WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

لفظ رمضان کی تحقیق۔۔از: سید خادم رسول عینی

لفظ رمضان کی تحقیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ ماہ رمضان بحسن و خوبی رواں دواں ہے۔اسی اثنا میں ماہ رمضان کی اہمیت اور روزے کی افادیت پر کئی مقالے نظر نواز ہوئے، جنھیں پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سارے شعرائے کرام کی نظمیں بعنوان ماہ رمضان/ ماہ صیام دستیاب ہوئیں اور ان کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، روح کو تسکین ملی۔ماہ نامہ فیض الرسول براؤن شریف کے ماہ رمضان خصوصی شمارے میں حضرت علامہ علی احمد رضوی بلرام پوری کی نظم بعنوان” رمضان آگیا ہے” پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔اس کلام کے چند اشعار نذر قارئین ہیں :
ہوئے مشک بو گلستاں رمضان آگیا ہے
کہ مہک رہی ہیں کلیاں رمضان آگیا ہے

چھٹے ظلمتوں کے بادل ہوئی رحمتوں کی بارش
ہوئے خوش سبھی مسلماں رمضان آگیا ہے۔

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
فعلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن
مصرع تقطیع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر محترم نے رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے اور یہی درست ہے۔
جب کہ چند شعرا نے رمضان کے میم کو ساکن باندھا ۔
کیا ساکن باندھنا بھی درست ہے ؟اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے پہلے لفظ رمضان پر صرفی نگاہ ڈالتے ہیں۔

کسی لفظ کا درست تلفظ جاننے کے لیے پہلے سمجھنا ہے کہ لفظ کا مادہ کیا ہے۔

“عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی ہے۔رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ماہ میں سورج کی گرمی کے سبب پتھر وغیرہ سخت گرم ہوجاتے ہیں جس سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔چونکہ اس مہینہ میں سورج کی گرمی کی شدت کی وجہ سے ریت اور پتھر وغیرہ اس قدر سخت گرم ہوجاتے تھے کہ ان پر چلنے والوں کے پاؤں جلنے لگتے تھے اس وجہ سے عربوں نے لغت قدیمہ میں اس مہینہ کا نام رمضان رکھ دیا، یعنی پاؤں جلادینے والا مہینہ۔
رمضان کی اک اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے (مسلمانوں کے) گناہوں کو جلا کر ختم کر دیتاہے۔

لفظ “رمضان”بروزن۔ “فَعِلان” رمض کا مصدر ہے اور یہ باب ‘سمع’ کے ثلاثی مجرد سے ماخوذ ہے۔
لفظ “رمضان” گرچہ مصدر ہے تاہم اسم علم کے طور پر مستعمل ہوتا ہے۔

رمضان کے مادہ رَمَضٌ پر غور کریں ۔میم مفتوح ہے یعنی علم عروض کی زبان میں میم متحرک ھے۔اگر رمض کا میم متحرک ہے تو رمضان کا میم بھی متحرک ہونا چاہیے۔

اب آئیے قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔سورہء بقرہ میں ہے:
“شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
مندرجہ بالا قرآنی آیت میں رمضان کا میم متحرک ہے۔
تو پھر شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے کیوں کہ قرآن صریح طور پر ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ رمضان کا میم متحرک ہے۔

اب آئیے کلام رضا میں لفظ رمضان کو ڈھونڈتے ہیں۔ شاید اعلیٰ حضرت نے اپنے کسی شعر میں لفظ رمضان کا استعمال کیا ہو ۔اعلی’ حضرت کے ایک نعتیہ کلام میں مطلع یوں نظر آیا :

شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مصرع کی تقطیع کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔تو پھر دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے۔ اردو شاعری میں سرکار اعلیٰ حضرت سے بڑھ کر استاد کون ہوسکتا ہے؟ حدائق بخشش سے بہتر رہنمائی کون کرسکتا ہے؟

صرف لفظ رمضان نہیں ، بلکہ سرکار اعلیٰ حضرت نے جہاں بھی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے وہاں قرآن کے الفاظ کو اسی وزن پر باندھا ہے جس وزن پر قرآن میں مرقوم ہے۔مثلا”:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم‌ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب‌اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کرو ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیہم نے عدو کو بھی لیا دامن‌‌میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدایی دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محرم نہیں

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں ؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن‌ ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی’ ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

اب آئیے دیکھتے ہیں اردو کے دیگر اساتذہ نے لفظ رمضان کا کس انداز سے استعمال کیا ہے۔

اسماعیل میرٹھی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
جمعہء آخر ماہ رمضاں ہے افضل
یوں تو جس وقت میں ہو بذل و نوال اچھا ہے
اس شعر میں اسماعیل میرٹھی نے بھی لفظ رمضان کو میم متحرک باندھا ہے۔

ریاض شفیق کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
اے ہلال رمضاں توڑ غریبوں کی نہ آس
بھوکے پیاسوں کی بجھاتا ہے کوءی بھوک نہ پیاس
اس میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

رشک کا شعر دیکھیں:
عید ہر روز مناتے جو بگڑتا ہو فلک
ایک روزے سے ہیں ماہ رمضان میں ہم تم
اس شعر میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

اردو شاعری کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔ان کی مشہور نظم عید رمضان سے ماخوذ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
خوشی شب رات کی ہور عید رمضاں کا خوش نت نت
اے دونوں عیدا کیاں خوشیاں خدا تج کوں سدا دیتا

اتنے سارے حوالہ جات دیکھ کے بھی کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے؟

اب آئیے لغت کی طرف چلتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں رمضان کے میم کو مفتوح لکھا ہے۔فیروز اللغات میں بھی رمضان کے میم‌ کو مفتوح لکھا ہے۔پھر بھی آپ کہیں گے کہ رمضان کا میم ساکن درست ہے ؟

اب آئیے علم عروض کی طرف رخ کرتے ہیں۔
لفظ رمضان دو اسباب کا مجموعہ ہے۔رمَ اور ضان۔
رمَ ، سببِ ثقیل ہے ، ضان سبب متوسط ہے ، اور یہ بات جائز نہیں کہ سببِ ثقیل کا کوئی حرف ساکن کردیں۔

بعض لفظوں کے تلفظ میں اساتذہ نے چھوٹ دی ہے جیسا کہ کلمہ کی لام کو ساکن کرنا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کی ہ کو جب ساقط کرتے ہیں تو تین حرف پے در پے متحرک آتے ہیں جسے ثقل سمجھا گیا ہے ، اس لیے کلمہ میں لام کی تسکین روا سمجھی گئی ہے ۔
جبکہ رمضان میں کوئی حرف ساقط نہیں ہوتا کہ جس کے سبب بقیہ کلمہ کو ثقل سمجھا جاے ۔
اس لیے اساتذہ نے رمضان کے م کو ساکن نہیں باندھا۔

مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ نتیجہ نکلا کہ رمضان کا میم متحرک ہی درست ہے۔

کسی کی بات مانیں یا نہ مانیں قرآن کی تو مانیں۔
مثال کے طور پر:
لفظ قرآن کا درست وزن کیا ہے ؟
مفعول۔
کیونکہ یہ قرآن نے سکھایا ہے۔
الرحمان
علم القرآن
لیکن میر تقی میر نے قرآن کو ایک شعر میں فعول کے وزن پر باندھا ، مثلا”:
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

لیکن ہم نے میر کو نہیں مانا ۔
قرآن کو مانا ۔
لفظ قرآن کو مفعول کے وزن پر باندھا ۔

یہی کیفیت لفظ رمضان کے ساتھ ہے۔
ہم قرآن کو مانیں گے۔ کسی اور کی متضاد رائے کو قبول نہیں کریں گے۔