WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

نعت پاکِ مصطفیٰ ﷺ غیر منقوط (صنعتِ مہملہ) رشحاتِ قلم، محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی


☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گھُٹ رہا ہے دم مسلسل گرمیِ آلام سے
دو سکوں اہلِ الم کو سردیِ اکرام سے

ہاں وہاں ہم کو عطا ہوگی مئے رحم و کرم
واسطہ ہم کو کہاں ہے وادیِ اوہام سے

ہم کو حاصل ہے حصارِ “سَلّمِ” مولاے کل
سو ارم کی راہ ہوگی ہم سے طے آرام سے

ہادیِ کل کی عطاؤں کا سراسر ہے کمال
ہے معطر سارا عالم وردۂ اسلام سے

لمحہ لمحہ مدح گوئیِ محمد کی مہک
آئے اے مولاے عالم! آہوے احرام سے

مہرِ گردوں کی دمک کو واسطہ کس طور ہو
مدحِ ممدوحِ امم کے مطلعِ الہام سے

در دلِ مداح ہے اک اہرمِ مہرِ رسول
حال اس کا اور ہی ہے مصر کے اہرام سے

کر گئے مردِ دلاور کارِ صمصامِ دو دم
مالکِ کل کے کرم سے، ڈال کی صمصام سے

اسمِ احمد کو مدارِ طائرِ ارواح کر
گھوم اسی کے گِرد آ کے سرحدِ اعلام سے

کر سحَر گاہِ ورَع اعمال کی ہر کوٹھڑی
ہو کے محکومِ الہی لولوے احکام سے

حصہ داری سے ہوئے سر معرکے امکاں سے دور
کام کوئی ہے ہوا ؟ ہٹ کے حدِ اِسہام سے


نوری اک امرِ مسلم، روحِ گل کی ہار، ہے
سرورِ ہر دو سرا کے کاکلِ کاللام سے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رشحاتِ قلم
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۷ / ذو القعدہ ۱۴۴۳ ہجری
۲۸ / جون ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش علیہ الرحمہ خانقاہ رشیدیہ کے دینی افکار و خیالات کے مظہر۔از۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریليز (مہراج گنج)خانقاہ رشیدیہ ہندوستان کی قدیم روحانی اور عملی خانقاہ ہے ۔ یہاں کے مشائخ نے اپنے علمی و دعوتی دونوں حیثیتوں کو ثابت کیا،اور ان دونوں میدانوں میں بےلوث خدمات انجام دیں ۔اس سلسلے کے مشائخ نے اعتقادی’ فقہی اور سوانحی کتابیں بھی لکھی ہیں۔انہیں مشائخ کرام میں ایک نابغئہ روزگار ‘ صاحب تصوف شخصیت سید شاہ مصطفیٰ علی شہید سبز پوش علیہ الرحمہ کی ہے’جو سیدشاہ شاہد علی سبز پوش رحمہ اللہ کے بیٹےو جانشیں اور خانقاہ رشیدیہ کے نویں سجادہ نشیں تھے۔مدرسہ صولتیہ مکئہ معظمہ کےسند یافتہ عالم ‘صوفی گر وعارف ساز بزرگ تھے۔مذکورہ تاریخی خیالات کا اظہار معروف ماہر اسلامیات مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ظاہری وباطنی علوم سے فراغت کے بعد حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش نے بہار کے ضلع چمپارن کو اپنی علمی واعتقادی تحریک و تبلیغ کے لئے منتخب فرمایااور غیروں کے زور باطل کا طلسم اپنےزبردست دعوت و تبلیغ سے پاش پاش کردیا ۔جس سےہزاروں بندگان خداکو ہدایات کی لازوال دولت نصیب ہوئ اور خلق خداحضرت کی شرعی رہنمائ سے نہال اور خوش حال ہوگئ۔
بالآخر خانقاہ رشیدیہ کے افکارو خیالات کے یہ مظہر ۱۸ /ذوقعدہ سن ۱۳۷۸ ھجری مطابق ۱۱ /جولائ سن ۱۹۵۸ کو شہر گورکھ پور کےاندر شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہوکر واصل بہ حق ہوئے ۔جون پور رشیدآباد میں مدفون ہوئے۔مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا۔ اس سلسلہ کے مشائخ کی علمی اور روحانی حیثیتوں کو ملک العلما ء علامہ ظفرالدین بہاری اور افضل العلما مفتی قاضی سمیر الدین احمد رشیدی علیہما الرحمہ جیسی عبقری شخصیات نے بھی تسلیم کیا، اور ان کے ادبی اورشعری شہ پاروں کو دیکھ کر غالب اور ناسخ جیسے فن کاران شعر و سخن نے رشک کیا ہے۔خود بانئ خانقاہ رشیدیہ شیخ محمد رشید علیہ الرحمہ نےفن مناظرہ کی مشہور کتاب “شریفیہ” کی ”مناظرہ رشیدیہ “کےنام سے جو شرح کی ہےوہ آج تمام مدارس اسلامیہ میں داخل نصاب ہے۔گنج رشیدی’گنج ارشدی ‘گنج فیاضی’کرامات فیاضی ‘ مناقب العارفین ‘سمات الاخیار’ عین المعارف اور دیوان فانی جیسی کتابیں لائق مطالعہ ہیں ۔آج بھی اس سلسلہ کی خانقاہیں اور روحانی مراکز مرجع خلائق ہیں
اللہ سے دعاء ہے کہ حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی شہید علیہ الرحمہ کے بتائےہوئے راستے پر ہمیں گامزن رکھے۔ آپ علیہ الرحمہ اور دیگر بزرگان دین کے فیوض وبرکات سے مالامال فرماۓ

جمہوری ملک میں یوگی حکومت کا طریقہ جابرانہ اور ملک کو شرمسار کردینے جیسا ہے، ازقلم : شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضویصدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاءپوجانگر ، میراروڈ ممبئی

ازقلم : شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی

جس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نام دیاجاتاہے وہ ملک ہمارا بھارت ہے ، مختلف قبائل و مذاہب کے لوگ مختلف تہذیب و ثقافت ، الگ الگ زبانوں میں گفتتگو کرنے کے باوجود گنگا جمنی تہذیب کے لئے دنیا میں ہمارا ملک ابتک اپنا وقار بحال کیا ہوا تھا ، لیکن جب سے بی ، جے پی پارٹی اقتدار میں آئی ہے جیسے ملک کو کسی کی نظر بد لگ گئی ہو ۔ ملک کا ہر شعبہ تعصب کا شکار ہے ، قانون کی بالادستی جیسے ختم ہوچکی ہو ، جسے مرضی ہوئی ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بناکر شری رام کا نعرہ لگاتے ہوۓ قتل کردیا ، جب جی چاہا تخریبی بیان کے ذریعہ ملک کا امن و امان چھین لیا ، اگر دوسری کمیونٹی کی طرف سے ذرا ردعمل سامنے آیا کہ پولیس گولیوں سے لااینڈ آڈر کو بحال کرنے میں لگ گئی ، ادھر یوگی حکومت ہے کہ بلڈوژر سے نشان زد کرکے اپنے حریف کا آشیانہ تباہ و برباد کردیا ، خود ساختہ بابا کو کیا پتہ کہ آشیانہ بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں جسے آپ چند منٹوں میں زمیں بوس کردیتے ہو ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو وہ یقینا بہت قریب ہے ، اس کی گرفت بہت سخت ہے کہیں تمہیں غریبوں کی آہیں جلاکر بھسم نہ کردیں ، حکومت کب اور کس کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے ، تخت پر آج تم براجمان ہو تو کل کوئی اور ۔ حکومت کرنے کا جو طریقہ یوگی نے اپنا یا ہے اس کے وہ خود بھی بہت جلد شکار ہوں گے ، بس چند دنوں کی بات ہے ، پارٹی بدلی کہ تمام آڈر بے معنیٰ ہوکر رہ جائیں گے ، یہ ابلیسی احکام اسی وقت تک جاری ہوتے رہیں گے جبتک ملک کے نوجوان فریب میں مبتلا ہیں جہاں فریب کا چشمہ اترا کہ اس جابر حکومت کو پناہ لینا بھی مشکل ہوجاۓ گا ، حکومتیں جبھی رہتی ہیں جب انصاف زندہ ہوتا ہے ، غیر منصف حکومتیں چند دنوں میں ہی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔
ملک کا ایک بڑا طبقہ یوگی حکومت کی اس جابرانہ پالیسی سے خفا ہے ، جمہوری ملک میں اس طرح کا شاہی فرمان کسی طرح روا نہیں ، کاروائیوں کے نام پر ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ، ان کے برسوں محنت سے بنائے گئے آشیانہ کو بلڈوژر سے مسمار کردینا ، پولیس کو پرامن احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلانے کا حکم صادر کرنا ، پولیس کی گرفت میں آئے نوجوانوں کو پولیس چوکی میں زدوکوب کرنا یہ سب ایک کمزور حکومت کی پہچان ہے ، ان حرکتوں پر ملک کی عدلیہ کو سخت رخ اختیار کرنا ہوگا ، ورنہ یادرکھیں آنے والی نسلیں ہمیں اور آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ آج دنیا میں بی ، جےپی پارٹی کے ورکرژ اور نیتاؤں کے بیان سے ملک جس طرح شرمسار ہوا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اس لئے ملک کے تمام مذاہب کے نوجوانوں ، مذہبی و سیاسی قائدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک جمہوریت سے آمریت کی طرف تو نہیں جارہی ہے ؟ اگر واقعی آمریت کا بول بالا ہورہاہے تو ہمیں ہرحال میں یکجہتی کا نمونہ پیش کرنا ہوگا ، ظالم حکمراں کا خاتمہ ہمارا مذہبی و جمہوری حق ہے ، گورنمنٹ کی ان تمام غلط پالیسیوں کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی ورنہ کل اس غلط پالیسی کے شکار ہم بھی ہوسکتے ہیں ۔ ملک کے انصاف پسند وکلاء کو سپریم کورٹ میں بلڈوژر کے غیر آئینی استعمال پر قدغن لگانے کے لئے پٹیشن داخل کرنے ہوں گے۔
بیرون ممالک ملک کی شبیہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے ممالک ہمارے نوجوانوں کے لئےاپنے ملک میں انٹری بند کردیں یہ کہہ کر کہ یہ اس ملک کے نوجوان ہیں جہاں مذہبی تشدد کی بنیاد پر انسانی جانیں روا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی اچھی شبیہ کے لئے ہماری مرکزی گورنمنٹ کو چاہئیے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مساویانہ کردار ادا کریں تاکہ ملک میں جو آمریت کا ماحول ہے اس کا خاتمہ یقینی ہو ۔
ترسیل فکر: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی سیتامڑھی بہار
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی
بدھ / 14/ذی القعدہ 1443ھ
15/ جون / 2022 ء

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔

جامعہ اشرفیہ میں بنا نوٹس دئیے کیے گیے تشدد کا ہم سخت مذمت کرتے ہیں – ۔آصف جمیل امجدی

برصغیر ہندو پاک کے اہل سنت کا مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ جو کہ مبارک پور کی سرزمین پر واقع ہے اور پچھلے کئی دہائیوں سے دین و سنیت کا بے لوث خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماء دنیا بھر میں دین و سنیت کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کئ ہزار کی تعداد میں بیرونی و غیر بیرونی ملکی طلبہ قیام و طعام کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن رمضان شریف کے چلتے سارے طلبہ اور مدرسین نیز دگر ذمہ داران چھٹی میں گھر پر ہیں۔ ایسی صورت حال میں یوگی حکومت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بنا کوئی نوٹس دئیے اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ منہدم کرنے والا بلڈوزر بھیج دیا۔ حکومت کے اس روئیے سے ہم بے حد مخالف ہیں اور سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ حکومت کا یہ ناپاک رویہ اس بار اسمبلی الیکشن جیتے ہی شروع ہوگیا ہے۔ مسلم دشمنی کا کھیل تو آزادئ ہند سے ہی کھیلا جارہا ہے لیکن مودی اور یوگی راج میں اس کی لپٹ مزید تیز دکھائی دے رہی ہے۔حکومت کا دوغلاپن دیکھو، کہنے کو تو ویسے ہم جمہوری ملک میں بسے ہیں جہاں بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ملک کے تعلیم یافتہ دانشوران نے بلا تفریق مذہب و ملت کے سر جوڑ کر جمہوری قانون بنایا گیا تھا جس میں سر فہرست اس قانون کا بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا کہ کان کھول کر سن لو یہاں پر ہر دھرم و مذہب کے لوگ جیسے پہلے سے رہتے چلے آۓ ہیں ویسے رہیں گے اور سب لوگ اپنے اپنے مذہب کے قانون کو فالو کریں گے اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی تشدد نہیں کیا جاۓ گا اور نہ ہی کسی مذہبی عمارت جیسے مسجد، مندر، گرجا گھر، گرودوارہ اور کلیسا وغیرہ وغیرہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچایا جائے گا کیوں کہ اس ملک کی آزادی میں سب کا خون شامل ہے سبھی مذاہب کے لوگوں نے اس کی آزادی میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا ہے۔ لہذا اب جب ملک آزاد ہوگیا ہے تو سب لوگ اپنے اپنے مذہب پر رہتے ہوے بھائی چارہ بنا کر رہو کسی قسم کی آپسی بھید و بھاؤ نہیں رکھنا ہے۔ تاکہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں ایک نمایاں مقام بنا سکے نیزسیلوکر اور جمہوری ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ممتاز شان و شوکت کے ساتھ ابھرے۔ اب اگر تم لوگ آپس میں لڑوگے تو ملک تباہ و بربادی کی عمیق کھائی میں چلا جاۓ گا۔المختصر: پچھلے 70/سال قبل اس ملک کی تباہ و بربادی کے رموز بتاۓ گیےتھے کہ اگر تم آپس میں لڑے یا تم سب لوگ مل کر کسی ایک قوم و کمیونٹی کو تشدد کا نشانہ بناۓ تو ملک قطعی ترقی نہیں کرپاۓ گا۔ سواۓ تباہ و بربادی کے بدنما داغ لگنے کے اور کچھ ہاتھ نہ آۓ گا۔ اور آج وہی ہو رہا ہے ایک خاص کمیونٹی کوتشدد کا نشانہ بنا جارہا ہے، مذہبی عمارتوں پر بنا کسی اصول و ضوابط کے بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ غریب مسلمانوں کے گھر بار کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔تو ظاہر سی بات ہے ملک برباد ہونے کے سوا ترقی تھوڑی کرے گا۔

ماہ رمضان میں روزوں کے ایام کا تعین روایت ودرایت کے موافق۔۔ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی- استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،مہراج گنج،یوپی

۔ اسلامی اعمال واحکام میں ایام کا تعین چاند سے ،اور اوقات کاتقرر سورج کے اعتبا رسے ہوتا ہے ،ایام وشھور شرعا قمری لحاظ سےمتعین ہوتے ہیں،شب معراج،شب قدر،ایام بیض،یوم عاشورا،ایام عیدین اور ایام حج چاند سے تعین پانے کی صورتیں ہیں،اسی طرح فرض روزے کے دنوں کی تعئین کہ یہ پہلا روزہ،یہ اکیسواں روزہ،یہ ستائیسواں روزہ،یہ انتیسواں روزہ ہے،یہ سب بحساب قمری ماہ ، رمضان کے اعتبار سےہیں،ایام حج کی تقدیر بھی قمری ماہ ذی الحجہ کے حساب سے طے ہوتی ہے ۔اور یوں زباں زد خلائق ہوتے ہیں ،آج یوم الترویہ،آج یوم الحج اورآج یوم الاضحی ہے وغیر ذالک۔۔۔لیکن ۔جب ہمارا ذہن تعئین اوقات کی طرف مبذول ہوتاہےتو ان میں شمس یعنی سورج کا شرعا اعتبار کرتاہے۔ہم نمازوں کےاوقات کا قیام سورج کی گردش سے متعلق کر تے ہیں،فجر ،ظہر ،عصر ،مغرب،عشا اور دیگرنوافل جیسے اوقات سے موسوم کرتے ہوۓ انہیں گردش شمس کا نتیجہ تصور کرتے ہیں،آفتاب کی گردش کا دورانیہ کم ہو جاۓ تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے،چنانچہ ہماری روز مرہ کی نمازیں سورج کے اعتبا ر سے ہیں۔یوں ہی رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہےیہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے آغاز صوم ،اور غروب آفتاب پر اس کا اختتام ہوتا ہے،اسی طرح حج کے اعمال میں بھی اوقات کا علآقہ سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے ،مزدلفہ کب جانا ہے،عرفات سے کب لوٹنا ہے وغیرہ؟ عام طور پر یہ خیال فکر انسانی میں رچا بساہےکہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے ،یہ خیال صحیح نہیں،چاند کا اعتبار دنوں کے تعین میں ہے ،مگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں ہماری روش گردش شمس کے مطابق ہے ،اس لحاظ سےہمارے عبادات شمس وقمر دونوں سےیکساں متعلق ہیں۔تاہم قمری سال شمسی سال سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے،تقریبا دس دن کا فرق ہے،مفسرین کی بیان کردہ حکمتو ں میں سے ایک یہ ہےکہ قمری مہینہ ہر تینتیس سال میں ایک چکر مکمل کر لیتاہے ،یعنی تینتیس سال میں چار موسم( دنیا میں جہاں بھی چار موسم وقوع پذیرہوتے ہیں)کی گردش پوری کرلیتا ہے ،اگر ایک مسلمان بلوغیت کے مراحل سے گزرکرمزید تیںتیس سال کی اور زندگی پالےتو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ کر رضاۓ الہی کا حقدار بن جاۓگا،اسے سردو گرم ،اور چھوٹے،درمیانےولمبےسب ایام کے روزے رکھنےکے مواقع میسر ہو نگے،حج کابھی یہی معاملہ ہے،حج بھی تینتیس سال میں مختلف موسم کی گردش پوری کرتاہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ فقہا فرماتے ہیں” زکوۃ کا حساب قمری سال کے مطابق کرنا چاہئے،اور ایسا کرنا شرعا ضروری ہے،ورنہ اگرہم شمسی سال کےاعتبار سےزکوۃکا حساب کریں گےتوتینتیس سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ادا ہوگی ،ہماری زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں(جنوری اورفروری وغیرہ)کے حساب سےچلتے ہیں،اب اگر کوئ اپنی سالانہ زکوۃ بھی اسی حساب سے دیتاہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے ،اس حساب سےایک سال زکوۃ ادا ہونے سےرہ جاۓگی۔ آج اگر کوئ شریعت کو طبیعت کے موافق بنانے کی خواہش رکھے اورایک ماہ کے فرض روزے کوقمری سال کے ماہ رمضان کی جگہ شمسی سال کے فروری ماہ میں متعین کرنے کی علما سے گزارش کرے تو علما بیک زبان اس کی اس اپیل کو رد کر دیں گےکہ یہ عقل ونقل اور روایت ودرایت کے خلاف ہے،اس لۓکہ” ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دیۓ گۓہیں”جعل اللہ صیامہ فریضۃ، فر ما کر آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ” رمضان کے مہینہ کےروزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے”لہذا مروی حدیث کے الفاظ سےیہ عیاں ہو گیا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں ،خواہ وہ شمسی ماہ کے جون ،جولائ اور اگست میں ہو ،جو نہایت سخت ایام والےماہ ہیں۔یا ۔جنوری وفروری میں جو سرد وراحت رساں ہیں،عقل ودرایت بھی اسی کی رہنمائ کرتی ہے کہ اگر فروری ماہ کا تعین فرض روزو ں کے لۓ کیا جاتا توروزے رکھنے والوں کو سال کے دیگر موسم سے لطف اندوز ہونے موقع نہیں ملتا جو یک گونہ حرما ں نصیبی ہوتی۔مفسرین کی تفسیر کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کےروزے تھے ان کا رمضان بھی ساراسال گھومتا تھا،ان کے لۓ بھی جولائ اور اگست کے روزے تکلیف دہ تھے،انہوں نے اپنے علما کے سامنے کسی اچھے موسم میں روزے متعین کرنے کی تجویز پیش کی،اس تجویز پر بنی اسرائیلی علما نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتےہیں کہ وہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کریں۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑ بڑ کر رہے ہیں ،اس لۓ تیس روزے تو پورے رکھیں گے،لیکن ساتھ ہی دس روزےکفارے کےبھی رکھیں گے،چنانچہ یہ مذہبی عیسائ چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل ماہ کےپہلے عشرے کے دوران کسی اتوار کو یہ قرار دیتے ہیں گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ،یعنی تیس روزے مکمل اور ساتھ دس روزے کفارے کے بھی۔ تفسیری روایات پر ہماری نظر مرکوز رہے تو یہ امر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی فرض روزے کا مہینہ قمری یعنی رمضان ہی تھا ،وہ بھی سال کے سارے موسم کادور کر لیتا تھا انہوں نے اپنی سہولت کے لۓ اس میں ردو بدل کیا،لیکن اسلام نے سابقہ حیثیت بحال کردی کہ فرض روزے قمری ماہ رمضان ہی میں ادا کۓ جائیں گے اور سارے موسم میں اس کی گردش جاری رہےگی اور روزہ دار تمام موسم کی تکلیف وراحت کا احساس کرتے ہوۓ روزہ رکھ کر رضاۓ خداوندی کے متلاشی بنیں گے،رات میں نیندسے جاگنے کے بعد رات کا باقی حصہ جو ابتداءاسلام میں روزےکاجزو تھا،اب اس کا دورانیہ کم کرکےمکمل رات روزے سے خارج کردی گئ ،اور فر مان خداوندی(روزے کو رات تک پورے کرو)امت محمدیہ کےلۓ سایئہ رحمت بن کر آئ ، رات کو کھانے پینے کی اجازت مرحمت ہوئ،اور فکر انسانی نے یہ باور کرلیا کہ طلوع فجر صادق سے روزہ شروع ہوگااور غروب آفتاب تک رہےگا تا قیام قیامت اس میں کسی قسم تبدیلی اور ردو بدل کی گذارش کی راہیں مسدود رہیں گی،اسلام نے روزے کے نظام میں یہ دوبڑی اصلاحات کی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو شریعت مصطفویہ کے نظام پر قائم ودائم رکھے اور رمضان کی سعادتوں وبرکتوں سے بہرہ ور فرماۓ۔آمین

کم سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا،

سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا……گھر کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچی کی لمبی عمر کی دعا کی!ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ [جسے “جہنم سے آزادی” کا عشرہ کہا گیا ہے] چل رہا ہے، احادیث کی روشنی میں اس عشرہ کے عبادت وریاضت کی بہت ہی فضیلت ہے- الحمدللّٰہ! القادری کیپ کے مالک حضرت مولانا اعجاز احمد قادری کی کم سن بھتیجی عزیزہ ام حبیبہ خان بنت جناب ریاض احمد خان سینانگر سیوڑی،ویسٹ ممبئ مہاراشٹر [ساکن:دھنوری،بڑھنی،سدھارتھ نگر] جو ابھی صرف 7 سال کی ہے اس نے آج مسلسل 20 واں روزہ مکمل کیا، مزید آخری عشرہ کے مابقیہ مکمل روزے رکھنے اور اس میں خوب خوب عبادت وتلاوت کے لیے پر عزم بھی ہے-اس کم سن بچی کے مسلسل روزہ رکھنے پر اس کے رشتہ داروں، اور آس پاس کے لوگوں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ اس کو دعاؤں سے نوازا-اور اہل خانہ بالخصوص بچی کے والدین کو مبارکباد پیش کی-خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے مبارکباد پیش کی، جناب امراللّٰہ خان،جناب امتیازاحمد خان اور سراج احمد خان- اللّٰہ تعالیٰ اس بچی کو طویل زندگی بخشے اور عمدہ واحسن تعلیم وتربیت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے اور والدین کےلیے ذریعۂ نجات ومغفرت بنائے-قارئین سے گذارش ہے کہ اس کم سن بچی کی بہترین مستقبل اور عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی دعا کریں،اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو بلاعذرشرعی روزہ نہیں رکھتے اور کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں اور بلاخوف الٰہی دھڑلے کے ساتھ اسلامی شعار کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ اس کم سن خوش قسمت بچی ام حبیبہ کی روزہ داری سے عبرت حاصل کریں-

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

اگر ددورانِ حمل بچہ پیٹ میں مرجائے، تو کیا صفائی کرانے کے بعد آنے والا خون نفاس کا ہوگا؟

السلام علیکم
کسی بہن کا 5 مہینے کا حمل ضائع ہو گیا ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچہ کافی دن پہلے ہی مرچکا تھا
عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی
جب سونوگرافی(sonography) کرایا تو پتہ چلا
ڈاکٹر نے فوراً صفائی کی، اب سوال یہ ہے کہ صفائی کے بعد عورت آ رہا ہے تو وہ کب تک ناپاک رہے گی؟
یعنی اس خون کو حیض کا سمجھے یا نفاس کا؟
9 دن خون جاری رہا بیچ میں تین دن بند ہوا پھر شروع ہو گیا بس قطرہ ہی ہے،
مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں،
(f,z.noori
👆👇

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور  اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے  تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، رد المحتار میں ہے: نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)․․․ والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت۔لہذ ا جب جب پانچ ماہ ہونے کے بعد یہ منظر پیش آیا ہے تو وہ خون نفاس ہے,
۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف, 6 /رمضان المبار بروز جمعہ ۔1443

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443