WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

شعبان اور شب برات۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ایک مَثَل مشہور ہے

تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برأت۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو دعاؤں سے نوازتا ہے تو یہ کہتا ہے:تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برات، عید سے مراد عید الفطر یعنی شوال کی پہلی تاریخ ہے اور شب برآت سے مراد پندرہویں شعبان المعظم کی رات۔ شوال کی پہلی تاریخ عید کے طور پر اس لیے منائی جاتی ہے کہ مسلمان رمضان کے تیس روزے مکمل کرتا ہے اور تکمیل روزہ کی خوشی میں وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور مسرت سے سرشار ہوکر شوال کی پہلی تاریخ کو وہ عید مناتا ہے۔

تو پھر شب برات کس خوشی میں منائی جاتی ہے ؟ ہر رات شب برات جیسی ہو ، یہ دعا کیوں دی جاتی ہے؟ آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاریخ اپنی قوم اور دیگر اقوام میں کیوں اہمیت رکھتی ہے۔پندرہ شعبان کو فارس کے لوگ خوشیاں مناتے آئے ہیں اور اسے وہ جشن مھر کا نام دیتے ہیں اور اس جشن میں وہ اپنے یزتھا مترا کی تعظیم بجالاتے ہیں ۔اہل تشیع پندرہویں شعبان میں خوشیاں اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق پندرہ شعبان ٢٥٦ ہجری کو بارھویں امام محمد بن الحسن المھدی پیدا ہوئے تھے۔اور ہر گھر میں اس رات امام محمد الحسن المھدی کے نام فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔یہ منظر ہم نے دبئی میں دیکھا تھا کیونکہ ہمارے کچھ کسٹومرز اہل تشیع تھے جو اپنے گھروں میں بہت دھوم دھام سے یوم ولادت امام محمد الحسن المھدی کے طور پر پندرھویں شعبان کی خوشیاں مناتے تھے۔لیکن ہم اہل سنت کے لیے کون سی خوشی کی بات ہے کہ ہم اس قدر اہتمام سے شب برات مناتے ہیں۔ غسل کرتے ہیں ۔خوشبو لگاتے ہیں، نئے کپڑے/ صاف ستھرے پہنتے ہیں، ، رات میں مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اور رات بھر مسجدوں میں خدا کی عبادات کرتے ہیں ۔ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ہم زندگی ایسی گزاریں کہ آخرت میں خدا و رسول کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ نہ ہوں ۔اگر مسلمان شریعت مطہرہ کے بتائےہوئے ہوئے طریقوں پر چلے تو اس کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی۔لیکن مسلمان آخر ایک انسان ہی تو ہے ، ایک بشر ہی تو ہے۔انسان کے اندر جہاں نفس مطمئنہ و نفس لوامہ ہیں وہیں نفس امارہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غلطیاں کر بیٹھتا ہے ۔ان غلطیوں کی مغفرت کیسے ہو؟ ان غلطیوں کی معافی کی راہ ہموار کیسے ہو ؟ کیا کوئی راستہ ہے جس سے انسان کی غلطیاں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے سے پہلے معاف ہوجائیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔خدا غفور الرحیم ہے، خدا کریم ہے،خدا غفار ہے ، خدا رحمان ہے۔خدا قادر مطلق ہے ۔ وہ جب چاہے ہماری توبہ قبول فرمالے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اللہ کا ہم پر بے پایاں احسان ہے کہ رب کریم نے کچھ خاص راتیں مقرر کی ہیں جن میں خصوصی رحمت باری کا نزول ہوتا ہے ۔ان راتوں میں اگر مسلمان اخلاص کے ساتھ توبہ و استغفار کرے تو خدا مسلمان پر خصوصی کرم فرماتے ہوئے معاف فرمادیتا ہے۔ انھی راتوں میں سے ایک رات ہے جس کا نام ہے شب برات یعنی پندرہویں شعبان کی رات۔ چونکہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں اور گناہ کی معافی ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ باعث مسرت و شادمانی ، وجہ کیف و سرور ہوتی ہے ، اس لیے مسلمان اس رات کو خوشیاں مناتا ہے کہ شب برات گناہ بخشوانے کی رات ہے ، شب برات مغفرت کی رات ہے ،شب برات رحمتوں کے نزول ہونے کی رات ہے ۔شب برات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے کے بارے میں رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان میرا مہینہ ہے۔جس مہینے کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا مہینہ کہیں اس مہینے کی عظمت کا کیا کہنا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کو اپنا مہینہ کیوں فرمایا؟ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے :١.شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اختیار شفاعت عطا فرمایا ۔٢.شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دلی خواہش کی تکمیل رب کریم نے فرمائی یعنی تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کے عوض کعبہء معظمہ بن گیا ۔ ٣.شعبان میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔شب برات وہ رات ہے جس کو فرشتوں کے لیے عید سے تعبیر کیا گیا ۔شب برآت اسلامی تاریخ کی اہم ترین رات ہے۔شب برأت جود و عطا کی رات ہے شب برأت اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی تھیشب برات وہ رات ہے جس رات کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔ شب برات برکتوں والی رات ہے شب برات دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات ہے شب برات دستاویز والی رات ہے شب برأت اللہ تعالیٰ کی رحمت ‌خاصہ کے نزول کی رات ہے شب برأت وہ رات ہے جس کا نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا کیونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں شب برات وہ رات ہے جس رات میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔شب برأت وہ رات ہے جس میں دعا رد نہیں ہوتی بلکہ قبول ہوتی ہے ۔شب برأت تقدیس والی رات ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برآتجس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح ماہ شعبان تمام مہینوں سے افضل ہے ۔لہذا ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ماہ شعبان میں خصوصاً پندرہویں شعبان میں روزے رکھیں اور پندرہویں شعبان کی رات میں رب کی عبادت کریں ، نبی پر درود بھیجنے کا اہتمام کریں اور خوب توبہ و استغفار کریں ۔ابو نصر نے اپنے والد سے نقل کی ہے جو انھوں نے بالاسناد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے والے اور بدکار عورت کے سوا تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے۔لہذا اگر ہمیں شب ‌برات کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی بخشش کا سامان کریں ۔الحمد لللہ ہم مسلمان ہیں ، شرک نہیں کرتے ۔آپس میں اگر دل کے اندر بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں تو بغض و کینہ کو دل سے نکال دیں ، رشتہ داروں سے اگر قطع تعلق ہے تو رشتہ داری کو استوار/ بحال کریں ، اگر کوئی شخص رشتہ داری کو استوار/ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے نہ روکیں ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔حقوق العباد کا خیال رکھیں ، کسی کا دل نہ توڑیں ، کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں ، کسی کی زمین کو ناجائز طور پر ہڑپنے کی کوشش نہ کریں ، دل کو صاف و شفاف رکھیں اور دل سے حسد،بغض ، کینہ ، عناد کے کیڑے مکوڑوں کو نکال کر باہر پھینک دیں ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سےتم پر کرےگی ہر گھڑی نصرت شب برآت شب برأت میں مسجد کو آباد کریں ، قرآن کی تلاوت کریں ، درود کا ورد کریں ۔نفل نمازوں کا اہتمام کریں ، لیکن یہ نہ بھولیں کہ آپ کو عشاء اور فجر کی نمازیں جو فرض ہیں انھیں بھی ادا کرنی ہیں اور باجماعت ادا کرنی ہیں ۔ایسا ہر گز نہ کریں کہ رات بھر نفل پڑھیں اور فجر کی نماز کے وقت سوجائیں۔مستحبات کو فرض پر ترجیح نہ دیں ۔پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا ہر حال میں ضروری ہے ۔سفر ہو کہ حضر، گھر ہو کہ باہر ، حالت امن ہو یا حالت مصیبت، ہر حال میں ایک مسلمان کو پنج وقتہ نمازوں کا قائم کرنا ضروری ہے۔صحابہء کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں، صحابہء کرام کے دور کو یاد کریں ۔صحابہء کرام دوران جنگ بھی فرض نمازوں کا اہتمام کرتے تھے ۔قرآن کا مطالعہ کریں ۔قرآن میں ہے :اور اے محبوب جب تم ان میں تشریف فرماہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہیے کہ تم میں ایک جماعت تمھارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمہارے مقتدی ہوں اور چاہیے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہوجاؤ تو ایک دفعہ تم پر جھک پڑیں اور تم پر مضائقہ نہیں مینھ کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی پناہ لیے رہو بیشک اللہ نے کافروں کے لئے خواری کا عذاب تیار کر رکھا ہے پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے پھر جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر حسب دستور نماز قائم کرو بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ مندرجہ بالا ترجمہء آیت قرآن میں نماز خوف کا بیان ہے۔جہاد میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے مع تمام اصحاب کے نماز ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انھیں افسوس ہوا انھوں نے اس وقت کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا جب بعضوں نے ان سے کہا اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نماز عصر جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری طاقت سے حملہ کرکے انھیں قتل کردو اس وقت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور انھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ یہ نماز خوف ہے اور اللہ عز و جل فرماتا ہے واذا کنت فیھم ۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ایک ان میں سے آپ کے ساتھ رہے آپ انھیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں قائم رہے ۔نماز خوف کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ پہلی جماعت امام کے ساتھ ایک رکعت پوری کرکے دشمن کے مقابل جائے اور دوسری جماعت جو دشمن کے مقابل کھڑی تھی وہ آکر امام کے ساتھ دوسرے رکعت پڑھے فقط امام سلام پھیرے اور پہلی جماعت آکر دوسری رکعت بغیر قرآت کے پڑھے اور سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابل چلی جائے پھر دوسری جماعت اپنی جگہ آکر ایک رکعت جو باقی رہی تھی اس کو قرآت کے ساتھ پورا کرکے سلام پھیرے ۔حالت خوف میں دشمن کے مقابل اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کس قدر ضروری ہے ۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان شب معراج یا شب برآت کا روزہ رکھے اور رمضان کے فرض روزے ترک کردے؟ اگر ایسا کوئی کرے تو کیا وہ گنہگار نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی شب معراج یا شب برآت میں نفل نمازیں ادا کرے مگر عشاء اور فجر کی نماز چھوڑ دے یا فرض نمازیں جماعت سے نہ پڑھے تو وہ بھی گنہگار ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،ماہ شعبان و شب برآت کی قدر کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ، شب برآت میں عبادت کے لیے قیام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شعبان کے پندرہویں دن میں روزہ رکھنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

کشمیر فائلس: مسلم نسل کشی کی بھیانک تیاری…..مشتاق نوری ۱۶؍مارچ ۲۰۲۲ء

. 😢😢😢

کل ایک پرنٹ اخبار سو توپ کے برابر تھا۔آج ایک الیکٹرانک میڈیا ہاوس ہزار توپ کے برابر ہے۔اور جب میڈیا فرقہ واریت کا قائل ہو تب تو یہ توپ سے آگے نکل کر کسی جان لیوا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔تب انصاف و رواداری تیل بیچنے نکل جاتا ہے۔وہاں صرف طاقتور خیمے کا متعصبانہ ایجنڈہ ہی حق ہوتا ہے۔تب کورٹ قانون سب لولہے لنگڑے بنے رہنے میں بھلائی خیال کرتا ہے۔باقی کمزور طبقے کا دکھ درد سب ڈھکوسلا یا ڈھونگ کہلاتا ہے۔یہ کام میڈیا کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔یہ میڈیا بھی نا بڑا پاور فل ہوتا ہے راتوں رات ہیرو کو ویلن، ظالم کو مظلوم اور فرقہ پرست کو روادار بنا دیتا ہے۔کچھ یہی حال اہل کشمیر کا ہوا۔جو اب تک مظلوم ہیں جن کی آواز تک دبا دی گئی ہے۔جن پر طویل عرصے تک لاک ڈاؤن مسلط رکھا گیا۔ایک فلم کے ذریعے انہیں دنیا کے سامنے دہشت گرد،ظالم، کٹر پنتھ، علیحدگی پسند بنا کر پیش کر دیا گیا۔سب جرم میری ذات سے منسوب ہے محسن کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارےکشمیر فائلس کو ایک ایک فرد تک پہنچانے کے لیے اس وقت ملک کا ہر ہندو خود میں میڈیا ہاؤس بنا ہوا ہے۔بہار کے ایک یوٹیوبر نے اپنے خرچے سے ۲۵ سو لوگوں کو فلم دکھانے کا اعلان کیا ہے اور ٹکٹیں بک کروا چکا ہے۔اس فلم کو واشنگٹن ڈی سی میں دکھایا گیا۔کئی دوسرے ملکوں میں دکھاۓ جانے کے قواعد چل رہے ہیں۔انوپم کھیر ویڈیو جاری کر کے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو راشٹر بھکت ہوگا جو اصلی ہندو ہوگا وہ ضرور اس فلم کو دیکھے گا۔ایسے میں کون ظالم اپنی راشٹر بھکتی یا ہندوتو کو خطرے میں ڈالے گا۔مسلم سماج کے خیر خواہ اب تک صرف اسی غم میں مبتلا رہے کہ ہندووں نے کئی سینائیں، کئی طرح کے تشدد آمادہ دل بنا لیے ہیں۔کرنی سینا، رام سینا،شیو سینا، بجرنگ دل، ہندو رکشا دل، وغیرہ ملک میں اس طرح کے قریب قریب چھوٹے بڑے ۳۰ ہزار گروپ کام پر لگے ہیں جن کا اصل مقصد ہی ہے دنگا بھڑکانا، اقلیتی طبقے کو نشانہ بنانا۔ہر ایک کا لنک بجرنگ دل سے ملتا ہے اور بجرنگ دل آر ایس ایس کا ٹرینڈ لڑاکو دستہ ہے جس میں ہر شعبے کے لوگ جڑے ہوۓ ہیں۔ہم یہ بھول ہی گئے کہ یہ ۲۱ ویں صدی ہے اب گولی، بارود و بم سے جنگ نہیں لڑی جائے گی اس برقی دور میں ڈیجیٹل وار سے اپنے دشمنوں کو گھات لگا کر مات دیا جاۓ گا۔یہ کشمیر فائلس تو آج آئی ہے۔ورنہ بالی ووڈ میں ہزاروں ایسی فلمیں بن چکی ہیں جس میں ہمیں ہر بار اتنکوادی اور ظالم دکھایا گیا ہے۔جس فلم میں بھی اس طرح کا کردار پلے کیا جاتا ہے اسے ڈراونا بنانے، مسلم سماج کے تئیں نفرت برپا کرنے کے لیے ویلن کو کرتا پاجامہ پہنا کر اس کے کندھوں پر سلیقے سے عربی رومال بھی ڈال دیا جاتا ہے۔یہیں تک نہیں رکتے بلکہ جب بھی کسی اتنکوادی کردار کو دکھانا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح بھی تھما دی جاتی ہے۔وہ اللہ اکبر اللہ اکبر بھی کہتا رہتا ہے۔یہ حال صرف بالی ووڈ کا نہیں بلکہ جنوبی ہند کے مختلف صوبوں میں بنی فلموں سے لے کر بھوجپوری فلموں تک یہی کچھ دکھایا جاتا رہا ہے۔آج سے لگ بھگ دس ماہ قبل فیسبک چلاتے ہوئے نرہوا کی کسی فلم کی ۹ منٹ کی ایک ویڈیو کلپ سامنے چلنے لگی۔اس میں ویلن کرتا پا جامہ، کندھے پر عربی رومال اور ہاتھ میں تسبیح لے کر ایک ہندو فیملی کے گھر پر دھاوا بول دیتا ہے۔ویلن کا چھوٹا بھائی یہ کہتے ہوۓ ہندو لڑکی کا بلاتکار کر دیتا ہے چل تجھے جنت بھیج دیتا ہوں۔قسم خدا کی میں نے اسی وقت اس کلپ کے کمینٹس چیک کیے تو دماغ کو زور کا جھٹکا لگا کہ اس میں سارے کمینٹ کرنے والے کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو مسلم عورتوں کو بھدی بھدی گالیاں دے چکے تھے۔دس منٹ کے ویڈیو کلپ کے ویوز اس وقت 4.5 ملین تھا یعنی صرف فیسبک کے اس پیج پر اس ویڈیو کو تقریبا ۴۵ لاکھ لوگ دیکھ کر مسلمانوں کے تئیں اپنے دل میں نفرت کی آگ مزید بھڑکا چکے تھے۔غالبا ۲۰۰۳ میں طالبان نام کی ایک فلم آئی تھی جس میں طالبانیوں کو صرف دہشت گرد نہیں دکھایا گیا ہے بلکہ انہیں عورت کا دشمن، جاہل، گنوار اور عیاش دکھایا گیا ہے۔اس فلم کو دیکھ کر کوئی بھی ہندو طالبان سے شدید نفرت کرے گایہ صرف ایک مووی کی بات نہیں ہے۔ایسی ہزاروں موویز آ چکی ہیں جس میں دین و شریعت کی کھِلی اڑائی گئی ہے۔دین کو دہشت گردی کا اڈہ دکھایا گیا ہے۔مسلم سماج کو سیدھے ظالم و جابر دکھایا گیا ہے۔اکثر فلموں میں چکلہ یعنی رنڈی خانہ چلانے والا کسی مسلم کو دکھایا جاتا ہے۔اس سے سماج پر کتنا برا اثر پڑا ہے ہم تو سیریس لیتے ہی نہیں۔فلمی دنیا نے ہمیں چکلہ چلانے والا باور کرا دیا کہ سارے قحبہ خانے ہم ہی چلاتے ہیں۔اور ہمارے نوجوان دیکھ کر خوش ہیں۔کشمیر فائلس آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا اہم ستون ہے۔آپ محسوس کر رہے ہیں؟ آج سارا میڈیا دن رات کشمیر فائلس پر ہی پروگرام کر رہا ہے۔مطلب وہ اپنے ٹارگٹ کی طرف تیزی بڑھ رہے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے جو کام میڈیا یا آر ایس ایس کے ہرکارے نہیں کر پاۓ تھے کشمیر فائلس نے ایک رات میں سب کر دیا۔سارے ہندو جذباتی ہو کر فلم دیکھنے ہال تک جاتے ہیں اور روتے ہوۓ نکل رہے ہیں۔کوئی نکلتے ہی اپنا غصہ ظاہر کرنے لگتا ہے۔ابھی ایک ویڈیو دیکھا اس میں کشمیر فائلس دیکھنے کے بعد ایک آدمی سارے ہندو نوجوانوں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو کاٹنے کی اپیل کرتا ہے۔اور جذباتی ہو کر یہ بھی کہتا ہے کہ میں بیس کو کاٹوں گا۔کشمیر فائلس سے آر ایس ایس کا پلان بالکل کامیاب ہوتا دکھ رہا ہے۔۲۰۲۴ میں پھر مودی کی سرکار بن رہی ہے۔اس کا معنی مخالف، رام راج کا راستہ کلیئر ہونے کو ہے۔اس فلم سے آنے والے وقتوں میں ہندو مسلم کھائی مزید گہراتی چلی جاۓ گی۔ہندو لڑکے اور نفرتی بن جائیں گے۔ماب لنچنگ کی واردات بڑھ جاۓ گی۔ورنہ اس فلم کے اس قدر ہنگامہ خیز پروموشن کا مقصد ہی کیا ہے؟اس فلم کا منفی اثر جو کبھی مالی کبھی بدنی تو کبھی سماجی ضیاع کو بڑھاوا دے گا۔اقلیت کے خلاف تشدد و نفرت کو لوگ اپنا دھرم سدھ ادھیکار (مذہب کا دیا گیا حق) سمجھیں گے۔اس کی چپیٹ میں سب سے زیادہ کشمیر کے وہ طلبہ، وینڈرس،پھیری والے تجار ہوں گے جو ملک کے مختلف قریات و امصار میں رہ رہے ہیں۔ان کو زد و کوب ہی نہیں ان کا گلہ کاٹ کر لوگ کہیں گے کہ سنودھان کی رکشا کے لیے، لا اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کے لیے ان کی لنچنگ ضروری تھی۔کشمیری پنڈتوں جو کشمیر کی پتھریلی زمین پر کاشت کاری کرکے گزر بسر کر رہے تھے۔پہلے سے ہر فیملی کو دس ہزار روپے، مہینہ بھر کا راشن اور کم سے کم ایک آدمی کو نوکری دے دی گئی ہے اب انہیں مزید ہمدردیاں ملیں گی۔پیسے بھی برسیں گے۔دوسرا وہ طبقہ جس پر اس فلم کی نحوست پڑنے والی ہے۔وہ ہے کرتا پا جامہ والے مولوی برادری کے لوگ جو ملک کے ٗ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔یہ بات میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ اس فلم کی ایک سین میں دکھایا گیا ہے کہ پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے کے لیے مسجدوں کے منبروں سے امام لوگ اعلان کر رہے ہیں۔فلم میکر یہیں پر نہیں رکے، اس نے تو ہندو جذبات کو مزید بھڑکانے کے لیے یہ بھی بڑھا دیا ہے کہ ہر مسجد کا امام اعلان میں کہ رہا ہے کہ “سارے ہندو اپنی اپنی جوان لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جائیں یہ ہماری گزارش نہیں، حکم ہے”پوری فلم نہ بھی دکھائی جاۓ، صرف تیس سیکنڈ کی چھوٹی سی یہی کلپ دکھا دی جاۓ تب بھی اتنی آگ لگ جاۓ گی جتنی لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بدترین جملے سے کس کے جذبات نہیں بھڑکیں گے؟ کس کو طیش نہیں آۓ گا؟ کون ہوگا جو مسجد کے امام کا یہ اعلان سنے گا اور آج علما و طلبہ سے سخت ترین نفرت نہیں کرے گا؟آخر ظلم کا یہ تسلسل کہاں جا کر ٹوٹے گا؟اور خون کتنا بہے گا؟ساحر لدھیانوی کے لفظوں میںظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہےخون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گااگر مان بھی لیں کہ کشمیریوں نے پنڈتوں کی نسل کشی کی اور انہیں وہاں سے بھگا دیا تاہم یہ بات کبھی قابل قبول نہیں کہ مسجدوں سے یہ اعلان کیا گیا تھا “کہ اپنی اپنی لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جاو”۔ایک خراب سے خراب ترین مسلمان بھی یہ کام نہیں کرے گا۔مگر نفرت کے پجاریوں نے فلم میں وہ سارا مسالہ ڈال دیا ہے جس سے ہندو سماج برافروختہ ہو جاۓ۔طیش میں آکر بدلہ لینے کے لیے مسلم گھروں میں گھس کر خواتین کی آبرو سے کھیلے۔ہم آپ سوچتے رہیں گے مگر فلم جس کام کے لیے بنائی گئی تھی اس میں وہ ۱۱۰ فیصد کامیاب ہے۔آج مودی کا اپنا سارا بھاشن اسی فلم پر رہا ہے۔اس نے زور دے کر کہا کہ ایسی فلمیں بار بار بننی چاہیے۔انوپم کھیر کی لوٹری لگ گئی اب ہر ہندو اس فلم کو سنیماگھروں میں جاکر بڑے پردے پر دیکھ رہا ہے۔اس سے اس کی کمائی بھی ہوئی۔ہندوؤں کا ہیرو بھی بن گیا۔اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا خواب بھی پورا ہونے کو ہے۔جب کشمیر فائلس بن گئی تو اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے کہاوت ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ کشمیر فائلس کا مقابلہ گجرات فائلس، بھاگل پور فائلس،ہاشم پورا فائلس،میرٹھ فائلس بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔اس فلم کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ستم کہیے کہ مسلم سماج کسی طرح کی بھی فائلس بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔جب یہ کرناٹکا میں حجاب معاملے میں مات کھا گیا تو اتنے بڑے معاملے کو ہینڈل کرنا اس کے بس میں نہیں۔جانے کب سے سارے اسکولس کالجوں میں سرسوتی پوجا کا آیوجن کیا جاتا رہا ہے۔اگر اس گرم توے پر روٹی سیکنی ہو تو ملک بھر کے تھانوں کچہریوں میں اس پوجا کے خلاف پی آئی ایل داخل کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے کیا نہیں۔کشمیر فائلس کے کتنے پنے کھلے، کتنے جان بوجھ کر چھپاۓ گئے۔کتنے پنے سے نظریں چرائی گئیں اس کا فیصلہ تو اب ملک کی عدالت میں بھی نہیں ہو سکتا۔اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

ذکر معراج میں ہے تصور نمازکا۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

”رجب المرجب “اسلامی سال کا ساتوا ں مہینہ ہے جس کی حرمت وعظمت اس سے ظاہر ہےکہ یہ” اشھر حرم“ سے ہے اس کی فضیلت واہمیت پر خود شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقدس کلام ،حدیث پاک میں ارشاد فرمایا”رجب شھراللہ ،شعبان شھری ورمضان شھر امتی“ یعنی رجب اللہ کا مہینہ،شعبان میرا مہینہ اور رمضان شریف میری امت کا مہینہ ہے۔اس حدیث پاک میں رجب کی نسبت ذات باری عز اسمہ کی طرف ہونا اس کی رفعت شان کی دلیل ہے اور ایساہونا بتقاضاۓ عقل و فہم ہے کیو ں کہ آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے” رجب“کی ستائیسویں شب کے ایک حصے میں مسجد حرام {مکہ مکرمہ}سے مسجد اقصی تک پھر یہاں سے آسمانوں کا سفر مسعود ہوتا ہوا سدرة المنتھی اور ملاء اعلی تک پہونچ کردیدار خداوندی سے مشرف ہونے کا شرف حاصل کیا، دیدار وہم کلامی کے اس تقدس مآب کیفیت کو پوری دنیا ”معراج مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم “کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔اسی کی ترجمانی کرتے ہوۓ حضرت حسن بریلوی نےکیا خوب فرمایا ہے شعر۔بنا آسماں منزل ابن مریمگۓ لا مکاں تاجدار مدینہیہ معراج کس قدر بلند شان ہے کہ محب{اللہ جل شانہ} حبیب کو خود طلب کر دولت دیدار سےمشرف فرماتاہے جب کہ کلیم خود طالب دیدار ہوتے ہیں،اعلی حضرت فرماتے ہیں شعرتبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی۔کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے۔معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم، علو رتبہ کی وہ تشریح ہےجہاں ساری رفعت اور بلندی ہیچ ہے ،یہ مقام رفیعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو حاصل ہوا نہ ہوگا،اس زاویہ سےبھی” رجب المرجب“کی اہمیت وافضلیت ظاہرہے کہ واقعئہ معراج اسی کی آغوش بابرکت میں فروکش ہے جس سے رجب کا حسن ملاح فزوں تر ہے۔اس آن میرا مطمح نظر یہ ہے کہ ذکر معراج تصور نماز سے غایت درجہ ملصق ہے گویا تصور نماز ،ذکر معراج کا جزء لا ینفک ہے۔یہی وجہ ہے کہ سفر معراج دو حصوں پر مشتمل ہے ایک مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور دوسرا وہاں سے عرش اعظم تک۔معراج جو ”عروج “ بلندی پر چڑھنے سے عبارت ہے اس کی حقیقی شکل یہی ”مسجد اقصی“ سے عرش اعظم تک کا سفر مسعود ہی ہے، اس سفر کی ابتدا آپ کی امامت نماز اور تمام انبیا علیہم السلام کی اقتدا سے ہوتی ہے اوراختتام بھی من جانب اللہ بتوسل نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بندگان الہیہ کے لۓ تحفئہ نماز پنجگانہ پر ہوتا ہے ۔یہ دونوں واقعات زباں زد خلائق ،خزینئہ اذہان اہل علم ہیں یا محفوظات اوراق کتب ہیں ۔اس لۓ یہ کہا جاسکتاہے کہ” ذکر معراج میں ہے تصور نماز کا“ مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں بتائ ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر بابرکت راتوں کی طرح اس رات میں بھی نوافل کااہتمام کریں اور بکثرت عبادات نافلہ سے اپنے دامن مراد کو پر کریں ۔نوافل نمازوں کی زیادتی سے جبیں سائ کے ذریعے رب کی رضا کے حقدار بنیں۔ آمین

دینی تعلیم سے بےتوجہی :ایک لمحۂ فکریہ:- از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی ،خادم : ۔ دارالعلوم انو ار مصطفیٰ سہلاؤ شریف باڑمیر(راجستھان)

انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلم حقیقت ہے ،اس کی تکمیل کے لئے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے، خود پیغمبراسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے، یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ معلم انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے “(مشکوٰۃ ص /۳۴ )

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنا اور کونسا علم سیکھنا فرض ہے ؟ تو اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کرسکے، اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کر سکے ،اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کر سکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہوتاکہ ان سے بچا جا سکے۔ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے حلال و حرام میں فرق ہو سکے ۔اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد عورت کے لئے لازم ہے، جو درسگاہوں میں پڑھ کر مسجدوں و دینی جلسوں میں سن کر علماکی صحبت اختیار کر کے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہو سکتا ہے ،حاصل کلام یہ ہے کہ اتنا علم اور اتنی دینی تعلیم ہر مسلمان مرد وعورت کے لئےبےحد ضروری ہے جن سے دین پر صحیح طور پر عمل پیرا ہو سکیں اور شریعت کے مطالبات کو پورا کر کے نگاہ شریعت میں معتبر بن سکیں ،پھر خدا اور رسول ﷺ کے محبوب بندے اور غلام بن کر اپنی عاقبت سدھار کر زندگی گزار سکیں ۔

جس طرح ہر مسلمان شخص پر فرض ہے کہ وہ خود ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف ہو اسی طرح ہر مسلمان ماں باپ پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف کرائیں اور اس بابت بالکل غفلت نہ کریں کیونکہ والدین کے اوپر بچوں کے اہم حقوق میں سے ایک ان کو دینی و اسلامی تعلیم دلانا بھی ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی کی طرح کی غفلت وکوتاہی اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے اور دینی و اسلامی تعلیم سے محروم بچہ خود اپنے والدین کی اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن شکایت کرےگا اور ایسا بچہ والدین کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہوگا ۔

لیکن دور حاضر میں افسوس کی بات یہ کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلکہ ان کی اکثریت خود اسلامی تعلیمات اور اس کی اہمیت سے نا واقف ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں بہت سارے ماں باپ اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے لئے بہت زیادہ دوڑ بھاگ کر تے ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی اسکول، کالج اور یونورسٹی اور ساتھ ہی ساتھ ٹیوشن کا بھی الگ سے انتظام و اہتمام کر تے ہیں جب کہ دوسری طرف انہیں ماں باپ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم و تربیت کے تئیں بالکل ہی غفلت و بے توجہی کے شکار رہتے ہیں ، ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کےاوپر اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلانا بھی ضروری ہے ،بلکہ اولین فریضہ ہے، اور اگر ہمارے کچھ بھائیوں کو دینی تعلیم و تربیت کا کچھ احساس بھی ہے تو معمولی ،یہی وجہ ہے کہ وہ دینی تعلیم کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جتنی عصری تعلیم کو دیتے ہیں لہٰذا وہ دینی تعلیم پر اتنا خرچ بھی نہیں کرتے جتنا خرچ عصری تعلیم پر کرتے ہیں اور نہ ہی دینی تعلیم کےلئے الگ سے کوئی استاذ وغیرہ رکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں، جب کہ ایک مسلمان کا معاملہ اس کے بر عکس ہونا چاہیے کہ ہمیں دینی تعلیم کے بارے میں عصری تعلیم سے کچھ زیادہ ہی اہتمام اور توجہ دینی چاہیے ، کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں یہ ہماری سعادت کا باعث ہے، میرے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہ دلائیں یا اس سے انہیں محروم کر دیں، نہیں !بلکہ آج کے دور میں تو اس کی بھی سخت ضرورت ہے اورہر اس عصری علم کا طلب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے اور اسلامی سماج کے لئے مفید ہے جیسے انجینیرنگ ،فزکس، کیمسٹری، بائیلو جی ،طب ، فارمیسی، نرسنگ ،ریاضیات، کمپیوٹر وغیرہ بلکہ میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عصری تعلیم کی موجودہ ضرورت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر ظلم نہ کریں بلکہ اس کو عصری تعلیم سے بھی زیادہ اہمیت دیں اور خود اپنے اور اپنی اولاد کے اوپر دینی تعلیم سے غفلت برتنے کا ظلم نہ ڈھائیں-

دینی تعلیم سے بے توجہی: افسوسناک صورت حال:۔ آج دینی تعلیم سے بے توجہی و بے رغبتی بڑھتی ہی جارہی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں و عورتوں کے لئے فرض قرار دیاہو اور جس مذہب میں علم و حکمت سے پر قرآن جیسی کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی اقرا یعنی تعلیم سے ہوئی ہو اسی مذہب کے ماننے والے دینی و مذہبی تعلیم کے میدان میں پیچھے ہوں تعجب کی بات ہے ، قانونِ وراثت کو نصف علم بتانے والے رسول ﷺ کی امت میں اس کا علم رکھنے والے کھانے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔

کہتے ہیں کہ ”ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتا ہے “اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے …اگر گھر کے بڑے بزرگ ہی دینی تعلیم سے تہی دامن ہوں تو وہ اپنے نونہالوں کی کیا ذہن سازی کریں گے ؟ مسلمانوں کے گھروں میں دینی تعلیم کی کمی افسوسناک حد تک ہے، آج مسلمانوں اور ان کے بچوں کو قرآن و حدیث کے پڑھنے اور اس کے مطالعہ کی فرصت ہی نہیں ،لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر ہی نہیں کرتے جو زندگی گزار نے کے لئے ضروری ہے ،ہر طرف دیناوی علوم کے حصول کاشورہے …ہر فرد اسی تاک میں ہے کہ کیسے اعلی دنیاوی تعلیم حاصل کر کے نوکری (جوب ) کرلے اورزیادہ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرے… اسلام اسکی راہ میں حائل نہیں ہے، بےشک یہ بھی اچھی پیش رفت ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ دینی تعلیم توبنیاد ہے اور عصری تعلیم دیواریں ،بنیاد کے بغیر دیوار کا تصور احمقانہ تصور کہلائے گا ۔

دینی تعلیم سے غفلت کا انجام : موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان رفتہ رفتہ اسلامی تعلیم سے دوری اور بے زاری بڑھتی جارہی ہے، جب کہ اللہ وحدہ لا شریک نے ان افرادکی مذمت بیان کی ہے جو آخرت کے علم سے غفلت برتتے ہیں اور صرف دنیا کے ظاہری علوم سے واقف رہتے ہیں جیسا کہ اللہ عز وجل کا فرمان عالی شان ہے”یعلمون ظاہرا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون“ترجمہ: وہ تو دنیاوی زندگی کے کچھ ظاہر کا علم رکھتے ہیں جب کہ آخرت (کے علم ٌ) سے بالکل بے خبر ہیں (سورۂروم :۷) لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کفار کی طرح صرف دنیاوی علم کو اہمیت نہ دیں بلکہ سب سے پہلے لازمی دینی علم کو اہمیت دیں یا کم از کم دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھیں ۔

دینی علم سے غفلت برتنے والا اور محض دنیوی علم کو اہمیت دینے والا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اللہ عزوجل کی محبت سے محروم اور اللہ عزوجل کی ناپسندگی کا شکار بھی جیسا کہ رسول ْﷺ نے ارشاد فرمایا : ”ان اللہ یبغض کل عالم بالدنیا جاہل بامر الآخرۃ“ترجمہ: یقینا اللہ عزوجل ہر اس آدمی کو نا پسند کرتا ہے جو دنیا کا علم تو اپنے پاس رکھتا ہے لیکن آخرت کے علم کے بارے میں جاہل ہے (دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت اور حصول علم کے آداب ص/۲۱)

علم دین کی ضرورت کیوں؟ یہ ایک اہم سوال ہے ،صاحبان علم و دانش نے شرح و بسط کے ساتھ اس کے بہت سارے جوابات تحریر کئے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ علم دین کی ضرورت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے سمجھ میں آ رہا ہے ”وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون“(طور ۵۲/۵۶ ) ترجمہ : اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں …اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق عبادت کے لیے کی گئی ہے اور علم کے بغیر عبادت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے علم کا حاصل کرنا فرض ہوا ۔ نیز قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اپنے محبوب ﷺ کی پیروی کا حکم فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے”ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا “ترجمہ : جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آدمی کے پاس دینی تعلیم نہیں ہوگی تو وہ نہ تو آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنا سکتا ہے اور نہ ہی منع کی ہوئی باتوں سے خود کو روک سکتا ہے ، اس لیے ضروری ہوا کہ علم حاصل کرے تاکہ حضور ﷺ کی اتباع و فرماں برداری کر سکے ( علم دین کی اہمیت ص/ ۵ )

دینی تعلیم سے بیزاری کیوں؟ آج ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مظبوطی سے قائم ہیں اور ہم مسلمان بحیثیت مسلمان کہا ں جارہاہے ہیں ؟ ہماری منزل کہاں ہے؟ ہمارا انتخاب کیا ہے؟ ہمارا نصب العین کیا ہے؟ اور کیاہونا چاھئے کچھ پتہ نہیں ،دینی تعلیم سے بےزاری کا گلہ کس سے کیا جائے ؟کیاہماری بربادی، تنزلی اور مغلوبیت کا باعث دینی علوم کا ترک نہیں ہے ؟ہم نے یہ سوچنا کیوں چھوڑ دیا کہ دینی تعلیم ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی سے تنگ و تاریک دل کشادہ اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ہم یہ خیال کیوں نہیں کرتے کہ دینی تعلیم کی بساط پر ہی ہماری دنیا وآخرت سنور سکتی ہے۔ ہم کیوں نہیں یقین کرتے کہ دینی تعلیم کے بل پر ہی ہماری نیا منجھدار سے نکل کر ساحل سکون پر لگ سکتی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اللہ عزوجل کے فضل سے روزی روٹی کا مسئلہ بھی اس سے حل ہو جائے گا ۔ ہم دینی تعلیم کے بغیر شریعت کے تقاضے ،مطالبات اور پیغامات کو کیسے سمجھیں گے ؟کیا ہمیں قرآن کو قرٓآن کی طرح پڑھنے کی فکر نہیں کرنی چاہئے ؟کیا ہم دینی تعلیم کے بغیر نماز و روزے او ردیگر عبادات کی روح کو سمجھ سکتے ہیں ؟کیا ہم دینی علوم کے بغیر حلال و حرام کے درمیان صحیح فرق کرسکتے ہیں؟ نہیں !ہر گز نہیں۔ اس کے باوجود قوم مسلم دینی تعلیم سے بیزار کیوں ہے ؟جب کہ قوم مسلم کی دینی تعلیم سے بے توجہی و بےزاری کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک پوری نسل ہی دین سے ہی بے زار نظر آتی ہے، ان کو اپنے دین کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہے، وہ صرف نام کے مسلمان ہیں، خوف ِخدا ان کے اندر سے مفقود ہے ، فرائض پر عمل کرنا ان کے لئے بارگراں ہے چہ جائے کہ وہ سنتوں اور نوافل پر عمل پیرا ہوں ،اور دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو سمجھیں اور علم دین خود سیکھیں اور اپنے بچوں اور متعلقین کو بھی ضروری و بنیادی دینی تعلیم دلانے کے لئے اُتنی ہی محنت کریں بلکہ اس سے زیادہ محنت کریں جتنی محنت ہم عصری تعلیم دلانے کے لئے کرتے ہیں، اور دینی تعلیم کی نشرو اشاعت اور اسے گھر گھر پہچانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس جذبۂ محبت کے ساتھ کہ ؎

یہی ہے آرزوکہ تعلیم قرآں عام ہو جائے
ہر ایک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے

چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سےجہل کی تاریکیاں مٹائیں گے

امجدی ڈائری: معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار {موجِ فکر} تحریر:– آصف جمیل امجدی 9161943293

قارئینِ کرام ہم اس موضوع کے دو حصے کرکے آپ کے مشام جاں کو معطر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں دینی مدارس کا کیا کردار رہا ہے،اور کس طرح اس نے سماج کی تعمیر کا کام انجام دیا ہے؟ گویا یہ ماضی کا جائزہ ہے ۔
موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں دینی مدارس سے کس رول کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یعنی اس کام میں یہ مدارس کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک موضوع کے پہلے حصے کا تعلق ہے،یہ ایک ایسی درخشندہ اور تابناک تفصیل ہے۔ جس کی ضیا بار کرنوں سے تاریخ کا ہر صفحہ منور ہے۔ اہلِ نظر اگاہ ہیں کہ مدارس کی تاریخ اس صفہ نبوی سے جڑی ہوئی ہے جہاں سے دنیا کوانسانیت کا درس ملا تھا۔ دنیا کےتمام مدارس اسی سر چشمہ سے فیض یاب ہوتے ہیں اور اسی کے پیغام کو عام کرتے ہیں۔ مدارسِ دینیہ نہ صرف تعلیم گاہ ہیں،بلکہ تربیت کی بھی آماجگاہ ہیں ۔ چنانچہ تاریخ پر سر سری نظر ہی یہ بتا سکتی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ سے کیسےکیسے مردانِ کار نکلے اور انھوں نے سماج کو کن خوبیوں سے آراستہ کیا۔ ماضی کے دریچے سے اگر دیکھا جاۓ تو زندگی کے میدان اور مختلف علوم و فنون کے لیے ماہرین انھیں دینی مدارس سے فراہم ہوۓ۔ مدارس نے ہی قوم کو بڑے بڑے اطباء، ماہر انجینئر، صنعت کار اور فن حرب کے ماہرین دیے۔ اداباء، شعراءاور خطباء یہیں سے نکلے اور دینی علوم کےماہرین کا توکیا کہنا،وہ تو دینی مدارس کی پہچان ہوتے ہیں۔ محدثین، مفسرین، فقہاء اور تمام علوم آلیہ و علوم عالیہ کے ماہرین دینی مدارس کے فیضان ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی منظر نامہ اس سےعلاحدہ نہیں۔ عہدِ سلطنت سے لے کر مغلیہ دور تک اور پھر برطانوی سلطنت کے زمانہ تک یہی دینی مدارس وہ مراکز تھے، جہاں سے سماج کی ہر ضرورت پوری ہو رہی تھی، اس کے مردان کار تیار ہو رہے تھے۔ تعلیم گاہوں کے مسند نشینوں سے لے کر اخلاق و کردار کے معلمین تک، تاجروں اور صنعت کاروں سے لے کر زرعت اور دست کاری کے محنت کشوں تک، غرض سماج کے تمام قسم کے لوگ انہیں مدارس سے تیار ہوکر نکل رہے تھے اور یہ بات توظاہر ہے کہ کوئی بھی سماج انہیں افراد سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر یہاں افراد صالح تھے تو لازمًا سماج صالح بن رہا تھا اور سماج کی صالح تشکیل کا سہرا ان دینی مدارس کے سر بندھ رہا تھا، جہاں سے یہ افراد سماج کو فراہم ہورہے تھے۔
ملک کی آزادی اور آزادی کے بعد سماج کو صحیح ڈگر پر جاری رکھنے میں بھی دینی مدارس کا رول بہت نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد جب یہاں مسلم حکومت باقی نہیں رہی اور یہاں کی مسلم عوام ایک سیکولر نظام حکومت کے تحت آگیے، ان کے دین و ایمان، اسلامی احکام، اس کے شعائر اور اسلامی شناخت کے تحفظ کا بیڑا ان دینی مدارس ہی نے اٹھایا۔ آج یہ حقیقت ایک زندہ مثال کی شکل میں موجود ہے کہ یہاں جو کچھ اسلام کی شادابی اور اس کی رونق موجود ہے وہ ان مدارس اور اس کے فضلاء کی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مدارس اور اس کے فضلاء نے مسلم عوام الناس کا رشتہ اپنے دین سے باقی رکھا۔ سماج کی اصلاح کے پروگرام میں مساجد میں جمعہ کے خطبات اور مختلف تقاریب کے موقع پر اصلاحی تقاریر کا بڑا حصہ ہے اور یہ بزم بھی مدارس اور اس کےنونہالوں سے آراستہ رہتی ہے۔
ماضی میں معاشرہ کی تشکیل اور اس کی اصلاح میں مدارس دینیہ کے رول پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ اس باب میں بہت کچھ کہنے کے سامان موجود ہیں، لیکن اس مختصر تحریر میں ہم اس پہلو کو انہی اشاروں پر بس کرتے ہوۓ دوسرے پہلو کی طرف اتے ہیں۔ کہ ماضی کو دیکھنے اور اس کا جائزہ لینے کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔
اگر ہم اس پہلو پر غور کریں کہ زمانہ کس رخ پر گامزن ہےاور فساد بگاڑ کن کن راہوں سے ارہا ہے، اصلاح و تربیت کے لیے آج کن عناصر کی ضرورت ہے، سماج کو کس طرح کی ضرورت در پیش ہے، معاشرہ میں بسنے والوں کو کیسے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، اس صورتِ حال میں دینی مدارس اور ان کے فضلاء کی ذمہ داری بہت کچھ بڑھ جاتی ہے، سماج کی اصلاح اور معاشرے کی تعمیر کے لیے انہیں ازسرنو اپنی تیاریوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ایسی تیاری جو زمانے کے تقاضے کے مطابق ہو، جو زمانہ کی زبان اور اسلوب سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اسی زبان میں جواب دینے کی طاقت سے اراستہ بھی ہو۔ آج ضرورت ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء دور جدید کے مسائل کو سمجھیں جدید سوالات سے آگاہ ہوں، جدید اصطلاحات سے واقف ہوں ۔ یقینا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے ہر درد کا مداوا اسی دین حنیف میں ہے اور سماج کی تمام تر مشکلات کا علاج بھی اسی دین کی تعلیمات فراہم کرسکتی ہیں۔ لیکن یہ تعلیمات جن افراد امت کے پاس ہیں وہ ان کو آج کے اسلوب میں پیش کرنے کی صلاحیت حاصل کریں تو کہا جاسکےگا کہ دینی م

دارس کے فضلاء معاشرہ کی اصلاح کا وہ کردار ادا کرسکیں گے جو ان کا امتیاز رہا ہے۔
یہاں ایک بات یہ قابل ذکر ہے، کہ اصلاح خواہ سماج کی ہو یا فرد کی، اس کے لیے گفتار کے ساتھ کردار کی کشش لازمی ہوتی ہے۔ دینی مدارس اور ان کےفضلاء جب معاشرہ کی اصلاح کا علم لے کر اٹھیں گے تو ضروری ہوگا کہ وہ اپنے کردار کا بھی ایسا نمونہ پیش کریں، جو خود اصلاحِ معاشرہ کی دعوت ہو۔