WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

*ماہ رمضان میں عورتوں کےمخصوص مسائل===قسط دوم-منجانب-شرعی عدالت دارالفکر بہراٸچ۔از-احمدرضا قادری۔منظری ۔استاذ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ۔۔۔یکم۔رمضان المبارک ١٤٤٢ھ

۔=== 👈حیض و نفاس کے دنوں میں عورت کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے‘البتہ ان روزوں کی قضا فرض ہے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔)

===👈 اگر کسی عورت کو روزہ کے دورانmenses (حیض) شروع ہوجائے تو اس کا روزہ ختم ہوجاتا ہے اور اس کی قضا اس پر لازم ہے۔(بہارے شریعت۔ص ١١٠۔)

=== 👈حاملہ عورت کو روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی یا اپنے بچے کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے ‘لیکن بعد میں ان روزوں کی قضا لازم ہےاھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١٠٩۔)

===…👈 اسی طرح اگردودھ پلانے والی عورت کا روزہ رکھنے کی وجہ سے دودھ کم ہوجاتا ہے اور بچے کا پیٹ نہیں بھرتا تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے‘لیکن بعد میں قضا لازم ہے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥ ص ١٠٩۔)

===👈… اگر عورت مندرجہ بالاکسی عذر کی بنا پرروزہ نہیں رکھتی تب بھی اُس کے لیے مستحب ہے کہ وہ روزہ دار کی طرح رہے اور کسی کے سامنے کھانے پینے سے پرہیز کرے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١١٠۔)

===👈 اگر عورت کو سالن چکھنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایسا کرسکتی ہے، لیکن ایسا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر جائز ہے اور بغیر کسی مجبوری کے ایسا کرنا مکروہ ہے، نیز صرف سالن چکھ سکتی ہے اگر سالن یا اس کا ذائقہ حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔اھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥ ص ١٠٤۔)

===👈… اسی طرح مجبوری میں عورت اپنے بچے کو کھانے کی کوئی چیز چبا کر دے سکتی ہے‘لیکن اگر اس نے اتنا چبایا کہ اس چیز کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١٠٥۔)

===👈۔عورت اگر نفل روزہ رکھنا چاہتی ہے تو وہ اپنے خاوند سے اجازت لے اور اگر وہ بغیر اجازت کے نفل روزہ رکھتی ہے اور اس کاخاوند اعتراض کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس نفلی روزہ کو توڑ دے اور بعد میں اس کی اجازت سے قضا کرے،رمضان کے روزے چوں کہ فرض ہیں، اس لیے ان میں اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔(درمختار۔ج دوم ص ١٦٧۔بہارےشریعت۔حصہ پنجم ص ١١٢۔)

واللہ تعالی اعلم۔

رمضان المبارک کے مسائل:قسط اول-منجانب۔شرعی عدالت دارالفکر گروپ۔بہراٸچ شریف۔یو۔پی۔از :احمدرضا قادری۔منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر ۔درگاہ روڈ بہراٸچ شریف۔

مسئلہ: افطارکرنے کی دعا افطارکے بعدپڑھنا سنت ہے قبل افطار نہیں۔(فتاوی رضویہ ج۴ص۶۵۱)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں انار اور بانس کی لکڑی کے علاوہ ہر کڑوی لکڑی کی ہی مسواک بہتر ہے۔(ردالمحتار ج ۱ص۲۳۵)

مسئلہ: گلوز کا ڈراپ یا طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہ ہو گا اگر چہ بھوک پیاس ختم ہو جائے،ہاں اگر بھوک پیاس سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو مکروہ ہے۔(مستفاداز فتاوی ہندیہ ج۱ص۲۰۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔(مستفادازشامی ج۲ص۳۹۵)

مسئلہ: بغیرسحری کے روزہ رکھنا جائز ہے۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۳)

مسئلہ: روزه کی حالت میں عطر لگانا،پھول سونگھنا،سرمہ لگانا، تیل لگانا،بال ترشوانا،موئے زیر ناف مونڈنا،بام لگانا،ویسلین یاکریم لگانا،تیل کی مالش کرنا یہ سب جائز ہیں ان سب چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(فتاوی مرکزی دارالافتاء بریلی شریف ص۳۵۸)

مسئلہ: سورج ڈوبنے کے بعدبلا تاخیر فوراً افطار کریں،اذان کا انتظار نہ کریں۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۴)

مسئلہ: ماہ رمضان کی راتوں میں بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔(قرآن مجیدپ۲ رکوع۷)

مسئلہ: روزہ رکھنے کے لئے حائضہ عورت اگر ٹیبلیٹ کا استعمال کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے البتہ اس کا یہ فعل جائز نہیں کہ بہت ساری بیماریوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔(مستفاد از ہدایہ اولین ص۶۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(بہار شریعت وغیرہ)

مسئلہ: عید ،بقرعیداورایام تشریق۱۱،۱۲،۱۳، ذی الحجہ کو روزہ رکھناحرام ہے۔(بہار شریعت ح۵ص۱۴۲)

مسئلہ: جو شخص روزہ نہ رکھے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔(شامی ج۲ص۷۶)

مسئلہ: ادائے رمضان کا روزہ اور نذر معین ونفلی روزہ کی نیت رات سے کرناضروری نہیں اگر ضحوۂ کبری یعنی دوپہر سے پہلے نیت کرلی تب بھی یہ روزے ہو جائیں گے اور ان تینوں روزوں کے علاوہ قضائے رمضان نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یارات میں کرنا ضروری ہے ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا(عالمگیری ج۱ص۱۳۸)

مسئلہ: حالت جنابت میں روزہ درست ہے۔اس سے روزے میں کوئی نقص وخلل نہیں آئے گا کہ طہارت باجماع ائمہ اربعہ شرط صوم نہیں ہے البتہ وہ شخص نمازیں قصدا چھوڑنے کے سبب اشد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔(فتاوی رضویہ ج۴ ص۶۱۵)

واللہ تعالی اعلم۔

اسلام کا مقدس مہینہ ہوا ہم سب پر سایہ فگن ۔۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریلیز {مہراج گنج}آج ٢ \اپریل سن ٢٠٢٢ء ۔مطابق ٢٩ \شعبان المعظم سن١٤٤٣ ھ کی شام افق غربی پر ہلال رمضا ن کی رویت ہوتے ہی اسلام کا مقدس مہینہ ہم سب پر سایہ فگن ہوگیا۔مسرت وشادمانی کے نور سے ہر دل منور ہوگیا ۔لذت سجود کے پاکیزہ خیال سے جبین نیاز بارگاہ الہی میں خم ہونے لگے،بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنے میں تقوی شعاری،وپرہیز گاری کا ربانی وعدہ ذہن وفکر کے دروازے پر دستک دینے لگا۔یکا یک انتییس شعبان شریف کی وہ حدیث پاک زبا ں زد ہونے لگی جسے آقاۓ نعمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابئہ کرام کی محفل میں بیان فرمائ اور رمضا ن شریف اور روزے کی مکمل فضیلت واہمیت جاگزین قلب وجگر فرمادی۔راوئ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتیسویں شعبان شریف کو فرمایا ،اے لوگو تم پر ایک ایساعظیم،بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہاہے ،جس میں ایک ایسی مبارک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اللہ تعالی نے اس ماہ کے روزے فرض ،اور رات کو تراویح کی نماز نفل{سنت}قرار دیۓ ۔جو اس ماہ میں کوئ نفل عبادت کرے تو وہ ایسی ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کۓ۔اور جس نے اس ماہ میں فرض ادا کۓ تو وہ دوسرے ماہ کے ستر فرض کے برابر ہے۔ یہ{رمضان} ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق{روزی} بڑھا دیا جاتاہے، یہ صبر کا مہینہ ہے،اور صبر کا ثواب جنت ہے،صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے ۔اور صبر کرنے والوں کو بے حساب دیا جاۓگا۔جو اس ماہ میں کسی روزے دار کو افطار کراۓتو یہ افطار کرانا ان کےلۓ گناہوں سےبخشش کاسامان اور جہنم سے آزادی کا پروانہ ہوجاۓ گا۔مگر روزہ دار کے ثواب میں کوئ کمی نہ کی جاۓگی۔اور افطار کرانے والے کو اس کے علاوہ ثواب دیا جاۓگا۔صحابئہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم میں سے ہر شخص اس کی استطاعت{طاقت} نہیں رکھتا ۔بوجہ غربت کسی کو افطار نہیں کراسکتا تو کیاوہ اس ثواب سے محروم رہے گا ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالی اسے بھی یہ ثواب دےگا جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ ۔یا ۔ایک چھوہارہ ۔یا۔پانی سےہی افطار کرادے۔جو اس ماہ میں کسی روزہ دار کو شکم سیر {پیٹ بھر}افطار کراۓ تواللہ تبارک و تعالی اسے میرے حوض سے ایک ایسا شربت پلاۓگا کہ کبھی پیاسانہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاۓگا۔اس ماہ کا اول عشرہ رحمت ،درمیانی عشرہ مغفرت{بخشش}اورآخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔جو اس ماہ رمضان میں کسی ماتحت ملاز م پر کام میں تخفیف{نرمی}کرےگا تواللہ اسے بخش دےگااور اسے جہنم سے آزاد کردے گا۔رمضان کی فضیلت واہمیت سے متعلق مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب اس ماہ مبار ک کا احترام بجا لاکر رضاۓ الہی کے طلب گار بنیں ۔اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں۔

رمضان ریزولیوشن–ڈاکٹر محمد رضا المصطفی

1۔ جس طرح گھروں میں مہمانوں کی آمد سے قبل صفائی ستھرائی کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح رمضان المبارک جو اللہ تعالی کا خاص الخاص مہمان مہینہ ہے، اس کی آمد سے پہلے اپنے دل و دماغ کو صاف ستھرا کرلیں ۔دوسرے مسلمانوں کی کدورت، بغض، کینہ اور حسد سے اپنے دل کو صاف کرلیں۔اللہ تعالی سے عفو وبخشش حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے قصور معاف کر دیں ،ان کی خطاؤں کو بخش دیں ۔اپنے دل کو اجلا، صاف ستھرا کرلیں ،تاکہ اس میں رمضان کا نور داخل ہو سکے۔ 2۔رمضان المبارک کی چیک لسٹ بنالیں ۔روزانہ کی بنیادوں پر اس کو چیک کرتے رہیں، کہ آج نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی ،؟تلاوت قرآن کا مقررہ ہدف پورا کیا،؟درود پاک مقرر کردہ پڑھا ؟اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ و خیرات کیا۔؟ مسنون دعائیں مانگیں؟ اپنی زبان نظر اور دیگر اعضاء کی حفاظت کی؟ وغیرہ وغیرہ۔اپنی شخصیت کا ناقدانہ جائزہ لینے سے آپ کے اعمال اور کردار میں سنوار اور نکھار پیدا ہوگا۔3۔ رمضان المبارک کی ہر گھڑی ہر ساعت ہی رحمت برکت سے مالا مال ہے مگر دو اوقات کی خصوصی طور پر حفاظت کریں۔ سحری اور افطاری ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کے لمحات ہوتے ہیں ۔رحمتوں کی برکھا مسلسل برس رہی ہوتی ہے ،ان اوقات کو ٹی وی یا موبائل فون کی سکرینوں کے سامنے ضائع نہ کریں۔بد قسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت ڈیوائسز اور موبائل فون پر بابرکت اور مقدس گھڑیاں ضائع کر دیتی ہیں ۔ان اوقات میں اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں مناجات، دعائیں مانگ کر دنیا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کریں ۔درود شریف کی کثرت کریں۔استغفار ،تسبحیات زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔4. بوقت سحر و افطار آسمانوں کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالی کی رحمت بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے وقت افطار مزدور کو اجرت ملنے کا وقت ہوتا ہے دعاؤں کی قبولیت کی گھڑیوں کو ہم کھانے پینے میں گزار دیتے ہیں، نہ دعاؤں کا ہوش نہ اللہ سے مانگنے کی طلب سارا سال کھاتے پیتے رہتے ہیں کوشش کریں جی بھر کے دعائیں مانگیں۔گھروں میں خواتین اسلام بھی اس وقت صفائی ستھرائی،برتنوں کی دھلائی کو مؤخر کر کے دعاؤں اور مناجات میں مصروف ہو جائیں ۔یہ بابرکت اوقات گزار کر بعد میں اپنے امور خانہ داری سرانجام دے لیں۔5. اپنی دعاؤں کی لسٹ بنا لیں . اپنے لیے اپنے والدین کے لیے ،بیوی بچوں کے لئے، دوست احباب عزیر و اقارب دنیا اور آخرت کے لئے جی بھر کے دعائیں مانگیں آپ کو جو ضرورت تمنا اور حاجت ہے اپنے رب سے کیا شرم؟ جو جو مسئلہ ہے جی بھر کے مانگیں اللہ کی بارگاہ میں آنسو بہائیں ،اپنے مالک و مولیٰ سے چھوٹی سے چھوٹی حاجت اور بڑے سے بڑا سوال کریں ۔کوئی شے نا ممکن ھے تو ھمارے لحاظ سے ہے اللہ تعالی کے لیے کوئی شے ناممکن نہیں۔اور نہ ہی معاذ اللہ اس پر کوئی اور خدا مسلط ہے جو اس کو دینے سے روک دے گا ۔اللہ تبارک و تعالی ایسا کریم ہے، جس سے نہ مانگو تو ناراض ہو جاتا ہے۔6۔مسلمانوں کے اکثریت رمضان المبارک کو کھانے کھابے اور چٹ پٹی، مرغن غذاؤں کا مہینہ بنا کے رکھتی ہے ۔روزہ رکھتے ہیں تو فورا افطاری کو یاد کرکے اس کے کھانے ،لذیذ ڈشوں کی دھن ذہن پر سوار ہوتی ہے، اور افطاری کے بعد سحری کا پروگرام ذہن میں سمایا ہوتا ہے ،کوشش کریں کہ رمضان المبارک میں سادہ غذا کھائیں۔تاکہ نفس کی کی امارگی کا زور ٹوٹے ۔ کھانے کا معیار اور مقدار کم کریں۔ ۔اپنی عبادت کا معیار اور اس کی مقدار کو بڑھائیں ۔7. صوفیہ صافیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک بندہ زیادہ نفل اور دیگر اورادووظائف نہیں پڑھ سکتا ،تو اس کو چاہیے کہ رمضان المبارک میں زیادہ صدقہ و خیرات کرے ۔اپنے آپ کو مشقت اور جبر میں ڈال کر اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرے۔ زیادہ سخاوت کرنے کی کوشش کرے اس سے اس کی روح کو تزکیہ و طہارت کی وہ منازل نصیب ہوں گی جو بڑی بڑی عبادات کا ثمر ہوتی ہیں ۔ 8. جس طرح کمرے کا اے سی چلا ہوا ہو، ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک اسی وقت محسوس ہوتی ہے ،جب تمام کھڑکیاں ،دروازے بند ہو ں، اگر آپ روزے کی لذت اور عبادت کا سرور اپنی روح میں محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اپنی زبان ، نظر ، اور کانوں کی حفاظت کریں ۔سوشل میڈیا کو بالکل محدود یا استعمال ہی مت کریں۔غیر ضروری اور گناہ والے گروپوں سے ریموو ہو جائیں ۔ایسے پیج ان لائک کر دیں جس سے بندہ گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ غیر محرم عورتوں کو دیکھنا عبادت الٰہی کے چراغ کو بجھا دیتا ہے۔اپنے آپ کو جتنا پابند کریں گے انشاء اللہ تعالی عبادت کی اتنی ہی لذت اور برکت محسوس کریں گے۔9. ہمارے گھروں میں ایک بہت برا روا ج ہے کہ ،مہمان کے جانے کے بعد اس کی غیبت اور بدخوئی کرتے ہیں۔اس کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر تبصرے۔ ہم مہمان نوازی اور افطار پارٹی بھی کرتے ہیں، لیکن غیبت اور بدگوئی کر کے اپنی نیکی ضائع بھی کر دیتے ہیں ۔کوشش کریں کہ کسی مسلمان کی بھی غیبت نہ ہو اور بالخصوص مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ان پر تبصرہ نہ نہ کیا جائے اگر ان کا ذکر کرنا ہے تو ان کی خوبیاں بیان کی جائیں ،ان کے عیبوں کی پردہ پوشی کی جائے، شاید اللہ تبارک و تعالی میدان محشر میں ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دے۔9. سحری اور افطاری میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں ان کو مسنون دعائیں سکھائیں ،دعائیں مانگنا سکھائیں، نماز کیلئے مسجد میں لے جائیں ،کھانے کے دسترخوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں ،حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات قرآنی واقعات سنائیں ۔انشاء اللہ تعالی یہ عمل بڑا بابرکت ثابت ہوگا۔10۔مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے، تسبیحات پڑھنے اور قرآن کریم کے زیادہ سے زیادہ ختم پڑھنے میں مشغول ہوتی ہے۔قرآن کریم زیادہ پڑھیں لیکن حسن تلفظ، ترتیل اور تفکر و تدبر کی رعایت کے ساتھ ،نوافل اور ذکر و اذکار بھی دلجمعی اور ذوق و شوق کے ساتھ کریں۔اللہ تبارک و تعالی کو ہماری گنتی کی حاجت نہیں ۔اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں اخلاص و للہیت، نیت کی پاکیزگی اور ذوق شوق اور طلب حق دیکھی جاتی ہے۔11.قرآن پاک کو دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے ایک طریقہ بطور ذکر کے ۔جس میں قرآن کریم کو اللہ تعالی کا ذکر شمار کرتے ہوئے پڑھتے جائیں ۔اس تصور سے پڑھنا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو میرے آقا مصطفی کریم علیہ الصلاۃ و السلام کی زبان اقدس سے ادا ہوئے ہیں۔یہ تصور روح کو لطف دے گا ۔دوسرا طریقہ قرآن کریم کو غور و فکر اور تدبر سے پڑھنا یہ چیز بھی ایمان میں حلاوت و اضافے کا سبب بنتی ہے۔کوشش کریں دونوں طریقوں سے تلاوت قرآن مجید ہو۔اگر جاب یا نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ زیادہ تلاوت ممکن نہیں تو کوشش کریں تلاوت قرآن مجید سن لیں اپنی نوکری جاب پر جاتے ہوئے ہینڈ فری لگا کر قرآن مجید کے ترجمے کو سنتے جائیں اور اس کی برکتوں سے اپنا دامن سمیٹتے جائیں۔12. برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک عجب روش ہے حج اور عمرہ پر جانے کا بڑا ذوق و شوق اور جوش و جذبہ ہوتا ہے بھرپور تیاری کرتے ہیں جب مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں تو ایک عمرہ کے بعد وہاں پر سیروتفریح اور کھانے کھابے ،یاروں دوستوں کے محافل شروع ہو جاتی ہیں سارا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے یہی حال رمضان شریف کا ہوتا ہے لوگ شروع میں بڑی تیاری کرتے ہیں لیکن پہلے دو تین روزے کے رکھنے بعد سارا جوش و جذبہ ختم ہو جاتا ہے، اور سابقہ روٹین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ رمضان المبارک پاک عادات و کردار میں انقلابی تبدیلی لانے کا مہینہ ہے ۔اللہ تعالی کرے کہ ہماری بد عادتیں، نیک خصلتوں میں تبدیل ہو جائیں، اور ہمیں رمضان المبارک کی حقیقی قدر اور برکت نصیب ہو جائے۔13. رمضان المبارک کا آخری عشرہ جو خصوصی انعام و اکرام اور جہنم سے ازادی کا عشرہ ہے یہ عشرہ بھی بازاروں کی شاپنگ کی نذر ہو جاتا ہے ۔کوشش فرمایا کریں کہ رمضان سے پہلے ہی شاپنگ کرلی جائے ،رمضان المبارک میں بازار کم سے کم جایا جائے تاکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں زیادہ سے زیادہ سمیٹی جا سکیں ۔14۔رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کے پورے سال پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جس کا رمضان نیکی ،تقو ی اور باطنی طہارت میں گزرتا ہے، اس کے سال کے باقی گیارہ ماہ بھی خیر اور نیکی کے کاموں میں گزرتے ہیں ۔اور جو بدنصیب اس ماہ مکرم کوگناہوں اور غفلت میں گزارتا ہے سال کے باقی ایام میں بھی عبادت الہی سے محروم رہتا ہے ۔15. غریب دکاندار سے مہنگا سودا خرید لینا،اپنے ماتحت ملازم کو اس کی تنخواہ ذیادہ دے دینا ۔سفید پوش مسلمان کو عید کے لئے جوتے کپڑے لینا ،کسی کا قرض ادا کر دینا کسی کی دلجوئی کر دینا بلاشبہ اعلی درجہ کا صدقہ ہے ۔اپنے ملازمین سے حسن سلوک کرنا اور ان کے کام میں تخفیف کر دینا۔مغفرت دلانے کے اسباب میں سے ہے۔اللہ تعالی ہم کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک مہمان نہیں مہمان ہم ہیں کیونکہ رمضان المبارک نے قیامت تک آتے رہنا ہے مگر ہم کو نہیں پتا کہ اگلے سال ہم زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ بے شمار ایسے لوگ تھے جو پچھلے رمضان میں ہمارے ساتھ تھے، اس سال ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لئے اس رمضان کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر اپنے رب کو راضی کرنے کی انتہائی حد تک کوشش کریں ۔ اللہ تبارک وتعالی ان باتوں پر مجھے اور تمام پڑھنے والوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔یہ ایک حقیر سی کوشش کی گئی ہے رمضان المبارک کو مؤثر اور زیادہ نفع بخش بنانے کی ۔اللہ تعالی میری اس تحریر کو میری آخرت کی نجات کا سبب بنائے ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات۔02-04-2022۔ہفتہ 00923444650892واٹس اپ نمبر

ماہ رمضان خیروبرکت اور نیکیوں ورحمتوں کاموسم بہار– از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی–ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

بلا شبہ ماہ رمضان المبارک اہل ایمان کے لیے بڑاہی بابرکت اور رحمتوں بھرا مہینہ ہے۔یہ ماہ عظیم نیکیوں کا موسم اور خیروبرکت سمیٹنے کا مہینہ ہے، اس ماہ معظم میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ نیکیوں کے ثواب میں اور دنوں کی بہ نسبت اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے پاپی بھی اس موسمِ رحمت میں خدا کی طرف رجوع کر کے اپنے دامنِ مراد کو بھرتے نظر آتے ہیں۔ نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، مساجد کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک پڑھنے اور سننے کا ماحول بن جاتا ہے۔ سروں پر ٹوپیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ صدقہ و خیرات کا بھی دور دورہ ہو جاتا ہے۔ اپنے غریب و محتاج بھائیوں کے ساتھ غم گساری کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اہلِ ثروت لوگ زکوٰۃ و صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتے ہیں۔اس ماہ مبارک کی عظمت و بزرگی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔اسی ماہ میں شبِ قدر ہے، جس کا قیام (عبادت و ریاضت) ہزار مہینوں کے قیام سے بہتر ہے۔ ہر ماہ میں عبادت کے لئے وقت مقرر ہے مگر اس ماہ میں روزہ دار کا لمحہ لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ اس ماہ میں نیکیوں کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس ماہ میں اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور بندوں کی جائز دعائیں بابِ اجابت تک بالکل آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اسی ماہ کی ایک تاریخ کو نازل ہوئے۔ توریت شریف اسی ماہ میں نازل ہوئی۔ انجیل شریف بھی اسی ماہ میں نازل ہوئی۔ فتح مکہ اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو ہوئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے ابتدا میں رحمت ہے،درمیان میں مغفرت ہے اور آخر میں آگ(جہنم)سے نجات ہے۔جوشخص اس ماہ مبارک میں اپنے غلام یا مزدور کے روزہ دار ہونے کے باعث اس کے کام میں تخفیف کرےگا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائےگا اور اسے عذاب سے چھٹکارا عطافرمائےگا (مفہوم حدیث) ۔حدیث مبارک میں ہے’’رمضان اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک ومسعود مہینے سے ربّ ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جداہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں۔ پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو( جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے)اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرے (نیک) بندوں کے لیے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پا ئیں گے‘‘۔پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے،قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم!کیاوہ لیلۃ القدر ہے؟ارشاد فرمایا:نہیں،کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کام سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دی جاتی ہے‘‘(شعب الایمان ج/۳ ص/۳۰۳ حدیث:۳۶۰۳)۔رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت وریاضت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی بھی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔مگرافسوس صدافسوس! اس موسم رحمت میں بھی کچھ لوگ ہمیں ایسے ضرور نظر آتے ہیں جو ماہ رمضان کی حرمت کوتارتار کرتے نظر آتے ہیں،نیکیوں کے اس موسم بہاراں میں بھی ان کے لبوں پر دینی وایمانی باتوں اور قرآن کی تلاوت کے بجائے فلمی نغمے ہوتے ہیں، رات بسر کرنے کے لیے وہ موبائل کا بیجا استعمال کرتے نظرآتے ہیں۔دن میں دنیابھر کے اطاعت گزار بندے حالت روزہ سے رہتے ہیں مگر کچھ شقی القلب لوگ بیڑی، سگریٹ کی کَش، چائے کی چْسکی اور بیماری کا بہانہ کرکے دن میں اعلانیہ کھاتے پیتے نظرآتے ہیں،گویاوہ پورا دن اللہ کے فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔نیکیوں کی امنگوں کایہ موسم اس لیے نہیں کہ بدمست ہاتھیوں کی طرح ہر طرف بہکتے پھریں۔اسی موسم جنوں انگیز میں تاریخ کے اوراق پر ایسے نوجوان ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے جغرافیہ کے نقشے بدل دیئے۔عین کالی گھٹاؤں میں میخانوں کی بنیادیں الٹ دیں اور رات کی تنہائیوں میں نغمہائے طرب سے نہیں تلاوت قرآن اور ذکرمصطفیٰ کے زمزموں سے اپنے جگرکی آگ بجھائی ہے۔ہوش کے ناخن لینا چاہئے ہمارے ان مسلم بھائیوں کو جو ایک تو روزہ نہیں رکھتے دوسرے چوری اور سینہ زوری کا یہ عالَم کہ ہوٹلوں پر اعلانیہ کھا پی کراور روزہ داروں کے سامنے ہی بیڑی وسگریٹ کے کش لگاتے،پان چباتے ہیں بلکہ بعض تو اتنے بے مروّت،بے باک اور ڈھیٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں کہ وہ سرعام پانی پیتے اور کھانا کھاتے بھی نہیں شرماتے ہیں۔اس طرح وہ روزہ کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ایسے ناہنجار لوگوں کے لیے فقہی کتابوں میں سخت سزا کا حکم ہے۔ہم سبھی لوگوں کواپنے اپنے اعمال وافعال،سیرت وکردار اور ایمان کا محاسبہ کرناچاہئے۔دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ:ہم سبھی مسلمانوں کو ماہ رمضان المبارک کا احترام کرنےکے ساتھ اس ماہ کی رحمتوں،برکتوں اور فیضان سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے – آمین

تواضع و انکساری احادیث کی روشنی میں!از:سید نور اللہ شاہ بخاری-

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اورتعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیونکہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔ تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔ تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :حضور اکرم ﷺدین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺکی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺنے فرمایا :تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چنانچہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا ۔ ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺمسجدِنبوی میں تشریف لے گئے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو ، یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺحد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ! تواضع بلندی کا ذریعہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مالدار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)تواضع کی بنیاد:حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو ،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کےبغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔تواضع کی توفیق:حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لئے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)تواضع و انکساری کا اجر:اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم ) اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کےلئے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ ) حضور نبی کریم کی شان ِتواضع :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺاپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺجب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے، اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂاقدس کی صفائی بھی فرماتے ،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶) حضور یہ سارے کام خود اس لئے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔

کسبِ حلال کے لیے جدّ و جہد کرنا اور حرام سے بچنا : احادیث کی روشنی میں–از:سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

مذہب اسلام نے جس طرح ظاہری آرائشِ جسم میں طہارت کی ترغیب دی ہے، بالکل اسی طرح بدن کی نشو و نما اور پرورش میں بھی طہارت کی ترغیب دلائی ہے۔ شریعت مطہرہ کا یہ حکم ہے کہ جب اللہ کا بندہ ،اللہ کے حضور حاضر ہو اور اپنی بندگی کا فریضہ انجام دے رہا ہو، تو اس وقت جس طرح اس کا ظاہرِ بدن ، اسکے کپڑےاور مقامِ بندگی پاک ہونا ضروری ہے اسی طرح بندے کا وہ بدن جس پر پاک کپڑے پہنے جاتے ہیں اور جو جسم اللہ کی بارگاہ میں جُھک کر عبد ہونے کا اعلان کرنے جا رہاہے۔ اس کا رزق حلال سے پلاہوا ہونابھی ضروری ہے ۔ اس عنوان کے تحت اگر دیکھا جائے تو کتب احادیث بھری پڑی ہیں (جن کے اندر رزق حلال کمانے کی ترغیب دلائی گئی ہےاور رزق حرام سے بچنے کی ترھیب بھی ہے) اُن میں سے چند احادیث مبارکہ ہدیۂ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں!٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ اللہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًاوَّاِنَّ اللہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ“۔ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کو قبول نہیں فرماتاہے اور بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو وہی حکم دیاہے جو حکم رسولوں کو دیاتھا۔ کہ ارشاد فرمایا:﴿یٰاَیُّھَاالرَّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ﴾(المومنون:۵۱)”اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤاور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتاہوں“(کنزالایمان)۔ اور فرمایا: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾(بقرہ: ۱۷۲) ترجمہ: ”اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی سُتھری چیزیںاور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔“ (کنز الایمان)پھر ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفرکرکے آیا ہو، اس کے بال غبار آلودہوں”یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ، یَارَبِّ “ (پھر اسی پریشانی کی حالت میں)اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر عرض کرےاے میرے رب! (لیکن) اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے (حرام کھاتا پیتاہے)اور اس کا لباس حرام ( کے پیسوں کا) ہے، ”وَغُذِیَ بِا الْحَرَامِ“اور اس کا جسم حرام کی غذا سے پلا بڑھا ہے۔ ”فَاَنِّی یُسْتَجَابُ لِذَالِکَ؟“ تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔(مسلم، باب قبول الصَّدقۃ من الکسب الطیب، حدیث:۲۲۳۵/۱۰۱۵،ص:۴۶۱،مطبوعہ دار الفکر بیروت) مذکورہ بالا حدیث شریف میں رزق حلال کی ترغیب، حرام کی روزی سے بچنے کی ترھیب کے طور پر جس پریشان حال مسافر شخص کا مثالی ذکر کیا گیا ہے اس کے پاس بظاہر قبولیتِ دعا کے کافی اسباب مہیا ہیں ، جیسے : طویل سفر کا مسافر ہونا، پریشان حال ہونااور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا ئے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ پروردگار کو پکارنا۔ پھر بھی اس کی اجابت دعا پر سوالیہ نشان لگ رہاہے ، وجہ صرف ایک ہے ، اس بندے نے حلال رزق کی تلاش نہیں کی اور خود کو حرام سے بچایا نہیں۔٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: ﴿یٰاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرۃ:۱۶۸) اےلوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔(کنزالایمان) تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مستجاب الدعا (جس کی دعائیں قبول کی جائیں) بنادے۔ تو اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” یَا سَعْدُ اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَۃِ“ اے سعد اپنا کھانا حلال بناؤ مقبول الدعا ہوجاؤگے۔ ” وَ الَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ “اس ذات با برکات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد(ﷺ) کی جان ہے”اِنَّ الْعَبْدَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَۃَ الْحَرامَ فِی جَوْفِہٖ مَا یُتَقَبَّلُ مِنْہُ عَمَلٌ اَرَبَعِیْنَ یَوْمًا“ بندہ جب ایک حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہے، تو چالیس دن تک اس کا کوئی (نیک) عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے”وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہٗ مِنْ سُحْتٍ فَا النَّارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ اور جس بندے کا گوشت حرام روزی سے بنا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔(المعجم الاسط ۶/حدیث:۶۴۹۵مطبوعہ دارالحرمین، قاھرہ ) معلم کائنات ﷺ کے تعلیمی انداز اور متعلمین کے ذوق علم پر بار بار بعجز و نیاز قربان ہونے کو جی چاہتاہے۔ جب مجلس پاک میں ایسی آیت کریمہ پڑھی گئی جس میں جملہ انسانیت کو اللہ کا کلام رزق حلال کھانے کی تاکید فرما رہاہے عین اسی وقت حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا کھڑے ہوکر مستجاب الدعوات ہونے کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کروانے کی عرضی پیش کرنا۔ظاہر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ خود اپنے لیے عرض کررہے ہیں مگر حقیقت میں معلم کائنات سے مذکور ہ آیت کریمہ کی تفسیربھی کروادی اور ساتھ میں رزق حلال کی اہمیت اور حرام کے نقصانات اور اس سے بچنے کے فوائد پوچھ کر ہمارے لیے بے شمار اسباق مہیا کروادیے۔حدیث شریف کے اس جز کو جس میں آقا کریم ﷺ قسم اُٹھا کر ارشاد فرماتے ہیں ” بندہ جب حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتاہے“پڑھ کر گزر جانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں بھی یہ عہد واثق کرلینی چاہیے کہ ’ان شاء اللہ‘اب حرام کےکبھی قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اور پھر حدیث شریف کا اگلا جز تو ہمیں نہایت ہی جھنجھوڑ کر تنبیہ کر رہاہے کہ اگر اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے تو حرام کی روزی سے دور رہنا ہوگا۔٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ“ حلال روزی تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۵، حدیث:۲، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَّایُبَالِی الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْہُ اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِّنَ الْحَرَامِ“ترجمہ:لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ جو(مال) اس نے حاصل کیا ہے(کمایاہے) وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے(مشکوٰۃ، ج:۱،کتاب البیوع،باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الاول، ص:۲۴۶، حدیث:۲۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاھور )غیب داں نبی ﷺ کا مذکورہ بالا فرمان جو کہ پیشین گوئی کی شکل میں بالکل صحیح ثابت ہو چکا ہے ۔ موجودہ زمانے کے لوگ اور تو چھوڑو، یہ بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ جس مال سے ہم حج جیسا اہم فریضۂ اسلام ادا کرنے کےلیے جارہے ہیں آیا وہ مال ہم نے حلال ذریعوں سے کمایا ہے یا حرام ذریعوں سے؟۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے ہیں’حدیث شریف میں ارشاد ہوا: ”جومالِ حرام لے کر حج کو جاتاہے جب وہ لبیک کہتاہے فرشتہ جواب دیتاہے لَالَبَیْکَ وَلَا سَعْدَیکَ وَ حَجُّکَ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکَ حَتّٰی تَرُدَّ مَا فِیْ یَدَیْکَ نہ تیری حاضری قبول، نہ تیری خدمت قبول، اور تیرا حج تیرے مُنہ پر مردود، جب تک تو یہ حرام مال جو تیرے ہاتھ میں ہے واپس نہ دے“(فتاویٰ رضویہ ج:دہمص:۷۱۶ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن نظامیہ ،لاہور)۔٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ وَ کُلُّ لَحَّمٍ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتْ نَارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ترجمہ: وہ گوشت جس نے حرام (روزی) سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ہر وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ہے، جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ قریب ہے۔ (مشکوٰۃ، ج: ۱،کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثانی،ص:۲۴۷حدیث:۲۶۴۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاھور)٭حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ا للہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ“ ترجمہ: حلال رزق کا ذریعہ تلاش کرنا فرض کے بعد فرض ہے۔ مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال ، الفصل الثالث،ص۲۴۸، حدیث:۲۶۵۸، مطبوعہ مکتبہ (رحمانیہ ،لاھور نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کے بعد رزق حلال تلاش کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ بنیادی فریضہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، چونکہ جب بندے کے پیٹ میں رزق حلال ہوگا تبھی جمیع عبادات قبول ہوں گی۔٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ” لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِیَ بِا لْحَرَامِ“۔ ترجمہ: وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام روزی سے پلا ہے۔ (مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۸، حدیث:۲۶۶۴، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور )٭زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دودھ پیا اور اُسے پسند فرمایا۔ پلانے والے سےدریافت فرمایا کہ یہ دودھ تو نے کہاں سے حاصل کیا؟ اُس نے آپ کو بتایا کہ میں ایک تالاب پر گیا، جس کا نام اس نے لیا تو وہاں زکوٰۃ کے اُونٹ تھے جنہیں لوگ پانی پلارہے تھے۔ اُنھوں نے میرے لیے دودھ دوہا تو میں نے اپنے مشکیزے میں ڈال لیا، یہ وہی تھا۔ ’فَاَدْخَلَ عُمَر یَدَہٗ فَاسْتَقَاءَہ‘ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ مُنہ میں ڈالا اور اس دودھ کی قئےکردی (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص: ۹۱،حدیث:۲۷۸۶، مطبوعہ البشریٰ کراچی)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتےہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے”تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمٌ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّہٗ رَجُلٌ خَرَجَ ضَارِبًا فِیْ الْاَرْضِ یَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللہِ یَعُوْدُ بِہٖ اِلٰی عَیَالِہٖ“۔ اس دن وہ شخص عرش کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سایہ نہیں ہوگا، جوشخص اللہ کا فضل(رزق حلال) تلاش کرنے کے لیے زمین میں نکلتاہےپھر اسے حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آتاہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال،ص:۲۲۷ مطبوعہ: دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”لَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ،فَیَتَصَدَّقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکُ لَہٗ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکُہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلَّا کَانَ زَادُہٗ اِلَی النَّارِ اِنَّ اللہَ لَا یَمْحُو السَّیِّئَ بِالسَّیِّئِ وَلٰکِنْ یَمْحُو السَّیِّئَ بِالْحَسَنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ“ ترجمہ: اگر کوئی بندہ حرام مال کمائےپھر اس سے صدقہ کرے تو قبول نہیں کیا جائے گا، اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوگی، اور اگر وہ اس (مال ) کو ترکہ کی صورت میں (وارثوں کے لیے)چھوڑ جاتاہے تو بھی وہ اس کے لیے جہنم کا سبب بنے گا۔ (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۷، حدیث:۲۶۴۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے کہ حلال کمانا جہاد ہے اور تمہارا اسے اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ تجارت سے کمایا ہوا ایک درہم دوسرے حلال ذرائع سے حاصل کیے ہوئے دس درہموں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال، ص:۲۲۷ مطبوعہ دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَاتَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْاَلَ عَنْ اَربَعٍ، عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ؟ وَ عَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اَکْتَسَبَہٗ، وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَاذَا عَمِلَ فِیْہِ؟“۔ ترجمہ: قیامت کے دن بندے کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوجائے، عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں صرف کی؟ جوانی کے بارے میں کہ کیسے گزاری (نیکی میں یا بدی میں)؟ اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں کہ اس پر عمل کیا یا نہیں؟۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۰، مطبوعہ دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان)٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا حِلِّہٖ ، وَ اَنْفَقَہٗ فِیْ حَقِّہٖ اَثَابَہُ اللہُ عَلَیْہِ وَاَوْرَدَہٗ جَنَّتَہٗ“دنیا سرسبز و شاداب اور شیریں ہے، جس نے اس میں حلال ذریعہ سے مال کمایااور حق کے راستے میں خرچ کیا، تو اللہ اسے اس کا ثواب عطا فرمائے گا اور اسے جنت تک پہنچا دے گا، ”وَمَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا مِنْ غَیْرِ حَلِّہٖ، وَاَنْفَقَہٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ اَحَلَّہُ اللہُ دَارَ الْھَوَانِ“اور جس نے دنیا میں مال ناجائز طریقہ سے کمایااور اس کو ناحق طریقہ سے خرچ کیا ، توا للہ تعالیٰ اسے ذلت کی جگہ تک پہنچادے گا، ”وَ رُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِیْ مَالِ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ لَہٗ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے مال کو ہتیانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہوگی﴿کُلَّمَاِخَبَتْ زِدْنَاھُمْ سَعِیْرًا﴾(الاسراء:۹۷)ترجمہ: (وہ آگ) جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے(کنزالایمان)۔ الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۱، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر شب آواز دیتاہے کہ جو حرام کھاتاہے اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ سنت ۔(کیمیائے سعادت)٭عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شبہے کا ایک درہم جو اس کے مالک کو واپس کردوں وہ میرے نزدیک ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص حرام کھاتاہے اس کے ساتوں اعضاء نافرمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ نا فرمانی میں مبتلا ہونا چاہے یا نہ چاہے اور جو شخص حلال کھاتاہے اس کے اعضا نیک کام میں لگے رہتے ہیں اور اس کو خیر کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ (کیمیائے سعادت)اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے رزق حلال کے کسب اور حرام سے اجتناب کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین

تکبر و گھمنڈ کی نحوست:احادیث کی روشنی میں – – از:۔سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

آج معاشرہ میں تکبر و گھمنڈ کی برائی عام طور پر پائی جا رہی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس برائی کی وجہ سے آپسی اتفاق و اتحاد پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب کہ یہ بہت ہی نا پسندیدہ و قبیح برائی ہے اس سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسلام نے بڑی تاکید سے غرور و تکبّر (گھمنڈ) کی مذمّت کی ہے۔ خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“اس کے علاوہ قرآن مقدس میں بہت سی آیتیں ہیں جو تکبّر کی مذمّت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور حضورﷺ نے مختلف انداز میں اِس کی قباحتوں و برائییوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور انسانوں کو اس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، نیز متکبّرین (گھمنڈیوں) کے لیے سخت ترین سزائیں بھی بتائی ہیں۔ اب ذیل میں تکبر و غرور کے متعلق کچھ ایسی حدیثیں ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اِس بات کا یقینی طور پر اندازہ ہو جائیگا کہ کبریائی اور بڑائی در حقیقت صرف ذات وحدہ لا شریک کے شایانِ شان ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی موت و حیات اور ہر ایک کی عزّت و ذلّت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ”اللہ ہی کے لیے بڑائی اور کِبریائی ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے“(مفہوم قرآن)اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کا بھی قطعی علم حاصل ہوگا کہ کسی انسان کے لیے ہرگز ہرگز یہ مناسب نہیں کہ وہ کبریائی اور بڑائی کا دعویدار بنے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ غرور و گھمنڈ کا رویہ اپنائے۔ اور اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اپنی حقیقت کو بھول کر اللہ وحدہ لا شریک کا حریف بنتا ہے۔ اِس لیے ایسا شخص بہت بڑا مجرم ہوگا اور اُس کے لیے سخت ترین سزائیں ہوں گی ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا۔”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :کہ کِبریائی (بڑائی) اور عظمت میری خاص صفتیں ہیں جو مجھے ہی زیب دیتی ہیں جو اِن دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا (یعنی عظمت و کبریائی اپنے لیے ثابت کرےگا) میں اُس کو آگ میں داخل کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”میں اُسے آگ میں پھینک دونگا” (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳) ٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائےگا (یعنی سخت ناراض ہوگا) اور نہ ہی انہیں پاک فرمائےگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ہی انہیں دیکھے گا۔ اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایک بوڑھا زانی ، دوسرا جھوٹا بادشاہ، تیسرا فقیر مُتکبّر (گھمنڈی) (مشکوٰۃ ص: ۴۳۳)٭حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔ ”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ شخص جنّت میں داخل نہیں ہوگا “ (مسلم شریف ج :۱، ص:۶۵مشکوٰۃ ص:۴۳۳)٭حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا:اے لوگوں! عاجزی و انکساری اِختیار کرو کیونکہ میں نے رسولﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ”جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو خود اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو تکبّر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے گرا دیتا ہے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و رُسوا ہوتاہے،وہ اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتّے اور سُوّر سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے“۔ (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳)اب آخر میں ایک تفصیلی حدیث شریف ملاحظہ کریں جو تکبّرکی رگوں کو کاٹ ڈالنے والی ہے، اور گھمنڈ کی عمارت کو ڈھانے والی۔٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”برا بندہ وہ ہےجو غرور (گھمنڈ) کرے اور اکڑ کر چلےاور بڑی شان والے رب کو بھول جائے۔برا بندہ وہ ہے جو ظلم و زیادتی کرے اور قہاراعلیٰ (رب) کو بھول جائے، برا بندہ وہ ہے جو غفلت سے کھیل میں لگ جائے اور قبر کو اور اُس میں سڑنے گلنے کوبھول جائے، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو حد سے گزرنے والا متکبّر اور سرکش ہو اور اپنی ابتدا اور انتہا (یعنی کیسے پیدا ہوا اور کہاں ٹھکانا ہوگا) کو بھول جائے، کتنا برا ہے وہ بندہ جو دین کو شبہات کے ذریعہ دھوکا دے (یعنی متّقی و پرہیز گار بن کر دیندار ظاہر کرے تاکہ لوگوں میں مقبول ہو، حالانکہ عمل خیر اللہ کے لیے ہونا چاہیے)، برا بندہ وہ بندہ ہے کہ ہوس اور لالچ اُس کو کھینچے لیے جا رہی ہے (یعنی وہ حرص و ہوس کا پابند ہو گیا ہو)، بڑا برا ہے وہ بندہ جسے خواہشات نفسانی گمراہ کرے، وہ بندہ بہت برا ہے جسے رغبتیں اور خواہشیں ذلیل کریں ۔ (ترمذی شریف ۔ مشکوٰۃ ص: ۴۳۴)تکبّر ہی وہ پہلا گناہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ اُس کو جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ! تو ابلیس نے تکبّر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہوں ، کیونکہ میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے ہوئی ہے، لہٰذا اِس تکبّرانہ جواب پر اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت و ملامت کی، اور اُسے جنّت سے نکال کر جہنم اُس کا ٹھکانا کیا۔ اِس لیے انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ مردودِ بارگاہِ خدا ابلیس لعین کے نقش ِقدم پر نہ چل کر قرآن و حدیث کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی اِس رزیل و ذلیل خصلت و عادت کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اترانے کے بجائے اپنے اندر انکساری و عاجزی، فروتنی و نرم خوئی پیدا کرکے ہمیشہ کے لیے اِس بری عادت سے توبہ و اِستغفار کر لیں۔یوں تو قرآن و احادیث و دیگر کتابوں میں بہت سی جگہوں پر غرور و تکبّر کی شدید مذمّت کی گئی ہے اور آخرت میں ملنے والی سزاؤں سے ڈرایا گیا ہے لیکن ہم نے صرف چند حدیثیں ہی پیش کی ہیں ۔ نہاں خانۂدل میں اگر حق و صداقت کی کچھ بھی روشنی ہوگی تو یقینًا یہی مذکورہ حدیثیں ہی عبرت کے لیے کافی ہوں گی ۔طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہدو بوند ہی بہت ہے اگر کچھ اثر کرےبارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو تکبر و گھمنڈ جیسی سبھی بیماریوں و برائیوں سے بچنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین !

پیر سید عمر علی شاہ صاحب ترمذی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سرہالی شریف کا تذکرہ ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی کڑیانوالہ گجرات22-03-2022منگل00923444650892واٹس اپ نمبر

۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب 1930ءمیں سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گھر رانیوال سیداں پیدا ہوئے۔اپ مشہور صوفی بزرگ سید میراں یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور نجیب الطریفین سید تھے۔ابھی چار سال کی عمر تھی کہ والد محترم سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرما گئے ۔بچپن سے ہی یتیم ہوگئے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کی والدہ محترمہ مشفقہ نے کی ۔اور آپ کی کفالت آپ کے دادا جان سید حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے کی ۔اسکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔روحانی تعلیم و تربیت کے لیے پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے گجرات کے مشہور بزرگ پیر سید شہنشاہ ولایت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی۔ اور حضرت پیر سید حاجی احمد شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو تمام اوراد و وظائف اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی خلافت سے نوازا۔ معاش کے حصول کے لیے آپ نے محکمہ پولیس میں ملازمت بھی کی۔1952میں آپ محکمہ پولیس میں سولہ روپے تنخواہ پر بھرتی ہوئے، آپ کی ڈیوٹی جیل میں تھی جہاں پر قیدیوں کے لواحقین سے ملاقات کروانی ہوتی تھی ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے اگر میں چاہتا تو اس منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزانہ کے ہزاروں روپے کما سکتا ۔لوگ بڑی سفارشوں سے جیلوں میں ڈیوٹی لگواتے ہیں کہ وہاں پر مال کمانے کے بہت زیادہ مواقع ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے لقمہ حرام سے محفوظ رکھا ساری زندگی حلال کمایا اور اپنے اہل و عیال کو حلال کھلایا۔پولیس کی نوکری میں آپ نماز پنجگانہ کے علاوہ جس شہر میں ڈیوٹی ہوتی وہاں کے مزارات اولیاء کی حاضری کے لیے اہتمام سے جایا کرتے تھے۔۔1975ء کو آپ نے پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا ۔دراصل آپ کی ہمشیرہ صاحبہ بیوہ ہو گئی تھیں ۔ان کی خدمت کے لیے اور آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف میں علم دین کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ نے اپنی نوکری کی قربانی دی ۔حالانکہ پینشن کو ایک سال رہتا تھا آپ نے کوئی پنشن نہ لی۔ اتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کی۔ آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف پر آپ کی خدمات کا دورانیہ 1975 تا 1992 تک ہے ۔1992ء میں آپ اپنے گھر سرہالی شریف تشریف لے آئےپیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے زندگی میں بے شمار حج اور عمرے کیے تھے مگر کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ الحاج وغیرہ لکھوایا آپ اپنے نام کے ساتھ کوئی لقب بھی نہیں لکھواتے تھے ۔اتنے بڑے شیخ طریقت ہونے کے باوجود آپ نے کوئی سیکر ٹری نہیں رکھا ہوا تھا سب سائلین کے فون خود سنتے ۔مہمانوں کو چائے کھانا بھی خود لا کر عطا فرماتے یہ کام کسی خادم اور نوکر سے نہیں کرواتے تھے ۔آپ شب زندہ دار ،تہجد گزار پنجگانہ نماز باجماعت کے پابند،نوافل کی کثرت کرنے والے ذکر و اذکار اور معمولات پابندی سے نبھانے والے تھے ۔تلاوت قرآن پاک پابندی کے ساتھ فرماتے۔۔بڑھاپے کے باوجود رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے ،نماز تراویح باجماعت مسجد میں ادا فرماتے ۔علم دین سے بے حد محبت فرماتے اپنے مریدوں کے بچوں کو علم دین کی ترغیب دلاتے تھے ۔محفل میں موجود علمائے کرام کی عزت و تکریم فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اپ نے اپنے کو خلق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا ،دن ہو یا رات غریب سے غریب بندہ یا کوئی امیر انسان آپ کو بلانے کے لیے حاضر ہو گیا اپ بلا تامل ،بغیر ناز نخرے اس کے ساتھ چل پڑتے کوئی گاڑی لاتا تو گاڑی میں بیٹھ جاتے کوئی رکشہ لاتا تو رکشے میں بیٹھ جاتے کوئی موٹر سائیکل لاتا تو موٹر سائیکل پر سوار ہوجاتے کئی لوگ پیدل آتے تو ان کے ساتھ پیدل ہی چل پڑتے۔پھر کبھی کسی نے کوئی خدمت کی تو اس کو بھی دعا دی کسی نے کچھ نہیں دیا تو اس کو بھی دعائیں دیں ۔آپ کی دعا کا یہ جملہ بڑا مشہور اور ہر زبان زد عام تھا یا اللہ رکھیں شان نال ،ماریں ایمان نال ۔آپ کے اس انداز دل نوازی نے لاکھوں لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا رکھا تھا عام وخواص، امیر وغریب ،چھوٹےو بڑے سب آپ کی محبتوں کے اسیر تھے۔ایک دفعہ راقم الحروف اپنے نھنے منے بیٹے کے ساتھ قبلہ پیر صاحب کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے سب نے کھانا کھا لیا سب دعا کے انتظار میں تھے کہ پیر صاحب دعا فرمائیں تاکہ مجلس برخاست ہو پیر صاحب نے فرمایا یہ بچہ کھانا کھا لے پھر دعا کرتے ہیں ادھر نھنا منا کاکا چھوٹے چھوٹے لقمے لے کر کھانا کھا رہا تھا۔۔کچھ گرا رہا تھا۔۔کچھ کے ساتھ کھیل رہا تھا پیر صاحب نے سختی سے منع کیا کہ بچے کو کوئی کچھ نہ کہے اس کو اپنی مرضی کے مطابق کھاناکھانے دیں الغرض بچے نے جب کھانا ختم کیا تو پھر پیر صاحب نے دعا فرمائی۔۔بچے کے ساتھ شفقت و لطف اور اس کی دل جوئی کا یہ انداز آج بھی دل پر نقش ہے آپ ہمہ وقت باوضو رہتے تھے۔ہمیشیہ سفید لباس پہنتے اور اس کے اوپر عمامہ شریف اس کے اوپر بڑی سفید چادر پہنتے تھے۔اپ سادہ طبعیت اور درویش منش انسان تھے۔طبعیت میں حد درجہ سادگی اور نفاست کا غلبہ تھا۔نخوت و تکبر انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔اپ محفل میں خاموشی سے آکر بیٹھ جاتے ،ہٹو بچو کی صداؤں سے تنفر تھا ،چاہتے تو مریدوں کی فوج ظفر موج اپنے استقبال کے لئے بھیج سکتے جیسا کہ عام چلن ہے مگر ساری زندگی عاجزی و انکساری اختیار فرمائی۔ ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب بے شمار اوصاف و کمالات کا منبع تھے مگر ہمیشہ اپنے آپ کو چھپاتے رہے ۔حب جاہ اور نمود و نمائش سے بچتے رہے۔آپ گوناگوں اوصاف کے حامل انسان تھے۔کچھ کمالات وہبی تھے کچھ کمالات کسبی تھے ۔علو المرتبت پیر ہونے کے باوجود انتہائی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرماتے ۔گندی نالی میں اخبار یا کوئی مقدس کاغذ دیکھتے خود اٹھا لیتے ،زمین پہ روٹی یا رزق پڑا ہوا دیکھ کر بھی خود اٹھا لیتے تھے ۔اپ کی انفرادی خصوصیت آپ کی طویل دعا ہوتی تھی آپ کو سینکڑوں مقدس نام ازبر تھے بشمول انبیاء کرام علیہم السلام ،اہل بیت اطہار علیہم الرضوان ،صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے کاملین رحمہم اللہ اجمعین کے اسمائے گرامی ۔اپ دعا فرماتے ہوئے ان پاکیزہ ہستیوں کے اسماء گرامی بیان فرماتے جاتے ایک رحمتوں کا سائباں تن جاتا ۔۔محفل کا رنگ ہی بدل جاتا اور گھر والوں کی تسکین و فرحت کا ساماں ہوجاتا تھا ۔۔ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں نے پیر صاحب کو تنہائی میں دعا مانگتے دیکھا کہ تنہائی میں کیسی دعا مانگتے ہیں انہوں نے کہا کہ جیسے محفل میں دعا مانگتے تھے ویسے ہی تنہائی میں دعا مانگتے تھے آپ کے ظاہر اور باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا جیسا لوگوں کے سامنے ہوتے تھے ویسے ہی تنہائی میں ہوتے تھے۔ آپ جودوسخا پیکر تھے غریب پرور انسان تھے بے شمار لوگوں کی چپکے سے مدد کر دیتے تھے اور اس کا کبھی بھی اظہار نہیں کرتے تھے دن اور رات کوئی بھی مہمان آتا تو اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ آخرکار علم و حکمت کا یہ نیّر تاباں ،شریعت و طریقت کی کہکشاں پون صدی سے زائد عرصہ اپنی خوشبو ئیں لٹا کر چند روز بستر علالت پہ رہ کر 25 مارچ 2021 جمعرات کو انتقال فرما گئے ۔جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد اپ کی نماز جنازہ علاقے کی تاریخی جنازہ تھی، جس میں علاقہ بھر کے علمائے کرام و مشائخ عظام سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں شریک ہوئے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب ترمذی جو آپ کے اکلوتے لخت جگر ہیں۔ آپ کو اپنے والد محترم کا جانشین و سجادہ نشین مقرر کیا گیا ہے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب اپنے والد محترم کی شخصیت کا پرتو اور عکس ہیں ۔انتہائی کریمانہ اخلاق کے مالک اور علم دوست شخصیت ہیں ۔اپنے والد محترم کی اعلیٰ روایات کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مہمان نوازی ،اصاغر نوازی ،تلطف دوستاں ،تکریم بزرگاں میں اپنی مثال آپ ہیں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مرقد پر اپنی کروڑہا رحمتوں کا نزول فرمائے آپ کی اولاد کو اپنے جد کریم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔23 مارچ بروز بدھ کو آپ کا پہلا عرس مبارک صبح دس بجے تا نماز ظہر سرہالی شریف میں منعقد ہو رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ قبلہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لئے ایک دفعہ فاتحہ شریف پڑھ کر ایصال ثواب کر دیں اور قرب و جوار والے احباب اس بابرکت محفل میں شرکت فرمائیں۔ ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات22-03-2022منگل00923444650892واٹس اپ نمبر

حجۃالاسلام کی نعتیہ شاعری۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی۔

۔اعلیٰ حضرت کے خلف اکبر، مجاہد ملت کے مرشد خلافت حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی سیدی حامد رضا علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین، مفتیء شرع متین ، فقیہ اسلام ، مناظر اہل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم‌ ادیب اور باکمال شاعر بھی تھے۔آپ نے حمد، نعتیں اور منقبتیں کہی ہیں جنھیں پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور قلب کو قرار ملتا ہے۔حجۃ الاسلام کی نعتیہ شاعری میں فصاحت و بلاغت کا حسن ہے تو تشبیہات و استعارات کی رعنائی بھی۔ الفاظ و محاورات کا جمال ہے تو صنایع و بدائع کی خوب صورتی بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام دیگر شعرا کے کلام سے ممتاز نظر آتے ہیں۔”معارف رضا “میں سرکار حجۃالاسلام کا ایک نعتیہ کلام نظر سے گزرا۔اس کلام کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مستفید و محظوظ ہوں :ہے عرش بریں پر جلوہ فگن محبوب خدا سبحان اللہ

اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف

پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ

سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن و الفت کے

خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ

اس کلام کے ارکان ہیں :فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

اور اس بحر کا نام ہے :بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثلم بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثرم مسکن گویا آپ نے اس کلام میں زحاف ثلم، ثرم، تسکین کا استعمال کیا ہے اور چند مقامات پر زحاف تسبیغ کا بھی استعمال فرمایا ہے۔اشعار کے مختلف مقامات پر، صدر، ابتدا، حشو ، ضرب، عروض میں اتنے سارے زحافات کا استعمال کرنا حجۃالاسلام کے استادانہ کمال اور مہارت در علم عروض کا پتہ دیتا ہے۔ حجۃالاسلام کے اس کلام میں صنعت تلمیح بھی ہے اورصنعت اشتقاق بھی، صنعت عکس بھی ہے اور صنعت تجنیس زائد بھی۔صنعت تضاد بھی ہے اور صنعت تنسیق الصفات بھی۔صنعت تفویت بھی ہے اور صنعت تہذیب و تادیب بھی ،صنعت ترتیب بھی ہے اور صنعت طباق بھی۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور صنعت مراعاۃ النظیر بھی۔ صنعت فرائد بھی ہے اور صنعت کنایہ بھی۔

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔یہ جملہ خبریہ ہے اور صدق خبر بھی، کیونکہ بہت ساری احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اک آن میں مکہ سے بیت المقدس، پھر آسمان، سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں تشریف لے گیے اور واپس کرہء ارض پر تشریف بھی لے آئے ۔اس مصرع میں برق کا استعمال اپنے موقف میں شدت پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ مقتضیء حال کے مطابق بھی ہے ۔ سائنس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں سب سے تیز جو شیء حرکت کرتی ہے وہ روشنی ہے اور روشنی کی ایک شکل ہے برق ۔ برق کی رفتار کتنی ہے ؟ برق کی رفتار ہے ١٨٦٠٠٠ میل فی سیکنڈ ، جبکہ آواز کی رفتار ہے ٣٤٣ میٹر فی سیکںڈ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بجلی پہلے دکھائی دیتی ہے اور گرج کی آواز بعد میں سنائی دیتی ھے۔ نظر کی رفتار روشنی / برق سے بھی کم ہوتی ہے۔کرہء ارض سے سورج تک دوری ہے ٩٣ ملین میل۔سورج ، کرہء ارض سے سب سے نزدیک کا ایک ستارہ ہے ۔اگر سورج کی دوری ٩٣ ملین میل ہے تو اندازہ لگائیں ساتوں آسمان، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں کی دوری کتنی ہوگی۔ اور حضور صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک آن میں لامکاں جاکے تشریف لے آئے۔ تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کے سامنے نظر/ روشنی/ برق کی رفتار کی کیا حیثیت ؟اس لیے حجۃالاسلام نے کہا:

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔اس مصرع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی رفتار کو نظر اور برق سے تشبیہ دی گئی ہے اور وجہ تشبیہ ہے تیزی ۔ برق کے استعمال سے بصری پیکر تراشی کا حسن بھی جلوہ گر ہوگیا ہے ۔

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

۔اس مصرع میں راکب کے ساتھ ساتھ مرکب کے استعمال نے شعر کے حسن کو دوبالا کردیا ہے ۔ یہاں راکب سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مرکب سے مراد براق/ رف رف ۔حجۃالاسلام ایک اور نعتیہ کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

نہ کوئی ماہ وش تم سا نہ کوئی مہ جبیں تم سا حسینوں میں ہو تم ایسے کہ محبوب خدا تم ہو ۔حجۃالاسلام نے اس شعر کے ذریعہ تشبیہات و استعارات جن سے عموما” مجازی فضا تیار کی جاتی ہے ان کو رد کیا ہے اور رد کرتے ہوئے ممدوح گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی توصیف بیان کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔اس قبیل کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:

زمیں میں ہے چمک کس کی فلک پر ہے جھلک کس کی مہ و خورشید سیاروں ستاروں کی ضیا تم ہو

وہ لاثانی ہو تم آقا نہیں ثانی کوئی جس کا

اگر ہے دوسرا کوئی تو اپنا دوسرا تم ہو

نہ ہوسکتے ہیں دو اول نہ ہوسکتے ہیں دو آخر

تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو

تم ہو حبیب کبریا پیاری تمھاری ہر ادا

تم سا کوئی حسیں بھی ہے گلشن روزگار میں ؟

صنعت اقتباس کے حسن سے مزین یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن

بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں

عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

سرکار حجۃالاسلام کے اشعار میں پیکر تراشی کے جلوے ملاحظہ فرمائیں:

ماہ تری رکاب میں نور ہے آفتاب میں

بو ہے تری گلاب میں رنگ ترا انار میں

گاہ وہ آفتاب ہیں گاہ وہ ماہتاب ہیں

جمع ہیں ان کے گالوں میں مہر و مہ تمام دو

سارے بہاروں کی دلھن ہے میرے پھول کا چمن

گلشن ناز کی پھبن طیبہ کے خار خار میں

سوسن و یاسمن سمن سنبل و لالہ نسترن

سارا ہرا بھرا چمن پھولا اسی بہار میں

ان کی جبین نور پر زلف سیہ بکھر گئی

جمع ہیں ایک وقت میں ضدین صبح و شام دو

حجۃالاسلام کے ان اشعار میں بصری پیکر تراشی بھی ہے اور سماعی پیکر تراشی بھی، لمسی پیکر تراشی بھی ہے اور مشامی پیکر تراشی بھی۔ در حقیقت حجۃالاسلام کے کلاموں میں لفظوں کی ایسی مہکتی کائنات حسن اور خوشبوؤں کے روپ میں جلوہ گر ہے کہ جس کے سبب قاری کے دل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں اور اس کا قلب جمالیاتی چاشنی سے بھر جاتا ہے۔سرکار حجۃالاسلام نے خاتم الاکابر حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ کی شان اقدس میں ایک طویل منقبت کہی ہے جسے پڑھ کر قلب میں ایک عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور دل و دماغ میں ایک روحانی فضا قائم ہوجاتی ہے۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

فانی ہوجاؤں شیخ میں اپنے

ہو بہو ہو ادائے آل رسول

حقہ حق ہو ظاہر و باطن

حق کے جلوے دکھائے آل رسول

دل میں حق حق زباں پہ حق حق ہو

دید حق کی کرائے آل رسول

پھر الی اللہ فنائے مطلق سے

پورا سالک بنائے آل رسول

ان اشعار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشق رسول اور محبت آل رسول ہی وہ محور ہیں جن کے گرد حضرت حجۃالاسلام کی پاکیزہ نعتیہ و منقبتیہ شاعری حرکت کناں نظر آتی ہے ۔