WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حلال اور حجاب۔۔از: سید خادم رسول عینی

سورہء بقرہ کی ایک آیت کا اقتباس یوں ہے:
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ

ترجمہ:
اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ۔

اس آیت میں چار چیزوں کی حرمت کا حکم ہے:
١.مردار
٢.خون
٣.خنزیر کا گوشت
٤.وو جانور جو غیر خدا کا نام لےکر ذبح کیا گیا ۔

خدا کے حکم میں حکمت کار فرما رہتی ہے۔ خنزیر بھی گائے ،بیل، بکرے کے ایسا ایک چوپایہ جانور ہے ۔گائے ، بیل، بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے ، تو پھر خنزیر کا گوشت حرام کیوں ؟ کچھ تو حکمت خداوندی کار فرما ہوگی۔

قرآن میں جو احکام بیان کیے گیے ہیں وہ کسی بندے کی جانب سے نہیں ہیں ۔ایک بندہ جب کوئی حکم جاری کرتا ہے تو اس میں کچھ ذاتی منفعت بھی رہ سکتی ہے۔لیکن خدا بے نیاز ہے ۔ قرآن فرماتا ہے :
اللہ الصمد
یعنی اللہ بے نیاز ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ کھائے نہ پیئے ،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔کسی کام میں کسی کا حاجت مند نہیں۔

خدا جو احکام جاری کرتاہے وہ خالص اس کے بندوں کی منفعت کے لیے ہوتے ہیں ۔

جب میں اڑیسہ کی یونیورسٹی میں اگریکلچرل سائنس میں گریجویشن کررہا تھا تو ہر سیمسٹر میں ایک سبجکٹ ویٹرنری سائنس کا بھی ہوا کرتا تھا جسے ویٹرنری سائنس داں پڑھایا کرتے تھے۔ ایسی ہی اک کلاس میں پڑھاتے ہوئے ایک ماہر ویٹرنری سائنس( جو غیر مسلم تھے ) نے کہا:

“شریعت اسلامیہ نے خنزیر کے گوشت کو حرام کہا ہے اور اس حکم کو سائنس کی حمایت بھی حاصل ہے”۔انھوں نے سائنسی وجوہات یوں بیان کی تھیں :

“١.خنزیر کا نظام انہضام گائے کے نظام انہضام سے جدا گانہ ہے۔گائے کے پیٹ کے اندر جب عمل انہضام ہوتا ہے تو جراثیمی زہر جسم سے باہر نکل جاتے ہیں ۔لیکن خنزیر کے جسم سے یہ جراثیمی زہر باہر نہیں نکلتے ، بلکہ یہ خنزیر کے فیٹی ٹیسوز میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٢. خنزیر میں سویٹ گلانڈ / مسام عرقی نہیں ہوتا ،
جس کے سبب وہ پسینہ نہیں چھوڑتا۔کسی جانور سے جب پسینہ چھوٹتا ہے تو اس کے بدن سے جراثیمی زہر نکل جاتے ہیں ۔چونکہ خنزیر کے بدن سے جراثیمی زہر نہیں نکلتے ، وہ بدن میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٣.خنزیر کا گوشت سرطان زا ہوتا ہے۔ ٥٠٠ گرام گوشت کھانے سے سرطان کا امکان اٹھارا فی صد بڑھ جاتا ہے۔اس لیے بھی خنزیر کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔”

ماہر ویٹرنری سائنس نے یہ بھی کہا کہ” اسلامی شریعت نے جس انداز سے جانور یا پرندے کو ذبح کرنے کے لئے کہا ہے وہ بھی سائنسی اعتبار سے درست ہے۔یعنی حلال شدہ گوشت کھانا چاہیے کیونکہ بغیر حلال کیے گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے “۔اس کی وجوہات انھوں نے یوں بیان کیں:

“١.اسلامی طریقے سے جب ذبح کیا جاتا ہے تو شریان سے پورا خون باہر نکل جاتا ہے جس کے سبب گوشت میں جراثیمی زہر باقی نہیں رہتے۔

٢.حلال شدہ گوشت میں خون باقی نہیں رہتا ۔قرآن کی آیت میں ویسے بھی خون کو حرام کہا گیا ہے۔اگر حلال شدہ نہیں ہے تو گوشت میں خون کے کچھ حصے باقی رہ جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اس لیے حلال شدہ گوشت ہی کھانا چاہیے۔”

تین چار سال پہلے ایک فیس بک سٹار نے اپنے فیس بک وال میں پوسٹ کیا تھا :

“اسٹریلیا میں خنزیروں کی پرورش فارم میں اور صاف ستھرے ماحول میں ہوتی ہے اور وہ گندی چیزیں نہیں کھاتے ، لہذا ان خنزیروں کا گوشت مسلمانوں کو کھانا چاہیے”

میں نے اس‌ پوسٹ کا رد کیا ۔افسوس کہ اس پوسٹ کی تائید میں اسٹریلیا اور امریکہ کے کچھ نام نہاد مسلم بھی کمنٹ لکھ رہے تھے اور بڑی بے حیائی کے ساتھ علی الاعلان یہ اظہار کر رہے تھے کہ خنزیر کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان ہونے کے باوجود بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں ۔
میں نے اس پوسٹ کے خلاف بحث کی اور یہ بحث تقریباً چار روز تک چلتی رہی۔میں نے اپنے کالج کے لکچرر سے جو سیکھا تھا اسی کی روشنی میں بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ خنزیر کا گوشت صرف اس لیے حرام نہیں ہے کہ خنزیر گندی چیزیں کھاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی حرام ہے کہ خنزیر کا نظام انہضام اور استحالہ ایسا ہے کہ اس کے گوشت میں جراثیمی زہر فطری طور پر موجود رہتے ہیں اور وہ صحت کے لیے بےحد نقصان دہ ہے۔ فارم کی پرورش ماحولیات تو بدل سکتی ہے لیکن جانور کے جینیٹک کیریکٹر / جینیاتی کردار کو بدل نہیں سکتی ، جانور کے استحالہ کو بدل نہیں سکتی۔چار دن کی مسلسل بحث کے بعد اس فیس بک اسٹار نے ہماری بات تسلیم کرلی اور اپنے پوسٹ کو فیس بک سے ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔

پتہ یہ چلا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ آج کل اپنے ملک میں جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔تبھی تو کبھی حجاب کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی اذان کے خلاف ، کبھی مدرسوں کی تعلیم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی حلال ذبیحہ کے خلاف۔

حجاب سماج کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔حجاب صرف اسلام کی تہذیب نہیں ہے بلکہ ملک عزیز ہندوستان کی بھی تہذیب ہے۔
راقم الحروف کے دو اشعار اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں:

شرم و حیاءے جسم کی ترکیب ہے حجاب
اچھے سماج کے لیے ترتیب ہے حجاب
جو شخص ہے مخالف پردہ وہ جان لے
ہندوستان ملک کی تہذیب ہے حجاب

اذان فضا کے تقدس کے لیے لازم ہے۔نماز کے لیے مسلمانوں کو جب پکارا جاۓ تو کیسے پکارا جاۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت سارے آپشنز رکھے گئے۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات کو سب پر ترجیح دی ، گویا اذان کے کلمات سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب ہیں۔ جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب ہو اس کے تقدس کا کیا کہنا ۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:
:
خدا کا نام ہے اس میں رسول کا بھی نام
ہیں کلمے خوب معظم اذان دی جائے
نبی نے اس کو دی ناقوس ، سینگ پر ترجیح
ہے برکتوں سے مجسم اذان دی جائے

مدرسوں کی تعلیم سماج میں امن و اماں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کیونکہ مدرسے سے فارغ ہوکر علماء وعظ کرتے ہیں ، اچھے کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے باز آنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔اس سے سماج اور ملک میں اچھے باشندوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

حلال ذبیحہ بہتر صحت اور تندرستی کے لیے لازم ہے۔اگر بغیر حلال کے گوشت استعمال کیا جائے تو بدن امراض کا شکار ہوگا اور بیماریاں بڑھتی چلی جائینگی۔ان باتوں کا اعتراف سائنس نے بھی کیا ہے۔

مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اسباق کو منظر عام پر لائیں اور قرآنی احکام اور ان کی منفعت کو غیر مسلموں تک پہنچائیں ۔ہم اپنا قیمتی وقت اپنوں کے خلاف پرچہ بازی میں صرف کررہے ہیں، فروعی مسائل میں اختلافات کو بڑھاوا دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم داعیء اسلام ہیں ؟ کاش یہی وقت ہم ترسیل و ابلاغ اور تبلیغ اسلام میں صرف کرتے!

جو لوگ حلال اور حجاب کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، وہ ایک دن ضرور پشیماں ہونگے اور اعتراف کرینگے کہ حجاب سماج کے لیے کس قدر ضروری ہے اور حلال ذبیحہ صحت کے لیے کیوں لازم ہے ۔
خدا رب العالمین ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں۔
شریعت اسلامیہ نے جو احکام جاری کئے ہیں ، جینے کے طریقے جو سکھائے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے بنی آدم کے لیے مفید ہیں ۔
حلال اور حجاب پر اگر ملک میں پابندی لگی تو ملک کے باشندے خود خسارے میں رہیں گے۔

استقبال رمضان۔۔از: سید خادم رسول عینی۔۔

اس کا استقبال کیجیے مومنو سنت ہے یہ

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام

اس شعر میں کہا گیا ہے کہ اے مومنو ! ماہ رمضان کا استقبال کرو کیونکہ یہ نیکی کا تحفہ لےکر آیا ہے اور ماہ رمضان کا استقبال کرنا سنت مصطفی’ ہے ۔استقبال کا مطلب کیا ہے اور ماہ رمضان کا استقبال کیوں اور کیسے کیا جائے، آئیے اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا استقبال ہے ۔مہمان نوازی کو استقبال کہا جاتا ہے ۔استقبال ماہ رمضان ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کا نام ہے ۔ مشہور حدیث ہے کہ شعبان کے آخری دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے صحابہء کرام کو ماہ رمضان کی اہمیت اور فضیلت سے روشناس فرمایا۔الغرض استقبال ‌ماہ رمضان حدیث سے ثابت ہے۔جب کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو اس کے استقبال کے لئے ہم‌ انتظامات و انصرامات کرتے ہیں، گھر کے در و بام‌ کو سجاتے/ سنوارتے ہیں، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں۔چونکہ ماہ رمضان بہت قیمتی، معظم اور بابرکت مہمان ہے اس لیے اس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنی روح کو سنوارنا ہے ، اپنے اعمال و کردار کو بہتر بنانا ہے ۔ماہ رمضان کی آمد سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار صدق دل سے کرلیں تاکہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ایک نئی اور صاف ستھری زندگی کا آغاز کر سکیں ۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی شب میں پہلی تراویح، پھر دیر رات میں سحری اور آنے والے دن میں روزے اور پھر شام کو افطار، پھر دوسری شب میں نماز تراویح ۔یہ ایک معمول ہے ، روز مرہ کا کام ہے جو پورے مہینے چلتا ہے الحمد لللہ۔

ماہ رمضان اتنا اہم کیوں ہے؟ ہم اس کا استقبال کیوں کریں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماہ مومنوں کے لئے تحفے لیکے آتا‌ ہے۔کون سا تحفہ؟ نیکیوں کا تحفہ۔ماہ رمضان صرف نیکی لےکر نہیں آتا ، بلکہ نیکیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہوا آتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر مومن ماہ رمضان میں نفل ادا کرتا ہے تو اس کو ثواب فرض کا ملتا ہے۔اگر مومن ایک فرض ادا کرتا ہے تو اس کو ستر فرض کا ثواب ملتا ہے۔تو پھر ایسے خیر خواہ اور مہربان مہمان کا پرتپاک انداز سے ایک مومن استقبال نہ کرے؟بیشک ہر مومن ، ہر مسلمان بڑی بے صبری کے ساتھ اس ماہ کا منتظر رہتا ہے ۔آئیے ہم سب مل کر اس ماہ کا استقبال کرتے ہیں جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔آئیے اس کا استقبال کرتے ہیں جس کو ایمان کا مہینہ کہا گیا۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے گئے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔اس ماہ کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور اتری۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اترا ۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو ماہ انوار بھی ھے اور ماہ بخشش و مغفرت بھی۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو درجات جنت کے حصول کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو دوزخ کے طبقات کی نجات کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو عابدوں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو توبہ کرنے والوں کا مہینہ ہے۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جو اہل معرفت کا مہینہ ہے۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جو عارفوں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو امن و اماں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے جسے قدر والی رات کہتے ہیں اور اس رات کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:انا انزلنا ہ فی لیلۃالقدروما ادراک ما لیلۃ القدرلیلۃ القدر خیر من الف شھر الحمد لللہ پھر سے ہماری زندگی کے باغ میں بہار دلکش بن کر ماہ رمضان آیا ہے ۔آئیے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر اس کا استقبال کریں اور پورے انتیس / تیس دن اس کی قدر کریں ، اس مہینے کا کوئی بھی لمحہ ضائع ہونے نہ دیں ۔ پتہ نہیں کل ہو یا نہ ہو، آئندہ ماہ رمضان تک زندگی باقی رہے یا نہ رہے ۔خیر ، اللہ سب کو امن و اماں میں رکھے ۔آمینماہ رمضان میں عبادت کئی انداز سے کی جاتی ہے ۔روزہ رکھنا خود ایک اہم عبادت ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائے گا ۔اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

صائموں کی افضلیت عینی اس سے جان لو

اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں ، جس میں کل فرض نمازیں سترہ رکعتوں کی ہیں۔ایک فرض ادا کرینگے تو ستر فرائض کا ثواب ملےگا۔سترہ کو ستر میں ضرب دیجئے۔گیارہ سو نوے ہوئے۔۔پھر معراج کا واقعہ یاد کریں ۔ معراج کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہم دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھیں گے ، لیکن پچاس وقت کا ثواب ملےگا۔ لہذا اس کو اکاؤنٹنگ میں لاتے ہوئے گیارہ سو نوے کو دس پر ضرب دیں ۔کتنا ہوتا ہے ؟ گیارہ ہزار نو سو ہوتا ہے۔گویا ماہ رمضان میں ہم روزانہ سترہ رکعت فرض نماز ادا کرینگے ، لیکن ثواب گیارہ ہزار نو سو فرض نمازوں کا ملےگا۔ اس سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ، یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے ، خدا صرف رحیم نہیں بلکہ رحمان بھی ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں کہ آپ کے صدقے آپ کی امت کو یہ شرف عظیم حاصل ہوا۔سحری کرتے ہیں اور افطار کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔لیکن ہم ماہ رمضان کی شروعات کس عبادت سے کرتے ہیں ؟ اس عبادت کا نام کیا ہے؟ اس عبادت کا نام ہے نماز تراویح۔آئیے پہلے معلوم کرتے ہیں تراویح کی فضیلت کیا ہے۔نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ تراویح بیس رکعات پر مشتمل ہے۔ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نماز تراویح باجماعت قائم فرمائی۔وہ عمر جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ وہ عمر جن کو فاروق کا لقب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا اہتمام کیا اور اسے سنت قرار دیا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس قدر اہتمام سے تراویح پڑھنے کی ہدایت کیوں دی؟ کجھ خاص وجہ تو ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی تھی کہ عرش الٰہی کے اردگرد ایک جگہ ہے جس کا نام ہے حضیرۃ القدس ، جس میں فرشتے عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ فرشتے ماہ رمضان کی راتوں میں خدا سے اجازت لےکر زمین پر اترتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ۔ امت محمدیہ میں جس نے ان کو چھوا یا انھوں نے جس کو چھوا تو وہ ایسا نیک بخت اور سعید بن جاتا ہے کہ وہ کبھی بد بخت و شقی نہیں بنتا ۔ یہی وہ حدیث رسول ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ متأثر ہوئے اور آپ نے امت مسلمہ کو جماعت کے ساتھ نماز تراویح کا اہتمام کرنے کے لیے کہا۔نماز تراویح کی خاصیت یہ ہے کہ نمازی قیام کے دوران پورا قرآن سنتے ہیں ۔قرآن سننا بھی ایک عبادت ہے اور قیام کی حالت میں سننا مزید باعث ثواب و برکت ہے۔پورے رمضان میں تراویح کی نماز میں قرآن ختم اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان قرآن کی بتائی ہوئی ہدایتوں کو از سر نو سن لیں ، سمجھ لیں اور پورے سال ان ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔لیکن ہمارے ملک کے کتنے مسلمان قرآن کی آیات کو سن کے سمجھتے بھی ہیں ۔بہت کم تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو تراویح کے دوران قرآن سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں ۔آخر اس کا حل کیا ہے ؟ قرآن کے نزول کا مقصد انسان کی ہدایت ہے ۔لیکن بیشتر مسلمان قرآن پڑھتے یا سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔اس مسءلہ کا حل یہ ہے ماہ رمضان میں جب بھی وقت ملے ، نماز سے پہلے یا نماز کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھیں ، ترجمہ کی تفسیر پڑھیں ۔کنز الایمان پڑھیں ، تفسیر نعیمی پڑھیں۔اپنے گھر میں ، اپنے سماج میں ، اپنی بستی میں ، اپنے شہر میں قرآنک کلچر قائم کریں ۔اگر ایسا ہوا ، اگر عوام قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر بھی پڑھنے لگی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت عوام کو گمراہ نہیں کرسکتی۔سلمان رشدی ہو یا ملعون وسیم ، ان کے لٹریچر سے عوام بہک نہیں سکتی، کیونکہ ان کے اعتراضات کے جوابات ترجمہء قرآن اور تفسیر میں مل جائیں گے۔ہو سکتا ہے آگے چل کر ہمارے ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہو ۔اگر ایسا ہوا تو بھی مسلمان جن کو قرآن کا علم ہے کبھی بہک نہیں سکتے کیونکہ مسءلوں کا حل قرآن میں ہے۔وہ نکاح، طلاق ، پروپرٹی کے مسائل کا حل قرآنی احکام کے ذریعہ آپس میں طے کرلیں گے یا اپنے شہر کے مفتی / مسجد کے عالم امام سے مسئلے کا حل کروالیں گے، وہ ملک کی عدالت کا دروازہ کبھی نہیں کھٹکھٹائینگے ۔ اس طرح یونیفارم سیول کوڈ مسلم سماج کے لیے بے معنی رہ جائےگا۔ہوسکتا ہے آئندہ سالوں میں گیتا کی پڑھائی کو اسکول میں لازمی قرار دے دیا جائے۔ایسی صورت میں اگر مسلم طلباء اپنے گھر / مسجد/ مدرسے میں قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ نہ پڑھے ہوں تو کیا ان کے بہکنے کا امکان نہیں ہوگا؟ اگر قرآن کی تعلیم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ انہیں دیا گیا ہوگا تو انھیں یہ محسوس ہوگا کہ جو اخلاقی اقدار کے اسباق گیتا کے شلوک کے ذریعہ اسکول میں سکھائے جارہے ہیں وہ قرآن و حدیث میں بہتر انداز سے بتائے گئے ہیں ۔ہمارے اکابرین سرکار اعلیٰ حضرت، حضرت صدر الافاضل ، مفتی احمد یار خان نعیمی علیہم الرحمہ وغیرہ نے اردو زبان میں اسلامی لٹریچر کا ایک ضخیم اثاثہ چھوڑا ہے تاکہ ہم پڑھیں اور راہ حق پر قائم رہیں ۔کیا یہ کتابیں صرف علماء کے استفادہ کے لیے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ یہ کتابیں پڑھیں تاکہ مختلف اقسام کی گمراہیوں کی حربوں سے بچ سکیں ۔مشہور حدیث ہے:طلب العلم فریضۃ علی’ کل مسلم و مسلمۃ۔یعنی علم دین حاصل کرنا ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے۔ایک کالج میں پڑھا ہوا شخص / پڑھتا ہوا شخص بھی اگر چاہے تو علم دین سیکھ سکتا ہے اگر وہ ہمارے اکابرین کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔بہر حال ، بات چل رہی تھی نماز تراویح کی فضیلت کی۔ چونکہ نماز تراویح مستحب ہے، سنت رسول ہے اس کا پڑھنے والا ، اس کا اہتمام کرنے والا بہت ثواب کا حقدار بن جاتا ہے الحمد لللہ ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز تراویح کے دنیاوی فوائد بھی ہیں ۔ہم نے ممبئی میں ڈاکٹروں کے ایک سیمینار میں شرکت کی تھی۔سمینار کے سوال و جواب سیشن میں ایک سامع نے سوال کیا :اگر کوئی شوگر کا مریض ہے کیا وہ ماہ رمضان میں روزہ رکھ سکتا ہے؟اس سوال کا جواب ایک غیر مسلم ڈاکٹر نے یوں دیا تھا: ہاں ، ایک شوگر کا مریض ماہ رمضان میں روزے رکھ سکتا ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے جو ہدایتیں دی ہیں ان سب ہدایتوں پر عمل کرے : سحری کرے لیکن کم مقدار میں کھانا کھائے، سحری کے بعد‌ فورا” سو نہ جائے بلکہ پیدل مسجد جائے اور نماز فجر جماعت سے ادا کرے ،پورا دن حسب معمول نارمل دن کی طرح گزارے اور ظہر و عصر کی نماز باجماعت ادا کرے،افطار میں بسیار خوری نہ کرے ، افطار میں پھل ، سبزی ، ہائی فائبر فوڈ شامل کرے اور متوازن غذا کا استعمال کرے،مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھے ۔بیس رکعت نماز تراویح مسجد میں باجماعت پڑھے۔اگر کوئی شخص ان سب چیزوں کی پابندی کرے تو وہ اگرچہ شوگر کا مریض ہے ، روزہ رکھ سکتا ہے ۔ان شا ء اللہ ایک ماہ کے روزے کے بعد اس کے مرض میں بہتری آئیگی اور اس کے شوگر کی سطح بھی نارمل ہوتی ہوئی نظر آئیگی۔البتہ تجویز کردہ دوا اسے ترک نہیں کرنا ہے ۔پتہ یہ چلا کہ نماز اور روزے کے دینی فوائد بھی ہیں اور دنیاوی فائدے بھی ۔ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ماہ رمضان کا روزہ ہم خود بھی رکھیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی رکھوائیں، نماز پنجگانہ اور تراویح جماعت کے ساتھ خود بھی ادا کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی تاکید کریں ۔اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

دے رہا ہے مسلموں کو ضابطہ ماہ صیام

نور ایماں اور تقویٰ کی ضیا ماہ صیام

اس کا استقبال کیجیے مومنو ، سنت ہے یہ

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام

رمضان ریزولیوشن–ڈاکٹر محمد رضا المصطفی

1۔ جس طرح گھروں میں مہمانوں کی آمد سے قبل صفائی ستھرائی کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح رمضان المبارک جو اللہ تعالی کا خاص الخاص مہمان مہینہ ہے، اس کی آمد سے پہلے اپنے دل و دماغ کو صاف ستھرا کرلیں ۔دوسرے مسلمانوں کی کدورت، بغض، کینہ اور حسد سے اپنے دل کو صاف کرلیں۔اللہ تعالی سے عفو وبخشش حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے قصور معاف کر دیں ،ان کی خطاؤں کو بخش دیں ۔اپنے دل کو اجلا، صاف ستھرا کرلیں ،تاکہ اس میں رمضان کا نور داخل ہو سکے۔ 2۔رمضان المبارک کی چیک لسٹ بنالیں ۔روزانہ کی بنیادوں پر اس کو چیک کرتے رہیں، کہ آج نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی ،؟تلاوت قرآن کا مقررہ ہدف پورا کیا،؟درود پاک مقرر کردہ پڑھا ؟اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ و خیرات کیا۔؟ مسنون دعائیں مانگیں؟ اپنی زبان نظر اور دیگر اعضاء کی حفاظت کی؟ وغیرہ وغیرہ۔اپنی شخصیت کا ناقدانہ جائزہ لینے سے آپ کے اعمال اور کردار میں سنوار اور نکھار پیدا ہوگا۔3۔ رمضان المبارک کی ہر گھڑی ہر ساعت ہی رحمت برکت سے مالا مال ہے مگر دو اوقات کی خصوصی طور پر حفاظت کریں۔ سحری اور افطاری ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کے لمحات ہوتے ہیں ۔رحمتوں کی برکھا مسلسل برس رہی ہوتی ہے ،ان اوقات کو ٹی وی یا موبائل فون کی سکرینوں کے سامنے ضائع نہ کریں۔بد قسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت ڈیوائسز اور موبائل فون پر بابرکت اور مقدس گھڑیاں ضائع کر دیتی ہیں ۔ان اوقات میں اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں مناجات، دعائیں مانگ کر دنیا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کریں ۔درود شریف کی کثرت کریں۔استغفار ،تسبحیات زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔4. بوقت سحر و افطار آسمانوں کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالی کی رحمت بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے وقت افطار مزدور کو اجرت ملنے کا وقت ہوتا ہے دعاؤں کی قبولیت کی گھڑیوں کو ہم کھانے پینے میں گزار دیتے ہیں، نہ دعاؤں کا ہوش نہ اللہ سے مانگنے کی طلب سارا سال کھاتے پیتے رہتے ہیں کوشش کریں جی بھر کے دعائیں مانگیں۔گھروں میں خواتین اسلام بھی اس وقت صفائی ستھرائی،برتنوں کی دھلائی کو مؤخر کر کے دعاؤں اور مناجات میں مصروف ہو جائیں ۔یہ بابرکت اوقات گزار کر بعد میں اپنے امور خانہ داری سرانجام دے لیں۔5. اپنی دعاؤں کی لسٹ بنا لیں . اپنے لیے اپنے والدین کے لیے ،بیوی بچوں کے لئے، دوست احباب عزیر و اقارب دنیا اور آخرت کے لئے جی بھر کے دعائیں مانگیں آپ کو جو ضرورت تمنا اور حاجت ہے اپنے رب سے کیا شرم؟ جو جو مسئلہ ہے جی بھر کے مانگیں اللہ کی بارگاہ میں آنسو بہائیں ،اپنے مالک و مولیٰ سے چھوٹی سے چھوٹی حاجت اور بڑے سے بڑا سوال کریں ۔کوئی شے نا ممکن ھے تو ھمارے لحاظ سے ہے اللہ تعالی کے لیے کوئی شے ناممکن نہیں۔اور نہ ہی معاذ اللہ اس پر کوئی اور خدا مسلط ہے جو اس کو دینے سے روک دے گا ۔اللہ تبارک و تعالی ایسا کریم ہے، جس سے نہ مانگو تو ناراض ہو جاتا ہے۔6۔مسلمانوں کے اکثریت رمضان المبارک کو کھانے کھابے اور چٹ پٹی، مرغن غذاؤں کا مہینہ بنا کے رکھتی ہے ۔روزہ رکھتے ہیں تو فورا افطاری کو یاد کرکے اس کے کھانے ،لذیذ ڈشوں کی دھن ذہن پر سوار ہوتی ہے، اور افطاری کے بعد سحری کا پروگرام ذہن میں سمایا ہوتا ہے ،کوشش کریں کہ رمضان المبارک میں سادہ غذا کھائیں۔تاکہ نفس کی کی امارگی کا زور ٹوٹے ۔ کھانے کا معیار اور مقدار کم کریں۔ ۔اپنی عبادت کا معیار اور اس کی مقدار کو بڑھائیں ۔7. صوفیہ صافیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک بندہ زیادہ نفل اور دیگر اورادووظائف نہیں پڑھ سکتا ،تو اس کو چاہیے کہ رمضان المبارک میں زیادہ صدقہ و خیرات کرے ۔اپنے آپ کو مشقت اور جبر میں ڈال کر اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرے۔ زیادہ سخاوت کرنے کی کوشش کرے اس سے اس کی روح کو تزکیہ و طہارت کی وہ منازل نصیب ہوں گی جو بڑی بڑی عبادات کا ثمر ہوتی ہیں ۔ 8. جس طرح کمرے کا اے سی چلا ہوا ہو، ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک اسی وقت محسوس ہوتی ہے ،جب تمام کھڑکیاں ،دروازے بند ہو ں، اگر آپ روزے کی لذت اور عبادت کا سرور اپنی روح میں محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اپنی زبان ، نظر ، اور کانوں کی حفاظت کریں ۔سوشل میڈیا کو بالکل محدود یا استعمال ہی مت کریں۔غیر ضروری اور گناہ والے گروپوں سے ریموو ہو جائیں ۔ایسے پیج ان لائک کر دیں جس سے بندہ گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ غیر محرم عورتوں کو دیکھنا عبادت الٰہی کے چراغ کو بجھا دیتا ہے۔اپنے آپ کو جتنا پابند کریں گے انشاء اللہ تعالی عبادت کی اتنی ہی لذت اور برکت محسوس کریں گے۔9. ہمارے گھروں میں ایک بہت برا روا ج ہے کہ ،مہمان کے جانے کے بعد اس کی غیبت اور بدخوئی کرتے ہیں۔اس کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر تبصرے۔ ہم مہمان نوازی اور افطار پارٹی بھی کرتے ہیں، لیکن غیبت اور بدگوئی کر کے اپنی نیکی ضائع بھی کر دیتے ہیں ۔کوشش کریں کہ کسی مسلمان کی بھی غیبت نہ ہو اور بالخصوص مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ان پر تبصرہ نہ نہ کیا جائے اگر ان کا ذکر کرنا ہے تو ان کی خوبیاں بیان کی جائیں ،ان کے عیبوں کی پردہ پوشی کی جائے، شاید اللہ تبارک و تعالی میدان محشر میں ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دے۔9. سحری اور افطاری میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں ان کو مسنون دعائیں سکھائیں ،دعائیں مانگنا سکھائیں، نماز کیلئے مسجد میں لے جائیں ،کھانے کے دسترخوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں ،حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات قرآنی واقعات سنائیں ۔انشاء اللہ تعالی یہ عمل بڑا بابرکت ثابت ہوگا۔10۔مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے، تسبیحات پڑھنے اور قرآن کریم کے زیادہ سے زیادہ ختم پڑھنے میں مشغول ہوتی ہے۔قرآن کریم زیادہ پڑھیں لیکن حسن تلفظ، ترتیل اور تفکر و تدبر کی رعایت کے ساتھ ،نوافل اور ذکر و اذکار بھی دلجمعی اور ذوق و شوق کے ساتھ کریں۔اللہ تبارک و تعالی کو ہماری گنتی کی حاجت نہیں ۔اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں اخلاص و للہیت، نیت کی پاکیزگی اور ذوق شوق اور طلب حق دیکھی جاتی ہے۔11.قرآن پاک کو دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے ایک طریقہ بطور ذکر کے ۔جس میں قرآن کریم کو اللہ تعالی کا ذکر شمار کرتے ہوئے پڑھتے جائیں ۔اس تصور سے پڑھنا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو میرے آقا مصطفی کریم علیہ الصلاۃ و السلام کی زبان اقدس سے ادا ہوئے ہیں۔یہ تصور روح کو لطف دے گا ۔دوسرا طریقہ قرآن کریم کو غور و فکر اور تدبر سے پڑھنا یہ چیز بھی ایمان میں حلاوت و اضافے کا سبب بنتی ہے۔کوشش کریں دونوں طریقوں سے تلاوت قرآن مجید ہو۔اگر جاب یا نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ زیادہ تلاوت ممکن نہیں تو کوشش کریں تلاوت قرآن مجید سن لیں اپنی نوکری جاب پر جاتے ہوئے ہینڈ فری لگا کر قرآن مجید کے ترجمے کو سنتے جائیں اور اس کی برکتوں سے اپنا دامن سمیٹتے جائیں۔12. برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک عجب روش ہے حج اور عمرہ پر جانے کا بڑا ذوق و شوق اور جوش و جذبہ ہوتا ہے بھرپور تیاری کرتے ہیں جب مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں تو ایک عمرہ کے بعد وہاں پر سیروتفریح اور کھانے کھابے ،یاروں دوستوں کے محافل شروع ہو جاتی ہیں سارا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے یہی حال رمضان شریف کا ہوتا ہے لوگ شروع میں بڑی تیاری کرتے ہیں لیکن پہلے دو تین روزے کے رکھنے بعد سارا جوش و جذبہ ختم ہو جاتا ہے، اور سابقہ روٹین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ رمضان المبارک پاک عادات و کردار میں انقلابی تبدیلی لانے کا مہینہ ہے ۔اللہ تعالی کرے کہ ہماری بد عادتیں، نیک خصلتوں میں تبدیل ہو جائیں، اور ہمیں رمضان المبارک کی حقیقی قدر اور برکت نصیب ہو جائے۔13. رمضان المبارک کا آخری عشرہ جو خصوصی انعام و اکرام اور جہنم سے ازادی کا عشرہ ہے یہ عشرہ بھی بازاروں کی شاپنگ کی نذر ہو جاتا ہے ۔کوشش فرمایا کریں کہ رمضان سے پہلے ہی شاپنگ کرلی جائے ،رمضان المبارک میں بازار کم سے کم جایا جائے تاکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں زیادہ سے زیادہ سمیٹی جا سکیں ۔14۔رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کے پورے سال پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جس کا رمضان نیکی ،تقو ی اور باطنی طہارت میں گزرتا ہے، اس کے سال کے باقی گیارہ ماہ بھی خیر اور نیکی کے کاموں میں گزرتے ہیں ۔اور جو بدنصیب اس ماہ مکرم کوگناہوں اور غفلت میں گزارتا ہے سال کے باقی ایام میں بھی عبادت الہی سے محروم رہتا ہے ۔15. غریب دکاندار سے مہنگا سودا خرید لینا،اپنے ماتحت ملازم کو اس کی تنخواہ ذیادہ دے دینا ۔سفید پوش مسلمان کو عید کے لئے جوتے کپڑے لینا ،کسی کا قرض ادا کر دینا کسی کی دلجوئی کر دینا بلاشبہ اعلی درجہ کا صدقہ ہے ۔اپنے ملازمین سے حسن سلوک کرنا اور ان کے کام میں تخفیف کر دینا۔مغفرت دلانے کے اسباب میں سے ہے۔اللہ تعالی ہم کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک مہمان نہیں مہمان ہم ہیں کیونکہ رمضان المبارک نے قیامت تک آتے رہنا ہے مگر ہم کو نہیں پتا کہ اگلے سال ہم زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ بے شمار ایسے لوگ تھے جو پچھلے رمضان میں ہمارے ساتھ تھے، اس سال ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لئے اس رمضان کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر اپنے رب کو راضی کرنے کی انتہائی حد تک کوشش کریں ۔ اللہ تبارک وتعالی ان باتوں پر مجھے اور تمام پڑھنے والوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔یہ ایک حقیر سی کوشش کی گئی ہے رمضان المبارک کو مؤثر اور زیادہ نفع بخش بنانے کی ۔اللہ تعالی میری اس تحریر کو میری آخرت کی نجات کا سبب بنائے ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات۔02-04-2022۔ہفتہ 00923444650892واٹس اپ نمبر

تواضع و انکساری احادیث کی روشنی میں!از:سید نور اللہ شاہ بخاری-

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اورتعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیونکہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔ تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔ تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :حضور اکرم ﷺدین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺکی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺنے فرمایا :تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چنانچہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا ۔ ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺمسجدِنبوی میں تشریف لے گئے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو ، یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺحد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ! تواضع بلندی کا ذریعہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مالدار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)تواضع کی بنیاد:حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو ،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کےبغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔تواضع کی توفیق:حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لئے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)تواضع و انکساری کا اجر:اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم ) اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کےلئے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ ) حضور نبی کریم کی شان ِتواضع :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺاپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺجب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے، اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂاقدس کی صفائی بھی فرماتے ،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶) حضور یہ سارے کام خود اس لئے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔

پیر سید عمر علی شاہ صاحب ترمذی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سرہالی شریف کا تذکرہ ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی کڑیانوالہ گجرات22-03-2022منگل00923444650892واٹس اپ نمبر

۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب 1930ءمیں سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گھر رانیوال سیداں پیدا ہوئے۔اپ مشہور صوفی بزرگ سید میراں یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور نجیب الطریفین سید تھے۔ابھی چار سال کی عمر تھی کہ والد محترم سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرما گئے ۔بچپن سے ہی یتیم ہوگئے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کی والدہ محترمہ مشفقہ نے کی ۔اور آپ کی کفالت آپ کے دادا جان سید حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے کی ۔اسکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔روحانی تعلیم و تربیت کے لیے پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے گجرات کے مشہور بزرگ پیر سید شہنشاہ ولایت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی۔ اور حضرت پیر سید حاجی احمد شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو تمام اوراد و وظائف اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی خلافت سے نوازا۔ معاش کے حصول کے لیے آپ نے محکمہ پولیس میں ملازمت بھی کی۔1952میں آپ محکمہ پولیس میں سولہ روپے تنخواہ پر بھرتی ہوئے، آپ کی ڈیوٹی جیل میں تھی جہاں پر قیدیوں کے لواحقین سے ملاقات کروانی ہوتی تھی ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے اگر میں چاہتا تو اس منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزانہ کے ہزاروں روپے کما سکتا ۔لوگ بڑی سفارشوں سے جیلوں میں ڈیوٹی لگواتے ہیں کہ وہاں پر مال کمانے کے بہت زیادہ مواقع ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے لقمہ حرام سے محفوظ رکھا ساری زندگی حلال کمایا اور اپنے اہل و عیال کو حلال کھلایا۔پولیس کی نوکری میں آپ نماز پنجگانہ کے علاوہ جس شہر میں ڈیوٹی ہوتی وہاں کے مزارات اولیاء کی حاضری کے لیے اہتمام سے جایا کرتے تھے۔۔1975ء کو آپ نے پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا ۔دراصل آپ کی ہمشیرہ صاحبہ بیوہ ہو گئی تھیں ۔ان کی خدمت کے لیے اور آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف میں علم دین کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ نے اپنی نوکری کی قربانی دی ۔حالانکہ پینشن کو ایک سال رہتا تھا آپ نے کوئی پنشن نہ لی۔ اتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کی۔ آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف پر آپ کی خدمات کا دورانیہ 1975 تا 1992 تک ہے ۔1992ء میں آپ اپنے گھر سرہالی شریف تشریف لے آئےپیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے زندگی میں بے شمار حج اور عمرے کیے تھے مگر کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ الحاج وغیرہ لکھوایا آپ اپنے نام کے ساتھ کوئی لقب بھی نہیں لکھواتے تھے ۔اتنے بڑے شیخ طریقت ہونے کے باوجود آپ نے کوئی سیکر ٹری نہیں رکھا ہوا تھا سب سائلین کے فون خود سنتے ۔مہمانوں کو چائے کھانا بھی خود لا کر عطا فرماتے یہ کام کسی خادم اور نوکر سے نہیں کرواتے تھے ۔آپ شب زندہ دار ،تہجد گزار پنجگانہ نماز باجماعت کے پابند،نوافل کی کثرت کرنے والے ذکر و اذکار اور معمولات پابندی سے نبھانے والے تھے ۔تلاوت قرآن پاک پابندی کے ساتھ فرماتے۔۔بڑھاپے کے باوجود رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے ،نماز تراویح باجماعت مسجد میں ادا فرماتے ۔علم دین سے بے حد محبت فرماتے اپنے مریدوں کے بچوں کو علم دین کی ترغیب دلاتے تھے ۔محفل میں موجود علمائے کرام کی عزت و تکریم فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اپ نے اپنے کو خلق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا ،دن ہو یا رات غریب سے غریب بندہ یا کوئی امیر انسان آپ کو بلانے کے لیے حاضر ہو گیا اپ بلا تامل ،بغیر ناز نخرے اس کے ساتھ چل پڑتے کوئی گاڑی لاتا تو گاڑی میں بیٹھ جاتے کوئی رکشہ لاتا تو رکشے میں بیٹھ جاتے کوئی موٹر سائیکل لاتا تو موٹر سائیکل پر سوار ہوجاتے کئی لوگ پیدل آتے تو ان کے ساتھ پیدل ہی چل پڑتے۔پھر کبھی کسی نے کوئی خدمت کی تو اس کو بھی دعا دی کسی نے کچھ نہیں دیا تو اس کو بھی دعائیں دیں ۔آپ کی دعا کا یہ جملہ بڑا مشہور اور ہر زبان زد عام تھا یا اللہ رکھیں شان نال ،ماریں ایمان نال ۔آپ کے اس انداز دل نوازی نے لاکھوں لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا رکھا تھا عام وخواص، امیر وغریب ،چھوٹےو بڑے سب آپ کی محبتوں کے اسیر تھے۔ایک دفعہ راقم الحروف اپنے نھنے منے بیٹے کے ساتھ قبلہ پیر صاحب کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے سب نے کھانا کھا لیا سب دعا کے انتظار میں تھے کہ پیر صاحب دعا فرمائیں تاکہ مجلس برخاست ہو پیر صاحب نے فرمایا یہ بچہ کھانا کھا لے پھر دعا کرتے ہیں ادھر نھنا منا کاکا چھوٹے چھوٹے لقمے لے کر کھانا کھا رہا تھا۔۔کچھ گرا رہا تھا۔۔کچھ کے ساتھ کھیل رہا تھا پیر صاحب نے سختی سے منع کیا کہ بچے کو کوئی کچھ نہ کہے اس کو اپنی مرضی کے مطابق کھاناکھانے دیں الغرض بچے نے جب کھانا ختم کیا تو پھر پیر صاحب نے دعا فرمائی۔۔بچے کے ساتھ شفقت و لطف اور اس کی دل جوئی کا یہ انداز آج بھی دل پر نقش ہے آپ ہمہ وقت باوضو رہتے تھے۔ہمیشیہ سفید لباس پہنتے اور اس کے اوپر عمامہ شریف اس کے اوپر بڑی سفید چادر پہنتے تھے۔اپ سادہ طبعیت اور درویش منش انسان تھے۔طبعیت میں حد درجہ سادگی اور نفاست کا غلبہ تھا۔نخوت و تکبر انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔اپ محفل میں خاموشی سے آکر بیٹھ جاتے ،ہٹو بچو کی صداؤں سے تنفر تھا ،چاہتے تو مریدوں کی فوج ظفر موج اپنے استقبال کے لئے بھیج سکتے جیسا کہ عام چلن ہے مگر ساری زندگی عاجزی و انکساری اختیار فرمائی۔ ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب بے شمار اوصاف و کمالات کا منبع تھے مگر ہمیشہ اپنے آپ کو چھپاتے رہے ۔حب جاہ اور نمود و نمائش سے بچتے رہے۔آپ گوناگوں اوصاف کے حامل انسان تھے۔کچھ کمالات وہبی تھے کچھ کمالات کسبی تھے ۔علو المرتبت پیر ہونے کے باوجود انتہائی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرماتے ۔گندی نالی میں اخبار یا کوئی مقدس کاغذ دیکھتے خود اٹھا لیتے ،زمین پہ روٹی یا رزق پڑا ہوا دیکھ کر بھی خود اٹھا لیتے تھے ۔اپ کی انفرادی خصوصیت آپ کی طویل دعا ہوتی تھی آپ کو سینکڑوں مقدس نام ازبر تھے بشمول انبیاء کرام علیہم السلام ،اہل بیت اطہار علیہم الرضوان ،صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے کاملین رحمہم اللہ اجمعین کے اسمائے گرامی ۔اپ دعا فرماتے ہوئے ان پاکیزہ ہستیوں کے اسماء گرامی بیان فرماتے جاتے ایک رحمتوں کا سائباں تن جاتا ۔۔محفل کا رنگ ہی بدل جاتا اور گھر والوں کی تسکین و فرحت کا ساماں ہوجاتا تھا ۔۔ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں نے پیر صاحب کو تنہائی میں دعا مانگتے دیکھا کہ تنہائی میں کیسی دعا مانگتے ہیں انہوں نے کہا کہ جیسے محفل میں دعا مانگتے تھے ویسے ہی تنہائی میں دعا مانگتے تھے آپ کے ظاہر اور باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا جیسا لوگوں کے سامنے ہوتے تھے ویسے ہی تنہائی میں ہوتے تھے۔ آپ جودوسخا پیکر تھے غریب پرور انسان تھے بے شمار لوگوں کی چپکے سے مدد کر دیتے تھے اور اس کا کبھی بھی اظہار نہیں کرتے تھے دن اور رات کوئی بھی مہمان آتا تو اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ آخرکار علم و حکمت کا یہ نیّر تاباں ،شریعت و طریقت کی کہکشاں پون صدی سے زائد عرصہ اپنی خوشبو ئیں لٹا کر چند روز بستر علالت پہ رہ کر 25 مارچ 2021 جمعرات کو انتقال فرما گئے ۔جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد اپ کی نماز جنازہ علاقے کی تاریخی جنازہ تھی، جس میں علاقہ بھر کے علمائے کرام و مشائخ عظام سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں شریک ہوئے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب ترمذی جو آپ کے اکلوتے لخت جگر ہیں۔ آپ کو اپنے والد محترم کا جانشین و سجادہ نشین مقرر کیا گیا ہے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب اپنے والد محترم کی شخصیت کا پرتو اور عکس ہیں ۔انتہائی کریمانہ اخلاق کے مالک اور علم دوست شخصیت ہیں ۔اپنے والد محترم کی اعلیٰ روایات کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مہمان نوازی ،اصاغر نوازی ،تلطف دوستاں ،تکریم بزرگاں میں اپنی مثال آپ ہیں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مرقد پر اپنی کروڑہا رحمتوں کا نزول فرمائے آپ کی اولاد کو اپنے جد کریم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔23 مارچ بروز بدھ کو آپ کا پہلا عرس مبارک صبح دس بجے تا نماز ظہر سرہالی شریف میں منعقد ہو رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ قبلہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لئے ایک دفعہ فاتحہ شریف پڑھ کر ایصال ثواب کر دیں اور قرب و جوار والے احباب اس بابرکت محفل میں شرکت فرمائیں۔ ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات22-03-2022منگل00923444650892واٹس اپ نمبر

Shabe baraat……By: Sayed khadime Rasul Aini

A night of making fortune is shabe baraat,

The cause of celebration is shabe baraat.

This night was revealed the ayah of the darood,

The time of salutation is shabe baraat.

Prophet was given power of recommendation,

Time of rejuvenation is shabe baraat.

Beg before The Almighty whatever you want,

Night of great invitation is shabe baraat.

Let us go to the masjid and pray together,

A night of congregation is shabe baraat.

Let us meet the people and rebuild the friendship,

Time of reconciliation is shabe baraat.

The Prophet termed this month O Aini as His month,

Great beyond imagination is shabe baraat.

شعبان اور شب برات۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ایک مَثَل مشہور ہے

تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برأت۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو دعاؤں سے نوازتا ہے تو یہ کہتا ہے:تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برات، عید سے مراد عید الفطر یعنی شوال کی پہلی تاریخ ہے اور شب برآت سے مراد پندرہویں شعبان المعظم کی رات۔ شوال کی پہلی تاریخ عید کے طور پر اس لیے منائی جاتی ہے کہ مسلمان رمضان کے تیس روزے مکمل کرتا ہے اور تکمیل روزہ کی خوشی میں وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور مسرت سے سرشار ہوکر شوال کی پہلی تاریخ کو وہ عید مناتا ہے۔

تو پھر شب برات کس خوشی میں منائی جاتی ہے ؟ ہر رات شب برات جیسی ہو ، یہ دعا کیوں دی جاتی ہے؟ آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاریخ اپنی قوم اور دیگر اقوام میں کیوں اہمیت رکھتی ہے۔پندرہ شعبان کو فارس کے لوگ خوشیاں مناتے آئے ہیں اور اسے وہ جشن مھر کا نام دیتے ہیں اور اس جشن میں وہ اپنے یزتھا مترا کی تعظیم بجالاتے ہیں ۔اہل تشیع پندرہویں شعبان میں خوشیاں اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق پندرہ شعبان ٢٥٦ ہجری کو بارھویں امام محمد بن الحسن المھدی پیدا ہوئے تھے۔اور ہر گھر میں اس رات امام محمد الحسن المھدی کے نام فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔یہ منظر ہم نے دبئی میں دیکھا تھا کیونکہ ہمارے کچھ کسٹومرز اہل تشیع تھے جو اپنے گھروں میں بہت دھوم دھام سے یوم ولادت امام محمد الحسن المھدی کے طور پر پندرھویں شعبان کی خوشیاں مناتے تھے۔لیکن ہم اہل سنت کے لیے کون سی خوشی کی بات ہے کہ ہم اس قدر اہتمام سے شب برات مناتے ہیں۔ غسل کرتے ہیں ۔خوشبو لگاتے ہیں، نئے کپڑے/ صاف ستھرے پہنتے ہیں، ، رات میں مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اور رات بھر مسجدوں میں خدا کی عبادات کرتے ہیں ۔ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ہم زندگی ایسی گزاریں کہ آخرت میں خدا و رسول کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ نہ ہوں ۔اگر مسلمان شریعت مطہرہ کے بتائےہوئے ہوئے طریقوں پر چلے تو اس کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی۔لیکن مسلمان آخر ایک انسان ہی تو ہے ، ایک بشر ہی تو ہے۔انسان کے اندر جہاں نفس مطمئنہ و نفس لوامہ ہیں وہیں نفس امارہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غلطیاں کر بیٹھتا ہے ۔ان غلطیوں کی مغفرت کیسے ہو؟ ان غلطیوں کی معافی کی راہ ہموار کیسے ہو ؟ کیا کوئی راستہ ہے جس سے انسان کی غلطیاں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے سے پہلے معاف ہوجائیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔خدا غفور الرحیم ہے، خدا کریم ہے،خدا غفار ہے ، خدا رحمان ہے۔خدا قادر مطلق ہے ۔ وہ جب چاہے ہماری توبہ قبول فرمالے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اللہ کا ہم پر بے پایاں احسان ہے کہ رب کریم نے کچھ خاص راتیں مقرر کی ہیں جن میں خصوصی رحمت باری کا نزول ہوتا ہے ۔ان راتوں میں اگر مسلمان اخلاص کے ساتھ توبہ و استغفار کرے تو خدا مسلمان پر خصوصی کرم فرماتے ہوئے معاف فرمادیتا ہے۔ انھی راتوں میں سے ایک رات ہے جس کا نام ہے شب برات یعنی پندرہویں شعبان کی رات۔ چونکہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں اور گناہ کی معافی ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ باعث مسرت و شادمانی ، وجہ کیف و سرور ہوتی ہے ، اس لیے مسلمان اس رات کو خوشیاں مناتا ہے کہ شب برات گناہ بخشوانے کی رات ہے ، شب برات مغفرت کی رات ہے ،شب برات رحمتوں کے نزول ہونے کی رات ہے ۔شب برات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے کے بارے میں رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان میرا مہینہ ہے۔جس مہینے کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا مہینہ کہیں اس مہینے کی عظمت کا کیا کہنا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کو اپنا مہینہ کیوں فرمایا؟ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے :١.شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اختیار شفاعت عطا فرمایا ۔٢.شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دلی خواہش کی تکمیل رب کریم نے فرمائی یعنی تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کے عوض کعبہء معظمہ بن گیا ۔ ٣.شعبان میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔شب برات وہ رات ہے جس کو فرشتوں کے لیے عید سے تعبیر کیا گیا ۔شب برآت اسلامی تاریخ کی اہم ترین رات ہے۔شب برأت جود و عطا کی رات ہے شب برأت اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی تھیشب برات وہ رات ہے جس رات کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔ شب برات برکتوں والی رات ہے شب برات دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات ہے شب برات دستاویز والی رات ہے شب برأت اللہ تعالیٰ کی رحمت ‌خاصہ کے نزول کی رات ہے شب برأت وہ رات ہے جس کا نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا کیونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں شب برات وہ رات ہے جس رات میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔شب برأت وہ رات ہے جس میں دعا رد نہیں ہوتی بلکہ قبول ہوتی ہے ۔شب برأت تقدیس والی رات ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برآتجس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح ماہ شعبان تمام مہینوں سے افضل ہے ۔لہذا ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ماہ شعبان میں خصوصاً پندرہویں شعبان میں روزے رکھیں اور پندرہویں شعبان کی رات میں رب کی عبادت کریں ، نبی پر درود بھیجنے کا اہتمام کریں اور خوب توبہ و استغفار کریں ۔ابو نصر نے اپنے والد سے نقل کی ہے جو انھوں نے بالاسناد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے والے اور بدکار عورت کے سوا تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے۔لہذا اگر ہمیں شب ‌برات کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی بخشش کا سامان کریں ۔الحمد لللہ ہم مسلمان ہیں ، شرک نہیں کرتے ۔آپس میں اگر دل کے اندر بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں تو بغض و کینہ کو دل سے نکال دیں ، رشتہ داروں سے اگر قطع تعلق ہے تو رشتہ داری کو استوار/ بحال کریں ، اگر کوئی شخص رشتہ داری کو استوار/ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے نہ روکیں ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔حقوق العباد کا خیال رکھیں ، کسی کا دل نہ توڑیں ، کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں ، کسی کی زمین کو ناجائز طور پر ہڑپنے کی کوشش نہ کریں ، دل کو صاف و شفاف رکھیں اور دل سے حسد،بغض ، کینہ ، عناد کے کیڑے مکوڑوں کو نکال کر باہر پھینک دیں ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سےتم پر کرےگی ہر گھڑی نصرت شب برآت شب برأت میں مسجد کو آباد کریں ، قرآن کی تلاوت کریں ، درود کا ورد کریں ۔نفل نمازوں کا اہتمام کریں ، لیکن یہ نہ بھولیں کہ آپ کو عشاء اور فجر کی نمازیں جو فرض ہیں انھیں بھی ادا کرنی ہیں اور باجماعت ادا کرنی ہیں ۔ایسا ہر گز نہ کریں کہ رات بھر نفل پڑھیں اور فجر کی نماز کے وقت سوجائیں۔مستحبات کو فرض پر ترجیح نہ دیں ۔پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا ہر حال میں ضروری ہے ۔سفر ہو کہ حضر، گھر ہو کہ باہر ، حالت امن ہو یا حالت مصیبت، ہر حال میں ایک مسلمان کو پنج وقتہ نمازوں کا قائم کرنا ضروری ہے۔صحابہء کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں، صحابہء کرام کے دور کو یاد کریں ۔صحابہء کرام دوران جنگ بھی فرض نمازوں کا اہتمام کرتے تھے ۔قرآن کا مطالعہ کریں ۔قرآن میں ہے :اور اے محبوب جب تم ان میں تشریف فرماہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہیے کہ تم میں ایک جماعت تمھارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمہارے مقتدی ہوں اور چاہیے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہوجاؤ تو ایک دفعہ تم پر جھک پڑیں اور تم پر مضائقہ نہیں مینھ کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی پناہ لیے رہو بیشک اللہ نے کافروں کے لئے خواری کا عذاب تیار کر رکھا ہے پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے پھر جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر حسب دستور نماز قائم کرو بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ مندرجہ بالا ترجمہء آیت قرآن میں نماز خوف کا بیان ہے۔جہاد میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے مع تمام اصحاب کے نماز ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انھیں افسوس ہوا انھوں نے اس وقت کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا جب بعضوں نے ان سے کہا اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نماز عصر جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری طاقت سے حملہ کرکے انھیں قتل کردو اس وقت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور انھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ یہ نماز خوف ہے اور اللہ عز و جل فرماتا ہے واذا کنت فیھم ۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ایک ان میں سے آپ کے ساتھ رہے آپ انھیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں قائم رہے ۔نماز خوف کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ پہلی جماعت امام کے ساتھ ایک رکعت پوری کرکے دشمن کے مقابل جائے اور دوسری جماعت جو دشمن کے مقابل کھڑی تھی وہ آکر امام کے ساتھ دوسرے رکعت پڑھے فقط امام سلام پھیرے اور پہلی جماعت آکر دوسری رکعت بغیر قرآت کے پڑھے اور سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابل چلی جائے پھر دوسری جماعت اپنی جگہ آکر ایک رکعت جو باقی رہی تھی اس کو قرآت کے ساتھ پورا کرکے سلام پھیرے ۔حالت خوف میں دشمن کے مقابل اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کس قدر ضروری ہے ۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان شب معراج یا شب برآت کا روزہ رکھے اور رمضان کے فرض روزے ترک کردے؟ اگر ایسا کوئی کرے تو کیا وہ گنہگار نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی شب معراج یا شب برآت میں نفل نمازیں ادا کرے مگر عشاء اور فجر کی نماز چھوڑ دے یا فرض نمازیں جماعت سے نہ پڑھے تو وہ بھی گنہگار ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،ماہ شعبان و شب برآت کی قدر کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ، شب برآت میں عبادت کے لیے قیام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شعبان کے پندرہویں دن میں روزہ رکھنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

तंज़ीम फारग़ीन -ए- अमजदिया ने की हिजाब फैसले की निंदा__ रिपोर्ट _आसिफ जमील अमजदी

__तंज़ीम फारग़ीन-ए- अमजदिया 2010 के उलेमा ने हिजाब मामले में कर्नाटक उच्च न्यायालय के फैसले पर प्रतिक्रिया व्यक्त की और निर्णय को खेदजनक बताया कि यह पूरी तरह से इस्लाम के खिलाफ है और यह इस्लामी शिक्षाओं और शरयी नियमों में हस्तक्षेप है जो हमें स्वीकार्य नहीं है . ऐसे में हमें कानूनी विशेषज्ञों और बड़ों के प्रयासों का इंतजार है जो इस मामले में कोर्ट का दरवाजा जरूर खटखटाएंगे. क्योंकि अगर ऐसा नहीं किया गया और फैसले पर खामोश रहे तो इसके कई नकारात्मक प्रभाव पड़ सकते हैं, खासकर मुस्लिम लड़कियों की शिक्षा पर. फैसला सुनाने से पहले सरकार को यह विचार करना चाहिए कि सभी धर्मों के छात्रों के लिए शिक्षण संस्थानों में उनके धार्मिक प्रतीकों के साथ अध्ययन करने की प्रथा रही है, लेकिन हमेशा की तरह, मुसलमानों को अभी भी निशाना बनाया जा रहा है। इस संगठन के एक युवा सक्रिय धार्मिक विद्वान हज़रत मौलाना आसिफ जमील अमजदी गोंडवी ने अपने बयान में कहा कि निर्णय आने की देरी थी सो हमने कर्नाटक उच्च न्यायालय को भी देखा लिया। मुस्लिम छात्र-छात्राएं नाराज न हों। धैर्य रखें, अपनी परीक्षा ऑनलाइन लें यदि संभव हो तो ,यह बहुत महत्वपूर्ण है। अदालत के इस फैसले के आधार पर बदमाशों के लिए समाज में अशांति फैलाना संभव है, इसलिए मुस्लिम छात्राओं को बहुत समझदारी से काम लेने की जरूरत है, ऐसे में कभी भी भावुक न हों.

حجاب فیصلہ پر تنظیم فارغین امجدیہ کا اظہار مذمت_ رپورٹ :- آصف جمیل امجدی

حجاب معاملہ میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تنظیم فارغین امجدیہ 2010؁ء کے علماۓ کرام نے رد عمل ظاہر کیا اور اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے علماء نے اپنا ایک بیان رلیز کیا کہ عدالت کا یہ فیصلہ دستور ہند کے دفعہ 15/ کے سراسر خلاف ہے اور یہ اسلامی تعلیمات نیز شرعی احکام میں مداخلت ہے جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں انتظار ہے ماہرین قانون اور عمائدین کی کوششوں کا کہ وہ اس معاملہ میں ضرور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا بل فیصلہ پر چپی سادھے رہے تو اس کے کئی منفی اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں بالخصوص مسلم بچیوں کی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔ فیصلہ سے قبل حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کا یہ رواج رہا ہے کہ بلاتفریق مذہب کے طلبہ و طالبات ادارے میں اپنی مذہبی علامتوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی مسلمانوں کو نشان زد پر لیا گیا۔تنظیم ھذا کے متحرک فعال نوجوان عالم دین حضرت مولانا آصف جمیل امجدی گونڈوی نے اپنے بیان میں کہا کہ فیصلہ آنے کی دیری تھی سو وہ بھی ہم نے کرناٹک کے ہائی کورٹ کو دیکھ لیا، لہذا اس سے مسلم طلبہ و طالبات مشتعل نہ ہوں بل کہ صبر سے کام لیں، آن لائن ممکن ہو سکے تو اپنا امتحان دیں یہ بہت ضروری ہے۔ کورٹ کے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر ممکن ہے کہ شر پسند کی طرف سے سماج میں بدامنی پھیلائی جاۓ ، لہذا مسلم طالبات کو ایسی صورت میں بہت ہی دانشمندی اور مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہے، جذباتی ہرگز نہ بنیں۔

کشمیر فائلس: مسلم نسل کشی کی بھیانک تیاری…..مشتاق نوری ۱۶؍مارچ ۲۰۲۲ء

. 😢😢😢

کل ایک پرنٹ اخبار سو توپ کے برابر تھا۔آج ایک الیکٹرانک میڈیا ہاوس ہزار توپ کے برابر ہے۔اور جب میڈیا فرقہ واریت کا قائل ہو تب تو یہ توپ سے آگے نکل کر کسی جان لیوا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔تب انصاف و رواداری تیل بیچنے نکل جاتا ہے۔وہاں صرف طاقتور خیمے کا متعصبانہ ایجنڈہ ہی حق ہوتا ہے۔تب کورٹ قانون سب لولہے لنگڑے بنے رہنے میں بھلائی خیال کرتا ہے۔باقی کمزور طبقے کا دکھ درد سب ڈھکوسلا یا ڈھونگ کہلاتا ہے۔یہ کام میڈیا کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔یہ میڈیا بھی نا بڑا پاور فل ہوتا ہے راتوں رات ہیرو کو ویلن، ظالم کو مظلوم اور فرقہ پرست کو روادار بنا دیتا ہے۔کچھ یہی حال اہل کشمیر کا ہوا۔جو اب تک مظلوم ہیں جن کی آواز تک دبا دی گئی ہے۔جن پر طویل عرصے تک لاک ڈاؤن مسلط رکھا گیا۔ایک فلم کے ذریعے انہیں دنیا کے سامنے دہشت گرد،ظالم، کٹر پنتھ، علیحدگی پسند بنا کر پیش کر دیا گیا۔سب جرم میری ذات سے منسوب ہے محسن کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارےکشمیر فائلس کو ایک ایک فرد تک پہنچانے کے لیے اس وقت ملک کا ہر ہندو خود میں میڈیا ہاؤس بنا ہوا ہے۔بہار کے ایک یوٹیوبر نے اپنے خرچے سے ۲۵ سو لوگوں کو فلم دکھانے کا اعلان کیا ہے اور ٹکٹیں بک کروا چکا ہے۔اس فلم کو واشنگٹن ڈی سی میں دکھایا گیا۔کئی دوسرے ملکوں میں دکھاۓ جانے کے قواعد چل رہے ہیں۔انوپم کھیر ویڈیو جاری کر کے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو راشٹر بھکت ہوگا جو اصلی ہندو ہوگا وہ ضرور اس فلم کو دیکھے گا۔ایسے میں کون ظالم اپنی راشٹر بھکتی یا ہندوتو کو خطرے میں ڈالے گا۔مسلم سماج کے خیر خواہ اب تک صرف اسی غم میں مبتلا رہے کہ ہندووں نے کئی سینائیں، کئی طرح کے تشدد آمادہ دل بنا لیے ہیں۔کرنی سینا، رام سینا،شیو سینا، بجرنگ دل، ہندو رکشا دل، وغیرہ ملک میں اس طرح کے قریب قریب چھوٹے بڑے ۳۰ ہزار گروپ کام پر لگے ہیں جن کا اصل مقصد ہی ہے دنگا بھڑکانا، اقلیتی طبقے کو نشانہ بنانا۔ہر ایک کا لنک بجرنگ دل سے ملتا ہے اور بجرنگ دل آر ایس ایس کا ٹرینڈ لڑاکو دستہ ہے جس میں ہر شعبے کے لوگ جڑے ہوۓ ہیں۔ہم یہ بھول ہی گئے کہ یہ ۲۱ ویں صدی ہے اب گولی، بارود و بم سے جنگ نہیں لڑی جائے گی اس برقی دور میں ڈیجیٹل وار سے اپنے دشمنوں کو گھات لگا کر مات دیا جاۓ گا۔یہ کشمیر فائلس تو آج آئی ہے۔ورنہ بالی ووڈ میں ہزاروں ایسی فلمیں بن چکی ہیں جس میں ہمیں ہر بار اتنکوادی اور ظالم دکھایا گیا ہے۔جس فلم میں بھی اس طرح کا کردار پلے کیا جاتا ہے اسے ڈراونا بنانے، مسلم سماج کے تئیں نفرت برپا کرنے کے لیے ویلن کو کرتا پاجامہ پہنا کر اس کے کندھوں پر سلیقے سے عربی رومال بھی ڈال دیا جاتا ہے۔یہیں تک نہیں رکتے بلکہ جب بھی کسی اتنکوادی کردار کو دکھانا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح بھی تھما دی جاتی ہے۔وہ اللہ اکبر اللہ اکبر بھی کہتا رہتا ہے۔یہ حال صرف بالی ووڈ کا نہیں بلکہ جنوبی ہند کے مختلف صوبوں میں بنی فلموں سے لے کر بھوجپوری فلموں تک یہی کچھ دکھایا جاتا رہا ہے۔آج سے لگ بھگ دس ماہ قبل فیسبک چلاتے ہوئے نرہوا کی کسی فلم کی ۹ منٹ کی ایک ویڈیو کلپ سامنے چلنے لگی۔اس میں ویلن کرتا پا جامہ، کندھے پر عربی رومال اور ہاتھ میں تسبیح لے کر ایک ہندو فیملی کے گھر پر دھاوا بول دیتا ہے۔ویلن کا چھوٹا بھائی یہ کہتے ہوۓ ہندو لڑکی کا بلاتکار کر دیتا ہے چل تجھے جنت بھیج دیتا ہوں۔قسم خدا کی میں نے اسی وقت اس کلپ کے کمینٹس چیک کیے تو دماغ کو زور کا جھٹکا لگا کہ اس میں سارے کمینٹ کرنے والے کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو مسلم عورتوں کو بھدی بھدی گالیاں دے چکے تھے۔دس منٹ کے ویڈیو کلپ کے ویوز اس وقت 4.5 ملین تھا یعنی صرف فیسبک کے اس پیج پر اس ویڈیو کو تقریبا ۴۵ لاکھ لوگ دیکھ کر مسلمانوں کے تئیں اپنے دل میں نفرت کی آگ مزید بھڑکا چکے تھے۔غالبا ۲۰۰۳ میں طالبان نام کی ایک فلم آئی تھی جس میں طالبانیوں کو صرف دہشت گرد نہیں دکھایا گیا ہے بلکہ انہیں عورت کا دشمن، جاہل، گنوار اور عیاش دکھایا گیا ہے۔اس فلم کو دیکھ کر کوئی بھی ہندو طالبان سے شدید نفرت کرے گایہ صرف ایک مووی کی بات نہیں ہے۔ایسی ہزاروں موویز آ چکی ہیں جس میں دین و شریعت کی کھِلی اڑائی گئی ہے۔دین کو دہشت گردی کا اڈہ دکھایا گیا ہے۔مسلم سماج کو سیدھے ظالم و جابر دکھایا گیا ہے۔اکثر فلموں میں چکلہ یعنی رنڈی خانہ چلانے والا کسی مسلم کو دکھایا جاتا ہے۔اس سے سماج پر کتنا برا اثر پڑا ہے ہم تو سیریس لیتے ہی نہیں۔فلمی دنیا نے ہمیں چکلہ چلانے والا باور کرا دیا کہ سارے قحبہ خانے ہم ہی چلاتے ہیں۔اور ہمارے نوجوان دیکھ کر خوش ہیں۔کشمیر فائلس آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا اہم ستون ہے۔آپ محسوس کر رہے ہیں؟ آج سارا میڈیا دن رات کشمیر فائلس پر ہی پروگرام کر رہا ہے۔مطلب وہ اپنے ٹارگٹ کی طرف تیزی بڑھ رہے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے جو کام میڈیا یا آر ایس ایس کے ہرکارے نہیں کر پاۓ تھے کشمیر فائلس نے ایک رات میں سب کر دیا۔سارے ہندو جذباتی ہو کر فلم دیکھنے ہال تک جاتے ہیں اور روتے ہوۓ نکل رہے ہیں۔کوئی نکلتے ہی اپنا غصہ ظاہر کرنے لگتا ہے۔ابھی ایک ویڈیو دیکھا اس میں کشمیر فائلس دیکھنے کے بعد ایک آدمی سارے ہندو نوجوانوں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کو کاٹنے کی اپیل کرتا ہے۔اور جذباتی ہو کر یہ بھی کہتا ہے کہ میں بیس کو کاٹوں گا۔کشمیر فائلس سے آر ایس ایس کا پلان بالکل کامیاب ہوتا دکھ رہا ہے۔۲۰۲۴ میں پھر مودی کی سرکار بن رہی ہے۔اس کا معنی مخالف، رام راج کا راستہ کلیئر ہونے کو ہے۔اس فلم سے آنے والے وقتوں میں ہندو مسلم کھائی مزید گہراتی چلی جاۓ گی۔ہندو لڑکے اور نفرتی بن جائیں گے۔ماب لنچنگ کی واردات بڑھ جاۓ گی۔ورنہ اس فلم کے اس قدر ہنگامہ خیز پروموشن کا مقصد ہی کیا ہے؟اس فلم کا منفی اثر جو کبھی مالی کبھی بدنی تو کبھی سماجی ضیاع کو بڑھاوا دے گا۔اقلیت کے خلاف تشدد و نفرت کو لوگ اپنا دھرم سدھ ادھیکار (مذہب کا دیا گیا حق) سمجھیں گے۔اس کی چپیٹ میں سب سے زیادہ کشمیر کے وہ طلبہ، وینڈرس،پھیری والے تجار ہوں گے جو ملک کے مختلف قریات و امصار میں رہ رہے ہیں۔ان کو زد و کوب ہی نہیں ان کا گلہ کاٹ کر لوگ کہیں گے کہ سنودھان کی رکشا کے لیے، لا اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کے لیے ان کی لنچنگ ضروری تھی۔کشمیری پنڈتوں جو کشمیر کی پتھریلی زمین پر کاشت کاری کرکے گزر بسر کر رہے تھے۔پہلے سے ہر فیملی کو دس ہزار روپے، مہینہ بھر کا راشن اور کم سے کم ایک آدمی کو نوکری دے دی گئی ہے اب انہیں مزید ہمدردیاں ملیں گی۔پیسے بھی برسیں گے۔دوسرا وہ طبقہ جس پر اس فلم کی نحوست پڑنے والی ہے۔وہ ہے کرتا پا جامہ والے مولوی برادری کے لوگ جو ملک کے ٗ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔یہ بات میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ اس فلم کی ایک سین میں دکھایا گیا ہے کہ پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے کے لیے مسجدوں کے منبروں سے امام لوگ اعلان کر رہے ہیں۔فلم میکر یہیں پر نہیں رکے، اس نے تو ہندو جذبات کو مزید بھڑکانے کے لیے یہ بھی بڑھا دیا ہے کہ ہر مسجد کا امام اعلان میں کہ رہا ہے کہ “سارے ہندو اپنی اپنی جوان لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جائیں یہ ہماری گزارش نہیں، حکم ہے”پوری فلم نہ بھی دکھائی جاۓ، صرف تیس سیکنڈ کی چھوٹی سی یہی کلپ دکھا دی جاۓ تب بھی اتنی آگ لگ جاۓ گی جتنی لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بدترین جملے سے کس کے جذبات نہیں بھڑکیں گے؟ کس کو طیش نہیں آۓ گا؟ کون ہوگا جو مسجد کے امام کا یہ اعلان سنے گا اور آج علما و طلبہ سے سخت ترین نفرت نہیں کرے گا؟آخر ظلم کا یہ تسلسل کہاں جا کر ٹوٹے گا؟اور خون کتنا بہے گا؟ساحر لدھیانوی کے لفظوں میںظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہےخون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گااگر مان بھی لیں کہ کشمیریوں نے پنڈتوں کی نسل کشی کی اور انہیں وہاں سے بھگا دیا تاہم یہ بات کبھی قابل قبول نہیں کہ مسجدوں سے یہ اعلان کیا گیا تھا “کہ اپنی اپنی لڑکیوں کو ہمارے لیے چھوڑ کر نکل جاو”۔ایک خراب سے خراب ترین مسلمان بھی یہ کام نہیں کرے گا۔مگر نفرت کے پجاریوں نے فلم میں وہ سارا مسالہ ڈال دیا ہے جس سے ہندو سماج برافروختہ ہو جاۓ۔طیش میں آکر بدلہ لینے کے لیے مسلم گھروں میں گھس کر خواتین کی آبرو سے کھیلے۔ہم آپ سوچتے رہیں گے مگر فلم جس کام کے لیے بنائی گئی تھی اس میں وہ ۱۱۰ فیصد کامیاب ہے۔آج مودی کا اپنا سارا بھاشن اسی فلم پر رہا ہے۔اس نے زور دے کر کہا کہ ایسی فلمیں بار بار بننی چاہیے۔انوپم کھیر کی لوٹری لگ گئی اب ہر ہندو اس فلم کو سنیماگھروں میں جاکر بڑے پردے پر دیکھ رہا ہے۔اس سے اس کی کمائی بھی ہوئی۔ہندوؤں کا ہیرو بھی بن گیا۔اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کا خواب بھی پورا ہونے کو ہے۔جب کشمیر فائلس بن گئی تو اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے کہاوت ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ کشمیر فائلس کا مقابلہ گجرات فائلس، بھاگل پور فائلس،ہاشم پورا فائلس،میرٹھ فائلس بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔اس فلم کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ستم کہیے کہ مسلم سماج کسی طرح کی بھی فائلس بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔جب یہ کرناٹکا میں حجاب معاملے میں مات کھا گیا تو اتنے بڑے معاملے کو ہینڈل کرنا اس کے بس میں نہیں۔جانے کب سے سارے اسکولس کالجوں میں سرسوتی پوجا کا آیوجن کیا جاتا رہا ہے۔اگر اس گرم توے پر روٹی سیکنی ہو تو ملک بھر کے تھانوں کچہریوں میں اس پوجا کے خلاف پی آئی ایل داخل کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے کیا نہیں۔کشمیر فائلس کے کتنے پنے کھلے، کتنے جان بوجھ کر چھپاۓ گئے۔کتنے پنے سے نظریں چرائی گئیں اس کا فیصلہ تو اب ملک کی عدالت میں بھی نہیں ہو سکتا۔اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا