WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives April 2022

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت،از:_ڈاکٹر شفیق جے ایچ

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت 💐💐💐

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر مینائی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کا ایک مجموعۂ نعتیہ کلام بنام “رحمت و نور کی برکھا” شائع ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم اڑیسہ بھی شائع ہوئی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ ہند اور بیرون ہند کے مختلف مشاعروں میں شرکت کر کے مقبول خاص و عام ہوئے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست بھی ہیں۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارئین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس عینی ؔ
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

عینی ؔ رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت عینی ؔ مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک عینی ؔ
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑیں گے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
عینی ؔ اگرچہ شور سکندر ہے ہر

پیش کش:

ڈاکٹر شفیق جے ایچ

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا، ✒کلیم احمد رضوی مصباحی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا

جب بیاں کرتا ہے آقا کی ثنا مرغِ خیال

کانوں میں رس گھولتا ہے خوش نوا مرغِ خیال

جلوہ گر ہوتی ہے بلقیسِ سخن میرے لیے

غیب سے لاتا ہے مضمونِ سبا مرغِ خیال

ہند سے دو گام ہے اس کے لیے طیبہ کا باغ

ہے مثالِ برق یا نازِ صبا مرغِ خیال

ہے ترا ممدوح، ممدوحِ خداۓ دوجہاں

بلبلِ سدرہ ہے تیرا ہمنوا مرغِ خیال

صاحبِ معراج چاہیں تو ہو معراجِ سخن

تا بہ قوسینِ ثنا پہونچے مرا مرغِ خیال

شانِ قمری جانِ بلبل رشکِ گلشن نازِ فن

سب لقب تیرے ہیں اے مدحت سرا مرغِ خیال

انکی چوکھٹ پرجو پہونچا، چہچہےگم ہوگئے

اللہ اللہ کس قدر ساکت رہا مرغِ خیال

فکر کے دریا میں جب غوطہ لگایا واہ واہ

گوہرِ توصیف لے کر آگیا مرغِ خیال

کس بلندی سے مضامینِ رفعنا لے لیا

آشیانہ ہے کہاں تیرا بتا مرغِ خیال

نغمہ ہاۓ نعت سے شاداب رکھتا ہے ہمیں

باعثِ ابر و بہارِ جاں فزا مرغِ خیال

تیرے لہجے مشکبو عنبر فشاں ہیں اس لیے

ان کی زلفوں پرہے تو دل سے فدا مرغِ خیال

گوش بر آواز ہوں وحش و طیورِ گلستاں

جب زبورِ رخ پڑھے شیریں نوا مرغِ خیال

شاخِ طوبیٰ پر یہ چہکے بلبلِ سدرہ کے ساتھ

ان کی رحمت سے ہو گر رفعت رسا مرغِ خیال

ظلمتِ شَب میں ہویدا ہوتا ہےنورِ سحر

لے کے جب آتا ہے تنویرِ حرا مرغِ خیال

شاخِ مدحت پر نجومِ عشق کھلتے ہیں کلیم

نورِ حق کے گیت گاتا ہے سدا مرغِ خیال

از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی بہار

ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن،،کلام، سید خادم رسول عینی

قرآن
۔۔۔۔۔۔

قرار قلب ہے مومن کی جان ہے قرآن
ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن

ہر ایک شئ کی حقیقت کا ذکر ہے اس میں
نہ سمجھو تم کہ فقط داستان ہے قرآن

ہے کائنات کا ہر علم اس میں ہی پنہاں
خدا کے فضل کا بین نشان ہے قرآن

ہر ایک دور میں ہر قوم کے لیے ہے مفید
ہدایتوں کا مکمل جہان ہے قرآن

عمر نے لایا تھا ایمان سن کے اک‌ آیت
یقین مانیے ایماں کی جان ہے قرآن

اسی کے تحت بناتے ہیں ملک میں قانون
جہاں میں آج بھی یوں حکمران ہے قرآن

تمھارے ذہن میں ترمیم کا نہ آئے خیال
ہے لازوال،‌ خدا کا بیان ہے قرآن

ضعیف ہو نہ سکے گی کبھی کوءی آیت
جواں رہیگا، جواں تھا، جوان ہے قرآن

بڑے‌ ہی شوق سے عثماں غنی نے دی ترتیب
وہ جانتے تھے کہ امت کی جان ہے قرآن

عبادت اس کی تلاوت ہے ، دیکھنا اس کا
یوں نیکیوں کا حسیں گلستان ہے قرآن

حروف ایسے ہیں اس میں کہ ہے شفا ان میں
کلام رب کا، نبی کی زبان ہے قرآن

وہ ہونگے معتزلہ جو کہیں اسے مخلوق
ہمارے واسطے رب کا بیان ہے قرآن

ہمیں ضلال کے خنجر بھی کاٹ سکتے نہیں
یقیں ہے “عینی” کہ حق کا نشان ہے قرآن
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

رحمت عالم اور شب قدر۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

قرآن کریم کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں :

            ”وما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم وما کان اللّٰہ لیعذبھم و ھم یستغفرون“(انفال /۳۳)

            ترجمہ :

اور اللہ کا کام نہیں کہ انھیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انھیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہوں
(کنز الایمان)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے کئی امتیں آئیں ۔ان میں سے اگر کوئی امت برائیوں میں مبتلا ہوئی اور باوجود تنبیہ کے اگر گناہوں سے باز نہ آئی تو اس پر خدائے قہار نے عذاب نازل فرمایا۔
کبھی سیلاب کی صورت میں عذاب نازل ہوا تو کبھی قوم بدکار کو بندر کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔
کبھی انھیں سمندر میں غرق کردیا گیا تو کبھی انھیں خوفناک بیماریوں میں مبتلا کیا گیا ۔
کبھی قحط سالی کا عذاب دیا گیا تو کبھی اموال و پیداوار میں کمی کی گئی۔
کبھی ایک سخت اور ہولناک آواز کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا گیا تو کبھی ان کی بستیوں میں پتھر کی بارش برسائی گئی۔

لیکن سرکار صلی اللہ علیہ کے وجود مقدس کی وہ برکت ہے کہ قرآن فرماتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم قوم میں موجود ہیں ، خدا عذاب نازل نہیں فرمائےگا۔

اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت کا باعث کہا گیا ہے۔قرآن خود فرماتا ہے:
وما ارسلناک الا رحمت اللعالمین
(الانبیاء/١٠٧)
ترجمہ :
اور ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
(کنز الایمان)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سارے عالم کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا صدقہ ہے کہ ہمارا نیلا سیارہ خوشگوار موسم سے مزین ہے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے روز اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا اور سب کو آزاد کر دیا۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا اثر ہے کہ بغیر تلوار کے زور سے، فقط تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ پورے عالم میں خدا کی وحدانیت کا پیغام پہنچ گیا اور لوگ اسلام کے پر سکون دامن میں سماتے گیے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہے کہ آپ کی امت کو کچھ راتیں ایسی دی گئیں جن کی برکت سے مسلمان خدا کی عبادت کرکے اور توبہ و استغفار کرکے پاک دامن ہوجائیں۔انھی راتوں میں سے ایک رات شب قدر ہے۔

آج سورج غروب ہونے کے بعد جو رات آنے والی ہے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔اس رات کی ہمیں قدر کرنی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنا ہے۔

اس رات کی شروعات کیسے کی جائے۔یہ رات شروع تو نماز مغرب کے وقت سے ہی ہوجاتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ جس نے شب قدر کو مغرب کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھی اس نے گویا آدھی شب قدر پالی۔پھر اگلا مرحلہ نماز عشا کا ھے ۔حدیث میں یہ بھی ہے کہ جس نے شب قدر میں نماز عشاء مسجد میں باجماعت پڑھی اس نے گویا شب قدر کا نصف حصہ پالیا۔ ویسے بھی ہر نماز فرض باجماعت پڑھنا واجب ہے۔لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نماز تراویح کے بعد نوافل کا اہتمام کریں ، لیکن اس سے پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھیں ۔مسجدوں کو آباد کریں ۔آج اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ ہم اس پابندی کے خلاف آواز ضرور بلند کریں ، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا کے چند ممالک آج بھی ایسے ہیں جہاں برسوں سے لاؤڈ سپیکر میں اذان کی پابندی چلی آرہی ہے، جیسے: آسٹریلیا۔لیکن یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ آسٹریلیا میں اگرچہ اذان لاؤڈ سپیکر سے نہیں ہوتی ، وہاں مسجد میں نمازیوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ہندوستان میں لاؤڈ سپیکر میں اذان دی جارہی ہے ، لیکن مسجد میں آکر نماز باجماعت پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اب بھی وقت ہے مسلمان فرائض اور واجبات کے پابند ہوجائیں۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت انھیں زیر نہیں کرسکتی۔

بہر حال ، آئیے پتہ لگاتے ہیں کہ شب قدر اس قدر اہمیت کی حامل کیوں ہے ۔

لیلۃالقدر کا مطلب ہے عظیم رات، عظمت والی رات ۔یہ رات اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس رات میں قران مقدس لوح محفوظ سے پہلے آسمان کی بیت العزت میں یک بارگی نازل ہوا، پھر حکمت خداوندی کے مطابق آیتیں زمین میں رفتہ رفتہ اترتی رہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
انا انزلناہ فی لیلۃالقدر
بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔

لیلۃالقدر کی عظمت کا اندازہ اس آیت سے ہوسکتا ہے:
لیلۃالقدر خیر من الف شھر
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر
اس کا مفہوم یہ ہے کہ شب قدر میں عمل کرنا ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو ۔
کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا اثر نہیں ہے کہ ہم ایک شب ہی عبادت کریں اور ہمیں تقریباً تیاسی سال کا ثواب ملے ؟ بیشک یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا پرنور اثر ہے ، کیونکہ بنی اسرائیل کے ایک شخص بنام شمعون نے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ایک ہزار مہینے تک عبادت کی تھی ۔حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام نے اسی برس تک اللہ کی عبادت کی۔ یہ اللہ کا بے پایاں احسان ہے کہ امت محمدی کے لیے سورہء قدر نازل فرمائی جس سے ایک مسرت‌ افزا مژدہ ملا کہ شب قدر میں اگر مسلمان اللہ کی عبادت کریں تو انھیں ایک ہزار مہینہ / تقریباً تیاسی سال کی عبادت کا ثواب ملےگا۔ یقینا” ہمیں یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ملی ہے۔

شب قدر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک فرشتے اور حضرت جبریل علیہ السلام زمین پر اترتے رہتے ہیں اور مسلمانوں اور نمازیوں کے لیے سلامتی کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سی رات شب قدر ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کو تلاش کیا جائے۔ اکیسویں ، تیسویں، پچیسویں، ستائیسویں ، انتیسویں راتوں میں سے کوئی بھی رات شب قدر ہوسکتی ہے۔لیکن ان تاریخوں میں سب سے زیادہ مشہور ستائیسویں شب ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شب قدر ستائیسویں شب کو ہے۔

چونکہ شب قدر بہت متبرک رات ہے ، اس لیے مسلمان اس رات مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں اور رات بھر خدا کی عبادت کرتے ہیں ، توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اپنے رب سے اپنی اور اپنے‌ اہل و عیال کی عافیت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔

شب قدر کے موضوع پر راقم الحروف کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

خدا کی خوشی کا وسیلہ شب قدر
بڑھاتی ہے نیکی کا جذبہ شب قدر

معاف اس میں ہوتے ہیں سب اپنے عصیاں
ہے فیض و کرم کا ادارہ شب قدر

زمیں پر اتر آتی ہے فوج قدسی
ہے تقدیس کا اک جزیرہ شب قدر

کرو دور آپس کے تم بغض و کینہ
نوازے گی تم کو زیادہ شب قدر

ہوئی عفو کی گونج‌ ہر ایک جانب
بنی موجب کیف عشرہ شب قدر

رہوگے اگر محو حمد و ثنا تم
خدا سے کریگی نہ شکوہ شب قدر

ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے عینی
ہے رب کا گراں قدر تحفہ شب قدر

افسوس کہ آج اپنے ملک عزیز کے ماحول کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائی جارہی ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔کبھی حجاب پر پابندی تو کبھی حلال پر۔ کبھی اذان پر پابندی تو کبھی مدرسوں کو بند کرنے کی سازش۔صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے سیکولرزم کے ڈھانچے کو ڈھا کر ملک کو کسی مخصوص دھرم کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ جب تک سیکولرزم تھا ، درست تھا ۔ جب تک سیکولرزم ہے ، درست ہے۔لیکن جب ملک کو کسی ایک مخصوص دھرم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں بھی جاگ جانا چاہیے، ہمیں بھی یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ اپنے ملک میں اسلامی حکومت ہو ، ہمیں بھی رب سے یہ دعا کرنا چاہیے کہ ملک میں اسلامی شریعت کا راج ہو ۔ آج یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کی جارہی ہے تو ہمیں یہ بھی منظور ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ کوڈ ہمارا ہوگا ، کوڈ شریعت اسلامی کے مطابق ہوگا ۔خدا بہت بڑا کار ساز ہے۔کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئیگی ان شا ء اللہ۔اسلامی حکومت کے لیے راہ ہموار ہوجائےگی ان شاء اللہ۔لیکن شرط ہے کہ ہم خود صاحب عمل اور صاحب کردار ہوجائیں، اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق سنوارلیں۔آج شب قدر ہے جو دعا کی مقبولیت کی رات ہے ۔آئیے ہم سب مل کر رحمت عالمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے رو رو کر ، خدا کے آگے گڑگڑا کر یہ دعا کریں :
یا اللہ اپنے ملک عزیز سے ظلم و ستم کا خاتمہ فرمادے۔
یا اللہ مسلم قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت فرما۔
یا اللہ مسلم قوم کو انسان نما درندوں کی درندگی سے محفوظ فرما ۔
یا اللہ مسلم قوم کے جان و مال اور ایمان کی حفاظت فرما۔
یا اللہ کاش کوئی ایسی راہ ہموار ہوجائے جس سے اپنے ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے اور امن و اماں کی فضا پھر سے استوار ہوجائے

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے
یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں
پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج
مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں
(سید عینی)

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

شبِ قدر.. از: سید خادم رسول عینی

شب قدر۔۔۔۔۔۔

براءے مسلماں ہے نعمت شب قدر

رضاءے خدا کی بشارت شب قدر

مسلمان کرتے ہیں مل کر عبادت

بڑھاتی ہے آپس میں ملت شب قدر

نزول کرم صبح تک ہورہا ہے

ہے اعلان امن و صیانت شب قدر

بڑے فخر اور ناز سے قدسیوں کو

دکھاتی ہے عابد کی عظمت شب قدر

کئی درجہ نیکی کا ہے اجر اس ‌رات

عبادت کو دیتی ہے برکت شب قدر

تری منزلت پر مکمل ہے سورہ

نہ کیوں پھر ہو تجھ سے عقیدت شب قدر

ہیں حامل تشکر کے احمد ضیاءی

کیا خوب قراں تلاوت شب قدر

اراکین مسجد کو بھی تہنیت ہو

کیا اہتمام جماعت شب قدر

کریں جستجو قدر کی رات “عینی “

ہے شان کریمی کی حکمت شب قدر۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan……

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan………………………….

For all of us benevolent month of Ramadan

, Full of divinity quotient month of Ramadan

Believer’s happiness and delight know no bounds

, To behold your moon the crescent month of Ramadan

This is one of the five pillars of great Islam,

To observe your fast incumbent month of Ramadan

The Spiritual rewards are getting multiplied,

In you sanctity is present month of Ramadan

The Quran was revealed on the day of Power,

In you this sacred day present month of Ramadan

You inculcate the discipline and self control,

You are truly an excellent month of Ramadan

The paradise is opened on your arrival,

“Aini” is also your adherent month of Ramadan…..

.By: Sayed khadime Rasul Aini

شب قدر کی اہمیت و فضیلت از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!

از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

یہ بات شریعت اسلامیہ کے مسلمات میں سے ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک نے ماہ و سال کا نظام بنایا اور کائنات میں مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے مقابلے میں شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا پھر عالم دنیا کے ہر ایک شعبہ کو آیت کریمہ ” فضلنا بعضھم علیٰ بعض ” کا مصداق بنایا- چنانچہ بعض مہینوں کو بعض پر اور بعض ایام کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اسی طرح بعض راتوں کو بعض راتوں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے جس سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں، بقول حضرت امام غزالی “سال میں 15 راتیں خیر کی تجارت گاہیں ہیں اور طالب آخرت تاجر ہے، اس لیے آخرت کے طالبین کو ان راتوں میں غافل نہیں رہنا چاہئے ورنہ نقصان ہوگا” انہیں 15 راتوں میں سے ایک مبارک و مسعود رات “شب قدر” بھی ہے جو اللہ رب العزت کی رحمتوں کا خزانہ اور برکتوں کا گنجینہ ہے اور کم از کم ایسی 30 ‘ہزار راتوں سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو-
شب قدرست طےشدہ نامہ ہجر
سلام فیه حتی مطلع الفجر

اور تو اور اس رات کو تقدیر ساز رات بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اسی رات میں قرآن مجید جیسی تقدیر ساز کتاب نازل ہوئی بقول شاعر

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں،جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گذری گویا اس نےتراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا،عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
اگر دنیا کے کسی سوداگر کو یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے قریبی شہر میں فلاں مہینہ اور تاریخ کو ایک ایسا میلہ لگنے والا ہے جس میں اتنی آمدنی ہوگی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزار گنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیر معمولی نفع ہوگا تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دےگا؟ اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر یوں ہی ضائع کردےگا؟ بلکہ عقلمند شخص وہی ہوگا جو اس اسکیم سے بھرپور نفع اٹھائے اور مستقبل کے لیے ذخیرہ اندوزی کی فکر کرے،بلکہ بتانے والے نے اگر تاریخ نہ بھی بتائی ہو تو کسی نہ کسی طرح وہ تاریخ کاپتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کرےگا اور اگر تاریخ میں کچھ شبہ رہ جائے تواحتیاطاً کئی دن پہلے اس جگہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دےگا-ٹھیک یہی حال اخیر عشرے کی طاق راتوں اور بالخصوص شب قدر کا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتیں اور مغفرتیں اپنے عروج پرہوتی ہیں،کوشش کرنے والے اپنی عبادت وریاضت اور اخلاص وطاعت کے ذریعہ حتی المقدور دامن مراد کو بھرلیتے ہیں، جب کہ غافل ولاپرواہ لوگ اس بے پایاں فضل وانعام کے باوجود محروم ونامراد ہوجاتے ہیں،غرض شب قدر بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے،یہ آسمانوں پر فرشتوں کے لیے عید کی رات ہے اور زمین پر انسانیت کے لیے معراج کمال کے حصول کی رات ہے،اس میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے اتھاہ سمندر پُرجوش ہوتے ہیں، پوری رات میں رحمت الٰہی کی برسات اور خیرو مغفرت کا نزول ہوتا رہتاہے، اطمینان وسکون کی خنک ہواؤں کے جھونکے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں،اس رات میں مردہ دلوں کو زندگی عطاکی جاتی ہے اور روحوں کی تاریک دنیا کو انوار وتجلیات سے جگمگادیا جاتا ہےاور جبرئیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں پھر شب بیداروں کو ان کاسلام ملتا ہےاور شیطانی القاء کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور شیاطین کے ہرقسم کے داؤ پیچ اور تگ ودو پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں شب بھر غیر معمولی روحانی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے،پھر کسی بھی صاحب خیر کو محروم نہیں کیا جاتا ہے-اس لیے اگر کوئی بندہ شب قدر کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک رات میں اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزاروں راتوں میں نہیں کرسکتا ہے-
شب قدر کو شب قدر کہنے کی وجہ:
1:امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنیٰ مرتبہ کے ہیں،چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ یعنی “شب قدر” کہا جاتا ہے۔(القرطبی‘ 20: 130)

2:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے،اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 130)

  1. اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ “اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی،یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے”۔(تفسیر کبیر‘ 32: 28)

4:قدر کا معنیٰ تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔(تفسیر الخازن‘ 4: 395)

5:امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے، اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 131)

یہ مبارک رات کیوں عطا ہوئی؟
اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی،جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔(موطا امام مالک، 1: 319‘ کتاب الصیام،باب ماجاء فی لیلة القدر،رقم حدیث: 15)

اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کیا تھا۔

فعجب رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم لذلک و تمنی ذالک لامته فقال یا رب جعلت امتی أقصر الامم الاعمارا و أقلها أعمالا فاعطاه ﷲ تبارک و تعالیٰ لیلة القدر.(تفسیر الخازن‘ 4: 397)

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سامنے مختلف انبیائے کرام حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یا محمد عجبت امتک من عبادة هولاء النفر ثمانین سنة ‘ فقد انزل ﷲ علیک خیراً من ذلک ثم مقرأنا اَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَة القَدْرِ فسر بذلک رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.
اے نبی محترم! آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی، اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 132)

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلۃ القدر عنایت فرما دی اور اس کی عبادت کو اسی نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا-

امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت:لیلۃ القدر فقط حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم.(الدر المنثور‘ 6: 371)
یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔

پہلی امتوں میں عابد کسے کہا جاتا تھا؟:مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا ،جو ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔

قیل ان العابد کان فیما مضی یسمی عابداً حتی یعبد ﷲ الف شهر عبادة، فجعل ﷲ تعالی لامة محمد صلی الله علیه وآله وسلم عبادة لیلة خیر من الف شهر کانوا یعبدونها.
سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کو یہ شبِ قدر عطا کر دی،جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔(فتح القدیر‘ 5: 472)

گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت محمدیہ کو نصیب ہوئی ہے۔

فضیلتِ شب قدر:احادیث کی روشنی میں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(بخاری،ج1ص626، حدیث:1901)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرّحمہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں: رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص134)

علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا۔(فیض القدیر،ج6ص248،تحت الحدیث:8902ماخوذاً)
مذکورہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر، عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا، چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان هذا الشهر قد حضرکم و فیه لیلة خیر من الف شهر من حرمها فقد حرم الخیر کله ولا یحرم خیرها الا حرم الخیر.

یہ جو ماہ تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے،جو ہزار ماہ سے افضل ہے،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعةً محروم ہو۔(سنن ابن ماجه: 20‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1644)

ایسے شخص کی محرومی میں کیا شک ہو سکتاہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا؟-

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اذا کان لیلة القدر نزل جبرائیل علیه السلام فی کبکة من الملئکة یصلون علی کل عبد قائم او قاعد یذکر ﷲ عزوجل.

شب قدر کو جبرائیل امین علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے، بیٹھے (یعنی کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔(شعب الایمان، 3: 343)

شبِ قدرکب ہوتی ہے؟
قارئین کرام: اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی مَشِیَّت (مرضی)کے تَحت شَبِ قَدر کوپوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا ہمیں یقین کےساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث: 2017) ”فیضانِ رمضان“ صفحہ199 پر ہے:اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالیٰ علیہم اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے، تاہَم بھاری اکثریَّت [اکثرصحابۂ کرام اور جمہور علماءِ کرام] کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے۔ (مسلم،ص383،حدیث:762)
سیدالمفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی نظریہ ہے آپ نے اپنے اس نظریہ پر کئی دلائل پیش کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ “تنزل الملٰئکة والرّوح فیھا” میں “فیھا” (مراد:شب قدر ) سورۂ قدر کا ستائیسواں کلمہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے- اور بعض علماء نے ستائیسویں شب میں شب قدر ہونے پر علم حساب سے بھی استدلال کیا ہے وہ اس طرح کہ لیلة القدر میں کل نو حروف ہیں اور سورۂ قدر میں لیلة القدر کا تذکرہ تین مرتبہ ہوا ہے، اب اگر ۹/ کو ۳/ میں ضرب دے دیا جائے تو نتیجہ ۲۷/ نکلے گا-

شب قدر کو مخفی کیوں رکھا گیا؟
اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم‘ جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔
اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا،ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے،اس لئے رات تعین نہ فرمائی،تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔
عدمِ تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے،کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔ (التفسیر الکبیر‘ 32: 28)

ایک جھگڑا علمِ شبِ قدر سے محرومی کا سبب بنا: ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی جھگڑا بھی ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیاکہ آپ اس رات کی تعین کی بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے، لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے بتلانے سے منع فرما دیا، روایت کے الفاظ یوں ہیں:خرج النبی صلی الله علیه وآله وسلم لیخبر بلیلة القدر، فتلاحی رجلان من المسلمین،فقال: خرجت لأخبرکم بلیلة القدر،فتلاحی فلاں و فلاں فرفعت-
ایک مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کی تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے، لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا،مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کی تعین اٹھا لی گئی۔(صحیح البخاری، 1: 271‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1919)

اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ مذکورہ روایت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید اس کے بعد تعین شب قدر کا آپ کو علم نہ رہا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ شارحین حدیث نے تصریح کر دی ہے کہ تعین کا علم جو اٹھا لیا گیا تھا تو صرف اسی ایک سال کی بات تھی، ہمیشہ کے لئے نہیں۔

امام بدر الدین عینی شرح بخاری میں رقمطراز ہیں:

فان قلت لما تقرر ان الذی ارتفع علم تعینها فی تلک السنة فهل اعلم النبی صلی الله علیه وآله وسلم بعد ذلک بتعینها؟ قلت روی عن ابن عینیه انه اعلم بعد ذلک بتعینیها.

اس سال تعین شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعین کا علم رہا یا نہ؟میں کہتا ہوں کہ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس کے تعین کا علم تھا-(عمدة القاری‘ 11: 138)

ہمارے نزدیک آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف تعین کا علم ہے،بلکہ آپ بعض غلاموں کو اس پر آگاہ بھی فرماتے ہیں۔

شبِ قدر کے نوافل: فقیہ ابواللّیث رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں،جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے۔(روح البیان،ج10ص483)

شبِ قدر کی دعا اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔( ترمذی،ج5ص306، حدیث:3524)

شبِ قدرِ مبیں کا نور دیکھے نوری بھی یارب
یہ حسرت لے کے تیرے در پہ یہ نوری غلام آیا

اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے۔
آمین-

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت