WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

قوم مسلم کے اندر تعلیمی بیداری پیداکرنا انتہائی ضروری:سیدنوراللہ شاہ بخاری:- رپورٹ:(مولانا)عطاؤالرحمان قادری انواری![ناظم اعلیٰ]مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی متصل درگاہ حضرت مخدوم درس قطب علیہ الرحمہ،میکرن والا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر[راجستھان]


مدرسہ انوارقادریہ میکرن والا میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس منایا گیا


علم اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ، رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل  فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے،
اور خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصول علم پر کافی زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے نامساعد حالات میں بھی دارارقم میں علم کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا پھر ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں باضابطہ ایک مدرسہ کا قیام عمل میں لایا جسے “صفہ” کہاجاتا ھے اس درسگاہ نبوی سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علوم حاصل کیا اور پھر پوری دنیا میں اس علم کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیا جس اسلام اور پیغمبر اسلام نے حصول علم پر اتنا زور دیا مگر آج وہی امت مسلمہ تعلیمی میدان میں اقوام عالم سے پیچھے رہ گئی جواس وقت کا سب سے بڑا المیہ ھے آج امت مسلمہ جہاں عصری علوم میں پچھڑی ھوئی ھے وہیں دینی علم کے حصول میں بھی ناکام ھے آج کی صورت حال یہ ھے کہ مسلم نونہالوں کو نہ توحید ورسالت کے بارےمیں واقفیت ھے، نہ طھارت ونماز ،روزہ و زکوٰة، حقوق والدین وحقوق العباد جیسے ضروری مسائل کا علم ھے،حدتو یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں کو ڈھنگ سے کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا جس سےمعاشرہ پر بہت برے اثرات مرتب ھو رہے ہیں
ان خیالات کااظہار علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے شیخ الحدیث وناظم اعلیٰ پیرطریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے میکرن والا، باڑمیر میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرّحمہ کے سالانہ عرس مبارک ومدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے سالانہ تعلیمی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران کیا، اورساتھ ہی ساتھ اس بات پر خصوصی زرو دیا کہ آج قوم مسلم میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے،اور اہل ثروت حضرات کو اپنے مال ودولت کو فضولیات سے بچانے اور نیک کاموں میں خرچ کرنےکی جانب پیش رفت کرنے کی از حد ضرورت ھے، خطاب کاسلسلہ جاری رکھتے ھوئے سرپرستوں سے بھی اپیل کی کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر ،انجنیر ، سائنسداں ضرور بنائیں یہ بھی وقت کا تقاضا ھے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علوم کے سیکھنے کی ترغیب دی ھے جس کی کئی مثالیں سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن ان علوم کے حصول سے پہلے اپنے بچوں کو کتاب وسنت ،عقائد و دینی فرائض کی تعلیم دلائیں اور کم از کم اس قدر دینی علم ضرور پڑھائیں کہ وہ اپنی مفروضہ عبادت اداکرسکے اور تلاوت قرآن کرسکے تاکہ ان کا ایمان مضبوط ھوسکے اور اس دور الحاد میں کوئی ان کے ایمان پر حملہ نہ کرسکے -اور آپ نے فرمایا کہ اس دور میں اگر کوئی علم حاصل کرناچاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی ہیں اس کے باوجود جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہیں گویا وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے لوگوں کو پابندی کےساتھ نماز پنجگانہ باجماعت اداکرنے،اپنے مالوں کی زکوٰة نکالنے ودیگر ارکان اسلام کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت،بزرگوں کی تعظیم وتکریم، چھوٹوں پر شفقت،جملہ برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کے کرنے کی تاکید وتلقین کی،گویا آپ نے جملہ منہیات شرعیہ سے بچنے اور اوامر شرعیہ پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی-
آپ کے ناصحانہ وصدارتی خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے عمدہ خطاب کیا اور واصف شاہ ہدیٰ، شاہکارترنم حضرت حافظ وقاری عطاؤالرحمان صاحب قادری انواری جودھپور ومدّاح رسول مولانا محمدیونس صاحب انواری نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے- جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف و مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے چند ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقریر پر مشتمل اپنا دینی و علمی پروگرام پیش کیا-
نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری نے بحسن وخوبی انجام دیا-
صلوٰة وسلام اور قبلہ نورالعلماء حضرت علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت پیرسید غلام محمدشاہ بخاری،حضرت پیرسیدداون شاہ بخاری،ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانادلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین دارالعلوم انوارمصطفیٰ، مولاناحبیب اللہ قادری انواری،مولانا فخرالدین انواری، مولانااسلام الدین قادری انواری، مولانا شیر محمدانواری،حافظ برکت علی قادری،مولانامحمدعلی انواری، مولانامحمدقاسم انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناروشن دین سہروردی انواری،مولاناشہاب الدین انواری،مولانامحمدعرس سکندری انواری وغیرہم

ایمان سب سے بڑی دولت ونعمت،اس کی حفاظت کی فکرکریں:-سیدنوراللہ شاہ بخاری.. رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری خادم:مدرسہ گلشن غوثیہ ہینڈیا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان سب بڑی دولت ونعمت ہے اور ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے،اس لیےہمیں سب زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکرکرنی چاہییے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ ساری نعمتوں میں سب سے عظیم اور مہتم بالشان نعمت” ایمان” کی نعمت ہے، روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت  موجود ہے نہ اس کے برابر۔دنیا کی ہرنعمت و لذت ،آسائش وسہولت، آرام وراحت اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائےگی ؛لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اسکا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو نوازتا ہے۔اسی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اس نعمت کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے دوسری نعمتوں کے مقابلے میں شرف بخشااور فرمایا : آج میں نے تمہارے لیے تمھارا دین اور اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدة: 3)اور اسی نعمت پراپنے خصوصی احسان کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرمایا:دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ۔(الحجرات:)

اس سے بڑی نعمت انسان پر اس منعم حقیقی کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے،وقتی تکلیفوں اور عارضی مصیبتوں سے دائمی نعمتوں اور ابدی راحتوں کی طرف بلاتاہے  اور اسے اس دین کی رہنمائی کرتاہے جسے اس نےتمام ادیان ومذاہب کےدرمیان منتخب فرمایاہے-
ایمان کی دولت دین و دنیا کا سب سے بہترین متاع اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ایمان ہی درحقیقت بندگی کی بنیاد،فلاح و کامیابی کا سرچشمہ اور آخرت میں کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔
جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:مفہوم:’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے،انہیں ضرور زمین کی (سلطنت) خلافت عطاکرےگا‘‘۔(سورۂ نور)
الحمدللہ،ہم مسلمان ہیں،مسلمان ہونا بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں،ایمان کی نعمت جسے مل جائے،وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے، اس نعمت کا حق اگر ہم ادا کرتے رہیں تو یہ نعمت ہمارے دین کے لیے تو نصرت وکامیابی کی دلیل ہے ہی،دنیا میں بھی کامیابی وکامرانی کی علامت ہے۔اہل ایمان کو اس نعمت کی برکت سے ایسا عظیم اعزاز عطا فرمایا گیا کہ اسے بادشاہت کی نوید سناکر روئے زمین کا خلیفہ بنادیا۔
ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ،یہ دولت جس کے پاس ہوگی، وہ آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت اسے ملے گی،بصورت دیگر بندہ ناکام و نامراد ہوگا اور بدلے میں اسے جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا،نبی اکرم ﷺہمیشہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو شیطان سے بچانے کی فکر کیا کرتے تھےاور انہیں ہمہ وقت اس بات کی نصیحت اور تاکیدکرتے تھے کہ اپنا ایمان باقی رکھو،اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ،شیطان کی پیروی اور اطاعت سے خود کو بچاؤ۔ایسا صرف اس لئے کیونکہ شرک سے بندے کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے،اللہ ناراض ہوتا ہے اور بنا توبہ کئے اگر شرک ہی پر بندے کا انتقال ہو جائے تو جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ،اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(سورۃ المائدہ)
اللہ کے فضل و کرم سے اگر آپ کے پاس ایمان کی دولت ہے تو آپ اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو ہر طرح کی غلاظت و گندگی سے بچانے کی فکر کرتے رہیں،بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے مسلسل اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگتے رہیں۔
مذکورہ باتیں علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے ہینڈیا، باڑمیر میں 8 صفر 1444 ھ/06 ستمبر 2022 عیسوی کو ایک صوفی بزرگ حضرت ہالا فقیر علیہ الرحمہ کے عرس کی تقریب کے موقع پر جلسۂ اصلاح معاشرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہیں-
آپ نے اپنے اپنے خطاب کے دوران علاقۂ تھار میں مروجہ کچھ اہم وغلط رسوم کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگوں کو ان سے بچنے کی تاکید وتلقین کی، بالخصوص قبر بلا مقبور کی زیارت اور اس کی تعظیم وتوقیر سے سختی سے منع فرمایا،اور کچھ نام نہاد صوفی بلکہ حدتو یہ ہے کہ کچھ عورتیں جو یہ کہہ کر لوگوں کا علاج ومعالجہ [جھاڑ پھونک] کرتی ہیں اور بظاہر ان کے کچھ معاملات حل کرتی ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ ان کے اوپر فلاں بزرگ کا سایہ آتا ہے اس کے غیر شرعی ہونے اور شیطانی اعمال سے ہونے پر بہت ہی عمدہ، پراثر اور دلائل کے ساتھ اس کی تردید کی اور لوگوں کو اس طرح کے جملہ خرافات سے بچنے کی تاکید وتلقین کی،اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گذارنے کی اپیل کی-
آپ کے خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف نے سندھی زبان میں “اصلاح معاشرہ” کے عنوان پر بہت ہی عمدہ خطاب کیا،جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے کچھ ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
صلوٰة وسلام،اجتماعی فاتحہ خوانی اور نورالعلماء حضرت علامہ پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائے کرام شریک ہوئے-
ادیب شہیرحضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ،حضرت مولانا دلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین:دارالعلوم انوارمصطفیٰ،مولاناباقرحسین قادری برکاتی،مولاناحبیب اللہ قادری انواری، مولانا احمدعلی انواری،قاری مہرالدین انواری،مولانا محمد ایوب، قاری ارباب علی قادری انواری، مولانانیاز محمد انواری وغیرہم-

जामिआ़ राबिआ़ बसरिया [पीर जो कोट शरीफ]सोभाणी पाड़ा,गरडिया में हज़रत मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा का सालाना उ़र्स अ़क़ीदत व मोहब्बत के साथ मनाया गया! रिपोर्टर:(हाफिज़)मोहम्मद क़मरुद्दीन क़ादरी बरकाती अनवारी

07 सफरुल मुज़फ्फर 1444 हिजरी …मुताबिक़:05 सितम्बर 2022 ईस्वी बरोज़: सेमवार जामिअ़ा राबिआ़ बसरिया के वसीअ़ व अ़रीज़ मैदान में हज़रत मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा का सालाना उ़र्से मुबारक व जामिआ़ राबिआ़ बसरिया का सालाना तअ़लीमी जल्सा इन्तिहाई शान व शौकत और अ़क़ीदत व मोहब्बत के साथ मनाया गया।

बाद नमाज़े फज्र इज्तिमाई क़ुरआन ख्वानी व फातिहा ख्वानी करके दरगाह हज़रत दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा मे चादरपोशी की गई और सभी ज़ाईरीन समेत मुल्क व मिल्लत की बेहतरी के लिए दुआ़ की गई।

लगभग 08 बजे सुबह जल्से की शुरुआ़त तिलावते कलामे रब्बानी से की गई।

फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ व दारुल उ़लूम की तअ़लीमी शाख मदरसा जामिआ़ राबिआ़ बसरिया के होनहार तल्बा ने अपना दीनी व मज़हबी प्रोग्राम नअ़त,ग़ज़ल [सिंधी नअ़त] व तक़रीर की सूरत में पेश किया जिसे लोगों ने खूब पसंद किया और बच्चों की हौसला अफ्ज़ाई करते हुए इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा।

बादहु हज़रत मौलाना इल्मुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी मुदर्रिस:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने मौक़े की नज़ाकत को देखते हुए मुख्तसर वक़्त में अच्छी तक़रीर की,और “मज़ारात पर औरतों की आमद पर शरई पाबंदी” के हवाले से लोगों को उ़़म्दा व लाइक़े अ़मल पैग़ाम दिया।

आखिर में सदारती व खुसूसी खिताब शैखे तरीक़त नूरुल उ़़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी सज्जादा नशीन:खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया,मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने किया।

आप ने “अल्लाह की खशिय्यत और रिज़्क़े हलाल की तरग़ीब व ताकीद” के उ़़न्वान पर खिताब करते हुए फरमाया कि हमारे मुआ़शरे के अंदर जितनी भी बुराइयाँ हैं अगर हम चाहते हैं कि उन का खातमा हो जाए तो इस के लिए हमारे लिए ज़रूरी है कि हम अपने दिलों के अंदर अल्लाह का खौफ पैदा करें और साथ ही साथ रिज़्के हलाल की फिक्र करें, और हराम माल से खुद भी बचें और अपने अहल व अ़याल को भी बचाएं।

आप ने इस मौज़ूअ़ पर तमसीली अंदाज़ में बहुत ही उ़़म्दा व पुर अषर खिताब किया।

निज़ामत के फराइज़ खतीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी ने बहुस्न व खूबी निभाई।

बादुहु सलात व सलाम, इज्तिमाई फातिहा ख्वानी व हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह जल्सा इख्तिताम पज़ीर हुवा।

इस दीनी व मज़हबी प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।
★हज़रत पीर सय्यद इब्राहीम शाह बुखारी…☆हज़रत पीर सय्यद गुलाम मुहम्मद शाह बुखारी…★हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी…☆हज़रत मौलाना पीर सय्यद सदर अ़ली शाह बुखारी…★सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी…☆सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी…★हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस: दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा…☆हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही…★मौलाना खैर मुहम्मद क़ादरी अनवारी☆मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही…★मौलाना बाक़िर हुसैन साहब क़ादरी…☆मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी…★मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी…☆मौलानाअ़ब्दुर्रऊफ क़ादरी जामई…★मौलाना इस्लामुद्दीन क़ादरी…☆मौलाना अ़ताउर्रहमान साहब क़ादरी…★मौलाना मुहम्मद अ़ली अनवारी…☆हाफिज़ बरकत अ़ली क़ादरी…★क़ारी अ़ब्दुल वाहिद सोहक्वर्दी☆क़ारी फारूक़ अनवारी…★मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी…☆मौलाना दोस्त मुहम्मद अनवारी…★क़ारी अरबाब अ़ली साहब अनवारी…★मास्टर जमाल साहब…☆मास्टर मुहम्द हनीफ…★मास्टर अहमद रज़ा साहब वग़ैकहुम……

रिपोर्टर:(हाफिज़)मोहम्मद क़मरुद्दीन क़ादरी बरकाती अनवारी
खादिम:जामिआ़ राबिआ़ बसरिया मुत्तसिल दरगाह मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा… …पीर जो कोट शरीफ,सोभाणी पाड़ा,पो: गरडिया, तह:रामसर, ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान]

حکمتوں سےمعمورمفتئ اعظم اڈیشا کے پر تاثیر کلمات خیر——از سید آل رسول حبیبی ھاشمی سجادہ نشین خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

سیدنا مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ کی ذات اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی ، انکی حق بیانی ،شریں زبانی اور فصاحت لسانی سےایک عالم مستنیر ہے
انکے پاکیزہ جملوں سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹتے اور موتی جھڑتے تھے
ایک بار ایک مصیبت زدہ شخص کی مایوس کن باتوں کو سن کر آپ نے ارشاد فرمایا
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
یہ کلمات مبارکہ کتنے مختصر ہیں لیکن اس سے علم و حکمت کے گوہر آبدار چمکتے ہیں –
اس میں مومن کی قید احترازی ہے ، جس سے تمام بے ایمانوں کو خارج کردیا گیا ہے ، کیونکہ
اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار صرف اور صرف مومن ہے ، ہرگز کوئی کافر نہیں ۔
ارشاد ربانی “وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”
میں ضمیر خطاب مومنوں کے لئے ہے جیسا کہ ما سبق سے ظاہر ہے
یہ حق ہے کہ
دنیا کے مصائب و آلام پر جو بندہ صبر و شکیب کا پیکر بن جاتا ہے اور راضی برضائے الہی رہتا ہے ، وہی حقدار جنت ہوتا ہے اور اسی کو رب کریم نے مژدۂ جنت عطا فرمایاہے ۔
حق فرمایا سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ نے
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
حکمت و موعظت سے بھر پور اس کلام نور و سرور کو سن کر اس دل شکستہ مایوس بندے کو ایسی کامل تسلی ملی اور ایسا قلبی سکون حاصل ہوا کہ
لاس کے دل پر جو مایوسی کی کائی جم گئی تھی وہ یکسر ہٹ گئی اور وہ عزم و حوصلہ اور نئی امنگ کے ساتھ وہاں سے واپس ہوا فالحمد للہ رب العلمین
ایسی بافیض ذات گرامی کا ۲۸ واں
“عرس قدوسی “
4ربیع النور 1444یکم اکتوبر 2022 کو
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا میں شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے
جس میں ہند و بیرون ہند کے درجنوں علما، صلحا اور شعرا کا نورانی قافلہ جلوہ بار ہوکر صاحب عرس کی بارگاہ عالی جاہ میں نظم و نثر کے ڈریعہ عقیدت و محبت کا خراج پیش کریگا
احباب اہل سنت و عزیزان طریقت سے عرس کی نورانی تقریبات میں شرکت کی مخلصانہ اپیل ہے
ملتمس
سید آل رسول حبیبی ھاشمی
سجادہ نشین
خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت ،از :روشن القادری انواری فاضل :دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)


اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی بڑی اہمیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اے مومنو! تم لوگ اللہ کی رسی کو اکٹھا ہوکر مضبوطی سے پکڑ لو “(مفہوم قرآن)اللہ تعالیٰ نے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں کو یہ حکم دیا کہ اے میرے بندو ! جب تم لوگ کوئی نیک کام کرنا چاہو تو اتفاق و اتحاد کے ساتھ کرو،اس فرمان خداوندی سے اتفاق و اتحاد کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺکی بہت سی حدیثیں بھی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ کچھ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں جن سے آپسی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت بہ خوبی واضح ہو جائے گی ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ سارے مومنین ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی ایک آنکھ بیمار ہوئی تو وہ تمام بیمار ہیں (مسلم شریف )
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے اس کا بعض بعض کو طاقت پہنچاتا ہے پھر حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائی یعنی یہ جس طرح ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہیئے (بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (ایضاً)
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چار گی کی کیا اہمیت ہے؟۔
بڑا مبارک تھا وہ زمانہ جب کہ مسلمانوں میں وحدت اسلامیہ اور اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کا سچا جذبہ موجود تھا اور وہ آپس میں متحد و متفق اور ایک دوسرے کے مدد گار تھے، ان کی تعداد اگر چہ کم تھی لیکن بڑی بڑی طاقتیں ان کے خوف سے لرزتی تھیں اور کسی کی مجال نہ تھی جو ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا ،تاریخ کے اوراق میں اس مقدس عہد ِمحبت کا ذکر موجود ہے جو مدینہ کی پاک زمین پر ہجرت کے پہلے سال میں مسلمانوں میں قائم ہوا ۔رسول ﷺنے جب اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بہت سے فرزندان ِاسلام نےحضور ﷺکی سنت پر عمل کیا ،اور اپنے گھر بار ،دوست واحباب اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے مال وزر کو چھوڑ کر مدینہ طیبہ کا رُخ کیا ،جب یہ بے سرو سامان جماعت مدینہ پہنچی تو ان میں سے اکثر کی حالت صحیح نہ تھی، نہ ہی کھانے پینے کا کوئی بندو بست تھا ،نہ ہی رہنے سہنے کا کوئی انتظام تھا ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عہد محبت کو قائم کیا ،جب اس عہد کی تکمیل ہو گئی تو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے انتہائی ایثار و محبت سے کام لیا ،جس انصاری کےپاس دو مکان تھے اس نے اپنا ایک مکان اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اور جس کے پاس پانچ سو دینار تھے اس نے ڈھائی سو دینار اپنے مہاجر بھائی کو دے دیئے ،اور جس کے پاس دو باغ تھے اس نے ایک باغ دے دیا ،جس کے پاس دو بیویاں تھی اس نے ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے بھائی مہاجر سے کہا کہ تم اس سے نکاح کرلو ۔
ایک انصاری کا نام حضرت عبد الرحمٰن بن عاصم تھا وہ نہایت غریب تھے اور ان کے پاس سوائے ایک چادر کے کچھ نہ تھا لیکن ایمان و ایقان کی دولت ان کے پاس کسی سے کچھ کم نہ تھی انہوں نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اس قسم کے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں جن سے پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی سچی محبت اور سچی ہمدردی، مخلصانہ دوستی اور آپسی اتفاق و اتحاد ظاہر ہوتا ہے ،اور یہ وہ چیز ہے جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی اور کامیابی کی اعلیٰ اور بلند منزل پر پہنچا دیا تھا اور اقوام ِعالم کے دلوں میں ان کا ایک خاص وقار اور رعب قائم کر دیا تھا ،لیکن آہ !آج یہ اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی مسلمانوں میں نہیں ہے ،آج ان کی تعداد دنیا میں کروڑوں ہے لیکن اقوام عالم کے دلوں میں ان کا وقار اور کو ئی احترام نہیں، ہر قوم اور ہر جماعت ان کو حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے اور ان کی کمزوریوں کو محسوس کرکے ان کی ہستی کو مٹا دینا چاہتی ہے۔
اسلام کادعویٰ کرنے والو! تمہیں معلوم ہے ؟کہ آج یہ ذلت و رسوائی کیوں تمہارے لئے مخصوص ہے ؟اس لئےاور صرف اس لئے کہ تم میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی نہیں ہے ،تم نے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کو نہایت بے دردی سے ٹھکرا دیا اور تم نے ان تعلقات کو جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث تھے اپنی نفس پرستیوں کے حوالے کردیا ہے، آج تمہارے اختلاف و انتسار کی کوئی انتہا نہیں ہے، تم اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کی امداد و اعانت کو ضروری نہیں سمجھتے ہو ،تم اپنے بھائیوں کو آپس میں دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہو، تم ذرا ذرا سی باتوں پر مشتعل اور جھگڑ جاتے ہو، تم اپنے نفس پرستیوں میں مصروف ہو اور تمہیں خبر نہیں ہے کہ دوسری قومیں تمہاری ہستی کو مٹانے کے لئے کس قدر خوف ناک اور جدو جہد سے کوشش کر رہے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ تم اپنی غفلتوں و کوتاہیوں کو دور کردو !اسلامی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی اپنے اندر پیدا کر لو! تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تجارت و صنعت کا ایک بڑا حصہ تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے، مسلمان ان شعبوں میں بہت کمزور ہیں ،ضرورت ہے کہ تم اپنے مسلم بھائیوں کی امداد و اعانت کرو اور ان کو تجارت و صنعت کے شعبوں میں کامیاب بناؤ ،اگر تمہارے دل میں ملت ِاسلامیہ کا کچھ بھی درد ہے اور تم مسلمانوں کی کچھ بھی تباہی نہیں چاہتے ہو تو خدا کے لئے آج ہی سے اپنے دل میں عہد کر لو کہ تم ہر اعتبار اور ہر حیثیت و نوعیت سے مسلمانوں کی مدد کرو گے ،اتفاق و اتحاد اور آپسی بھائی چارگی اور امدادو اعانت کا معاملہ کروگے ،مساوات و انصاف کا آپس میں برتاؤ کرو گے اگر تم نے ایسا کیا تو تم کامیاب و فائزالمرام ہو جاؤگے ۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب ﷺکے صدقے سبھی مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی پیدا فرمائے ! آمین

امام احمد رضا ریسرچ سینٹر ناسک میں عرس مخدومی کا انعقاد

ناسک سے دی گئی اطلاع کے مطابق مورخہ 28 محرم الحرام 1444ھ کو قدوۃ الکبری غوث العالم سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے 636 ویں عرس سراپا قدس کے حسین وپربہار موقع پر جماعت رضائے مصطفے شاخ ناسک کے بینر تلے امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام میرج کر نگر اوپن اسپیس وڈالا روڈ سہیادری ہاسپیٹل کے سامنے عظیم الشان پیمانہ پر عرس مخدومی کا انعقاد کیا گیا،محفل کا آغاز بعد نماز عشا قرآن خوانی سے کیا گیا ،پھر حمد باری تعالی اور نعت ومنقبت کے اشعار پیش کیے گیے بعدہ ادارہ ہذا کے فقہی ریسرچ اسکالر مولانا محمد عارف حسین غوثی نے صاحب عرس کی سیرت وسوانح پر تفصیلی روشنی ڈالی اور سمنان سے کچھوچھہ تک منزل بہ منزل حضرت مخدوم قدس سرہ کا پورا سفر نامہ پیش کیا اخیر میں ادارہ کے صدرالمدرسین اور صدر شعبہ افتا فاضل علوم اسلامیہ حضرت ابوالاختر مفتی مشتاق احمد امجدی زید مجدہ نے خصوصی خطاب فرمایا، آپ نے اپنے مختصر خطاب میں صاحب عرس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا : حضرت مخدوم سمناں نہ صرف ایک ولی کامل،نجیب الطرفین سید اور صاحب دل صوفی با صفا تھے بلکہ علوم وفنون کی ہفت اقلیم کے بے تاج بادشاہ بھی تھے،قرآن کریم کا فارسی زبان میں سب سے پہلے ترجمہ کرنے کا شرف آپ کو حاصل تھا، آپ کثیر التصانیف مصنف اور بالغ نظر فقیہ بھی تھے، آپ نے حضرت مخدوم کے دعوتی وتبلیغی مشن پر گفتگو کرتے ہوئے عوام اہل سنت کو نیکی کی راہ پر گامزن ہونے کی صلاح دی،آپ نے فرمایا حضرت مخدوم قدس سرہ نے محض سات برس کی عمر میں صرف ایک سال کی قلیل مدت میں قرات سبعہ کے ساتھ پورا قرآن حفظ فرمالیا تھا اورجب مسند تدریس میں جلوہ افروز ہوئے اور بساط تدریس بچھائی تو اللہ تعالی نے آپ کی تدریس میں وہ برکت عطا فرمائی تھی کہ آپ کی درسگاہ میں آنے والا ہر بچہ محض ایک سال کی مدت میں حافظ قرآن بن جاتا،اس تناظر میں آپ نے سامعین کو اپنے بچوں کو قرآن سیکھنے اور سکھانے پر زور دیتے ہوئے یہ نعرہ بھی دیا “گھر گھر قرآن، ہر گھر کنزالایمان” بعدہ صلاۃ وسلام اور آپ کی خصوصی دعا پر محفل اختتام پذیر ہوئی، بعد محفل لنگر مخدومی تقسیم کیا گیا، عرس کی اس تقریب سعید میں عوام وخواص نے بڑی تعداد میں شرکت کی،اس موقع پر امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے تمام شعبہ جات کے معلمین خصوصا مولانا محمد عرفان رضا قادری، حافظ وقاری جیش محمد رضوی اور شعبہ تحقیق کےمتخصصین مولانا محمد شفیق خان امجدی، مولانا محمد مبین قادری، مولانا عیسی رضا امجدی، مولانا محمود رضا حنفی، مولاناشہرالحق مصباحی، مولانا محمد توفیق علی غوثی، مولانا محمد کلیم سبحانی،مولانا محمد نورشاد رضا مظہری اور مولانا مرجان مصباحی وغیرہ موجود تھے۔

مقالاتِ بدر،،مقالہ نگار : حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی(علیہ الرحمۃ والرضوان)

رسم اجرإ: شہزادہ صدرالشریعہ حضور محدث کبیر علامہ ضیإالمصطفٰے قادری امجدی کے ہاتھوں 28/ اگست کو ہوگا۔

جمع و ترتیب: محمد ذیشان رضا قادری امجدی صاحب

ناشر: اسلامک اکیڈمی گھوسی مئو یوپی

صفحات: 550


مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہتا ہے بلکہ اسے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل تر بھی۔

اساطینِ علم و ادب نے اپنی سوچوں، حاصلِ مطالعہ اور وسعتِ علمی کو مقالہ نگاری کے ذریعے سے قارئین کے سامنے پیش کر کے بسا اوقات بڑی علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیا ہے۔
مقالات مفتی اعظم ہند ،مقالات نعیمی، مقالاتِ شارح بخاری ، مقالاتِ سعیدی، مقالات مصباحی وغیرہ اس سلسلے کی نہایت عمدہ کڑیاں ہیں۔
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ انہیں میں سے ایک حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی (علیہ الرحمۃ والرضوان)
(٢٥ اکتوبر ١٩٥٠ء-١٧اگست ٢٠٢١ء) بھی ہیں۔

ماہنامہ اشرفیہ کے پہلے ایڈیٹر ہونے کے علاوہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور المجمع اسلامی کے مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ٣٠ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں سیکڑوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں بزم اولیاء ، اسلام اور خمینی مزہب ، جادہ و منزل ، مسلمان اور ہندوستان ‘ پیکر عشق سیدنا ابوذر غفاری، اسلام اور امن عالم، اور حیات حافظ ملت ‘ زیادہ معروف ہیں

مقالاتِ بدر

ان ٨٥ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں ماہنامہ اشرفیہ اور ماہنامہ حجاز دہلی، ماہنامہ قادری میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ اسلامیات، تزکرہ، تاریخ، سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟ از:(مولانا) عبدالسبحان مصباحی،استاذ:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے : یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط : فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

چوتھی شرط : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔ (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کے امام کہتے ہیں کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے

ترجمہ: پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے-

مرید بننے کے فوائد : علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔

اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

सेहलाऊ शरीफ में हर्ष व उल्लास के साथ मनाया गया 76 वाँ स्वतंत्रा दिवस

रिपोर्टर:बाक़िर हुसैन क़ादरी बरकाती अनवारी।खादिम:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ,पो: गरडिया,तह:रामसर,ज़िला:बाड़मेरराजस्थान

हर वर्ष की तरह इस वर्ष भी इलाक़ा-ए-थार की मरकज़ी दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा दरगाह हज़रत पीर सय्यद हाजी आ़ली शाह बुखारी पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ में जश्ने यौमे आज़ादी [स्वतंत्रा दिवस] जोश व जज़्बा के साथ मनाया गया।
सब से पहले “ध्वजारोहण” हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी के हाथों किया गया।
फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के बच्चों द्वारा क़ौमी व वतनी तराने पढ़े गए,उस के बाद मुख्य अतिथि नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी व हज़रत मौलाना मोहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने बच्चों के ज़रिया पेश किये जाने वाले प्रेड का निरीक्षण किया और दारुल उ़लूम के कई बच्चों ने हिंदी,उर्दू व अंग्रेज़ी भाषा में देश की आज़ादी के लिए अपनी जान की बाज़ी लगाने वाले जाँबाज़ों के बारे में लोगों को संबोधित किया।
प्रोग्राम का संचालन अनवारे मुस्तफा माध्यमिक विद्यालय सेहलाऊ शरीफ के प्रधानाचार्य मास्टर मोहम्मद यूनुस खान साहब व मास्टर अहमद रजा ने कीॆ-
आखिर में हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी ने लोगों को मुजाहिदीने आज़ादी और देश से मुहब्बत करने के बारे में खिताब करने के साथ सभी लोगों को 76 वें स्वतंत्रा दिवस की मुहारकबाद पेश की।
फिर अमृत महोत्सव कार्यक्रम के तहत तिरंगे के साथ शांदार रैली निकाली गई।
बच्चों के रंगारंग कार्यक्रम ने सब का मन मोह लिया।
इस जश्ने आज़ादा में शरीक सभी लोगों का शान्दार मिठाइयों से मुंह मीठा किया गया, और लोगों ने एक दोसरे को यौमे आज़ादा की मुबारकबाद पेश की-
दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा शिक्षण संस्थान के प्रबंधक पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की तरफ से प्रोग्राम में हिस्सा लेने वाले सभी बच्चों को इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा गया।
इस प्रोग्राम में विशेष तौर पर यह हज़रात उपस्थित रहे।
हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम हाज़ा,पीर सय्यद ग़ुलाम मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी,मौलाना सय्यद जान मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी,हज़रत मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना खैर मोहम्मद क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना जमालुद्दीन क़ादरी अनवारी, हज़रत मौलाना अ़ब्दुर्रऊफ जामई, हज़रत मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही, मौलाना इल्मुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना इस्लामुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना अ़ब्दुल हलीम क़ादरी अनवारी,हाफिज़ व क़ारी बरकत अ़ली क़ादरी,मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी,हाफिज़ क़मरुद्दीन क़ादरी अनवारी,क़ारी अरबाब अ़ली अनवारी,मौलाना मोहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारी,मास्टर शेर मोहम्मद खान,मास्टर मोहम्मद इस्हाक़ खान, मास्टर ताहिर साहब सेहता,मास्टर मक़बूल खान,मास्टर मोहम्मद सुलेमान,मास्टर मुरीद साहब वग़ैरहुम…

]

خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ مطہرہ میں “جشن یوم آزادی” تزک واحتشام کےساتھ منایا گیا”” محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)


غیر منقسم ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ”خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ شریف” کے تحت چلنے والے ادارہ “جامعہ احسن البرکات” کے وسیع و عریض گراونڈ میں یوم آزادی کی مناسبت سے ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا،جس میں جامعہ کے سرپرست حضور رفیق ملت (ابا حضور) سید شاہ نجیب حیدر نوری برکاتی مد ظلہ النورانی ورعاہ اور جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی-صاحب سجادہ(جنہیں ہم تمام طلبہ اور اساتذۂ جامعہ پیار کی بولی میں ابا حضور کہتے ہیں) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پرچم کشائی فرمائی، اور جامعہ کے دو شاہین صفت طلبہ (محمد برکت علی برکاتی راجستھانی درجہ سادسہ اور محمد اکرم علی برکاتی گجراتی درجہ اعدادیہ) نے شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا لکھا ہوا مشہور زمانہ ترانۂ ہندی “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا… ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا” اپنی دل نشیں اور اچھوتے انداز میں پیش کیا- اس کے بعد جامعہ کے سرپرست صاحب سجادہ حضور رفیق ملت نے جنگ آزادی کا مطلب سمجھایا اور تحریک آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں ہمارے علما اور ہمارے آباء و اجداد نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں ملک ہندوستان ہمارا ہے اور اس ملک میں ہمارے آباء واجداد اور اولیائے کرام کے مزارات ہیں- الحمدللہ ہم بائی چوائز ہندوستانی ہیں اور اخیر میں صاحب سجادہ (ابا حضور) حضور رفیق ملت نے اپنی گفتگو کے دوران مجھ احقر کو نام لے کر پکارا کہ محمد ہاشم برکاتی سلمہ جہاں بھی ہوں آگے آئیں، جیسے ہی ابا حضور کی زبان مبارک سے اپنا نام سنا دل باغ باغ سا ہوگیا اور فوراً آگے آیا پھر ابا حضور نے مائک میں بتایا کہ ہاشم برکاتی نے ابھی حال ہی میں جو مضمون لکھا تھا اسے میں نے حضور امین ملت،حضور شرف ملت، احمد مجتبیٰ صدیقی اور جناب عتیق برکاتی کانپوری اور اس کے علاوہ بڑے بڑے ادیبوں کے پاس بھیجا جن کو آپ جانتے بھی نہیں ہیں سب نے اس مضمون کی خوب خوب تعریف کی،اور شرف ملت نے خصوصی طور پر دادو تحسین سے نوازا اور کہاکہ ماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالٰی میرے بچے کو سلامت رکھے اور حضور امین ملت مد ظلہ النورانی ورعاہ نے دعائیہ وحوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت مارہرہ شریف میں نہیں ہوں ورنہ میں خود اس بچہ کو انعام و اکرام سے نوازتا. آپ میری طرف سے اس بچہ کو 1100 دے دینا. آپ نے یہ کلمات ارشاد فرماتے ہوئے 1100 گیارہ سو روپیے اپنی جیب سے نکالے اور مجھے عطا فرمایا. اس کے بعد دوبارہ 1100 نکالا اور جامعہ کے پرنسپل استاذگرامی وقار حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعہ کی طرف سے آپ اپنے ہاتھ سے اس بچے کو بطور انعام دے دیجیے. اس کے بعد جب فقیر انعام حاصل کرکے جانے لگا تو آپ نے اپنے پیارے اور مخصوص لہجے میں ارشاد فرمایا کہ بیٹا ابھی کہاں جا رہے ہو؟ تو فقیر وہیں کھڑا ہو گیا بعدہ ابا حضور نے اپنے گلے سے رومال نکالا اور فرمایا کہ یہ مدینہ شریف کا رومال ہے میں اپنی طرف سے یہ رومال عطا کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے میرے کندھے پر رومال رکھ دیا اور دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم اور آپ کی زبان(چونکہ ابا حضور کے سامنے کئی مرتبہ تقریر کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے اور آپ میری تقریر کو کافی پسند بھی فرماتے ہیں) دونوں کو تقویت عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تر پریشانیوں کو دور فرمائے- ابا حضور کے یہ جملے سن کر فقیر کے دل کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ آج کے بعد ان شاءاللہ کبھی بھی فقیر کو کم از کم کوئی بڑی پریشانی لاحق نہیں ہوگی- پھر ابا حضور نے نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ شاگرد چاہے جتنا بھی قابل ہو جائے اپنے استاذ کے سامنے ہمیشہ چھوٹا سا چوزہ ہی رہتا ہے (چونکہ میری اس تمام کامیابی کے پیچھے خصوصی طور پر ہمارے مشفق و مہربان استاد حضرت علامہ مفتی شاداب امجدی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے) اس کے بعد ابا حضور نے مفتی صاحب قبلہ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا اور مفتی صاحب قبلہ کو بھی مدینہ منورہ کا مصلی عطا فرمایا. اور ارشاد فرمایا کہ آپ اس مصلی پر نماز پڑھ کر اپنے شاگردوں کے لئے دعا فرمایا کریں. اسکے بعد جامعہ کے کانفرنس ہال میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا اس میں اول پوزیشن جماعت اعدادیہ نے حاصل کی اور دوم پوزیشن جماعت خامسہ نے حاصل کی. اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں کو بھی جامعہ کی طرف سے گراں قدر انعام و اکرام سے نوازا گیا-
صلوٰة و سلام اور دعا پر پروگرام تکمیل کو پہنچا-

محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)