسان اس طرح گناہوں سے بچ کر زندگی گذارے کہ اس کا دامن گناہ سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ (تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ البقرۃ: ۱؍۷۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت)اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہے ، کہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے، سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے” زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے،پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رکتا ہے ، اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے ، خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا؛ورنہ صرف کھانے پینے سے رکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ روزہ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔(صحیح البخاری،باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ ،رقم الحدیث:۱۹۰۳۔۶۰۵۷؍سنن أبی داؤد،باب الغیبۃ للصائم،رقم الحدیث:۲۳۶۲)اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ !إن ربکم یقول:کل حسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبع مائۃ ضعف والصوم لی و أنا أجزی بہ، الصوم جُنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک و إن جہل علی أحدکم جاہل و ہو صائم فلیقل إنی صائم۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)(بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل الجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔)اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں؛لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ؛مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،(مسلم،باب فضل الصیام،رقم الحدیث:۱۱۵۱)یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)(رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔)قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اسکاخاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، اگر کسی نے الـم کہا تو الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن،رقم الحدیث:۲۹۱۰؍)ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛کیوںکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔(الصحیح لمسلم،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،رقم الحدیث:۸۰۴)اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے، اسلاف کا عمل ہمیشہ سے رمضان کے مہینہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے کا رہا ہے۔تراویح کی نماز کا بھی خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے ادا کی جائے،رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھنے پر ہی مکمل ہوتی ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تین دن ، ایک ہفتہ یا دس دنوں میں قرآن مکمل ہونے کے بعدتراویح کی سنت ادا ہو گئی اور اب بقیہ دنوں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ غلط خیال ہے، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تراویح میں قرآن مکمل سنناالگ چیزہے اور تراویح پورے مہینہ ادا کرنا الگ سنت ہے ؛ اس لیے اگر، ہفتہ یا عشرہ میں قرآن مکمل ہو گیا ، مگر پورے مہینے تراویح ادا کرناسنت ہے،تراویح میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والاٹھہر ٹھہر کر اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے؛تاکہ مقتدی صاف سن سکیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،المکتب الإسلامی بیروت)اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کی بھی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، اس لیے اس کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے؛ لیکن افطار کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو؛بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو، اور اس میں روزے داروں کو بلا کر افطار کرایا جائے،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو جو ضرورت مندہیں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو افطار کرانے میں زیادہ ثواب ہے،ایسی دعوتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ، جس میں امیروں کا استقبال کیا جائے اور غریبوں کے لیے دروازے بند کر دییے جائیں۔(صحیح البخاری،باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ ورسولہ،رقم الحدیث:۵۱۷۷)روزہ دار وں کو افطار کرانے کے علاوہ دیگر خیر کے راستوں میں بھی خرچ کرنا چاہئے ، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یں؛جو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔یوں تو نصاب کے بقدر مال پر جس دن سال پورا ہو جائے زکوٰۃ تبھی فرض ہے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کا معمول بہت سے لوگوں کا رہتا ہے اور بہتر بھی ہے ، اس لیے کہ جس طرح دیگر عبادتوں کا ثواب رمضان میں بڑھتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ کے ثواب میں بھی عام دنوں میں ادا کرنے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں اضافہ ہو گا ۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ صدقہ کرنے کا تھا ، حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رمضان کے مہینہ میں مال ٹھہرتا ہی نہیں تھا، ادھر آتا اور ادھر آپ اسے صدقہ کر دیتے تھے ۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ذکرحسن خلقہ وعشرتہ صلی اللہ علیہ وسلم:۱؍۲۸۵،دارالکتب العلمیۃ بیروت)یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی خصوصی خیر و برکت کا حامل ہے؛لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ،باب فضائل شھررمضان ان صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔قرآن میں ہے:{ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ }(سورۃ القدر:۱۔۵)(بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں، سراپا سلام و امان ہے، وہ رات طلوع فجر (یعنی صبح صادق) تک رہتی ہے۔)حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے؛کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ اسلام کے نظام عبادت کی روح وحدت و اجتماعیت ہے۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن کر’’کونوا عباد اللّٰہ إخوانا‘‘ کے مصداق بن جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور ہم سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے، ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے اوراپنی مرضیات سے نوازے۔اوراس مبارک مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے-۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔

زکات کے کچھ اہم مساٸل ،قسط پنجم-منجانب۔شرعی عدالت گروپ دارالفکر بہراٸچ شریف۔از ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس .المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔ 3\رمضان المبارک۔1443ھ

زکات کے کچھ اہم مساٸل

==============

مسٸلہ👈🏻۔ سال بھر خیرات کرنے کے بعد اسے زکوٰۃمیں شمار نہیں کرسکتاکیونکہ زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوٰۃ شرط ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ، ج۱، حصہ ۵ ، مسئلہ نمبر ۵۴، ص۸۸۶)ہاں ! اگر خیرات کردہ مال فقیر کے پاس موجود ہو ، ہلاک نہ ہوا ہو تو زکوٰۃکی نیت کرسکتا ہے ۔(ماخوذاز فتاویٰ ضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۱۶۱)

================

زکوٰۃ لینے والے کو اس کا علم ہونا

مسٸلہ👈🏻 اگرزکوٰۃ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃلینے والے کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ دینے والے کی نیتکا اعتبار ہو گا ۔ غمزالعیون میں ہے : ’’دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے جاننے کا جسے زکوٰۃدی جارہی ہے ۔‘‘اھ۔(غمزالعیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر، کتاب الزکوٰۃ ، الفن الثانی، ج۱، ص۴۴۷)

============

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مقدارِ زکوٰۃ کا معلوم ہونا

مسٸلہ👈🏻۔ادائے زکوٰۃ میں مقدارِ واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں لہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)

===========

قرض کہہ کر زکوٰۃ دینے والا

مسٸلہ👈🏻۔قرض کہہ کر کسی کو زکوٰۃ دی ، ادا ہوگئی ۔پھرکچھ عرصے بعد وہی شخص اس زکوٰۃ کو حقیقۃً قرض سمجھ کر واپس کرنے آیا تودینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا ہے اگرچہ اس وقت وہ خود بھی محتاج ہو کیونکہ زکوٰۃ دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی ، اللہ عَزوَجلّ کے مَحبوب، دانائے غیوب، مُنَزّہ عنِ الْعیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’صدقہ دے کر واپس مت لو ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ، الحدیث، ۱۴۸۹، ج۱، ص۵۰۲)(فتاویٰ امجدیہ ، حصہ اول ، ص۳۸۹)

============

چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینا

مسٸلہ👈🏻۔ مالک بنانے میں یہ شرط ہے کہ لینے والا اتنی عقل رکھتا ہو کہ قبضے کو جانے دھوکہ نہ کھائے ۔چنانچہ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دی اور وہ قبضے کو جانتا ہے پھینک نہیں دیتا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی ورنہ نہیں یا پھر اس کی طرف سے اس کا باپ یا ولی یا کوئی عزیز وغیرہ ہو جو اس کے ساتھ ہو ، قبضہ کرے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس کا مالک وہ بچہ ہوگا ۔(الدر المختاروردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، ج۳، ص۲۰۴ملخصاً)

===========

زکوٰۃ کی نیت سے مکان کا کرایہ معاف کرنا

مسٸلہ👈🏻۔اگر رہنے کے لئے مکان دیا اور کرایہ معاف کردیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مالک بناناشرط ہے جبکہ یہاں محض رہائش کے نفع کا مالک بنایا گیا ہے ، مال کا نہیں۔ ہاں ! اگر کرائے دار زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ کی رقم بہ نیت ِ زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دے پھر کرائے میں وصول کرلے ، زکوٰۃادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از بحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ ، ج۲، ص۳۵۳)

==========

قرض معاف کردیا تو؟

مسٸلہ👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کیا اور زکوٰۃ کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع ، ج۳، ص۲۲۶)

=========

معاف کردہ قرض کا شاملِ زکوٰۃ ہونا

مسٸلہ 👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کردیا تو معاف کردہ رقم بھی شامل ِ نصاب ہوگی یا نہیں ؟ اس کی 2صورتیں ہیں ، (1)اگر قرض غنی کو معاف کیا تواس(معاف شدہ )حصے کی بھی زکوة دینا ہوگی۔اور (2)اگر شرعی فقیر کو قرض معاف کیا تو اس حصے کی زکوة ساقط ہوجاۓ گی۔اھ۔(ردالمحتار؛کتاب الزکوة ؛مطلب زکوة ثمن المبیع۔ج۔٣۔٢٢٦۔ملخصا۔)

========

زکوٰۃ کی رقم سے اناج خرید کردینا

مسٸلہ 👈🏻اگر کھانا پکا کر یا اناج خرید کر غریبوں میں تقسیم کیا اوردیتے وقت انہیں مالک بنا دیا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی مگر کھانا پکانے پر آنے والا خرچ شامل ِ زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ پکے ہوئے کھانے کے بازاری دام (یعنی قیمت) زکوٰۃ میں شمار ہوں گے اور اگر محض دعوت کے انداز میں بٹھا کر کھلا دیا تو مالک نہ بنانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۶۲)۔

واللہ تعالی اعلم۔

کسی کو بھی ظل اِلٰہ بولنا کیسا ہے؟ کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ کسی کو بھی ظل الہ بولنا کیسا ہے

سائل محمد ابوالحسن قادری نیپال👆

👇الجواب بعون اللہ الوھاب اس طرح کسی کو نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ اسکا مفھوم ومعنی ہوتاہے خدا کا سایہ، (مجازاً: بادشاہ، بادشاہوں کا لقب اور اللہ تعالی ان چیزوں سے پاک ہے۔واللہ تعالی اعلم ۔

کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔28 /مارچ 2022

نمازِ تراویح میں سجدۂ سہو کب واجب ہے؟ کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ اگر تراویح کی نماز میں پہلی رکعت میں امام قعدہ کے لئے بیٹھ گیا پھر مقتدی کے لقمہ دینے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت پوری کیتو کیاآخر میں امام کو سجدۂ سہو کرنا پڑے گا(2) نیز جو تراویح میں دورانِ قرات امام کو بھولنے کی وجہ سے لقمہ ملتا ہے اس کے لئے بھی سجدۂ سہو ہے یا نہیںرہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

عرض گزارمحمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسؤلہ میں  اگر امام ابھی بیٹھا ہی تھا کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا تو سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک بیٹھ کر اٹھے تو سجدہ سہو واجب ہوگیاجیسا کہ کتب فقہ میں ہے کہ کوئی شخص بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں بیٹھ گیا  اور تین بار سبحان الله  کہنے کے مقدار سے کم بیٹھ کر اٹھا  تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور تین بار سبحان الله کہنے کی مقدار تاخیر کر  کے اٹھا تو سجدہ سہو واجب ہے؛فتاوی عالمگیری جلد 1صفحہ  65ایسا ہی مسائل سجدہ سہو صفحہ 86 پر ہے ۔۔واللہ تعالی اعلم۔(2) سجدہ سہو واجب نہیں ہاں اگر بھولا اور اور تین مرتبہ سبحان الله کہنے کی مقدار چپ رہا تو سجدہ سہو واجب ہے، جیسا کہ سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں :امام جب نماز میں یا قرآت میں غلطی کرے تو اسے بتانا لقمہ دینا مطلقاً جائز ہے خواہ نمازِ فرض ہو یا واجب یا تراویح یا نفل اور اس میں سجدہ سہو کی بھی کچھ حاجت نہیں ہاں اگر بھولا اور تین بار سبحان الله کہنے کی دیر چپ کھڑا رہا تو سجدہ سہو آئے گا، {فتاویٰ رضویہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۹ / رضا فاؤنڈیشن لاہور } واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری ۔مدرس المر کزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہرائچ شریف۔ 2/ رمضان المبارک 1443

روزہ نہ رکھنے والے کیا مسجد میں روزہ داروں کی افطاری کھا سکتے ہیں؟ کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔

کیا بے روزے دار کو روزے دار کی افطاری مسجد میں کھانا حرام ھے کوئی کہتا ہے کہ جو افطاری مسجد میں آتی ہے یہ مال وقف ہے اور مال وقف اسی میں استعمال ہو جسکے لیے وقف کیا گیا ہو لہذا آپ سب کے بارگاہ میں عرض ہے کہ اس مسئلے کو ضرور دیکھیں اور جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔۔۔۔ سائل۔۔۔محمد رضا دھلی۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں اگر افطار کرانے والے جانتے ہیں کہ سب آتے ہیں اور اس کی طرف سے اجازت بھی ہے تو سب افطاری کر سکتے ہیں اگر افطار کرانے والے کی طرف سے اجازت نہ ہو تو غیر روزہ دار کا کھانا جائز نہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : اور افطاری میں غیر روزہ دار اگر روزہ داربن کر شریک ہوتے ہیں متولیوں پر الزام نہیں۔ بہتیرے غنی فقیر بن کر بھیک مانگتے اور زکوٰۃ لیتے ہیں دینے والے کی زکوٰہ ادا ہوجائے گی کہ ظاہر پر حکم ہے اورلینے والے کو حرام قطعی ہے یونہی یہاں ان غیر روزہ داروں کو اس کاکھانا حرام ہے۔وقف کا مال مثل مال یتیم ہے جسے ناحق کھانے پر فرمایا:انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا۔ ترجمہ:اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے۔ (پارہ 4 سورہ نساء آیت 10)۔ ہاں متولی دانستہ غیر روزہ دارکو شریک کریں تو وہ بھی عاصی ومجرم وخائن ومستحق عزل ہیں۔ رہا اکثر یاکل مرفہ الحال ہونا اس میں کوئی حرج نہیں۔ افطاری مطلق روزہ دار کے لئے ہے اگرچہ غنی ہو جیسے سقایہ مسجد کاپانی ہر نمازی کے غسل ووضو کو ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔ انتظامات متولیوں کے ہاتھ سے ہوں گے جبکہ وہ صالح ہوں ۔ متولی معزول معزول ہے۔( جلد 16 صفحہ 487)واللہ تعالی اعلم۔

کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔