WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کلام قدسی اور صنعت اقتباس۔۔تبصرہ۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علماءے بلاغت نے کلام منظوم و منثور میں صنعت اقتباس کے استعمال کو بہت اہمیت دی ہے۔صنعت اقتباس کے استعمال سے کلام میں جاذبیت آجاتی ہے اور اشعار بہت ہی معتبر اور مستند ہوجاتے ہیں ۔۔صنعت اقتباس کیا ہے؟ اہل بلاغت نے صنعت اقتباس کا ڈیفینیشن یوں بیان کیا ھے:

اقتباس یہ ہے کہ کلام منظوم و منثور میں قرآنی الفاظ کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے لایا جایے۔

اقتباس یہ ہے کہ کلام کو قرآن یا حدیث کے کلمات سے مزین کیا جائے۔

اقتباس یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں قرآن ، حدیث کا کوئی ٹکڑا یا دیگر علوم میں سے کسی علم کے قاعدے کو شامل کرے۔

اقتباس کی مثال میں حدائق بخشش سے حسان الہند سرکار اعلیٰ حضرت علامہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار لاجواب ملاحظہ فرمائیں:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم کو منصب
جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کروں ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیھم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیداییء دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محروم ہے

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاؤک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ماغبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

من رانی قد رای الحق جو کہے
کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے

حضرت حجۃالاسلام علامہ حامد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار میں صنعت اقتباس کی خوبیاں ملاحظہ فرمائیں:
ھوا الاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں
عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر میں صنعت اقتباس کا جلوہ دیکھیں :

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار

ڈاکٹر اقبال کے اشعار میں صنعت اقتباس کے مناظر خوشنما دیکھیں:

رنگ او ادنی میں رنگیں ہوکے اے ذوق طلب
کوئی کہتا تھا کہ لطف ما خلقنا اور ہے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے

صنعت اقتباس کے استعمال سے فائدہ یہ ہے کہ شاعر شعر میں مفہوم، قرآن و حدیث کے حوالے سے پیش کردیتا ہے۔اس لیے شعر زیادہ معتبر و مستند ہوجاتا ہے۔ لیکن صنعت اقتباس کے استعمال کرنے میں احتیاط اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔عربی الفاظ کے تلفظ کو شعر میں بعینہٖ پیش کرنا ہے ، اگر حروف میں کمی یا بیشی کی گئی تو معنی میں فرق آجانے کا امکان رہتا ہے۔موجودہ دور میں ہم نے چند شعرا کو دیکھا ہے جو صنعت اقتباس کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے ، کبھی الف گرادیتے ہیں تو کبھی ی ، کبھی واؤ کو حذف کردیتے ہیں تو کبھی الف ، واو یا ی کو کھینچ دیتے ہیں ۔ایسی غلطی اس وقت سرزد ہوتی ہے جب شاعر کے اندر شعر کہنے کی مہارت نہیں ہوتی یا علم عروض میں شاعر کو پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسی صورت میں شاعر ضرورت شعری کے نام پر بے احتیاطی کربیٹھتا ہے اور قرآنی الفاظ کے تعلق سے غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ ایسے شعرا کو ہم نے کئی بار مختلف واٹس ایپ گروپس میں تنبیہ بھی کی ہے۔بہر حال، اب اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی کے مجموعہاءے کلام کے مطالعہ سے یہ عیاں ہوتاہے کہ دور حاضر میں صنعت اقتباس پر مبنی سب سے زیادہ اشعار کہنے والے شاعر کا نام ہے علامہ قدسی۔آپ کے تقریباً ہر کلام میں صنعت اقتباس پرمبنی کم سے کم ایک شعر مل ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ آپ نے اپنے نعتیہ/ تقدیسی کلام کے ہر شعر میں قرآن کی آیت کا حوالہ پیش کیا ہے یعنی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ‌ نے قرآنی آیات کا استعمال مکمل احتیاط سے کیا ہے، کہیں بھی عروضی خامی نظر نہیں آتی، کسی بھی قرآنی لفظ یا حدیث کے کلمے کا کوئی حرف گرتا ہوا نظر نہیں آتا ، نہ ہی کہیں آپ نے کسی حرف کو بڑھا کر شعر کو آؤٹ آف وے جاکر موزوں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ شعر گوئی میں آپ کی مہارت کا پتہ چلتا ہے ، بلکہ یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ آپ دور حاضر کے ایک جید عالم دین ہیں ، علم قرآن و حدیث سے اپڈیٹیڈ ہیں اور حامل وسعت مطالعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علم قرآن و حدیث اور فن عروض کا بہترین استعمال تقدیسی شاعری میں بحسن و خوبی کرتے ہیں ۔

اب آئیے علامہ قدسی کے کلاموں میں سے چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں جن اشعار میں آپ نے صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔

حال ہی میں علامہ قدسی کا ایک تازہ ترین نعتیہ کلام نظر سے گزرا جس میں ردیف ہے:
محال است محال۔
اس ردیف میں بہت ساری خوبیاں ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو کلام میں آپ نے ایک طویل ردیف کا استعمال کیا ہے جو فارسی کلمات پر مشتمل ہے۔گویا یہ کلام دو زبانوں پر مبنی ہے، اردو اور فارسی۔لہذا اس کلام کو ذوالسانی کلاموں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ردیف میں آپ نے محال کو دوبار استعمال کرکے مفہوم کی اہمیت کو فزوں تر بنادیا ہے اور مضمون کی وقعت کو دوبالا کردیا ہے۔

کسی لفظ یا کسی فقرے کا دوبار استعمال کلام میں حسن تاکید کے لیے کیا جاتا ہے۔مثلا” سرکار اعلیٰ حضرت کا شعر دیکھیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے تو زندہ ہے واللہ فقرے کو دوبار استعمال کیا ہے تاکہ بیان میں فورس آجائے ۔ایسی تاکید سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شاعر مکمل وثوق کے ساتھ مفہوم کو بیان کررہا ہے اور شاعر کے پاس اپنے مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں ۔تبھی تو علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

اس قسم کے حسن تاکید سے مزین اعلیٰ حضرت کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف ان کی رسائی ہے صرف ان کی رسائی ہے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے واللہ کو دوبار استعمال کیا ہے اور صرف ان کی رسائی ہے کو بھی شعر/ مصرع میں دوبار لایا ہے

علامہ قدسی نے اپنے کلام کے ہر شعر میں مفہوم پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں : محال است محال۔
یعنی کہ آپ نے مکمل وثوق کے ساتھ مفاہیم‌ بیان کیے ہیں جن میں کسی قسم کے تردد کا شائبہ بھی نہیں ہے اور ان مفاہیم کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔
آپ کے اس کلام کے افاعیل ہیں:
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن/ فعلان۔
اور بحر کا نام ہے:
بحر رمل مثمن مزاحف مخبون محذوف مسبغ

اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال
اس شعر میں آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل کونین میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن جیسی کتاب کا بھی ملنا دنیا میں محال ہے۔ان دونوں دعووں کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس نقلی و عقلی دلائل موجود ہیں ، تبھی تو پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں :
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال

اسی کلام میں ایک شعر ہے :
جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال
یہ شعر صنعت اقتباس پر مبنی ہے۔اس شعر میں مفہوم بیان کرنے کے لیے علامہ قدسی نے قرآن کی آیت (سورہء بقرہ / آیت ٧) کا حوالہ دیا ہے اور قرآنی آیت کو کووٹ کرکے صنعت اقتباس کا استعمال بہت عمدہ اسلوب سے کیا ہے۔وہ آیت یوں ہے :
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم
ترجمہ:
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ۔
(کنز‌ الایمان)

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بنا پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالی’ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔اسی مفہوم کو علامہ قدسی نے ایک شعر کے ذریعہ بہت ہی دلکشی کے ساتھ اور مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کہتے ہیں:

جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا
اس شعر میں جس آیت کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
ورفعنا لک ذکرک۔
سورہ الم نشرح ، آیت ٤
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ نے اذان میں ، قیامت میں ، نماز میں ، تشہد میں، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ھے۔یہی وجہ ہے کہ شہر شہر میں آپ کا چرچا ھے، نگر نگر آپ کا ذکر ہے۔جلوت میں بھی آپ کا ذکر ہے اور خلوت میں بھی ، عرب میں بھی آپ کا چرچا ہے اور عجم میں بھی ۔ آپ کا ذکر صرف خلیجی ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ ہند و پاک اور یوروپ و اسٹریلیا میں بھی آپ کا ذکر جمیل ہوتا ہے ۔ زمین میں بھی آپ کا چرچا ہے اور آسمانوں میں‌ بھی ۔آبادی کے علاقے میں بھی آپ کا چرچا ہے اور غیر آباد‌ علاقوں میں بھی الحمد لللہ۔اسی لیے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر
یہ شعر تلمیحی بھی ہے۔جنگ بدر میں ایک صحابیء رسول کی شہادت ہوئی اور دشمن اسلام نے ان کی زبان کاٹ دی ۔زبان کٹنے کے بعد بھی ان کی زبان سے یہ آواز آرہی تھی :
فزت بربی یعنی میں رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، کل قیامت کے دن اگر مجھ سے پوچھا جائےگا کہ تمہاری زبان کہاں گئی تو میں فخر سے کہونگا کہ ناموس اسلام و رسالت کے لیے میں نے اپنی جان قربان کردی اور اپنی زبان بھی نذر کردی۔اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
آیت من‌ شعاءر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز
اس شعر میں جس آیت کا حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
ذالک ومن یعظم شعاءر اللہ فا نھا من تقوی القلوب۔
سورہء حج، آیت ٣٢
ترجمہ : بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔

اس آیت سے یہ ہدایت ملی کہ ہم اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کریں ۔مثال کے طور پر مناسک حج پر اگر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم حج کے دوران وہی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے کیا تھا ۔قربانی کرنا، جمرات پر کنکر مارنا، طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا یہ سب ان کی سنتیں ہیں اور ہم بہت ہی احترام سے عمرہ/ حج کے دوران ان کی سنتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
اور ہمیں ناز ہے کہ ہم سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں اور ان کی نشانیوں کی تعظیم دل سے کرتے ہیں۔اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں:
آیت من‌ شعائر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

اس شعر میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
واذا قری القرآن فاستمعو لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔
سورہء اعراف ، آیت ٢٠٤
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جس وقت قرآن پڑھا جائے خواہ نماز میں ہو یا خارج نماز میں اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے ۔اس مفہوم کو سہل ممتنع کے انداز میں علامہ قدسی نے کس حسین پیرائے سے شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے، کہتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اور وہ حدیث ہے:
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔
یعنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء مبارک کی زیارت کے لیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت ملی ہے ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زائرِ روضہء مطہر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔اس حدیث مبارکہ کو علامہ قدسی نے بہت ہی دلکش انداز سے شعر کا جامہ پہنایا ہے، کہتے ہیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں
یہ شعر جس حدیث کی سمت اشارہ کررہا ہے وہ یوں ہے:
افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر کسی سے نفرت کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ ایسی محبت جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ، نفسیاتی خواہشات کی آمیزش نہ ہو افضل اعمال سے ہے۔ نماز ، روزہ ، زکاۃ، حج بھی الحب فی اللہ کی شاخیں ہیں کہ مسلمان صرف اللہ کی رضا کی خاطر ان اعمال سے محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجالاتے ہوئے یہ اعمال صالحہ کرتا ہے جو عین ایمان و اصل ایماں کا تقاضہ ھے۔ اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں :
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں

ماہ رمضان کے ایام میں علامہ قدسی کی ایک نظم سوشل میڈیا میں بہت مقبول خاص و عام ہوئی تھی جس کا عنوان ہے: اصحاب بدر ۔
اس نظم میں کل نو اشعار ہیں ۔ان نو اشعار میں سے چار اشعار صنعت اقتباس کا حسن لیے ہوئے ہیں ۔آپ بھی ان اشعار کو ملاحظہ فرماءیے اور علامہ قدسی کے وسعت مطالعہ ، علمی تبحر، عروض دانی اور قادر الکلامی کی داد دیجیے:
اعملوا ہے حدیث شہ دیں گواہ
نور تقریر غفران اصحاب بدر
کہہ رہا ہے لکم آیۃ قول رب
راہ حق کے نگہبان اصحاب بدر
اقتدیتم ہے ارشاد شاہ زمن
ہیں ہدایت کی میزان اصحاب بدر
قدسی انتم اذلہ کا اعلان ہے
مشک اظہار احسان اصحاب بدر

اسی طرح علامہ قدسی کے سیکڑوں اشعار ہیں جس میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کو کووٹ کرکے مکمل وضاحت کے ساتھ ایمان افروز مفاہیم پیش کیے گئے ہیں۔ان شا ء اللہ پھر کبھی دیگر اشعار کی تشریح پر مبنی مقالہ پیش کیا جائےگا۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ قدسی دور حاضر میں صنعت اقتباس کے بہت ہی عظیم شاعر ہیں جن کی تمثیل دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا، ✒کلیم احمد رضوی مصباحی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا

جب بیاں کرتا ہے آقا کی ثنا مرغِ خیال

کانوں میں رس گھولتا ہے خوش نوا مرغِ خیال

جلوہ گر ہوتی ہے بلقیسِ سخن میرے لیے

غیب سے لاتا ہے مضمونِ سبا مرغِ خیال

ہند سے دو گام ہے اس کے لیے طیبہ کا باغ

ہے مثالِ برق یا نازِ صبا مرغِ خیال

ہے ترا ممدوح، ممدوحِ خداۓ دوجہاں

بلبلِ سدرہ ہے تیرا ہمنوا مرغِ خیال

صاحبِ معراج چاہیں تو ہو معراجِ سخن

تا بہ قوسینِ ثنا پہونچے مرا مرغِ خیال

شانِ قمری جانِ بلبل رشکِ گلشن نازِ فن

سب لقب تیرے ہیں اے مدحت سرا مرغِ خیال

انکی چوکھٹ پرجو پہونچا، چہچہےگم ہوگئے

اللہ اللہ کس قدر ساکت رہا مرغِ خیال

فکر کے دریا میں جب غوطہ لگایا واہ واہ

گوہرِ توصیف لے کر آگیا مرغِ خیال

کس بلندی سے مضامینِ رفعنا لے لیا

آشیانہ ہے کہاں تیرا بتا مرغِ خیال

نغمہ ہاۓ نعت سے شاداب رکھتا ہے ہمیں

باعثِ ابر و بہارِ جاں فزا مرغِ خیال

تیرے لہجے مشکبو عنبر فشاں ہیں اس لیے

ان کی زلفوں پرہے تو دل سے فدا مرغِ خیال

گوش بر آواز ہوں وحش و طیورِ گلستاں

جب زبورِ رخ پڑھے شیریں نوا مرغِ خیال

شاخِ طوبیٰ پر یہ چہکے بلبلِ سدرہ کے ساتھ

ان کی رحمت سے ہو گر رفعت رسا مرغِ خیال

ظلمتِ شَب میں ہویدا ہوتا ہےنورِ سحر

لے کے جب آتا ہے تنویرِ حرا مرغِ خیال

شاخِ مدحت پر نجومِ عشق کھلتے ہیں کلیم

نورِ حق کے گیت گاتا ہے سدا مرغِ خیال

از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی بہار

ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن،،کلام، سید خادم رسول عینی

قرآن
۔۔۔۔۔۔

قرار قلب ہے مومن کی جان ہے قرآن
ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن

ہر ایک شئ کی حقیقت کا ذکر ہے اس میں
نہ سمجھو تم کہ فقط داستان ہے قرآن

ہے کائنات کا ہر علم اس میں ہی پنہاں
خدا کے فضل کا بین نشان ہے قرآن

ہر ایک دور میں ہر قوم کے لیے ہے مفید
ہدایتوں کا مکمل جہان ہے قرآن

عمر نے لایا تھا ایمان سن کے اک‌ آیت
یقین مانیے ایماں کی جان ہے قرآن

اسی کے تحت بناتے ہیں ملک میں قانون
جہاں میں آج بھی یوں حکمران ہے قرآن

تمھارے ذہن میں ترمیم کا نہ آئے خیال
ہے لازوال،‌ خدا کا بیان ہے قرآن

ضعیف ہو نہ سکے گی کبھی کوءی آیت
جواں رہیگا، جواں تھا، جوان ہے قرآن

بڑے‌ ہی شوق سے عثماں غنی نے دی ترتیب
وہ جانتے تھے کہ امت کی جان ہے قرآن

عبادت اس کی تلاوت ہے ، دیکھنا اس کا
یوں نیکیوں کا حسیں گلستان ہے قرآن

حروف ایسے ہیں اس میں کہ ہے شفا ان میں
کلام رب کا، نبی کی زبان ہے قرآن

وہ ہونگے معتزلہ جو کہیں اسے مخلوق
ہمارے واسطے رب کا بیان ہے قرآن

ہمیں ضلال کے خنجر بھی کاٹ سکتے نہیں
یقیں ہے “عینی” کہ حق کا نشان ہے قرآن
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

شبِ قدر.. از: سید خادم رسول عینی

شب قدر۔۔۔۔۔۔

براءے مسلماں ہے نعمت شب قدر

رضاءے خدا کی بشارت شب قدر

مسلمان کرتے ہیں مل کر عبادت

بڑھاتی ہے آپس میں ملت شب قدر

نزول کرم صبح تک ہورہا ہے

ہے اعلان امن و صیانت شب قدر

بڑے فخر اور ناز سے قدسیوں کو

دکھاتی ہے عابد کی عظمت شب قدر

کئی درجہ نیکی کا ہے اجر اس ‌رات

عبادت کو دیتی ہے برکت شب قدر

تری منزلت پر مکمل ہے سورہ

نہ کیوں پھر ہو تجھ سے عقیدت شب قدر

ہیں حامل تشکر کے احمد ضیاءی

کیا خوب قراں تلاوت شب قدر

اراکین مسجد کو بھی تہنیت ہو

کیا اہتمام جماعت شب قدر

کریں جستجو قدر کی رات “عینی “

ہے شان کریمی کی حکمت شب قدر۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

زکواۃدیتے رہو۔۔از: سید خادم رسول عینی

زکواۃ۔۔۔۔۔۔

کرو سماج کی خدمت زکواۃ دیتے رہو

ہے یہ اصول جماعت زکواۃ دیتے رہو

تمھیں غریب نوازیں گے سب دعاؤں سے

بڑھیگا نفع تجارت زکواۃ دیتے رہو

کتاب رب میں ملا حکم رب کا کتنی بار

ملےگی گھر میں بھی برکت زکواۃ دیتے رہو

جو مستحق ہیں انھیں ڈھونڈو اور مدد بھی کرو

گھٹےگی ملک سے غربت زکواۃ دیتے رہو

خدا نے ذکر کیا اس کا بھی نماز کے ساتھ

ہے ظاہر اس سے فضیلت زکواۃ دیتے رہو

مہ صیام میں نیکی میں ضرب ہوتا ہے

ہے وقت کتنا غنیمت زکواۃ دیتے رہو

نکالنا ہے تمھیں” عینی “ڈھاءی فیصد بس

کرم ہے رب کا نہایت زکواۃ دیتے رہو۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔۔تبصرہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کا کلام بعنوان ماہ صیام تبصرے کی میز پر ہے۔آپ کا یہ کلام بہت ہی دیدہ زیب اور پسندیدہ ہے۔ کلام معنویت، پیکر تراشی ،سرشاری و شیفتگی ،فصاحت و بلاغت ،حلاوت و ملاحت ،جذب و کیف ، سوز و گداز ، سلاست و روانی ، حسن کلام ، طرز ادا کا بانکپن ، تشبیہات و استعارات، صنایع لفظی و معنوی اور سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہے۔

کلام کا مطلع یوں ہے:

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام
فرحتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

گویا ردیف لمبی ہے:
لیکے آیا ہے ماہ صیام
لمبی ردیف میں شعر کہنا بہت مشکل امر ہے۔
اس کلام میں ردیف کے علاوہ ہر شعر کے ثانی میں صرف قافیہ رہ جاتا ہے ، کسی دوسرے سبب یا وتد کے لیے جگہ نہیں رہتی۔اس کے باوجود علامہ قدسی نے ہر شعر کو بہت عمدگی سے نبھایا ہے اور کلام میں مقناطیسیت پیدا کردی ہے۔

علم عروض
‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلام جس بحر میں کہا گیا ہے اس کے افاعیل ہیں:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
چونکہ مصرع کے آخر میں لفظ صیام ہے اس لیے آخری رکن فاعلان ہوجاتا ہے۔گویا آپ نے کلام میں زحاف ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور زمانہ کلام سلام میں یہ زحاف پایا جاتا ہے۔

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کے افاعیل یوں ہوئے:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان

علم قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔
علامہ قدسی کے اس کلام میں قوافی یوں ہیں :
رحمتیں، فرحتیں،وسعتیں،برکتیں،رفعتیں وغیرہ۔
ہر قافیہ کے آخر میں یں زائد ہیں ۔لہذا حرف روی بنا ت ۔
اگر کسی بھی شعر میں قافیہ کے طور پر کاغذیں ، کروٹیں قسم کا لفظ لایا گیا ہوتا تو انحراف حرف روی کا عیب در آتا۔
الحمد لللہ شاعر محترم نے ایسے قوافی کا استعمال نہیں کیا ہے، گویا آپ کا کلام عیب در قافیہ سے پاک ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر جملہء خبریہ ہے اور صدق پر مبنی ہے۔ ہر خبر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔
غرض خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے اور ان کو ماہ رمضان کے روزے ( جو فرض عظیم ہیں) کی اہمیت و افادیت بتا کر روزے رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔

بدیع
۔۔۔۔۔۔۔

صنعت تضاد کا حسن ان اشعار میں پایا جاتا ہے:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

بھوک اور پیاس میں نفس سے جنگ کی
قوتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

صنعت تجنیس تام کی رعنائی اس شعر میں جلوہ گر ہے:

قدر اس کی کریں جس قدر ہوسکے
رفعتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنا ایک شعر اس صنعت کے قبیل کا یاد آرہا ہے:

ان کے عدو کا حشر برا ہوگا حشر میں
عاشق وہاں اٹھیگا بڑی آب و تاب سے

صنعت اقتباس سے مزین یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

مژدہ الصوم لی کا سناتا ہوا
حکمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر ایک حدیث قدسی کی روشنی میں کہا گیا ہے۔وہ حدیث یوں ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ
یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دونگا ۔

صنعت تلمیح سے مزین یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

فرض کا اجر ستر گنا لیجیے
کثرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ان دو اشعار میں ایک مشہور حدیث رسول کے طرف اشارہ ہے اور ان کا مفہوم حدیث سے مستعار ہے۔

کلام میں بصری و شامی پیکر تراشی کا حسن بھی ملاحظہ فرمائیں:

عشق شاہ دوعالم کے گلزار کی
نکہتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

تفہیم
۔۔۔۔۔۔

قرب رب دوعالم کی تحصیل کی
حسرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

جب ایک روزہ دار شام کو افطار کرتا ہے تو اس کو دو خوشیاں ملتی ہیں ۔ایک روزہ کھولنے کی اور دوسرا قرب خدا کی۔افطار کے وقت اور افطار کی بڑی فضیلت ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اس وقت روزہ داروں کی دعا خصوصیت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔

حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق ہے سحری کا کھانا۔اس لیے علامہ قدسی نے کہا:
صرف پانی سہی پھر بھی سحری کرو
رغبتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اس میں نازل ہوئی قدسی قرآن پاک
عظمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کررہا ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس آیت میں قران کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے۔مکمل قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا اور یہاں سے وقتاً فوقتاً حکمت کے مطابق حضرت جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے زمین تک لاتے رہے اور یہ نزول تئیس سال کے عرصے میں پورا ہوا۔

گویا ہر شعر قابل تعریف ہے۔
خاص طور پر یہ شعر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا:

سخت گرمی کے موسم میں روزوں کی یہ
لذتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔

ایک قوم ایسی بھی تھی کہ اس قوم پر تیس روزے فرض کئے گئے تھے ، لیکن ان لوگوں نے موسم کے اعتبار سے روزے کے مہینے کو تبدیل کیا ۔یعنی اگر روزہ کا مہینہ سردی میں نمودار ہوا تو پورا مہینہ روزہ رکھا ، لیکن اگر گرمی کے موسم میں آیا تو روزوں کو ملتوی کردیا اس وقت تک جب تک کہ سردی کا موسم نہ آجاتا۔

امت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ماہ رمضان کسی بھی موسم میں آئے اسی مہینے میں مسلمان روزہ رکھتا ہے اور مسلمانوں نے پچاس / پچپن ڈگری تمازت میں بھی روزہ رکھا ہے ۔
الحمد لللہ
تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں روزہ دار کو خود اجر دونگا ۔گویا اس اجر کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے :

صائموں کی افضلیت” عینی” اس سے جان لو
اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

منقبت در شان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ۔۔از: سید خادم رسول عینی

حیدر کے بعد کس کی خلافت؟ حسن کی ہے
بعد علی ہے کس کی امامت؟ حسن کی ہے

خوشیاں منا کے زیست کو پرنور کیجیے
چاروں طرف ہے نور ، ولادت حسن کی ہے

شفقت ، عطا تھے منسلک ان کی صفات سے
تاریخ میں رقم یوں سخاوت حسن کی ہے

سرکار دوجہاں نے رکھا نام‌ ان کا خود
کس طرح معتبر یہ سعادت حسن کی ہے

ظاہر ہوا یہ چشم محبت پہ دیکھیے
ہر سمت روشنیء ولایت حسن کی ہے

کرتے ہیں ایک پل میں وہ حل مشکلات کا
کس طرح خوب تر یہ ذہانت حسن کی ہے

صلح مبین آپ نے کی قوم کے لیے
دنیا نے دیکھی، دینی سیاست حسن کی ہے

راضی ہیں اس سے شاہ زمن ، راضی ہے خدا
حاصل اگر کسی کو حمایت حسن کی ہے

اصلاح کر رہے ہیں بہت عمدگی کے ساتھ
کس طرح” عینی “نیک یہ عادت حسن کی ہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت شہِ عالمین ﷺاز قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی

نعت شہِ عالمین ﷺ

جس کے دل میں آپ کا کلمہ نہیں

اس کا فطرت سے کوئی ناتا نہیں

جو ترا عاشق نہیں شیدا نہیں

آشنائے لذتِ سجدہ نہیں

خوشبوؤں کی بارشیں ہونے لگیں

لب پہ ان کا نام تو آیا نہیں؟

خواب ہے قوسینِ رفعَت پر قیام

ان کے قدموں تک اگر پہونچا نہیں

وہ جو بولیں تو رواں ہو سلسبیل

ایسا پاکیزہ کوئی لہجہ نہیں

مالکِ کُل نے انہیں مالک کیا

ان کے خالی ہاتھ میں پھر کیا نہیں

ان کی باتوں میں ہے نورِ آگہی

رہنما کوئی چراغ ایسا نہیں

دیکھ لو پہلے مدینہ پھر کہو

کیا زمیں پر خلد کا نقشَہ نہیں

کیوں کہیں آنکھوں کوہم روشن چراغ

آنکھوں میں جب گنبدِ خضریٰ نہی

ںہے تصور میں رخِ بدر الدجیٰ

ظلمتِ شَب کا کوئی کھٹکا نہیں

کیوں ہے ہر شامِ تمنَ٘ا دل فریب

ان کی زلفوں کا اگر صدقہ نہیں

زلفِ جاناں کو کرو عنوانِ نعت

فکر کا گلشن ابھی مہکا نہیں

جن کی چوکھٹ سجدہ گاہِ دل ہوئی

کیا وہ میری روح کا قبلہ نہیں؟

تو ہے بے سَایہ مگر میرے رحیم

آخرش کس پر ترا سَایہ نہیں

سائلو ! جو مانگنا ہو مانگ لو

ان کے لَبْہَاۓ کرم پر لَا نہیں

اس کے حصے میں نہیں بلقیسِ خلد

جو سلیمانِ مدینہ کا نہیں

ذرَ٘ہ کیسے ہو گیا انجم مثال

فیضِ صحبت کا اگر جلوہ نہیں

حلَ٘ت و حرمت ہوئی ان کی عیاں

جن کو آقا نے کہا “اچھا، نہیں”

یہ ہے دربارِ کرم ان کا ، یہاں

کوئی بے گانہ بھی بے گانہ نہیں

ان کے زندانِ محبَ٘ت پر نثار

قید میں بھی قیدی یہ بندہ نہیں

لازمی ہے وہ پڑھے قرآن پاک

آئنہ جس نے ترا دیکھا نہیں

علم سے آرائشیں ممکن ہیں کب

تن پہ جب پیراہنِ تقویٰ نہیں

وہ کرم فرمائیں تو میں بھی کہوں “

میرا حصہ دور کا جلوہ نہیں

رہتی ہے “یوحیٰ” پہ بھی میری نظر

اپنے جیسا ان کو میں کہتا نہیں

پی رہے ہیں ان کے عاشق واہ واہ

ہاتھ میں مینا نہیں بادہ نہیں

جنتِ یاد نبی ہے ! کیوں کہوں

دل مدینہ طیبہ میرا نہیں

تشنگی تیرا نصیبہ نجدیا

زمزمِ مدحت ترا حصہ نہیں

ہےمعجزہ ہے ان کے فضلِ خاص کا

“بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں”

“زندگی، ان کی محبت، ہے کلیم

جو محِب ان کا نہیں ، زندہ نہیں

از قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی