WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہایک مسلہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے ہیں

محمد شمیم قادری

👆👇

الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے، تو اسے زکوۃ کی رقم کا  مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں، تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔کما فی الھندیۃ:أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: دار الفکر)وفی الشامیۃ:ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر(ج: 2، ص: 244، ط: دار الفکر)وفی بدائع الصنائع:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها(ج: 2، ص: 43، ط: دار الکتب العلمیہ)

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/ رمضان المبارک 1443

چمنستان بخاریہ کا ایک مہکتا پھول:سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری!ازقلم:[قاری] نورمحمدقادری رضوی مہتمم:دارالعلوم رضائےمصطفیٰ جیٹھوائی روڈ،جیسلمیر [راجستھان]

محترم قارئین:

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب جب باطل وناحق نے اپنا ناپاک سر بلند کرنے کی سعئِ ناتمام کی ہے تب تب ربّ لم یزل نے حق کو بلند وبالا رکھنے کے لیے اپنے کسی نیک بندۂ مومن کو پیدا فرما کر حق کی بلندی کا سہرا اس نیک بندے کے سر رکھا،حق وباطل کی یہ جنگ ماضی میں بھی تھی اور حال میں بھی ہے مگر ماضی میں باطل ہمیشہ کفر وشرک کے لبادے میں آیا ہے اور چودہویں صدی ہجری میں باطل اپنا اصلی لبادہ اتارکر اہل حق کا لباس وکردار قرآن وحدیث، جبہ ودستار، تسبیح ومصلّیٰ،کلمہ ونماز،تقریر وتبلیغ،ذکر وفکر کی صورت دیکھاکر عوام اہلسنت خصوصاً علاقۂ تھار کے بھولے بھالے خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنے کی ایک نئی چال چل کر سامنے آیااور کئی خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان کو چُرا کر باطل کے ناپاک و تاریک گڈھے میں گرانے میں کچھ حدتک کامیاب ہوتے نظر آیا- ایسے ماحول میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد مومن کی جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ جو نگاہ ایمانی جس مومن پر ڈال دے تو اس کے ایمان کو بھی مضبوط بنا دے، ضرورت تھی ایک ایسے ہادی کی جو ہدایت کا پیکر بن کر آئے، ضرورت تھی ایک ایسے مبلغ کی جو تبلیغ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے، ضرورت تھی ایک ایسے مفکر کی جس کا دل و دماغ ہمیشہ مومنوں کے ایمان کے تحفظ و بقا میں فکر مند رہتا ہو، ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جس کی پاکیزہ تگ و دو سے علاقے کی اصلاح ہو جائے، ضرورت تھی ایک ایسے خطیب و واعظ کی جس کی خطابت و اصلاحی مواعظ معاشرے کے سدھار کا سبب بن جائے، ضرورت تھی ایک ایسے پیر کامل کی جن کی نگاہ کیمیا صرف مریدوں کی جیبوں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہو، ضرورت تھی ایک ایسے ملاح کی جو مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں ناخدا ثابت ہو ، ضرورت تھی ایک ایسے بندۂ خدا کی جو جملہ خصائص حمیدہ کا حامل ہو یعنی جو ہر فن مولیٰ ہو……!اللہ رب العزت نے بوسیلۂ سرکار اعظم اس ضرورت کوپورا فرمایا اور علاقۂ تھار کے ولی کامل قطب تھار حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے نواسے نمونۂ سلف،عمدة الخلف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوّراللہ مرقدہٗ کے مقدس گھر میں 22 دسمبر 1976ء بروز بدھ ایک بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، بظاہر وہ بچہ تھا مگر نگاہ عشاق میں اس بچے کی حقیقت وہی تھی جو برسوں پہلے امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی نے بریلی کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر ہم خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کو اہل بیت کے ان مقدس بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا-تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کاجب موصوف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو والد بزرگوار نے علم ظاہری کی تکمیل کے لیے علاقۂ تھار کی مشہور علمی شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیا علامہ موصوف کی عالمانہ صلاحیت اور صوفیانہ نگاہ کیمیا نے سید زادے کو چند ہی سالوں میں ایک باصلاحیت عالم باعمل بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خاندان ہے تو کس کا؟… ایک گاؤں کے دارالعلوم میں پڑھنے والا اتنی صلاحیتوں کا حامل بن جائے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا مگر بزرگوں کا وہ مقولہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ “مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا” یقینا یہ موصوف کے آباء واجداد کا فیضان ہے جس نے انہیں ایک تحریک ثابت کردیا-*قائین کرام:* آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا؟ ہاں ہاں! یہ وہی بچہ تھا جسے آج ہم اور آپ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیرسید نوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پھر کیا تھا جب موصوف *العلماء ورثة الانبیاء* کا تاج زریِں اپنے سر پر سجا کر علاقۂ تھار میں جلوہ گر ہوئے تو علاقے کے علاقے فتح فرما دیئے، آپ نے اپنی پیہم کوششوں اور بزرگوں کے فیضان سے علاقۂ تھار کے قریب قریب ہر گاؤں میں مکاتب و مدارس کے جال بچھا دییے-

مزید تعلیم و تعلم کی نشر و اشاعت اور پورے ملک بالخصوص علاقۂ تھار کی صلاح و فلاح اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی فرمائش اور اکابر علماء و سادات کرام کی تحریک پر آپ کے والد بزرگوار قبلہ الحاج پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ نے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے زیر سایہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا قیام فرما کر اس کی باگ ڈور آپ کے کندھے پر رکھ کر قوم و ملت پر احسان عظیم فرمایا- آپ کی مستحکم قیادت، مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش وکاوش کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم انوار مصطفیٰ راجستھان بلکہ ملک کی اہم مدارس کی فہرست میں شامل ہو کر اپنے تمام تر منصوبوں کو بروئے کار لا رہا ہے-

الحمداللہ اس ادارہ نے آپ کی پیہم کوششوں سے اپنی کم عمری کے باوجود اب تک سینکڑوں علماء، فضلاء،حفّاظ اور قرّاء کو سند و دستار سے نواز کر قوم وملت کے سامنے دین متین کی نشر و اشاعت اور سنیت کے فروغ کے لیے پیش کر چکا ہے، جو اس ادارہ کی نمایاں کارکردگی کو واضح کر رہا ہے، آپ دارالعلوم انوار مصطفی کے ماتحت تقریبا 80 مکاتب بھی اپنی نگرانی میں منظّم طورپر چلا رہے ہیں جبکہ کسی ایک مہتمم کو ایک ادارہ چلانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود دارالعلوم انوار مصطفی کی قیادت و نظامت کے ساتھ ایسے پریشان کن علاقے میں ۸۰ مکاتب کو چلانا،وہ بھی انتہائی سادگی،عجز وانکسار اور خلوص و محبت کے ساتھ، یقیناً یہ بزرگوں کا فیضان اور نصرت خداوندی ہی ہے-ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ نیز گاؤں گاؤں،ڈھانی ڈھانی دعوت وتبلیغ اور سنیت کی نشروشاعت اور تحریک صلوٰة و تحریک جمعہ کے لئے ایک ایک انجمن بنام “محبان جہانیاں کمیٹی” اور “تحریک انواری” کا قیام بھی بڑا نیک فال ثابت ہوا،…اور دارالعلوم کے چنندہ و ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر کے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خرچ سے داخلہ دلانا اور مکمل تعلیم تک جن کا خرچ اپنے ذمہ لینا یہ وہ موصوف کے شب و روز کے کام ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نورالعلماء حضرت – علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری- کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے، ایک انجمن کا نام ہے، ایک مینارۂ نور کا نام ہے، جن کی نورانیت سے علاقۂ تھار کے مسلمان جہالت و بدعقیدگی کے اندھیرے سے نکل کر علم و عمل اور پاکیزہ عقیدہ کی روشنی میں داخل ہو رہے ہیں- بارگاہ ایزدی تعالیٰ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم علامہ موصوف کو نظر بد سے بچائے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب فرمائے اور آپ کو مزید دین وسنّیت اور ملک وملّت کی خدمات کی توفیق بخشے-آمین ثمّ آمین!

رمضان المبارک کا پیغام:امت مسلمہ کے ناماز:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے اس میں رحمت الہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے- اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے- رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے،جنت کے دروازے کھول دییے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردییے جاتے ہیں،ایک نیکی کے بدلے ستر[۷۰]نیکی کا ثواب ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس مبارک مہینہ میں ایک روپیہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے دوسرے مہینوں کےاعتبار سےستر[۷۰] روپیے خرچ کرنے کےبرابر ثواب ملےگا،نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،بیروت)دوسری جگہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ [شروع کے دس دن] رحمت کا، دوسرا عشرہ [یعنی بیچ کے ۱۰ دن] مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ [یعنی آخر کے ۱۰ دن] جہنم سے آزادی کا ہے”… ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ “جنت چار لوگوں کے لئے خود مشتاق ہے-(۱)زبان کی حفاظت کرنے والے کے لئے-(۲) قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے- (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانے والوں کے لیے- (۴)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنے والے کے لئے”… اس لئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- اور اللہ تعالی کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی سب سے پیاری چیزوں میں مال ہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ “تم ہر گز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو” یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)(ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے ، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگا ر ہے ۔ یہ پرہیزگاری اور تقویٰ کیاہے ؟ خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت تقویٰ؛یعنی پرہیزگاری کیاہے؟ آپ نے پوچھنے والے سے سوال کیا کہ کیا کسی ایسی جگہ سے گذرے ہو ، جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہو تی ہیں ، انہوں نے کہا ، جی، گذرا ہوں،پوچھا کیسے گذرتے ہو؟ جواب دیا:حضرت! اپنے دامن کو اپنے ہاتھو ں سے سمیٹ لیتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا دامن میں نہ لگ جائے۔ آپ نے جواب دیا:یہی مثال تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے کہ انسان اس طرح گناہوں سے بچ کر زندگی گذارے کہ اس کا دامن گناہ سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ (تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ البقرۃ: ۱؍۷۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت)اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہے ، کہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے، سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے” زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے،پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رکتا ہے ، اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے ، خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا؛ورنہ صرف کھانے پینے سے رکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ روزہ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔(صحیح البخاری،باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ ،رقم الحدیث:۱۹۰۳۔۶۰۵۷؍سنن أبی داؤد،باب الغیبۃ للصائم،رقم الحدیث:۲۳۶۲)اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ !إن ربکم یقول:کل حسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبع مائۃ ضعف والصوم لی و أنا أجزی بہ، الصوم جُنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک و إن جہل علی أحدکم جاہل و ہو صائم فلیقل إنی صائم۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)(بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل الجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔)اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں؛لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ؛مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،(مسلم،باب فضل الصیام،رقم الحدیث:۱۱۵۱)یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)(رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔)قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اسکاخاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، اگر کسی نے الـم کہا تو الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن،رقم الحدیث:۲۹۱۰؍)ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛کیوںکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔(الصحیح لمسلم،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،رقم الحدیث:۸۰۴)اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے، اسلاف کا عمل ہمیشہ سے رمضان کے مہینہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے کا رہا ہے۔تراویح کی نماز کا بھی خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے ادا کی جائے،رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھنے پر ہی مکمل ہوتی ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تین دن ، ایک ہفتہ یا دس دنوں میں قرآن مکمل ہونے کے بعدتراویح کی سنت ادا ہو گئی اور اب بقیہ دنوں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ غلط خیال ہے، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تراویح میں قرآن مکمل سنناالگ چیزہے اور تراویح پورے مہینہ ادا کرنا الگ سنت ہے ؛ اس لیے اگر، ہفتہ یا عشرہ میں قرآن مکمل ہو گیا ، مگر پورے مہینے تراویح ادا کرناسنت ہے،تراویح میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والاٹھہر ٹھہر کر اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے؛تاکہ مقتدی صاف سن سکیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،المکتب الإسلامی بیروت)اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کی بھی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، اس لیے اس کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے؛ لیکن افطار کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو؛بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو، اور اس میں روزے داروں کو بلا کر افطار کرایا جائے،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو جو ضرورت مندہیں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو افطار کرانے میں زیادہ ثواب ہے،ایسی دعوتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ، جس میں امیروں کا استقبال کیا جائے اور غریبوں کے لیے دروازے بند کر دییے جائیں۔(صحیح البخاری،باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ ورسولہ،رقم الحدیث:۵۱۷۷)روزہ دار وں کو افطار کرانے کے علاوہ دیگر خیر کے راستوں میں بھی خرچ کرنا چاہئے ، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یں؛جو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔یوں تو نصاب کے بقدر مال پر جس دن سال پورا ہو جائے زکوٰۃ تبھی فرض ہے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کا معمول بہت سے لوگوں کا رہتا ہے اور بہتر بھی ہے ، اس لیے کہ جس طرح دیگر عبادتوں کا ثواب رمضان میں بڑھتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ کے ثواب میں بھی عام دنوں میں ادا کرنے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں اضافہ ہو گا ۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ صدقہ کرنے کا تھا ، حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رمضان کے مہینہ میں مال ٹھہرتا ہی نہیں تھا، ادھر آتا اور ادھر آپ اسے صدقہ کر دیتے تھے ۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ذکرحسن خلقہ وعشرتہ صلی اللہ علیہ وسلم:۱؍۲۸۵،دارالکتب العلمیۃ بیروت)یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی خصوصی خیر و برکت کا حامل ہے؛لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ،باب فضائل شھررمضان ان صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔قرآن میں ہے:{ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ }(سورۃ القدر:۱۔۵)(بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں، سراپا سلام و امان ہے، وہ رات طلوع فجر (یعنی صبح صادق) تک رہتی ہے۔)حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے؛کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ اسلام کے نظام عبادت کی روح وحدت و اجتماعیت ہے۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن کر’’کونوا عباد اللّٰہ إخوانا‘‘ کے مصداق بن جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور ہم سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے، ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے اوراپنی مرضیات سے نوازے۔اوراس مبارک مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے-۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔

زکات کے کچھ اہم مساٸل ،قسط پنجم-منجانب۔شرعی عدالت گروپ دارالفکر بہراٸچ شریف۔از ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس .المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔ 3\رمضان المبارک۔1443ھ

زکات کے کچھ اہم مساٸل

==============

مسٸلہ👈🏻۔ سال بھر خیرات کرنے کے بعد اسے زکوٰۃمیں شمار نہیں کرسکتاکیونکہ زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوٰۃ شرط ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ، ج۱، حصہ ۵ ، مسئلہ نمبر ۵۴، ص۸۸۶)ہاں ! اگر خیرات کردہ مال فقیر کے پاس موجود ہو ، ہلاک نہ ہوا ہو تو زکوٰۃکی نیت کرسکتا ہے ۔(ماخوذاز فتاویٰ ضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۱۶۱)

================

زکوٰۃ لینے والے کو اس کا علم ہونا

مسٸلہ👈🏻 اگرزکوٰۃ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃلینے والے کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ دینے والے کی نیتکا اعتبار ہو گا ۔ غمزالعیون میں ہے : ’’دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے جاننے کا جسے زکوٰۃدی جارہی ہے ۔‘‘اھ۔(غمزالعیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر، کتاب الزکوٰۃ ، الفن الثانی، ج۱، ص۴۴۷)

============

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مقدارِ زکوٰۃ کا معلوم ہونا

مسٸلہ👈🏻۔ادائے زکوٰۃ میں مقدارِ واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں لہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)

===========

قرض کہہ کر زکوٰۃ دینے والا

مسٸلہ👈🏻۔قرض کہہ کر کسی کو زکوٰۃ دی ، ادا ہوگئی ۔پھرکچھ عرصے بعد وہی شخص اس زکوٰۃ کو حقیقۃً قرض سمجھ کر واپس کرنے آیا تودینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا ہے اگرچہ اس وقت وہ خود بھی محتاج ہو کیونکہ زکوٰۃ دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی ، اللہ عَزوَجلّ کے مَحبوب، دانائے غیوب، مُنَزّہ عنِ الْعیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’صدقہ دے کر واپس مت لو ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ، الحدیث، ۱۴۸۹، ج۱، ص۵۰۲)(فتاویٰ امجدیہ ، حصہ اول ، ص۳۸۹)

============

چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینا

مسٸلہ👈🏻۔ مالک بنانے میں یہ شرط ہے کہ لینے والا اتنی عقل رکھتا ہو کہ قبضے کو جانے دھوکہ نہ کھائے ۔چنانچہ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دی اور وہ قبضے کو جانتا ہے پھینک نہیں دیتا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی ورنہ نہیں یا پھر اس کی طرف سے اس کا باپ یا ولی یا کوئی عزیز وغیرہ ہو جو اس کے ساتھ ہو ، قبضہ کرے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس کا مالک وہ بچہ ہوگا ۔(الدر المختاروردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، ج۳، ص۲۰۴ملخصاً)

===========

زکوٰۃ کی نیت سے مکان کا کرایہ معاف کرنا

مسٸلہ👈🏻۔اگر رہنے کے لئے مکان دیا اور کرایہ معاف کردیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مالک بناناشرط ہے جبکہ یہاں محض رہائش کے نفع کا مالک بنایا گیا ہے ، مال کا نہیں۔ ہاں ! اگر کرائے دار زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ کی رقم بہ نیت ِ زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دے پھر کرائے میں وصول کرلے ، زکوٰۃادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از بحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ ، ج۲، ص۳۵۳)

==========

قرض معاف کردیا تو؟

مسٸلہ👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کیا اور زکوٰۃ کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع ، ج۳، ص۲۲۶)

=========

معاف کردہ قرض کا شاملِ زکوٰۃ ہونا

مسٸلہ 👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کردیا تو معاف کردہ رقم بھی شامل ِ نصاب ہوگی یا نہیں ؟ اس کی 2صورتیں ہیں ، (1)اگر قرض غنی کو معاف کیا تواس(معاف شدہ )حصے کی بھی زکوة دینا ہوگی۔اور (2)اگر شرعی فقیر کو قرض معاف کیا تو اس حصے کی زکوة ساقط ہوجاۓ گی۔اھ۔(ردالمحتار؛کتاب الزکوة ؛مطلب زکوة ثمن المبیع۔ج۔٣۔٢٢٦۔ملخصا۔)

========

زکوٰۃ کی رقم سے اناج خرید کردینا

مسٸلہ 👈🏻اگر کھانا پکا کر یا اناج خرید کر غریبوں میں تقسیم کیا اوردیتے وقت انہیں مالک بنا دیا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی مگر کھانا پکانے پر آنے والا خرچ شامل ِ زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ پکے ہوئے کھانے کے بازاری دام (یعنی قیمت) زکوٰۃ میں شمار ہوں گے اور اگر محض دعوت کے انداز میں بٹھا کر کھلا دیا تو مالک نہ بنانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۶۲)۔

واللہ تعالی اعلم۔

کسی کو بھی ظل اِلٰہ بولنا کیسا ہے؟ کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ کسی کو بھی ظل الہ بولنا کیسا ہے

سائل محمد ابوالحسن قادری نیپال👆

👇الجواب بعون اللہ الوھاب اس طرح کسی کو نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ اسکا مفھوم ومعنی ہوتاہے خدا کا سایہ، (مجازاً: بادشاہ، بادشاہوں کا لقب اور اللہ تعالی ان چیزوں سے پاک ہے۔واللہ تعالی اعلم ۔

کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔28 /مارچ 2022

نمازِ تراویح میں سجدۂ سہو کب واجب ہے؟ کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ اگر تراویح کی نماز میں پہلی رکعت میں امام قعدہ کے لئے بیٹھ گیا پھر مقتدی کے لقمہ دینے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت پوری کیتو کیاآخر میں امام کو سجدۂ سہو کرنا پڑے گا(2) نیز جو تراویح میں دورانِ قرات امام کو بھولنے کی وجہ سے لقمہ ملتا ہے اس کے لئے بھی سجدۂ سہو ہے یا نہیںرہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

عرض گزارمحمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسؤلہ میں  اگر امام ابھی بیٹھا ہی تھا کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا تو سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک بیٹھ کر اٹھے تو سجدہ سہو واجب ہوگیاجیسا کہ کتب فقہ میں ہے کہ کوئی شخص بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں بیٹھ گیا  اور تین بار سبحان الله  کہنے کے مقدار سے کم بیٹھ کر اٹھا  تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور تین بار سبحان الله کہنے کی مقدار تاخیر کر  کے اٹھا تو سجدہ سہو واجب ہے؛فتاوی عالمگیری جلد 1صفحہ  65ایسا ہی مسائل سجدہ سہو صفحہ 86 پر ہے ۔۔واللہ تعالی اعلم۔(2) سجدہ سہو واجب نہیں ہاں اگر بھولا اور اور تین مرتبہ سبحان الله کہنے کی مقدار چپ رہا تو سجدہ سہو واجب ہے، جیسا کہ سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں :امام جب نماز میں یا قرآت میں غلطی کرے تو اسے بتانا لقمہ دینا مطلقاً جائز ہے خواہ نمازِ فرض ہو یا واجب یا تراویح یا نفل اور اس میں سجدہ سہو کی بھی کچھ حاجت نہیں ہاں اگر بھولا اور تین بار سبحان الله کہنے کی دیر چپ کھڑا رہا تو سجدہ سہو آئے گا، {فتاویٰ رضویہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۹ / رضا فاؤنڈیشن لاہور } واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری ۔مدرس المر کزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہرائچ شریف۔ 2/ رمضان المبارک 1443

روزہ نہ رکھنے والے کیا مسجد میں روزہ داروں کی افطاری کھا سکتے ہیں؟ کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔

کیا بے روزے دار کو روزے دار کی افطاری مسجد میں کھانا حرام ھے کوئی کہتا ہے کہ جو افطاری مسجد میں آتی ہے یہ مال وقف ہے اور مال وقف اسی میں استعمال ہو جسکے لیے وقف کیا گیا ہو لہذا آپ سب کے بارگاہ میں عرض ہے کہ اس مسئلے کو ضرور دیکھیں اور جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔۔۔۔ سائل۔۔۔محمد رضا دھلی۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں اگر افطار کرانے والے جانتے ہیں کہ سب آتے ہیں اور اس کی طرف سے اجازت بھی ہے تو سب افطاری کر سکتے ہیں اگر افطار کرانے والے کی طرف سے اجازت نہ ہو تو غیر روزہ دار کا کھانا جائز نہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : اور افطاری میں غیر روزہ دار اگر روزہ داربن کر شریک ہوتے ہیں متولیوں پر الزام نہیں۔ بہتیرے غنی فقیر بن کر بھیک مانگتے اور زکوٰۃ لیتے ہیں دینے والے کی زکوٰہ ادا ہوجائے گی کہ ظاہر پر حکم ہے اورلینے والے کو حرام قطعی ہے یونہی یہاں ان غیر روزہ داروں کو اس کاکھانا حرام ہے۔وقف کا مال مثل مال یتیم ہے جسے ناحق کھانے پر فرمایا:انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا۔ ترجمہ:اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے۔ (پارہ 4 سورہ نساء آیت 10)۔ ہاں متولی دانستہ غیر روزہ دارکو شریک کریں تو وہ بھی عاصی ومجرم وخائن ومستحق عزل ہیں۔ رہا اکثر یاکل مرفہ الحال ہونا اس میں کوئی حرج نہیں۔ افطاری مطلق روزہ دار کے لئے ہے اگرچہ غنی ہو جیسے سقایہ مسجد کاپانی ہر نمازی کے غسل ووضو کو ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔ انتظامات متولیوں کے ہاتھ سے ہوں گے جبکہ وہ صالح ہوں ۔ متولی معزول معزول ہے۔( جلد 16 صفحہ 487)واللہ تعالی اعلم۔

کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔

زکات وصدقہ فطر کے اہم مساٸل-قسط چہارم-منجانب۔شرعی عدالت دارالفکر گروپ بہرائچ-از۔احمدرضاقادری، منظری،مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ شریف۔

مسٸلہ 👈۔کسی شخص کے پاس سونا نصاب (ساڑھے سات تولہ ) سے کم ہو، لیکن ساتھ میں ضرورت سے زائد کچھ نقد رقم بھی ہو ( چاہے پانچ ، دس ہزار ہی کیوں نہ ہو) اور سونے کی قیمت کو نقدی کے ساتھ ملانے سے مجموعی قیمت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو سال پورا ہونے پر زکات واجب ہوگی، اور اگر مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت سے کم ہو تو پھر زکات واجب نہیں ہوگی۔ملخصا ۔(بہارے شریعت حصہ 5.ص 31. فتاوی رضویہ جلد 4.ص 417.)=======

مسٸلہ 👈 ۔صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد مالک نصاب پر جس کی نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے۔اس میں عاقل بالغ اور مال نامی ہونے کی شرط نہیں ۔(درمختار۔ج٢۔ص ٩٩۔بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ٥٥۔)یعنی کسی کے پاس سونا چاندی کا نصاب نہ ہو اور نہ ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت و روپیہ ہو مگر حاجت اصلیہ سے زاٸد سامان غیر تجارت ہو تو صدقہ فطر واجب ہوجاۓ گا۔اھ۔(فتاوی فیض الرسول ۔ج اول۔ص ٥٠٦۔)

مسٸلہ ✍️ عورت شوہر کو شوہر عورت کو زکوة نہیں دے سکتے اگرچہ طلاق باٸن بلکہ تین طلاقیں دے چکا ہو جب تکہ عدت میں ہے۔اور عدت پوری ہونے ہوگٸ تو اب دے سکتا ہے۔اھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ٥٠۔)=======

مسٸلہ 👈 ۔ماں باپ محتاج ہوں اور حیلہ کر کے زکوة دینا چاہتا ہے کہ فقیر کو دے دے پھر فقیر انہیں دے مکروہ۔اھ(۔ردالمحتار۔ج ٢ ص ٨٧۔بہارے شریعت۔ج ٥۔ص ٥٠۔)اگرصدقۂ فطر واجب ہونے کے بعد مال ہلاک ہوجائے توپھر بھی دیناہوگاکیونکہ زکوٰۃوعشر کے برخلاف صدقۂ فطر ادا کرنے کے لئے مال کا باقی رہنا شرط نہیں۔ (الدر المختار، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۶ )===========

فوت شدہ شخص کا فطرہ)=========== مسٸلہ👈 اگر کسی شخص نے وصیت نہ کی اورمال چھوڑ کر مر گیا توورثہ پراس میت کے مال سے فطرہ ادا کر نا واجب نہیں کیونکہ صدقۂ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں ، ہاں ! اگر ورثہ بطورِ احسان اپنی طرف سے ادا کریں تو ہوسکتا ہے کچھ اُن پر جبر نہیں۔(الفتاوٰ ی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب فی صدقۃ الفطر، ج۳، ص۱۹۳)====== ( مہما نوں کا فطرہ)======= عید پر آنے والے مہمانوں کا صدقۂ فطر میزبان ادا نہیں کرے گااگر مہمان صاحب ِ نصاب ہیں تو اپنا فطرہ خود ادا کریں۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَّہ، ج۱۰، ص۲۹۶)==============

شادی شدہ بیٹی کا فطرہ

مسٸلہ 👈 اگر شادی شدہ بیٹی باپ کے گھر عید کرے تو اس کے چھوٹے بچوں کا فطرہ ان کے باپ پر ہے جبکہ عورت کا نہ باپ پر نہ شوہر پر ، اگر صاحب ِ نصاب ہے تو خود ادا کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَّہ ، ج۱۰، ص۲۹۶)============

بلااجازت فطرہ ادا کرنا

مسٸلہ اگربیوی نے شوہرکی اجازت کے بغیراس کافطرہ اداکیاتوصدقۂ فطر ادا نہیں ہوگا ۔جب کہ صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہ ہو۔(ملخَصٍّاالفتاوٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۳ )==========

مسٸلہ اگرشوہرنے بیوی یا بالغ اولاد کی اجازت کے بغیران کافطرہ اداکیاتو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں ہو۔(ماخوذ ازالدر المختارو رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۰)

استقبال رمضان۔۔از: سید خادم رسول عینی۔۔

اس کا استقبال کیجیے مومنو سنت ہے یہ

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام

اس شعر میں کہا گیا ہے کہ اے مومنو ! ماہ رمضان کا استقبال کرو کیونکہ یہ نیکی کا تحفہ لےکر آیا ہے اور ماہ رمضان کا استقبال کرنا سنت مصطفی’ ہے ۔استقبال کا مطلب کیا ہے اور ماہ رمضان کا استقبال کیوں اور کیسے کیا جائے، آئیے اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا استقبال ہے ۔مہمان نوازی کو استقبال کہا جاتا ہے ۔استقبال ماہ رمضان ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کا نام ہے ۔ مشہور حدیث ہے کہ شعبان کے آخری دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے صحابہء کرام کو ماہ رمضان کی اہمیت اور فضیلت سے روشناس فرمایا۔الغرض استقبال ‌ماہ رمضان حدیث سے ثابت ہے۔جب کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو اس کے استقبال کے لئے ہم‌ انتظامات و انصرامات کرتے ہیں، گھر کے در و بام‌ کو سجاتے/ سنوارتے ہیں، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں۔چونکہ ماہ رمضان بہت قیمتی، معظم اور بابرکت مہمان ہے اس لیے اس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنی روح کو سنوارنا ہے ، اپنے اعمال و کردار کو بہتر بنانا ہے ۔ماہ رمضان کی آمد سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار صدق دل سے کرلیں تاکہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ایک نئی اور صاف ستھری زندگی کا آغاز کر سکیں ۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی شب میں پہلی تراویح، پھر دیر رات میں سحری اور آنے والے دن میں روزے اور پھر شام کو افطار، پھر دوسری شب میں نماز تراویح ۔یہ ایک معمول ہے ، روز مرہ کا کام ہے جو پورے مہینے چلتا ہے الحمد لللہ۔

ماہ رمضان اتنا اہم کیوں ہے؟ ہم اس کا استقبال کیوں کریں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماہ مومنوں کے لئے تحفے لیکے آتا‌ ہے۔کون سا تحفہ؟ نیکیوں کا تحفہ۔ماہ رمضان صرف نیکی لےکر نہیں آتا ، بلکہ نیکیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہوا آتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر مومن ماہ رمضان میں نفل ادا کرتا ہے تو اس کو ثواب فرض کا ملتا ہے۔اگر مومن ایک فرض ادا کرتا ہے تو اس کو ستر فرض کا ثواب ملتا ہے۔تو پھر ایسے خیر خواہ اور مہربان مہمان کا پرتپاک انداز سے ایک مومن استقبال نہ کرے؟بیشک ہر مومن ، ہر مسلمان بڑی بے صبری کے ساتھ اس ماہ کا منتظر رہتا ہے ۔آئیے ہم سب مل کر اس ماہ کا استقبال کرتے ہیں جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔آئیے اس کا استقبال کرتے ہیں جس کو ایمان کا مہینہ کہا گیا۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے گئے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔اس ماہ کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور اتری۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اترا ۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو ماہ انوار بھی ھے اور ماہ بخشش و مغفرت بھی۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو درجات جنت کے حصول کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو دوزخ کے طبقات کی نجات کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو عابدوں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو توبہ کرنے والوں کا مہینہ ہے۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جو اہل معرفت کا مہینہ ہے۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جو عارفوں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو امن و اماں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے جسے قدر والی رات کہتے ہیں اور اس رات کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:انا انزلنا ہ فی لیلۃالقدروما ادراک ما لیلۃ القدرلیلۃ القدر خیر من الف شھر الحمد لللہ پھر سے ہماری زندگی کے باغ میں بہار دلکش بن کر ماہ رمضان آیا ہے ۔آئیے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر اس کا استقبال کریں اور پورے انتیس / تیس دن اس کی قدر کریں ، اس مہینے کا کوئی بھی لمحہ ضائع ہونے نہ دیں ۔ پتہ نہیں کل ہو یا نہ ہو، آئندہ ماہ رمضان تک زندگی باقی رہے یا نہ رہے ۔خیر ، اللہ سب کو امن و اماں میں رکھے ۔آمینماہ رمضان میں عبادت کئی انداز سے کی جاتی ہے ۔روزہ رکھنا خود ایک اہم عبادت ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائے گا ۔اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

صائموں کی افضلیت عینی اس سے جان لو

اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں ، جس میں کل فرض نمازیں سترہ رکعتوں کی ہیں۔ایک فرض ادا کرینگے تو ستر فرائض کا ثواب ملےگا۔سترہ کو ستر میں ضرب دیجئے۔گیارہ سو نوے ہوئے۔۔پھر معراج کا واقعہ یاد کریں ۔ معراج کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہم دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھیں گے ، لیکن پچاس وقت کا ثواب ملےگا۔ لہذا اس کو اکاؤنٹنگ میں لاتے ہوئے گیارہ سو نوے کو دس پر ضرب دیں ۔کتنا ہوتا ہے ؟ گیارہ ہزار نو سو ہوتا ہے۔گویا ماہ رمضان میں ہم روزانہ سترہ رکعت فرض نماز ادا کرینگے ، لیکن ثواب گیارہ ہزار نو سو فرض نمازوں کا ملےگا۔ اس سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ، یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے ، خدا صرف رحیم نہیں بلکہ رحمان بھی ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں کہ آپ کے صدقے آپ کی امت کو یہ شرف عظیم حاصل ہوا۔سحری کرتے ہیں اور افطار کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔لیکن ہم ماہ رمضان کی شروعات کس عبادت سے کرتے ہیں ؟ اس عبادت کا نام کیا ہے؟ اس عبادت کا نام ہے نماز تراویح۔آئیے پہلے معلوم کرتے ہیں تراویح کی فضیلت کیا ہے۔نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ تراویح بیس رکعات پر مشتمل ہے۔ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نماز تراویح باجماعت قائم فرمائی۔وہ عمر جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ وہ عمر جن کو فاروق کا لقب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا اہتمام کیا اور اسے سنت قرار دیا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس قدر اہتمام سے تراویح پڑھنے کی ہدایت کیوں دی؟ کجھ خاص وجہ تو ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی تھی کہ عرش الٰہی کے اردگرد ایک جگہ ہے جس کا نام ہے حضیرۃ القدس ، جس میں فرشتے عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ فرشتے ماہ رمضان کی راتوں میں خدا سے اجازت لےکر زمین پر اترتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ۔ امت محمدیہ میں جس نے ان کو چھوا یا انھوں نے جس کو چھوا تو وہ ایسا نیک بخت اور سعید بن جاتا ہے کہ وہ کبھی بد بخت و شقی نہیں بنتا ۔ یہی وہ حدیث رسول ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ متأثر ہوئے اور آپ نے امت مسلمہ کو جماعت کے ساتھ نماز تراویح کا اہتمام کرنے کے لیے کہا۔نماز تراویح کی خاصیت یہ ہے کہ نمازی قیام کے دوران پورا قرآن سنتے ہیں ۔قرآن سننا بھی ایک عبادت ہے اور قیام کی حالت میں سننا مزید باعث ثواب و برکت ہے۔پورے رمضان میں تراویح کی نماز میں قرآن ختم اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان قرآن کی بتائی ہوئی ہدایتوں کو از سر نو سن لیں ، سمجھ لیں اور پورے سال ان ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔لیکن ہمارے ملک کے کتنے مسلمان قرآن کی آیات کو سن کے سمجھتے بھی ہیں ۔بہت کم تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو تراویح کے دوران قرآن سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں ۔آخر اس کا حل کیا ہے ؟ قرآن کے نزول کا مقصد انسان کی ہدایت ہے ۔لیکن بیشتر مسلمان قرآن پڑھتے یا سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔اس مسءلہ کا حل یہ ہے ماہ رمضان میں جب بھی وقت ملے ، نماز سے پہلے یا نماز کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھیں ، ترجمہ کی تفسیر پڑھیں ۔کنز الایمان پڑھیں ، تفسیر نعیمی پڑھیں۔اپنے گھر میں ، اپنے سماج میں ، اپنی بستی میں ، اپنے شہر میں قرآنک کلچر قائم کریں ۔اگر ایسا ہوا ، اگر عوام قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر بھی پڑھنے لگی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت عوام کو گمراہ نہیں کرسکتی۔سلمان رشدی ہو یا ملعون وسیم ، ان کے لٹریچر سے عوام بہک نہیں سکتی، کیونکہ ان کے اعتراضات کے جوابات ترجمہء قرآن اور تفسیر میں مل جائیں گے۔ہو سکتا ہے آگے چل کر ہمارے ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہو ۔اگر ایسا ہوا تو بھی مسلمان جن کو قرآن کا علم ہے کبھی بہک نہیں سکتے کیونکہ مسءلوں کا حل قرآن میں ہے۔وہ نکاح، طلاق ، پروپرٹی کے مسائل کا حل قرآنی احکام کے ذریعہ آپس میں طے کرلیں گے یا اپنے شہر کے مفتی / مسجد کے عالم امام سے مسئلے کا حل کروالیں گے، وہ ملک کی عدالت کا دروازہ کبھی نہیں کھٹکھٹائینگے ۔ اس طرح یونیفارم سیول کوڈ مسلم سماج کے لیے بے معنی رہ جائےگا۔ہوسکتا ہے آئندہ سالوں میں گیتا کی پڑھائی کو اسکول میں لازمی قرار دے دیا جائے۔ایسی صورت میں اگر مسلم طلباء اپنے گھر / مسجد/ مدرسے میں قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ نہ پڑھے ہوں تو کیا ان کے بہکنے کا امکان نہیں ہوگا؟ اگر قرآن کی تعلیم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ انہیں دیا گیا ہوگا تو انھیں یہ محسوس ہوگا کہ جو اخلاقی اقدار کے اسباق گیتا کے شلوک کے ذریعہ اسکول میں سکھائے جارہے ہیں وہ قرآن و حدیث میں بہتر انداز سے بتائے گئے ہیں ۔ہمارے اکابرین سرکار اعلیٰ حضرت، حضرت صدر الافاضل ، مفتی احمد یار خان نعیمی علیہم الرحمہ وغیرہ نے اردو زبان میں اسلامی لٹریچر کا ایک ضخیم اثاثہ چھوڑا ہے تاکہ ہم پڑھیں اور راہ حق پر قائم رہیں ۔کیا یہ کتابیں صرف علماء کے استفادہ کے لیے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ یہ کتابیں پڑھیں تاکہ مختلف اقسام کی گمراہیوں کی حربوں سے بچ سکیں ۔مشہور حدیث ہے:طلب العلم فریضۃ علی’ کل مسلم و مسلمۃ۔یعنی علم دین حاصل کرنا ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے۔ایک کالج میں پڑھا ہوا شخص / پڑھتا ہوا شخص بھی اگر چاہے تو علم دین سیکھ سکتا ہے اگر وہ ہمارے اکابرین کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔بہر حال ، بات چل رہی تھی نماز تراویح کی فضیلت کی۔ چونکہ نماز تراویح مستحب ہے، سنت رسول ہے اس کا پڑھنے والا ، اس کا اہتمام کرنے والا بہت ثواب کا حقدار بن جاتا ہے الحمد لللہ ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز تراویح کے دنیاوی فوائد بھی ہیں ۔ہم نے ممبئی میں ڈاکٹروں کے ایک سیمینار میں شرکت کی تھی۔سمینار کے سوال و جواب سیشن میں ایک سامع نے سوال کیا :اگر کوئی شوگر کا مریض ہے کیا وہ ماہ رمضان میں روزہ رکھ سکتا ہے؟اس سوال کا جواب ایک غیر مسلم ڈاکٹر نے یوں دیا تھا: ہاں ، ایک شوگر کا مریض ماہ رمضان میں روزے رکھ سکتا ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے جو ہدایتیں دی ہیں ان سب ہدایتوں پر عمل کرے : سحری کرے لیکن کم مقدار میں کھانا کھائے، سحری کے بعد‌ فورا” سو نہ جائے بلکہ پیدل مسجد جائے اور نماز فجر جماعت سے ادا کرے ،پورا دن حسب معمول نارمل دن کی طرح گزارے اور ظہر و عصر کی نماز باجماعت ادا کرے،افطار میں بسیار خوری نہ کرے ، افطار میں پھل ، سبزی ، ہائی فائبر فوڈ شامل کرے اور متوازن غذا کا استعمال کرے،مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھے ۔بیس رکعت نماز تراویح مسجد میں باجماعت پڑھے۔اگر کوئی شخص ان سب چیزوں کی پابندی کرے تو وہ اگرچہ شوگر کا مریض ہے ، روزہ رکھ سکتا ہے ۔ان شا ء اللہ ایک ماہ کے روزے کے بعد اس کے مرض میں بہتری آئیگی اور اس کے شوگر کی سطح بھی نارمل ہوتی ہوئی نظر آئیگی۔البتہ تجویز کردہ دوا اسے ترک نہیں کرنا ہے ۔پتہ یہ چلا کہ نماز اور روزے کے دینی فوائد بھی ہیں اور دنیاوی فائدے بھی ۔ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ماہ رمضان کا روزہ ہم خود بھی رکھیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی رکھوائیں، نماز پنجگانہ اور تراویح جماعت کے ساتھ خود بھی ادا کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی تاکید کریں ۔اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

دے رہا ہے مسلموں کو ضابطہ ماہ صیام

نور ایماں اور تقویٰ کی ضیا ماہ صیام

اس کا استقبال کیجیے مومنو ، سنت ہے یہ

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام

زکات کے مساٸل -از -:احمدرضا قادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ شریف 1443ھ

زکوٰۃ کے مسائل (ماہِ رمضان قسط سوم)

مسٸلہ👈روپیہ کہیں جمع ہو کسی کے پاس امانت ہو مطلقا اس پر زکوة واجب ہے۔اھ(۔فتاوی رضویہ۔ج ۔٤۔ص ٤١٥۔)

مسٸلہ👈۔ آج کل عورتوں کا مہر عام طور پرمہر مٶخر ہوتا ہے جسکا مطالبہ بعد موت یا طلاق ہوگا۔مرد کواپنے تمام مصارف میں کبھی خیال نہیں آتا کہ مجھ پر دین ہے ایسا مہر مانع وجوب زکوة نہیں ہوتا اگر مالک نصاب ہے تو اس پر زکوة واجب ہوگی۔ملخصا ۔(فتاوی رضویہ۔ج ٤۔ص ٤١٧۔)

مسٸلہ 👈 نابالغ لڑکیوں کا جو زیور بنایا گیا اگر ابھی انھیں مالک نہ کیا گیا بلکہ اپنی ہی ملک پر رکھا اور ان کے پہنے کے صرف میں آتا ہے اگرچہ نیت یہ ہو کہ بیاہ ہوۓ پر ان کے جہیز میں دے دینگے جب تو وہ زیور ماں باپ جس نے بنایا ہے اسی کی ملک ہے۔اگر تنہا یا اس کےاور مال سے مل کر قدرنصاب ہے اسی مالک پر اس کی زکوة ہے۔ اور اگر نابالغ لڑکیوں کی ملک کردیا گیا تواسکی زکات کسی پر واجب نہیں۔ماں باپ پر یوں نہیں کہ ان کی ملک نہیں اور لڑکیوں پر یوں نہیں کہ وہ نابالغہ ہیں ۔اھ۔ ( فتاوی رضویہ۔ج ٤۔ص ٤١٩۔)

مسٸلہ 👈 ۔زکاة اعلان کے ساتھ دینا بہتر اور خفیہ دینا بھی بے تکلف رواہے۔اور اگر کوٸ صاحب عزت حاجت مندہوکہ اعلانیہ نہ لےگا یا اس میں سبکی سمجھے گا تو اسے خفیہ بھی دینا بہتر ہے۔اھ۔(فتاوی رضویہ ج۔٤۔ص ٤٢٦۔)

مسٸلہ 👈۔جو روپیہ قرض میں پھیلا ہے اسکی بھی زکوة لازم ہے مگر جب بقدر نصاب یا خمس نصاب وصول ہو اس وقت اداواجب ہوگی۔جتنے برس گزرے ہوں سب کا حساب لگا کر۔اھ
(۔فتاوی رضویہ ج ٤ ص٤٣٢۔)

مسٸلہ 👈معجل مہر سے جب بقدر خمس نصاب ہو اس وقت عورت پر زکوة واجب الادا ہوگی اور پہلے دیتی رہے تو بہتر ہے اوریہ مہر جو عام طور پر بلا تعین وقت ادا باندھا جاتا ہے جس کا مطالبہ عورت قبل موت وطلاق نہیں کر سکتی اس پر زکوة کی صلاحیت بعد وصول ہوگی۔اھ۔ (فتاوی رضویہ۔ج ٤۔ص٤٣٣۔)واللہ تعالی اعلم۔