WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

جنگ آزادی میں علمائے اہل سنت کا نمایاں کردار،،، از :(مولانا) حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج :- دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف باڑمیر راجستھان

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تقریباً آٹھ سو سال اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی ،اس عرصۂ دراز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے فضائے بسیط میں لہراتے رہے ،اس طویل مدّت میں ملک نے جو عروج و ارتقاء کے منازل طے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، کیونکہ ملک کی محبت و عظمت کو مسلمانوں نے اپنےدل کی دھڑکنوں میں رچایا بسایا ،اور اس کی محبت پر مر مٹنے کا جزبۂ صادقہ پیدا کیا۔

       مسلمانوں نے جہاں صنعت و حرفت کی بدولت ملک کو خوشحال اور زرخیز بنایا وہیں اپنی علمی اور فنی لیاقت کو بروئے کار لاکر ملک کو علم و فن کا میکدہ بنایا ،چنانچہ اس وقت عالمی سطح پر  ہندوستان  نے جو شہرت و مقبولیت اور عروج و ارتقا ء حاصل کی  اس شہرت و مقبولیت  اور تعمیر و ترقی نے پوری دنیا پر گہرا  اثر ڈالا ،اہل کمال اور اربابِ علم و فن حضرات نے ملک ہند کی طرف اپنا رخ کیا ،ہندوستان میں یکتائی اور بے نظیری کا غلغلہ  اور شور بلند ہوا  ،اس خاکِ ہند کو افلاک  کی سی بلندی نصیب ہوئی ،اطرافِ ہند میں خوشحالی اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی ، باشندگان ِ ہند امن و سکون،چین و راحت کے گہوارے میں جھولنے لگے اور ہندوستان کی دولت و ثروت اکنافِ عالم میں گشت کرنے لگی۔ہندوستان کی بد نصیبی کہ ۱۸۵۷ ؁ءمیں اس چمکتے دمکتے آفتاب کو گہن لگ  گیا اور  سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ  بہادر شاہ ظفر کو تختِ ہند سے اتار دیا گیا،سلطان بہادر شاہ ظفر کے سلطنت سے معزولی کے بعد  انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے ،پھر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حریصانہ نگاہوں سے وطن عزیز کی جانب دیکھنے لگیں چنانچہ تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں نے بھی اپنی شاطرانہ چال "ایسٹ انڈیا کمپنی "کے ذریعہ تجارت کے بہانے سونے کی چڑیا کہے جانے والے بھارت کو لوٹنا شروع کیا ،دھیرے دھیرے  ؁۱۸۵۷ء تک حکومت کا مغز نکال کر کھوکھلا کر ڈالا ،ان کم ظرفوں نے  صرف اسی پر بس نہیں کیا  بلکہ ہند کی  حکومت پر ظالمانہ و جابرانہ  طور پر قبضہ کر لیا اس طرح وطن عزیز تن کے گورے من کے  کالوں (انگریزوں )کے قبضے میں چلی گئی،اور  پھر ملک میں تباہی و بربادی کا تہلکا مچ گیا ، چاروں جانب ظلم کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے  ،جبروتشدد اور وحشت و بربریت  کا حولناک و دہشت انگیز مظاہرہ کیا جانے  لگا ، پورے ملک میں قبرستان  جیسا سنّاٹا چھا گیا ، حد تو یہ ہے کہ  مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا (العیاذ باللہ )فتح پوری مسجد سے لال قلعہ کے دروازے تک انسانی لاشیں درختوں پر نظر آنے لگیں ،اور پورے ملک میں سنّاٹاچھا گیا  اس خوف و ہراس بھرے وقت میں ضرورت پیش آئی ایک ایسی تحریک کی جو تحریک انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے اور ملک کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے ،ملک کے باشی امن اور شانتی کے ماحول میں زندگی بسرکر سکیں ، انسانوں کے خون و مال، عزت و آبرو اور جائیداد وغیرہ  کی حفاظت و صیانت  ہو سکے ۔بالآخر مظلوم انسانوں کی آہ و بکا اور فریاد اللہ عز و جل کی بارگاہ میں پہنچ ہی گئی اور علمائے  ربا نیین کو اس کی توفیق حاصل  ہوئی چنانچہ بطل حریت  علامہ فضل حق خیرا بادی نے فتویٰ لکھا کہ” انگریزوں سے اپنے مذہب ،ملک اور عزت کی حفاظت کی خاطر جہاد کرنا واجب ہو گیا "اس فتویٰ پر وقت کے  اکابر علمائے کرام  و مشائخ ذوی  الاحترام نے دستخط فرمائے، علامہ فضل حق خیرابادی  اور ان کے ہمنواؤں کے اس فتویٰ سے پورے ملک میں آزادی کی با قاعدہ لہر دوڑ گئی ۔علمائے کرام کے ساتھ  عام مسلمانوں نے بھی  اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا ۔     اور حد درجہ اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ،اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا ،اس وقت کے ان تمام جاں باز علماء نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر کہیں ۱۵  اگست ؁۱۹۴۷ءکو ہند وستان کو آزادی ملی ۔ ان میں سے اکثر وہ حضرات ہیں جو مسندِ درس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے اور اپنی تحریری و تقریری تبلیغ سے اسلام کے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے ،جب ضرورت پیش آئی ملک کے لیے لڑنے کی تو اپنے ملک کی محبت کی خاطر درسگاہوں کو چھوڑ کر ننگی تلوار کے ساتھ شاملی کے  میدان میں نکل آئے ،انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین آزادی کے دوش بدوش ہوکر میدان کارزار میں صف آرا ہوئے بہت سے علمائے کرام وطن سے محبت اور فتوائے جہاد کی حمایت کی وجہ سے جزیرۂ انڈومان کے کالا پانی میں زندگی کے باقی دن گذارنے پر مجبور کیے گئے، نہ جانے کتنے علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا  ،لاکھوں کی تعداد کا وجود ختم ہو گیا ،اور نہ معلوم کتنے علمائے کرام رو پوش  کردیئے گئے ۔

اس جنگ میں علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک کی حفاظت و صیانت کے لیے شہادت پیش کیا، جنگِ آزادی میں جن علمائے کرام نے نمایاں کردار پیش کیا ان میں حضرت علامہ فضلِ حق خیرابادی رحمة اللہ علیہ ،حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی،حضرت مفتی صدر الدین آزردہ ،مولانا لیاقت اللہ الہ ٰ بادی ،مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہے

علّامہ فضلِ حق خیرا بادی کی وہ ذات ہے جس نے تحریک آزادی کی فکری دور کا آغاز اس وقت کیاجب آپ لکھنؤ میں تحصیل دار کے مہتمم اور صدر الصدور مقرر کئے گئے ،ابھی آپ ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ہنومان گڈھی میں انگریزوں نے خفیہ طور پر دو فریق (ہندو مسلم) کے درمیان خونی جنگ کرا دی جسے سیدھے سادھے لوگ سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، جب علّامہ صاحب نے ایسا ماحول دیکھا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر پوری طرح سے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیئے ابھارنا شروع کر دیا اور آخری حربہ کے طور پر دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں مدلّل و مفصل خطاب فرمایا جس سے پوری قوم کا سویا ہوا مزاج جاگ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوّے ہزار کی تعداد میں لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہو گئے جس سے انگریزوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انگریزوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آپ کو خریدنا چاہامگر ان کو اس میں سخت ناکامی حاصل ہوئی ،اسی طرح علّامہ کی آخری سانس تڑپتی ہوئی نکلی آخر کار ۱۸۷۸؁ھ مطابق ؁۱۸۶۱ء میں یہ علم و فضل کا شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا

فنا کے بعد بھی باقی ہے،شان رہبری تیری

خدا کی رحمتیں ہوں اے امیرِ کارواں تجھ پر

یوم عاشوراء کی دینی وتاریخی اہمیت،، (مولانا)محمّدشمیم احمدنوری مصباحی دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

تقویم اسلامی کے سب سے پہلے مہینے”محرّم الحرام” کا دسواں دن”یوم عاشوراء” کہلاتاہے، یوم عاشوراء بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:

(۱) یوم عاشوراء میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا۔

(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا یابی حاصل ہوئی۔

(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ج/۱ص/۳۴۷،۳۴۸ )

یومِ عاشوراء کی فضیلت

مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں اس دن کی اہمیت وفضیلت کےبارےمیں متعدد روایات رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کے صحابہ سے منقول ہیں؛ چنانچہ: (۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔ (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ج/۲ص/۱۱۵) روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔ (۳) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ج/۱ص/۳۶۷ابن ماجہ ص/ ۱۲۵) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب ج/۲ص/۱۱۵) ان احادیث سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات

یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے: (۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہ شَہْرُ اللّٰہِ فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ ․ (ترمذی ج/۱ص/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ․ (ترمذی ج/۱ ص/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․ (الترغیب والترہیب ج/۲ ص/۱۱۴) یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ (۲) مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شہرُ اللّٰہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔ (۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: (۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم الحرام (۴) رجب (بخاری شریف ج۱ ص/۲۳۴- مسلم ج/۲ ص/۶۰) (۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو ج/۱ ص/۶۰۱)

یوم عاشوراء میں کرنے کے کام

یومِ عاشوراء میں جن امور پرہمیں عمل کرناچاہییے ان میں سے کچھ یہ ہیں: (۱) روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبرحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ۱/۳۵۹) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے ہی ایک دوسری روایت یوں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا”صُومُوا یَومَ عَاشُوراءَ وَ خَالِفُوا الیَھُودَ،صُومُوا قَبلَهُ یوماً،اَو بَعدَہُ یَوماً(صحیح ابن خزیمہ ج/۳ص/۲۹۰)

(۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائےگا۔

ان کے علاوہ کچھ اور مستحسن امور ہیں جنہیں ہمیں بجالانا چاہیئے!
اس مبارک موقع اوردن پانی یاشربت کی سبیل لگانا،غریب ومسکین کوکھاناکھلانااور شہدائےکربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یادمیں محافلِ خیر کا انعقادکرناچاہییے، اوران محافل میں شہیدان کربلاکی مبارک زندگی کے روشن اورتابناک پہلواورشہادت کے اسباب اورشہداء کے پیغامات کوبیان کرناچاہییے، اورلوگوں کوان کے نقوش قدم پر چلنے کی تلقین کی جانی چاہییے، عبادت وریاضت بالخصوص تلاوت قرآن کی کثرت اور روزہ رکھناچاہییے اورہروہ کام جو شریعت میں مستحسن ہوں انہیں بجالاناچاہییے،
اللہ تبارک وتعالیٰ شہدائے کربلا کے صدقے ہم سبھی مسلمانوں کو نیکیوں کے کرنے اوربری باتوں سے توبہ کی توفیق سعید عطافرمائے-

اوپر کی تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت مہینہ اور مقدس دن ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے آپ کو مستحق بنائیں؛ مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی خرافات اور غیرشرعی رسومات سے احتراز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ آمین ثم آمین

اہل بیت سے محبت مسلمانوں کی سعادت مندی، از : (مولانا) جمال الدین قادری انواری،استاذ :دارالعوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،پوسٹ گرڈیا،تحصیل :رامسر ضلع:باڑمیر(راجستھان)۔

     حضور نبی کریم ﷺ کےاہل قرابت اور اہل بیت اطہار سے محبت و مؤدت اور عقیدت و احترام سعادت مندی اور خوش نصیبی کی پہچان ہے،تمام امت مسلمہ پر ان پاکیزہ حضرات کی محبت و تعظیم ضروری ہے اور ان سے بغض و عداوت، نفرت و عناد اور ان کی توہین و تنقیص بد نصیبی اور دنیا و آخرت میں خسارہ  و نقصان کا سبب اور اللہ کے غضب و قہر کے نازل ہونے کا باعث ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ جس رسول پاک نے ہمیں ایمان جیسی دولت سرمدی، خدا وند ِقدوس کی معرفت اور دوسری تمام نعمتوں کو پانے کی راہیں بتائی ان کے اہل بیت سے خوب پیار و محبت اور حسنِ سلو ک سے پیش آئیں،ان کی محبت کا چراغ اپنے دلوں میں جلائیں ،کہ رسول پاک ﷺ ان حضرات سے بے حد محبت فرماتے اور بارگاہ الٰہی میں یوں عرض کرتے ”مولیٰ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور ان سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت رکھے “۔

     حضرت زید بن عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور  نبی کریم ﷺ نے فرمایا” میں تم میں دو چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہوگے تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظمت والی ہے ،پہلی  کتاب اللہ،اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت و میری عترت ہیں اور یہ دونوں ہر گز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے تم غور کرو میرے بعد تم کس طرح ان  میں میری نیابت کرتےہو “۔(ترمذی ج/۲ ص/۲۲۰ )۔

  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اس کی نعمتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ،مجھ سے محبت کرو اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر اور میرے اہل بیت سے محبت کرو میری وجہ سے “(ترمذی ج/۲ ص/ ۲۲۰ ،در منثور ج/۵ص/ ۷۰۲)۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اپنی امت میں سب سے پہلے میں جس کی شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں” (المعجم الکبیر ج/۱۲ ص/ ۳۲۱)۔

  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری شفاعت میرے امتیوں کے لئے جو میرے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں (تاریخ بغداد ج/۲ ص/ ۱۴۶)۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “میرے اہل بیت کی مثال تم میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہو گیا ”( الصوائق المحرقہ ص /۲۸۲)۔

      حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “میں نے اپنے رب سے عرض کی کہ میرے اہل بیت میں سے کسی کو دوزخ میں داخل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ”(ایضا    ص /۲۸۳)۔

    حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا “اپنی اولاد کو تین چیزوں پر ادب سکھاؤ (۱) نبی کی محبت (۲) اہل ِبیتِ نبی کی محبت (۳) تلاوت ِقرآن پر  ،کیونکہ حافظ قرآن اللہ کے سایۂ رحمت میں ہوں گے جس دن اس کے سایۂ رحمت کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا ”(کنز العمال  ج/۱۶ ص /۴۵۶ ،کشف الخفا  ء   ج/۱ ص/ ۷۴) ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “سب سے پہلے جو میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا وہ میرے اہل بیت ہیں” (کنز العمال ج/۱۲ ص /۱۰۰)۔

   حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا “تم میں پل صراط  پر سب سے زیادہ ثابت قدم رہنے والا وہی ہوگا جو سب سے زیادہ  محبت میرے اہل بیت اور میرے صحابہ سے کرنے والا ہوگا ”(کنز العمال ج/۱۲ ص/۹۶)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا “جو شخص میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ احسان کرے گا تو میں قیامت کے دن اسے اس احسان کا بدلہ دوں گا ”(کنز العمال ج/۱۲ ص/۶۳۰ )۔

        امام بیہقی  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، اور میری اولاد اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے، اور میری ذات اس کی ذات سے محبوب تر نہ ہوجائے ”(صواعق محرقہ  ص /۳۴۴ )۔

    قارئین کرام :اب تک جو اہل بیت کی فضیلت و  شان میں احادیث مذکور ہوئیں و ہ تمام اہل بیت کو عام ہیں ،ان میں سے کسی کا نام صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہوا ،اب ہم ان احادیث کو تحریر کرتے ہیں جن میں حضرت علی ،فاطمہ اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم کا ذکر ہے پھر وہ احادیث لکھی جائیں گی جن میں الگ الگ ان مقدس حضرات کے فضائل وکرامات اور خصو صیات مذکور ہو ں گی!۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ،فاطمہ اور حسنین کریمین کے متعلق فرمایا “جو ان سے جنگ کرے گا میں ان سے جنگ کروں گا اور جو ان سے صلح کرے گا میں اس سے صلح رکھوں گا- “(ترمذی  ،مستدرک  ج/۳ ص/۱۴۹)۔

 امام احمد نے روایت کیا کہ  حضور اقد س ﷺ نے حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا  ”جو شخص مجھ سے ،ان دونوں سے ،اور ان کے والدین سے محبت رکھے گا وہ قیامت کے دن (جنت میں )میرے درجے میں ہوگا “(صواعق محرقہ  ص /۲۳۵ ،کنز العمال ج/۱۳ ص/۲۷۵)۔

نوٹ :اس حدیث میں بیان ہوا کہ محبان اہل بیت سرکار کے ساتھ جنت میں آپ کے درجے میں ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ جنت میں آپ ﷺ جس درجہ اور منزل میں تشریف فرماہوں گے محبان اہل بیت کا درجہ آپ کے درجے کے قریب ہوگا۔

 ابن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ”جنت میں جو سب سے پہلے داخل ہوگا وہ میں ہوں گا اور فاطمہ اور حسن و حسین ہوں گے، میں نے عرض کی یا رسول اللہ :اور ہم سے محبت کرنے والے ؟ تو آپ نے فرمایا تمہارے بعد“۔ 

تنبیہ : شیعہ حضرات اس حدیث سے اس غلط فہمی اور خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ تو حضرات ِ اہل بیت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں لہٰذا وہ جنتی ہیں ،کیونکہ ان جاہلوں اور بے وقوفوں نے حضرات اہل بیت کی محبت میں کس قدر غلو اور زیادتی کی کہ حد شرع کا پاس و لحاظ نہ رہا ،یہاں تک کہ ان لوگوں نے صحابہ کی تکفیر کی اور امت کو گمراہ کیا ،حضرات شیخین (حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ) کو غاصب و باغی کہا ،ان کی شان میں توہین و تنقیص کی

لہٰذا ان کی محبت ان کے لئے تباہی و ہلاکت اور دوذخ میں جانے کا سبب بنے گی ،خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ” مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا وہ ہلاک ہوگا” (صواعق محرقہ ص /۲۳۵)۔

اورایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا “میری محبت اور حضرت ابو بکر و عمر فاروق سے دشمنی و عداوت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ،کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ،جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں (ایضا ص /۲۳۸)۔

 بلکہ اہل بیت کرام سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے والا گروہ اہل سنت و جماعت ہے جو انبیاء کرام ،صحابۂ عظام  ،ابو بکر و عمرفاروق، عثمان و حیدر اور حضرت فاطمہ و حضرات حسنین کریمین سے شریعت کے دائرے میں رہ کر محبت کرتے ہیں ان کے قول وکردار ،سیرت و اخلاق کو اپنے لئے نمونۂ عمل اور مشعل ہدایت سمجھتے ہیں۔ 

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ،حضرت فاطمہ اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور بارگاہ خداوندی میں عرض گزار ہوئے اے اللہ یہ میری اہل ہیں (ایضا ص /۱۸۷)۔

  حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جنت میں ایک درجہ جسے وسیلہ  کہا جاتا ہے ،جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو میرے لیے وسیلہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ:آپ کے ساتھ اس درجے میں کون رہے گا ؟ آپ نے فرمایا :علی ،فاطمہ اور حسن و حسین (کنز العمال  ج/۱۳ ص/۲۷۵)۔

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے اہل بیت اطہار سے محبت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین[صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]

اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں……پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری

رپورٹ:عبدالرزاق سہروردی ایٹادوی متعلم: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، گرڈیا،تحصیل:رامسر، ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:”یَااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ”(۶)
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ،اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر وتوضیح مفسرین کرام نے کچھ یوں کی ہے {یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا: اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ۔} یعنی اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں  بجالا کر، گناہوں  سے باز رہ کر،اپنے گھر والوں  کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں  علم و ادب سکھا کراپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ۔

            یہاں  آدمی سے کافر اور پتھر سے بت وغیرہ مراد ہیں  اور معنی یہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت ہی شدیدحرارت والی ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی وغیرہ سے جلتی ہے جہنم کی آگ اس طرح نہیں  جلتی بلکہ ان چیزوں  سے جلتی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔

            مزید فرمایا کہ جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں  کہ جو جہنمیوں  پر سختی کرنے والے اور انتہائی طاقتورہیں  اور ان کی طبیعتوں  میں  رحم نہیں ،وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمانوں پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اپنے اہلِ خانہ ورشتہ داروں کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی ان پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں ۔ترغیب کے لئے یہاں اہلِ خانہ کی اسلامی تربیت کرنے اور ان سے احکامِ شرعیہ پر عمل کروانے سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے ،اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔( بخاری)

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مار کر نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر الگ کر دو۔( ابو داؤد)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات میں اُٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی (نماز کے لئے) جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔اللّٰہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھے،پھرنماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے ،اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔( ابو داؤد، کتاب التطوّع، باب قیام اللیل، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۱۳۰۸)

        پانی کے چھینٹے مارنے کی اجازت اُس صورت میں  ہے جب جگانے کے لئے بھی ایسا کرنے میں  خوش طبعی کی صورت ہو یا دوسرے نے ایسا کرنے کا کہا ہو۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اہلِ خانہ کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے…مذکورہ خیالات کااظہار مغربی راجستھان کی عظیم و ممتاز دینی درسگاہ" دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان" کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے حضرت پیرمیاں ولایت شاہ بُکیرا شریف کی یاد میں  عیدگاہ میدان ایٹادا،تحصیل سیڑوا،باڑمیر میں 27 ذی الحجہ 1443 ہجری مطابق 27 جولائی 2022 عیسوی بروز بدھ [خمیس کی رات] "سیرت کمیٹی" کے زیراہتمام منعقدہ عظیم الشان "جلسۂ اصلاح معاشرہ" میں خطاب کے دوران کیا-

مزید آپ نےاپنے ناصحانہ خطاب کے دوران یہ بھی فرمایا کہ آپ حضرات اپنے مرشدان طریقت کے نام اور یاد میں مجالس کا انعقاد ضرور کریں مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ آپ ان کی تعلیمات وفرمودات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ان بزرگان دین کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کریں،آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان مجالس کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم سبھی لوگ ان مجالس میں اپنے علمائے کرام سے جو مواعظ سنیں ان پر عمل پیرا ہونے کی ہرممکن کوشش کریں،نماز پنجگانہ باجماعت کی پابندی کریں،اپنے مالوں کی زکوٰة اداکریں،اللہ تعالیٰ نے اگر صاحب استطاعت بنایا ہے تو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کریں،ماہ رمضان المبارک میں پابندی سے روزے رکھیں حاصل کلام یہ کہ مکمل ارکان اسلام پر عمل کریں، آپ نے اپنے آخری جملوں میں پردہ کے اہتمام اور علاقہ میں پھیلی بدعات وخرافات سے پرہیز کرنے پر خصوصی زور دینے کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت پڑھنے کی تاکید وتلقین کی اور ساتھ ہی سرتاج الصوفیاء والشعراء حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کے عارفانہ سندھی اشعار کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے ہوئے اس کی ایسی فاضلانہ تشریح وتوضیح کی جس سے جلسہ میں موجود علماء وعوام جھوم اٹھے-
آپ کے علاوہ کچھ دوسرے علاقائی علمائے کرام اور دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے طلبہ نے نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائےکرام شریک رہے-
حضرت مولاناغلام رسول قادری خطیب وامام جامع مسجد ایٹادا،حضرت مولانالعل محمد صاحب سہروردی، حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب سہروردی خطیب وامام جامع مسجد کونرا،حضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی، ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب مصباحی، حضرت قاری محمدحنیف، حضرت مولاناعبیداللہ صاحب،حضرت مولانا خالدرضا صاحب سہروردی انواری تالسر،حضرت مولانا الحاج علم الدین صاحب اشفاقی،حضرت مولانا راناخان صاحب،حضرت مولانا محمدعرس سکندری انواری-حضرت مولانامحمد ابراہیم صاحب گلزاری خطیب وامام:مسجد جھڑپا ومولانا عبدالحکیم صاحب اشفاقی ایٹادا وغیرہم-
نظامت کے فرائض خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ ومولوی محمدنظام الدین انواری ایٹادوی متعلم درجۂ فضیلت دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے مشترکہ طور پر بحسن وخوبی نبھائی-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء قبلہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-

مسلمانوں پرقرآن مقدس کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں،،از:- محمد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

قرآن مقدّس اللّٰہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی آخری کتاب ہے، جسے انسانیت کی ہدایت کے لئے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل کیا گیا،اس کتاب ہدایت سے انسان استفادہ اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا- حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: “اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب [قرآن مجید] کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کر دے گا”… (مسلم ج/1 ص/ 272)
سر فراز اللّٰہ کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں چنانچہ ابتدائی چند صدیوں میں مسلمان جب ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے، لیکن جب سے مسلمانوں نے قرآن کے احکام پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے- کاش مسلمان دوبارہ قرآن مقدّس سے اپنا رشتہ جوڑتے، تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس ہو جاتی-

قرآن پر ایمان لانا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا وہ ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا- یہ ایک ایسی تنہا آسمانی کتاب ہے جو تقریبا ڈیڑھ ہزار سال سے اب تک اسی اصل عربی زبان میں بغیر کسی تحریف و تبدیل کے محفوظ ہے-اس کی تلاوت باعث برکت و ثواب ہے، اس کا سمجھنا رشد و ہدایت کا سبب اور اس کے مطابق عمل کرنا فلاح اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے-

قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جسے کروڑوں انسان روزآنہ کم سے کم پانچ مرتبہ ضرور پڑھتے ہوں، یہ اعجاز صرف اور صرف قرآن مقدّس کو ہی حاصل ہے-
قرآن پر ایمان لانے کا باقاعدہ مطلب یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام مانا جائے،اسے آخری نازل شدہ الہامی کتاب تسلیم کیا جائے،اس کی تعلیمات اور احکامات کو برحق مانتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے-

آئیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر قرآن کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ اور ہم ان کی بجاآوری کہاں تک کر رہے ہیں؟

یوں تو ہم مسلمانوں پر اللّٰہ ربّ العزت کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر ہم اُنہیں شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کر سکتے، اور اگر شکرانِ نعمت کے طور پر زندگی بھر اس کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی وہ ان احسانوں کا بدل نہیں ہو سکتے، چنانچہ اللّٰہ کے احسانوں میں سے ایک عظیم ترین احسان یہ ہے کہ اس نے ہم انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کی خاطر اپنا پیارا کلام اپنے محبوب نبی آخر الزماں صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا-اب ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم پر قرآن شریف کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟… پھر یہ دیکھیں کہ آیا ہم انہیں ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے تو اس بات پر غور و فکر کریں کہ ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہوسکتی ہے؟ اور پھر بلا تاخیر اس کے لئے لیے سرگرم عمل ہو جائیں- اس لیے کہ اس کا براہ راست تعلق ہماری عاقبت اور نجات سے ہے، اور اس معاملے میں کسی کوتاہی کی تلافی محض قرآن کی شان میں قصیدے پڑھنے سے بہرحال نہیں ہوسکتی-

مسلمانوں پر قرآن مقدّس کے حقوق: جس طرح قرآن مقدّس پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مسلمان قرآن مقدّس کے درج ذیل بنیادی پانچ حقوق ادا کرے!
1: قرآن پر سچے دل سے ایمان رکھے- 2: قرآن کی تلاوت کرے-
3:قرآن کو سمجھنے-
4:قرآن کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرے-
5:قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے-

پہلاحق: قرآن پر ایمان لایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اللّٰہ کے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل ہوا- اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل تو ہوجاتا ہے لیکن حقیقی ایمان اس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے دل میں پیدا ہو جائے-اب یہ بات بھی بظاہر عجیب سی لگ رہی ہے کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مقدّس پر ایمان لایا جائے حالانکہ دیگر ضروریات دین کے ساتھ قرآن پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا-
معاذاللہ اگر کوئی شخص قرآن کے کلام اللّٰہ ہونے کا منکر ہو جائے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائےگا، مگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں(1) زبان سے اقرار کرنا-(2)دل سے تصدیق کرنا، اور ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے… اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا باقاعدہ یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جاتا، جیسے ہر آدمی کو معلوم ہے کہ آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں اپنی انگلی بھی نہیں ڈالتا،بلکہ انسانوں کا تو عام طور پر طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر شک بھی ہو جاتا ہے اس سے بھی انسان احتیاط برتتا ہے، جیسے اکثر لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے سانپ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر زہر نہیں ہوتا اس کے باوجود عموماً کوئی سانپ پکڑنے کو تیار نہیں ہوتا… ہم مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن پر کامل یقین اور ایمان ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے، اس لیے کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو ہم اس کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ در اصل ہمارا ایمان و یقین کمزور ہے…ہم زبان سے اقرار تو کرتے ہیں کہ یہ اللّٰہ ربّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی باضابطہ دولت سے محروم ہیں، ورنہ جسے باقاعدہ یقین حاصل ہو جائے تو اس کا اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے یعنی وہ اکثر و بیشتر قرآن کی تلاوت اور اس کے تدبر و تفکر اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں لگا رہتا ہے… صحابۂ کرام کے احوال میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ وہ قرآن سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے تھے… اگر ہمارے دلوں میں بھی صحابۂ کرام کی طرح قرآن سے محبت ہو جائے اور اس کی تلاوت کریں، انہیں کی طرح باقاعدہ یقین ہوجائے کہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے، اور یہ ہماری ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا، اور قرآن کی عظمتوں کا نقش دل پر قائم ہوتا جائے گا،اور جوں جوں قرآن پر ایمان و یقین بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم وتکریم اور احترام میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا-
قرآن پر ایمان لانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زبان و دل سے اقرار و تصدیق کی جائے کہ یہ ہر اعتبار سے من و عن [ہوبہو] جیسا نازل ہوا تھا ہمارے پاس موجود ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف و تبدیلی اور کمی وزیادتی نہ مدّعا میں واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے متن میں،بلکہ یہ محفوظ و مامون ہے اور قیامت تک اسی وصف کے ساتھ رہے گا-

دوسرا حق: قرآن مقدّس کی تلاوت کی جائے:- مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر قرآن مقدّس کا جو دوسرا حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں، اس کی تلاوت کریں، اور اسے باربار اور اس طرح پڑھیں کہ جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے-

تلاوتِ قرآن پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کا موثر ذریعہ ہے- قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے، اس لیے کہ یہ روح کے لئے غذا کے منزل میں ہے-

تلاوت قرآن کے کچھ اہم آداب:-(1) قرآن کی تلاوت ایک اہم عبادت ہے، یہ عبادت پورے ذوق و شوق سے کرنی چاہیے-(2) تلاوت سے پہلے طہارت ضروری ہے، بغیر وضو قرآن کو چھونا بھی نہیں چاہیے- (3)پاک جگہ اور قبلہ رخ ہو کر، اور دوزانو بیٹھ کر تلاوت کرنی چاہیے- (4)تلاوت سے پہلے تعوذ اور پھر تسمیہ پڑھیں،اس کے بعد تلاوت شروع کریں-(5)ٹھہر ٹھہرکر اچھی آواز سے تجوید اور ترتیل کے مطابق تلاوت کرنی چاہیے-(6)تلاوت کرتے وقت آواز نہ زیادہ اونچی ہو اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ درمیانی آواز سے تلاوت کرنی چاہیے-(7)تین دن سے کم وقت میں قرآن مجید ختم نہیں کرنا چاہیے، بہتر اور افضل یہ ہے کہ ہفتے میں ایک بار ختم کیا جائے ورنہ کم از کم ایک پارہ یا جتنا بھی میسر ہو بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- (8) قرآن مجید کی تلاوت ثواب اور ہدایت کی نیت سے کرنی چاہیے-(9) تلاوت کرتے وقت قرآن کے معانی و مطالب پر غور و فکر کرنی چاہئے… اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ جو مستند تراجمِ قرآن و کتبِ تفاسیر ہیں علمائے اہلسنت سے رجوع کرکے ان کا انتخاب کرلیں-(10)جہاں عذاب یا دوزخ کی آیت آئے وہاں اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے اور جہاں رحمت اور جنت سے متعلق آیت ہو وہاں پر اللّٰہ سے رحمت اور جنت کے حصول کی دعا کرنی چاہیے-(11)قرآن کی تلاوت اس عزم اور ارادے کے ساتھ کی جائے کہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے!
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی توفیق سعید بخشے-

تیسرا حق: قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں:- قرآن پر ایمان لانے اور اسے پڑھنے کے بعد تیسرا حق قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے، اس لیے کہ قرآن کے نزول کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے کیوں کہ قرآن کے معنیٰ و مطالب، اس کے احکام وغیرہ کو سمجھے بغیر عمل کیسے کیا جائے گا؟ اور ویسے بھی اس پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے، اس کا فہم و ادراک حاصل کیا جائے-

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عجم(غیرعرب) کے زیادہ تر لوگ بغیر سمجھے ہی اسے پڑھتے ہیں، یعنی صرف اس کی تلاوت پر اکتفا کرتے ہیں- ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدا نہ خواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی فائدہ یا ثواب نہیں ہے،کیونکہ ہماری نظروں میں حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا وہ فرمان مبارک بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ “قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں” پھر آپ نے مثال دے کر فرمایا کہ ” الم(الف لام میم) تین حروف ہیں ان کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں” آپ کے اس فرمان مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں، لیکن اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو سونے پر سہاگہ، اور قرآن کے حقوق پر ہم صحیح معنوں میں عمل کرنے والے بھی ہوں گے-
اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو قرآن کی سمجھ عطا فرمائے-

چوتھا حق: قرآن پر عمل کیا جائے:- قرآن پر ایمان لانے، تلاوت و ترتیل،پڑھنے و سمجھنےکے بعد قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے، کیوں کہ قرآن کو ماننا، پڑھنا اور سمجھنا یہ سب اصل میں عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں، اور یہ ساری چیزیں اسی وقت زیادہ مفید و نفع بخش ثابت ہوں گی جب اس پر عمل کیا جائے-
قرآن تو تمام لوگوں کے لئے رہنمائی کی کتاب ہے، اس میں ہمارے لئے ہر ہر معاملے کے لئے ہدایات موجود ہیں- قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے؟اور کن کاموں سے بچنا چاہیے؟ اس میں انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی- اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لئے ہمیں عطا کی ہے کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں، مگر افسوس کہ دورِ حاضر میں بعض لوگوں نے قرآن کے تعلق سے اس کے خلاف اپنا معمول بنا لیا ہے، اور اسے صرف تلاوت، قرآن خوانی اور دعا و تعویذ کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، جب کی قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا منتر کی کتاب ہے، جس کاصرف پڑھ لینا ہی دفعِ بلیّات کے لیے کافی ہو، نہ یہ محض حصولِ ثواب و برکت کے لئے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب کے حصول پر اکتفا کر لی جائے، یا اس کے ذریعہ سے جاں کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے، اور نہ یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضتِ ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولانگاہ بنا لیا جائے، بلکہ یہ تو حقیقت میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن خود اس پر شاہد ہے فرمان خداوندی کامفہوم ہے” یہ کتاب[قرآن] لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے” اور اس کا مقصدِ نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے حقیقت میں اپنی زندگیوں کا لائحۂ عمل بنائیں-
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات و احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے-

پانچواں حق: قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے،پڑھنے اور اس کو سمجھنے و عمل کرنے کے بعد مسلمانوں پر قرآن مجید کا پانچواں اور آخری حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس کے پیغامات اور تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائے، جس طرح صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پڑھنے و سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے ساتھ اور انفرادی طور پر بھی اس کے پیغامات کو آگے پہنچایا تھا-

ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم تمام لوگوں تک اس ابدی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ اگر ہم مسلمان اس قرآن اور اس کی تعلیمات کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو اورکون پہنچائے گا؟
حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم خاتم النبییین ہیں، اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، لہٰذا جن لوگوں تک اللّٰہ کا پیغام اب تک نہیں پہنچ سکا ان تک اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری حسبِ صلاحیت واستطاعت امت محمدیہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر ہے، اور یہ حضور کی امت کے لئے بہت بڑے اعزاز اور شرف کی بات ہے-
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم قرآنی پیغامات اور شریعت اسلامیہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کریں-

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مقدّس کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور خاتمہ بالخیر کی توفیق عنایت فرمائے- آمین بجاہ سیّد المرسلین(صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلّم)

علم دین کی اہمیت و فضیلت: احادیث کی روشنی میں!از:۔(علامہ الحاج پیر)سید نور اللہ شاہ بخاری!مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر (راجستھان)

علم دین اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ،رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے ،اور جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہے وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں ۔

علم دین کی ضرورت و اہمیت اور اس کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺکا صرف یہی فرمان کافی ہے کہ “بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے “جس ذات کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں اکٹھا کر دی اس ذات نے خودکومعلم کے طور پر پیش کیا ،اس سے تعلیم و تعلم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور خود اللہ رب العزت قرآن مقدس میں علم اور اہل علم کی شان بیان فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ربی ہے ترجمہ:تم فرمادو :کیا برابرہیں جاننے والے اور انجان؟”(پارہ /۲۳ آیت /۹)

دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا،درجے بلند فرمائے گا”۔(پارہ /۲۸ آیت /۱۱ سورۂ مجادلہ ) نیز ارشاد فرما یا :ترجمہ:”اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں “۔(سورۂ فاطر آیت/۲۸)

ان مذکورہ آیات کریمہ سے علم اور اہل علم کی قدر و منزلت معلوم ہوتی ہے اور اس علم سے صرف علم شرعی مراد ہے جس کے حصول پر ثواب اور اہل علم کی عظمت کا وعدہ کیا گیا ہے نہ کہ دنیاوی علم (شرح ریاض الصالحین ج/۴ص۳)

علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے علم میں اضافہ کے لئے گویا دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اور تم عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے “۔(پارہ /۱۶ رکوع /۱۴) اگر علم سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے بھی مانگنے کا حکم دیا جاتا ،جیسا کہ اس آیت ِکریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “اس آیت ِکریمہ سے علم کی فضیلت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے،اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺکو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا”۔(فتح الباری شرح بخاری ج/۱ص/۱۳۰)

کتنا علم سیکھنا ضروری ہے؟: حضور نبی اکرم ﷺنے تو علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا”علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے (مشکوٰۃ شریف ص/۳۴)

لیکن کتنا اور کون سا علم سیکھنا فرض ہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کر سکے ۔اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی کریم کی اطاعت کر سکے اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کرسکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم ہو اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہو تاکہ ان سے بچاجا سکے ،اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے ،حلال و حرام میں فرق ہو سکے، اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے لازم ہے جو درسگاہوں میں پڑھ کر ،مسجدوں و دینی جلسوں میں سنکر،علماء کی صحبت اختیار کرکے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔اب یہ والدین اور سر پرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی علم سیکھنے کے لئے مدرسوں میں بھیجیں ۔

علم دین کی فرضیت میں کیا حکمت ہے: ہر مسلمان مرد و عورت پر علم کے فرض کرنے کی حکمت کیا ہے اسے امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے سمجھیں آپ تحریر فرماتے ہیں (۱) اللہ تعالیٰ نے مجھے فرائض کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے ،اور میں علم کے بغیر ان کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتا (۲) خدائے تعالی ٰ نے مجھے گناہوں سے دور رہنے کا حکم دیا اور میں علم کے بغیر اس سے بچ نہیں سکتا (۳) اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شکر مجھ پر لازم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر ان کا شکر نہیں ادا کر سکتا (۴) خدائے تعالیٰ نے مجھے مخلوق کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر انصاف نہیں کر سکتا (۵) اللہ تعالیٰ نے مجھے بلا و مصیبت پر صبر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر اس پر صبر نہیں کر سکتا (۶)خدائے تعالیٰ نے مجھے شیطان سے دشمنی کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر اس سے دشمنی نہیں کرسکتا،(علم اور علماء ص/۴۱،بحوالہ تفسیر کبیر ج/۱ص/۲۷۸)

پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص پر چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق عائد کیئے ہیں (۱) حقوق اللہ (۲) حقوق العباد ،ان دونوں حقوق کی ادائیگی بغیر علم کے ممکن نہیں ،اس لئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا “علم کا حاصل کر نا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے”

حضرت ملاّ علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ شارحین حدیث نے فرمایا کہ “علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ پر ضروری ہے ۔جیسے خدائے تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی وحدانیت،اس کے رسول کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا ،اس لئے کہ ان چیزوں کا علم فرض عین ہے (علم اور علماء ص/۲۲ بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج/۱ص/۲۳۳)

اور اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ”اس حدیث میں علم سے مراد وہ علم ہے جو مسلمانوں کو وقت پر ضروری ہے ،جیسے جب اسلام میں داخل ہوا تو اس پر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کو پہچاننا اور سرکار اقدس ﷺکی نبوت کو جاننا واجب ہو گیا ،اور جب نماز کا وقت آگیا تو اس پر نماز کے احکام کا جاننا واجب ہوگیا،اور جب ماہ رمضان آگیا تو روزہ کے احکام کا سیکھنا ضروری ہوگیا ،اور جب مالک نصاب ہوگیا تو زکوٰۃ کے مسائل کا جاننا واجب ہو گیا، اور اگر مالک نصاب ہونے سے پہلے مر گیا اور زکوٰۃ کے مسائل نہ سیکھا تو گناہ گار نہ ہوا ،اور جب عورت سے نکاح کیا تو حیض و نفاس وغیرہ جتنے مسائل کا میاں بیوی سے تعلق ہے مسلمان پر جاننا واجب ہو جاتا ہے ،اور اسی پر باقی مسائل و احکام کو قیاس کرلیں (ایضاص/۲۲/۲۳ بحوالہ اشعۃ اللمعات ج/۱ص/۱۶۱)

علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا: علم دین کی تحصیل کی جانب رغبت دلاتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :ترجمہ”علم حاصل کرو اگر چہ تمہیں ملک چین جانا پڑے “(کنز العمال ج/۱ص۸۹ ،جامع صغیر ص/۷۲)

یعنی علم حاصل کرنے کے لئے چاہے جس قدر دشوار سفر کرنا پڑے اس سے منہ نہ موڑو اسی حدیث رسول کے پیش نظر صحابۂ کرام نے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ملکوں کا سفر فرمایا اور علم میں کمال پیدا کیا ،بعد میں بزرگوں نے بھی صحابۂ کرام کے نقوش ِقدم پر پوری پوری پیروی کی ،سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحصیل علم کے لئے متعدد مرتبہ مکہ شریف ومدینہ شریف اور بصرہ تشریف لے گئے ۔

سیدنا غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عین جوانی کے عالم میں تحصیل علم کے لئے جیلان سے بغداد تشریف لے گئے ،طرح طرح کی صعوبتوں کا سامنا کیا،فاقہ کی نوبت بھی آئی مگر تحصیل علم میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں فرمائی، حضور سیدنا خواجہ غریب نواز اپنے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں بیس برس تک کسب علم کرتے رہے ۔یہ ہے ہمارے بزرگوں کی تعلیمی تڑپ اور ان کی نگاہ میں تعلیم کی اہمیت مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بزرگوں کی محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں ،دامن نہ چھوڑنے کے نعرے بھی لگاتے ہیں مگر باقاعدہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے، بزرگوں سے اصلی محبت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنائیں اور اسی ڈگر کو اپنائیں جس پر چل کر انہوں نے زندگی گزاری۔

طالب علم کا مقام و مرتبہ: بلا شبہ عالم کا مقام و مرتبہ تو مسلم ہے ۔مگر طالب علم کی شان یہ ہے کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :”جوشخص علم دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلاتاہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لئے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں (مشکوٰۃ ص/۳۴)

اس بارے میں ایک اور حدیث ملاحظہ کریں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کائنات ﷺنے فرمایا :”جو شخص علم کی تلاش میں راستہ چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اس پر جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے ،اور جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں یعنی مسجد، مدرسہ یا خانقاہ میں جمع ہوتی ہے اور قرآن کو پڑھتی اور پڑھاتی ہے تو ان پر خدا کی تسکین نازل ہوتی ہے ،خدا کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی ٰ ان لوگوں کا ذکر ان میں فرشتوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں (مشکوٰۃ ص /۳۳)

دیکھیئے یہاں قرآن و سنت کے علم کی تلاش میں نکلنے والے شخص( طالب علم) کی شان کہ وہ طلب علم کے لئے زمین پر چل رہا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسمانوں پر جنت میں راستہ بنا رہا ہے ،اور ساتھ ہی ساتھ اللہ رب العزت طلب علم کرنے والوں کو فرشتوں کے درمیان یاد فرماتا ہے اور فرشتے طلبہ کے لئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں ،اس سے بڑی فضیلت اورکیا ہوسکتی ہے ؟جب شاگرد یعنی طالب علم کا مقام و مرتبہ یہ ہے تو اسے پڑھانے والے کا کیا مقام ہوگا ۔

علم دین کی فضیلت اور اسکو حاصل کرنے کی ترغیب نیز علمائے کرام کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں حضور رحمت عالم ﷺکی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جن میں سے کچھ اہم حدیثیں بالاختصار درج کر رہے ہیں جن سے علم و علماء کی اہمیت باقاعدہ واضح ہو جائے گی !

علم و علماء کی فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں

(۱)حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تعلیم لیں اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیں “۔(سنن دارمی ج/۲ص/۴۳۷ بیروت ،بخاری ج/۲ص/ ۷۵۲ مشکوٰۃ ص/۱۸۳)

(۲) حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے” (بخاری ج/۱ص/۱۴)

(۳)حضرت ابو عمامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ “نبی رحمت ﷺکے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک محض عابد تھا اور دوسرا عالم تو رسول مکرم ﷺنے فرمایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ،اور رسول پاک ﷺنے ارشاد فرمایا بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چینوٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں ضرور صلوٰۃ (دعائے رحمت)بھیجتی ہیں اس متعلم پر جو لوگوں کو نیک بات بتاتا ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۴)

(۴)حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ “جو علم کی طلب میں نکلا وہ واپسی تک خدا کی راہ میں ہوتاہے” ۔(ایضا)

(۵)حضور اقدس ﷺنے فرمایا کہ” جو علم حصل کرتاہے تواس کا یہ عمل اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے “(ایضا)

(۶) حضرت واثلہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جو طلب علم میں چلا پھر علم حاصل کر لیا تو اس کو دوہرا ثواب ہے اور جو ناکام رہا (یعنی نہیں پہنچا یا پہنچ کر تکمیل ِعلم نہ کر سکا )اس کو بھی ایک ثواب ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶ ،دارمی ج/۱ص/۹۷)

(۷)حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺمسجد میں دو مجلسوں پر گزر ے اور فرمایا: ”دونوں بہتر ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے ،رہے یہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہیں ۔کہ اگر اللہ چاہے ان کو عطا کرے اور چاہے نہ عطا کرے ،لیکن وہ لوگ جو دین کی بات سیکھ رہےہیں اور (ان میں سے کچھ )جاہلوں کو سکھا رہے ہیں ۔تو یہ افضل ہے اور میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں !پھر سرکار انہیں میں تشریف فرما ہو گئے “(مشکوٰۃ ص/۳۶،دارمی ج/۱ص/۹۹)

(۸) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور انور ﷺنے (صحابہ سے )پوچھا :کہ کیا تم جانتے ہو بڑا سخی کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول جانیں ،حضور نے فرمایا:اللہ بڑا سخی ہے ،پھر آدمیوں میں بڑا سخی میں ہوں اور میرے بعد بڑا سخی وہ ہے جو علم سیکھے پھر اسے پھیلائے ۔وہ قیامت کے دن اکیلا یا فرمایا ایک جماعت ہوکر جائے گا ۔(مشکوٰۃ ص/۳۶)یعنی اس کا مقام مکمل ایک جماعت کے برابر ہوگا ،یا ایک جماعت کے ساتھ آئے گا جن کا یہ پیشوا ہوگا۔

(۹) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:علم دین سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض (فرض احکام یا علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،اس لئے کہ میں رخصت ہونے والا ہوں اور عنقریب علم اٹھتا چلا جائے گا اور کتنے سر چڑھتے جائیں گے ۔یہاں تک کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑیں گے تو ان کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہ ملے گا (مشکوٰۃ ص/۳۸)

(۱۰) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ “دین کا علم حاصل کرنا اللہ کے نزدیک نماز ،روزہ،حج اور جہاد سے افضل ہے” (کنز العمال ج/۱۰ ص/۷۵)

(۱۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایاکہ “رات میں ایک گھڑی علم کا پڑھنا و پڑھانا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶)

(۱۲)حضرت ابو زر و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ”اگر کسی طالب علم کو طلب علم کی حالت میں موت آجائے تو وہ شہید ہے” (کنز العمال ج/۱۰ص/۷)

(۱۳)حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ” بہترین عبادت علم حاصل کرنا ہے” (ایضا ص/۱۰)

(۱۴)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور احمد مختار ﷺنے فرمایا”عالم دین بنو یا طالب علم بنو ،یا عالم دین کی بات سننے والا بنو ،یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچوا مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤگے”۔(کنز العمال ج/۱۰ص/۸۲)

(۱۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ “رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل کٹ جاتا ہے مگر تین عمل کا ثواب برابر جاری رہتا ہے (۱) صدقۂ جاریہ (۲)وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے(۳)نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے “(مشکوٰۃ ص/۳۲)

صدقۂ جاریہ سے مراد ہے مسجد و مدرسہ بنوانا یا زمین اور کتابیں وغیرہ وقف کرنا اور علم سے مراد ہے دینی کتابیں تصنیف کرنا اور اچھے شاگردوں کو چھوڑ جانا جن سے دینی فیضان جاری رہے ،اور باپ نے اگر اپنی اولاد کو نیک بنایا تو وہ اسکے لئے دعائے خیر کریں یا نہ کریں باپ کو بہر حال ثواب ملے گا ۔

علمائے دین کی تعظیم کرو:۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عالموں کی عزت و تعظیم کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں تو جس نے ان کی عزت کی تحقیق کہ اس نے اللہ و رسول کی عزت کی (کنز العمال ج/۱۰ص/۸۵)

علمائے دین کی پیروی کرو:۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عالم دین کی پیروی کرو اس لئے کہ وہ دنیا اور آخرت کے چراغ ہیں (ایضاًص/۷۷)

علماءکی توہین کرنے والا قیامت میں ذلیل و رسوا ہوگا:۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جس نے عالم کی توہین کی تحقیق کہ اس نے نبی کی توہین کی اور جس نے نبی کی توہین کی یقینا اس نے جبرئیل امین کی توہین کی اور جس نے جبرئیل کی توہین کی تحقیق کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو رُسوا کرے گا “۔(تفسیر ِکبیر ج/۱ص/۲۸۱)

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سرکاراقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ” علماء کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھُلا ہوا منافق “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ص/۱۴۰)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ ﷺنے فرمایا”جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں” (ایضا)

اور حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “جس نے عالم کو حقیر سمجھا اس نے اپنے دین کو ہلاک کیا “(تفسیرِ کبیر ج/۱ص/۲۸۳)

علما ء کی توہین پر کس قدر سخت وعیدیں آئی ہوئی ہیں اس کے باوجود اگر ہم علماء کی تعظیم و تکریم نہ کریں اور ان کی توہین کے در پے (پیچھے پڑے )رہیں تو ہم اپنا انجام خود سوچ لیں ۔مجدددین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”عالم دین سے بلا وجہ بغض رکھنے میں بھی خوف کفر ہے اگر چہ اہانت نہ کرے “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ ص/۵۷۱)

دوسری جگہ تحریر فرماتے ہے کہ “اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیاوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے ،گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے،اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب ،خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے” (ایضاص/۱۴۰)

اور فقیہ اعظم ہند صدر الشریعہ علامہ امجد علی ا عظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ” علم دین اور علماء کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالم دین ہے کفر ہے” ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم دین مصطفیٰ ﷺکی عظمت و اہمیت سمجھنے اور علمائے کرام کی عزت و تکریم کرنے اور ان کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے! آمین۔

جھماجھم بارش کی ہے امید، مل سکتی ہے آپ کو راحت،

۔

رپورٹر: آصف جمیل امجدی

گونڈہ(17 جولائی) شان سدھارتھ۔اترپردیش میں شدید گرمی اور خشک موسم کی وجہ سے عام لوگ اور کسان کافی پریشان ہیں۔ دن رات لوگ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور بارش والے سیاہ بادلوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس سال وقت پر بارش نہ ہونے کی وجہ سے دھان کی کاشت خراب ہو رہی ہے، جس سے کسان کافی پریشان نظر آرہے ہیں۔ دریں اثنا محکمۂ موسمیات نے اتر پردیش کے لوگوں کے لیے راحت بھری جان کاری دی ہے جو بارش کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ اگر محکمۂ موسمیات کی بات مانی جائے تو 18 جولائی کی شام سے ریاست میں مانسون کے فعال ہونے کی امید ہے۔ اس صورتحال میں اتر پردیش میں 19 جولائی سے بارش متوقع ہے۔ مجموعی طور پر ماہرین موسمیات کے اندازوں کے مطابق 19 جولائی سے ریاست میں جھماجھم بارش کی امید جتائی جارہی ہے جس سے کسانوں کو یقیناً فائدہ ہوگا۔

قربانی: حضرت ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کی ایک عظیم یاد گار:سیدنوراللہ شاہ بخاری

مسجد غریب نواز میں ہزاروں لوگوں نے نماز عیدالاضحیٰ ادا کر کے ملک وملت میں امن چین کی دعا کی!


رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)


بلاشبہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔اور ان کے وفاشعار صاحبزادے حضرت اسماعیل نے خود کو قربان کرنے پر اپنی رضاورغبت ظاہر فرمائی تھی،قربانی کے اس عظیم الشان اور صبر آزما عمل کے دوران نہ ہی حضرت ابراہیم کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام و نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے؟ اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔ مزکورہ خیالات کا اظہار مغربی راجستھان کی عظیم ومنفرد اور علاقۂ تھار کی مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور “خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدپیر نوراللہ شاہ بخاری نے دارالعلوم کی عظیم الشان “غریب نواز مسجد” میں نماز عیدالاضحیٰ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کیا-ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت سیدنا ابراہیم اللہ کے برگزیدہ اورجلیل القدرنبی ورسول ہیں جنہیں اللہ نےاپنی خلت سے نوازا، جن پر اپنا صحیفہ نازل فرمایا،جنہیں اپنے رب کی رضا جوئی کی خاطر اس دار فانی کے اندر بے شمار امتحانات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا،اور قدم قدم پر جانثاری و فداکاری اور تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑا۔غرض ان کی پوری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اس برگزیدہ نبی نے محض اپنے رب کی رضاجوئی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیےہوش ربا آگ کی اذیت کو برداشت کرنا گوارہ کر لیااور عظمت دین و عقیدۂ توحید کی سربلندی کی خاطرعزم و استقلال کے ساتھ ثابت قدم رہے اس صبر و رضا پر آگ کے لیے اللہ کا حکم آیا:

يَا نَارُكُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ
اے آگ ! تو ٹھنڈی اورابراہیم کے لیے سلامتی والی بن جا۔(انبیاء: 69)

اس آیت کی ترجمانی شاعر مشرق مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال نے کیاخوب کی ہے؂

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اہل علم فرماتے ہیں اللہ تعالی کا یہ حکم ’’بردا و سلاما‘‘ ’’ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ اور ایک بہت بڑا معجزہ بھی ہے کہ اگر وہ آگ ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی نہ ہوتی تو اس کی ٹھنڈک بھی حضرت ابراہیم کو نقصان پہنچا سکتی تھی اس پر اللہ نے اپنے خلیل کو دشمنوں کی اس عظیم سازش اور چال سے بچا لیا اور حضرت ابراہیم آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اس کی دہکتی ہوئی آگ میں کود کرکے اپنے جزبۂ ایمان کی تکمیل فرمائی اور اللہ کے بہت بڑے امتحان میں پورے اترے۔

اسی طرح بڑھاپے کی عمر میں پہنچنے کے بعد اللہ نے ایک مرتبہ آپ کو پھر آزمایا اورصغر سنی میں بے حد تمناؤں، آرزؤں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہونے والے اکلوتے فرزند ارجمند کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ دینے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مدت کے بعد اسی اکلوتے لاڈلے کو اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ دونوں باپ اوربیٹے اللہ کے اس فرمان پر آمنا وصدقنا کہتے ہوئے رب کی رضا جوئی کی خاطر قربانی کرنے اور قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئے یہی وجہ ہے کہ اطاعت شعار و فرما نبردار بیٹا اپنے والد محترم کے سامنے اپنے جبین نیاز کو خم کرتے ہوئے گویا ہواکہ:

يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
اے ابا جان !آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(الصافات:102)
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس چھوٹی سی عمر میں اپنے والدبزرگوار کو اپنی رضا ورغبت پر مشتمل جو یہ جواب دیا اسی کی ترجمانی غالباً شاعر مشرق نے کچھ یوں کی ہے؂

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

چنانچہ رب کے حکم کی تعمیل میں ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کے حلقوم پر چھری رکھ کر اللہ کے نام پرچلادیتا ہے لیکن چھری ہے کہ اپنا کام نہیں کررہی ہے، پھر آسمان سےفرمان آتاہے:

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اے ابراہیم! یقینا تونے اپنے خواب کو سچ کردکھایا بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ (الصافات: 105)

اس طرح اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم اپنے اس عظیم الشان اور مشکل ترین امتحان و آزمائش میں پورے اترے اور رب ذوالجلال نے جنت سے ان کے لاڈلے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کےبدلے میں ایک دنبہ بھیج کر اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا۔ اللہ رب العالمین کوابراہیم خلیل اللہ کی یہ عظیم اور یادگار قربانی کی سنت اتنی پسند آئی کہ اسے بعد میں آنے والی تمام آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مسنون قرار دے دیا چنانچہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل کی اس سنت مبارکہ کوزندہ کرنے کے لیے ہر سال ذی الحجہ کے مہینہ میں ایام قربانی میں پوری دنیا میں مسلمان اپنے جانوروں کو اللہ کی راہ میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ ذبح کرتے ہیں جس کے متعلق کتب احادیث میں مروی کہ نبی کونین ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم ﷺ خود ہر سال قربانی کرتے اور اس سنت پر اپنے صحابہ کو بھی عمل پیرا رہنے کی تلقین کرتے رہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے متعلق فرمایاکہ’’من وجد سعة لان يضحي فلم يضح فلا يقربن مصلانا‘‘جسے قربانی کرنے کی طاقت ووسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔

در اصل قربانی اس عظیم الشان سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے اور اس یادگار لمحے کو ہمیشہ اپنے قلوب و اذہان کے اندر پیوست کرنے کے لیے کی جاتی ہے جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے کی تھی۔ انبیائے کرام کی قربانی میں امت کے لیے یہ پیغام پنہا ں ہےکہ اے مسلمانو! تم ان حسین ایام میں اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرکےاپنے جد امجد کی سنت کو زندہ کرو،اور اگر تم اپنے رب کی رضا مندی چاہتے ہو تو اپنا مال ہی نہیں بلکہ وقت اور جان بھی اس کے راستے میں قربان کرنے کے لیے تیار رہو، اور اگر دنیاوی اسباب و وسائل کے بالمقابل اخروی کامیابی و کامرانی اور رب کی رضا جوئی چاہتے ہو تو ایثار وقربانی اور اطاعت و وفاکی راہوں پر گامزن رہو اور اگر اپنے مالک حقیقی کی بے پایہ رحمتوں، خصوصی عنایتوں کے خواہش مند ہو تو اس کے ہر حکم واشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہو اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ یہ قربانی جسے ہم ہر سال اللہ کی راہ میں اپنی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں جس کے گوشت، پوست سے خود بھی مستفید ہوتے اور اپنے اہل خانہ و احباب کو بھی مستفید کرتے ہیں یہ اس کا مقصد حقیقی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اس قربانی کو ایک عبادت سمجھ کر کریں اور سیدنا ابراہیم واسماعیل ونبی کریم علیہم السلام کی سنت سمجھ کر انجام دیں۔

اس لیے کہ ہمارے ان ذبح کئے گئے جانوروں کے گوشت اور خون تو اللہ کو ہر گز نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے خون تو زمین پر گر کر بہہ جاتے ہیں اور گوشت ہم کھا لیتے ہیں تو اللہ کو ہماری ان قربانیوں سے کیا ملا؟ تو اس کا سیدھا اور آسان سا جواب یہ ہے کہ ہمارے مالک حقیقی کو ہمارا تقوی اور پرہیز گاری پہنچتا ہے، وہ ہمارے نیتوں اور قلوب و اذہان کو دیکھتا ہے کہ ہم نے اپنی قربانی کس نیت سے کی ہے، ہمارا مقصد ریا کاری و مکاری، شہرت ونمود ہے آیا رب کی رضا مندی۔۔!

اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اے محبوب ! آپ کہہ دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ (انعام: 162)

اور دوسری جگہ فرمایا :

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ
اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی ہے۔(الحج : 37)

ایک مسلمان و مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی بھی یہی ہے کہ اس کا مالک حقیقی اس سے راضی و خوش ہوجائےاوراسے اس کا تقرب حاصل ہوجائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عشرۂ ذی الحج کےان مبارک ایام میں کئے گئےہمارے سارے اعمال حسنہ خصوصا حج و عمرہ اور ایام قربانی میں کی گئی ہماری قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے،اور ہم سبھی لوگوں کے دلوں میں عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جاگزیں فرمائے اور ہمارے ملک کو امن چین اور شانتی کا گہوارہ بنادے- آمین!

حج کی فضیلت،اجر وثواب اور حج نہ کرنے پروعید،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم ترین رکن ہے جو زندگی میں ایک بار ہر اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے جو کہ بیت اللہ تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو حج کی فرضیت کے بعد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جم غفیر کے ساتھ مدینہ طیبہ سے سفر کر کے اس اہم فریضے کو ادا فرمایا، اس مہتم بالشان عبادت کی ادائیگی پر شرع میں بے شمار اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اور بغیر کسی عذر کے اسے ترک کرنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔
قابلِ مبارک باد اور خوش نصیب ہیں وہ سعید روحیں جنہیں اللہ عز و جل نے اپنے پاک گھر کی زیارت کا شرف بخشا اور ابر رحمت کی برستی ہوئی رم جھم بارشوں سے سیاہ کا ریوں کی جمی ہوئی پرت در پرت اور تہ بہ تہ کائیوں کو دھل کر کسی نو مولود کی طرح اپنے مقدس گھر سے واپس لوٹایا،اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمہ خانۂ کعبہ کا حج کرنا هے ہر اس شخص کے ذمہ جو وہاں تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾ [البقرة: 196] اور تم حج اور عمرے کو مکمل کرو، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے لھذا تم حج کیا کرو(مسلم شریف کتاب الحج) ایک مرتبہ آپ نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے، (نسائی شریف)۔
جمہورعلماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج کا منکر کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ چونکہ حیات مستعار کے لمحوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے جس آدمی پرحج فرض ہواورظاہری کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اسے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں بالکل تاخیرنہیں کرنا چاهئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جوشخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ جلدی کرے ( ابو داؤد شریف)۔
اسی طرح ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ کچھ نہیں معلوم کہ کیا امر پیش آجائے (کنزالعمال)

حج کی فضیلت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،عرض کیاگیاکہ اس کے بعدکیاہے؟ فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،عرض کیاگیا پھر کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حج مبرور”( یعنی وہ حج جس میں گناہ نہ کیے گیے ہوں اور ریاکاری نہ ہو)-[رواہ البخاری ومسلم]
نیز حضرت ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس نے اللہ کے لیے ٌحج کیا اور اس نے ایسی باتیں نہ کیں جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہیں اور گناہ نہ کیے تو یہ شخص اس طرح ہوگا جیسا اس دن بے گناہ تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا”
اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “الحج المبرور لیس له جزاء الاالجنة” کہ حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے-
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کو ادا کرو کیونکہ وہ دونوں تنگدستی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے”-[رواہ الترمزی]

حج کا اجر وثواب: اجر وثواب کے اعتبار سےحج کی عبادت اپنی ایک الگ ہی شان رکھتی ہے، چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ دو صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حج کے الگ الگ اعمال کا اجر وثواب پوچھنے کی غرض ونیت سے حاضر ہوئے -حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ان کے سوالات دہرا دییے- اور پھر ہر ایک کاترتیب وار جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
(1)جب کوئی حاجی اپنے گھر سے مسجدحرام کے ارادے سے چلتا ہے تو اس کی سواری کے ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک ایک غلطی معاف کی جاتی ہے-
(2)طواف کے بعد کی دورکعتوں کاثواب خاندان بنی اسماعیل کے کسی غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے-
(3)اور جب حجاج میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماکر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ دنیا کے کونے کونے سے میری جنت کی امید لگاکر میرے پاس آئے ہیں لہٰذا ان کے گناہ اگرچہ ریت کے ذرات، بارش کے قطرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں، پھر بھی میں انہیں بخش دوں گا، پس ائے میرے بندو! جاؤ بخشے بخشائے واپس چلے جاؤ تم بھی بخش دییے گیے، اور جس کے لیے تم نے بخشش کی سفارش کی ان کی بھی مغفرت کردی گئی-
(4)اور شیطان کو کنکری مارنے کاثواب یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلہ میں کسی بڑے گناہ کی مغفرت ہوتی ہے-
(5)اور قربانی کرنے کاثواب آخرت کے ذخیرہ میں جمع کردیا جاتا ہے-
(6)اور احرام کے بعد حلق کرایاجاتاہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے-اور ایک برائی مٹائی جاتی ہے-
(7)اور جب طواف زیارت کیا جاتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ حاجی گناہ سے بالکل پاک اور صاف ہوتا ہے، اور ایک فرشتہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: ” آئندہ کے لیے از سرنو اعمال کرو تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف کردییے گیے ہیں”-[الترغیب والترہیب ۲/۱۱۰]
اور ایک روایت میں ہے کہ حج کے سفر میں ایک روپیہ خرچ کرنے کاثواب دس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کے برابر ہے-[کنزالعمال ۵/۵]
حاصل کلام یہ ہے کہ سفر حج میں قدم قدم پر اجر وثواب کے اسباب موجود ہیں-تلبیہ پڑھنا خود ایک ایساعمل ہے کہ آدمی بے اختیار ذکر خداوندی کے روحانی ماحول کے جھرمٹ میں آجاتا ہے اور فرشتوں کی طرف سے اس کو مبارک بادیاں ملنے لگتی ہیں،اس کے بعد بیت اللہ میں حاضر ہوکر دعا مانگنا قبولیت کا اہم موقع ہے نیز حرم شریف کی نیکیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ گنا کردیا ہے،پھر حجراسود کے استلام کی بھی عجیب خوبی رکھی رکھی گیی ہے کہ یہ قدرتی طور پر استلام کرنے والے کے گناہوں کو جزب کرلیتا ہے،حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رکن یمانی اور حجراسود کو چھونا غلطیوں کو مٹادیتا ہے-[ترمذی شریف]
اور یہ دونوں پتھر قیامت کے دن اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کی دو زبانیں، دو آنکھیں اوردو ہونٹ ہون گے اور یہ اپنے استلام کرنے والوں کے حق میں گواہی دیں گے اور سفارش کریں گے-[الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
اسی طرح طواف کرنا بھی ایک انتہائی قابل اجر وثواب عمل ہے -ایک موقوف روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کے ہر ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں،اور ستر ہزار برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور ستر ہزار درجے بلند کیے جاتے ہیں- [الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
علاوہ ازیں ایک خاص بات یہ ہے کہ حج کے ایام میں نہ صرف یہ کہ شطواف کرنا اور دیگر عبادات انجام دینا موجب ثواب ہے،بلکہ یہاں اگر کوئی شخص حرم شریف میں بیٹھ کر نیک نیتی کے ساتھ بیت اللہ کی صرف زیارت سے شرفیاب ہو تو وہ بھی ثواب سے محروم نہیں ہوگا-
الغرض سفرحج کا ہر ہر لمحہ نیکیوں کو سمیٹنے کازمانہ ہے -جوشخص اپنے کو اللہ کی خاص رحمت کا مستحق بنانا چاہتاہے اسے چاہییے کہ وہ اس موقعہ کو غنیمت جانے اور ایک ایک لمحہ کو کار آمد بنانے کی کوشش کرے، اور غفلت وکوتاہی کو پاس بھی نہ آنے دے،ایک ایسے موقعہ پر جبکہ رحمت خداوندی کی برسات ہورہی ہو، اس سے فیضیاب نہ ہونا اور سستی میں پڑ کر اوقات کو ضائع کردینا انتہائی محرومی کی بات ہوگی-
بالخصوص سفر حج کےدوران گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے،ایک روایت میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت وارد ہے کہ جو شخص حج کے دوران اپنے کانوں آنکھوں اور زبان کی گناہوں سےحفاظت کرے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے-

حجاج سے دعائیں کرائیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہوتے ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی گناہوں کو بخش دے گا-

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر وعید: حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کو ظاہری ضرورت (سفر خرچ اور سواری کاانتظام وغیرہ) یا ظالم بادشاہ (حکومت) یا مہلک مرض جیسی کوئی مجبوری نہ ہو اور وہ (حج کا نصاب ہونے کے باوجود) حج نہ کرے -تو اس کے لیے یہ بات برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے-[رواہ الدارمی]
اللہ کی پناہ! کس قدر سخت وعید ہے استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر حج فرض ہو اور انہوں نے بغیر عذرشرعی کے حج نہیں کیا تو ان کے سوء خاتمہ کااندیشہ ہے-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو زیارت حرمین طیبین کی توفیق عنایت فرمائے-(آمین]

بچوں کی تعلیم وتربیت ایک اہم بنیادی فریضہ،، از:(مولانا)باقرحسین قادری انواری برکاتی دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

بلا شبہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کم ہے، اولاد کی اگر قدر سمجھنی ہے تو اس سے سمجھیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نہیں نوازا یا اس سے پوچھیں جس کو اولاد سے نواز کر پھر محروم کر دیا- اولاد ماں باپ کے جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں انہیں پر گھرانہ،محلہ، شہر اور ملک و ملت کی بھلائی منحصر ہوتی ہے،اولادآنکھوں کے نور اور دل کے سرور ہوتے ہیں،اس لیے فطری طور پر ہر ماں باپ کی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کی بہتر سے بہتر تعلیم وتربیت ہو، اور یہ خواہش ہونی بھی چاہیے، کیونکہ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت بہتر سے بہتر طریقے سے کریں، کیونکہ اگر آپ ایک درخت کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کریں گے تو وہ بڑا ہو کر عمدہ اور اچھے پھل دےگا، اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ شیشے کے گلاس کو احتیاط سے رکھیں گے تو اس کے ذریعہ ٹھنڈا اور مز ہ دار شربت پی کر لذت محسوس کریں گے اور اگر آپ نے گلاس کو احتیاط سے نہیں رکھا تو وہ آپ کے لئے زخمی ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے یہی حال بچوں کی صحیح اور غلط تعلیم وتربیت کا ہے-

 آج ہمارے معاشرے میں نیک اولاد کی خواہش رکھنے والے تو بہت ہیں بلکہ شاید ہر شخص ہی ہے لیکن اس کے لئے کوشش کرنے والے اور صحیح طریقے اور تربیت کے اصولوں پر عمل کر کے انہیں راہ راست پر لانے والے بہت کم ہیں، بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہےجو ایسا رویہ اور طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں جس سے اولاد کے سنورنے کے بجائے بگڑنے کی امید زیادہ ہوتی ہے مثلاً بعض لوگ ضرورت سے زیادہ اولاد سے لاڈ پیار کرتے ہیں اور اس لاڈ پیار میں ان کی اصلاح اور تربیت سے بلکل غافل ہو جاتے ہیں، بعض لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری بھول جاتے ہیں اور پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہاں ان کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، وہاں ان کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہے یا نہیں؟ ان کو اللہ وہ رسول کا فرماں بردار بننے اور رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اس پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے-

  یہ بات ہمارے دلوں پر نقش ہونی چاہیے کہ اولاد کو دین دار بنانے کے لئے سب سے پہلے ماں باپ کو دین دار بننا لازمی ہے، دور حاضر میں اکثر بے شعور ماں باپ کی اپنی اولاد کو دین دار دیکھنے خواہش تو ضرور ہوتی ہے لیکن وہ خود دین پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے، اور نیک اعمال و افعال سے بالکل ہی دور رہتے ہیں، ان کی اپنی زندگی میں نہ حرام و حلال کی تمیز ہوتی ہے نہ نماز کی پابندی اور نہ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے، نہ وہ سنتوں کی پابندی کرتے ہیں، پھر بھی ان کی چاہت ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک اور صالح بن جائے، اس کے لئے وہ اپنے بچوں کو اچھے مدرسوں اور اسکولوں میں بھیجتے ہیں، با کمال اساتذہ کا انتظام کرتے ہیں، اور انہیں دینی محفلوں وغیرہ میں بھی بھیجتے ہیں،بلاشبہ یہ ساری چیزیں اچھی ہیں مگر بچے اساتذہ اور دینی محفلوں وغیرہ سے زیادہ اپنے ماں باپ اور گھریلو ماحول کو دیکھ کر اسی طرز پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں-

  اولاد کی تربیت بہت ہی نازک اور دیر طلب کام ہے، اس میں سب سے پہلے ماں باپ کو خود دین دار بننا ضروری ہے، خاص طور پر گناہ کبیرہ، بے نمازی پن، بے پردگی، حرام کمائی، گانے بجانے، فلمیں دیکھنے، گالی گلوج، شراب نوشی اور فضول خرچیاں وغیرہ کر نے سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا، کیونکہ بچوں کی سب سے بڑی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے کہنے کی صورت میں اتنا نہیں سیکھ پاتے جتنا عملی طور پر کر کے بتانے یا کرتے ہوئے دیکھنے کی شکل میں سیکھ جاتے ہیں، چنانچہ ماں باپ کے درمیان لڑائی جھگڑے، مار پیٹ، گالی گلوج، رشتے داروں کے ساتھ نا اتفاقی یا کسی قسم کے اخلاقی قدروں کو بچوں کے سامنے پامال کرنا بچوں کی تربیت کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے-

   گھروں میں عام طور پر ماں باپ اور گھر کے بڑے بزرگ کا جیسا مزاج اور رویہ ہوتا ہے اولاد بھی اسی مزاج اور نوعیت کی تربیت پاتی ہے،

ماں باپ ہی اولاد کے لیے سب سے پہلا، سب سے اہم، سب سے بڑا اور سب سے ضروری مدرسہ ہیں، اور بچے ماں باپ کی نصیحتوں سے اتنا کبھی نہیں سیکھ پاتے جتنا ان کے کردار اور باہمی سلوک سے سیکھتے ہیں، کیونکہ بچوں کی تربیت میں والدین کا ہی کردار سب سے اہم ہوتا ہے، بچہ کم عمری میں اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت احتیاط برتنی چاہیے، ہر طرح کے نا پسندیدہ کاموں اور غیر اسلامی حرکتوں سے اجتناب اور پرییز کرتے ہوئے اسلامی اور اچھے اعمال و افعال کا مظاہرہ کرنا چاہیے-

اولاد کی تعلیم و تربیت سے بے توجہی: آج دنیا میں بہت سے لوگ ایسے پاۓ جاتے ہیں جنہیں خود اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی بالکل ہی فکر نہیں ہے، وہ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دےکر صرف اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے،ایسے لوگ عموماً اپنے بچوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا انتظام تو کر دیتے ہیں لیکن ان کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ بعضوں کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہوتی ہے؟اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں ؟ اس بڑی غفلت کے وہ لوگ بھی شکار ہیں جو خود تو نمازی ہیں،اور کچھ اخلاقی آداب سے بھی واقف ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں، لیکن ملازمت یا تجارت میں اس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے ان کے پاس گویا وقت ہی نہیں ہے، حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لئے ہوتی ہے، جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق اور اس کے کردار کا خون ہو جائے تو ایسا کمانا کس کام کا ؟
بعض لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں، مصلح بھی ہیں، بلکہ مرشد بھی ہیں، دنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں، کبھی یہاں وعظ کی، کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی کتاب لکھی یا کوئی رسالہ ترتیب دیا، لیکن خود اپنی اولاد کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں، حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس سے بارہ سال ہو جاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اپنی اولاد کو حقیقی علم سے بالکل ہی محروم رکھتے ہیں، یعنی اپنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے، بیس پچیس سال کی اولاد ہو جاتی ہے اور انہیں کلمہ تک یاد نہیں رہتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں نہ اس کے فرائض و واجبات، اور نہ ہی اسلام کے بنیادی عقائد کی انہیں خبر ہوتی ہے، گویا وہ مبادیات اسلام و ضروریات اسلام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، اس بات کے جواب دہ ان کے ساتھ ان کے والدین بھی ہوں گے-
اور بعض والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کا احساس تو رکھتے ہیں لیکن اسے معمولی بات سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بہت ہی عظیم اور اہمیت کی حامل بات ہے، اور اس جانب والدین کی کم توجہی نا قابل تلافی نقصان کا ذریعہ بن رہی ہے، اور یہ نقصان دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی، اور اگر والدین چاہیں تو ایک ذرا سی توجہ سے انقلابی تبدیلی اور بدلاؤ ظاہر ہو جائے گی(ان شاءاللہ)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کتنے ہی والدین ایسے ہیں جنہیں دن رات اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کی فکر تو دامن گیر رہتی ہے اور وہ اس کے لئے کئی طرح کی قربانیاں بھی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کے علاوہ اکثر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے آخر ایسا کیوں ؟ کیونکہ کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کے خواہش مند تو ہوتے ہیں لیکن اس نازک کام کے طریقوں و اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور مستقل مزاجی اور تسلسل سے یہ کام نہیں کرتے-

     آئیے ہم بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے بارے میں کچھ اصول درج کرتے ہیں، اگر ہم نے ان کو اپنا کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی جانب دھیان دیا تو ان شاءاللہ ہمارے بچے دین دار اور قوم وملت کے لئے نفع بخش ثابت ہوں گے-

بچوں کی صحیح تربیت کے لیے کچھ اہم امور و رہنما اصول:-

بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ اس کی اچھی تربیت ہے،جو بچوں کو اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے، اس تربیت کا سب سے اہم پہلو بچوں کے ساتھ والدین خاص طور پر ماں کے طرزِ عمل سے متعلق ہیں اس بارے میں کچھ اصولی باتیں درج کی جا رہی ہیں!

★بنیادی دینی تعلیم :- ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے، قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے، سات سال کی عمر سے نماز کا اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے، بچوں کو بالکل ابتدا(شروعاتی دور) سے اللہ کا ڈر اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا اور انہیں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ان کے کام کو ملاحظہ فرما رہا ہے-

★اخلاقی تربیت :- بچوں کو ابتدائی عمر سے اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں سچائی ، امانتداری ، بہادری ، احسان شناسی ، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے، پھر انہیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوج اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے، شروعاتی عمر سے ہی محنت ومشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دور رکھا جائے-

★جسمانی تربیت:- والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشوونما غزا اور آرام کا خیال رکھا جائے، اور انہیں ورزش کا عادی بنایا جائے، جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے-

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لئے پرہیز کرنا لازم ہے:-
(1) تحقیر آمیز سلوک:- بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے، بچوں کی توہین و تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے-
(2) سزا میں اعتدالی:- بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے-
(3) بےجا لاڈ پیار:- بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انہیں ضدی اور خود سر بناتا ہے اس میں بھی اعتدال نہایت ضروری ہے-
(4) بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا:- ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے، جس سے بہت سے بچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو کر انتہاء پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے-
ان اصولی باتوں کے علاوہ چند عملی اقدامات درج کر رہے ہیں، جن پر والدین آسانی سے عمل کر سکتے ہیں-
(1) اپنے خاندان میں بالخصوص بچوں کے ساتھ جہاں تک ہوسکے زیادہ وقت گزارا جائے، اپنی معاشی جدوجھد و دیگر مصروفیات کو اس طرح تربیت دیا جائے کی لازماً کچھ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا جا سکے، بچوں کی تعلیم وتربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نا مناسب اور غیر معقول طریقہ ہے، مدرسے میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزآنہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں-
(2)بچوں کوسخت باشی، جد وجہد اور محنت کا عادی بنانے کے لئے انہیں ایک درمیانی معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے، تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پر مشقت زندگی کا تجربہ حاصل کر سکیں-
(3) اولا تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے، اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے، اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابند بنایا جائے، بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے تاکہ ان میں بچپن ہی سے کفایت شعاری بچت اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو، والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے مگر ابتداء سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا ان کے مستقبل کے ساتھ سنگیں مزاق ثابت ہو سکتا ہے، اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ تعلیمی اداروں میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ وطالبات ہوتے ہیں، اس طرح ان میں غیر مطلوب مقابلہ آرائی کو روکا جا سکتا ہے-
(4)ابتداء ہی سے بچوں سے خود انحصاری یعنی “اپنی مدد آپ” کے اصول پر کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے، کمرے کو ترتیب دینے،اپناکپڑا خود دھونے اور بستر وغیرہ لگانے اوت کپڑے سمیٹنے وغیرہ کی عادت ڈالی جائے-
(5)والدین کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں-مثلاً اپنے دادا دادی ودوسرے بزرگوں کی برابر خدمت کرتے رہیں-
(6)بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں و ملنے جلنے والوں کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال عموما غلط صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے-
(7) بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے،اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے، مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے، والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کرینگے-
(8)اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے، بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسبِ موقع تادیب انہیں اصلاح کا موقع فراہم کرےگی اور وہ عدل اور انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے-
(9)بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کی جائے تاکہ ملک و ملت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو، موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے،مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے اس رویّے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا-
آخر میں اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ھیکہ اللہ وحدہ لا شریک ہمیں اپنے بچوں کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت دینے کی توفیق بخشے، تاکہ یہی ہمارے بچے کل بڑے ہو کر قوم وملت اور اپنے ملک کی خدمت کر سکیں اور نیک و صالح معاشرہ کو قائم کریں-آمین!