WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives February 2022

مختصر تعارف حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)از ::-منظور احمد نوری بانی و مہتمم جامعہ امام المرسلین

عالم نبیل فاضل جلیل استاذ الامام الاعظم والامام المالک
ابو عبداللہ حضور سیدی وسندی سرکار حضرت امام جعفر صادق وطاہر رضی اللہ عنہ 17 ربیع الاول شریف 80/ 83 ہجری میں مدینہ منورہ شریف میں پیدا ہوئے

آپ کا نام حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) ہے
آپ کی کنیت ابو عبداللہ و ابو اسماعیل ہے۔ اور آپ کا لقب مبارک، صادق ،فاضل،طاہر، ہے۔ آپ نے جلیل القدر صحابۂ کرام حضرت انس بن مالک اور حضرت سہل بن سعد (رضی اللہ عنہما) سے ملاقات کی۔ آپ سے فیض حاصل کرنے والوں میں سےآپ کے شہزادے حضرت امام موسیٰ کاظم، امام اعظم ابو حنیفہ،حضرت امام مالک، حضرت سفیان ثوری (رضی اللہ عنہم اجمعین) ہیں۔
امام مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آپ (امام جعفر صادق) رضی اللہ عنہ کو 3 تین کاموں سے بڑا شغف تھا (1) نماز (2) قرآن کی تلاوت (3) روزہ۔فرماتے ہیں جب بھی میں نے حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے ملاقات کی تو انھیں میں میں سے کسی ایک میں مصروف پایا۔
آپ کا وصال 15 رجب المرجب 148 ھجری مدینہ منورہ میں کسی بد بخت کے زہر دینے سے ہوئی، آپ جنت البقیع میں اپنے والد گرامی حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) کے بغل میں مدفون ہیں۔ اور یہی آپ کے عرس کی تاریخ ہے۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ کونڈے کی فاتحہ 15 رجب کو کرانا چاہئے ۔
اگر کوئی دوسرے دنوں میں کرائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
۔گدائے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ

منظور احمد نوری
مہتمم جامعہ امام المرسلین آستانۂ عالیہ حضرت سید پھول شاہ (رحمۃ اللہ علیہ) چینی میل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی

रीवड़ी,जैसलमेर में जल्सा-ए- ईसाले षवाब। मौत एक अटल हक़ीक़त।लिहाज़ा आखिरत की तय्यारी करें!…अ़ल्लामा सय्यद पीर नूरुल्लाह शाह बुखारी!17 फरवरी 2022 ईस्वी बरोज़:जुमेरात

रीवड़ी जैसलमेर के साबिक़ सरपंच मरहूम फोटे खान के ईसाले षवाब के लिए एक अ़ज़ीमुश्शान “जल्सा-ए-सिकन्दरी व इस्लाहे मुआ़शरा” का इन्इक़ाद किया गया,जिस में इलाक़े के बहुत से उ़ल्मा-ए-किराम व तालिबाने उ़लूमे नबविया ने शिरकत कर के इज्तिमाई क़ुरआन ख्वावी कर के मरहूम के लिए दुआ़-ए-मग़्फिरत व ईसाले षवाब किया।फिर बाद नमाज़े ज़ुहर तिलावते कलामे रब्बानी से जल्से की शुरूआ़त की गई!दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ और कुछ दीगर इदारों के बच्चों ने नअ़तहा-ए-रसूल सल्लल्लाहु अ़लैहि वसल्लम पेश किया।जब की खुसूसी नअ़त ख्वाँ की हैषियत से क़ारी अमीरुद्दीन साहब सिकन्दरी ने खुसूसी नअ़त ख्वानी का शर्फ हासिल किया।फिर रीवड़ी के क़ाज़ी मौलाना सूफी अ़ब्दुल करीम साहब सिकन्दरी ने इफ्तिताही खिताब किया…आप के बाद दारुल उ़लूम क़ादरिया फैज़े सिकन्दरिया जैलमेर के सदरुलमुदर्रिसीन हज़रत मौलाना शाहमीर साहब सिकन्दरी ने “इस्लाहे मुआशरा” के उ़न्वान पर बहुत ही शान्दार बयान किया…फिर खतीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी ने सिंधी ज़बान में क़ौम को खिताब किया…बादहु दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ के नाज़िमे तअ़लीमात हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने अरकाने इस्लाम बिलखुसूस नमाज़ की अहमियत व फज़ील और नमाज़ न पढ़ने वालों के सिल्सिले में वईदों के बारें में मुख्तसर मगर जामेअ़ खिताब किया।निज़ामत के फराइज़ हज़रत मौलाना अल्हाज पठान साहब सिन्दरी साबिक़ सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम फैज़े राशिदिया सम,जैलमेर ने बहुस्न व खूबी निभाते हुए आखिरी और खुसूसी खिताब के लिए नूल उ़ल्मा शैखे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़िल्लहुल आ़ली मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ को दावते खिताब दिया-क़िब्ला सय्यद साहब ने अपने खिताब के दौरान फरमाया कि “जब मौत एक अटल हक़ीक़त है,और यह एक एैसी चीज़ है कि इस का ज़एक़ा हर एक नफ्स को चखना है जैसा कि यही क़ुरआन का फैसला भी है और इस बाबत किसी को कोई इन्कार भी नही है तो एैसी सूरत मे हम सभी लोगों को चाहिए कि जब हमें इस दुनिया-फानी को खैराबाद कहना है तो इस के लिए यानी आखिरत के लिए हमेशा तय्यारी में मसरूफ रहें,ज़्यादा से ज़्यादा नेक कामों के करने की कोशिश करें, नमाज़ व दीगर अरकाने इस्लाम के अदाइगी की हर मुम्मकिन कोशिश करें,अपने माँ बाप की खूब खूब खिदमत करें,अपने पीराने तरीक़त से अ़क़ीदत व मुहब्बत रखें,उ़ल्मा-ए-किराम की तअ़ज़ीम व तकरीम करें,जुम्ला अवामिरे शरइय्या पर अमल और मन्हिय्यात से बचने की कोशिश करें “आप के नासिहाना खिताब के बाद मरहूम फोटे खान के ईसाले षवाब के लिए इज्तिमाई फातिहा ख्वानी करके दुआ़-ए-मग़फिरत की गई।सलातो सलाम व दुआ़ पर यह जल्सा इख्तिताम पज़ीर हुवा।इस प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।हज़रत सय्यद इस्माईल शाह बुखारी कच्छ,भुज(गुज:),हज़रत मौलाना बाक़िर हुसैन क़ादरी अनवारी,क़ारी मुहम्मद अ़ब्बास सिकन्दरी,क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी,क़ारी अ़ब्दुस्सुब्हान साहब सिकन्दरी खतीब व इमाम:जामा मस्जिद रीवड़ी,मौलाना अ़ब्दुल करीम गुल्ज़ारी खतीब व इमाम जामा मस्जिद मतुओं की ढाणी,क़ारी मुहम्द उ़र्स सिकन्दरी अनवारी,मास्टर मुहम्मद यूनुस साहब वग़ैरहुम-जब कि हज़ारों की तअ़दाद में अ़वामे अहले सुन्नत बिलखुसूस सिकन्दरी जमाअ़त के लोगों न् शिरकत कर के मरहूम के लिए दुआ़-ए- मग़्फिरत की।रिपोर्ट:मुहम्मद अनवर अ़ली सिकन्दरी S/O अ़ब्दुल मलूक मुतअ़ल्लिम:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ,पो: गरडिया,ज़िला:बाड़मेर(राजस्थान)

ریوڑی جیسلمیر میں جلسۂ ایصال ثواب::-موت ایک اٹل حقیقت:لہٰذا آخرت کی تیاری کریں:علّامہ پیر سید نوراللّٰہ شاہ بخاری گذشتہ روز [17 فروری 2022 عیسوی بروز؛جمعرات]

ریوڑی جیسلمیر کے سابق سرپنچ مرحوم فوٹے خان کے ایصال ثواب کے لیے ایک عظیم الشان “جلسۂ سکندری واصلاح معاشرہ”کا انعقاد کیا گیا،جس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے علاقۂ تھار کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ”دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر” کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علّامہ الحاج سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے فرمایا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ ہم آخرت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کریں، کیونکہ موت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کا ذائقہ چکھنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔ موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے”
    ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے-مزید آپ نے اپنے خطاب کے دوران موت کے تعلق سے آیت کریمہ “کل نفس ذائقة الموت” کے تحت فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔ موت اور زندگی دونوں کو اللہ نے خلق فرمایا۔ موت برحق ہےجو ہر ایک کو آنی ہیں۔ دنیا میں اگر دیکھا جائے تو لوگ ہر چیز کے منکر ہوگیے حدتو یہ کہ اللہ کے وحدانیت وربوبیت اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت اور رسالت کے بھی منکر ہوگئے ۔لیکن آج تک کوئی بھی موت کا منکر نہیں ہوا کیونکہ ایسا کوئی طبیب ہی نہیں جو موت کاعلاج کرکے زندگی دلاسکے ۔ موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر ہو یا فاسق و فاجر حتیٰ کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں موت کے بعد ہی انسان کی اصلی اور ابدی زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔انسان اس دنیا سے چلا جائے تو انتقال کر جاتا ہے جسکا معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ دنیا میں ما سوائے اللہ کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں،باقی سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔
دنیا میں انسان وقت ِ متعینہ کےلئے ترتیب سے آتا ہے، پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا، لیکن دنیا سے جاتے وقت مالک الموت ترتیب نہیں بلکہ وقت متعین دیکھتا ہے۔ موت چھوٹے اور بڑے کو نہیں دیکھتی ہے ۔وہ دودھ پیتے ہوئے بچے کو اسکی ماں چھین لیتی ہے ۔ موت نہ رنگ و نسل دیکھتی ہے ، نہ ذات اور مرتبے کو۔موت نہ نیک و صالح لوگوں پر رحم کرتی ہے اور نہ ہی ظالموں کو بخش دیتی ہے ۔ ہر ایک کو اپنے گلے سے لگا کر رہتی ہے، پھر چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو وہاں پہنچ جاتی ہے۔یہاں تک کہ خود کو اللہ کہنے والا فرعون بھی موت سے نہیں بچ پایا ۔ اس لیےانسان کو ہر حال میں ہوشیاررہنا چاہییے اور ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہییے اور اس بات پہ کامل یقین رکھنا چاہییےکہ یہ دنیا فانی ہے،جو مومن کیلئے قید خانہ ہے ۔ جس طرح ایک قیدی کو قید خانے کے اصول و ضوابط کے ماتحت رہنا پڑتا ہے، اُسی طرح دنیاوی زندگی میں بھی رہنا پڑتا ہے۔ ہر قیدی کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ قیدخانہ اُس کے لئے ایک عارضی گھر ہے اوربالآخر اُسے اپنے اصلی گھر میں ہی منتقل ہونا ہے۔گویا ہر کسی کا اپنا اصلی اور ابدی گھر ہے ،اور وہ ہے موت کے بعد آخرت کا گھر ۔ظاہر ہےہر انسان کو آخرکاراپنے مالک کے دربار میں حاضر ہونا ہے ،جہاں اُس کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابن آدم کے قدم تب تک آگے نہیں بڑھ سکتے، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ پہلا:عمر کہاں گزاری؟دوسرا :جوانی کہاں گزاری؟تیسرا:مال کہاں سے کمایا؟چوتھا:مال جو کمایا کہاں پہ صرف کیا؟ اورپانچواں : جو علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟
لہٰذا ایک انسان کو پہلے سے ہی ان سوالات کی تیاری کرنی چاہے تاکہ وہ اس وقت مجرم نہ ٹھہرایا جائے۔ دنیا میں کوئی بھی نفس ایسا نہیں ہوگا، جس پر کوئی نہ کوئی مصیبت نہ آئی ہوگی۔چنانچہ انسان پر جو بھی آزمائش ڈال دی جاتی ہے اُس پر انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ “میں نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ہم تم کو آزمائیں کہ تم میں سے کون اچھا اور کون بُرا۔” چونکہ اللہ کی طرف سے ہی سب کچھ ہوتا ہے، اسکی اجازت کے بغیر مچھر کاپَر بھی نہیں کٹ سکتا۔لہٰذا شکوے شکایتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ زندگی اور موت سب اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو پہلے ان کو چیزوں کےنام سکھائے گئے اور اللہ نے انسان کے اندر یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے ۔انسان کی زندگی بامقصد ہے اور اس کی موت بھی بامقصد اور یقینی ہے ۔ایک انسان کو زندگی کا مقررہ وقت اس لئے دیا گیا تاکہ اس کا امتحان لیا جائےاور موت اس لیے آتی ہے کیونکہ امتحان میں پرچے کا وقت ختم ہوتاہے اور پھر موت کے فرشتے کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بندے کو اپنا پرچے سمیت اللہ کے دربار میں لے آئے تاکہ اسکی ابدی اور اصلی زندگی کا فیصلہ طے کرلیا جائےکہ کیا یہ جنت کا حقدار ہے یا جہنم کا ۔اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ جس نے جیسا کیا ہوگا ،اسکو اُسی کے مطابق جزا و سزا دی جائے گی۔اللہ عادل ہے اور عدل کو پسند فرماتاہے ۔چونکہ اُس نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے، وہ چاہے تو سیدھے راستے اختیار کرلے، چاہے تو غلط راستے چن لے ۔ایک انسان کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ میرے لیے کیا بہتر ہے ۔انسان کو پہلے ہی یہ دیکھنا چاہئے کہ مجھے کس لیے پیدا کیا گیا اور میری آخری منزل کہاں ہے؟۔جس انسان کو یہ حقیقتِ زندگی سمجھ میں آجائے تو اس کے لیے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی کتاب زندگی کو نیک کاموں سے سجا کراپنےاعمال نامہ کا تحفہ دائیں ہاتھ میں لے لے۔انسان کا اعمال نامہ جیسا ہوگا، اُسی کے مطابق جزا و سزا ہو گی ۔کیونکہ جزا و سزا ضروری ہے ،اگر یہ نہ ہوتا تو پھر نہ ہی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا اور نہ امتحان کا کوئی فائدہ ۔اللہ تعالیٰ جس کو بھی زندگی دیتا ہے اس کے لئےامتحان بھی رکھتا ہے تاکہ انسان کی اصلیت پتہ چل جائے، خواہ وہ نیک ہو یا بد ۔اور اگر بندہ اللہ کی پسند کے مطابق زندگی گزار رہا ہو تو وہ فرمانبردار بندوں میں سے ہے اور اگر اللہ کے احکام وفرامین کو چھوڑ کر اپنے نفس کا غلام بن کے اس کی پیروی کرنے لگا تو بے شک اللہ کا باغی ، سرکش اور نافرمان بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔انسان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اِس زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن کو بھی لائے گا، جس دن ہم سب کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے گا اور ہمارا اعمال نامہ دیکھ کر ہمارے ٹھکانے کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کی جائے پناہ کہاں ہے ؟ وہ دن ایسا ہے جہاں کوئی بچ نہیں سکتا۔ ۔ نفسی نفسی کا عالم ہوگا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہوگا وہاں آپ کے نیک اعمال کام آئیں گے ۔
یقیناً موت سب سے بڑی حقیقت ہے جسے ہر شخص بھلا بیٹھا ہے اور زندگی سب سے بڑا دھوکا ہے جس کے پیچھے ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔
موت یقینی اور اکیلا سفر ہے جو ہر انسان کو اکیلے طے کرنا ہے ۔اس کے ساتھ نامۂ اعمال کے سوا کچھ نہیں جائے گا، نہ ہی اس کے ماں باپ نہ ہی احباب و اقارب ۔ موت انسان کا محافظ اور وفادار دوست ہے جو اپنے مقررہ وقت پر آکر اس کی روح قبض کر لیتی ہے ، لہٰذا موت کی تیاری لازمی ہے ۔ انسان کو ہر سانس لیتے وقت یہ دل میں رکھنا چاہئے کہ ابھی موت آئے گی ،تب جاکے انسان دنیا کی لذتوں کو چھوڑکر آخرت کا فکر مند رہے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “لذتوں کو توڑنے والی چیز (موت) کو کثرت سے یاد کرو” یعنی موت یاد کرنے سے دنیا کی اِن لذتوں کو بدمزہ کردو تاکہ ان کی طرف طبیعت مائل نہ ہو اور تم صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اللہ اپنے بندوں کو مختلف مرحلوں اور حالات سے گزاتا ہے کبھی غم اور خوشی دے کر، کبھی بڑھاپا اور کبھی جوانی دے کر تاکہ وہ دیکھے کہ میرا شاکر بندہ کون ہے اور ناشکری کرنے والا کون ہے؟ اور کون مجھے یاد کرتا ہے اور کون بھلا بیٹھا ہے؟ کون مصیبتوں پر صبر کرتا ہے،کون نہیں؟ اور وہ لوگ نادان اور احمق ہیں جو مصیبتوں کے آنے پر ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں اور عقلمند انسان کبھی ایسا احمقانہ کام نہیں کرے گا کہ اُس پر مصیبت آئےتو وہ خود کو اللہ کے سامنے رگڑنا شروع کر دے اور جب مصیبت ٹل جائےتو اللہ کو بالکل ہی بھول جائے۔ ایک انسان کی زندگی چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، آخرکار ختم ہوہی جاتی ہے اور جو ابدی زندگی ہے، وہ آخرت ہے ۔ لہٰذا انسان کو اس زندگی کیلئےسامان تیار کرنا چاہیے جو اصلی ہے ۔ انسان کی روح جب نکالی جاتی ہے تو اس پر اسی وقت قیامت آتی ہے اور اصلی گھر کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ وہ اس میں تبدیلی لائے ۔لہٰذا انسان کےلیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہر لمحے کو بھلائی اور نیک کاموں میں گزارے تاکہ جنت اس کو حاصل ہوجائے اور عذاب الہٰی سے بچ سکے ۔
آپ کے خطاب سے قبل ان حضرات نے بھی اصلاح معاشرہ،اصلاح عقائد واعمال اور جملہ ارکان اسلام بالخصوص نمازپنجگانہ کی پابندی اور اس کی اہمیت وفضیلت پر مشتمل تقاریر کیں!
ادیب شہیرحضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، حضرت مولاناشاہ میر صاحب سکندری صدرالمدرسین:دارالعلوم قادریہ فیض سکندریہ جیسلمیر،حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری،
نائب صدر:دارالعلوم انوارمصطفی سہلاؤشریف-
قاضیِ ریوڑی حضرت مولانا صوفی عبدالکریم صاحب سکندری نیگرڑا-

نظامت کے فرائض حضرت مولاناالحاج محمدپٹھان صاحب سکندری سابق صدرالمدرسین: دارالعلوم فیض راشدیہ سَم، جسلمیر نے بحسن وخوبی نبھائی-
جب کہ خصوصی نعت خوان کی حیثیت سے قاری امیرالدین صاحب سکندری نے شرکت کی-

اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
مولاناباقرحسین صاحب قادری انواری،قاری محمدعباس صاحب سکندری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناریاض الدین سکندری انواری،قاری عبدالسبحان صاحب سکندری خطیب وامام: جامع مسجد ریوڑی،مولاناعبدالکریم گلزاری خطیب وامام:جامع مسجد متؤں کی ڈھانی،قاری محمد عرس سکندری انواری،ماسٹر محمدیونس صاحب جبکہ ہزاروں کی تعداد میں عوام اہل سنّت بالخصوص سکندری جماعت کے لوگوں نے شرکت کر کے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت وایصال ثواب کیا-
۔
آخر میں مرحوم کے حق میں اجتماعی فاتحہ خوانی ہوئی،اور صلوٰة وسلام ودعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی!

رپورٹر:محمدانور علی سکندری انواری بن عبدالملوک
متعلم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

محترمہ مسکان صاحبہ کے نام۔۔۔۔۔!!!⁦✍️⁩ آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ] 6306397662📲

عزیزم محترمہ مسکان صاحبہ سب سے پہلے میں آپ کی ہمت و استقلال کو داد و تحسین دیتا ہوں۔ کہ تن تنہا شیرنی بن کر کیسے ان گیدڑ بھبکیوں پر دہاڑا تھا، آج بھی وہ منظر نگاہوں کے نہاخانے میں ان مٹ ہیولیٰ بن کر گردش کررہا ہے۔ یقیناً آپ کے والدین بھی لائق مبارکباد ہیں، جنھوں نے نازیبا حالات کے دھارے کو موڑنے کا سنہرا ہنر سکھایا ہے۔ آپ کی غیرت و حمیت نے صنف نسواں میں نئی روح پھونک دی۔ قوم مسلم کی بچیوں کے لیے آپ ایڈیئل ہی نہیں بنی ہیں بل کہ باب نسواں میں ہمت و بہادری کے حوالے سے ایک اور سنہرے نام کا اضافہ ہو گیا ہے، تاریخ ہند کو جس پر ناز ہے۔ پوری دنیا سے آپ کے جزبات کو خوب پزیرائی مل رہی ہے، یہی آپ کی جیت کی نشانی ہے۔ دور حاضر کے اندر تاریخ نسواں کے باب میں کہیں کہیں ایسی ہستیوں کا ذکر ملتا ہے جو تن تنہا دشمنوں کے نرغے میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلک شگاف نعرے بلند کرکے انہیں مبہوت کردیا ہو۔ ورنہ تو اکثر بچیاں ایسے ماحول میں اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں، انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب ایسی صورت حال مجھے کیسا کردار اپنانا چاہئے۔ آپ کی جرأت و بہادری نے ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر فخر کا غازہ باندھا ہے ۔ کیوں کہ آپ بے سروسامانی کے عالم میں صبر کے ساتھ ہمت و استقلال کی ایسی جبل شامخ بنی رہیں جسے دیکھ کر پوری دنیا کا ہندو سماج ذلت و پستی کے بہت نچلے پائیدان پر پہنچ چکا ہے۔ اور ان کے خانۂ قلب میں برابر زلزلہ برپا ہے۔ اس دور پر آشوب میں مسلمانوں کے حالات پس پشت نہیں ہیں تو ایسی صورت حال میں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی بچیوں کو آپ کے حوصلے سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کبھی خدا نخواستہ زعفرانی آتنکی سے مڑبھیڑ ہوجاۓ تو مسلم بچیاں احساس کمتری کا شکار ہوکر اپنے حوصلے کو مجروح نہ کریں بل کہ حالات کے اعتبار سے مکمل ہمت و بہادری سے کام لیں، جیسا کہ محترمہ مسکان صاحبہ نے کر دکھایا۔ یہی وجہ تھی کہ خاص و عام سب نے عزت و شرف کا سہرا ان کے سر پر باندھا ۔ محترمہ مسکان صاحبہ لوگوں نے اپنے اپنے ذوق و شوق اور ظرف کے اعتبار سے مبارک بادیاں دے کر مزید آپ کے حوصلے کو بلند کئے۔ اس وقت ہند و پاک نیز دگر ممالک کے نیوز چینلوں کی کیفیت واقعی قابل دید تھی۔ قوس و قزح کی طرح متنوع قلم کاروں کی تخلیقات بھی واقعی قابل مطالعہ تھی۔ ین آر سی کے خلاف ثابت قدم اور سینہ سپر ہوکر حکومت کے جبڑے اکھاڑنے والی حوصلہ مند مسلم خواتین کے بعد میرے علم کے مطابق آپ (مسکان) پہلی شہزادئ اسلام ہیں، جنھوں نے زعفرانی حکومت کے پلوں کو دن میں تارہ دکھائی ہیں۔ محترمہ مسکان صاحبہ اس مصرعے سے آپ کے شوق جنوں کو سلام کرتاہوں۔ ع وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل جہاں ہیں فاطمہ و عائشہ کے نقش قدم

دارالعلوم رضائے مصطفیٰ ممبرا کے ایک ۱۲ سالہ طالب علم محمدعثمان نے ایک نشست میں مکمل قرآن سنایا-✒️محمدشریف القادری اشفاقی بہرائچی!صدرالمدرسین:دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاندنگر،کوسہ،ممبرا، ممبئ[مہاراشٹر]

ممبئ مہاراشٹر میں واقع دارالعلوم رضائے مصطفیٰ چاندنگر،کوسہ،ممبرا کے شعبۂ حفظ کے ایک کم سن ہونہار طالب علم حافظ محمد عثمان بن امیر احمد ساکن:سرائےقاضی بہرائچ شریف(یوپی)نے دارالعلوم کے سربراہ حضرت حافظ وقاری باب السلام صاحب قادری کی سرپرستی اور اپنے استاذ خاص حضرت حافظ وقاری محمدشریف القادری اشفاقی بہرائچی وحضرت حافظ وقاری محمدسعود رضاقادری کی نگرانی اور دارالعلوم کے دیگر اساتذہ وطلبہ کی موجودگی میں ایک نشست میں مکمل قرآن پاک سناکر اپنے اساتذہ اور والدین کا سر فخر سے اونچا کردیا-اللّٰہ تعالیٰ عزیزم حافظ محمدعثمان سلّمہ کو مزید علوم دینیہ کے حصول کی توفیق سعید بخشے-حافظ محمدعثمان نے صبح آٹھ بجے سے پوراقرآن پاک ایک نشست میں سنانا شروع کیا اور بحمداللّٰہ محض ایک غلطی کے ساتھ شام ساڑھے چھ بجے تک پورا قرآن پاک مکمل کردیا-اس موقع پر دارالعلوم میں فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا گیا جس میں دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ نے خوشی کا اظہار کرتے حافظ محمدعثمان کو مبارکباد پیش کی اور ان کے تابناک مسقبل کے لیے دعاؤں سے نوازا- ازیں قبل دارالعلوم رضائے مصطفیٰ کے ایک اور طالب علم حافظ محمد شاہد بھی ایک نشست میں مکمل قرآن سنانے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، جب کہ ان شاءاللّٰہ العزیز دارالعلوم کےایک اور خوش نصیب وہونہار طالب علم ۱۷ فروری ۲۰۲۲ء کو ایک نشست میں مکمل قرآن سنانے کا شرف حاصل کریِں گے- یقیناً قرآن پاک کا حافظ ہونا بہت ہی اکرام و اعزاز کی بات ہے،کل قیامت کے روز حافظ قرآن اور حافظ قرآن کے والدین کو امتیازی مقام ومرتبہ عطا کیا جائےگا اور اعزاز واکرام سے نوازا جائے گا-اس مجلس میں امت مسلمہ کے لیے دعائے خیراور ملک وملت کے فلاح و بہبود کی دعا کی گئی-

ہاں! ہم نے بھی نقاب میں انقلاب دیکھا ہے۔ از، آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662/9161943293

روۓ زمین انقلاب برپا کرنے والوں سے خالی نہیں ہے۔ مرد و زن سے لے کر ننھے بچوں اور بچیوں تک سب نے اپنی اپنی قوت فکر سے انقلاب کی تاریخ رقم کی ہے۔ لیکن مسلم انقلاب ہمیشہ امتیازی شان و شوکت والا رہا ہے۔ حال فی الحال میں “مسکان” نامی طالبہ نے تن تنہا دشمنان اسلام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو صداۓ “اللہ اکبر” بلند کی ہے ایوان کفر تو ایوان کفر ہے کافروں کے کلیجے تک میں بھی زلزلہ برپا ہوگیا۔ زعفرانی گیدڈ بھبکیوں کی ریوڑ میں اب اتنی سکت نہیں بچی تھی کہ اس جرأت و استقلال کے جبل شامخ سے مقابلہ کر سکیں‌۔ تاریخ اسلام میں ایسے ہزاروں کم سن بچے اور بچیوں کی بہادری کی تاریخ ملتی ہے کہ عین حالات جنگ میں چشم زدن میں ان کے ناپاک ارادوں کو خاکستر کر کے رکھ دیا ہے۔ اور آئیندہ اس طرح کی ہزاروں مسکان صفحہ دہر پر جنم لیتی رہیں گی۔ تاکہ کفر کو اپنی اوقات کا علم ہوتا رہے۔ ایسی ان گنت خواتین کا ذکر اوراق تاریخ میں آپ زر سے رقم شدہ ملتا ہے کہ مسلم خواتین نے نا صرف حجاب میں رہ کر تعلیم و تعلیم جیسے اہم مشغلہ کو جاری رکھا، بل کہ زمام حکومت کے ساتھ تخت شاہی پر بھی جلوہ افروز ہوئی ہیں۔ اور مکمل شاہی آن بان شان کے ساتھ ضابطۂ سلطانی کو عدل کے ساتھ چلاتی رہیں۔ اور وقت پڑنے پر حجاب کے ساتھ دوسرے ممالک کا دورہ بھی فرمائی ہیں۔”ریاست بھوپال کی نواب سلطان جہاں بیگم نے حجاب اور پردے میں رہ کر بے مثل و بے مثال حکومت کی۔ آپ کی تعلیمی لیاقت کا ندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کی پہلی وائرس چانسلر بننے کا تمغہ حاصل کیا۔ یہیں پہ بس نہیں بل کہ آپ کی دینی خدمات کا جزبہ بھی حجاب اور پردے میں پروان چڑھا، آپ بھوپال میں لال مسجد اور موتی مسجد نامی بڑی حسین و جمیل خانۂ خدا تعمیر کروائیں جو آج بھی اپنی اصل ہیئت پر قائم ہے۔” زعفرانی آتنک وادیوں کو چاہئیے کہ پہلے ہماری تاریخ کا مطالعہ کریں پھر کہیں سوالیہ نشان لگائیں۔

واہ! حرکت وعمل کی تصویر بننا کوئی آپ سےسیکھے۔(یقیناً لائق مبارکباد ہیں سہ ماہی پیام بصیرت کے علماء)آصف جمیل امجدی {انٹیاتھوک،گونڈہ} 6306397662

اقوام عالم میں یہ نایاب روش صدیوں سے اصحاب قرطاس و قلم اور تاریخ نویسوں کی مرہون منت رہی ہے۔ کہ قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے جن بااثر شخصیتوں نے اپنی رفاہی خدمات کی بدولت ان مٹ نقوش قدم کو اپنے اصحاب کے دلوں پر مہر ثبت کیا، تو ان کی ذات و ستودہ صفات کو تابندہ رکھنے کے لیے اسلاف شناسی کا ایک جہاں آباد کردیا ہے، تاکہ نسل نو ان کی شش جہات شخصیت سے بھر پور استفادہ حاصل کر سکے۔ (اور یہ حسن عمل صبح قیامت سے چلتا رہے گا۔) اسی راہ مستقیم کے مسافر “سہ ماہی پیام بصیرت” کے کاروان قرطاس و قلم بھی ہیں۔ جن کی ملی، اصلاحی اور اسلاف شناسی کی خدمات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم و ملت کے لیے شب و روز کس قدر کوشاں رہتے ہیں۔ جماعت رضائے مصطفے شاخ سیتامڑھی کے زیر سایہ سہ ماہی پیام بصیرت حضرت مولانا محمد فیضان رضا علیمی صاحب مدیر اعلیٰ و مولانا محمد عامر حسین مصباحی صاحب نائب مدیر اور مولانا محمد شفاء المصطفی مصباحی صاحب معاون مدیر نیز مجلس ادارت علمی ٹیم کے دیرینہ خواب بنام “حیات خواجہ کی ضیاباریاں” گزشتہ سال عرس خواجہ کے حسیں موقع پر شرمندہ تعبیر ہوکر آج بھی بارگاہ خواجہ غریب نواز میں عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کررہا ہے۔جسے حلقۂ ارباب و دانش میں خوب پزیرائی ملی۔ اس دور ترقی میں ہر مشکل محاذ پر ذرائع ابلاغ کی فراوانی نے صرف آرام اورسہولت ہی فراہم نہیں کی ہے بلکہ کام کو برق رفتاری سے کرنے کی مستحکم فکر بھی عطا کی ہے۔اسی کو غنیمت جانتے ہوئے سہ ماہی پیام بصیرت کے متحرک علماۓ کرام نے ایک ضخیم مجلہ بنام “جہان فقیہ اسلام” جلد ہی دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مذہب اسلام کی متعدد عظیم المرتبت شخصیتوں کی حیات و خدمات پر مشتمل قارئین کی مطالعاتی میز پر پیش کرنے میں نایاب کامیابی حاصل کرنے جا رہے ہیں۔(خدا کرے مقبول بارگاہ علماء ہو) یہیں پر بس نہیں بل کہ ماضی قریب میں وفات پانے والی تین اہم شخصیت (کنزالدقائق مفتی حسن منظر قدیری صاحب، فقیہ اہل سنت استاذ مکرم مفتی آل مصطفے مصباحی صاحب، اور معمار قوم وملت علامہ شبیہ القادری علیہم الرضوان) پر ایک خصوصی سہ ماہی رسالہ منظر عام پر لانے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے بحمدہ تعالیٰ۔ قارئین کرام اس رسالے میں مذکورہ عظیم شخصیت کی خدمات دینیہ و ملیہ سے متعلق ماہر قلم کاروں کی تخلیقات کو کشادہ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرماکر اپنے خزان علم میں مزید اضافے کا سبب گردانیں گے(ان شاءاللہ)۔”حیات خواجہ کی ضیابار یاں” : آج جملہ کاروبار سے لے کر تعلیم و تعلم تک جمیع اشیاء ڈیجیٹل ہوتی چلی جارہی ہیں۔آنے والا وقت خدا ہی بہتر جانے کیسا ہوگا۔ ڈیجیٹل دنیا کی کہکشاؤں میں میں اپنے تعلیم و تعلم کے حوالے سے مصروف عمل تھا تبھی مذکورہ رسالہ قندیل فروزاں بن کر میری زندگی کو مزید رمق عطا کردیا۔ ٹائیٹل ورق قوس و قزح کی طرح متنوع دیدہ زیب رنگوں سے مزین ہے جسے دیکھ کر ہی پڑھنے کا دل کرنے لگے۔خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی تبلیغ دین اور فروغ نظام مصطفیٰ کے حوالے سے آپ کی حالات زندگی کو مختلف موضوعات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔(1) حضرت خواجہ غریب نواز نے وادئ کفر و شرک کو ضیاء ایمان سے منور فرمایا۔(2) حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی درویشانہ زندگی کی رمق ۔(3) خواجہ غریب نواز تاریخ کے آئینے میں۔(4) ایک فقیر! دنیا جسے کہتی ہے سلطان۔ (5) اور آپ علیہ الرحمۃ کی تبلیغی مشن کے حوالے سے حضرت علامہ و مولانا مفتی وجہ القمر رضوانی(اڑیشا) کی ایک بصیرت آمیز نایاب تحریر بھی شامل اشاعت کی گئی ہے۔ جس کا ایک چھوٹا اقتباس نظر قارئین کر رہا ہوں، تاکہ عشق خواجہ سے دلوں کو جلا ملے۔”اہل ہند کی زبوں حالی پر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اس کی بیدار بختی کا سامان ارض بطحاء کے شہنشاہ عرب و عجم کے رہنما سید الانبیاء کی بارگاہ ناز وعرش ذی جاہ میں فروکش معین الدین کی صورت میں ہویدا ہوا۔حضرت خواجہ کے لیے وہ لمحات نہایت بیش قیمت جاں بخش اور کیف آگہی تھے جو جوار رحمت کے قریب میں گزر رہے تھے۔ عاشق رسول کے لیے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری سے زیادہ مسرت خیز لمحہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی دوراۓ ہے ہی نہیں کہ حضرت معین الدین ایک بہت ہی عالی مرتبت خدا رسیدہ ولی کامل، درویشی میں باکمال ملک و قوم کے بہترین مبلغ اور مصلح تھے۔انہی کی جد و جہد اور کاوش کا نتیجہ ہے۔کہ ارض ہند پر مساجد کے مینارے نظر آتے ہیں۔جہاں سے روزآنہ نماز پنج گانہ کے لیے صداۓ اذان بلند ہوتی ہے۔ آپ نے کفر و نفاق کی رو سیاہی پر اسلام کا تابندہ غازہ مل دیا۔ شرک و بت پرستی کے جاہلانہ طوفانی زد پہ شمع اسلام فروزاں کیا۔ اوہام کے پجاریوں کے دلوں کو نور ایمان سے منور و مجلی کردیا۔عشق نبی کا ایسا مست و شیریںجام پلایا کہ جو تیری بزم سے اٹھا سرشار اٹھا،کیا بتاؤں وہ کن کن خوبیوں کے حامل تھے۔ جو زمین سے آۓ تھے وہ خوبیوں والے آقا کے جوار آمین سے بہت ساری خوبیاں لے کر آۓ تھے۔

دبئی میں ہندوستانی مسلمان لڑکیوں کی حالت پر صلاح الدین انصاری کی رپورٹ

میں نے لڑکیوں کو دبئی ٹور کے دوران ہوٹلوں ، ریستورانوں ،ڈانس ہالوں میں کام کرتے دیکھا ، جب بھی میں ان سے بات کرنے کی کوشش کرتا ، وہ خوفزدہ ہو جاتیں کہ رات کو باہر جاتے وقت ان کے ساتھ 1-2 نگراں موجود تھے ، میں نے کئی بار کوشش کی ، پھر میں نے ایک پٹھان ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے نگراں کو کچھ رقم دے کر ان لڑکیوں سے بات کرنے پر آمادہ کیا۔

اور ہم 1 انڈین ریسٹورنٹ ساگر رتنا میں ملے تمام لڑکیاں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اچھے مسلمان خاندانوں سے ہیں اور کسی نے اپنے خاندان سے بغاوت کی تھی اور اپنے گھر سے زیورات اور نقدی چرا لی تھی اور اپنے ہندو عاشق کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور کچھ مہینے اپنے عاشق کے ساتھ گزارےتھے۔ دبئی جانے کے لیے ہندو لڑکوں نے ان کو رات رکھنے کے بعد بیچ دیا تھا۔ کچھ نے بتایا کہ اس کا ہندو شوہر دبئی میں ہی کام کرتا ہے اور اسے ساتھ رکھنے کے لیے لایا تھا لیکن اسے یہاں بیچ دیا گیا۔

ان میں سے 3 ایسی لڑکیاں تھیں جنہیں ایک ہی ہندو لڑکے نے مختلف جگہوں پر شادی کرنے کے بعد یہاں بیچ دیا ، ان لڑکیوں نے بتایا کہ ہمارے علاوہ بھی بہت سی لڑکیاں ہیں جو حوس کے گھروں میں مختلف ہوٹلوں میں جہنم کی زندگی گزار رہی ہیں۔ زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ انہوں نے گھناؤنا جرم کیا ہے۔ اور وہ سب اس کی سزا کے طور پر جہنم بھگت رہی ہیں۔

میں نے ان سے ہندوستان میں اپنے گھر واپس جانے کو کہا پھر سب نے انکار کر دیا ، اب ان کے لیے بھارت میں کچھ نہیں ، نہ ہم خاندان اور معاشرے کو اپنا چہرہ دکھانے کے قابل ہیں ، اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ تھا جس سے جینا اور کھانا کرسکتے۔اب ھم کو اس جہنم میں رہنا ہے اور پھر اللہ جانتا ہے کہ جب عمر ختم ہو جائے گی تو کیا ہوگا۔

تقریباً تمام لڑکیوں نے اپنی پڑھائی بھی مکمل نہیں کی،اسکول کالج کی پڑھائی کے دوران پیار ہو گیا اور ہندو لڑکوں سے شادی کر لی، حالانکہ پورے ہندوستان کی لڑکیاں ان غیر مذہبی دہشت گردوں کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں ، لیکن زیادہ تر اتر پردیش سے آئی ہیں۔ . 1 لڑکی دہلی کے ایک مسلمان سرکاری افسر کی بیٹی تھی ، اور زیادہ تر لڑکیاں مسلم انصاری معاشرے سے تھیں ، حالانکہ یہ تمام لڑکیاں نام کے لیے ہوٹل-ریسٹورنٹ بار میں کام کرتی تھیں ، لیکن وہاں آنے والے گاہکوں کو خوش رکھنے کے لیے تھی۔ کاروبار کرنے پر بھی پابند تھی،

دہلی کی 2 لڑکیاں میری درخواست پر اپنے خاندان کا پتہ اور فون نمبر دینے پر راضی ہو گئیں۔ میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا کہ آپ کا خاندان آپ کو قبول کرے گا اور آپ اس جہنم سے باہر آئیں اور اپنے خاندانوں کے ساتھ ہندوستان میں واپس رہیں۔ میں ان کے اہل خانہ سے ملنے دہلی گیا۔ اور ان کو ان کی بیٹی کی حالت سے آگاہ کیا لیکن دونوں کے خاندان نہیں چاہتے کہ لڑکیاں واپس آئیں۔ وہ اب ان کے لیے مر چکی ہیں۔ یقینا روح پہلے ہی مر چکی ہے۔ لیکن جسم زندہ ہے

میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ اپنے گھروں کے بچوں کے اردگرد ایسی درندوں کو منڈراتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ ہوشیار رہیں اور بچوں کو بھی آگاہ کریں ، تاکہ ہماری بیٹیاں ان دہشت گردوں کے جال میں نہ پھنسیں۔

صلاح الدین انصاری

یہ افسانہ نہیں سچی کہانی ہے۔

پردہ بری نظروں کے لئے آہنی دیوار ہے۔ عالمہ صدیقہ بانو امجدی

مہراج گنج(شبیر احمد نظامی ) شان سدھارتھ

جامعۃ الصالحات گرلس کالج مغلہا بھگیرتھ پور کی صدر معلمہ عالمہ صدیقہ بانو امجدی نے حالیہ دنوں پردے کے متعلق کرناٹک کے کالجز میں ہو رہے تنازع کی شدید مذمت کی اور کہا کہ پردہ بری نظر والوں کے لئے آہنی دیوار ہے۔ جو پراگندہ افکار و نظریات کے حامل افراد ہیں وہ بے پردگی کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن پردہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک ضروری چیزوں میں سے ہے۔ غیر مسلم عورتیں پردے کے لئے گھونگھٹ اختیار کرتی ہیں۔ لیکن اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حجاب (پردہ) ضروری قرار دیا ہے۔
عالمہ ام حبیبہ ضیائی نظامی بنت مولوی اسد علی نظامی چھتونا نے کہا کہ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے یہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ دستور ہند کے حصہ سوم دفعہ 25 میں تمام ہندوستانیوں کو مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ ہر ہندوستانی اس بات میں خود مختار ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مذہب کو قبول کرے اور ساتھ ہی ساتھ اس مذہب پر عمل کرنے کا اس کو پورا اختیار دیا گیا ہے۔ تو آخر سنگھی ذہنیت کے لوگوں کو اسلامی شعار پردے سے اتنی جلن کیوں ہے۔
عالمہ بشریٰ غیاث نوری معلمہ جامعۃ الصالحات گرلس کالج مغلہا نے کہا کہ اسلام مخالف طاقتیں آئے دن کسی نہ کسی اسلامی حکم اور اس پر عمل درآمد کو لے کر سر گرم رہتی ہے۔ مسلمانوں کو ہراساں کرنے میں نیز دینی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ فی الحال ان کی نظروں میں حجاب کھٹک رہا ہے۔ وہ اس پر پابندی عائد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ اسلام کی مقدس شہزادیاں اپنی اس دینی حکم کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی ہیں۔ مخالف جو بھی کوششیں کر لے اس کا منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کریں گی۔
عالمہ شگفتہ غیاث اختری نظامی بنت مولانا غیاث الدین خان نظامی مولا گنج نے حالیہ دنوں پردے کے تعلق سے معاملہ سرخیوں میں ہے۔ کرناٹک کے ایک کالج میں مسلم طالبات کو پردے کے ساتھ کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔ وہ طالبات اپنے امتحان کی دہائی دیتی رہیں لیکن انتظامیہ نے انہیں اجازت نہیں دی۔ آخر معاملہ کورٹ تک پہونچ گیا۔ کرناٹک کے مختلف کالجز کے انتظامیہ مسلسل کئی ہفتوں سے حجاب کو لے کر طالبات کو ہراساں کر رہی ہے۔ حالانکہ کہ ہندوستان کا آئین کسی بھی مذہب و مسلک کے لباس کے تعلق سے اجازت دیتا ہے اور کالج انتظامیہ کا اس طرح سے کرنا ہندوستان کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہوا۔
عالمہ انجم آرا امجدی بنت ماسٹر رعاب اللہ چھتونا نے کہا کہ پردہ صرف ایک معاشرتی و سماجی نظام نہیں بلکہ قرآنی حکم ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونا ہر اسلامی بہن پر لازم ہے۔ اسلام نے جو نظام و اصول بنائے ہیں ان کی حجاب یعنی پردہ نہایت اہم حیثیت کا حامل ہے۔

دینی تعلیم سے بےتوجہی :ایک لمحۂ فکریہ:- از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی ،خادم : ۔ دارالعلوم انو ار مصطفیٰ سہلاؤ شریف باڑمیر(راجستھان)

انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلم حقیقت ہے ،اس کی تکمیل کے لئے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے، خود پیغمبراسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے، یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ معلم انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے “(مشکوٰۃ ص /۳۴ )

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنا اور کونسا علم سیکھنا فرض ہے ؟ تو اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کرسکے، اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کر سکے ،اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کر سکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہوتاکہ ان سے بچا جا سکے۔ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے حلال و حرام میں فرق ہو سکے ۔اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد عورت کے لئے لازم ہے، جو درسگاہوں میں پڑھ کر مسجدوں و دینی جلسوں میں سن کر علماکی صحبت اختیار کر کے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہو سکتا ہے ،حاصل کلام یہ ہے کہ اتنا علم اور اتنی دینی تعلیم ہر مسلمان مرد وعورت کے لئےبےحد ضروری ہے جن سے دین پر صحیح طور پر عمل پیرا ہو سکیں اور شریعت کے مطالبات کو پورا کر کے نگاہ شریعت میں معتبر بن سکیں ،پھر خدا اور رسول ﷺ کے محبوب بندے اور غلام بن کر اپنی عاقبت سدھار کر زندگی گزار سکیں ۔

جس طرح ہر مسلمان شخص پر فرض ہے کہ وہ خود ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف ہو اسی طرح ہر مسلمان ماں باپ پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف کرائیں اور اس بابت بالکل غفلت نہ کریں کیونکہ والدین کے اوپر بچوں کے اہم حقوق میں سے ایک ان کو دینی و اسلامی تعلیم دلانا بھی ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی کی طرح کی غفلت وکوتاہی اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے اور دینی و اسلامی تعلیم سے محروم بچہ خود اپنے والدین کی اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن شکایت کرےگا اور ایسا بچہ والدین کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہوگا ۔

لیکن دور حاضر میں افسوس کی بات یہ کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلکہ ان کی اکثریت خود اسلامی تعلیمات اور اس کی اہمیت سے نا واقف ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں بہت سارے ماں باپ اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے لئے بہت زیادہ دوڑ بھاگ کر تے ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی اسکول، کالج اور یونورسٹی اور ساتھ ہی ساتھ ٹیوشن کا بھی الگ سے انتظام و اہتمام کر تے ہیں جب کہ دوسری طرف انہیں ماں باپ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم و تربیت کے تئیں بالکل ہی غفلت و بے توجہی کے شکار رہتے ہیں ، ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کےاوپر اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلانا بھی ضروری ہے ،بلکہ اولین فریضہ ہے، اور اگر ہمارے کچھ بھائیوں کو دینی تعلیم و تربیت کا کچھ احساس بھی ہے تو معمولی ،یہی وجہ ہے کہ وہ دینی تعلیم کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جتنی عصری تعلیم کو دیتے ہیں لہٰذا وہ دینی تعلیم پر اتنا خرچ بھی نہیں کرتے جتنا خرچ عصری تعلیم پر کرتے ہیں اور نہ ہی دینی تعلیم کےلئے الگ سے کوئی استاذ وغیرہ رکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں، جب کہ ایک مسلمان کا معاملہ اس کے بر عکس ہونا چاہیے کہ ہمیں دینی تعلیم کے بارے میں عصری تعلیم سے کچھ زیادہ ہی اہتمام اور توجہ دینی چاہیے ، کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں یہ ہماری سعادت کا باعث ہے، میرے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہ دلائیں یا اس سے انہیں محروم کر دیں، نہیں !بلکہ آج کے دور میں تو اس کی بھی سخت ضرورت ہے اورہر اس عصری علم کا طلب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے اور اسلامی سماج کے لئے مفید ہے جیسے انجینیرنگ ،فزکس، کیمسٹری، بائیلو جی ،طب ، فارمیسی، نرسنگ ،ریاضیات، کمپیوٹر وغیرہ بلکہ میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عصری تعلیم کی موجودہ ضرورت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر ظلم نہ کریں بلکہ اس کو عصری تعلیم سے بھی زیادہ اہمیت دیں اور خود اپنے اور اپنی اولاد کے اوپر دینی تعلیم سے غفلت برتنے کا ظلم نہ ڈھائیں-

دینی تعلیم سے بے توجہی: افسوسناک صورت حال:۔ آج دینی تعلیم سے بے توجہی و بے رغبتی بڑھتی ہی جارہی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں و عورتوں کے لئے فرض قرار دیاہو اور جس مذہب میں علم و حکمت سے پر قرآن جیسی کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی اقرا یعنی تعلیم سے ہوئی ہو اسی مذہب کے ماننے والے دینی و مذہبی تعلیم کے میدان میں پیچھے ہوں تعجب کی بات ہے ، قانونِ وراثت کو نصف علم بتانے والے رسول ﷺ کی امت میں اس کا علم رکھنے والے کھانے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔

کہتے ہیں کہ ”ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتا ہے “اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے …اگر گھر کے بڑے بزرگ ہی دینی تعلیم سے تہی دامن ہوں تو وہ اپنے نونہالوں کی کیا ذہن سازی کریں گے ؟ مسلمانوں کے گھروں میں دینی تعلیم کی کمی افسوسناک حد تک ہے، آج مسلمانوں اور ان کے بچوں کو قرآن و حدیث کے پڑھنے اور اس کے مطالعہ کی فرصت ہی نہیں ،لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر ہی نہیں کرتے جو زندگی گزار نے کے لئے ضروری ہے ،ہر طرف دیناوی علوم کے حصول کاشورہے …ہر فرد اسی تاک میں ہے کہ کیسے اعلی دنیاوی تعلیم حاصل کر کے نوکری (جوب ) کرلے اورزیادہ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرے… اسلام اسکی راہ میں حائل نہیں ہے، بےشک یہ بھی اچھی پیش رفت ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ دینی تعلیم توبنیاد ہے اور عصری تعلیم دیواریں ،بنیاد کے بغیر دیوار کا تصور احمقانہ تصور کہلائے گا ۔

دینی تعلیم سے غفلت کا انجام : موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان رفتہ رفتہ اسلامی تعلیم سے دوری اور بے زاری بڑھتی جارہی ہے، جب کہ اللہ وحدہ لا شریک نے ان افرادکی مذمت بیان کی ہے جو آخرت کے علم سے غفلت برتتے ہیں اور صرف دنیا کے ظاہری علوم سے واقف رہتے ہیں جیسا کہ اللہ عز وجل کا فرمان عالی شان ہے”یعلمون ظاہرا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون“ترجمہ: وہ تو دنیاوی زندگی کے کچھ ظاہر کا علم رکھتے ہیں جب کہ آخرت (کے علم ٌ) سے بالکل بے خبر ہیں (سورۂروم :۷) لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کفار کی طرح صرف دنیاوی علم کو اہمیت نہ دیں بلکہ سب سے پہلے لازمی دینی علم کو اہمیت دیں یا کم از کم دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھیں ۔

دینی علم سے غفلت برتنے والا اور محض دنیوی علم کو اہمیت دینے والا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اللہ عزوجل کی محبت سے محروم اور اللہ عزوجل کی ناپسندگی کا شکار بھی جیسا کہ رسول ْﷺ نے ارشاد فرمایا : ”ان اللہ یبغض کل عالم بالدنیا جاہل بامر الآخرۃ“ترجمہ: یقینا اللہ عزوجل ہر اس آدمی کو نا پسند کرتا ہے جو دنیا کا علم تو اپنے پاس رکھتا ہے لیکن آخرت کے علم کے بارے میں جاہل ہے (دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت اور حصول علم کے آداب ص/۲۱)

علم دین کی ضرورت کیوں؟ یہ ایک اہم سوال ہے ،صاحبان علم و دانش نے شرح و بسط کے ساتھ اس کے بہت سارے جوابات تحریر کئے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ علم دین کی ضرورت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے سمجھ میں آ رہا ہے ”وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون“(طور ۵۲/۵۶ ) ترجمہ : اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں …اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق عبادت کے لیے کی گئی ہے اور علم کے بغیر عبادت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے علم کا حاصل کرنا فرض ہوا ۔ نیز قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اپنے محبوب ﷺ کی پیروی کا حکم فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے”ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا “ترجمہ : جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آدمی کے پاس دینی تعلیم نہیں ہوگی تو وہ نہ تو آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنا سکتا ہے اور نہ ہی منع کی ہوئی باتوں سے خود کو روک سکتا ہے ، اس لیے ضروری ہوا کہ علم حاصل کرے تاکہ حضور ﷺ کی اتباع و فرماں برداری کر سکے ( علم دین کی اہمیت ص/ ۵ )

دینی تعلیم سے بیزاری کیوں؟ آج ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مظبوطی سے قائم ہیں اور ہم مسلمان بحیثیت مسلمان کہا ں جارہاہے ہیں ؟ ہماری منزل کہاں ہے؟ ہمارا انتخاب کیا ہے؟ ہمارا نصب العین کیا ہے؟ اور کیاہونا چاھئے کچھ پتہ نہیں ،دینی تعلیم سے بےزاری کا گلہ کس سے کیا جائے ؟کیاہماری بربادی، تنزلی اور مغلوبیت کا باعث دینی علوم کا ترک نہیں ہے ؟ہم نے یہ سوچنا کیوں چھوڑ دیا کہ دینی تعلیم ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی سے تنگ و تاریک دل کشادہ اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ہم یہ خیال کیوں نہیں کرتے کہ دینی تعلیم کی بساط پر ہی ہماری دنیا وآخرت سنور سکتی ہے۔ ہم کیوں نہیں یقین کرتے کہ دینی تعلیم کے بل پر ہی ہماری نیا منجھدار سے نکل کر ساحل سکون پر لگ سکتی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اللہ عزوجل کے فضل سے روزی روٹی کا مسئلہ بھی اس سے حل ہو جائے گا ۔ ہم دینی تعلیم کے بغیر شریعت کے تقاضے ،مطالبات اور پیغامات کو کیسے سمجھیں گے ؟کیا ہمیں قرآن کو قرٓآن کی طرح پڑھنے کی فکر نہیں کرنی چاہئے ؟کیا ہم دینی تعلیم کے بغیر نماز و روزے او ردیگر عبادات کی روح کو سمجھ سکتے ہیں ؟کیا ہم دینی علوم کے بغیر حلال و حرام کے درمیان صحیح فرق کرسکتے ہیں؟ نہیں !ہر گز نہیں۔ اس کے باوجود قوم مسلم دینی تعلیم سے بیزار کیوں ہے ؟جب کہ قوم مسلم کی دینی تعلیم سے بے توجہی و بےزاری کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک پوری نسل ہی دین سے ہی بے زار نظر آتی ہے، ان کو اپنے دین کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہے، وہ صرف نام کے مسلمان ہیں، خوف ِخدا ان کے اندر سے مفقود ہے ، فرائض پر عمل کرنا ان کے لئے بارگراں ہے چہ جائے کہ وہ سنتوں اور نوافل پر عمل پیرا ہوں ،اور دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو سمجھیں اور علم دین خود سیکھیں اور اپنے بچوں اور متعلقین کو بھی ضروری و بنیادی دینی تعلیم دلانے کے لئے اُتنی ہی محنت کریں بلکہ اس سے زیادہ محنت کریں جتنی محنت ہم عصری تعلیم دلانے کے لئے کرتے ہیں، اور دینی تعلیم کی نشرو اشاعت اور اسے گھر گھر پہچانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس جذبۂ محبت کے ساتھ کہ ؎

یہی ہے آرزوکہ تعلیم قرآں عام ہو جائے
ہر ایک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے

چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سےجہل کی تاریکیاں مٹائیں گے