WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

نیا سال گناہوں کا اانبار..تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیسے ہی پہلے مہینے کی پہلی تاریخ آتی ہے ہم جہاں ایک پرانے سال کو رخصت کر رہے ہوتے ہیں وہیں ایک نئے سال میں بھی قدم رنجہ ہوتے ہیں_ماضی میں نئے سال کی آمد پر مبارکبادی دینایا جشن منانے کاکوئی خاص تصور نہ تھا ،لیکن دور جدید میں یہ رجحان بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور جنگل میں آگ کی طرح مارڈن ذہنیت کے مالک افراد کو اپنی چپیٹ میں لے رہا ہے ،اسلامی نقطۂ نظر سے تونئے سال کی آمد پر خوشیاں منانا یا مبارکبادی دینا جائز ہے، کیوں کہ اس کے متعلق شریعت میں کوئی حکم امتناع صادر نہیں ہوا ہے لہذا جس چیز کی شریعت میں ممانعت نہ ہو وہ مطلقاً مباح اور جائز ہے ،
لیکن فی زمانہ نئے سال کی آمد پر جو مبارکبادی دینے اور جشن منانے کا جو رواج بد نہاد راہ پا چکا ہے یہ قطعاً جائز نہیں ہے ، بلکہ حرام اور سخت حرام ہے، کیونکہ ایسے موقعوں پر جشن اور خوشی کے نام پر گناہوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے،
31 دسمبر کی رات جیسے ہی گھڑی میں 12:00بجتے ہیں توہر چہار جانب شوروغوغا،ہنگامہ میوزک ،گانا اور چیخ و پکار سے پورا علاقہ گونج اٹھتا ہے ،پھر سب کے سب ناچ گانے ،شراب نوشی اور مذاق مستی میں منہمک ہو جاتے ہیں ،اسی موقع پر جشن کے بہانے اجنبی لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں اور پارکوں میں Haapy new year کہنے کے لیے ملتے ہیں، پھر بے حیائیوں کی کی تمام تر حدوں کو توڑ کر بدکاریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں طرح طرح کے گناہ خوشی خوشی انجام دئیے جاتے بے حیائی کی حدیں پار کی جاتی ہیں عورتوں کی عصمتیں تارتار کی جاتی ہیں
شعر:-ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں
رہ رہ کے سیکڑوں باتوں کا خیال آتاہے
یہ سب کام پہلے یہود و نصارٰی، اور دیگر مذاہب کے لوگ کیا کرتے تھے لیکن افسوس!کہ آہستہ آہستہ مسلمان بھی اور خاص کراسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں انجام دینے نےلگے ہیں۔

مسلمانوں سے ایک سوال ہے کہ کیا ایسی خوشی بھی کوئی خوشی ہے جو اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی اور جہنم میں لے جانے والی ہو؟
مسلمانوں کو تو چاہیئے کہ پچھلے سال کا محاسبہ کر کے اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور آئندہ سال گناہوں کو ترک کرنے اور نیکی کرنے کا عزم مصمم کریں،اور اچھی اچھی دعائیں کریں، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے،نیے سال کے آنے کی خوشی میں اس طرح مشغول ہو جاتے ہیں کہ یہ بات بھول ہی جاتے ہیں کہ ایک سال ہماری زندگی کا کم ہوگیا، اب ہمیں نیکیاں کر کے آخرت کی تیاری کر لینی چاہیئے

شعر:-
دیوار زندگی سے ایک اور اینٹ گر گئی
نادان کہ رہاہے نیا سال مبارک

مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کی سازش سے بھرے ہوئے رسومات کو اپنا لیا، جبکہ ان میں نقصان وخسارہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، مسلمانوں کا تو نیا سال محرم الحرام ہے ،لیکن افسوس !کہ بہت سے مسلمان اسلامی نئے سال سے
آشنا بھی نہیں
اللہ عزوجل ہم سب کو امسال خوب خوب نیکیاں کر کے اپنے رب کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

میری آنکھوں میں ہے طیبہ کا نظارا باقی
جو فنا ہو نہ سکے ایسا ہے جلوہ باقی

دیکھتے ہی در ضوبار شہ عالم کا
دید جنت کی رہی پھر نہ تمنا باقی

رحمت دوجہاں آئے تو کھلا امن کا باب
اب نہ ہے شور کہیں اور نہ ہے غوغا باقی

بزم ایقاں کے شہنشاہ سے ہے ربط مرا
دل میں اب ذرہ برابر نہیں کھٹکا باقی

حسرت دید نبی ہو نہیں پائی پوری
ہے تمنا کا مگر خواب سہانا باقی

اہل بیت شہ کونین کی صورت اب بھی
بزم عالم میں ہے آقا کا اجالا باقی

سود سے بچتے رہو اور قناعت میں جیؤ
قبل از موت رکھو کچھ بھی نہ سودا باقی

ان کی جب یاد رہے درد کا درماں عینی
کیوں رہے دل میں مرے فکر مداوا باقی ؟
۔‌‌۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

معاملات میں سچائی اکل حلال اورحقوق العباد کی اہمیت وو فضیلت. ✒ از: محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

معاملات میں سچائی اور ایمان داری کی تعلیم بھی اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے، قرآن سے اور رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی مسلمان وہی ہے جو اپنے معاملات میں اور کاروبارمیں سچا اور ایمان دارہو،عہد کا پکا اور وعدہ کا سچاہو
یعنی دھوکہ دہی و فریب سے دور اور امانت میں خیانت نہ کرتا ہو،کسی کاحق نہ مارتا ہو،ناپ تول میں کمی نہ کرتا ہو،جھوٹے مقدمے نہ لڑتا ہو اور نہ جھوٹی گواہی دیتا ہو،سود اور رشوت جیسی تمام حرام کمائیوں سے بچتاہو اور جس میں یہ برائیاں موجود ہوں قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خالص مومن اور اصلی مسلمان نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا منافق ہے اور سخت درجہ کا فاسق ہے،اللہ تعالی ہم سب کو ان تمام بری باتوں سے بچائے، اس بارے میں قرآن وحدیث میں جو سخت تاکیدیں آئی ہیں ان میں سے چند ہم یہاں درج کرتے ہیں،قرآن شریف کی مختصر سی آیت ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء:۲۹)۔
اے ایمان والو!تم کسی غلط اورناجائز طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھاؤ۔
اس آیت نے کمائی کے ان تمام طریقوں کو مسلمانوں کے لیے حرام کردیا ہے جو غلط اور باطل ہیں جیسے دھوکہ، فریب کی تجارت ،امانت میں خیانت ،جوا،سٹہ اورسود،رشوت وغیرہ،پھر دوسری آیتوں میں الگ الگ تفصیل بھی کی گئی ہے،مثلا جودکانداراورسوداگرناپ تول میں دھوکہ بازی اوربے ایمانی کرتے ہیں ان کے متعلق خصوصیت سے ارشاد ہے
وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْن الَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْاعَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَوَاِذَاکَالُوْہُمْ اَوْوَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ اَلَا یَظُنُّ اُولئِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المطففین:۱۔۶)۔
ان کم دینے والوں کے لیے بڑی تباہی (اور بڑاعذاب ہے) جو دوسرے لوگوں سے جب ناپ کرلیتے ہیں تو پورالیتے ہیں اور جب دوسروں کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو کم دیتے ہیں کیا ان کو یہ خیال نہیں ہے کہ وہ ایک بہت بڑے دن اٹھائے جائیں گے جس دن کہ سارے لوگ جزا وسزا کے لیے رب العالمین کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

دوسروں کے حق اوردوسروں کی امانتیں اداکرنے کے لیے خاص طور سے حکم ملاہے

اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا (النساء:۵۸)۔

اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ جن لوگوں کی جو امانتیں (اورجوحق) تم پر ہوں وہ ان کو ٹھیک ٹھیک اداکرو۔

اور قرآن شریف ہی میں دو جگہ اصلی مسلمانوں کی یہ صفت اورپہچان بتلائی گئی ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ (المؤمنون:۸)۔
وہ جو امانتوں کے اداکرنے والے اور وعدوں کا پاس رکھنے والے ہیں۔

اورحدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے اکثر خطبوں اوروعظوں میں فرمایا کرتے تھے کہ “یادرکھو،جس میں امانت کا وصف نہیں، اس میں ایمان بھی نہیں اور جس کو اپنے عہد اور وعدے کا پاس نہیں، اس کا دین میں کچھ حصہ نہیں” (مسند احمد،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ،)۔

ایک اور حدیث میں ہے حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں:جھوٹ بولنا،امانت میں خیانت کرنااوروعدہ پورا نہ کرنا (بخاری،باب علامۃ المنافق،)۔

تجارت اورسوداگری میں دھوکا و فریب کرنے والوں کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا جودھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں (مسند احمد،مسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ،)۔

جودھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں اور مکر وفریب دوزخ میں لے جانے والی چیز ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،عن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ،)۔

یہ بات حضور نبی رحمت ﷺ نے اس وقت ارشاد فرمائی جب کہ ایک دفعہ مدینے کے بازار میں آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ بیچنے کے لیے اس نے غلے کا ڈھیر لگارکھا ہے لیکن اوپر سوکھا غلہ ڈال رکھا ہے اور اندر کچھ تری ہے اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ:ایسے دھوکا باز ہماری جماعت سے خارج ہیں۔

لہٰذا جودکان دار گاہکوں کو مال کا اچھا نمونہ دکھائیں اور جو عیب ہو اس کو ظاہر نہ کریں توحضور کی اس حدیث کے مطابق وہ سچے مسلمانوں میں سے نہیں ہیں اورخدا نہ کرے وہ دوزخ میں جانے والے ہیں-

ایک اور حدیث میں ہے سرکارمدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو کوئی ایسی چیز کسی کے ہاتھ بیچے جس میں کوئی عیب اورخرابی ہو اور گاہک پر وہ اس کو ظاہر نہ کرے ،تو ایسا آدمی ہمیشہ اللہ کے غضب میں گرفتار رہے گا(اور ایک روایت میں ہے) کہ ہمیشہ اس پر اللہ کے فرشتے لعنت کرتےرہیں گے۔ (ابن ماجہ،باب من باع عیبا فلیبینہ ،)۔

بہرحال اسلامی تعلیم کی رو سے تجارت اور کاروبار میں ہر قسم کی دغابازی اور جعلسازی حرام اور لعنتی کام ہے اور رسول اللہﷺ نے ایسا کرنے والوں سے اپنی بے تعلقی کا اعلان واظہار
فرمایا ہے اور ان کو اپنی جماعت سے خارج بتایا ہے۔

اسی طرح سود اور رشوت کا لین دین بھی(اگرچہ دونوں طرف کی رضا مندی سے ہو)قطعا حرام ہے اور ان کے لینے دینے والوں پر حدیثوں میں صاف صاف لعنت آئی ہے،سود کے متعلق تو مشہور حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کی لعنت ہوسود کے لینے والے پر اور دینے والے پر اور سودی دستاویز لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر (نسائی،جز:۵،)۔

اور اسی طرح رشوت کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی رشوت کے لینے والے پر اور دینے والے پر (ترمذی،باب ماجاء فی الراشی والمرتشی،)۔

ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی آدمی کے لیے کسی معاملے میں(جائز) سفارش کی،پھر اس آدمی نے اس سفارش کرنے والے کو کوئی تحفہ دیا اور اس نے یہ تحفہ قبول کرلیا تو وہ سود کی ایک بڑی خراب قسم کے گناہ کا مرتکب ہوا۔ (ابو داؤد،باب فی الھدیۃ لقضاء الحاجۃ،)۔

بہرحال رشوت اورسود کا لین دین اور تجارت میں دھوکا بازی اوربے ایمانی اسلام میں یہ سب یکساں طورپرحرام ہیں اور ان سب سے بڑھ کر حرام یہ ہے کہ جھوٹی مقدمہ بازی کے ذریعہ یا محض جبراً[زبردستی] کسی دوسرے کی کسی چیز پر ناجائز قبضہ کرلیا جائے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جس شخص نے کسی کی زمین کے کچھ بھی حصے پر ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اس زمین کی وجہ سے(اور اس کی سزامیں)زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا” (بخاری،اثم من ظلم شیئا من الارض،)۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جس شخص نے (حاکم کے سامنے)جھوٹی قسم کھاکر کسی مسلمان کی کسی چیز کوناجائز طریقے سے حاصل کرلیا تو اللہ نے اس کے لیے دوزخ کی آگ واجب کردی اورجنت اس کے لیے حرام کردی ہے ،یہ سن کر کسی شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ کوئی معمولی ہی چیز ہو؟تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:ہاں اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین،)۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک مقدمہ باز کو آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
دیکھو !جو شخص جھوٹی قسم کھاکر کسی دوسرے کا کوئی بھی مال ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا وہ قیامت میں اللہ کے سامنے کوڑھی ہوکر پیش ہوگا (ابو داؤد، باب فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ،)۔

ایک اورحدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کسی نے کسی ایسی چیز پردعویٰ کیاجو حقیقت میں اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہییے کہ دوزخ میں اپنی جگہ بنالے (مسلم،بَاب بَيَانِ حَالِ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَم،)۔

اورجھوٹی گواہی کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز سے فارغ ہوکر کھڑے ہوگئے اور آپ نے ایک خاص انداز میں تین دفعہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کردی گئی ہے۔ (ابو داؤو،باب شہادۃ الزور،)۔

حرام مال کی نجاست اورنحوست: مال حاصل کرنے کے جن ناجائز اورحرام ذریعوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہےان کے ذریعے جومال بھی حاصل ہوگا وہ حرام اورناپاک ہوگااور جوشخص اس کو اپنے کھانے پہننے میں استعمال کرے گا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی نمازیں قبول نہ ہوں گی،دعائیں قبول نہ ہوں گی ،حتی کہ اگر وہ اس سے کوئی نیک کام کرے گا تو وہ بھی اللہ کے یہاں قبول نہ ہوگا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں سے وہ محروم رہے گا-
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جوشخص(کسی ناجائز طریقے سے)کوئی حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے صدقہ کرے گا تواس کا یہ صدقہ قبول نہ ہوگا اور اس میں سے جو کچھ (اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں میں)خرچ کرےگا اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر اس کو ترکہ میں چھوڑ کر مرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہوگا-
یقین کرو کہ اللہ تعالی بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا (یعنی حرام مال صدقہ اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ نہیں بن سکتا) بلکہ بدی کونیکی سے مٹاتا ہے کوئی ناپاکی دوسری ناپاکی کو ختم کرکے اس کو پاک نہیں کر سکتی (مسند احمد ، مسند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،)۔

ایک دوسری حدیث میں ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی خودپاک ہے اور وہ پاک اورحلال مال ہی کو قبول کرتا ہے، پھر آخرحدیث میں آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکرفرمایا،جودور دراز کا سفرکرکے (کسی خاص متبرک مقام پر دعاکرنے کے لیے) اس حال میں آئے کہ اس کے بال پراگندہ ہوں اور سر سے پاؤں تک وہ غبار میں اٹا ہواہواور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھااٹھاکے وہ خوب الحاح کے ساتھ دعا کرے اور کہے ،اے میرے رب !اے میرے رب! اے میرے پروردگار!لیکن اس کا کھانا پینا مال حرام سے ہو اور اس کا لباس بھی حرام ہو اورحرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہو تو اس حالت میں اس کی یہ دعاکیوں کر قبول ہوگی؟ (مسلم،باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب،)۔
مطلب یہ ہے کہ جب کھانا پہننا سب حرام مال سے ہو تو دعاکی قبولیت کا کوئی استحقاق نہیں رہتا ،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگرکوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدےاور ان دس میں سے ایک درہم حرام ذریعے سے آیا ہواہو تو جب تک وہ کپڑا جسم پر رہےگا اس شخص کی کوئی نماز بھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہوگی (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،)۔
ایک اورحدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو جسم حرام مال سے پلاہو،وہ جنت میں نہ جاسکے گا (مسند احمد،مسند جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ،)۔

قارئین کرام ! اگرہمارے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو رسول اللہ ﷺ
کے ان ارشادات کے سننے اور پڑھنےکے بعد ہم کو قطعی طورسے طے کرلینا چاہییے کہ خواہ ہمیں دنیا میں کیسی ہی تنگ دستی اور تکلیف سے گزارا کرنا پڑے ہم کسی ناجائز اور حرام ذریعہ سے کبھی کوئی پیسہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور بس حلال آمدنی ہی پر قناعت کریں گے-

پاک کمائی اورایمان دارانہ کاروبار: اسلام میں جس طرح کمائی کے ناجائز طریقوں کو حرام اور ان سے حاصل ہونے والے مال کو خبیث اور ناپاک قراردیا گیا ہے اسی طرح حلال طریقوں سے روزی حاصل کرنے اور ایمانداری کے ساتھ تجارت اورکاروبار کرنے کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
حلال کمائی کی تلاش بھی دین کے مقررہ فرائض کے بعد ایک فریضہ ہی ہے (بیہقی،الستون من شعب الایمان،)۔

ایک دوسری حدیث میں اپنی محنت سے روزی کمانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ کسی نے اپنی روزی اس سے بہتر طریقے سے حاصل نہیں کی کہ خود اپنے دست وبازو سے اس کے لیے اس نے کام کیا ہو، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا طریقہ یہی تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کچھ کام کرکے اپنی روزی حاصل کرتےتھے۔ (بخاری،کسب الرجل وعملہ بیدہ،)۔

ایک اور حدیث میں ہے سرورکائنات ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ سچائی اورایمانداری کے ساتھ کاروبارکرنے والاتاجر(قیامت میں) نبیوں،صدیقوں اورشہیدوں کے ساتھ ہوگا- (ترمذی،باب ماجاء فی التجارہ،)۔

معاملات میں نرمی اوررحم دلی:
مالی معاملات اورکاروبار میں جس طرح سچائی اور ایمانداری پر اسلام میں بہت زیادہ زوردیا گیا ہے اور اس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی اور قرب خداوندی کا اہم ذریعہ قراردیاگیا ہے،اسی طرح اس کی بھی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ معاملہ اور لین دین میں نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے اور سخت گیری سے کام نہ لیا جائے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ کی رحمت ہو اس بندے پر جو خریدوفروخت میں اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں نرم ہو(بخاری،باب السہولۃ والسماحۃ فی الشراء،)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے،آپ نے ارشاد فرمایا:جو آدمی اللہ کے کسی غریب اورتنگدست بندے کو(قرض کی ادائیگی میں)مہلت دے دیا(کلی یاجزئی طورپراپنامطالبہ) معاف کردے تو اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن کی پریشانیوں سے نجات عطافرمادے گا۔ (مسلم،باب فضل انظار المعسر،)۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا۔ (مسلم،باب حدیث جابر الطویل،)۔

حضور نبی مکرم ﷺ کے ان ارشادات کا تعلق تو تاجروں اور ان دولت مندوں سے ہے جن سے تنگ حال لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے قرض لے لیتے ہیں،لیکن جو لوگ کسی سے قرض لیں،خود ان کو رسول اللہ ﷺ اس کی انتہائی تاکید فرماتے تھے کہ
جہاں تک ہوسکے وہ جلد سے جلد قرض ادا کرنے کی کوشش کریں،
اور ایسا نہ ہوکہ قرض دار ہونے کی حالت میں دنیا سے چلے جائیں اور اللہ کے کسی بندے کا حق ان کے ذمہ باقی رہ جائے، اس بارے میں آپ جتنی سختی فرماتے تھے اس کا اندازہ حضور کے ان ارشادات سے ہوسکتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اگر آدمی راہ خدا میں شہید ہوجائے تو شہادت کے طفیل اس کے سارے گناہ بخش دییے جائیں گے،لیکن اگرکسی کا قرض اس کے ذمہ ہے تو اس سے اس کی گردن شہید ہونےکےبعد بھی نہ چھوٹے گی (مسلم،باب مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كُفِّرَتْ خَطَايَاهُ إِلَّا الدَّيْن،)۔
ایک اور حدیث میں ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس پروردگار کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے؛اگر کوئی شخص راہ خدا میں شہید ہو،پھر زندہ ہو اور پھر شہید ہواورپھرزندہ ہواور پھرشہید ہو اور پھر اس کے ذمے کسی کا قرض باقی ہو،تو(اس قرض کے فیصلے کے بغیر)وہ بھی جنت میں نہیں جاسکے گا۔ (مسند احمد،محمد بن عبداللہ بن جحش)۔
مالی معاملات اورحقوق العباد کی نزاکت کا اندازہ کرنے کے لیے بس یہی دوحدیثیں کافی ہیں،اللہ تعالی توفیق دے کہ ہم بھی ان کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھیں اورہمیشہ اس کی کوشش کرتے رہیں کہ کسی بندے کا کوئی حق ہماری گردن پر نہ رہ جائے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو اپنے آپسی معاملات کو صاف ستھرارکھنے، رزق حلال کھانے اور حقوق اللّٰہ کے ساتھ صحیح معنوں میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

حضرت حافظ ملت شاہ عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول ازقلم: شیرمہاراشٹرامفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی


حضور حافظ ملت قدس سرہ کی مقدس حیات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے سینے کی ہر سانس اور دھڑکن امت مسلمہ کی ہمدردی اور غم خواری میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ آپ ہمیشہ اپنی قوم کو عروج و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے حتی کہ آپ کے قول و فعل اور تحریر و تقریر کے ہر گوشے سے اصلاح امت کے سوتے پھوٹتے تھے ۔ چونکہ حافظ ملت اسم با مسمیٰ تھے ، اس لئے قوم کی اصلاح کا درد و غم ہمیشہ آپ کے سینے میں موجود تھا ۔ آئیے اس سلسلے میں حا فظ ملت کی ایک اصلاح کن اور درد و غم میں ڈوبی ہوئی تحریر ملاحظہ کریں جو آپ کی ملی ہمدردی اور قومی غم گساری کا بین ثبوت ہے ۔
’’برادران اسلام ! پیارے بھائیو ! دنیا چند روزہ ہے ، اس کی راحت و مصیبت سب فنا ہونے والی ہے ، یہاں کی رفیق و شفیق بھی کام آنے والا نہیں ، بعد مرنے کے صرف اور صرف خدا اور اس کے رسول جناب محمد رسول اللہ علیہ وسلم ہی کام آنے والے ہیں ۔ سفر آخرت کی پہلی منزل قبر ہے ، اس میں منکر نکیر آکر سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ، اور تیرا دین کیاہے ، اسی کے ساتھ نبی کر یم رؤف الرحیم جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مردے سے دریافت کرتے ہیں ’’ ما تقول فی ھذا الرجل ‘‘ یعنی حضور کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں کہ ان کی شان میں کیا کہتا ہے ؟اگر اس شخص کو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے عقیدت ومحبت ہے تو جواب دیتا ہے کہ یہ تو ہمارے آقا و مولا اللہ کے محبوب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ان پر تو ہماری عزت و آبرو ، جان و مال سب قربان ، اس شخص کے لئے نجات ہے اور اگر حضور سے ذرہ برابر کدورت ہے ، دل میں آپ کی عظمت و محبت نہیں ہے ، تو جواب نہیں دے سکے گا ، یہی کہے گا میں نہیں جانتا ، لوگ جو کہتے تھے میں بھی کہتا تھا۔ اس پر سخت عذاب اور ذلت کی مار ہے ۔العیاذ باللہ ۔
معلوم ہوا کہ حضور کی محبت مدار ایمان اور مدار نجات ہے ، مگر یہ تو ہر مسلمان بڑے زور سے بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم حضور سے محبت رکھتے ہیں ۔ آپ کی محبت ہمارے دل میں ہے ۔ لیکن ہر دعوے کے لئے دلیل چاہیے اور ہر کامیابی کے لئے امتحان ہو تا ہے ۔ نبی کر یم علیہ الصلا ۃ والتسلیم کی شان اقدس میں گستاخیاں اور بےادبیاں کی ہیں ، ان سے اپنا تعلق قطع کریں ، ایسے لوگوں سے نفرت اور بیزاری ظاہر کریں ، اگرچہ وہ ماں باپ اور اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔ بڑے بڑے مولانا پیر و استاذ ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن جب انہوں نے حضور کی شان میں بے ادبی کی تو ایمان والے کا ان سے کو تعلق با قی نہیں رہا ۔اگر کوئی شخص ان کی بے ادبیوں پر مطلع ہو جانے کے بعد پھر بھی ان کی عزت ان کا احترام کرے اور اپنی رشتہ داری یا ان کی شخصیت اور مولوبیت کے لحاظ سے نفرت و بیزا ری ظاہر نہ کرے وہ شخص اس امتحان میں نا کامیاب ہے ۔ اس شخص کو حقیقۃً حضور کی محبت نہیں صرف زبانی دعویٰ ہے ، اگر حضور کی محبت اور آپ کی سچی عظمت ہوتی تو ایسے لوگوں کی عزت و عظمت ، ان سے میل محبت کے کیا معنی ؟خوب یاد رکھو ! پیر اور استاذ ، مولوی اور عالم کی جو عزت و عظمت کی جاتی ہے اس کی محض یہی وجہ ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور نسبت رکھنے والا ہے مگر جب اس نے حضور کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی پھر اس کی کیسی عزت ؟اور اس سے کیا تعلق ؟ اس نے تو خود حضور سے اپنا تعلق قطع کرلیا پھر مسلمان اس سے اپنا تعلق کیوں کر باقی رکھے گا ۔
اے مسلمان! تیرا فرض ہے کہ اپنے آقا و مولا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر مرمٹنے ، ان کی محبت میں اپنا جان و مال عزت و آبر و قربان کرنے کو اپنا ایمانی فرض سمجھے اور ان کے چاہنے والوں سے محبت ، ان کے دشمنوں سے عداوت لازمی اور ضروری جانے ، غور کرو ! کسی کے باپ کو گالی دی جائے اور بیٹے کو سن کر حرارت نہ آئے تو صحیح معنی میں وہ اپنے باپ کا بیٹا نہیں ۔ اسی طرح اگر نبی کی شان میں گستاخی ہو اور اور امتی سن کر خاموش ہوجائے اس گستاخ سے نفرت و بیزاری ظاہر نہ کرے تو یہ امتی بھی یقینا صحیح معنی میں امتی نہیں ہے ، بلکہ ایک زبانی دعا کرتاہے جو ہرگز قابل قبول نہیں ۔ مسلمان ٹھنڈا دل سے غور کریں اور اپنی صداقت ایمانی کے ساتھ انصاف کریں کہ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو کیا تعلق رکھنا چاہیے ؟بلا رعایت اور بغیر طرف داری کے کہنا اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر کسی کی شخصیت و مولویت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی رعایت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے ۔ نبی کے مقابلہ میں نبی کے گستاخ کی طر ف داری اور رعایت تمہارے کام نہیں آسکتی ؟ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔
(حیات حافظ ملت ، ص ۲۵)
اس اقتباس سے حضور حافظ ملت قدس سرہ کے دھڑ کتے دل کے جذبات کو پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ کس والہانہ انداز میں آپ نے قوم مسلم کو صحیح سمت سفر کی طرف رہنمائی کی ہے اور اطاعت رسول کی دعوت پیش کی ہے کہ پڑھنے والے پر بھی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔
مسلمانوں ! تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضرا ہے ، تمہارا مقصود ہی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، تمہاری مشکلات کا حل انہیں کی نظر کرم اور اشارۂ ابرو پر موقوف ہے ۔ تمہارے مقاصد کا حصول انہیں کی تعلیم پر عمل ہے ، جس کو مسلمان اپنی بدنصیبی سے فراموش کرچکے ہیں ۔
(ماہنامہ اشرفیہ ، نومبر ۲۰۰۹ ء ص ، ۱۲؍۲۲ مضمون محمد شاہد علی رضوی )
ترسیل: محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
یکم/ جمادی الآخر 1444ھ
25/ دسمبر 2022 ء

دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاند نگر کوسہ ممبرا کے دو اور ہونہار طالب علموں نے ایک ہی نشست میں مکمل قرآن پاک سنانے کا شرف حاصل کیا.. رپورٹ:محمد فیروز قادری متعلم: دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاندنگر،کوسہ،ممبرا،ممبئی (مہاراشٹر)


[ممبرا،ممبئی،پریس ریلیز]
اس خاندان گیتی پر سیکڑوں انسان بستے ہیں اور اپنی متعینہ زندگی گزار کر دار بقا کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ بیشتر انسان اپنے مقصد کو فراموش کرکے دنیا کو پانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور از صبح تا شام لہو و لعب میں مصروف ہوکر اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں انہیں ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ گزرا ہوا وقت دو بارہ واپس نہیں آئے گا۔
مگر اسی نیلگوں آسمان تلے اللّٰہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے بھی بستے ہیں جو اس کی رضا کے حصول کے لیے حتی المقدور کوشش کرتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت کار خیر میں صرف کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام کو حفظ کرکے خود کو شریعت مطہرہ کے اصول پر عمل پیرا کرنے کی جہد مسلسل کرتے ہیں۔
23/دسمبر 2022 ء بروز جمعہ صبح کے وقت عزیزم حافظ و قاری مولانا محمد شریف القادری اشفاقی بہرائچی صاحب نے یہ فرحت بخش خبر سنائی کہ ” 24 اور 25 / دسمبر 2022 بروز سنیچر و اتوار کو ہمدرد قوم وملت حضرت حافظ وقاری الحاج باب السلام قادری صاحب قبلہ کی سرپرستی اور اس حضرت حافظ وقاری محمد شریف قادری کی صدارت ونگرانی میں دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاند نگر کوسہ ممبرا کے دو طالب علم حافظ نور عالم بن نور الدین ساکن سَرَائے قَاضِی ، گَجادَھر پور ، بہرائچ شریف یوپی۔
اوردوسرے حافظ محمد ذیشان بن امیر احمد ساکن سَرَائے قَاضِی گَجَادَھر پور بہرائچ شریف یوپی۔24/ 25/ دسمبر 2022 ء بروز ہفتہ اور اتوار کو صبح 7 / بجے سے اساتذہ کرام کی موجودگی میں قرآن مقدس سنانا شروع کئے اور شام 5 / بجے تک مکمل قرآن پاک زبانی سنا کر فارغ ہوگئے ۔
یقیناً یہ وہ نورانی سعادت ہے جس کے مد مقابل تمام لطف و کرم اور سعادتیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔
قرآن مجید کی یہ جلالت شان ہے کہ جس کی عظمت و شوکت پہاڑ نہ برداشت کر سکے آج نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کے ہونہار بچے اپنے سینوں میں بسا لیے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارتے تو ضرور تو اُسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں ۔‘‘ ( الحشر:21)
یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے ،ہم یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور خیال کریں کہ جب ہم اشرف المخلوقات ہیں تو چاہیے کہ ہمارے اعمال بھی اشرف و اعلیٰ ہوں۔) (مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۲۲۸، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۵۳، ملتقطاً).
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلب شریف پہاڑسے زیادہ قو ی اور مضبوط ہے کیونکہ آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کا خوف اور اَسرارِ الٰہی سے واقفیت کامل طریقے سے حاصل ہونے کے باوجود آپ اپنے مقام پر قائم ہیں ۔(صراط الجنان)
بڑے مبارکباد کے لائق ہیں استاذ الحفاظ والقراءحضرت مولانا حافظ و قاری محمد شریف القادری اشفاقی بہرائچی صاحب قبلہ کہ آپ بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھا رہےہیں آج اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی درسگاہ سے فیض یافتہ بچے ایک ہی نشست میں مکمل قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔
مذکورہ خیالات کا اظہار دارالعلوم امجدیہ ناگپور کے لائق وفائق استاذ حضرت مولانا عبدالجبار صاحب علیمی ثقافی نے اس بابرکت موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کیا-
واقعی یہ دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاند نگر کوسہ ممبرا تھانے ممبٸی (مہاراشٹرا) کے سربراہ اعلیٰ حافظ وقاری الحاج باب السلام صاحب قادری کے خلوص و للہیت کا نتیجہ ہی ہے کہ یہ دارالعلوم پورے صوبہ مہاراشٹر میں تعلیم و تعلم کی حیثیت سے انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ اس کے مخلص اساتذہ کرام کی خلوص کا بھی نتیجہ ہے کہ اس پر فتن اور نازک دور میں جہاں لوگ تعلیم و تعلم سے دن بدن دور ہوتے جا رہے ہیں اور موبائل کی مصروفیت نسل انسانی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے بڑی جد و جہد کے ساتھ بچوں کی تربیت اور تعلیم و تعلم میں بہتری لانے کی سعی پیہم کر رہے ہیں۔ یقیناً ایسے اساتذہ کا انتخاب ایک خوش آئند اقدام ہے جو دارالعلوم کی ترقی کا ضامن ہے ۔
واضح رہے کہ اس محفل میں حضرت مولانا محمد ضمیر خان سبحانی و حضرت قاری معروف خان و حضرت مفتی سجاد عالم امجدی و حضرت قاری محمد سعود رضا صاحبان و دیگر اساتذہ و طلبہ کی موجودگی میں دونوں طلبہ نے ایک ہی نشست میں مکمل قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کی “
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں دارالعلوم رضائے مصطفیٰ کو روز افزوں ترقی عطا فرمائے اور اساتذہ کرام کو خلوص و للہیت کے ساتھ دین متین کی خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرمائے ساتھ ہی ساتھ حافظ نور عالم و حافظ محمد ذیشان سلمہ کو کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔

رپورٹ:محمد فیروز قادری متعلم: دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاندنگر،کوسہ،ممبرا،ممبئی (مہاراشٹر)

نعت مصطفی’صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت مصطفی’صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔

ان کی توصیف میں رب کا قرآن ہے
مصطفی’جان رحمت کی کیا شان ہے

آنکھ ان سے قتادہ کی واپس جڑی
دیکھ کر معجزہ آنکھ حیران ہے

جو ہے عنوان قرآں میں رحمان کا
میرے اشعار میں بس وہ عنوان ہے

باندھ کر اپنا ساماں چلے غم سبھی
یاد آقا وہ راحت کا سامان ہے

ان کی تبلیغ کا ہے یہ تاباں اثر
آج دھرتی کا انساں مسلمان ہے

تجھ کو گر چاہئیں شوکتیں زیست میں
اس پہ چل جو شہ دیں کا فرمان ہے

کہہ دیا، آپ محبوب ہیں جاں سے بھی
اب عمر کی بھی تکمیل ایمان ہے

عینی کہتا ہوں نعت شہ انبیاء
میرے مرشد مجاہد کا فیضان ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

حضرت محدث اعظم ہند و پاک محمد سردار احمد رضوی چودہری کا عشق رسول.. ازقلم: شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی

حضرت محدث اعظم ہند وپاک مکمل تیس سال سے زائد عرصہ تک درس حدیث کی خدمت انجام دی اور مسند حدیث کو اپنی خدمت سے زینت بخشتے رہیں ، آپ محض محدث نہ تھے بلکہ آپ بیک وقت علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم کلام ، علم اصول ، علم معانی ، علم منطق و فلسفہ کے متبحر عالم دین تھے اور تمام علوم و فنون پر آپ کو ملکہ حاصل تھا ، آپ کی ذات اخلاص کا سراپا مجسم تھی جس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں ۔
ایک مرتبہ حضرت علیہ الرحمہ فیصل آباد ہی میں تقریر کے لئے ایک جگہ تشریف لے گئے ، انتظامیہ کے افراد جلسہ کے اختتام پر سامان و غیرہ محفوظ کر نے میں مصروف ہوگئے حضرت ان کا انتظار کیے بغیر پیدل ہی جامعہ رضویہ کی طرف چلنے لگے ۔ راستہ میں کسی نے کہہ دیا حضرت ! یہ کیسے لوگ ہیں ، تانگے کا بھی انہوں نے انتظام نہیں کیا ۔ حضرت نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا ، بندۂ خدا کیا کہا ؟ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے کا انتظام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کے لئے اس فقیر کو بلایا ۔ یہ ان کا تھوڑا احسان ہے ؟ اگر وہ چاہتے تو آپ کے ذکر خیر کے لئے کسی اور کو بلالیتے ۔‘‘
(حیات محدث اعظم پا کستان ، ص۵۲۲ بحوالہ : قلمی یاداشت مولانا علی احمد سندیلوی ، لا ہور محررہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ء )
پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ اسلامیہ ہائی اسکول بٹالہ ضلع گورداسپوری میں داخل ہوئے بٹالہ ہائی اسکول کے صدر معلم جناب پیر محمد تھے ۔ حاجی صاحب کا بیان ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سردار احمد کو بچپن ہی سے بزرگان کرام اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد عقیدت و محبت تھی ، چنا نچہ آپ فرمایا کرتے تھے ۔” ماسٹرجی ! ہمیں بزرگوں کی باتیں سنائیے اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تو ضرور روشنی ڈالا کیجیے ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۳۸ بحوالہ : مضمون ’’ایک عالم ایک عارف ‘‘مرتبہ رانا محمد کرام چشتی مشمولہ ماہنامہ معارف رضا ، لاہور ، فروری ۱۹۶۳ء بحوالہ ہفت روزہ محبوب حق ۔ لائل پور ، ۳۱ جنوری ۱۹۶۴ء ، ص ۶ )
دوران درس حدیث پاک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ضحک مبارک ‘‘یعنی تبسم فرمانے کا ذکر آتا تو آپ بھی محض حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسم کی ادا کو اپنانے کے لئے تبسم فرماتے اور طلبا کو بھی تبسم کی ہدایت فرماتے ، اور اس کے باوجود جن حضرات کے لبوں پر تبسم نہ دیکھتے تو انہیں آپ شخصی طور پر مخاطب کرکے فرماتے مولانا ! شاہ صاحب ! آپ کے لبوں پر تبسم کیوں نہیں ہے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم فرمانے پر اگر آپ نے تبسم نہیں فرمایا تو تبسم کا اور کون سا موقع ہوگا؟۔
( ابوداؤد محمد صادق ، مولانا محدث اعظم پاکستان کی مختصر سوانح حیات ، ص ۱۰ )

سوز و ساز عشق
جن احادیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم فرمانے کا ذکر ہے ان کا درس دیتے ہوئے آپ اتباع سنت کی نیت سے مسکراتے یونہی جن احادیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گریہ فرمانے کا ذکر ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا بیان ہے ۔ تو آپ بھی روتے ۔
۱۳۷۴ھ ؍۱۹۵۵ء میں دوران تدریس مشکوٰۃ شریف کی وہ حدیث پاک پڑھی گئی جس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے سر انور میں درد اور کپڑا با ندھنے کا ذکر ہے ، آپ نے اس حدیث پاک پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :’’جب سرکار کے سر انور میں درد تھا اور آپ نے کپڑے سے سر مبارک کو باندھا ہوا تھا آپ اس وقت منبر پر تشریف فرما تھے ۔ سر انور میں درد کی شدت کی بناء پر آپ کا کپڑے سے باندھنا جب یار غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دیکھا ہوگا تو ان کا کیا حال ہواہوگا ؟جس سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ملاحظہ کیا ہوگا تو ان پر کیا گزری ہوگی ، سیدنا بلال ر مضی اللہ عنہ نے بھی جب یہ منظر دیکھا ہوگا تو انہوں نے کیا محسوس کیا ہوگا ۔۔؟
اسی طرح شدت درد میں صحابۂ کرام پر وارد ہونے والے احوال بیان فرمارہے تھے محسوس ہوتا تھا کہ سرکار کے سر انور میں درد کی کلفت آپ بھی محسوس فرمارہے ہیں ۔ دوران بیان آپ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور آپ حلقۂ درس سے اٹھ کر اندر تشریف لےگئے ، اس کے بعد نہ معلوم یہ کیفیت کتنی دیر آپ پرطاری رہی ۔

اسی نوعیت کا ایک واقعہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام بریلی شریف میں پیش آیا حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی سالوں کا بیان فرما رہے تھے کہ خا ندان کے افراد کو جب تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کو جمع کرنے کے لئے بلند آواز سے پکارا ۔ حدیث شریف کا جملہ یاصباحاہ !آپ کے بلانے کی کیفیت کا بیان ہے یعنی حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے قریش کو بلند آواز سے پکارا جسے پنجابی محارہ میں ’’کو ک ‘‘مارنا کہتے ہیں ۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ نے طلبا سے فرمایا ‘‘بھلا کوک کیسے مارتے ہیں ؟‘‘آپ نے بھی آواز بلند فرمائی اور طلبا سے بھی ایسا کروایا ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۳۱۳)
حدیث پر عمل کی نادر مثال حافظ ملت مولانا عبد العزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمتہ کا بیان ہے کہ ’’ترمذی شریف کی حدیث ہے :
طعام الواحد یکفی الا ثنین و طعام الا ثنین یکفی الثلثۃ۔
ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوسکتا ہے اور دو کا تین کےلئے کافی ہوسکتا ہے ۔ اس حدیث پر حضرت علامہ مو صوف نے پورا عمل کیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب آپ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے شیخ الحدیث تھے تو میں نے آپ کی خدمت میں ایک طالب علم حافظ محمد صدیق مرادآبادی کو تحصیل علم کے لئے روانہ کیا ۔ حضرت موصوف نے اسے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کرلیا ۔ مگر اس کےکھانے کا انتظام نہ ہوسکا ۔ حضرت کو جو کھانا معمولا آیا کرتا تھا اسی کھانے میں اپنے ساتھ کھلانا شروع کردیا ۔ دو چار ، دس ، بیس روز نہیں بلکہ جب تک حافظ صدیق بر یلی شریف رہے برابر ان کو اپنے ساتھ اسی ایک کھانے میں شریک رکھا ، ان سے فرمایا کرتے تھے ۔’’کھاؤ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ان شاءاللہ دونوں کو کافی ہوگا ۔‘‘حا فظ صدیق کا بیان ہے کہ میرا پیٹ تو بھرجاتا تھا حضرت مولانا کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ حضرت موصوف علیہ الرحمہ کا یہ وہ عمل ہے جو فی زمانہ اپنی نظیر آپ ہے ۔ حدیث پر اسی بے مثال عمل کی برکت سے آپ کے درس حدیث میں غیر معمولی تاثیر تھی ۔
(حادثہ جانکاہ مشمولہ نوری کرن محدث اعظم پاکستان نمبر ، ص ۲۷، حافظ عبد العزیز مبارک پوری )
حلقۂ درس میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر انگیزی صرف درس حدیث پر ہی موقوف نہ تھی بلکہ دیگر فنون کی تدریس میں جب بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان جاری ہوجاتا ۔
۱۳۶۹ھ؍۱۹۴۹ء میں اولین دارالحدیث میں میراث کی مشہور کتاب ’’سراجی ‘‘کاسبق پڑھارہے تھے ۔ میراث کے ایک مسئلہ پر تقریر کے دوران سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اقدس آیا ۔ اس پر آپ حضور کے فضائل و محامد بیان فرمانے لگے اور جو مسئلہ میراث شروع تھا اس سے توجہ ہٹ گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب احساس ہوا ، تو فرمایا :
’’مسئلہ تو میراث کا بیان ہورہا تھا ، لیکن توجہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کی طرف ہوگئی ۔ الحمد للہ ! ‘‘
یہ کہنا تھا کہ آنکھوں میں آنسو آگئے ، رقت طاری ہوگئی اور حسب معمول طلبا سے فرمایا ‘‘پڑھو ؎
بو درد جہاں ہر کسے راخیالے مزار ہمہ خوش خیال محمد
آپ کے چشمان اقدس سے آنسو جاری تھے اور دارالحدیث عارف جامی علیہ الرحمہ کے اس نعتیہ کلام سے گونج رہاتھا ۔
بارگاہ رسالت میں درس حدیث کی مقبولیت
یہ نورانی واقعہ مولانا معین الدین شافعی کا بیان کردہ ہے ۔ فرماتے ہیں :
’’مولانا حامد بخاری ، بخارا شہر کے فاضل اور مدرس تھے ان کو مشکوٰۃ شریف پڑھانے میں ایک مقام پر کچھ وقت محسوس ہوئی ۔ ان کو خواب میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ، آپ کی مجلس میں تشریف فرما حضرات میں مولانا سردار احمد صاحب بھی شامل تھے ۔ مولانا حامد بخاری نے حدیث کی وہ مشکل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولانا سردار احمد صاحب کی طرف اشارہ کیا چنانچہ انہوں نے حدیث پاک کی وہ علمی مشکل حل فرمائی اور انہیں اطمینان نصیب ہوا۔ جب صبح ہوئی تو مولانا حامدنے بخارا سے بریلی کا قصد کیا اور آپ کی خدمت میں آکر فیض حاصل کیا ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۶۳)
صدرالعلما علامہ مفتی محمد تحسین رضا خاں بریلوی اپنے مشفق استاذ محدث اعظم پاک و ہند کی سیرت و کردار اور عشق مصطفیٰ کو یوں بیان فرماتے ہیں : حدیث کا احترام اس درجہ تھا کہ دوران درس کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی معزز و محترم ہو ، آتا سلام کرتا تو سلام کا جواب تو ضرور دے دیتے اور ہاتھ سے بیٹھنے کےلئے اشارہ فرماتے مگر اس وقت تک کلام نہ فرماتے جب تک کہ سبق پورانہ ہوجائے ۔ پھر آنے والے کے پاس اتنا وقت ہو تو وہ بیٹھا رہے ، ورنہ اٹھ کر چلاجائے ۔ آپ ملطقاً پرواہ نہ فرماتے ، دوسرے وقت ملاقات ہوتی ، تو فرما دیتے کہ آپ فلاں وقت تشریف لائے تھے ، میں حدیث شریف پڑھارہا تھا ، اس لئے بات نہ کرسکا ۔ جو طالب علم عبارت پڑھتا اسے تاکید ہوتی کہ حضور کے نام نامی کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ضرور کہے اور صحابی کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘ضرورکہے اور خود بھی اس کا التزام رکھتے تھے ، جیسے ہی نام نامی سنتے بآواز بلند صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کہتے تاکہ دوسرے طلبہ جو غافل ہوں ، انہیں سن کر یاد ہوجائے ۔اگر کہیں حدیث میں آجاتا کہ ضحک النبی صلی اللہ علیہ وسلم تو خو دبھی مسکراتے اور طلبہ سے بھی کہتے کہ ہنسو ۔ ہسنا بھی ہمارے نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ضرورت زمانہ کے لحاظ سے رد وہابیہ پر زیادہ زور دیتے تھے ورنہ عام طور پر سب ہی باطل فرقوں کا رد فرماتے تھے ۔ (سالنامہ تجلیات رضا ، شمارہ ۶ ، صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ، ص ۹۱؍۹۲)

مسرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور پر صرف تبسم اور مسکراہٹ آجاتی تھی ، آپ کا تبسم کھلکھلاکر ہنسنے کی طرح نہ ہوتا تھا صرف دندان مبارک کی چمک ظاہر ہوتی تھی۔ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ بھی اسی موقع پر صرف تبسم اور مسکراہٹ کی تاکید فرماتے تھے ۔
(ایضاً ، ص۹۷)

ع
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار گھڑی کی بات نہیں الارواح جنود مجندہ کے حدیث ارشاد کے مطابق اس جہان میں تو اس کا مشاہدہ ہورہا ہے اور رفیق مذکور کی اتباع یک گیر محکم گیر سے یہی امید ہے کہ دوسرے جہاں میں بھی ایساہی ہو گا ۔

یہ کیفیت اسے ملتی ہے ، ہو جس کے مقدر میں
مئے الفت نہ خم میں ہے ، نہ شیشے میں نہ ساغر میں
(ایضاً ، ص ۹۳)

ترسیل: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
23/ جمادی الاول 1444ھ
18/ دسمبر 2022 ء

قبر میں عھد نامہ یا شجرہ وغیرہا رکھنا کیسا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ۔۔ باسمہ تعالی والصلوتہ والسلام علی حبیبہ الاعلی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا فرماتے علماء کرام اس مسئلے میں کہ قبر میں عھد نامہ یا شجرہ وغیرہا رکھنا کیسا ہے جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔المستفتی۔محمد سخاوت علی۔راے بریلی۔
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔جاٸز ہے : ہمارے علماءِ کرام نے فرمایا کہ میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ لکھنے سے اس کے لئے امیدِ مغفرت ہے۔
(١) امام ابوالقاسم صفار شاگردامام نصیربن یحیٰی تلمیذ شیخ المذہب سیدنا امام ابویوسف ومحرر المذہب سید امام محمد رحمہم اﷲ تعالٰی نے اس کی تصریح و روایت کی۔
(۲) امام نصیر نے فعلِ امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اس کی تائید وتقویت کی۔
(۳) امام محمد بزازی نےوجیزکردری(٤) علامہ مدقق علائی نے درمختار میں اُس پر اعتمادفرمایا۔
(۵) امام فقیہ ابن عجیل وغیرہ کا بھی یہی معمول رہا۔
(۶) بلکہ امام اجل طاؤس تابعی شاگرد سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی کہ انہوں نے اپنے کفن میں عہد نامہ لکھے جانے کی وصیّت فرمائی اورحسب وصیّت ان کے کفن میں لکھا گیا۔
(۷) بلکہ حضرت کثیر بن عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور صحابی ہیں خود اپنے کفن پر کلمہ شہادت لکھا۔
(٨) بلکہ امام ترمذی حکیم الٰہی سیّدی محمد بن علی معاصرامام بخاری نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ خود حضور پُر نور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
من کتب ھذاالدعاء وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ فی رقعۃ لم ینلہ عذاب القبر ولایری منکرا و نکیرًا و ھوھذا لاالٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الااﷲ
جو یہ دُعاکسی پرچہ پر لکھ کر میّت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں،اور وہ دعا یہ ہے: لا الٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الاﷲ وحدہ،العظیم[1]۔
لاشریك لہ لاالٰہ الااﷲلہ الملك ولہ الحمد لاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔
نیز ترمذی میں سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہر نماز میں سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِم الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم اِنِّیْ اَعْھَدُ اِلَیْك فَیْ ھٰذِہِ الْحَیَاۃ الدنیابانك انتَ اﷲ الذی لآ اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ وَحْدَك لَاشَرِیْك لَك وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُك وَرَسُوْلُك فَلَاتَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّك اِن تَکِلنِی الٰی نَفسی تُقَرِّبنی مِنَ الشِّر وتُبَاعِدنی من الخیر وَاِنِّیْ لَا اَثِقُ اِلَّا بِرَحْمَتِك فَاجْعَلْ رَحْمَتَك لِیْ عَھْدًا عِنْدَك تُؤَدِّیْہِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اِنَّك لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادِ[2]۔فرشتہ اسے لکھ کر مُہر لگا کر قیامت کے لئے اُٹھارکھے ، جب اﷲ تعالٰی اُس بندے کو قبر سے اُٹھائے، فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لائے اور ندا کی جائے عہد والے کہاں ہیں، انہیں وُہ عہد نامہ دیا جائے۔ امام نے اسے روایت کرکے فرمایا :
وعن طاؤس انہ امر بھذہ الکلمات فکتبت فی کفنہ[3]۔
امام طاؤس کی وصیّت سے عہد نامہ اُن کے کفن میں لکھا گیا۔
امام فقیہ ابن عجیل نے اسی دعائے عہدنامہ کی نسبت فرمایا:
اذاکتب ھذا الدعاء وجعل مع المیت فی قبرہ وقاہ اﷲ فتنۃ القبر وعذابہ [4]۔
جب یہ لکھ کر میّت کے ساتھ قبر میں رکھ دیں تو اﷲ تعالٰی اُسے سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے امان دے۔
[1] فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ترمذی باب الجنائز مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۶
[2] نوادرالاصول اصول الرابع والسبعون والمائۃ مطبوعہ دارصادر بیروت ص٢١٧
[3] الدرالمنثورغنیہ بحوالہ حکیم الترمذی تحت الامن اتخذ عندالرحمٰن عھدا منشورات مکتبہ آیۃ اﷲ قم ایرانغنیہ ٤/٢٨٦
[4] فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ابن عجیل باب الجنائز مطبوعہ رالکتب العلمیۃ بیروتغنیہ ٢/٦
مزید تفصیل کے لٸےسرکار اعلی حضرت کا ۔(رسالہ
الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن ١٣٠٨ھ(مطالعہ فرماٸں۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضاقادری منظری۔مدرس المرکزالاسلامی دارلفکر بہراٸچ شریف۔٢٤\١\١٩

فرض کی تیسری اور چوتہی رکعت میں الحمد اور سورت پڑھنا کیسا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فرض کی تیسری اور چوتہی رکعت میں الحمد اور سورت پڑھنا کیسا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔کوٸ حرج نہیں ۔جیساکہ فتاوی رضویہ جلد سوم ص ٦٣٧ میں ہے اگر کسی نے فرض نماز کی پچھلی دو رکعت میں سہوا یا قصدا الحمد شریف کے بعد کوٸ ایک سورت ملاٸ تو کچھ مضاٸقہ نہی ۔اسکی نماز میں کچھ خلل نہ آیا اور اسکو سجدہ سہو کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ ۔احمدرضامنظری۔دارلفکر۔بہراٸچ شریف۔۔۔١١ ۔١۔١٩۔

تہجد کی نماز رات کو کتنے بجے ادا کی جائے اور نیت کیسے کریں اور کتنی رکعت ہوتی ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم و رحمة الله و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ تہجد کی نماز رات کو کتنے بجے ادا کی جائے اور نیت کیسے کریں اور کتنی رکعت ہوتی ہے تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟
المستفتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد شیر علی قادری
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔عشاء کے فرض پڑھ کر آدمی سورہے پھر اس وقت سے صبح صادق کے قریب جس وقت آنکھ کھلے دورکعت نفل صبح طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لے تہجد ہوگیا (وقت فجرسے پہلے)اقل درجہ تہجدکایہ ہے اور سنت سے آٹھ رکعت مروی ہے اور مشائخ کرام سے بارہ اور حضرت سیدالطائفہ جنیدبغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ دوہی رکعت پڑھتے اور ان میں قرآن عظیم ختم کرتے، غرض اس میں کمی بیشی کااختیارہے اتنی اختیار کرے جو ہمیشہ نبھ سکیں اگرچہ دوہی رکعت ہو کہ حدیث صحیح میں فرمایا:احب الاعمال الی اﷲ ادومھا وان قل۱؎۔اﷲ تعالٰی کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے کہ ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑاہو۔
(۱؎ مشکوٰۃ المصابیح باب القصد فی العمل مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت ص۱۱۰)
قرأت کابھی اختیار ہے چاہے ہررکعت میں تین تین بارسورئہ اخلاص پڑھے کہ اس کا ثواب ایک ختم قرآن کے برابرہے خواہ یوں کہ بارہ رکعتیں ہوں پہلی میں ایک بار، دوسری میں دوبار، یاپہلی میں بارہ دوسری میں گیارہ، اخیرمیں ایک کہ یوں ۲۶ختم قرآن کاثواب ہوگا، اور پہلی صورت میں بیس کا ہوتا۔ اوربہتر یہ ہے کہ جتنا قرآن مجید یادہواس نماز میں پڑھ لیاکرے کہ اس کے یادرہنے کا اس سے بہتر سبب نہیں۔ تہجد پڑھنے والا جسے اپنے اُٹھنے پراطمینان ہو اسے افضل یہ ہے کہ وتر بعد تہجد پڑھے پھر وتر کے بعد نفل نہ پڑھے جتنے نوافل پڑھناہوں وترسے پہلے پڑھ لے کہ وہ سب قیام اللیل میں داخل ہوں گے اور اگرسونے کے بعد ہیں توتہجد میں داخل ہوں گے۔اھ (۔فتاوی رضویہ ج سوم ص ٤٧١ ۔)واللہ تعالی اعلم۔کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔١٢۔١۔١٩۔