WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives April 2022

اگر ددورانِ حمل بچہ پیٹ میں مرجائے، تو کیا صفائی کرانے کے بعد آنے والا خون نفاس کا ہوگا؟

السلام علیکم
کسی بہن کا 5 مہینے کا حمل ضائع ہو گیا ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچہ کافی دن پہلے ہی مرچکا تھا
عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی
جب سونوگرافی(sonography) کرایا تو پتہ چلا
ڈاکٹر نے فوراً صفائی کی، اب سوال یہ ہے کہ صفائی کے بعد عورت آ رہا ہے تو وہ کب تک ناپاک رہے گی؟
یعنی اس خون کو حیض کا سمجھے یا نفاس کا؟
9 دن خون جاری رہا بیچ میں تین دن بند ہوا پھر شروع ہو گیا بس قطرہ ہی ہے،
مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں،
(f,z.noori
👆👇

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور  اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے  تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، رد المحتار میں ہے: نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)․․․ والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت۔لہذ ا جب جب پانچ ماہ ہونے کے بعد یہ منظر پیش آیا ہے تو وہ خون نفاس ہے,
۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف, 6 /رمضان المبار بروز جمعہ ۔1443

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443

کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہایک مسلہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے ہیں

محمد شمیم قادری

👆👇

الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے، تو اسے زکوۃ کی رقم کا  مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں، تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔کما فی الھندیۃ:أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: دار الفکر)وفی الشامیۃ:ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر(ج: 2، ص: 244، ط: دار الفکر)وفی بدائع الصنائع:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها(ج: 2، ص: 43، ط: دار الکتب العلمیہ)

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/ رمضان المبارک 1443

حلال اور حجاب۔۔از: سید خادم رسول عینی

سورہء بقرہ کی ایک آیت کا اقتباس یوں ہے:
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ

ترجمہ:
اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ۔

اس آیت میں چار چیزوں کی حرمت کا حکم ہے:
١.مردار
٢.خون
٣.خنزیر کا گوشت
٤.وو جانور جو غیر خدا کا نام لےکر ذبح کیا گیا ۔

خدا کے حکم میں حکمت کار فرما رہتی ہے۔ خنزیر بھی گائے ،بیل، بکرے کے ایسا ایک چوپایہ جانور ہے ۔گائے ، بیل، بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے ، تو پھر خنزیر کا گوشت حرام کیوں ؟ کچھ تو حکمت خداوندی کار فرما ہوگی۔

قرآن میں جو احکام بیان کیے گیے ہیں وہ کسی بندے کی جانب سے نہیں ہیں ۔ایک بندہ جب کوئی حکم جاری کرتا ہے تو اس میں کچھ ذاتی منفعت بھی رہ سکتی ہے۔لیکن خدا بے نیاز ہے ۔ قرآن فرماتا ہے :
اللہ الصمد
یعنی اللہ بے نیاز ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ کھائے نہ پیئے ،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔کسی کام میں کسی کا حاجت مند نہیں۔

خدا جو احکام جاری کرتاہے وہ خالص اس کے بندوں کی منفعت کے لیے ہوتے ہیں ۔

جب میں اڑیسہ کی یونیورسٹی میں اگریکلچرل سائنس میں گریجویشن کررہا تھا تو ہر سیمسٹر میں ایک سبجکٹ ویٹرنری سائنس کا بھی ہوا کرتا تھا جسے ویٹرنری سائنس داں پڑھایا کرتے تھے۔ ایسی ہی اک کلاس میں پڑھاتے ہوئے ایک ماہر ویٹرنری سائنس( جو غیر مسلم تھے ) نے کہا:

“شریعت اسلامیہ نے خنزیر کے گوشت کو حرام کہا ہے اور اس حکم کو سائنس کی حمایت بھی حاصل ہے”۔انھوں نے سائنسی وجوہات یوں بیان کی تھیں :

“١.خنزیر کا نظام انہضام گائے کے نظام انہضام سے جدا گانہ ہے۔گائے کے پیٹ کے اندر جب عمل انہضام ہوتا ہے تو جراثیمی زہر جسم سے باہر نکل جاتے ہیں ۔لیکن خنزیر کے جسم سے یہ جراثیمی زہر باہر نہیں نکلتے ، بلکہ یہ خنزیر کے فیٹی ٹیسوز میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٢. خنزیر میں سویٹ گلانڈ / مسام عرقی نہیں ہوتا ،
جس کے سبب وہ پسینہ نہیں چھوڑتا۔کسی جانور سے جب پسینہ چھوٹتا ہے تو اس کے بدن سے جراثیمی زہر نکل جاتے ہیں ۔چونکہ خنزیر کے بدن سے جراثیمی زہر نہیں نکلتے ، وہ بدن میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٣.خنزیر کا گوشت سرطان زا ہوتا ہے۔ ٥٠٠ گرام گوشت کھانے سے سرطان کا امکان اٹھارا فی صد بڑھ جاتا ہے۔اس لیے بھی خنزیر کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔”

ماہر ویٹرنری سائنس نے یہ بھی کہا کہ” اسلامی شریعت نے جس انداز سے جانور یا پرندے کو ذبح کرنے کے لئے کہا ہے وہ بھی سائنسی اعتبار سے درست ہے۔یعنی حلال شدہ گوشت کھانا چاہیے کیونکہ بغیر حلال کیے گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے “۔اس کی وجوہات انھوں نے یوں بیان کیں:

“١.اسلامی طریقے سے جب ذبح کیا جاتا ہے تو شریان سے پورا خون باہر نکل جاتا ہے جس کے سبب گوشت میں جراثیمی زہر باقی نہیں رہتے۔

٢.حلال شدہ گوشت میں خون باقی نہیں رہتا ۔قرآن کی آیت میں ویسے بھی خون کو حرام کہا گیا ہے۔اگر حلال شدہ نہیں ہے تو گوشت میں خون کے کچھ حصے باقی رہ جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اس لیے حلال شدہ گوشت ہی کھانا چاہیے۔”

تین چار سال پہلے ایک فیس بک سٹار نے اپنے فیس بک وال میں پوسٹ کیا تھا :

“اسٹریلیا میں خنزیروں کی پرورش فارم میں اور صاف ستھرے ماحول میں ہوتی ہے اور وہ گندی چیزیں نہیں کھاتے ، لہذا ان خنزیروں کا گوشت مسلمانوں کو کھانا چاہیے”

میں نے اس‌ پوسٹ کا رد کیا ۔افسوس کہ اس پوسٹ کی تائید میں اسٹریلیا اور امریکہ کے کچھ نام نہاد مسلم بھی کمنٹ لکھ رہے تھے اور بڑی بے حیائی کے ساتھ علی الاعلان یہ اظہار کر رہے تھے کہ خنزیر کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان ہونے کے باوجود بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں ۔
میں نے اس پوسٹ کے خلاف بحث کی اور یہ بحث تقریباً چار روز تک چلتی رہی۔میں نے اپنے کالج کے لکچرر سے جو سیکھا تھا اسی کی روشنی میں بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ خنزیر کا گوشت صرف اس لیے حرام نہیں ہے کہ خنزیر گندی چیزیں کھاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی حرام ہے کہ خنزیر کا نظام انہضام اور استحالہ ایسا ہے کہ اس کے گوشت میں جراثیمی زہر فطری طور پر موجود رہتے ہیں اور وہ صحت کے لیے بےحد نقصان دہ ہے۔ فارم کی پرورش ماحولیات تو بدل سکتی ہے لیکن جانور کے جینیٹک کیریکٹر / جینیاتی کردار کو بدل نہیں سکتی ، جانور کے استحالہ کو بدل نہیں سکتی۔چار دن کی مسلسل بحث کے بعد اس فیس بک اسٹار نے ہماری بات تسلیم کرلی اور اپنے پوسٹ کو فیس بک سے ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔

پتہ یہ چلا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ آج کل اپنے ملک میں جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔تبھی تو کبھی حجاب کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی اذان کے خلاف ، کبھی مدرسوں کی تعلیم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی حلال ذبیحہ کے خلاف۔

حجاب سماج کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔حجاب صرف اسلام کی تہذیب نہیں ہے بلکہ ملک عزیز ہندوستان کی بھی تہذیب ہے۔
راقم الحروف کے دو اشعار اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں:

شرم و حیاءے جسم کی ترکیب ہے حجاب
اچھے سماج کے لیے ترتیب ہے حجاب
جو شخص ہے مخالف پردہ وہ جان لے
ہندوستان ملک کی تہذیب ہے حجاب

اذان فضا کے تقدس کے لیے لازم ہے۔نماز کے لیے مسلمانوں کو جب پکارا جاۓ تو کیسے پکارا جاۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت سارے آپشنز رکھے گئے۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات کو سب پر ترجیح دی ، گویا اذان کے کلمات سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب ہیں۔ جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب ہو اس کے تقدس کا کیا کہنا ۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:
:
خدا کا نام ہے اس میں رسول کا بھی نام
ہیں کلمے خوب معظم اذان دی جائے
نبی نے اس کو دی ناقوس ، سینگ پر ترجیح
ہے برکتوں سے مجسم اذان دی جائے

مدرسوں کی تعلیم سماج میں امن و اماں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کیونکہ مدرسے سے فارغ ہوکر علماء وعظ کرتے ہیں ، اچھے کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے باز آنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔اس سے سماج اور ملک میں اچھے باشندوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

حلال ذبیحہ بہتر صحت اور تندرستی کے لیے لازم ہے۔اگر بغیر حلال کے گوشت استعمال کیا جائے تو بدن امراض کا شکار ہوگا اور بیماریاں بڑھتی چلی جائینگی۔ان باتوں کا اعتراف سائنس نے بھی کیا ہے۔

مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اسباق کو منظر عام پر لائیں اور قرآنی احکام اور ان کی منفعت کو غیر مسلموں تک پہنچائیں ۔ہم اپنا قیمتی وقت اپنوں کے خلاف پرچہ بازی میں صرف کررہے ہیں، فروعی مسائل میں اختلافات کو بڑھاوا دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم داعیء اسلام ہیں ؟ کاش یہی وقت ہم ترسیل و ابلاغ اور تبلیغ اسلام میں صرف کرتے!

جو لوگ حلال اور حجاب کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، وہ ایک دن ضرور پشیماں ہونگے اور اعتراف کرینگے کہ حجاب سماج کے لیے کس قدر ضروری ہے اور حلال ذبیحہ صحت کے لیے کیوں لازم ہے ۔
خدا رب العالمین ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں۔
شریعت اسلامیہ نے جو احکام جاری کئے ہیں ، جینے کے طریقے جو سکھائے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے بنی آدم کے لیے مفید ہیں ۔
حلال اور حجاب پر اگر ملک میں پابندی لگی تو ملک کے باشندے خود خسارے میں رہیں گے۔

چمنستان بخاریہ کا ایک مہکتا پھول:سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری!ازقلم:[قاری] نورمحمدقادری رضوی مہتمم:دارالعلوم رضائےمصطفیٰ جیٹھوائی روڈ،جیسلمیر [راجستھان]

محترم قارئین:

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب جب باطل وناحق نے اپنا ناپاک سر بلند کرنے کی سعئِ ناتمام کی ہے تب تب ربّ لم یزل نے حق کو بلند وبالا رکھنے کے لیے اپنے کسی نیک بندۂ مومن کو پیدا فرما کر حق کی بلندی کا سہرا اس نیک بندے کے سر رکھا،حق وباطل کی یہ جنگ ماضی میں بھی تھی اور حال میں بھی ہے مگر ماضی میں باطل ہمیشہ کفر وشرک کے لبادے میں آیا ہے اور چودہویں صدی ہجری میں باطل اپنا اصلی لبادہ اتارکر اہل حق کا لباس وکردار قرآن وحدیث، جبہ ودستار، تسبیح ومصلّیٰ،کلمہ ونماز،تقریر وتبلیغ،ذکر وفکر کی صورت دیکھاکر عوام اہلسنت خصوصاً علاقۂ تھار کے بھولے بھالے خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنے کی ایک نئی چال چل کر سامنے آیااور کئی خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان کو چُرا کر باطل کے ناپاک و تاریک گڈھے میں گرانے میں کچھ حدتک کامیاب ہوتے نظر آیا- ایسے ماحول میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد مومن کی جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ جو نگاہ ایمانی جس مومن پر ڈال دے تو اس کے ایمان کو بھی مضبوط بنا دے، ضرورت تھی ایک ایسے ہادی کی جو ہدایت کا پیکر بن کر آئے، ضرورت تھی ایک ایسے مبلغ کی جو تبلیغ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے، ضرورت تھی ایک ایسے مفکر کی جس کا دل و دماغ ہمیشہ مومنوں کے ایمان کے تحفظ و بقا میں فکر مند رہتا ہو، ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جس کی پاکیزہ تگ و دو سے علاقے کی اصلاح ہو جائے، ضرورت تھی ایک ایسے خطیب و واعظ کی جس کی خطابت و اصلاحی مواعظ معاشرے کے سدھار کا سبب بن جائے، ضرورت تھی ایک ایسے پیر کامل کی جن کی نگاہ کیمیا صرف مریدوں کی جیبوں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہو، ضرورت تھی ایک ایسے ملاح کی جو مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں ناخدا ثابت ہو ، ضرورت تھی ایک ایسے بندۂ خدا کی جو جملہ خصائص حمیدہ کا حامل ہو یعنی جو ہر فن مولیٰ ہو……!اللہ رب العزت نے بوسیلۂ سرکار اعظم اس ضرورت کوپورا فرمایا اور علاقۂ تھار کے ولی کامل قطب تھار حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے نواسے نمونۂ سلف،عمدة الخلف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوّراللہ مرقدہٗ کے مقدس گھر میں 22 دسمبر 1976ء بروز بدھ ایک بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، بظاہر وہ بچہ تھا مگر نگاہ عشاق میں اس بچے کی حقیقت وہی تھی جو برسوں پہلے امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی نے بریلی کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر ہم خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کو اہل بیت کے ان مقدس بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا-تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کاجب موصوف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو والد بزرگوار نے علم ظاہری کی تکمیل کے لیے علاقۂ تھار کی مشہور علمی شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیا علامہ موصوف کی عالمانہ صلاحیت اور صوفیانہ نگاہ کیمیا نے سید زادے کو چند ہی سالوں میں ایک باصلاحیت عالم باعمل بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خاندان ہے تو کس کا؟… ایک گاؤں کے دارالعلوم میں پڑھنے والا اتنی صلاحیتوں کا حامل بن جائے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا مگر بزرگوں کا وہ مقولہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ “مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا” یقینا یہ موصوف کے آباء واجداد کا فیضان ہے جس نے انہیں ایک تحریک ثابت کردیا-*قائین کرام:* آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا؟ ہاں ہاں! یہ وہی بچہ تھا جسے آج ہم اور آپ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیرسید نوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پھر کیا تھا جب موصوف *العلماء ورثة الانبیاء* کا تاج زریِں اپنے سر پر سجا کر علاقۂ تھار میں جلوہ گر ہوئے تو علاقے کے علاقے فتح فرما دیئے، آپ نے اپنی پیہم کوششوں اور بزرگوں کے فیضان سے علاقۂ تھار کے قریب قریب ہر گاؤں میں مکاتب و مدارس کے جال بچھا دییے-

مزید تعلیم و تعلم کی نشر و اشاعت اور پورے ملک بالخصوص علاقۂ تھار کی صلاح و فلاح اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی فرمائش اور اکابر علماء و سادات کرام کی تحریک پر آپ کے والد بزرگوار قبلہ الحاج پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ نے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے زیر سایہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا قیام فرما کر اس کی باگ ڈور آپ کے کندھے پر رکھ کر قوم و ملت پر احسان عظیم فرمایا- آپ کی مستحکم قیادت، مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش وکاوش کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم انوار مصطفیٰ راجستھان بلکہ ملک کی اہم مدارس کی فہرست میں شامل ہو کر اپنے تمام تر منصوبوں کو بروئے کار لا رہا ہے-

الحمداللہ اس ادارہ نے آپ کی پیہم کوششوں سے اپنی کم عمری کے باوجود اب تک سینکڑوں علماء، فضلاء،حفّاظ اور قرّاء کو سند و دستار سے نواز کر قوم وملت کے سامنے دین متین کی نشر و اشاعت اور سنیت کے فروغ کے لیے پیش کر چکا ہے، جو اس ادارہ کی نمایاں کارکردگی کو واضح کر رہا ہے، آپ دارالعلوم انوار مصطفی کے ماتحت تقریبا 80 مکاتب بھی اپنی نگرانی میں منظّم طورپر چلا رہے ہیں جبکہ کسی ایک مہتمم کو ایک ادارہ چلانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود دارالعلوم انوار مصطفی کی قیادت و نظامت کے ساتھ ایسے پریشان کن علاقے میں ۸۰ مکاتب کو چلانا،وہ بھی انتہائی سادگی،عجز وانکسار اور خلوص و محبت کے ساتھ، یقیناً یہ بزرگوں کا فیضان اور نصرت خداوندی ہی ہے-ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ نیز گاؤں گاؤں،ڈھانی ڈھانی دعوت وتبلیغ اور سنیت کی نشروشاعت اور تحریک صلوٰة و تحریک جمعہ کے لئے ایک ایک انجمن بنام “محبان جہانیاں کمیٹی” اور “تحریک انواری” کا قیام بھی بڑا نیک فال ثابت ہوا،…اور دارالعلوم کے چنندہ و ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر کے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خرچ سے داخلہ دلانا اور مکمل تعلیم تک جن کا خرچ اپنے ذمہ لینا یہ وہ موصوف کے شب و روز کے کام ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نورالعلماء حضرت – علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری- کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے، ایک انجمن کا نام ہے، ایک مینارۂ نور کا نام ہے، جن کی نورانیت سے علاقۂ تھار کے مسلمان جہالت و بدعقیدگی کے اندھیرے سے نکل کر علم و عمل اور پاکیزہ عقیدہ کی روشنی میں داخل ہو رہے ہیں- بارگاہ ایزدی تعالیٰ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم علامہ موصوف کو نظر بد سے بچائے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب فرمائے اور آپ کو مزید دین وسنّیت اور ملک وملّت کی خدمات کی توفیق بخشے-آمین ثمّ آمین!

رمضان المبارک کا پیغام:امت مسلمہ کے ناماز:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے اس میں رحمت الہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے- اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے- رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے،جنت کے دروازے کھول دییے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردییے جاتے ہیں،ایک نیکی کے بدلے ستر[۷۰]نیکی کا ثواب ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس مبارک مہینہ میں ایک روپیہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے دوسرے مہینوں کےاعتبار سےستر[۷۰] روپیے خرچ کرنے کےبرابر ثواب ملےگا،نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،بیروت)دوسری جگہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ [شروع کے دس دن] رحمت کا، دوسرا عشرہ [یعنی بیچ کے ۱۰ دن] مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ [یعنی آخر کے ۱۰ دن] جہنم سے آزادی کا ہے”… ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ “جنت چار لوگوں کے لئے خود مشتاق ہے-(۱)زبان کی حفاظت کرنے والے کے لئے-(۲) قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے- (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانے والوں کے لیے- (۴)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنے والے کے لئے”… اس لئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- اور اللہ تعالی کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی سب سے پیاری چیزوں میں مال ہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ “تم ہر گز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو” یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)(ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے ، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگا ر ہے ۔ یہ پرہیزگاری اور تقویٰ کیاہے ؟ خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت تقویٰ؛یعنی پرہیزگاری کیاہے؟ آپ نے پوچھنے والے سے سوال کیا کہ کیا کسی ایسی جگہ سے گذرے ہو ، جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہو تی ہیں ، انہوں نے کہا ، جی، گذرا ہوں،پوچھا کیسے گذرتے ہو؟ جواب دیا:حضرت! اپنے دامن کو اپنے ہاتھو ں سے سمیٹ لیتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا دامن میں نہ لگ جائے۔ آپ نے جواب دیا:یہی مثال تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے کہ انسان اس طرح گناہوں سے بچ کر زندگی گذارے کہ اس کا دامن گناہ سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ (تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ البقرۃ: ۱؍۷۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت)اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہے ، کہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے، سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے” زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے،پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رکتا ہے ، اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے ، خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا؛ورنہ صرف کھانے پینے سے رکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ روزہ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔(صحیح البخاری،باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ ،رقم الحدیث:۱۹۰۳۔۶۰۵۷؍سنن أبی داؤد،باب الغیبۃ للصائم،رقم الحدیث:۲۳۶۲)اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ !إن ربکم یقول:کل حسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبع مائۃ ضعف والصوم لی و أنا أجزی بہ، الصوم جُنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک و إن جہل علی أحدکم جاہل و ہو صائم فلیقل إنی صائم۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)(بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل الجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔)اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں؛لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ؛مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،(مسلم،باب فضل الصیام،رقم الحدیث:۱۱۵۱)یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)(رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔)قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اسکاخاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، اگر کسی نے الـم کہا تو الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن،رقم الحدیث:۲۹۱۰؍)ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛کیوںکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔(الصحیح لمسلم،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،رقم الحدیث:۸۰۴)اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے، اسلاف کا عمل ہمیشہ سے رمضان کے مہینہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے کا رہا ہے۔تراویح کی نماز کا بھی خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے ادا کی جائے،رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھنے پر ہی مکمل ہوتی ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تین دن ، ایک ہفتہ یا دس دنوں میں قرآن مکمل ہونے کے بعدتراویح کی سنت ادا ہو گئی اور اب بقیہ دنوں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ غلط خیال ہے، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تراویح میں قرآن مکمل سنناالگ چیزہے اور تراویح پورے مہینہ ادا کرنا الگ سنت ہے ؛ اس لیے اگر، ہفتہ یا عشرہ میں قرآن مکمل ہو گیا ، مگر پورے مہینے تراویح ادا کرناسنت ہے،تراویح میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والاٹھہر ٹھہر کر اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے؛تاکہ مقتدی صاف سن سکیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،المکتب الإسلامی بیروت)اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کی بھی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، اس لیے اس کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے؛ لیکن افطار کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو؛بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو، اور اس میں روزے داروں کو بلا کر افطار کرایا جائے،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو جو ضرورت مندہیں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو افطار کرانے میں زیادہ ثواب ہے،ایسی دعوتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ، جس میں امیروں کا استقبال کیا جائے اور غریبوں کے لیے دروازے بند کر دییے جائیں۔(صحیح البخاری،باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ ورسولہ،رقم الحدیث:۵۱۷۷)روزہ دار وں کو افطار کرانے کے علاوہ دیگر خیر کے راستوں میں بھی خرچ کرنا چاہئے ، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یں؛جو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔یوں تو نصاب کے بقدر مال پر جس دن سال پورا ہو جائے زکوٰۃ تبھی فرض ہے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کا معمول بہت سے لوگوں کا رہتا ہے اور بہتر بھی ہے ، اس لیے کہ جس طرح دیگر عبادتوں کا ثواب رمضان میں بڑھتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ کے ثواب میں بھی عام دنوں میں ادا کرنے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں اضافہ ہو گا ۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ صدقہ کرنے کا تھا ، حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رمضان کے مہینہ میں مال ٹھہرتا ہی نہیں تھا، ادھر آتا اور ادھر آپ اسے صدقہ کر دیتے تھے ۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ذکرحسن خلقہ وعشرتہ صلی اللہ علیہ وسلم:۱؍۲۸۵،دارالکتب العلمیۃ بیروت)یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی خصوصی خیر و برکت کا حامل ہے؛لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ،باب فضائل شھررمضان ان صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔قرآن میں ہے:{ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ }(سورۃ القدر:۱۔۵)(بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں، سراپا سلام و امان ہے، وہ رات طلوع فجر (یعنی صبح صادق) تک رہتی ہے۔)حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے؛کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ اسلام کے نظام عبادت کی روح وحدت و اجتماعیت ہے۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن کر’’کونوا عباد اللّٰہ إخوانا‘‘ کے مصداق بن جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور ہم سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے، ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے اوراپنی مرضیات سے نوازے۔اوراس مبارک مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے-۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔

منقبت۔۔قلب شاہ امم سیدہ فاطمہ-از-سید خادم رسول عینی –

قلب شاہ امم سیدہ فاطمہ

بنت جان حرم سیدہ فاطمہ

عورتوں کی ہیں سردار وہ خلد میں

خود‌ ہیں شان ارم سیدہ فاطمہ

تیرے حسنین نے کتنا اونچا رکھا

نور حق کا علم سیدہ فاطمہ

برکتیں آئیں میرے قلم کی طرف

جب کیا ہے رقم سیدہ فاطمہ

فاتح خیبر و شیر حق ہیں ، ترے

شوہر محترم سیدہ فاطمہ

سب رسولوں سے افضل تریں ہیں ،ترے

والد ذی حشم سیدہ فاطمہ

تیرے علم و کمالات کے سامنے

فضل کے سر ہیں خم سیدہ فاطمہ

مشعل راہ ہے مومنوں کے لۓ

تیرا نقش قدم سیدہ فاطمہ

کرلو بند اپنی آنکھوں کو ، آئینگی اب

شہ کی ناز و نعم سیدہ فاطمہ

جب لیا نام اقدس ترا، مٹ گیے

“عینی “کے سب الم‌ سیدہ فاطمہ۔

از: سید خادم رسول عینی

تبصرہ – – – از – علامہ کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریروی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله الذي انزل القرآن علی حبیبہ سید الانس والجان والصلوۃ والسلام علی نبیہ الذي انزل علیہ الفرقان وعلی آلہ و صحبہ الی یوم المیزان

سوال __
نعتیہ اشعار میں حضور ﷺ کے لیے طہ اور یس کے اطلاق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یس وہی طہ

جواب_
طہ اور یس مقطعات سے ہیں جس کے معنی کسی کو معلوم نہیں اس سے ظاہر یہی ہے کہ حضور ﷺ کے لیے اس کا اطلاق مناسب نہیں اس کی تحقیق کے لیے ایک تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے
فاقول و باللہ التوفیق

قرآن میں دو طرح کی آیات ہیں
محکمات
متشابھات

محکمات وہ آیات ہیں جن میں کسی قسم کا احتمال و اشتباہ نہیں جملہ احکام میں انہی آیات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے

متشابھات وہ آیات ہیں جو چند وجوہ کا احتمال رکھتی ہیں ان میں سے کون سی وجہ مراد ہے یہ الله تعالٰی ہی جانتا ہے یا جس کو الله تعالٰی اس کا علم دے
جو گمراہ، بدمذہب اور ہواۓ نفس کے پابند ہوتے ہیں وہ انہی آیات متشبھت کے پیچھے پڑتے اور تاویل کا اہل نہ ہونے کے باوجود اپنی خواہشات کے مطابق تاویلیں ڈھونڈتے ہیں (خزائن العرفان)

  قرآن مجید میں ہے ھو الذی انزل علیک الکتب منہ آیت محکمت ھن ام الکتاب واخر متشبھت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ الا الله 

وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں (محکمات) اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے (متشابہات) وہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمرہی چاہنے اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے (کنزالایمان)

مذکورہ آیت سے محکمات و متشابہات کی ماہیت اور ان کے مابین فرق دن سے زیادہ روشن ہے اس باب میں مفسرین کے الفاظ گو مختلف ہیں مگر سب کا ما حصل ایک ہے ان شاء اللہ آگے ہم ذکر کریں گے

آیات متشابہات دو طرح کی ہیں
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثم المتشابہ علی نوعین نوع لایعلم معناہ اصلا کالمقطعات فی اوائل السور مثل الم حم فانہا یقطع کل کلمۃ منہا عن الاخر فی التکلم ولا یعلم معناہ و نوع یعلم معناہ لغۃ لکن لا یعلم مراد الله تعالٰی لان ظاہرہ یخالف المحکم مثل قولہ تعالٰی ید اللہ وجہ الله و الرحمن علی العرش استوی
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ متشابہ دو قسم ہیں
اول جس کے معنی جاننے کی اصلا کوئی صورت نہیں جیسے ابتدائے سور میں الم حم وغیرہا
دوم جس کا معنی لغۃً معلوم ہو لیکن اللہ تعالی کی مراد معلوم نہ ہو جیسے ید الله وجہ الله الرحمن علی العرش استوی

قسم اول مقطعات درج ذیل انتیس سورتوں میں ہیں
۱ بقرہ
۲ آل عمران
۳ اعراف
۴ یونس
۵ ہود
۶ یوسف
۷ رعد
۸ ابراہیم
۹ حجر
۱۰ مریم
۱۱ طہ
۱۲ شعراء
۱۳ نمل
۱۴ قصص
۱۵ عنکبوت
۱۶ روم
۱۷ لقمان
۱۸ سجدہ
۱۹ یس
۲۰ ص
۲۱ مومن
۲۲ فصلت(حم سجدہ)
۲۳ شوریٰ
۲۴ زخرف
۲۵ دخان
۲۶ جاثیہ
۲۷ احقاف
۲۸ ق
۲۹ قلم

یک حرفی مقطعات
ص
ق
ن

دو حرفی مقطعات
طہ
طس
یس
حم

تین حرفی مقطعات
الم
الر
طسم

چار حرفی مقطعات
المر
المص

پانچ حرفی
کھیعص

بعض مقطعات مکرر ہیں اور مختلف سورتوں میں ہیں

الرحمن علی العرش استوی آیات متشابہات کی دوسری قسم سے ہیں وہ تمام آیات جن میں الله تعالٰی کے لیے ید وجہ کا اطلاق آیا ہے وہ بھی اسی میں شامل ہیں یہاں ان آیات سے بحث مقصود نہیں

الرحمن علی العرش استوی کے معنی کی تحقیق فرماتے ہوۓ اعلی حضرت رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا
“اکثر نے تحریر فرمایا جب یہ ظاہری معنی قطعا مقصود نہیں اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں یہی بہتر کہ اس کا علم اللہ پر چھوڑ دیں ہمیں ہمارے رب نے آیات متشبھت کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ آمنا بہ کل من عند ربنا جو کچھ ہمارے مولی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کے پاس سے ہے”
اعلی حضرت رحمہ اللہ کی یہ توضیح متشابہ کی دوسری قسم سے متعلق ہے جس کا ظاہر معلوم ہوتا ہے مقطعات تو وہ ہیں جن کا ظاہر بھی معلوم نہیں
اعلی حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ مذہب جمہور ائمہ سلف کا ہے اور یہی اسلم و اولی ہے اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں “
حضور صدر الافاضل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آتے ہیں ان کی نسبت قول راجح یہی ہے کہ وہ اسرار الہی اور متشبھت سے ہیں ان کی مراد الله اور رسول جانیں ہم اس کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں “
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مثال المتشابہ الحروف المقطعات فی اوائل السور و حکم المجمل والمتشابہ اعتقاد حقیۃ المراد بہ حتی یاتی البیان ” متشابہ کی مثال وہ حروف مقطعات ہیں جو اوائل سور میں ہیں مجمل اور متشابہ کا حکم یہ ہے کہ اس کی مراد کے حق ہونے کا اعتقاد رکھیں

فتح الباری میں ہے “المحکم من القرآن ماوضح معناہ والمتشابہ نقیضہ ” یعنی محکم وہ ہے جس کا معنی واضح ہو اور متشابہ اس کی ضد ہے

اسی میں ہے
المحکم ما عرف المراد منہ اما بالظہور واما بالتاویل والمتشابہ مااستاثر الله تعالٰی بعلمہ کقیام الساعة و خروج الدجال و الحروف المقطعۃ فی اوائل السور محکم وہ ہے جس کی مراد ظہور یا تاویل سے جانی جا سکے اور متشابہ وہ ہے جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کر لیا جسے قیام ساعت خروج دجال اور اوائل السور میں حروف مقطعات
اسی طرح الاتقان میں بھی ہے

تفسیر بغوی میں ہے المحکم ما لا یحتمل من التاویل غیر وجہ واحد والمتشابہ ما احتمل وجوھا محکم وہ ہے جس میں وجہ واحد کے سوا اور کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو اور متشابہ وہ ہے جو چند وجوہ کا محتمل ہو
اسی طرح الاتقان میں بھی ہے

اسی میں ہے “وقیل المحکمت مااوقف الله الخلق عن معناہ والمتشابہ ما استاثر الله تعالٰی بعلمہ لاسبیل لاحد الی علمہ ” کہا گیا کہ محکمات وہ ہیں جن کے معانی پر الله تعالٰی نے مخلوق کو آگاہی بخشی اور متشابہ وہ ہیں جن کے علم کو الله تعالٰی نے اپنے لیے خاص کر لیا

خازن میں ہے “ان حروف الھجاء فی اوائل السور من المتشابہ الذی استاثر الله بعلمہ وھی سر الله فی القرآن فنحن نؤمن بظاہرھا و نکل العلم فیھا الی اللہ تعالی”
اوائل سور میں جو حروف مقطعہ ہیں وہ متشابہ سے ہیں جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کرلیا یہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا راز ہے تو ہم اس کے ظاہر پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کر دیتے ہیں

حروف مقطعات کی تفسیر ممکن نہیں

ابن کثیر میں ہے “اختلف المفسرون فی الحروف المقطعۃ اللتی فی اوائل السور فمنہم من قال ھی مما استاثر الله بعلمہ فردوا علمہا الی اللہ ولم یفسروھا”
اوائل سور میں جو حروف مقطعات ہیں ان کے باب میں مفسرین مختلف ہیں بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس کے علم کو اپنے لیے خاص کر لیا تو انہوں نے اس کا علم الله تعالٰی کی طرف پھیر دیا اور اس کی تفسیر نہیں کی

اتقان میں ہے “و جمہور اھلِ السنۃ منہم السلف واھل الحدیث علی الایمان بہا وتفویض معناھا المراد منھا الی اللہ تعالی ولا نفسرھا “
جمہور اہل سنت ہمارے اسلاف اور محدثین کا مذہب یہی ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کے معنی مراد کا علم الله تعالٰی کے سپرد کر دیں اور ہم اس کی تفسیر نہ کریں

اتقان میں ہے “واما ما لایعلمہ الا الله تعالٰی فھو یجری مجری الغیوب نحو الآی المتضمنۃ قیام الساعة وتفسیر الروح و الحروف المقطعۃ وکل متشابہ فی القرآن عند اھل الحق فلا مساغ للاجتہاد فی تفسیرہ”
جن کا علم اللہ ہی کو ہے وہ غیوب کی منزل میں ہیں جیسے وہ ایات جو مشتمل ہیں قیام الساعہ پر اور روح، حروف مقطعات اور جملہ متشابہات قرآنیہ کی تفسیر تو ان کی تفسیر میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں

راسخون فی العلم اور آیات متشابہات

امامِ شافعی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک راسخون فی العلم کے لیے متشابہات کے معانی کا علم ثابت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنیہ وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم الخَ میں الراسخون اسم جلالت پر معطوف ہے

اتقان میں ہے “اختلف ھل المتشابہ مما یمکن الاطلاع علی علمہ اولایعلمہ الا الله علی قولین منشؤھما الاختلاف فی قولہ والراسخون فی العلم ھل ھو معطوف ویقولون حال او مبتدأ خبرہ یقولون والواؤ للاستیناف ” کیا متشابہ کے علم پر خلق کی اطلاع یابی ممکن ہے؟ کیا اس کا علم اللہ کے لیے خاص ہے؟ یہ مختلف فیہ ہے اختلاف کا منشا یہ ہے کہ کیا الراسخون فی العلم اسم جلالت پر معطوف ہے اور یقولون حال ہے یا الراسخون مبتدا ہے جس کی خبر یقولون ہے اور واؤ مستانفہ ہے

اسی میں ہے “وعلی الاول طائفۃ یسیرۃ منہم مجاھد وھو روایۃ عن ابن عباس فاخرج ابن المنذر من طریق مجاھد عن ابن عباس فی قولہ وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم قال انا ممن یعلم تاویلہ “
پہلا مذہب (کہ راسخون علم رکھتے ہیں) ایک قلیل جماعت کا ہے ان ہی میں حضرت مجاہد ہیں عبد اللہ ابن عباس سے بھی یہ ایک روایت ہے ابن منذر نے ابن عباس سے بہ طریق مجاہد تخریج کی وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم کے متعلق ابنِ عباس نے فرمایا میں انہی میں سے ہوں جو اس کی تاویل جانتے ہیں

اسی میں ہے “واختار ھذا القول النووی فقال فی شرح مسلم انہ الاصح لانہ یبعد ان یخاطب الله عبادہ بما لاسبیل لاحد من الخلق الی معرفتہ وقال ابن الحاجب انہ الظاہر”
امامِ نووی نے اسی قول کو اختیار کیا شرح مسلم میں فرمایا یہی اصح ہے کیوں کہ یہ بعید ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے اس طرح خطاب فرماۓ کہ کسی کو اس کی معرفت حاصل نہ ہو سکے ابنِ حاجب نے کہا یہی ظاہر ہے

اس کے برخلاف اکثر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ راسخون فی العلم بھی متشابہات کے معانی کا علم نہیں رکھتے

اتقان میں ہے ” واما الاکثرون من الصحابة والتابعین واتباعہم ومن بعدھم خصوصاً اہل السنۃ فذھبوا الی الثانی وھو اصح الروایات عن ابن عباس قال ابن السمعانی لم یذھب الی القول الاول الا شرذمۃ قلیلۃ واختارہ العتبی” صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے اکثر مشائخین بالخصوص اہلِ سنت دوسرے قول (راسخون نہیں جانتے) کی طرف گئے یہی ابنِ عباس سے اصح روایت ہے ابنِ سمعانی نے کہا قول اول کی طرف مٹھی بھر لوگ گئے ہیں یہی امامِ عتبی کا مختار ہے

ترجیح مذہب __

یہ جو دوسرا قول ہے جو اکثر مشائخ کا مذہب ہے یہی راجح ہے اس کی ترجیح متعدد دلائل سے ظاہر ہے

اتقان میں ہے ” ویدل لصحۃ مذہب الاکثرین ما اخرجہ عبد الرزاق فی تفسیرہ والحاکم فی مستدرکہ (وھو صحیح) عن ابن عباس انہ کان یقرأ وما یعلم تاویلہ الا ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ فھذا یدل علی ان الواؤ للاستیناف “
مذہب اکثرین کی صحت کی دلیل وہ حدیث ہے عبد الرزاق نے اپنی تفسیر اور حاکم نے مستدرک میں جس کی تخریج کی (وھو صحیح ) ابن عباس سے مروی ہے وہ وما یعلم تاویلہ الا الله ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ پڑھتے تھے یہ حدیث واؤ کے مستانفہ ہونے پر دلیل ہے

اسی میں ہے “ویؤید ذلک ان الآیۃ دلت علی ذم متبعی المتشابہ ووصفہم بالزیغ وابتغاء الفتنۃ وعلی مدح الذین فوضواالعلم الی اللہ تعالی وسلموا الیہ کما مدح الله المؤمنین بالغیب وحکی الفراء ان فی قرأۃ ابی ابن کعب ایضا ویقول الراسخون”
اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ آیت میں متشابہ کے پیچھے پڑنے والوں کی مذمت کی گئی کہا گیا کہ وہ کجی اختیار کرنے اور فتنہ چاہنے والے ہیں اور آیت میں ان کی مدح کی گئی جنہوں نے اس کا علم اللہ تعالی پر چھوڑ دیا جیسا کہ اللہ نے مومنین بالغیب کی مدح فرمائی اور فراء نے حکایت کی کہ ابی ابنِ کعب کی قرات میں بھی ہے ویقول الراسخون

اسی میں ہے “واخرج ابن ابی داوُد فی المصاحف من طریق الاعمش قال فی قراۃ ابنِ مسعود وان تاویلہ الا عند الله والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ”
مصاحف میں ابنِ ابی داوُد نے بطریق اعمش تخریج کی کہا ابنِ مسعود کی قرات میں ہے وان تاویلہ الا عند الله والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ

اسی میں ہے ” واخرج الشیخان وغیرہما عن عائشۃ قالت تلا رسول الله ﷺ ھذہ الآیۃ ھو الذی انزل علیک الکتاب الی قولہ اولوالالباب قالت قال رسول الله ﷺ فاذا رأيت الذین یتبعون ما تشابہ منہ فاولئک الذین سمی اللہ فاحذرھم”
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے یہ آیت پڑھی ھو الذی انزل علیک الکتاب اولوالالباب تک فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب تو متشابہ کے پیچھے پڑنے والوں کو دیکھے (تو جان لے ) یہی وہ ہیں جن کو اللہ نے بیان کیا پھر تو ان سے مجتنب رہ

اسی میں ہے ” عن عائشۃ قالت کان رسوخہم فی العلم ان آمنوا بمتشابہ ولا یعلمونہ”
حضرت عائشہ فرماتی ہیں ان کا رسوخ فی العلم یہ تھا کہ وہ متشابہ پر ایمان لائے اور انہیں اس کا علم نہیں

دلائل عقلیہ سے بھی علم متشابہات ممکن نہیں

اتقان میں ہے ” واما اثبات المعنی المراد فلایمکن بالعقل لان طریق ذلک ترجیح مجاز علی مجاز وتاویل علی تاویل وذلک الترجیح لایمکن الا بالدلیل اللفظی والدلیل اللفظی ضعیف لایفید الا الظن والظن لایعول علیہ فی المسائل الاصولیۃ القطعیۃ فلھذا اختار الائمۃ المحققون من السلف والخلف بعد اقامۃ الدلیل القاطع علی ان حمل اللفظ علی ظاہرہ محال ترک الخوض فی تعیین التاویل “
عقل سے معنی مراد کا اثبات ممکن نہیں کیوں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مجاز کو دوسرے مجاز اور ایک تاویل کو دوسری تاویل پر ترجیح دیں اور یہ دلیل لفظی ہی سے ممکن ہے اور دلیل لفظی ضعیف ہے جو ظن کا فائدہ دے گی جب کہ مسائل اصولیہ قطعیہ میں ظن پر اعتماد نہیں اسی لیے ائمۂ محققین نے اس بات پر قطعی دلیل قائم ہوجانے کے بعد کہ لفظ کو اس کے ظاہر پر محمول کرنا محال ہے تاویل کی تعیین میں ترکِ غور و خوض کو مختار جانا

صورت تطبیق_

حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ھذا نزاع لفظی لان من قال یعلم الراسخون تاویلہ یریدون یعلمون تاویلہ الظنی ومن قال لایعلم الراسخون تاویلہ یریدون لایعلمون التاویل الحق الذی یجب ان یعتقد علیہ”
یہ لفظی نزاع ہے جنہوں نے کہا کہ راسخون فی العلم اس کی تاویل جانتے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ ظنی تاویل جانتے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ یہ تاویل نہیں جانتے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاویل حق واجب الاعتقاد کا علم نہیں رکھتے

مذکورہ جملہ عبارات کو دیکھیں پڑھیں اور سمجھیں تو یہ واضح ہے کہ متشابہات کی تاویل جو قطعی یقینی واجب الاعتقاد ہو راسخون فی العلم پر بھی روشن نہیں
یہی وجہ ہے کہ مقطعات کی تاویلات میں مفسرین کی آرا مختلف ہیں

ابنِ کثیر میں ہے”ومنہم من فسرہا واختلف ھؤلاء فی معناہا فقال بعضہم ھی اسماء السور قال الزمخشري وعلیہ اطباق الاکثر وقیل ھی اسم من اسماء اللہ تعالی “
بعض نے مقطعات کی تفسیر کی مگر بیانِ معنی میں ان کے درمیان اختلاف ہوگیا ایک قول یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں زمخشری نے کہا اکثر کی یہی رائے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ اسماۓ الہیہ سے ہیں

خازن میں ہے “وقال آخرون من اھل العلم ھی معرفۃ المعانی ثم اختلفوا فیھا فقیل کل حرف منھا مفتاح اسم من اسماء اللہ تعالی،،،،،،، وقیل ھی اسماء اللہ مقطعۃ لوعلم الناس تالیفہا لعلموا اسم اللہ الاعظم وقیل اسماء السور وبہ قال جماعۃ من المحققین وقال ابن عباس ھی اقسام “
بعض اہلِ علم نے فرمایا یہ معانی کی معرفت ہے پھر ان میں باہم اختلاف ہوا کہا گیا ان میں سے ہر حرف کسی نامِ خدا کے لیے مفتاح ہے __ ایک قول یہ ہے کہ یہ اسماۓ الہیہ ہیں جدا جدا اگر لوگ اس کی تالیف جان لیں تو وہ اسمِ اعظم جان لیں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سورتوں کے نام ہیں محققین کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے ابنِ عباس نے فرمایا یہ قسمیں ہیں

اتقان میں ہے “عن مجاہد قال فواتح السور اسماء من اسماء الرب ” مجاہد سے مروی ہے فرمایا فواتح السور اسماۓ الہیہ سے ہیں

اسی میں ہے “قیل انھا اسم الاعظم الا انہ لانعرف تالیفہ منھا” ایک قول یہ ہے کہ یہ اسمِ اعظم ہیں مگر ہم کو ان کی تالیف معلوم نہیں

اسی میں ہے “عن ابنِ عباس الم طسم و ص واشباھہا قسم اقسم اللہ تعالی بہ وھو من اسماء اللہ” ابنِ عباس سے مروی ہے کہ الم طسم ص اور اس کے نظائر قسم ہیں جو اللہ تعالی نے یاد فرمائی اور وہ اسماۓ الہیہ سے ہیں

اسی میں ہے ” وقیل ھی اسماء للقرآن کالفرقان والذکر اخرجہ عبد الرزاق عن قتادۃ واخرجہ ابن ابی حاتم بلفظ کل ھجاء فی القرآن فھو اسم من اسماء القرآن ” ایک قول یہ ہے کہ یہ بھی فرقان اور ذکر کی طرح قرآن کے نام ہیں اس کی تخریج عبد الرزاق نے قتادہ سے کی اور ابنِ ابی حاتم نے ان الفاظ کے ساتھ تخریج کی کہ قرآن مجید میں حرفِ ہجا قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے

اسی میں ہے ” وقیل ھی اسماء للسور نقلہ الماوردی وغیرہ عن زید بن اسلم ونسبہ صاحب الکشاف الی الاکثر وقیل ھو فواتح للسور”
ایک قول یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں ماوردی وغیرہ نے زید ابنِ اسلم سے اسے نقل کیا صاحبِ کشاف نے اسے اکثر کی طرف منسوب کیا ایک قول یہ ہے کہ یہ فواتحِ سُوَر ہیں

(۱) یہ اسماۓ الہیہ سے ہیں
(۲) یہ سورتوں کے نام ہیں
(۳) یہ اساسمِ اعظم ہیں
(۴) یہ قسمیں ہیں
(۵) یہ قرآن کے نام ہیں
مقطعات کے ذیل میں مفسرین کے یہ مختلف اقوال ہیں جو ابھی ہم نے ذکر کیے
اتقان میں ہے “وقد تحصل لی فیھا عشرون قولاً وازید ولااعرف احدا یحکم علیہا بعلم”
اس تعلق سے مجھے بیس سے زائد قول ملے مجھے نہیں معلوم کہ کسی معنی پر کسی نے قطعیت کے ساتھ حکم لگایا ہو

یعنی مقطعات کے ذیل میں مفسرین کے اقوال حتمی اور قطعی نہیں ہیں بھلا قطعیت کہاں سے آۓ جب ان کا علم راسخون فی العلم کو بھی نہیں

یس اور طہ بھی مقطعات سے ہیں اسی سے ظاہر ہے کہ ان کے معانی کا قطعی علم کسی کو نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ ان کے معانی کے بیان میں بھی مفسرین کی آرا مختلف ہیں

اتقان میں ہے “فقیل ان طہ و یس بمعنی یارجل او یا محمد او یا انسان وقیل ھما اسمان من اسماء النبی قال الکرمانی فی غرائبہ ویقویہ فی یس قرأۃ یسین بفتح النون قولہ ال یاسین وقیل طہ ای طأ الارض فیکون فعل امر والھاء مفعول”
ایک قول ہے کہ طہ اور یس کا معنی ہے یا رجل یا یا محمد یا یا انسان ایک قول یہ ہے کہ دونوں اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں کرمانی نے غرائب میں کہا اور اس کی تقویت یس میں اس کی قرات یسین بفتحِ النون اور ال یاسین کے قول سے ہوتی ہے ایک قول یہ ہے کہ طہ کا معنی ہے طأ الارض تو طا فعل امر ہے اور ھا مفعول

اسی میں ہے “عن ابنِ عباس طہ ھو کقولک افصل وقیل طہ ای یا بدر لان التاء متسعۃ والھاء بخمسۃ فذلک اربعۃ عشر اشارۃ الی البدر لانہ یتم فیھا وقیل فی قولہ یس ای یا سید المرسلین”
ابنِ عباس سے مروی ہے کہ طہ وہ تیرے قول افصل کی طرح ہے ایک قول یہ ہے کہ طہ کا معنی ہے یا بدر اس لیے کہ ط کا نمبر 9 ہے اور ہ کا نمبر 5 تو یہ ہوا 14 اس سے بدر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ چودہویں شب میں مکمل ہوتا ہے یس میں ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے یا سید المرسلین

کشاف میں ہے ” قلت وذکر الماوردی عن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان اللہ تعالی اسمانی فی القرآن سبعة اسماء محمد و احمد و طہ و یس و المزمل و المدثر و عبد اللہ قالہ القاضی و حکی ابو عبد الرحمن السلمی عن جعفر الصادق انہ اراد یا سید مخاطبۃ لنبیہ ﷺ وعن ابنِ عباس یس یا انسان اراد محمدا ﷺ وقال ھو قسم وھو من اسماء الله سبحانہ وقال الزجاج معناہ یا محمد وقیل یا رجل وقیل یا انسان وعن ابن الحنفیہ یس یا محمد وعن کعب یس قسم اقسم اللہ تعالی بہ قبل ان یخلق السماء والارض بالفی عام قال یا محمد انک لمن المرسلین ثم قال و القرآن الحکیم “
میں کہتا ہوں ماوردی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ میں نے سرکار دوعالم ﷺ کو سنا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں میرے سات نام بیان کیے محمد، احمد، طہ، یس، مزمل، مدثر اور عبد اللہ قاضی نے یہ بات کہی ابو عبد الرحمن سلمی نے حضرت امام جعفر صادق سے حکایت کی کہ یاسید مراد ہے ابنِ عباس سے مروی ہے کہ یس یعنی اے انسان مراد آقا ﷺ ہیں اور کہا وہ قسم ہے اور اسماۓ الہیہ سے ہے زجاج نے کہا اس کا معنی ہے اے محمد ایک قول یہ ہے کہ یا رجل اور ایک قول ہے یا انسان اور ابنِ حنیفہ سے مروی ہے یس یعنی اے محمد اور کعب سے مروی ہے یس قسم ہے جو اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دوسو سال قبل یاد فرمائی کہا اے محمد بیشک تو مرسلین سے ہے پھر کہا و القرآن الحکیم

اسی میں ہے ” وجعلہ سیبویہ اسما للسورۃ وقد جاء فی تفسیرہا یا رجل وروی ابن عباس وابن مسعود وغیرھما ان معناہ یا انسان “
سیبویہ کے نزدیک یہ سورہ کا نام ہے اور اس کی تفسیر میں یا رجل بھی وارد ہے ابنِ عباس اور ابنِ مسعود وغیرھما سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے اے انسان

ان عبارات سے یس اور طہ کے درج ذیل معانی کا علم ہوا
(۱) یہ دونوں اسماۓ الہیہ سے ہیں
(۲) یہ دونوں اسماۓ نبی سے ہیں
(۳) یہ دونوں قسم ہیں
(۴) طہ کا معنی ہے طأ الارض
اس صورت میں طأ فعل امر ہوگا اور ھا مفعول
(۵) طہ کا معنی ہے اے بدر
(۶) یس کا معنی ہے اے سید
(۷) ان دونوں کے معانی ہیں اے مرد اے محمد اے انسان
اخیر کی تین صورتیں تسلیم کی جائیں تو ظاہر ہے کہ طہ میں نام اقدس صرف ھا ہے اور طا حرف ندا اسی طرح یس میں نام اقدس صرف س ہے اور یا حرف ندا

مواہب شریف میں ہے “مفسرین کا یس کے معنی میں اختلاف ہے اور اس سلسلے میں چند اقوال ہیں قول اول یہ ہے کہ اے انسان یہ قبیلہ بنو طے کی لغت ہے اور حضرت ابنِ عباس، حضرت حسن، حضرت عکرمہ، ضحاک اور سعید ابنِ جبیر کا یہی قول ہے بعض نے کہا یہ حبشہ کی لغت ہے کہا گیا کہ بنو کلب کی لغت ہے اور کلی نے کہا یہ سریانی زبان میں ہے_
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے کہا اس کی تقریر یہ ہے کہ انسان کی تصغیر انیسین آتی ہے گویا اس کا حرف اولین حذف کرکے پچھلا حصہ لے لیا گیا اور یس پڑھا گیا اس صورت میں نبی کریم ﷺ کو خطاب ہوگا جس پر انک لمن المرسلین کے الفاظ دلالت کررہے ہیں_”
ابوحبان نے اس تفسیر کو رد کردیا جس کی ایک وجہ مواہب شریف میں بیان کی گئی کہ ان اسماء میں تصغیر جائز نہیں کیوں کہ اس میں تحقیر کا معنی پایا جاتا ہے اور حق نبوت میں یہ بات منع ہے

مواہب شریف میں ہے ” کہا گیا کہ یس کا معنی یا محمد ہے ابنِ حنیفہ اور ضحاک نے یہ بات کہی ایک قول کے مطابق جو ابو العالیہ نے کہا اس کا معنی یا رجل ہے ایک قول یہ ہے کہ یہ قرآن کے پاک ناموں میں سے ایک نام ہے یہ حضرت قتادہ کا قول ہے حضرت ابو وراق سے منقول ہے کہ اس کا معنی یا سید البشر ہے حضرت جعفر صادق سے مروی ہے کہ اس سے یاسید مراد ہے نبی کریم ﷺ سے خطاب کیا گیا “

اسی میں ہے “حضرت طلحہ حضرت ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ ایک قسم ہے اللہ تعالی نے اس کے ساتھ قسم یاد کی اور یہ اللہ تعالی کے ناموں میں سے ہے __ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے دوہزار سال قبل اس کے ساتھ قسم یاد کی کہ اے محمد بےشک آپ رسولوں میں سے ہیں پھر فرمایا و القرآن الحکیم انک لمن المرسلین “

مواہب شریف کی مذکورہ عبارات سے یس کے چند معانی کا علم ہوا
(۱) اے محمد
(۲) اے مرد
(۳) اے سید البشر
(۴) اے انسان
(۵)یہ قرآن مجید کا ایک نام ہے
(۶) یہ ایک قسم ہے
(۷) اللہ تعالی کا نام ہے

طہ کی تفسیر میں بھی مفسرین کا یوں ہی اختلاف ہے_
جلالین میں ہے “طہ الله اعلم بمرادہ بذلک”
اس کے حاشیہ پر ہے” ای ان ھذہ حروف مقطعۃ استاثر الله بعلمھا وقیل ان طہ اسم لہ ﷺ حذف فیہ حرف الندا وقیل فعل امر اصلہ طاھا ای طأ الارض بقدمیک معا خوطب بہ “
یعنی یہ حروف مقطعہ ہیں ان کے علم کو اللہ نے اپنے لیے خاص کرلیا ایک قول یہ ہے کہ یہ حضور ﷺ کا نام ہے یہاں حرف ندا محذوف ہے ایک قول یہ ہے کہ فعل امر ہے اس کی اصل طاھا ہے یعنی ایک ساتھ دونوں قدم زمین پر رکھیں اس سے مخاطب حضور ﷺ ہیں_

یس کے اول کے چار معانی پر غور کریں، اس سے ظاہر ہے کہ حضور اقدسﷺ کا نام پاک یس نہیں بلکہ س ہے کیونکہ یس کی ی حرف ندا ہے اور س منادی ہے

یس اور طہ کی تفسیر کے ذیل میں کشاف کی عبارت بھی فقیر کے پیش نظر ہے اس کا حاصل بھی قریب قریب یہی ہے جو ابھی ذکر کیا

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ طہ، یس اور مقطعات کے باب میں مفسرین کے یہ اقوال “بہ زمرۂ تاویلات” ہیں اور ان تاویلات میں سے کوئی تاویل قطعی نہیں ہے
اعلی حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا “تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں”
الاتقان کی عبارت گزر چکی”قد تحصل لی فیھا عشرون قولاً او ازید ولا اعرف احدا یحکم علیھا بعلم ” اس تعلق سے مجھے بیس سے زائد قول ملے مجھے نہیں معلوم کہ کسی معنی پر کسی نے قطعیت کے ساتھ حکم لگایا ہو_

تفسیر وتاویل کے درمیان فرق_

خازن میں ہے ” فالتفسیر اصلہ فی اللغۃ من الفسر وھو کشف ما غطی وھو بیان المعنی المعقولۃ فکل ما یعرف بہ الشئی ومعناہ فھو تفسیر وقد یقال فیما یختص بمفردات الالفاظ وغریبھا تفسیر واما التاویل فاشتقاقہ من الاول وھو الرجوع الی الاصل والمراد منہ بیان غایتہ المقصودۃ منہ فالتاویل بیان المعنی والوجوہ المستنبطۃ الموافقۃ للفظ الآیۃ “
تفسیر لغت میں فسر سے مشتق ہے اور وہ کشف مبہم ہے اور وہ معانی معقولہ کا بیان ہے تو جس سے شئی اور اس کے معنی کی معرفت ہو وہ تفسیر ہے ایک قول یہ ہے کہ مفرد اور غریب الفاظ کی شرح تفسیر ہے اور تاویل اول سے مشتق ہے اور وہ اصل کی طرف رجوع ہے اور اس سے مراد اس کی غرض مقصود کا بیان ہے تو تاویل ان مختلف معانی و وجوہ مستبطہ کا نام ہے جو لفظ آیت کے موافق ہوں۔

اسی میں ہے ” والفرق بین التفسیر والتاویل ان التفسیر علی النقل المسموع والتاویل یتوقف علی الفہم الصحیح واللہ اعلم”
تفسیر وتاویل کے درمیان فرق یہ ہے کہ تفسیر کی اساس نقل مسموع پر ہے اور تاویل فہم صحیح پر موقوف ہے__

اسی میں ہے “فاماالتاویل وھو صرف الایۃ علی طریق الاستنباط الی معنی یلیق بھا محتمل لما قبلہا وما بعدھا وغیر مخالف للکتاب والسنۃ فقد رخص فیہ اھل العلم فان الصحابة قد فسروا القرآن واختلفوا فی تفسیرہ علی وجوہ ولیس کل ما قالوا سمعوہ من النبی ﷺ
تاویل آیت کو بطریق استنباط ایسے معنی پر محمول کرنا ہے جو اس کے شایان ہو اپنے ماقبل و مابعد کے موافق ہو اور کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو اہلِ علم نے ایسی تاویل کی اجازت دی صحابہ نے قرآن کے معانی بیان کیے اور بیان معنی میں بوجوہ باہم مختلف ہوۓ یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا تو اسے نبی کریم ﷺ سے ضرور سنا ہی ہو_

ان عبارات سے ظاہر ہے کہ مغلقات کی تشریح مفردات و غرائب کی وضاحت اور معانی معقولہ کا بیان تفسیر ہے جس کی بنا نقل مسموع پر ہوتی ہے اور تاویل کی یہ شان نہیں_

طہ اور یس کے جو معانی ماقبل میں بیان کیے گئے ان کی بنا نقل مسموع پر نہیں اسی لیے ہم نے کہا کہ یہ سب اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں

اصولِ تفسیر کی تفہیم سے یہ مسئلہ مزید روشن ہوجاتا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں تفسیر کے بعض اصول بیان کردئیے جائیں

اتقان میں ہے ” للناظر فی القرآن لطلب التفسیر ماخذ کثیرۃ امہاتہا اربعۃ الاول النقل عن النبی ﷺ وھذا ھو الطراز المعلم لکن یجب الحذر من الضعیف منہ والموضوع فانہ کثیر ولھذا قال احمد ثلث کتاب لا اصل لہا المغازی والملاحم والتفسیر قال المحققون من اصحابِہ مرادہ ان الغالب انہ لیس لہ اسانید صحاح متصلۃ والا فقد صح من ذلک کثیر _ قلت الذی صح من ذلک قلیل جدا بل اصل المرفوع منہ فی غایۃ القلۃ ” بہ غرض تفسیر قرآن میں غور وفکر کرنے والے کے لیے کثیر ماٰخذ ہیں جن میں سے چار اصل ہیں _ اول نبی کریم ﷺ سے نقل معلم کا یہی طریقہ ہے لیکن احتیاط واجب ہے کہ یہاں ضعیف اور موضوع بہ کثرت ہیں اسی وجہ سے امام احمد نے فرمایا تین کتابیں ہیں جن کی اصل نہیں مغازی ملاحم اور تفسیر امام احمد کے اصحاب محققین نے فرمایا مراد یہ ہے کہ اکثر وہ حدیثیں ہیں جن کی صحیح متصل اسانید نہیں ہیں ورنہ تو بہت سی حدیثیں صحیح السند بھی ہیں_ میں کہتا ہوں وہ جو صحیح السند ہیں بہت کم ہیں بلکہ اصل مرفوع انتہائی کم ہیں_

اسی میں ہے “الثانی الاخذ بقول الصحابی فان تفسیرہ عندہم بمنزلۃ المرفوع الی النبی ﷺ کما قالہ الحاکم فی مستدرکہ”
دوم صحابی کے قول کو اخذ کرنا کہ ان کی تفسیر احادیثِ مرفوعہ کی منزل میں ہیں جیسا کہ امام حاکم نے مستدرک میں فرمایا_

اسی میں ہے ” ثم قال الزرکشی وفی الرجوع الی قول التابعی روایتان عن احمد واختار ابن عقیل المنع و حکوہ عن شعبۃ لکن عمل المفسرین علی خلافہ فقد حکوا فی کتبھم اقوالہم لان غالبھا تلقوھا من الصحابة “
پھر زرکشی نے کہا تابعی کے قول کی طرف رجوع کرنے میں امام احمد سے دو روایتیں ہیں ابنِ عقیل نے منع کو مختار کہا انہوں نے امام شعبہ سے اسی کی حکایت کی لیکن مفسرین کا عمل اس کے بر خلاف ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ان کے اقوال کی حکایت کی کیوں کہ تابعین نے زیادہ تر صحابہ ہی سے حاصل کیا_

اسی میں ہے ” الثالث الاخذ بمطلق اللغۃ فان القرآن نزل بلسان عربی وھذا قد ذکرہ جماعۃ و نص علیہ احمد فی مواضع “
سوم مطلق لغت سے اخذ کرنا کیوں کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ایک جماعت نے اسے ذکر کیا اور امام احمد نے چند مقامات پر اسی کی تنصیص کی _

اسی میں ہے “الرابع التفسیر بمقتضی من معنی الکلام والمقتضب من قوۃ الشرع “
چہارم مقتضائے کلام اور پختہ دلائل شرع سے تفسیر کرنا

تفسیر کے یہ چار مآخذ ہیں
مقطعات کے ذیل میں جو مفسرین کے اقوال ہیں ان کے مآخذ کیا ہیں ؟ غور کیجیے تو یہ عقدہ کھل جائے گا اور یہ دعویٰ روشن ہوجاۓ گا کہ یہ اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں_

یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بسا اوقات تاویلات تفسیر بالرائے کی حد میں داخل ہوجاتی ہیں اتقان شریف میں تفسیر بالرائے کی پانچ صورتیں بیان کی دوسری صورت کا بیان ان لفظوں کے ساتھ کیا ” الثانی تفسیر المتشابہ الذی لا یعلمہ الا الله ” ان آیات متشبھت کی تفسیر کرنا جن کا علم اللہ ہی کو ہے تفسیر بالرائے ہے_

اشکال اور اس کا جواب_

اشکال اول
یہاں آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ طہ اور یس کے متعلق مفسرین نے جو یہ کہا کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں تو یہ تفسیر ہے تاویل نہیں کہ یہ نقل سے ثابت ہے _
اول _ ماقبل میں تفسیر کشاف کے حوالے سے ماوردی کی حدیث گزری کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں میرے سات نام بیان کیے محمد احمد طہ یس مزمل مدثر اور عبداللہ یہ حدیث روح البیان میں بھی ذکر کی گئی

مطالع المسرات میں ہے فروی النقاش عنہ ﷺ انہ قال لی فی القرآن سبعة اسماء فذکر منہا طہ
نقاش نے حضور ﷺ سے روایت کی فرمایا قرآن مجید میں میرے سات نام ہیں پھر حضور ﷺ نے ان میں طہ کا ذکر کیا

اسی میں ہے فاخرج ابن عدی فی الکامل عن علی و جابر واسامۃ بن زید وابن عباس و عائشۃ وابو نعیم فی الدلائل وابن مردویہ فی تفسیرہ عن ابی الطفیل رضی اللہ تعالی عنہم عن رسول اللہ ﷺ انہ قال لی عند ربی عشرۃ اسماء ذکر منہا یس

ابن عدی نے حضرت علی، حضرت جابر، حضرت اسامہ بن زید، حضرت عباس اور حضرت عائشہ سے کامل میں تخریج کی اور ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں تخریج کی کہ حضرت ابو طفیل نے حضور ﷺ سے روایت کی فرمایا میرے رب کے پاس میرے دس نام ہیں پھر انہیں میں یس کا ذکر کیا

دوم _ در منثور میں ہے” عن اشھب قال سئلت مالک بن انس اینبغی لاحد ان ینتسمی بہ یس فقال مااراہ ینبغی یقول اللہ یس و القرآن الحکیم یقول ھذا اسمی تسمیت بہ”
حضرت اشہب سے مروی ہے فرمایا میں نے حضرت مالک بن انس سے دریافت کیا کیا کسی کا نام یس رکھنا مناسب ہے؟ فرمایا میں مناسب نہیں سمجھتا اللہ تعالی فرماتا ہے یس و القرآن الحکیم فرماتے ہیں یہ میرا نام ہے میں اس سے پکارا گیا

سوم__ در منثور میں ہے “عن ابی الطفیل قال قال رسول اللہ ﷺ ان لی عند ربی عشرۃ اسماء قال ابو الطفیل حفظت منہا ثمانیۃ محمد احمد ابو القاسم والفاتح والخاتم والماحی والعاقب والحاشر وزعم سیف ان ابا جعفر قال الاسمان الباقیان طہ و یس”
ابو الطفیل سے مروی ہے کہا رسول الله ﷺ نے فرمایا یقیناً میرے رب کے پاس میرے دس نام ہیں محمد احمد ابو القاسم فاتح خاتم ماحی عاقب حاشر سیف نے گمان کیا کہ ابو جعفر نے کہا دو باقی نام ہیں طہ اور یس

ظاہر ہے کہ جب نقل موجود ہے تو طہ اور یس کا اسماۓ نبی ﷺ سے ہونا تفسیرا ثابت ہوا نہ کہ تاویلا__

جواب
یہاں صرف اتنا کہ دینا کافی نہیں کہ نقل موجود ہے بلکہ اس سے آگے اب اس کی سند کی تحقیق بھی لازم ہے

اتقان میں ہے “واعلم ان القرآن قسمان قسم ورد تفسیرہ بالنقل وقسم لم یرد والاول اما ان یرد عن النبی ﷺ او الصحابة او روؤس التابعین فالاول یبحث فیہ عن صحۃ السند والثانی ینظر فی تفسیر الصحابی فان فسرہ من حیث اللغۃ فھم اہل اللسان فلا شک فی اعتمادہم او بما شاہدہ من الاسباب والقرائن فلا شک فیہ والا وجب الاجتہاد واما مالم یرد فیہ نقل فھو قلیل و طریق التوصل الی فہمہ النظر الی مفردات الالفاظ من لغۃ العرب و مدلولاتہا واستعمالہا بحسب السیاق “
جان لیجیے قرآن دو قسم ہیں اول جس کی تفسیر نقل سے وارد ہے ثانی جس میں نقل وارد نہیں
اول یا تو نقل نبی کریم ﷺ سے وارد ہے یا صحابہ سے یا روؤس تابعین سے برتقدیر اول سند کی صحت سے بحث کی جاۓ گی بر تقدیر ثانی صحابی کی تفسیر میں نظر کی جاۓ گی اگر تفسیر بحیث اللغۃ ہو تو وہ اہلِ زبان ہیں اس لیے یہ تفسیر مقبول ہوگی یا ان کی یہ تفسیر اسباب و قرائن کے مشاہدہ پر مبنی ہوگی تو بلاشبہ یہ بھی مقبول ہے ورنہ معنی تک رسائی کے لیے اجتہاد واجب ہے
ثانی جس میں نقل وارد نہیں یہ کم ہیں اس کے فہم تک رسائی کا طریقہ یہ ہے کہ مفردات الفاظ میں نظر کریں سیاق کے اعتبار سے لغت، اس کے مدلولات اور اس کے استعمال پر غور کریں__

یہ اصول محکمات سے متعلق ہیں گمان غالب ہے اور یہ گمان بہ درجۂ یقین ہے کہ مقطعات کے باب میں کسی ایسی نقل مرفوع صحیح السند کا وجود نہیں جو ان کے معانی بیان کریں پھر بھی اگر کوئی اس کے خلاف کا مدعی ہے تو اسی اصول کے تحت یہ سوال قائم ہوگا کہ اس کی سند کیا ہے کیا وہ صحیح السند ہے؟

اتقان میں علوم قرآن کی تین قسمیں بیان کی گئیں دوسری قسم کے تعلق سے کہا گیا ” ما اطلع اللہ علیہ نبیہ من اسرار الکتاب واختصہ بہ وھذا لایجوز الکلام فیہ الا لہ اولمن اذن لہ قال واوائل السور من ھذا القسم وقیل من القسم الاول”
دوسری قسم اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو جن اسرار پر مطلع فرمایا اور اس کو ان کے لیے خاص کیا اس میں کلام کرنا انہی کے لیے جائز ہے یا ان کے لیے جن کو آپ نے کلام کی اجازت دی فرمایا اوائل سور اسی قسم سے ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ قسم اول سے ہے_

تو اگر یہ دعویٰ ہے کہ طہ اور یس کا اسماۓ نبی ﷺ سے ہونا نقل سے ثابت ہے تو اس نقل کی سند کی تحقیق ضروری ہے اگر وہ صحیح السند ہے فبہا ورنہ ان میں کلام کی اجازت نہیں ہوگی

مطالع المسرات میں یس کے متعلق مذکور حدیث کے تعلق سے فرمایا وفی سندہ مقال

فقیر نے اس کے علاوہ دیگر مذکورہ احادیث کی سند کی تحقیق کے لیے متعدد اکابر مفتیان عظام و علماء کرام سے سوال کیا علمی فقہی گروپ پر استفسارا پوسٹ کیا خود بھی انتھک کوشش کی مگر اب تک سند کی تحقیق نہیں ہوسکی اہلِ علم سے فقیر کی عرض ہے کہ اس باب میں اگر آپ کسی نتیجے تک پہونچتے ہیں تو ضرور آگاہ کریں ان اللہ لایضیع اجر المحسنین

اشکال دوم
فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے “یس و طہ نام رکھنا منع ہے کہ وہ اسماۓ الہیہ اور اسماۓ مصطفی ﷺ سے ایسے نام ہیں جن کے معنی معلوم نہیں کیا عجب کہ ان کے وہ معنی ہوں جو غیر خدا اور رسول میں صادق نہ آسکیں تو ان سے احتراز لازم”

صدر الشریعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” طہ یس نام بھی نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعات قرآنیہ سے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں ظاہر یہ ہے کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں اور بعض علماء نے اسماۓ الہیہ سے کہا بہر حال جب معنی معلوم نہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں جو حضور ﷺ یا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو “
ان عبارات سے ظاہر ہے کہ طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں_

جواب_ اعلی حضرت اور صدر الشریعہ رحمہما اللہ تعالی کی عبارات کا حاصل صرف یہ ہے کہ طہ اور یس نام نہ رکھے جائیں اس میں کہیں کوئی جملہ یا لفظ ایسا نہیں جو طہ اور یس کے اسماۓ نبی ﷺ سے ہونے پر قطعیت کے ساتھ دال ہو بلکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ذرا ان جملوں پر غور کریں ان کے معنی کسی کو معلوم نہیں
_ کیا عجب ان کے وہ معنی ہوں جو غیر خدا ورسول میں صادق نہ آسکیں یہ مقطعات قرآنیہ سے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں
ظاہر یہ ہے کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں _ ہوسکتا ہے اس کے ایسے معنی ہوں جو حضور ﷺ یا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو
” طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں ” کیا مذکورہ جملے اس دعویٰ کی قطعیت کے بجائے اس کے بہ قبیل ظنیات ہونے کی مؤید نہیں؟

 اعلی حضرت اور صدر الشریعہ رحمہما اللہ کی عبارات سے اشکال اول کا یک گونہ جواب بھی ملتا ہوا نظر آرہا ہے اگر وہ احادیث جن کا اشکال اول کے تحت ذکر کیا گیا مرفوع صحیح السند ہوتیں تو امام اہلِ سنت اور صاحب بہار شریعت رحمہما اللہ قطعیت کے ساتھ فرماتے کہ طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں فتدبر

خلاصۂ کلام
طہ اور یس مقطعات سے ہیں مقطعات متشابہات کی قسم ہیں جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں_ _ طہ اور یس کے تحت مفسرین کے اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں
_ متشابہات کی تاویلات ظنی ہیں قطعی نہیں _ متشابہات کی کہیں تفسیر کی گئی ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہوگی
ان دلائل کی روشنی میں ظاہر ہے کہ نعتیہ اشعار میں حضور ﷺ کے لیے یس اور طہ کے اطلاق سے ممانعت ہونی چاہیے حضور صدر الشریعہ رحمہ اللہ کے طرز استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس کے ایسے معنی ہوں جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو لیکن ہم منع اس لیے نہیں کہتے کہ دلائل الخیرات شریف میں طہ اور یس کو اسماء النبی ﷺ سے شمار کیا گیا اس کتاب کی مقبولیت اور صاحب کتاب کے مقام رفیع کے سامنے فقیر کی معروضات کی حیثیت کیا؟ البتہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں کم از کم یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ حضور ﷺ کے لیے طہ اور یس کے اطلاق سے اجتناب برتا جائے

اعلی حضرت، مفتی اعظم ہند استاد زمن اور حضور تاج الشریعہ کے اشعار میں کہیں حضور ﷺ کے لیے یس یا طہ کا اطلاق نظر نہیں آیا یہ اسی غایت احتیاط کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے

اللہ تعالی ہمیں اور جملہ افراد اہل سنت کو اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے سرکار دوجہاں ﷺ کی محبت میں جلاۓ اور انہیں کی محبت پر موت عطا فرمائے آمین

بندۂ عاجز
کلیم احمد رضوی مصباحی
خادم التدریس والافتا
دارالعلوم رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف سیتامڑھی

تبصرہ۔۔از قلم : حضرت علامہ کلیم رضوی مصباحی

رحمت و نور کی برکھا

شاعر جدت طراز سید خادم رسول عینی زید مجدہ کا اولین نعتیہ مجموعہ ہے_ سید صاحب قبلہ کی مہربانی کہ نور و نکہت اور عشق و عرفان میں ڈوبا ہوا نعتوں کا یہ حسین گلدستہ فقیر کے لیے سامان راحت ہوا فقیر نے بالاستیعاب ہر شعر کی قرات کی خوب محظوظ ہوا _ اس مبارک مجموعے میں ذات ممدوح علیہ السلام کے محاسن و فضائل ، اوصاف و کمالات اور خصائص و معجزات کے بیان کی جو چاندنی چھٹکی ہوئی ہے ان کے جلوؤں سے دل کی آنکھیں منور ہوئیں اچھی اور دلکش شاعری سحر سے کم نہیں، خوبصورت الفاظ دلکش و دلاویز تراکیب گلستان خیالات کے لیے اساسی عنصر ہیں تو استعارات و تشبیہات کا جمال اس چمنِ کے لیے بہار کی نوید ہیں جب گلستان خیالات پر بہار چھا جائے تو اس کا ہر منظر سحر خیز ہوتا ہے بحمداللہ ایسی دلفریب سحر خیزیاں اس حسین مجموعۂ نعت کے امتیازات میں سے ہیں_

روایت پسندی ہماری نظر میں معیوب نہیں _ ہاں! اگر قدِ فکر پر وہی فرسودہ اور کہنہ پیراہنِ الفاظ رکھے جائیں جس کے نظارے ہم تقریباً ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں تو یہ یقیناً معیوب ہے زبان و بیان پر اگر قدرت نہ ہو تب ایسی بے چارگی نظر آتی ہے بحمداللہ عینی صاحب کی زبان و بیان پر قدرت مسل٘م ہے آپ زمینِ سخن پر فکرِ مدحت کی کاشت کا اعلیٰ شعور رکھتے ہیں شعر کیا ہے اسی شعور کا نتیجہ ہے شعور کے بغیر شعر کی اپج ممکن نہیں_ روایتی مضامین کو بھی سید صاحب قبلہ نے اس قدر دلکش و دلاویز پیرائے میں باندھا ہے کہ جواب نہیں یہاں روایت جدت کے رنگ سے مزین ہوکر جیسے شعریات کا ایک نیا در وا کر رہی ہو جیسے نئے آفاق کی جستجو منزل رسا ہوگئی ہو_

ہر شجر ان کی یادوں کا ہے پرکشش
جس میں راحت کی ہیں ٹہنیاں لاجواب

بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ

رحمت رسول کے سبب
حشر ساز گار ہوگیا

دے گئے آب جود سے اپنے
نخل ہستی کو تازگی آقا

ان کے صدقے امن کا ہے سائباں
زیست میں اب دھوپ کا جنگل نہیں

عجب کشمکش میں ہیں زائر کی آنکھیں
زمین حرم ہے کہ خلد بریں ہے

نبی کے اسم گرامی میں ہے شفا ایسی
ہماری زیست کے سب زخم بھرنے لگتے ہیں

دیکھ کر ان کو چرخ کے تارے
بھول جاتے ہیں روشنی اپنی

ان کی چشم کرم رہے جب تک
پھول کھوۓ نہ تازگی اپنی

لیے دید شاہ دوعالم کی خواہش
کھڑی ہیں دلوں میں کسک کی قطاریں

سورۂ حمد سے سورۂ ناس تک
ان پہ نازل ہوئے سلسلے نور کے

دیکھ رہے ہیں آپ! کیا سلاست ہے کیسی روانی ہے جیسے صاف و شفاف چشمے رواں ہو جیسے کو ثر الفاظ اور سلسبیل معانی مکمل جوش پر ہو بندش کا اسلوب کس قدر دیدہ زیب ہے کہ اس کے حسن و جمال کے جلوؤں سے جیسے آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں روایتی مضامین کو اتنی آسانی کے ساتھ پیراہن سحر اور لباس جدت عطا کرنا سید صاحب کے لیے مشکل نہیں

سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اس شعر سے واضح ہے کہ جب بات مدحت رسول ﷺ کی آۓ تو موضوعات کی کمی نہیں نئے آفاق کی کمی نہیں احتیاط حد کا متقاضی ہے ادب و احترام رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ ناعت عظمت ممدوح کے پیش نظر بے جا غلو سے کام نہ لے اس حد کے باوصف بھی نعت کے لیے کوئی حد نہیں کہ فضائل و خصائص مصطفی کا شمار نہیں اگر ہر درخت قلم ہوجاۓ اور ہر سمندر کا پانی روشنائی تب بھی مظہر باری تعالیٰ کے اوصاف و کمالات کا بیان ختم نہیں ہوسکتا جس کا مطالعۂ سیرت ناقص ہو اس کے لیے موضوعات مدحت محدود ہوسکتے ہیں مگر جس کا مطالعہ وسیع ہو اس کے لیے موضوعات مدحت کی کوئی حد نہیں رحمت و نور کی برکھا میں مضامین کا تنوع اور خیالات کی رنگا رنگی سید صاحب قبلہ کی وسعت مطالعہ کا حسین ترین اشاریہ یے بات تشنۂ دلیل نہ رہ جائے اس لیے یہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں

آمد مصطفی__
ان کے دم سے جہاں میں بہار آگئی
بے مثال ان کا فیض قدم بولیے

آمد سرکار کا دیکھو اثر
بن میں بھی گل کا بچھونا آگیا

مولد مصطفی_
جان کعبہ کی جس میں ولادت ہوئی
ہے وہ مکہ میں عینی مکاں لاجواب

جمال مصطفی__
عارضی ہے اجالا سورج کا
ہے رخ مصطفی سدا روشن

گفتار مصطفی_
پڑھ کے دیکھو بخاری و مسلم
عینی ان کا ہے ہر کہا روشن

ان کی باتیں رہیں پر اثر اس قدر
موم بنتا گیا خود بشر سنگ دل

کردار مصطفی_
ان کی اخلاق کی تلوار کے آگے ہردم
مات کھاتا ہوا پندار نظر آتا ہے

کرم و سخاوت مصطفی_
لا نہیں کہتے ہیں سائل کو کبھی
شاہ بطحا کی نوازش کیا کہیں

اختیار مصطفی__
کردیں تبدیل حرمت کو حلت میں آپ
یوں شریعت میں با اختیار آپ ہیں

اک گواہی خزیمہ کی دو ہوگئی
اختیار شہ دوسرا بے مثال

علم مصطفی__
ماکان، مایکون کا رکھتے ہیں علم وہ
واضح یہ ہوگیا ہے خدا کی کتاب سے

رحمت مصطفی_
وہ جہاں کی اصل ہیں بنیاد ہیں عالم کی وہ
ملتی ہے ہر ایک کو رحمت رسول اللہ کی

رحمت بنا کے بھیجا ہے پروردگار نے
سارا جہاں رسول زمن کی اماں میں ہے

شفاعت مصطفی_
باذن خدا وہ کریں گے شفاعت
نجات امم کی یہ صورت رہے گی

بے مثالیِ مصطفی_
دانائے سبل ختم رسل قاسم کوثر
القاب ہیں بے مثل، کوئی ان سا ہوا ہے؟

نورانیت مصطفی__
نور سے ان کے بنی ہر ایک شئی کونین کی
سب خواص ان کے لیے ہیں سب عوام ان کے لیے

ان کے سوا رزم و بزم نبی، معجزات نبی، معراج نبی، علو و شان نبی، شہر نبی اور اس کا تقدس اور وہ سب کچھ ہے جس کی امید ایک قادر الکلام ناعت سے کی جاسکتی ہے معجزات کے ذیل میں معراج النبی ﷺ کا الگ الگ رنگ میں بیان اپنی مثال آپ ہیں یہ بو قلمونی یہ تنوع آپ کی شاعری کا اختصاص ہے چمن کی دلربائی کے لیے لازمی ہے کہ اس میں ہر طرح اور ہر رنگ کے پھول کھلے ہوں ہر پھول کی خوشبو جداگانہ اور منفرد ہو بحمداللہ رحمت و نور کی برکھا ایک ایسا ہی چمنستان سخن ہے جس میں ہر طرح کے پھول کھلے ہوۓ ہیں جن کی خوشبوؤں سے مشام جان ایمان یقیناً معطر ہوگا__

اس مجموعے کو جہان ادبیات میں یقیناً ایک گراں قدر اضافہ کہا جائے گا کہ یہ مجموعہ محاسن شعری جواہر ادبی کا حسین مرقع بھی ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ یہ مجموعہ فکر رضا کا مبلغ و ناشر بھی ہے بہت سے شعرا بدمذہبوں کے رد سے یہ کہہ کر مجتنب نظر آتے ہیں کہ یہ نعت کا حصہ نہیں _ حالانکہ ایسا نہیں ہے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شعری روایت یہی رہی کہ دشمنانِ مصطفی کا بہ بانگ دہل رد ہو امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعتیہ شاعری میں بد مذہبوں کا خوب خوب رد کیا ہے لہجے کا یہ تیکھا پن در اصل عشقیہ لہجے کی شناخت بھی ہے اور اس کا امتیاز بھی یہ سوچ کر کہ عقیدت و عقیدے میں یہ تصلب اور اس کا شعری اظہار ان ناقدین کے دربار نقد تک ہمارے ادبی شہ پارے کو پہونچنے نہیں دے گا جو مسلکاً اور عقیدتاً ہمارے مخالف ہیں رد کے اشعار کہنے سے بچنا ہماری نظر میں مداہنت ہے ادب کی پرکھ اس کی ادبیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے خواہ ادیب نظریاتی اور فکری اعتبار سے ناقد کا مخالف کیوں نہ ہو اگر نقد کا پیمانہ ادب و ادبیت کی جگہ عقیدت و عقیدہ ہو جائے تو ایسے ناقد کی پرواہ بھی نہیں کی جانی چاہیے_ علامہ عینی کا جو عقیدہ ہے اس کو انہوں نے چھپایا نہیں ہے آپ مفتی اعظم اڑیسہ حضرت مفتی عبد القدوس علیہ الرحمہ کے فرزند جلیل ہیں خانقاہ قدوسیہ بھدرک سے آپ کا تعلق ہے اس طرح آپ پر رضویات کا رنگ غالب ہے _ آپ نے اپنے عقیدے کو بھی سلک نظم میں پرویا ہے اور کمال یہ ہے کہ ایسے مواقع پربیشتر شعرا کے یہاں سطحیت و ابتذال کا ناگفتہ بہ منظر نظر آتا ہے مگر علامہ عینی کے یہاں اس باب میں بھی نشان ترفع جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے__

اللہ نے مختار جہاں ان کو بنایا
اے باغیو سرکار کو مجبور نہ سمجھو

ان کے عدو کو کھل گیا، حاسد تھا جل گیا
بزم سلام سے وہ اچانک نکل گیا

عدوۓ سرور کونین کی تذمیم کرتے ہیں
نبی کے ہوگئے جو ان کی ہم تکریم کرتے ہیں

سرکار کی عظمت کے اے منکر یہ بتاؤ
کیوں معجزۂ شق قمر یاد نہ آیا

بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ

جہاں تک صنائع و بدائع کی بات ہے تو بحمداللہ یہ مجموعۂ نعت اس زاویے سے بھی قابل ستائش و پزیرائی ہے علامہ محمد حسین مشاہد رضوی فرماتے ہیں ” عینی نے اپنے کلام میں صنائع کے نجوم چمکاۓ ہیں بدائع کے مہر و ماہ جگمگاۓ ہیں ” اس مجموعۂ نعت میں صنعت اقتباس و تلمیح کی جلوہ گری عام ہے مضمون کی طوالت کا خوف اگر نہیں ہوتا تو اشہب قلم کی لگام چھوڑ دی جاتی پھر ہمیں فکر و خیال کے خوبصورت موتیوں سے مزید نور کشید کرنے کا موقع فراہم ہوتا_

علامہ قدسی نے حق فرمایا ہے کہ علامہ عینی کا یہ مجموعہ شرعی سقم سے منزہ ہے _ البتہ ایک جگہ سہو کتابت سے مفہوم کیا سے کیا ہوگیا ہے_
اصحاب نے نبی کا مقدر بنادیا
ان کو جہاں میں فضل کا اختر بنادیا
اول مصرعہ در اصل یوں تھا
اصحاب کا نبی نے مقدر بنادیا

دعا ہے کہ اللہ تعالی اس نعتیہ شعری مجموعہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور علامہ عینی کو مع الخیر سلامت رکھے

از قلم
کلیم احمد رضوی مصباحی
خلیفۂ حضور قائد ملت
خادم التدریس والافتا
جامعہ رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف

زکات کے کچھ اہم مساٸل ،قسط پنجم-منجانب۔شرعی عدالت گروپ دارالفکر بہراٸچ شریف۔از ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس .المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔ 3\رمضان المبارک۔1443ھ

زکات کے کچھ اہم مساٸل

==============

مسٸلہ👈🏻۔ سال بھر خیرات کرنے کے بعد اسے زکوٰۃمیں شمار نہیں کرسکتاکیونکہ زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوٰۃ شرط ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ، ج۱، حصہ ۵ ، مسئلہ نمبر ۵۴، ص۸۸۶)ہاں ! اگر خیرات کردہ مال فقیر کے پاس موجود ہو ، ہلاک نہ ہوا ہو تو زکوٰۃکی نیت کرسکتا ہے ۔(ماخوذاز فتاویٰ ضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۱۶۱)

================

زکوٰۃ لینے والے کو اس کا علم ہونا

مسٸلہ👈🏻 اگرزکوٰۃ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃلینے والے کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ دینے والے کی نیتکا اعتبار ہو گا ۔ غمزالعیون میں ہے : ’’دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے جاننے کا جسے زکوٰۃدی جارہی ہے ۔‘‘اھ۔(غمزالعیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر، کتاب الزکوٰۃ ، الفن الثانی، ج۱، ص۴۴۷)

============

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مقدارِ زکوٰۃ کا معلوم ہونا

مسٸلہ👈🏻۔ادائے زکوٰۃ میں مقدارِ واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں لہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)

===========

قرض کہہ کر زکوٰۃ دینے والا

مسٸلہ👈🏻۔قرض کہہ کر کسی کو زکوٰۃ دی ، ادا ہوگئی ۔پھرکچھ عرصے بعد وہی شخص اس زکوٰۃ کو حقیقۃً قرض سمجھ کر واپس کرنے آیا تودینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا ہے اگرچہ اس وقت وہ خود بھی محتاج ہو کیونکہ زکوٰۃ دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی ، اللہ عَزوَجلّ کے مَحبوب، دانائے غیوب، مُنَزّہ عنِ الْعیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’صدقہ دے کر واپس مت لو ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ، الحدیث، ۱۴۸۹، ج۱، ص۵۰۲)(فتاویٰ امجدیہ ، حصہ اول ، ص۳۸۹)

============

چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینا

مسٸلہ👈🏻۔ مالک بنانے میں یہ شرط ہے کہ لینے والا اتنی عقل رکھتا ہو کہ قبضے کو جانے دھوکہ نہ کھائے ۔چنانچہ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دی اور وہ قبضے کو جانتا ہے پھینک نہیں دیتا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی ورنہ نہیں یا پھر اس کی طرف سے اس کا باپ یا ولی یا کوئی عزیز وغیرہ ہو جو اس کے ساتھ ہو ، قبضہ کرے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس کا مالک وہ بچہ ہوگا ۔(الدر المختاروردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، ج۳، ص۲۰۴ملخصاً)

===========

زکوٰۃ کی نیت سے مکان کا کرایہ معاف کرنا

مسٸلہ👈🏻۔اگر رہنے کے لئے مکان دیا اور کرایہ معاف کردیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مالک بناناشرط ہے جبکہ یہاں محض رہائش کے نفع کا مالک بنایا گیا ہے ، مال کا نہیں۔ ہاں ! اگر کرائے دار زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ کی رقم بہ نیت ِ زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دے پھر کرائے میں وصول کرلے ، زکوٰۃادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از بحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ ، ج۲، ص۳۵۳)

==========

قرض معاف کردیا تو؟

مسٸلہ👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کیا اور زکوٰۃ کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع ، ج۳، ص۲۲۶)

=========

معاف کردہ قرض کا شاملِ زکوٰۃ ہونا

مسٸلہ 👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کردیا تو معاف کردہ رقم بھی شامل ِ نصاب ہوگی یا نہیں ؟ اس کی 2صورتیں ہیں ، (1)اگر قرض غنی کو معاف کیا تواس(معاف شدہ )حصے کی بھی زکوة دینا ہوگی۔اور (2)اگر شرعی فقیر کو قرض معاف کیا تو اس حصے کی زکوة ساقط ہوجاۓ گی۔اھ۔(ردالمحتار؛کتاب الزکوة ؛مطلب زکوة ثمن المبیع۔ج۔٣۔٢٢٦۔ملخصا۔)

========

زکوٰۃ کی رقم سے اناج خرید کردینا

مسٸلہ 👈🏻اگر کھانا پکا کر یا اناج خرید کر غریبوں میں تقسیم کیا اوردیتے وقت انہیں مالک بنا دیا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی مگر کھانا پکانے پر آنے والا خرچ شامل ِ زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ پکے ہوئے کھانے کے بازاری دام (یعنی قیمت) زکوٰۃ میں شمار ہوں گے اور اگر محض دعوت کے انداز میں بٹھا کر کھلا دیا تو مالک نہ بنانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۶۲)۔

واللہ تعالی اعلم۔