WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category باڑمیر (راجستھان)

بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی دھیان دیں:پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری

رپورٹ:علی محمدقادری انواری خادم:مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی، بھونی کاپار، تحصیل گڈرا روڈ ضلع باڑمیر(راجستھان)

22 ذی القعدہ 1443 ھ مطابق 23 جون 2022 عیسوی بروز جمعرات مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی دینی وعصری، تعلیمی وتدریسی،تربیتی اور مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف” کی تعلیمی شاخ “مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی بھونی کاپار تحصیل گڈرا روڑ ضلع باڑمیر” میں ایک “دینی واصلاحی مجلس مشاورت” دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی سرپرستی میں منعقد ہوئی-
واضح رہے کہ یہ مجلس مشاورت دارالعلوم کے ارکان کی تحریک اور دارالعلوم کی تعلیمی شاخ “مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی بھونی کاپار” کے ذمہ داران بالخصوص فقیر علی محمدقادری انواری مدرس مدرسہ ہٰذا کی درخواست وگذارش پر دارالعلوم کی مذکورہ تعلیمی شاخ میں تعلیمی وتعمیری میدان میں بہتری لانے اور لوگوں کے دلوں میں دینی تعلیم کی اہمیت وفضیلت اور دینی جزبہ پیداکرنے بالخصوص مسجد ومدرسہ کو باقاعدہ آباد کرنے کی خاطر منعقد کی گئ تھی-
مجلس کی شروعات حضرت مولانا محمددائم صاحب انواری کے ذریعہ تلاوت کلام ربانی سے کی گئی، بعدہ مولوی ابوبکر انواری متعلم درجۂ فضیلت دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نذرانہ پیش کیا،پھر ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے لوگوں کے سامنے اس مجلس مشاورت کے اغراض ومقاصد کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی آبادی کی مسجدومدرسہ کو باقاعدہ آباد کرنے اور اس کی مزید تعمیروترقی کی طرف دھیان دینےکی تاکید وتلقیں کی-
آخر میں سرپرست مجلس نورالعلماء رہبرقوم وملت حضرت علامہ الحاج پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے سبھی شرکائے مجلس کو اپنے ناصحانہ خطاب سے نوازا،آپ نے اپنی نصیحتوں کے دوران خصوصیت کے ساتھ ان باتوں پر زور دیا:اپنے بچوں کے دینی وعصری تعلیم پر خصوصی توجہ دیں بالخصوص دینی تعلیم پر، تعلیم کے ساتھ بچپن سے ہی ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں، کیونکہ بچوں کی تربیت پر دھیان دینا انتہائی ضروری ہے،اکثر لوگ یہ کہہ دیاکرتےہیں کہ جب بچہ بڑا ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہوجائےگا، جب کہ صحیح اورتجربہ کی بات یہ ہے کہ جو بچہ بچپن میں تمیز نہیں سیکھتا وہ بڑا ہوکر بھی جلدی تمیز نہیں سیکھ پاتا،اگر بچوں کو بچبن سے ہی اچھی تعلیم وتربیت دی جائے تو وہ بڑے ہوکر بھی اچھی زندگی بسر کریں گے اور ایسے بچے سماج وملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے،ہمیں چاہییے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دین کی طرف بالخصوص دینی تعلیم کی طرف راغب اور متوجہ کریں،کیونکہ سبھی والدین اور گارجین کے لیے یہ لازم وضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں،انہیں اچھاانسان بنائیں،ان کی اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں خصوصی طور پر انہیں دینی تعلیم وتربیت سے ضرور آراستہ کریں-اس کے لیے الحمدللہ آپ حضرات نے اپنی آبادی میں ایک اچھے مکتب کا قیام کیاہے،ماشاءاللّٰہ اس مکتب میں طلبہ وطالبات کی اچھی تعداد ہے جو اپنے آپ کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں-
آپ نے دوران نصیحت یہ بھی فرمایا کہ آپ حضرات اپنی آبادی کی مسجد ومدرسہ اور ان کے مدرس وامام پر خصوصی دھیان دیں،نماز پنجگانہ کے پابند بنیں،اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی نماز ودیگر ارکان اسلام کی حتی الوسع دعوت خیر دیں،اپنے گاؤں میں دینی واسلامی ماحول قائم کریں،اپنے مسجد کے امام اور مدرسہ کے مدرس کی خوب خوب خدمت کریں، ان کی عزت افزائی کریں،ہر طرح سے ان کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے برابر مسجد ومدرسہ کی خبرگیری کرتے رہیں،اور مدرسہ کے لیے کم ازکم ایک کشادہ ہال اور اپنے مدرس کی رہائش کے لیے ایک کمرہ ضرور تعمیر کروانے کی کوشش کریں،آپس میں اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کریں اور مسجد ومدرسہ کے معاملہ میں کسی طرح کی بھی سیاست سے دور رکھیں،دینی کاموں میں سب لوگوں بھائی بھائی بن کر جوش وجزبہ کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں،مسجد ومدرسہ میں خرچ کیا ہواآپ کا مال صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتاہے اس لیے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے مسجدومدرسہ کی تعمیر وترقی میں حتی الامکان حصہ لیں،دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول پر بھی خوب خوب توجہ دیں،اپنے بچوں کو دنیاوی اعتبار سے بھی عصری تعلیم کے ذریعہ اعلیٰ مناصب پر فائز کرنے کی کوشش کریں،آپ نے اس طرح کی بہت سی مفید باتیں اور مشورے لوگوں کے سامنے رکھیں جس پر لوگوں نے عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی،آخر میں آپ نے لوگوں بالخصوص مدرسہ کے ذمہ داران ومدرسین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی جو پورے علاقۂ تھار میں 80 تعلیمی شاخیں چل رہی ہیں ہم ان شاخوں کی کامیابی اس وقت تصور کرتے ہیں جب ان مکاتب کے مدرس اپنے مکتب سے ناظرہ قرآن اور اردو وغیرہ پڑھا کر سال بہ سال کچھ بچوں کو دارالعلوم میں حفظ وقرات یا عالمیت کا کورس کرنے کے لیے دارالعلوم بھیجتے ہیں اس لیے آپ سے بھی گذارش ہے کہ آپ سالانہ کچھ ہونہار طلبہ کو اس لائق ضرور بنائیں کہ وہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ میں داخلہ لے کر حافظ وقاری یا عالم دین بن سکیں،الحمدللہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں جہاں عالم وفاضل تک پڑھائی کا نظم ونسق ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ دسویں کلاس [ہائی اسکول] تک عصری تعلیم کا بھی بندوبست ہے،اور ان شاءاللہ العزیز عنقریب بارہویں کلاس[انٹر میڈیت] کی منظوری راجستھان حکومت کی طرف سے مل جائےگی-
الحمدللہ یہ مجلس مشاورت امید سے زیادہ کامیاب اور معنیٰ خیز رہی، گاؤں کے لوگوں نے جوش وجذبہ اور خلوص ومحبت کا خوب خوب اظہار کیا-
اس مجلس میں علمائے کرام کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
جناب محمداحسان صاحب،محمد رمضان ،محمدامین،حاجی عبدالرحیم، ماسٹر عبدالملوک،محمد امین خان،محمدمرید وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور قبلہ پیر صاحب کی دعاؤں پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

مہمان نوازی امت مسلمہ کی ایک عظیم خوبی, از:(مولانا)علم الدین قادری انواری استاذ:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ماں کی گود سے لےکر قبر تک کے تمام معاملات ِ زندگی کے ہر پہلو کا بیان دین اسلام میں موجود ہے۔دین اسلام نے مہمان نوازی کے بارے میں جو بہترین قانون بنائے ہیں یا جس خوبصورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا پابند بنایا ہے ۔دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی

حضور ﷺکا فرمان ہے کہ ”جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کی تعظیم کرے“(ترمذی)

سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمان نوازی فرمائی، آپ کی مہمان نوازی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید میں یوں فرمایا ہے ترجمہ :اور بے شک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے سلام کہا تو ابراہیم علیہ السلام نے سلام کہا پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھُنا ہوا بچھڑا لے آئے (سورہ ہود :۶۹ )

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ”نوجوانوں کی حسین شکل میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے ،فرشتوں نے سلام کہا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواب میں سلام کہا ،پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے “(جلد /۶ص/۱۶۱)

مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اتنے بڑے مہمان نواز تھے کہ بغیر مہمان کے کھانا بھی نہیں کھاتے تھے ،کسی نے آپ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلیل کس وجہ سے بنایا ؟

حضرت ابراہیم نے فرمایا:کچھ وجوہات کی بنا پر ان میں تیسری وجہ یہ تھی کہ میں نے صبح اور شام کا کھانا کبھی بھی مہمان کے بغیر نہیں کھایا ،کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ آپ علیہ السلام ایک ایک میل پیدل چل کر مہمان تلاش کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے ،لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ مہمان خود چل کر ہمارے گھر آتا ہے تب بھی ہم ان کی خدمت کرنے سے کتراتے ہیں !

ہمارے آقا و مولیٰ ﷺنےاپنے غلاموں کو مہان نوازی کی تعلیم دی ہے حدیث کی کئی کتابوں میں نبی پاک ﷺکے ارشاد ات موجود ہیں، کچھ حدیثوں کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں! مہمان نوازی پر جنت کی خوشخبری: حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ بنی پاک ﷺنے فرمایا:جو بندہ نماز قائم کرے ،زکوٰۃ اداکرے ،رمضان کے روزے رکھے ،اور مہمان کی میزبانی کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(الترغیب و ترھیب )

مہمان نوازی پر رحمت کی برسات:

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا :تم میں سے جب کسی کا دستر خوان بچھا رہے (مہمان کھاتے رہیں )تب تک فرشتے اس کے لئے دعا ئے مغفرت کرتے ہیں (ایضا)

مہمان نوازی پر خیرو برکت کا نزول :

حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِرحمت نے فرمایا:جس گھر میں کھانا کھِلایا جاتا ہے اس گھر میں خیرو برکت اس سے بھی تیز اور جلدی سے آتی ہے جتنی جلدی اور تیز ی سے اونٹ کی کوہان پر چھری چلتی ہے (ایضا)

جو حاضر ہو مہمان کے سامنے پیش کردے : حضور کے کچھ صحابہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے روٹی اور سرکہ پیش کیا ،اس سے معلوم ہوا کہ گھر میں جو کچھ موجود ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے ،اگر کوئی اسے اپنی تحقیر سمجھے تو یہ اس کے لیے بربادی ہے

اور مہمان کو چاہیے کہ جو کچھ پیش کیا جائے اسے حقیر خیال نہ کرے ورنہ اس کے لئے بھی بربادی ہے ۔موجودہ دَور میں یہ حال ہے کہ بے چارے میزبان سے جتنا ہو سکا مہمان کی خدمت کی مگر مہمان جب وہاں سے لَوٹتا ہے تو جگہ جگہ میزبان کی برائیاں بیان کرتا ہے اور یہ کہتا پھرتا ہے کہ اس نے تو کوئی ڈھنگ کا کھانا ہمیں نہیں کھِلایا ،اسے میزبانی کہتے ہیں ؟

اس نے تو جان چھُڑائی ہے یہ کہکر میزبان کو بدنام کیا جاتا ہے ،یاد رہے !یہ مہمان کے لئے بربادی ہے ،مہمان کو اس کام سے بچنا چاہئے، اگر کوئی میزبان کی تعریف نہیں کر سکتا تو کم سے کم برائیاں تو نہ کرے ۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے: حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: کہ سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ۔ مہمان کے ہاتھ میزبان دُھلائے:مہمان کے ہاتھ دُھلانا بزرگان دین کی سنت ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے استاذ امام مالک علیہ الرحمہ کے مہمان بنے تو حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور ان سے فرمایا یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ اس بات کو ذہن میں بسا لو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے ۔

مہمان نوازی کی اہمیت کا اندازہ اس بھی ہوتا ہے کہ محبوب خدا ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی زرہ گروی رکھ کر یہودی سے آٹا قرض لیا !اور مہمان نوازی فرمائی

یہیں تک بس نہیں بلکہ حضور ﷺکی زندگی میں کئی ایسے دن بھی آئے کہ آپ اور آپ ﷺکے گھر والے کئی دنوں تک بھُوکے رہتے لیکن مہمان کو بُھوکا نہیں جانے دیتے ،مہمان نوازی کا یہی جزبہ صحابۂ کرام کے اندر بھی تھا خود پیٹ پر پتھر باندھ کر سو جاتے مگر مہمان کو بُھوکا نہیں جانے دیتے ،اپنے بچے بُھوکے رہ جائیں یہ تو برداست کر لیتے مگر مہمان بُھوکا جائے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

مسلم شریف کی ایک حدیث کا مفہوم پیش کرتا ہوں کہ سرکار ﷺکی بارگاہ میں ایک مہمان آئے آپ نے گھر سے کھانا منگوایا نہیں ملا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا :کون آج اس شخص کی مہمان نوازی کرے گا ؟اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے گا حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں مہمان نوازی کروں گا

پھر حضرت ابو طلحہ اس شخص کو لے کر اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا :کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟بیوی ام سلیم کہنے لگیں صرف بچوں کے حصے کا کھانا ہے

حضرت ابو طلحہ بولے: تم انہیں کسی چیز سے بہلا دینا اور جب مہمان آئے تو چراغ بجھادینا تاکہ مہمان کو پتہ نہ چلے کہ ہم کھانا نہیں کھا رہے ہیں، چنانچہ ان کی زوجہ نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ مہمان نے کھانا کھالیا ،اگلے دن حضور ﷺنے اس صحابی سے فرمایا :کل کی تمہاری مہمان نوازی تمہارے رب کو بہت پسند آئی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ام سلیم کے اندر مہمان نوازی کا کیا جزبہ تھا،بچوں کو بُھوکا سُلادیا لیکن مہمان کو پیٹ بھر کِھلایا ،اگر ان کی جگہ آج کی عورتیں ہوتیں تو شوہر سے لڑ لیتیں اور جواب میں کہتیں کہ ہمارے بچے بُھوکے سوئیں اور مہمان کھائے یہ نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہماری عورتوں کو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسا جزبہ نصیب فرمائے ۔ آمین

کہیں ہمارے اندر یہ برائیاں تو نہیں؟از:(حافظ) برکت علی قادری مدرس شعبۂ حفظ:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

آج جس ماحول اور معاشرہ میں ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اسلامی طرزِ زندگی سے تعلق نہایت ہی کمزور ہو چکا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے خیالات،احساسات، اخلاقیات، معاملات، عبادات، غرض کی ہر شعبۂ زندگی میں ابتری و بدحالی نظر آتی ہے، آج ہم کہنے کے تو مسلمان ہیں مگر الا ماشاء اللہ ہماری اکثریت دین اسلام سے بے بہرہ ہے،خاص طور پر عمل کے میدان میں تو ہم انتہائی پیچھے ہیں،کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اسلام سے رشتہ صرف نام کی حدتک رہ گیا ہے- گزشتہ امتوں میں جو برائیاں انفرادی طور پر پائی جاتی تھیں آج بدقسمتی سے وہ تمام برائیاں اجتماعی و انفرادی دونوں طریقے پر موجود ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمانہ بھر کے لیے ایک مسلمان کا کردار اسلام کی خوبیوں کا آئینہ ہوتا، لیکن افسوس کے ساتھ آج اس حقیقت کے اعتراف سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی کہ ہم مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اسلام پر بھی لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں حالانکہ کسی بھی مسلمان کی بد اعمالیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام تو ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے بچنے کی سخت تاکید و تلقین کرتا ہے آئییے ہم آپ کے سامنے کچھ اہم برائیاں پیش کرتے ہیں کہ اگر خدا نہ خواستہ ہم ان برائیوں و بیماریوں میں مبتلا ہوں تو ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں-

کہیں ہمارے اندر یہ بیماریوں تو نہیں؟ ★ نماز نہ پڑھنا، نماز میں کوتاہی کرنا، سنت کے خلاف پڑھنا، گانے گانا،گانا سننا-★جھوٹ بولنا یا جھوٹ پر عمل کرنا-★ غیبت کرنا یا غیبت سننا-★دوسروں پر ناحق تہمت لگانا،کسی کو بلا وجہ بدنام کرنا-★اپنے عیبوں کو خوبی سمجھنا اور اپنے عیبوں اور گناہوں کے لئے جواز تلاش کرنا و بہانے بنانا-★ دوسروں کے عیوب تلاش کرنا، دوسروں کے عیبوں کی تاک میں رہنا- ★رزق کے حصول میں بے پرواہی کرنا،حلال و حرام میں تمیز نہ کرنا- ★چغلی کرنا، چغلی سننا، چغلی پر عمل کرنا، ایک دوسرے میں نفرت پیدا کرنا، لوگوں کے درمیان آپس میں پھوٹ ڈالنا- ★ ایک دوسرے پر جادو وسحر کرنا یا کروانا- ★رشوت کو گفٹ کے نام لینا دینا- ★ٹی وی پر فحش پروگرام دیکھنا، ٹی وی دیکھنے والے کو معاشرے کا اعلیٰ فرد تصور کرنا یا معزز سمجھنا- ★سنت سے نفرت کرنا، سنت پر چلنے والوں کو بےوقوف اور کم تر سمجھنا، حقارت سے دیکھنا، خلاف سنت کام کرنے والوں کو معزز سمجھنا، یہود ونصاریٰ کے طریقوں کو اچھا سمجھنا، اس کی قدر کرنا- ★غیروں کے لباس وکلچر کی مشابہت اختیار کرنا، داڑھی نہ رکھنا، داڑھی منڈانے والوں کو معزز اور انہیں خوب صورت سمجھنا-★گناہ کو گناہ نہ سمجھنا، اعلانیہ گناہ کرنا اور اس پر فخر کرنا، سنت پر عمل کرنے سے گھبرانا یا شرمانا-★کسی سے حسد کرنا ،بغض،حسد اور کینہ رکھنا- ★کھڑے ہو کر پانی پینا یا کھاناکھانا-★والدین کی نافرمانی کرنا، والدین کو جاہل و بےوقوف سمجھنا، ان کو حقارت سے دیکھنا، بیوی کا غلام بننا-★بد نظری کرنا، نا محرم عورتوں کو دیکھنا، نا محرم مردوں کو دیکھنا، اپنے بدن کی نمائش کرنا، غیر محرم کا دل لبھانا یا اسے متوجہ کرنا- ★پردہ نہ کرنا، باریک لباس پہننا، تنگ یا چست لباس پہننے والیوں کو معاشرے کی معزز خواتین سمجھنا، با پردہ عورت اور باحیا لباس پہننے والیوں کو بیوقوف، جاہل اور حقیر سمجھنا-★دھوکہ دینا اور دھوکے باز کو عقل مند سمجھنا-★اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بےوقوف اور گھٹیا سمجھنا- ★ڈانس سیکھنے سیکھانے پر فخر کرنا، اپنے کو بڑا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا-
جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج اور اچھی صحت کے لیےاچھی غزا اورصاف پانی و ہواضروری ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی نہایت ضروری ہے مثال کے طور پر آپ کے پاس ایک انڈہ ہے اور ان گناہوں کو آپ سوئیاں تصور کریں پھر ان سوئیوں سے انڈے میں سوراخ کریں تو کیا پھر بھی انڈہ صحیح سالم رہے گا؟ ظاہر ہے کی ہرگز نہیں یا کسی آدمی کو کینسر، شوگر،ٹی بی، یرقان، نزلہ زکام اور بخار ہو تو کیا وہ پھر بھی اپنے آپ کو صحت مند تصور کرے گا؟ ہرگز نہیں،اس لیے آج بھی وقت ہے! آئیں ہم سب اپنے گناہوں سے توبہ کر کے نیک کاموں کی انجام دہی میں لگ جائیں تاکہ ہمیں کامیابی نصیب ہو جائے اور یہی حکم ربی بھی ہے، جیسا کہ فرمان خداوندی ہے، اور سب مل کر توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ’ (سورۃ النور)
اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم سچی توبہ کریں اور پھر توبہ پر قائم رہیں، اللہ کے خوف کو ہمیشہ پانی جیسا ضروری سمجھیں، استغفار کو اپنا لباس سمجھیں،موت کو حاضر سمجھیں، دنیا کو معمولی، دارالعمل اور مسافر خانہ سمجھیں، اور سنت کو اپنی جان سے بھی زیادہ مقدس سمجھیں، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت قرآن کو اپنا سانس سمجھیں، زبان سے ذکر کریں اور دل و دماغ سے غور و فکر کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ قرآن وسنت کا خوبصورت گلدستہ ہمارے ہاتھوں سے گر جائے، اپنے گناہوں پر روتے رہیں،معافی مانگتے رہیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں، تعوذ اور لاحول پڑھتے رہیں، استغفار اور مغفرت طلب کرتے رہیں، اور استغفار پر مشتمل ذکر بھی کریں، زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں، تاکہ ہمارے اعمال پر درود شریف کی خوشبو کا چھڑکاؤ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھیں پھر دیکھیں کی ارحم الراحمین دونوں جہانوں کی خوشیاں دیتا ہے کہ نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو” آپ بتائیں جب ہمارے گھروں میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے قہر و عضب کا بھرا ہوا ٹرک ٹی وی موجود ہے جس میں ہم فحش پروگرام دیکھتے رہتے ہیں تو اللہ کی رحمت کی امید کیسے رکھیں گے؟ کیا آگ اور پانی کی دوستی ممکن ہے؟ اسی گھر میں ٹی وی یا موبائل پر غلط پروگرامات بھی چل رہے ہیں اور اسی گھر میں دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں ہاۓ افسوس! ہر گھر میں کتنی پریشانیاں ہیں پریشانیوں کی وجہ سے ہر آدمی کا دم گھٹ رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایمان میں بے برکتی کا ڈاکو ٹی وی اور دیگر خرافات کو ہم گھر سے نہیں نکالتے!
آج کے مسلمانوں کو ٹی وی ناچ گانے اور غیر شرعی چیزوں سے محبت ہے’اگر کسی آدمی سے بولو کے رات کو دو بجے اٹھ جاؤ اور دو رکعت نفل پڑھ لو تو شاید ہی اس کے لئے وہ تیار ہو جائے، ماں کو گھر سے نکال دو اس کے لئے تیار ہے مگر کسی کو کہ دو کہ ٹی وی کو گھر سے نکال دو یا جو بھی بداعمالیاں ہے یا غلط باتوں کے ہم مرتکب ہیں ان کو چھوڑ دو اور اس سے توبہ کر لو تو اس کے لئے ہم تیار نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہمیں اور اس دور کے لوگوں کو باقاعدہ اپنی موت کا یقین نہیں-[افسوس صد افسوس]
ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کی بداعمالیوں سے خود کو اور اپنے بال بچوں اور رشتے داروں کو بچانے کی کوشش کریں اور یہی اللہ رب العزت کے فرمان کا مطلب بھی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے”تم لوگ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ”
اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور نیک کاموں کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین!)

بندگان خدا کو دین وشریعت کا پیغام پہنچانا اور انہیں اللہ سے جوڑنا اولیاء اللہ کا اصل مشن:سیدنوراللہ شاہ بخاری

آچارانیوں کی ڈھانی،اندروڑ میں حضرت مخدوم نوح سرور کی یاد میں جلسہ

(باڑمیر،راجستھان[پریس ریلیز])یقیناً کسی بھی بزرگ کی یاد منانے اور ان کو ایصالِ ثواب وبلندئِ درجات کی دعا کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین اور معتقدین وغیرہ کا ان کے نام سے منسوب محافل ومجالس کا انعقاد کرنا اور ایسی مجالس میں ذکرُاللّٰہ ، نعت خوانی اورقرآنِ پاک کی تلاوت،علمائے کرام کے ذریعہ وعظ ونصیحت اور اللہ ورسول کے احکام وفرمودات اور بزرگان دین کے احوال پر مشتمل بیانات اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو جو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے وہ بلاشبہ جائز و مستحسن ہے-
کیونکہ اس طرح سے بزرگان دین کی یادگیری کرنے کا اصل مقصد ان کو ایصال ثواب کرنے کے ساتھ ایسی مجالس خیر کے ذریعہ لوگوں تک اللہ ورسول اور بزرگان دین کے پیغامات کو پہنچانا اور لوگوں کو دین وشریعت کے قریب کرنا،اور لوگوں کے اندر دینی جذبہ بیدار کرنا ہوتاہے-
مذکورہ خیالات کا اظہار 31 مئی 2022 عیسوی سہ شنبہ کو آچارانیوں کی ڈھانی،اندروڑ،باڑمیر میں سروری جماعت وجملہ مسلمانانِ اہلسنت کی طرف سے حضرت مخدوم شاہ لطف اللہ المعروف مخدوم نوح سرور ہالائی علیہ الرحمہ کی یاد میں منعقدہ عظیم الشان اجلاس میں مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی مرکزی دینی،تربیتی وعصری درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور “خانقاہ عالیہ بخاریہ” سہلاؤشریف کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے کیا-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے بالاختصار حضرت مخدوم نوح سرور ہالائی علیہ الرحمہ کے حالات زندگی کو بھی کچھ اس طرح بیان فرمایا کہ آپ حضرات نے جس بزرگ کی یاد میں اس محفل کا انعقاد کیا ہے وہ حضرت مخدوم نوح سرور ہالائی علیہ الرحمہ ہیں جن کا شمار بلاشبہ ارضِ سندھ کے مشہور وبزرگ صوفیاء میں ہوتا ہے۔
آپ کااسمِ گرامی لطف اللہ اور لقب مخدوم نوح سرور اور والد کا نام حضرت نعمت اللہ شاہ ہے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔آپ کے جدِ اعلیٰ شیخ ابوبکر بوبک (ضلع دادو) کے مقام پر آباد ہوئے۔
حضرت مخدوم نوح سرور کی ولادتِ باسعادت 27 رمضان المبارک 911ھ بروز جمعہ مبارکہ صوبۂ سندھ کے موجودہ مٹیاری ضلع کے شہر وتعلقہ ہالا میں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمِ لدنی سے مالا مال فرمایا تھا۔ آپ کا شمار سندھ کے سرکردہ اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ ہر شخص سے اس کے حسبِ حال خود ہی گفتگوکا آغاز فرماتے اور برمحل قرآنی آیات سے استدلال فرماتے۔قرآن مجید کے معانی و مطالب اس انداز سے بیان فرماتے کہ جید علماء کرام بھی دم بخود رہ جاتے۔بزرگانِ دین کے احوال و آثار کا ذکر ایسے پر تاثیر انداز میں فرماتے کہ سامعین کو رجوع الی اللہ کی دولت حاصل ہوجاتی۔
آپ کی کرامات بچپن ہی سے ظاہر ہوگئی تھیں جن سے آپ کا مادر زاد ولی ہونا ثابت ہوگیا۔ منقول ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز قریبی مسجد سے اذان کی آواز آئی، آپ جھولے میں آرام کررہے تھے، جب اذان ختم ہوئی آپ نے بزبانِ فصیح کہا: نعم : لا الہ الا اللہ ولا نعبد الا ایاہ مخلصین لہ الدین

ایک مرتبہ حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ایک صاحب حاضرِ خدمت ہوئےاور کہا کہ میں آپ کو خلافت دینے اور فائدہ پہنچانے کے لئے آیا ہوں، میں علم کیمیا بھی جانتا ہوں اگر آپ کہیں تو میں آپ کو کیمیا بھی سیکھا سکتا ہوں، جو شاید کسی وقت آپ کے کام آئے۔ آپ نے فرمایا: جس روز سے بارگاہِ نبویﷺ سے مشرف ہوا ہوں دنیا کی ہوس دل سے نکل گئی ہے، یہ کہ کر ایک درہم منگوایااس پر مٹی ملی تو وہ بالکل کھرا سونا بن گیا۔

مخدوم نوح سرور علیہ الرحمہ ستاسی سال کی عمر میں27 ذو القعدہ 988ھ/بمطابق 2 جنوری 1581ء کو واصل الی اللہ ہوئے۔ آپ کا مزارِ پرانوارہالہ کندی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
حضرت نوح سرور علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات پر بالاختصار روشنی ڈالنے کے ساتھ آپ نے سبھی شرکاء جلسہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دنیا میں جتنے بھی اللہ کے نیک بندے یا اولیاءاللہ گذرے ہیں ان کا اصل مقصد اور مشن بندگان خدا کو اللہ سے جوڑنا،دین اور شریعت کے احکام کو پہنچانا اور شریعت اسلامیہ پر لوگوں کو کاربند ہونے کی تاکید وتلقین کرنا ہی رہا ہے- اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہیے کہ ہم بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں یہی بزرگان دین کے ناموں سے محافل کے انعقاد کا اصل مقصد بھی ہے-
آپ کے خطاب سے قبل ریوڑی، باڑمیر کے حضرت مولانا محمد پٹھان صاحب سکندری نے “نماز اور اولیائے کرام” کے عنوان پر بہت ہی ناصحانہ اور تفصیلی وخصوصی خطاب کیا جب کہ خصوصی نعت ومنقبت خوانی کاشرف مداح رسول حضرت قاری عطاؤالرحمٰن صاحب قادری انواری جودھپورنے حاصل کیا-نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری نگراں شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے بحسن وخوبی انجام دیا-
اس دینی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ مندرجہ ذیل علمائے کرام شریک ہوئے-ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،مولانا باقرحسین صاحب قادری انواری،مولانافیروز رضارتن پوری، مولاناعطاؤالرحمٰن صاحب قادری سمیجا بیجل کاپار،مولانا محمدحمزہ قادری نوہڑی سولنکیا،قاری ارباب علی قادری انواری،مولانا سرپنچ فتح محمد انواری،مولانانہال الدین انواری آساڑی،مولانا محمدعرس سکندی انواری وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء حضرت علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر جلسہ اختتام پزیر ہوا-

رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری
آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

جملہ علوم دینیہ کی اصل قرآن وحدیث،قرآن کے بعد صحیح بخاری کادرجہ- سہلاؤشریف میں افتتاح بخاری شریف، رپورٹ:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]


سہلاؤشریف میں افتتاح بخاری شریف، مولاناتاج محمدسہروردی کاخطاب

حسب دستور سابق مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز دینی،تربیتی وعصری درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر،راجستھان” کی عظیم الشان “غریب نوازمسجد” میں 26 شوال المکرم 1443 ہجری مطابق 28 مئی 2022 عیسوی بروز شنبہ انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ “جشن افتتاح بخاری شریف” کا پروگرام منعقد ہوا-
اس پروگرام کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی،بعدہ یکے بعد دیگرے دارالعلوم کے کئی خوش گلو طلبہ نے بارگاہ رسالت مآب میں نعت خوانی کاشرف حاصل کیا-پھر دارالعلوم کے استاذ حضرت مولاناخیر محمدصاحب قادری انواری نے بالاختصار درس بخاری کی عظمت واہمیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ اس پروگرام میں تشریف لائے سبھی حضرات کا شکریہ ادا کیا اور شہزادۂ مفتئِ تھار حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑوا کو دعوت خطاب دیا-آپ نے اپنے خطاب میں حضرت امام بخاری کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بخاری شریف کی جمع وترتیب کی کیفیت وغیرہ پر بھی عمدہ اورمعلوماتی خطاب کیا-
پھر آخر میں قائد قوم وملت تاج العلماء حضرت مولاناالحاج تاج محمدصاحب سہروردی مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم فیض غوثیہ کھارچی نے طلبۂ فضلیت کو “افتتاح بخاری” کی اس تقریب میں بخاری شریف کی پہلی حدیث کادرس ہوتے ہوئے کہا کہ علم قرآن وحدیث تمام علوم دینیہ کی اصل ہیں ،اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ ہم اپنے بچوں کو علوم قرآن وحدیث کی تحصیل پر خصوصی دھیان دیں،پھر آپ نے بخاری شریف پڑھنے کی فضیلت پر بھی شاندار گفتگو کی اور فرمایا کہ بخاری شریف پڑھنے سے اللّٰہ کی رحمتوں کانزول ہوتا ہے،پڑھنے والے کے چہرے پر نورانیت اور شادابی رہتی ہے،آپ نے بھی حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ کی سیرت وسوانح اور بخاری شریف کی جمع وترتیب کی کیفیت اور علم حدیث کی تاریخ پر سیرحاصل بحث کی،سلسلۂ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ حضرت امام بخاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی اور وہ اس سے ظاہر ہے کہ امیرالمومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری نے اپنی پوری زندگی اتباع سنت اور احادیث نبویہ کی تحقیق وتفتیش اور پھر تدریس و اشاعت میں صرف کی،آپ کاقوت حافظہ نرالا اور غیرمعمولی تھا،آپ کو “جبل الحفظ” کہاجاتا تھا،استاد سے جو حدیث سنتے یا کسی کتاب پر نظر ڈالتے وہ آپ کے حافظہ میں محفوظ ہوجاتی تھی،علم حدیث کے ساتھ آپ دیگر کئی علوم وفنون کے ماہرتھے، ساتھ ہی ساتھ آپ نے دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی عمدہ کارکردگی اور اس کی تعمیر وترقی پر دارالعلوم کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ اپنی دعاؤں اور حوصلہ افزاکلمات سے نوازا-ساتھ ہی ساتھ آپ نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ حضرات اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی تحصیل پر خوب خوب توجہ دیں اس لیے کہ تعلیم کے بغیراس دور میں ترقی ناممکن ہے گویا آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی تحصیل پرزوردیا-
صلوٰة وسلام،اجتماعی فاتحہ خوانی اور نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

رپورٹ:محمدشمیم احمدنوری مصباحی
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی سالانہ افتتاحی مجلس مشاورت 22 مئی کو!

حسب سابق امسال راجستھان کے علاقۂ تھار وگجرات میں مغربی راجستھان کی عظیم ومنفرد دینی وعصری دعوتی وتربیتی اور مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر” کے ماتحت وزیر نگرانی چل رہے سبھی مدارس ومکاتب کی سالانہ افتتاحی مجلس مشاورت 20 شوال المکرم 1443 ہجری مطابق 22 مئی 2022 عیسوی بروز:اتوار بوقت:8 بجے صبح دارالعلوم کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں منعقد ہوگی-
اس مجلس مشاورت میں شاخہائے دارالعلوم انوار مصطفیٰ کے سبھی مدرسین کرام کی شرکت لازمی ہوتی ہے-
واضح ہو کہ اس مجلس مشاورت میں شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی گذشتہ کارگزاریاں پیش کی جاتی ہیں اور جن تعلیمی شاخوں کے مدرسین کی کارکردگی بہتر وعمدہ ہوتی ہے ان کی تعریف وتحسین اور انعام واکرام کے ساتھ دیگر مدرسین کرام کو شاخہائے ادارہ کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے نصیحت کرنے کے ساتھ کچھ عمدہ ومفید ہدایات جاری کی جاتی ہیں،اور ساتھ ہی ساتھ اس مجلس میں شاخوں کے مدرسین کی جائز شکایات ومطالبات کو سننے کے بعد ان کے ازالے کی بھی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے اور اگر کسی تعلیمی شاخ کا کوئی مدرس اپنی سابقہ جگہ سے مستعفی ہوکر نئی جگہ کا خواہاں ہوتا ہے تو اسے مناسب جگہ پر تبادلہ بھی کیا جاتا ہے،اور از سرنو کچھ مدرسین وائمہ کی تقرری بھی اسی مجلس مشاورت میں عمل میں آتی ہے،اور اگر کسی نئی آبادی،قصبہ یا گاؤں کے ذمہ داران نئی تعلیمی شاخ کی ارکان ادارہ کو درخواست پیش کرتے ہیں تو باہمی مشاورت اور درخواست دہندہ آبادی کا جائزہ لینے کے بعد نئی تعلیمی شاخ بھی قائم کی جاتی ہے اور اس کی مکمل دیکھ ریکھ ارکان ادارہ بحسن وخوبی کرتے ہیں-
فی الحال دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف کے ماتحت 80 مدارس ومکاتب چل رہے ہیں- دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے ماتحت اس قدر کثیر تعداد میں مدارس ومکاتب کا بحسن وخوبی نونہان اسلام کی تعلیم وتربیت کرنا یقیناً یہ بہت بڑی خدمت ہے-اتنے بڑے پیمانہ پر تعلیم وتعلم کے فروغ اور دین وسنیت کی خدمات جہاں امت مسلمہ کے اہل خیر حضرات کے تعاون کانتیجہ ہے وہیں ادارہ کے موجودہ مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سید نوراللّٰہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی حکمت عملی،جد وجہد اور کوشش وکاوش کاثمرہ ہے-اللّٰہ تعالیٰ قبلہ سید صاحب کے علم وعمل اور عمر واقبال میں خوب خوب برکتیں عطافرمائے اور آپ کی دینی وملّی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے-آمین!
رپورٹ:محمدشمیم احمدنوری مصباحی
خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

ہرپالیہ[باڑمیر،راجستھان] میں اجتماعی شادیوں کی مثالی تقریب،نکاح خوانی 15 مئی کو

ایک ہی دن 92 دولہا دولہن بنیں گے زندگی کے ہم سفر!

باڑمیر ضلع کے سیڑوا تحصیل کے تحت ہرپالیہ نامی گاؤں میں دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے مجلس منتظمہ کے زیر نگرانی اور دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلّہ العالی کی قیادت وسرپرستی میں 15 مئی 2022 عیسوی بروزاتوار حضرت پیر سید کبیراحمدشاہ بخاری علیہ الرحمہ کے اوطاق میں بہت بڑے پیمانے پر اجتماعی نکاح وشادی کے پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے-
یہ گرام پنچایت ہرپالیہ کے لوگوں کا ایک مثالی وتاریخی اور لائق تعریف وتحسین وتبریک عمل واقدام ہے کہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی پنڈال کے نیچے 92 بچوں کی شادی ہوجائےگی-اس لائق تعریف اور نیک عمل سے جہاں قوم کے لوگوں کا وقت برباد ہونے سے بچے گا وہیں شادی بیاہ کے مواقع پر جو فضول خرچی اور بے جا وغیر شرعی رسم ورواج پر عمل کیاجاتاہے اس پر لگام لگ جائے گا اور لوگ بہت ساری پریشانیوں سے بچ جائیں گے-
بلاشبہ ہرپالیہ گاؤں کے زندہ دل لوگوں نے سندھی سماج اور دوسرے برادران وطن کے لیے ایک بہترین عملی نمونہ پیش کیا ہے-
باشندگان ہرپالیہ کے اندر ایسی مثبت اور بہترین واصلاحی سوچ وفکر پیدا کرنے والے شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کو اللہ تعالیٰ عمر خضری عطافرمائے اور آپ کے علم وعمل اور اقبال میں مزید بلندیاں عطافرمائے-

علاقے کے معزز لوگوں کا کہنا ہے کہ “ہمیں باشندگان ہرپالیہ پر ناز ہے کیونکہ اس گاؤں کے لوگوں نے سماج کو مالی نقصان سے بچانے اور وقت جیسی انمول دولت کی بربادی سے بچانے کا اپنے اس عمل و پیش قدمی سے ہماری سماج کو بہت ہی اچھا پیغام دیا ہے”-
اگر یہ اجتماعی شادی کا پروگرام نہ ہوتا تو اتنے سارے لوگوں کی شادیاں کم از کم 2 مہینے میں ہوتیں،جسے صرف ایک دن میں انجام دے دیا جائےگا،اس اجتماعی شادی سے کس قدر وقت اور پیسوں کی بچت ہے یہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں-
امید کی جارہی ہے کہ یہ اچھی رسم اب بتدریج پورے علاقۂ تھار میں رائج ہوگی [ان شاءاللہ تعالیٰ]
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی فضول چیزوں اور غلط رسم ورواج سے بچائے،سماج ومعاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کرنے اور قوم وملت کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے قائد ولیڈر نصیب کرے جو حالات کی نزاکت کو سمجھنے کا شعور رکھتے ہوں-

سرجپوروہ میں جشن سنّت رسول، رپورٹ:محمدتوصیف رضابرکاتی بھوانی پور،سمرہنا پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

7 مئی 2022 عیسوی بروز سنیچر مدرسہ عربیہ اہلسنت صدیقیہ فیض العلوم سرجپوروہ،
اسکابازار،سدھارتھ نگر کے سامنے مرحوم ومغفور عبدالرشید انصاری کے صاحبزادے عزیزم محمدعالم کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر نہایت ہی عقیدت واحترام کے ساتھ “جشن سنّت رسول ومحفل عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم” کا انعقاد کیا گیا-
اس محفل پاک کی شروعات حضرت حافظ وقاری احمدرضا ضیائی مدرس:مدرسہ عربیہ اہلسنّت صدیقیہ فیض العلوم سرجپوروہ کے ذریعہ تلاوت کلام ربّانی سے کی گئی-

پھر یکے بعد دیگرے کئی لوگوں نے بارگاہ رسول اکرم میں نعتہائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نذرانے پیش کیے-

افتتاحی مگر انتہائی جامع و اصلاحی خطاب حضرت مولانا محمدعالمگیر صاحب عاصم فیضی لوٹن بازار نے”دینی وعصری تعلیم کاحصول: وقت کی اہم ترین ضرورت” کے عنوان پر کیا-آپ نے قوم مسلم بالخصوص شرکائے محفل کو دینی وعصری تعلیم کی اہمیت وفضیلت بتاتے ہوئے لوگوں کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے پیغام “آدھی روٹی کھائییے بچوں کو پڑھائییے” پر عمل پیرا ہونے کی تاکید وتلقین کی-

بعدہ ناظم مجلس حضرت مولانا شاہ عالم صاحب عزیزی مہندوپار نے یکے بعد دیگر ے کئی مداحان رسول کو لوگوں کے سامنے پیش کیا- نعت خواں حضرات نے عمدہ نعت خوانی کاشرف حاصل کر کے مجلس میں چارچاند لگادیا-

خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا-
حضرت مولاناسراج احمد صاحب قادری علیمی،حضرت حافظ وقاری احمد رضاضیائی،حضرت حافظ وقاری انیس احمد صاحب-جب کہ حضرت مولاناعابدعلی صاحب نظامی صدرالمدرسین:دارالعلوم فیضان رضا نرائن جوت،مہراجگنج نے بھی لوگوں کو مختصر خطاب کیا-

آخر میں خصوصی خطاب خطیب شہیرعالم باعمل حضرت مولانا محبوب عالم صاحب نظامی صدرالمدرسین مدرسہ اہلسنت علیمیہ لوٹن بازار نے کی-آپ نے اپنے خطاب کے دوران لوگوں کو اپنے والدین کی عزت وتوقیراور ان کی خدمت کرنے کے ساتھ شادی بیاہ کو اسلامی طور طریقے سے کرنے کی گذارش کی اور ساتھ ہی ساتھ شریعت مصطفیٰ کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی تاکید کی-

اس مجلس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت مولانا محمدشاہدرضا صاحب نوری صدرالمدرسین:دارالعلوم غوثیہ فیض الرسول سمرہنا،حضرت حافظ وقاری کمال احمد صاحب-جناب عبدالحی صاحب،جناب عبداللہ صاحب، جناب عبدالمعیدصاحب، جناب نبیہ اللہ صاحب، افروزاحمد صاحب-جناب سرور عالم صاحب،

صلوٰة وسلام اور حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی دعاپر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی!

رپورٹ:محمدتوصیف رضابرکاتی
بھوانی پور،سمرہنا پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

ملک وملت کی ترقی کے لیےتحصیل علم ضروری:علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری، رپورٹ-ماسٹرمحمدیامین خان سمیجا

کوئی ملک،صوبہ،سماج یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک کہ اس ملک،سماج و معاشرے یا قوم کے لوگ علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ” علم حاصل کرو چاہے اس کیلئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ” اور خود قرآن میں جا بجا علم کی اہمیت وفضیلت پر مشتمل مواد موجود ہے-اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اگر کسی بھی ملک وقوم کو آگے بڑھنا ہے تو ان کی ترقی کاسفر حصول علم اور فروغ علم کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر اس ملک میں جہاں تعلیم کی شرح تسلی بخش نہیں وہاں پر ترقی کی رفتار خود بخود سست پڑنے لگتی ہے ۔ اس لیے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کادور تعلیم اور تحقیق کادور ہے ۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی کادور ہے۔علم وہنر میں مہارت اور مقابلے کادور ہے ۔ غور کیاجائے تو تعلیم کی اہمیت اور ضرروت کوزمانہ قدیم سے ہی تسلیم کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر ہم قدیم ماہرین تعلیم اور حکماء کے خیالات اورنظریات کو یک جا کرکے دیکھیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ تعلیم کا مقصد درحقیقت انسانی ذہن کی بہتر نشوونما، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو سنوارنا ، معاشرتی رویوں کو صحیح رخ فراہم کرنا اور انسانی ذہن کی علم کے ذریعے آبیاری کرکے فرد اور معاشرے کو صحت مند بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کوایسی تربیت دینی ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی ایک اچھا اور مفید شہری ثابت ہوسکیں-مزکورہ خیالات کا اظہار مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر”کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علّامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے کونرا ولایت شاہ میں عرس مخدوم پیر سید میاں ولایت شاہ اور “دارالعلوم فیضان میاں ولایت شاہ کونرا” کے سالانہ اجلاس میں خصوصی خطاب کے دوران کیا-آپ نے آپسی اتفاق واتحاد پر بھی زور دینے کے ساتھ پیری مریدی کے اصل آداب اور اس کے مقاصدحسنہ پر بھی روشنی ڈالی-
آپ کے علاوہ ان حضرات نے بھی عظمت اولیائے کرام اور اصلاح معاشرہ سے متعلق مختلف عناوین پر عمدہ خطابات کیے-
سابق قاضی شہر پالی حضرت مولانا محمد ایوب صاحب اشرفی-شہزادۂ مفتئِ تھار حضرت مولا عبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی،مولاناغلام رسول صاحب قادری خطیب وامام: جامع مسجد ایٹادہ،مولاناعبدالحلیم صاحب امام:جامع مسجد:کونرا،مولانا محمدعلیم الدین صاحب قادری اشفاقی مدرس:دارالعلوم اسحاقیہ جودھپور،
نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا علیم الدین صاحب قادری خطیب وامام:مدینہ مسجد سُمیرپور وحضرت مولاناالحاج علم الدین صاحب اشفاقی مدرس:دارالعلوم فیضان میاں ولایت شاہ کونرا نے بحسن وانجام دیا-
اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
سید امیرعلی شاہ بامنور،سید مٹھن شاہ عالمسر،سید صحبت علی شاہ عالمسر،سیدشیرمحمد،سیداقبال شاہ،سیدمیرمحمدشاہ ارٹی،مولانا محمدیوسف قادری دیراسر، مولاناروشن علی قادری پالی، ایڈوکیٹ شاکرخان سابق سرپنچ کونرا،خان محمدخان ہیڈ کانسٹبل، حکیم قائم درس سیڑوا،بچوخان بلوچ سالاریا،قاری محمدحنیف سیڑوا، محمدانورخان وغیرہم-
آخر میں جلسہ کے کنویر حضرت علامہ ومولاناالحاج محمدآدم صاحب قادری کونرائی مدرس:دارالعلوم اسحاقیہ [اشفاقیہ ہاسٹل] جودھپور نے”من لم یشکرالناس لم یشکراللہ” پر عمل کرتے ہوئے سبھی معزز مہمانوں کا شکریہ اداکیا-
رپورٹ-ماسٹرمحمدیامین خان سمیجا
ساکن:کونراولایت شاہ،تحصیل: چوہٹن،ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اللہ ورسول کی محبت:ایمان کی اولین شرط 📝از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

اسلام جس طرح ہم کو اللہ ورسولﷺ پر ایمان لانے اورنماز،روزہ اورحج وزکوٰۃ اداکرنے کی تعلیم دیتا ہے اورایمانداری اورپرہیزگاری اورخوش اخلاقی اورنیک اطواری اختیار کرنے کی ہدایت اورتاکید کرتاہے،اس طرح اس کی ایک خاص ہدایت اورتعلیم یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کی ہرچیز سے زیادہ،یہاں تک کہ اپنے ماں باپ اوربیوی بچوں اورجان ومال اورعزت وآبرو سے بھی زیادہ،خدااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کے دین سے محبت کریں۔یعنی اگرکبھی کوئی ایسا نازک اورسخت وقت آجائے کہ دین پر قائم رہنے اور اللہ ورسول [جل جلالہ/صلی اللہ علیہ وسلم] کے حکموں پرچلنے کی وجہ سے ہمیں جان ومال اورعزت وآبروکاخطرہ ہو،تو اسوقت بھی اللہ عزّوجل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوردین کو نہ چھوڑیں اور جان ومال یا عزت وآبروپرجوکچھ گزرے،گذرجانے دیں۔قرآن وحدیث میں جابجا فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام کا دعویٰ کریں اور ان کو اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ان کے دین کے ساتھ ایسی محبت اور اس درجہ کا تعلق نہ ہو،وہ اصلی مسلمان نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت سزا اورعذاب کے مستحق ہیں،سورۂ توبہ میں فرمایا گیا ہے:”قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِo وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ”۔(التوبہ:۲۴)(اے رسولﷺ )آپ ان لوگوں کو فرمادیں کہ اگرتمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد،تمہارے بھائی برادر تمہاری بیویاں اورتمہاراکنبہ قبیلہ اور تمہارامال دولت،جسے تم نے کمایا ہے اور تمہاری تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے رہنے کے مکانات جوتمہیں پسند ہیں(سواگریہ چیزیں)تم کو زیادہ محبوب ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کے دین کے لیے کوشش کرنے سے تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور(یادرکھو)کہ اللہ ہدایت نہیں دیتاہے فاسقوں [ نافرمانوں ]کو۔اس آیت سے معلوم ہواکہ جواللہ ورسول اور ان کے دین کے مقابلہ میں اپنے ماں باپ یا بیوی بچوں یا مال وجائداد سے زیادہ محبت رکھتے ہوں اور جن کو اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اوردین کی خدمت وترقی سے زیادہ فکر ان چیزوں کی ہو ،وہ اللہ کے سخت نافرمان ہیں اور اس کے غضب کے مستحق ہیں،ایک مشہور اورصحیح حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایمان کی مٹھاس اوردین کا ذائقہ اسی شخص کو نصیب ہوگا جس میں تین باتیں ہوں،اول یہ کہ اللہ ورسول کی محبت اس کو تمام ماسواسے زیادہ ہو،دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی محبت کرے صرف اللہ کے لیے کرے(گویاذاتی اورحقیقی محبت صرف اللہ ہی سے ہو)اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اوردین کو چھوڑنا اس کو ایسا ناگوار اورگراں ہو جیسا کہ آگ میں ڈالا جانا”۔(مسلم، بَاب حَلَاوَةِ الْإِيمَان)اس سےمعلوم ہواکہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اصلی اور سچے مسلمان وہی ہیں جن کو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اوردین اسلام کی محبت دنیا کے تمام آدمیوں اورتمام چیزوں سے زیادہ ہو،یہاں تک کہ اگروہ کسی آدمی سے بھی محبت کریں تو اللہ ہی کے لیے کریں اور دین سے ان کو ایسی الفت ہو کہ اس کو چھوڑکر کفر کا طریقہ اختیار کرنا ان کے لیے اتنا شاق اور ایسا تکلیف دہ ہو جیسا کہ آگ کے الاؤ میں ڈالا جانا،ایک اورحدیث میں ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سےکوئی شخص اس وقت تک پورا مومن اوراصلی مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اپنے ماں باپ سے اوراپنی اولاد سے اوردنیا کے سارے آدمیوں سے زیادہ نہ ہو”۔(بخاری، بَاب حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْإِيمَانِ،)کسی بھی چیز کا اللّٰہ ورسول سے زیادہ عزیز ومحبوب ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب کسی آدمی کے سامنے دو بالکل متضاد مطالبے آجائیں،ایک طرف اللّٰہ ورسول کامطالبہ ہو تودوسری طرف اوپردرج شدہ آیت کریمہ میں مذکور چیزوں میں سے کسی چیز کی محبّت کامطالبہ، اور آدمی خدااوررسول کے مطالبے کونظراندازکرکےدوسری چیز کے مطالبہ کو ترجیح دےدے تواس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اللّٰہ اور رسول سے زیادہ اس کو وہ چیز محبوب ہے،اوراگر اس کے برعکس وہ اس چیز کے مطالبہ پر اللّٰہ ورسول کے مطالبہ کو مقدّم رکھے تواس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس نے اللّٰہ ورسول[جل جلالہ/رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلّم]کی محبت کوترجیح دی-اللّٰہ ورسول سے یہ محبت ایمان کالازمی تقاضاہے-اس کےبغیر کسی کادعوائے ایمان معتبر نہیں ہے اور یہ محبّت الٰہی کےجانچنے کے لئے ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ہرشخص اپنی روزمرّہ کی زندگی میں اپنے ایمان اور اپنی محبّت کوجانچ سکتاہے-قارئینِ کرام: خدااوراس کے رسول سے محبّت دراصل خدااوررسول کے پیغامات سے محبّت ہے اور ایمان دراصل اسی کانام ہے کہ آدمی بالکل اللہ ورسول کا ہوجائے اوراپنے سارے تعلقات اورخواہشات کو ان کے تعلق پر اور ان کے دین کی راہ میں قربان کرسکے،جس طرح کہ صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کردکھایا ،اورآج بھی اللہ کے سچے اور صادق بندوں کا یہی حال ہے،اگرچہ ان کی تعدادبہت کم ہے،اللہ تعالی ہم سب کو بھی انہیں کے ساتھ اور انہیں میں سے کردے!