WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

سرجپوروہ میں جشن سنّت رسول، رپورٹ:محمدتوصیف رضابرکاتی بھوانی پور،سمرہنا پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

7 مئی 2022 عیسوی بروز سنیچر مدرسہ عربیہ اہلسنت صدیقیہ فیض العلوم سرجپوروہ،
اسکابازار،سدھارتھ نگر کے سامنے مرحوم ومغفور عبدالرشید انصاری کے صاحبزادے عزیزم محمدعالم کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر نہایت ہی عقیدت واحترام کے ساتھ “جشن سنّت رسول ومحفل عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم” کا انعقاد کیا گیا-
اس محفل پاک کی شروعات حضرت حافظ وقاری احمدرضا ضیائی مدرس:مدرسہ عربیہ اہلسنّت صدیقیہ فیض العلوم سرجپوروہ کے ذریعہ تلاوت کلام ربّانی سے کی گئی-

پھر یکے بعد دیگرے کئی لوگوں نے بارگاہ رسول اکرم میں نعتہائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نذرانے پیش کیے-

افتتاحی مگر انتہائی جامع و اصلاحی خطاب حضرت مولانا محمدعالمگیر صاحب عاصم فیضی لوٹن بازار نے”دینی وعصری تعلیم کاحصول: وقت کی اہم ترین ضرورت” کے عنوان پر کیا-آپ نے قوم مسلم بالخصوص شرکائے محفل کو دینی وعصری تعلیم کی اہمیت وفضیلت بتاتے ہوئے لوگوں کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے پیغام “آدھی روٹی کھائییے بچوں کو پڑھائییے” پر عمل پیرا ہونے کی تاکید وتلقین کی-

بعدہ ناظم مجلس حضرت مولانا شاہ عالم صاحب عزیزی مہندوپار نے یکے بعد دیگر ے کئی مداحان رسول کو لوگوں کے سامنے پیش کیا- نعت خواں حضرات نے عمدہ نعت خوانی کاشرف حاصل کر کے مجلس میں چارچاند لگادیا-

خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا-
حضرت مولاناسراج احمد صاحب قادری علیمی،حضرت حافظ وقاری احمد رضاضیائی،حضرت حافظ وقاری انیس احمد صاحب-جب کہ حضرت مولاناعابدعلی صاحب نظامی صدرالمدرسین:دارالعلوم فیضان رضا نرائن جوت،مہراجگنج نے بھی لوگوں کو مختصر خطاب کیا-

آخر میں خصوصی خطاب خطیب شہیرعالم باعمل حضرت مولانا محبوب عالم صاحب نظامی صدرالمدرسین مدرسہ اہلسنت علیمیہ لوٹن بازار نے کی-آپ نے اپنے خطاب کے دوران لوگوں کو اپنے والدین کی عزت وتوقیراور ان کی خدمت کرنے کے ساتھ شادی بیاہ کو اسلامی طور طریقے سے کرنے کی گذارش کی اور ساتھ ہی ساتھ شریعت مصطفیٰ کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی تاکید کی-

اس مجلس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت مولانا محمدشاہدرضا صاحب نوری صدرالمدرسین:دارالعلوم غوثیہ فیض الرسول سمرہنا،حضرت حافظ وقاری کمال احمد صاحب-جناب عبدالحی صاحب،جناب عبداللہ صاحب، جناب عبدالمعیدصاحب، جناب نبیہ اللہ صاحب، افروزاحمد صاحب-جناب سرور عالم صاحب،

صلوٰة وسلام اور حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی دعاپر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی!

رپورٹ:محمدتوصیف رضابرکاتی
بھوانی پور،سمرہنا پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

ملک وملت کی ترقی کے لیےتحصیل علم ضروری:علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری، رپورٹ-ماسٹرمحمدیامین خان سمیجا

کوئی ملک،صوبہ،سماج یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک کہ اس ملک،سماج و معاشرے یا قوم کے لوگ علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ” علم حاصل کرو چاہے اس کیلئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ” اور خود قرآن میں جا بجا علم کی اہمیت وفضیلت پر مشتمل مواد موجود ہے-اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اگر کسی بھی ملک وقوم کو آگے بڑھنا ہے تو ان کی ترقی کاسفر حصول علم اور فروغ علم کے بغیر جاری نہیں رہ سکتا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر اس ملک میں جہاں تعلیم کی شرح تسلی بخش نہیں وہاں پر ترقی کی رفتار خود بخود سست پڑنے لگتی ہے ۔ اس لیے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج کادور تعلیم اور تحقیق کادور ہے ۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی کادور ہے۔علم وہنر میں مہارت اور مقابلے کادور ہے ۔ غور کیاجائے تو تعلیم کی اہمیت اور ضرروت کوزمانہ قدیم سے ہی تسلیم کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر ہم قدیم ماہرین تعلیم اور حکماء کے خیالات اورنظریات کو یک جا کرکے دیکھیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ تعلیم کا مقصد درحقیقت انسانی ذہن کی بہتر نشوونما، اخلاقیات اور انسانی قدروں کو سنوارنا ، معاشرتی رویوں کو صحیح رخ فراہم کرنا اور انسانی ذہن کی علم کے ذریعے آبیاری کرکے فرد اور معاشرے کو صحت مند بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کوایسی تربیت دینی ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی ایک اچھا اور مفید شہری ثابت ہوسکیں-مزکورہ خیالات کا اظہار مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر”کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علّامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے کونرا ولایت شاہ میں عرس مخدوم پیر سید میاں ولایت شاہ اور “دارالعلوم فیضان میاں ولایت شاہ کونرا” کے سالانہ اجلاس میں خصوصی خطاب کے دوران کیا-آپ نے آپسی اتفاق واتحاد پر بھی زور دینے کے ساتھ پیری مریدی کے اصل آداب اور اس کے مقاصدحسنہ پر بھی روشنی ڈالی-
آپ کے علاوہ ان حضرات نے بھی عظمت اولیائے کرام اور اصلاح معاشرہ سے متعلق مختلف عناوین پر عمدہ خطابات کیے-
سابق قاضی شہر پالی حضرت مولانا محمد ایوب صاحب اشرفی-شہزادۂ مفتئِ تھار حضرت مولا عبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی،مولاناغلام رسول صاحب قادری خطیب وامام: جامع مسجد ایٹادہ،مولاناعبدالحلیم صاحب امام:جامع مسجد:کونرا،مولانا محمدعلیم الدین صاحب قادری اشفاقی مدرس:دارالعلوم اسحاقیہ جودھپور،
نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا علیم الدین صاحب قادری خطیب وامام:مدینہ مسجد سُمیرپور وحضرت مولاناالحاج علم الدین صاحب اشفاقی مدرس:دارالعلوم فیضان میاں ولایت شاہ کونرا نے بحسن وانجام دیا-
اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
سید امیرعلی شاہ بامنور،سید مٹھن شاہ عالمسر،سید صحبت علی شاہ عالمسر،سیدشیرمحمد،سیداقبال شاہ،سیدمیرمحمدشاہ ارٹی،مولانا محمدیوسف قادری دیراسر، مولاناروشن علی قادری پالی، ایڈوکیٹ شاکرخان سابق سرپنچ کونرا،خان محمدخان ہیڈ کانسٹبل، حکیم قائم درس سیڑوا،بچوخان بلوچ سالاریا،قاری محمدحنیف سیڑوا، محمدانورخان وغیرہم-
آخر میں جلسہ کے کنویر حضرت علامہ ومولاناالحاج محمدآدم صاحب قادری کونرائی مدرس:دارالعلوم اسحاقیہ [اشفاقیہ ہاسٹل] جودھپور نے”من لم یشکرالناس لم یشکراللہ” پر عمل کرتے ہوئے سبھی معزز مہمانوں کا شکریہ اداکیا-
رپورٹ-ماسٹرمحمدیامین خان سمیجا
ساکن:کونراولایت شاہ،تحصیل: چوہٹن،ضلع:باڑمیر(راجستھان)

कोनरा बाड़मेर में उर्से गौसिया का समापन। रिपोर्ट : यामीन खान समेजा कोनरा विलायत शाह, तहसील, चौहटन, ज़िला, बाड़मेर राजस्थान

दिनांक 5 मई 2022 ईस्वी बमुताबिक 3 शव्वाल 1443 हिजरी बरोज मंगलवार हज़रत मखदूम सैयद पीर मियां विलायत शाह अलैहिर्रहमा का 16वां उर्स और दारुल उ़लूम फैज़ाने विलायत शाह शिक्षण संस्थान कोनरा विलायत शाह,चौहटन बाड़मेर का सालाना जल्सा बड़ी शानो-शौकत के साथ मनाया गया।

बाद नमाज़े जोहर क़ुरान ख्वानी की गई।बाद नमाज़े अ़स्र फातिहा खानी हुई।बाद नमज़़े मग़रिब मदरसा के तुल्बा का प्रोग्राम हुआ, इसके बाद उ़ल्मा ए किराम का बेहतरीन खिताब हुआ। प्रोग्राम का आगाज़ तिलावते कलामे पाक से हुआ, तिलावत करने का शर्फ मौलाना अल्हाज इल्मुद्दीन अशफाक़ी ने हासिल किया।बादहु मौलाना गुलाम रसूल इमाम जामा मस्जिद ईटादा, शहजादा -ए- मुफ्ती ए थर हज़रत मौलाना अ़ब्दुल मुस्तफा साहब नईमी सोहरवर्दी नाज़िमे आला दा:उ़:अनवारे ग़ौषिया सेड़वा, मौलाना अ़लीमुद्दीन साँवलोर (नोहडी़ ) मुदर्रिस दा:उ़:इस्हाकिया जोधपुर, मौलाना अय्यूब साहब अशरफी साबिक़ क़ाज़ी- ए-शहर पाली, और खुसुसी मुकर्रिर नूरुल उ़ल्मा पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सैयद नुरूल्लाह शाह बुखारी मद्दजिल्लहुल आ़ली मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ़ ने बहुत ही बेहतरीन और जामेअ़ खिताब फरमाया।
क़िब्ला सैयद साहब ने कहा कि जब तक आप इल्म हासिल नहीं करोगे तब तक तरक्की संभव नहीं है।
आपसी इतिहाद और इतिफाक़ बनाएं रखें ,संगठन में जो ताकत है वह और किसी चीज़ में नहीं है। आखिर में पीरी मुरीदी के आदाब वग़ैरह के बारे में विस्तार से बताया।
इसके अलावा स्टेज पर उ़ल्मा,अइम्मा हज़रात ,शादाते किराम व मोहसिन ए क़ौम का जम्मे गफीर मौजूद रहा।
खास तौर पर यह हज़रात मौजूद रहे।
सैयद अमीर शाह बामणोर, सैयद मिठन शाह आलमसर, सैय्यद सोहबत अ़ली शाह आलमसर, सैय्यद शेर मोहम्मद, सैय्यद इक़बाल शाह, सैय्यद मीर मौहम्मद शाह अरटी, एडवोकेट पूर्व सरपंच कोनरा शाकर खान समेजा,खानू खान हेड कांस्टेबल, हकीम साहब क़ायम दर्श, बच्चू खान बलोच सालरिया, बेहतरीन सिन्धी सना ख्वाँ (मौलुदी) क़ारी मोहम्मद हनीफ सेड़वा ,अनवर खान,
मौलाना मोहम्मद युसुफ डेरासर, मौलाना रोशन अली पाली, मौलाना अ़ब्दुल हलीम इमाम जामा मस्जिद कोनरा ,क़ारी मौहम्मद शरीफ़ और दीगर उल्मा-ए- थर ने प्रोग्राम की ज़ीनत में चार चांद लगाये।
प्रोग्राम का संचालन मौलाना अ़लीमुद्दीन जैसार (रहुमा) इमाम:मदीना मस्जिद सुमेरपुर (पाली) ने किया। सभी पधारे गणमान्य मेहमानों का मौलाना अल्हाज मोहम्मद आदम खान क़ादरी ने शुक्रिया अदा किया। इसके बाद मौलुद शरीफ़ का प्रोग्राम हुआ।
बाद नमाज़े फज्र सलातो सलाम और खुसूसी ज़िक्र व दुआ़ बाद प्रोग्राम का इख्तिताम हुआ।

रिपोर्ट :-यामीन खान समेजा कोनरा विलायत शाह,तहसील:चौहटन, ज़िला:बाड़मेर (राज:)

اللہ ورسول کی محبت:ایمان کی اولین شرط 📝از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

اسلام جس طرح ہم کو اللہ ورسولﷺ پر ایمان لانے اورنماز،روزہ اورحج وزکوٰۃ اداکرنے کی تعلیم دیتا ہے اورایمانداری اورپرہیزگاری اورخوش اخلاقی اورنیک اطواری اختیار کرنے کی ہدایت اورتاکید کرتاہے،اس طرح اس کی ایک خاص ہدایت اورتعلیم یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کی ہرچیز سے زیادہ،یہاں تک کہ اپنے ماں باپ اوربیوی بچوں اورجان ومال اورعزت وآبرو سے بھی زیادہ،خدااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کے دین سے محبت کریں۔یعنی اگرکبھی کوئی ایسا نازک اورسخت وقت آجائے کہ دین پر قائم رہنے اور اللہ ورسول [جل جلالہ/صلی اللہ علیہ وسلم] کے حکموں پرچلنے کی وجہ سے ہمیں جان ومال اورعزت وآبروکاخطرہ ہو،تو اسوقت بھی اللہ عزّوجل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوردین کو نہ چھوڑیں اور جان ومال یا عزت وآبروپرجوکچھ گزرے،گذرجانے دیں۔قرآن وحدیث میں جابجا فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام کا دعویٰ کریں اور ان کو اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ان کے دین کے ساتھ ایسی محبت اور اس درجہ کا تعلق نہ ہو،وہ اصلی مسلمان نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت سزا اورعذاب کے مستحق ہیں،سورۂ توبہ میں فرمایا گیا ہے:”قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِo وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ”۔(التوبہ:۲۴)(اے رسولﷺ )آپ ان لوگوں کو فرمادیں کہ اگرتمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد،تمہارے بھائی برادر تمہاری بیویاں اورتمہاراکنبہ قبیلہ اور تمہارامال دولت،جسے تم نے کمایا ہے اور تمہاری تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے رہنے کے مکانات جوتمہیں پسند ہیں(سواگریہ چیزیں)تم کو زیادہ محبوب ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کے دین کے لیے کوشش کرنے سے تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور(یادرکھو)کہ اللہ ہدایت نہیں دیتاہے فاسقوں [ نافرمانوں ]کو۔اس آیت سے معلوم ہواکہ جواللہ ورسول اور ان کے دین کے مقابلہ میں اپنے ماں باپ یا بیوی بچوں یا مال وجائداد سے زیادہ محبت رکھتے ہوں اور جن کو اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اوردین کی خدمت وترقی سے زیادہ فکر ان چیزوں کی ہو ،وہ اللہ کے سخت نافرمان ہیں اور اس کے غضب کے مستحق ہیں،ایک مشہور اورصحیح حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایمان کی مٹھاس اوردین کا ذائقہ اسی شخص کو نصیب ہوگا جس میں تین باتیں ہوں،اول یہ کہ اللہ ورسول کی محبت اس کو تمام ماسواسے زیادہ ہو،دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی محبت کرے صرف اللہ کے لیے کرے(گویاذاتی اورحقیقی محبت صرف اللہ ہی سے ہو)اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اوردین کو چھوڑنا اس کو ایسا ناگوار اورگراں ہو جیسا کہ آگ میں ڈالا جانا”۔(مسلم، بَاب حَلَاوَةِ الْإِيمَان)اس سےمعلوم ہواکہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اصلی اور سچے مسلمان وہی ہیں جن کو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اوردین اسلام کی محبت دنیا کے تمام آدمیوں اورتمام چیزوں سے زیادہ ہو،یہاں تک کہ اگروہ کسی آدمی سے بھی محبت کریں تو اللہ ہی کے لیے کریں اور دین سے ان کو ایسی الفت ہو کہ اس کو چھوڑکر کفر کا طریقہ اختیار کرنا ان کے لیے اتنا شاق اور ایسا تکلیف دہ ہو جیسا کہ آگ کے الاؤ میں ڈالا جانا،ایک اورحدیث میں ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سےکوئی شخص اس وقت تک پورا مومن اوراصلی مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اپنے ماں باپ سے اوراپنی اولاد سے اوردنیا کے سارے آدمیوں سے زیادہ نہ ہو”۔(بخاری، بَاب حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْإِيمَانِ،)کسی بھی چیز کا اللّٰہ ورسول سے زیادہ عزیز ومحبوب ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب کسی آدمی کے سامنے دو بالکل متضاد مطالبے آجائیں،ایک طرف اللّٰہ ورسول کامطالبہ ہو تودوسری طرف اوپردرج شدہ آیت کریمہ میں مذکور چیزوں میں سے کسی چیز کی محبّت کامطالبہ، اور آدمی خدااوررسول کے مطالبے کونظراندازکرکےدوسری چیز کے مطالبہ کو ترجیح دےدے تواس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اللّٰہ اور رسول سے زیادہ اس کو وہ چیز محبوب ہے،اوراگر اس کے برعکس وہ اس چیز کے مطالبہ پر اللّٰہ ورسول کے مطالبہ کو مقدّم رکھے تواس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس نے اللّٰہ ورسول[جل جلالہ/رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلّم]کی محبت کوترجیح دی-اللّٰہ ورسول سے یہ محبت ایمان کالازمی تقاضاہے-اس کےبغیر کسی کادعوائے ایمان معتبر نہیں ہے اور یہ محبّت الٰہی کےجانچنے کے لئے ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ہرشخص اپنی روزمرّہ کی زندگی میں اپنے ایمان اور اپنی محبّت کوجانچ سکتاہے-قارئینِ کرام: خدااوراس کے رسول سے محبّت دراصل خدااوررسول کے پیغامات سے محبّت ہے اور ایمان دراصل اسی کانام ہے کہ آدمی بالکل اللہ ورسول کا ہوجائے اوراپنے سارے تعلقات اورخواہشات کو ان کے تعلق پر اور ان کے دین کی راہ میں قربان کرسکے،جس طرح کہ صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کردکھایا ،اورآج بھی اللہ کے سچے اور صادق بندوں کا یہی حال ہے،اگرچہ ان کی تعدادبہت کم ہے،اللہ تعالی ہم سب کو بھی انہیں کے ساتھ اور انہیں میں سے کردے!

کے مسلمانوں کی عید، تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال

آج کے مسلمانوں کی عید
تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال
اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیبﷺ کے صدقے طفیل ہمیں رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا فرمایا، تو جس مسلمان نے خالص اپنے رب کے لیے رمضان کے روزے رکھےنماز پڑھی اور سنت جان کر سحر و افطار کی نماز تراویح ادا کی رات کی تاریکیوں اور تنہائیوں میں اپنے رب کو راضی کیا اس مہینے میں غرباء اور مساکین کا خیال رکھا اور رمضان شریف کا ادب و احترام بجا لایا یعنی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو کہ ناجائز حرام ہے رمضان کا پورا مہینہ اسی طریقے سے گزارا اور اللہ تعالی اس سے راضی ہوگیا تو ان لوگوں کے لئے عید سعید کا انعام عطا فرمایا، عید کی رات اور دن بہت فضیلت والا ہے عید کی رات کو (لیلۃ الجائزہ) یعنی انعام کی رات کہا جاتا ہے اس لیے کہ جس نے روزہ رکھ کر مشقت برداشت کی ان کے لیے انعامات اس رات کو تقسیم کیے جاتے ہیں اور اسی رات میں روزے دار کے تمام گناہوں کو معاف بھی کر دیا جاتا ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے عید کی رات طلب ثواب کے لئے قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن تمام دل مر جائیں گے (مکاشفۃ القلوب) تو مسلمانوں کو چاہیے کہ عید کی پوری رات عید کی تیاری میں نہ گزارے بلکہ عبادت ریاضت میں گزار کر انعام و اکرام کا حقدار بنے، عموماًہر مذہب والے کسی نہ کسی دین عید ضرور مناتے ہیں اور خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں مگر ان کا عید منانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہ ان کی خوشی میں شامل ہوں مثلا ناچنا،گانا، شراب نوشی اور زنا کا عام ہونا،فحاشی،فضول خرچی اور کھیل کود اب اگر آج کے حالات کا محاسبہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح غیر مسلم کی عید میں طرح طرح کی برائیاں شامل ہوتی ہیں اسی طرح مسلمانوں کی عید میں بھی طرح طرح کی برائیاں شامل ہوتی ہیں جیسے ہی عید کا دین آیا لوگ مسجدوں سے دور ہو جاتے ہیں پورا دن نمازیں قضا کر کے گھومنے میں گزار دیتے ہیں پھر عید گاہ کے قریب یا دو چار دن کے بعد عجیب و غریب میلے لگتے ہیں اور دن بھر ہمارے مسلمان بھائی اور ان کے بچے میلہ گاہوں میں کھیل تماشے کرتے ہیں اور عورتیں بے پردہ ہو کر میلہ گاہوں کی زینت بن رہی ہوتی ہیں عید کے دن ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھومنے کے بہانے پارکوں میں مل کر عید کی مبارک بادی دیتے ہیں اور بے حیائی کا کھلم کھلا ارتکاب کر کے حیا کا جنازہ نکالتےہیں،

سکھائے ہیں محبت کے نئے انداز مغرب نے-

حیا سر پیٹتی ہے عصمتیں فریاد کرتی ہیں،

یہاں تک کہ ایک سے بڑھ کر ایک گناہ عید کے دن لوگ کرتے نظر آتے ہیں اے مسلمانو؛ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم عید کے دن گناہ کرنے کے بجائے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے اور دعائیں کرتے کہ اے اللہ تو نے ہمیں رمضان جیسا رحمت والا مہینہ عطا کیا اور تیری دی ہوئی توفیق سے ہم نے روزے رکھے اور نماز تراویح ادا کی تلاوت قرآن کی مالک ہماری ان تمام عبادات کو قبول فرما اور ہماری عمروں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں بار بار رمضان المبارک کا مہینہ عطا فرما ،لیکن افسوس آج کے مسلمان اگر اپنی عید برائیوں کو شامل کرکے نہ منائے تو ان کی عید ہی ادھوری رہ جائے گی
حضور نبی کریم ﷺجب مکہ شریف سے مدینہ تشریف لائے تو ان (اہل مدینہ )کے دو دن تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے نبی کریم ﷺنے دریافت فرمایا وہ دو دن کیا ہیں تواہل مدینہ نے عرض کی ہم دور جہالت میں ان دونوں میں کھیل کود کیا کرتے ہیں یہ سننے کے بعد رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں تمہیں دوبہترین دن عید الاضحی اور عید الفطر کے عطا فرما دیے ہیں
اس حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہوئی کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کھیل کود کر اپنی عید منایا کرتے تھے لیکن جب اسلام آیا تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عید منانے کے لیے دو دن عید الاضحیٰ اور عیدالفطر عطا فرمایا اگر اس زمانے میں بھی لوگ کھیل کود کر عید منایا کریں تو پھر زمانہ جاہلیت اور اس زمانے میں کیا فرق رہ جائے گا
اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور عید کے دن ہونے والے تمام خرفات سے بچائے
میری طرف سے آپ سب کو عید مبارک اللہ تعالی آپ کی زندگی کے ہر لمحہ کو عید بنا دے
آمین بجاہ النبی الامین

سب کو سینے سے لگاؤ دن ہے عیدالفطر کا ہیں،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں “عید” اور “الفطر” سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے “عود” عاد یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا ، پھر آنا- چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے ‘سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو “عید” کہتے ہیں۔
فطر کے معنیٰ کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے “فطور” کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے- مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادری کے ان افراد کو بھی صدقۂ فطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۂ فطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔
ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اس روز عید منائی تھی جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی امت اس روز عید مناتی تھی جس روز حضرت یونس کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم اس روز عید مناتی تھی، جس روز حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔

دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریمﷺ جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ چھوٹے چھوٹے تہواروں کے علاوہ نو روز کا جشن اور کچھ بڑے بڑے بتوں کی پوجا کا تہوار بھی مناتے تھے حضور ﷺ نے ان باتوں کو سخت نا پسند فرمایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا ضحیٰ منایا کرو۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا ہے۔ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا بڑا امیر غریب مرد عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک واحتشام سے عید الفطر مناتے ہیں۔

عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے “اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے” عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔ لہٰذا آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا ہی نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔

یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو

کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو

اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر عموماً رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ صدقۂ فطر دیا جاتا ہے-

اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں غربت وافلاس کی وجہ سے کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گی ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو اوائل رمضان میں ہی ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکیں ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے اگر ہم کو مال ودولت سے نوازا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہےکہ ہم اللّٰہ کے عطاکردہ مال سے اپنے ان بھائیوں کی بھی ضرورتوں کی تکمیل کرنے کی کوشش کریں جو اس کے مستحق ہیں-

اصل عید کیا ہے؟
رمضان کی ایک مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد دو رکعت شکرانہ کے طور پر نماز عید ادا کی جاتی ہے یہ اس بات کی خوشی کا نام ہے کہ ہم نے اللہ کے فریضہ کو ادا کرلیا [ذٰلک فضل اللہ] اللہ تعالی نے جو انعام اس پر عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ہم اس پر خوش ہیں، اللہ کے حکم کی پاسداری پر خوش ہیں، رمضان کا احترام بجا لانے پر خوش ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ رمضان میں ہر طرح کے گناہوں سے بچایا، رمضان کے شب و روز کو ذکر و تلاوت، دعا و استغفار، صدقہ و خیرات غرباء پر کرنے اور گناہوں سے اجتناب کی توفیق عطا ہوئی،رمضان درس تقویٰ ہے،حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان اور اس کے اعمال کی برکت سے ظاہر و باطن کا تقویٰ حاصل ہو اور گیارہ مہینے رمضان کے سبق کے ذریعہ اہتمام تقویٰ پر قوت اور توفیق ملتی رہے، اور پھر بار بار ماہ مبارک ملتا رہے تاکہ تقویٰ میں نکھار پیدا ہوتا رہے- ہماری عید تو اللہ کی مرضیات پر قربان ہونے میں ہے، ہماری عید رمضان کے پورے ہونے پر فطرہ کی ادائیگی،غرباء کو عید کے دن خوش رکھنے میں ہے، ہماری خوشی اس میں ہے کہ امیر غریب سب عید اچھے کپڑے میں ادا کریں، ہماری عیداس میں ہے کہ یتیم، بیوہ، غریب،مسکین سب خوشی میں شریک رہیں، سب کے گھر خوشی کے کھانے پکیں اور سب کے گھر خوشی کے گیت گائے جائیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ شب عید میں “عتق من النار” کا فیصلہ سب لوگ سن لیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک عید گاہ “الله اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد” کا ترانہ عید میں اپنے من میں اور آہستہ گنگناتا جائے اور عیدالاضحیٰ میں بآواز بلند گاتا جائے اور ایک راستہ سے جائے اور دوسرے راستہ سے واپس آئے اس میں خوشی میں مچلنا بھی ہے اور دونوں راستوں کو گواہ بنانا بھی ہے- اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ھٰذا عیدنا”
ہماری عید آپے سے باہر ہونے کا نام نہیں ہے- ہماری عید ظلم و ستم کی غماز نہیں ہے، ہماری عید کسی پر کیچڑ اچھالنے کا نام نہیں ہے، ہماری عید تو باربار خوشی کے لانے اور لوگوں کو بار بار خوش کرنے کا نام ہے-آپس میں اگر کچھ دوری بھی رہی ہو تو قرب سے بدل جائے، دشمنی دوستی سے بدل جائے،بےوفائی وفاداری سے بدل جائے-

عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا خوش کن اعلان ہوتا ہے بیہقی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب لوگوں کی عید یعنی افطار[عیدالفطر] کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اظہار فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر دیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! اس کا بدلہ یہ ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری بندیوں نے میرا فریضہ جو ان کے ذمہ تھا پورا کردیا پھر فریاد کرتے ہوئے دعا کرتے ہوئے نکل پڑے ہیں، میری عزت وجلال اور میرے کرم اور میری علو شان اور میرے مقام کی بلندی کی قسم میں ان کی فریاد اور دعا ضرور سنوں گا اور ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، اس کے بعد اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے “ارجعوا قد غفرتُ لکم وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات” لوٹ جاؤ میں نے تم سب کی مغفرت کر دی اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا چنانچہ بندے عید کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے ہیں تو ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے-

ایک گنہگار بندے کی سب سے بڑی ضرورت اور حاجت اس کی معافی اور مغفرت ہے جس کا اعلان عید کے روز جاتا ہے، اب سنبھلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کسی نعمت کو حاصل کرنے کے بعد اس کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے-

آج ہمارے معاشرے میں کیا چل رہا ہے؟عید کی نماز سے فراغت کے بعد جہاں تقویٰ اور اعمال صالحہ میں روزافزوں ترقی ہونی چاہییے تھی،مسلمان بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ پلٹ کر گناہوں میں ملوث ہونے لگتاہے،شراب،جوا،بدچلنی،بدفعلی،زنا،بدنگاہی،بدزبانی،فسق وفجور،نماز سے لاپرواہی،تلاوت سے غفلت، اضاعتِ حقوق اور مختلف قسم کے معاصی کادروازہ پلٹ کر کھول دیتا ہے اور رمضان وروزہ کا سکھایا ہوا سبق بھول جاتا ہے-

عید الفطر خوشی کا دن: عیدالفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقۂ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا-
اور عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیساکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيُنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ وَ يَوْمِ الْاَضْحَی.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے دو دنوں فطر اور اضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘(ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی صوم العيدين، 2: 314، رقم: 2417)

چاندرات کی فضیلت:چاندرات بڑی اہمیت وفضیلت کی حامل رات ہے،اسے “لیلة الجائزہ” بھی کہاجاتا ہے،مسلمانوں نے رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھ کر حکم خداوندی کو سرانجام دیا-ان کا یہ پاکیزہ عمل مکمل ہوگیا تو آج کی رات ان کے انعام کی رات ہے –
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کانام “لیلة الجائزہ” [یعنی انعام حاصل کرنے والی رات] رکھاجاتاہے-(شعب الایمان للبیہقی ج/5 ص/278 رقم الحدیث:3421)
اس لیے اس رات کو فضولیات میں ضائع نہیں کرناچاہییے بلکہ اس کی برکات، رحمتوں اور من جانب اللہ مغفرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہییے-اس رات کی اہمیت وفضیلت پر چندروایات ملاحظہ کریں!
★حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے عیدین کی راتوں میں اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کیا[یعنی عبادات کوسرانجام دیا]تو اس کادل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے-(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:1772)
★حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کی جانے والی دعاکو رد نہیں کیا جاتا- 1…جمعہ کی رات،2…رجب کی پہلی رات،3…شعبان کی پندرہویں رات،4…عیدالفطر،5… اور عیدالاضحیٰ کی دو راتیں-
ان روایات اور دیگر کئی روایات کے پیش نظر محدّثین نے اس رات کی عبادت کو خاص طور پر ذکر کیا ہے-لہٰذا اس رات کی اہمیت کے پیش نظر اس رات زیادہ سے زیادہ عبادت،ذکرواذکار اور درود شریف کاورد کرناچاہییے اور اگر زیادہ عبادت وریاضت نہ کرسکیں تو کم ازکم فسق وفجور اور لایعنی کاموں میں تو نہ پڑیں،عشاء کی نماز باجماعت مسجد میں اداکرکے آرام کریں اور صبح جلدی اٹھ کر نمازتہجد اداکریں اور پھر نماز فجر باجماعت اداکریں-اللّٰہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو پوری رات عبادت کاثواب عطافرمائےگا،اس طریقے سے گناہوں سے حفاظت بھی رہےگی اور ثواب بھی ملےگا [ان شاء اللہ تعالیٰ]-

اس رات یہ کام کریں:

چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دیتے ہوں ۔
مگر عموماً معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے-

عید کی رات کو مندرجہ ذیل چندامور انجام دینے کی کوشش کرنی چاہییے!
(1)نوافل پڑھنا…(2)قرآن مقدس کی تلاوت کرنا…(3)صدقہ وخیرات کرنا…(4)دعاؤں کااہتمام کرنا…(5)ذکرواذکار اور درود شریف کا ورد…(6)توبہ واستغفار اور اپنے گناہوں سے بصدق دل معافی مانگنا…(7)امت مسلمہ کی بھلائی وعافیت کی دعا کرنا…(8)رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا…(9)اگر کسی کی حق تلفی ہوگئی ہو تو اس سے معافی مانگنا…(10)اگر کسی نے ظلم وزیادتی کی ہو تو اسے معاف کرنا…(11)آپسی نااتفاقی کو دور کرکے اتفاق واتحاد اور صلح وآشتی کے فضا کوقائم کرنے کی کوشش کرنا-

چاند رات کی جس قدر اہمیت ہے لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے ،اس رات کو عموماً عبادات کے بجائے فضولیات ولغویات میں ضائع کردیتے ہیں،جب کہ ایک مسلمان کی یہ شان ہونی چاہییے کہ وہ نیکیوں کوجمع کرنے میں ہی حتی الامکان مصروف عمل رہے،کچھ بعید نہیں کہ اس رات کی ہماری تھوڑی سی عبادت ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری قبولیت کاسبب بن جائے،اس لیے شوق اور ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ عبادات سرانجام دینی چاہییے-
بعض لوگ اس رات میں آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہیں،اس سے یکسر اجتناب کرناچاہییے کہ اس میں جانی نقصان کا خطرہ ہونے کے ساتھ مالی نقصان اور اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسراف[فضول خرچی]کرنے والوں کو شیطان کابھائی قرار دیا ہے،اس لیے شیطانی کاموں سے بچتے ہوئے نیک امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی کوشش کریں-
بعض لوگ اس رات کو گلیوں اور بازاوں میں گھوم کر ضائع کردیتے ہیں-اس سے بھی اجتناب ضروری ہے،ہاں!اگر واقعی میں کسی چیز کی ضرورت ہو اور بازار جاناپڑے تو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مطلوبہ چیز لے کر فوراًاپنے گھر واپس آناچاہییے،بازاروں میں بلاضرورت گھومنے کے بجائے یہ رات اپنے گھروں یا پھر مساجدوغیرہ میں عبادت وریاضت میں گذارنی چاہییے-

عید کی کچھ سنتیں اور مستحبات:
(1)نمازعید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا(2)غسل کرنا(3)طہارت ونظافت کا خصوصی اہتمام کرنا(4)حسبِ استطاعت نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنا (5)خوشبو لگانا(6)عدگاہ جانے سے پہلےکھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا،حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی(بخاری:9530)
(7)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے-حضرت ابورافع روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:1300)
(8) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(9) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

شوال کے چھ روزے رکھنا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث مبارکہ میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں اور شوال کے ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہےحضرت عمر بن ثابت خزرجی سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے( صحیح مسلم رقم الحدیث:1164)
اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے-(مسنداحمد:14302)
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو”پورے زمانے کے روزے”اور دوسری حدیث میں “پورے سال کے روزے”رکھنے کی مانند قرار دیاگیا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو بقاعدہ “الحسنة بعشر امثالھا” [ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنا ہے] اس ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں-اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابربن جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے،اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح طور پر سمجھ میں آتا ہےکہ “گویا اس نے پورےسال کے روزے رکھے” نیز اگر مسلمانوں کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گذاری ہو-
اس توجیہ سے حدیث مذکور کا مضمون “یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے” بالکل واضح ہو جاتا ہے-لہٰذاکوشش کرنی چاہییے کہ اس فضیلت کو حاصل کرلیا جائے-
نوٹ:اگر کسی کے ذمہ رمضان کےروزے ہوں تو احتیاطاً پہلے ان روزوں کی قضا کی جائے،بعد میں شوال کے بقیہ دنوں میں ان چھ روزوں کو رکھاجائے-اور شوال کے یہ چھ روزے عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے بعد جب بھی چاہے رکھ سکتے ہیں،بس اس بات کااہتمام کر لیاجائے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال ہی میں مکمل ہونی چاہییے-
بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اور اگر عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ متواتر رکھ لیے جائیں جب بھی کوئی حرج نہیں-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو عید الفطر کی حقیقی خوشیاں نصیب کرے-آمین!

جامعہ اشرفیہ میں بنا نوٹس دئیے کیے گیے تشدد کا ہم سخت مذمت کرتے ہیں – ۔آصف جمیل امجدی

برصغیر ہندو پاک کے اہل سنت کا مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ جو کہ مبارک پور کی سرزمین پر واقع ہے اور پچھلے کئی دہائیوں سے دین و سنیت کا بے لوث خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماء دنیا بھر میں دین و سنیت کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کئ ہزار کی تعداد میں بیرونی و غیر بیرونی ملکی طلبہ قیام و طعام کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن رمضان شریف کے چلتے سارے طلبہ اور مدرسین نیز دگر ذمہ داران چھٹی میں گھر پر ہیں۔ ایسی صورت حال میں یوگی حکومت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بنا کوئی نوٹس دئیے اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ منہدم کرنے والا بلڈوزر بھیج دیا۔ حکومت کے اس روئیے سے ہم بے حد مخالف ہیں اور سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ حکومت کا یہ ناپاک رویہ اس بار اسمبلی الیکشن جیتے ہی شروع ہوگیا ہے۔ مسلم دشمنی کا کھیل تو آزادئ ہند سے ہی کھیلا جارہا ہے لیکن مودی اور یوگی راج میں اس کی لپٹ مزید تیز دکھائی دے رہی ہے۔حکومت کا دوغلاپن دیکھو، کہنے کو تو ویسے ہم جمہوری ملک میں بسے ہیں جہاں بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ملک کے تعلیم یافتہ دانشوران نے بلا تفریق مذہب و ملت کے سر جوڑ کر جمہوری قانون بنایا گیا تھا جس میں سر فہرست اس قانون کا بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا کہ کان کھول کر سن لو یہاں پر ہر دھرم و مذہب کے لوگ جیسے پہلے سے رہتے چلے آۓ ہیں ویسے رہیں گے اور سب لوگ اپنے اپنے مذہب کے قانون کو فالو کریں گے اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی تشدد نہیں کیا جاۓ گا اور نہ ہی کسی مذہبی عمارت جیسے مسجد، مندر، گرجا گھر، گرودوارہ اور کلیسا وغیرہ وغیرہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچایا جائے گا کیوں کہ اس ملک کی آزادی میں سب کا خون شامل ہے سبھی مذاہب کے لوگوں نے اس کی آزادی میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا ہے۔ لہذا اب جب ملک آزاد ہوگیا ہے تو سب لوگ اپنے اپنے مذہب پر رہتے ہوے بھائی چارہ بنا کر رہو کسی قسم کی آپسی بھید و بھاؤ نہیں رکھنا ہے۔ تاکہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں ایک نمایاں مقام بنا سکے نیزسیلوکر اور جمہوری ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ممتاز شان و شوکت کے ساتھ ابھرے۔ اب اگر تم لوگ آپس میں لڑوگے تو ملک تباہ و بربادی کی عمیق کھائی میں چلا جاۓ گا۔المختصر: پچھلے 70/سال قبل اس ملک کی تباہ و بربادی کے رموز بتاۓ گیےتھے کہ اگر تم آپس میں لڑے یا تم سب لوگ مل کر کسی ایک قوم و کمیونٹی کو تشدد کا نشانہ بناۓ تو ملک قطعی ترقی نہیں کرپاۓ گا۔ سواۓ تباہ و بربادی کے بدنما داغ لگنے کے اور کچھ ہاتھ نہ آۓ گا۔ اور آج وہی ہو رہا ہے ایک خاص کمیونٹی کوتشدد کا نشانہ بنا جارہا ہے، مذہبی عمارتوں پر بنا کسی اصول و ضوابط کے بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ غریب مسلمانوں کے گھر بار کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔تو ظاہر سی بات ہے ملک برباد ہونے کے سوا ترقی تھوڑی کرے گا۔

سلطان اورنگ زیب عالمگیر ، ایک انصاف ور حاکم۔از: سید خادم رسول عینی۔

جب میری پوسٹنگ خاندیش مہاراشٹر میں تھی تو کئی بار اورنگ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔میں جب بھی اورنگ آباد گیا میں نے حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے مزار(جو خلد آباد میں واقع ہے) پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔میں نے جب پہلی بار مزار عالمگیر کی زیارت کی تو میری آنکھیں دنگ رہ گئیں۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس نے پچاس سال ہندوستان میں حکومت کی۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کی سلطنت کی باؤنڈری اکبر ، ہرش وردھن، چندر گپت، وکرما دتو کی سلطنت سے بھی زیادہ وسیع تھی‌۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کے نام سے ہی مراٹھا و گولکنڈہ تھر تھر کانپتے تھے۔اسی لیے ہمیں حیرت ہوئی کہ ایسے جلیل القدر بادشاہ کی قبر اس قدر سادگی کا پیکر لیے ہوئے کیوں ہے۔جب میں نے وہاں کے ذمہ داروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عالم گیر کی یہ وصیت تھی کہ ان کی قبر کو پکی نہ کی جاۓ، ایسے ہی کچی رہنے دی جائے، قبر کے اوپر کوئی گنبد بھی نہ بنایا جائے۔اس وصیت سے عالم گیر کی کمال درجے کی سادگی کا پتہ چلتا ہے۔ہم نے شاہ جہاں ، اکبر اور ہمایوں کے مقبرے دیکھے ہیں جن کی تعمیر اور سجاوٹ میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے گیے ہیں ۔لیکن اورنگ زیب کی سادگی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ان کے مقبرے پر بھی بے تحاشا اخراجات ہوں ۔ ایسی سادگی کے حامل شخص کے بارے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران رعایا پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔آئیے تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور یہ پتہ لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا انصاف ور حاکم ۔اورنگ زیب ایک حاکم تھے ۔ایک حاکم ہونے کے سبب ان کا مقصد استحکام سلطنت تھا ۔استحکام سلطنت کے لیے انھوں نے اپنے دور حکومت میں کئی اقدامات کئے۔ہوسکتا ہے ان میں سے چند فیصلوں کے نتائج غلط نکلے ہوں ۔صرف انھی نتائج کے سبب اورنگ زیب کو ظالم و جابر بادشاہ کہنا ناانصافی ہے۔ملک اور قوم کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں اس پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہہمیں لےدے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتناکہ عالم گیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھاآئیے تاریخ کے اوراق سے پتہ لگاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ در اصل اورنک زیب ایک صوفی منش اور درویش صفت بادشاہ تھے۔اورنک زیب نے اورنگ آباد میں اپنی زندگی کے تقریباً ٣٨ سال گزارے ہیں۔اورنگ زیب ایک جفاکش، عالی دماغ، بیدار مغز،متحمل مزاج ، علم دوست اور خدا ترس حکمران تھے۔اورنک زیب کے بچپن اور جوانی دونوں دکن کے مذہبی ماحول میں بسر ہویے تھے۔اورنگ آباد کے اسلامی ماحول ، اسلامی حکومتیں ، اسلامی رسم و رواج نے ان کے ذہن کی اچھی خاصی دینی تربیت کی تھی۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوے اورنگ زیب نے اکبر اور جہانگیر کی تمام غیر شرعی رسومات کو موقوف کردیا ، ہندو راجاؤں کے لباس اور وضع کو بھی ترک کرایا ، وضع قطع اسلامی بنائی اور سونے کے زیورات اور جواہرات جو بادشاہوں کی شان سمجھے جاتے تھے ان کو پہننا موقوف کردیا ۔آپ ہی کے دور میں اورنگ آباد میں بے شمار خانقاہیں بنیں ۔درگاہوں کے ساتھ مسجدیں بھی بنیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد میں ایسے بے شمار مندر بھی ہیں جن کی حفاظت ، مرمت اور توسیع اورنگ زیب کے عہد میں ہوئی۔اس درویش صفت بادشاہ پر یہ سراسر بہتان ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا۔اگر ایسا ہوتا تو آج اورنگ آباد میں نہ کوئی مندر ہوتا اور نہ اکناتھ مندر کی بلند عمارت ہوتی۔اورنک زیب نے اپنی صوبہ داری یا شہنشاہیت کے دور میں کسی غیر مسلم کا ناحق خون نہیں بہایا نہ کسی مندر یا مکان کو جبراً مسجد میں تبدیل کیا۔اگر یہ الزام درست ہوتا تو آج اورنگ آباد میں مسلمانوں کا تناسب اتنا کم نہ ہوتا ۔تاریخ شاہد ہے کہ پونا کے پیشوا ، مرہٹوں کے سردار اورنگ زیب کے بد ترین مخالف تھے۔لیکن ان کی کسی بھی تحریر/ڈائری میں اورنگ زیب کے تشدد یا ظلم کے واقعے کا اندراج نہیں ہے۔اورنک زیب حامل شریعت تھے اور کسی بھی قوم کے پلیس آف ورشپ کو مسمار کرنا وہ اسلامی رواداری کے خلاف سمجھتے تھے۔اورنگ زیب نے جبرا” کسی غیر مسلم کو مسلم نہیں بنایا ۔البتہ بہت سارے غیر مسلم ایمان سے سرفراز اس لیے ہوئے کہ انھیں اپنی ملازمت میں ترقی چاہیے تھی یا وہ اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہتے تھے۔گویا اسلام قبول کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور انھوں نے کسی کے دباؤ پر آکر اسلام قبول نہیں کیا۔اپنے دور شہنشاہی میں اورنگ زیب کے اہم کار ناموں میں کچھ کارنامے مندرجہ ذیل ہیں :١. اورنگ زیب نے معذور افراد کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت ، غریب خانے اور مطب قائم کیے جہاں ان کی رہائش کا مفت انتظام تھا اور ان کا علاج مفت ہوتا تھا ۔٢. اورنگ زیب نے مندروں اور مسجدوں کو خود کفیل بنانے کے لئے اراضی وقف کی۔٣. اورنگ زیب نے ستی کی رسم کی حوصلہ شکنی کی۔٤. اورنگ زیب نے رسم سالگرہ بند کیا کیونکہ اس میں اخراجات بے تحاشہ ہوتے تھے۔٤. اورنگ زیب نے سکہ پر کلمہ لکھنا بند کروایا کیونکہ اس سے کلمہ کی توہین ہوسکتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سبھی رعایا کے لیے یکسانیت مقصود تھی۔٥. اورنگ زیب نے شراب بند کیا کیونکہ یہ انسان کی ذات اور سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔٦. اورنگ زیب نے طوائف پر پابندی لگادی تاکہ عورت کو سماج میں بہتر مقام ملے۔٧. اورنگ زیب نے ماتم پر پابندی عائد کی کیونکہ یہ کام خلاف شرع ہے۔٨. اورنگ زیب نے قوالی پر پابندی عائد کی کیونکہ درباری علمائے شریعت نے قوالی کو حرام قرار دیا۔٩. اورنگ زیب نے جوا کھیلنے کو سنگین جرم قرار دیا۔١٠. اورنگ زیب نے ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی لگادی۔آج کل ہندوستان میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات زیادہ تر جلوس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔اگر ان جلوسوں پر آج بھی پابندی لگادی جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں برائے ملازمت مقیم تھا ۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ جاری تھا۔ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ شروعات میں ہندوستان کی ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی کی اور عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔لیکن آخری اوورز میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی عمدہ گیند بازی کی وجہ سے ہندوستان ٹیم کی شکست ہو گئی۔جب پاکستان ٹیم کی جیت ہو گئی تو دبئی میں مقیم پاکستانیوں نے جیت کی ریلی نکالی۔اس سے پہلے کہ دبئی کے باشندہ بھارتیوں کا کوئی رد عمل ہو ، دبئی کی پولیس نے ان پاکستانیوں کو گرفتار کرلیا کیونکہ دبئی میں کسی قسم کی ریلی یا کسی طرح کا جلوس نکالنا قانونی جرم ہے۔اس قسم کے قوانین اگر آج بھی ہندوستان میں نافذ کیے جائیں تو ملک کو ، ملک کے شہروں کو، ملک کی بستیوں کو فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہےاس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دور عالم گیر میں ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی حق بجانب تھی کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی ہونے کا امکان رہتا ہے۔بہر حال ، اورنگ زیب نے غلط رسومات کو ہٹاکر حکومت اور رعایا کے اصل مقصد پر توجہ دی۔ ترقی کی راہ پر کام کیا اور رعایا کی بہبودی کو ترجیح دی۔عہد عالم گیری میں ایک سو دس سے زیادہ غیر مسلم راجہ مہاراجہ ایسے تھے جو دس ہزاری اور پنچ ہزاری منصب پر فایز تھے۔مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے۔اورنگ زیب پابند شریعت تھے اور اپنے دل میں رسول ، آل رسول اور صوفیا کی بے حد محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ وصیت کی تھی:١.مجھے حضرت زین الدین شیرازی علیہ الرحمہ کے قدموں میں دفن کیا جائے تاکہ ان کا قرب باعث برکت ہو۔٢ سادات کا ادب و احترام لازم ہے۔اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔اس سے تمھیں دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر فائدے ہونگے۔عالم گیر نماز باجماعت کے بے حد پاند تھے۔جنگ کے دوران بھی وہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔بلخ کی جنگ میں ان کے حریف عبد العزیز نے جب دیکھا کہ اورنگ زیب نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو انھوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اپنی تلوار کو روک لو ، کیونکہ ہم اس شخص سے جنگ جیت نہیں سکتے جو شریعت خداوندی کا اس قدر پابند ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہے ۔عالم گیر علم اور عمل دونوں جہت سے یکتائے روزگار تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں لوگ عالم گیر زندہ پیر کہتے تھے۔ایسے خوش دل و خوش عقیدہ شخص کے تئیں غلط نظریہ رکھنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ انگریزی عہد کے مورخوں نے اپنایا۔خاص طور پر ایلیٹ اور ڈاوسن نے یہ رویہ اپنا کر تاریخ کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے۔آشروادی لال ، شری رام شرما، آر سی مجمدار جیسے مورخوں نے بھی اورنگ زیب پر لکھتے وقت جانب دارانہ رویے کا اظہار کیا جس سے پڑھنے والے نے اورنگ زیب کو ایک ظالم بادشاہ سمجھ لیا۔لیکن ١٩٦٠ کے آس پاس چند غیر جانب دار اور صاف ذہن مورخوں کی لکھی ہوئی تحریریں اور کتابیں ملتی ہیں جنھیں بڑھکر اورنگ زیب کے تئیں ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے اور اچھے نسان بھی تھے۔ان حقیقت پسند مورخوں کے چند نام یہ ہیں :عرفان حبیب،ہر بنس مکھیا، ستیش چندر، رومیلا تھاپر، ڈاکٹر بی این پانڈے وغیرہ ان مورخوں کی کتابوں کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ١.اورنگ زیب برہمنوں اور مندروں کو دان دیا کرتے تھے۔٢. اپنے دور حکومت میں اورنگ زیب نے اکبر سے بھی زیادہ ہندوؤں کو اعلی’ عہدوں پر تقرری سے نوازا۔٣.جزیہ اکبر سے پہلے بھی تھا اور اورنگ زیب نے اس کو دوبارا نافذ کیا مگر یہ غیر مسلموں کے صرف دس فیصد لوگوں پر نافذ تھا اور اس کی شرح صرف ٢.٢٥ فی صد تھی جب کہ مسلمانوں پر زکاۃ ٢.٥ فی صد فرض تھی اور جزیہ نافذ کرکے دیگر سارے ٹیکس معاف کر دیے گیے۔جزیہ کے سارے پیسے خزانہء جزیہ میں رکھے جاتے تھے جو غریبوں اور بے سہاروں کے کام آتے تھے۔٤.اورنگ زیب نے ہندو مندروں اور مٹھوں کے لیے وظیفے مقرر کیے ۔٥ ۔اورنک زیب نے شمار مندروں اور گرو دواروں کے لیے جاگیریں وقف کیں۔٦. اورنگ زیب نے راجپوتوں کو پنچ ہزاری کا منصب عطا کیا۔٧. اورنگ زیب نے یہ فرمان جاری کیا کہ مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔رومیلا تھاپر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت، بپن چندر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت ، ڈاکٹر بی این پانڈے کی کتاب خدا بخش خطبات وغیرہ سے ان باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔جہاں تک بی این پانڈے کی بات ہے ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ میں بی این پانڈے کی تقریر سنی تھی اور اپنی طویل تقریر کے دوران ڈاکٹر بی این پانڈے نے تاریخ کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر انصاف ور حاکم تھے، متعصب نہیں تھے اور ان پر فرقہ واریت کا الزام جھوٹ اور کذب و افتراء پر مبنی ہے۔مندرجہ بالا حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب متعصب نہیں تھے ، بلکہ اپنی رعایا کا یکساں خیال رکھتے تھے اور ایک انصاف ور حاکم تھے۔اورنگ زیب ‌خود عربی، فارسی ، اردو اور ہندی کے عالم و فاضل تھے ۔وہ اپنی نثر و نظم میں محاورات کا استعمال بہت عمدہ انداز سے کرتے تھے۔ان کے مضامین ، نظم، خطوط اور شاہی فرامین سے بھی یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ وہ ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم تھے۔ان کے شاہی فرامین اور خطوط ملک کی مختلف لائبریریز میں محفوظ ہیں ، وہاں سے لےکر ان کے شاہی فرامین اور خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے ہم فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ، تاریخ کے حقائق کا مطالعہ کریں اور ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم کی شخصیت سے متعلق متعصبانہ رویہ اختیار نہ کر کے غیر جانبدارانہ فیصلہ لیں ۔

کم سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا،

سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا……گھر کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچی کی لمبی عمر کی دعا کی!ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ [جسے “جہنم سے آزادی” کا عشرہ کہا گیا ہے] چل رہا ہے، احادیث کی روشنی میں اس عشرہ کے عبادت وریاضت کی بہت ہی فضیلت ہے- الحمدللّٰہ! القادری کیپ کے مالک حضرت مولانا اعجاز احمد قادری کی کم سن بھتیجی عزیزہ ام حبیبہ خان بنت جناب ریاض احمد خان سینانگر سیوڑی،ویسٹ ممبئ مہاراشٹر [ساکن:دھنوری،بڑھنی،سدھارتھ نگر] جو ابھی صرف 7 سال کی ہے اس نے آج مسلسل 20 واں روزہ مکمل کیا، مزید آخری عشرہ کے مابقیہ مکمل روزے رکھنے اور اس میں خوب خوب عبادت وتلاوت کے لیے پر عزم بھی ہے-اس کم سن بچی کے مسلسل روزہ رکھنے پر اس کے رشتہ داروں، اور آس پاس کے لوگوں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ اس کو دعاؤں سے نوازا-اور اہل خانہ بالخصوص بچی کے والدین کو مبارکباد پیش کی-خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے مبارکباد پیش کی، جناب امراللّٰہ خان،جناب امتیازاحمد خان اور سراج احمد خان- اللّٰہ تعالیٰ اس بچی کو طویل زندگی بخشے اور عمدہ واحسن تعلیم وتربیت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے اور والدین کےلیے ذریعۂ نجات ومغفرت بنائے-قارئین سے گذارش ہے کہ اس کم سن بچی کی بہترین مستقبل اور عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی دعا کریں،اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو بلاعذرشرعی روزہ نہیں رکھتے اور کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں اور بلاخوف الٰہی دھڑلے کے ساتھ اسلامی شعار کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ اس کم سن خوش قسمت بچی ام حبیبہ کی روزہ داری سے عبرت حاصل کریں-

محمدتوصیف رضا برکاتی نے ۸ سال کی عمر میں روزہ رکھا

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ شدید دھوپ اور گرمی کی تپش میں آخری عشرہ میں داخل ہوچکا ہے،گرم ہواؤں کی تمازت،صبح اٹھتے ہی پیاس کا احساس،۱۴،ا۴ گھنٹہ بغیر دانہ پانی کے گذارنا یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ تو توفیق الٰہی کی بات ہے کہ جس طرح بالغ مسلمان مردو وخواتین عبادت کی لذت سے سرشار ذوق وشوق سے اس گرمی و دھوپ کو مات دے کر اپنے ایمانی جذبے کو قائم رکھے ہوئے ہیں،وہیں کچھ ننھے اور کم عمر بچے وبچیاں بھی اپنے جذبۂ ایمانی کے اظہار میں بڑوں سے پیچھے نہیں ہیں اور روزہ فرض نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھ رہے ہیں،انہیں خوش نصیب اور باحوصلہ بچوں میں حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (ساکن:بھوانی پور،اسکابازار،ضلع: سدھارتھ نگر) کے صاحبزادے ۸ سالہ محمدتوصیف رضا برکاتی بھی ہیں،جنہوں نے ۸ سال کی مختصر عمر میں روزہ رکھ کر ہمت وحوصلہ اور شوق عبادت کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے، جب کہ عزیزہ ترنم پروین [عمر:۹ سال] بنت حضرت مولانا سراج احمد صاحب قادری علیمی نے بھی بھوک وپیاس کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اس سال کئی روزے رکھ کر اپنے ایمان ویقین کو جلا بخشا-قابل صد رشک ہیں ایسے والدین اور ان کی اولادیں جن کو دین اور اس سے محبت کی ایسی تعلیم وتربیت مل رہی ہے کہ انشاء اللّٰہ وہ آگے چل کر دین کے مضبوط علمبردار بنیں گے- ان ننھے بچوں کے اس پرعزم عمل پر ان کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچوں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کر نے کے ساتھ ان بچوں کو دعاؤں سے نوازا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی -بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کے سبھی بچوں کو روزہ رکھنے کے صدقے صحت وتندرستی عطا فرمائے،اور ان کے روزے کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں دارین میں کامیابی عطا فرمائے،اور نیکی کے جذبے میں اضافہ کرے اور ہرطرح سے ان کو اور ان کے والدین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے-آمین