WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives April 2022

کسی کو بھی ظل اِلٰہ بولنا کیسا ہے؟ کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ کسی کو بھی ظل الہ بولنا کیسا ہے

سائل محمد ابوالحسن قادری نیپال👆

👇الجواب بعون اللہ الوھاب اس طرح کسی کو نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ اسکا مفھوم ومعنی ہوتاہے خدا کا سایہ، (مجازاً: بادشاہ، بادشاہوں کا لقب اور اللہ تعالی ان چیزوں سے پاک ہے۔واللہ تعالی اعلم ۔

کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔28 /مارچ 2022

نمازِ تراویح میں سجدۂ سہو کب واجب ہے؟ کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ اگر تراویح کی نماز میں پہلی رکعت میں امام قعدہ کے لئے بیٹھ گیا پھر مقتدی کے لقمہ دینے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت پوری کیتو کیاآخر میں امام کو سجدۂ سہو کرنا پڑے گا(2) نیز جو تراویح میں دورانِ قرات امام کو بھولنے کی وجہ سے لقمہ ملتا ہے اس کے لئے بھی سجدۂ سہو ہے یا نہیںرہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

عرض گزارمحمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسؤلہ میں  اگر امام ابھی بیٹھا ہی تھا کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا تو سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک بیٹھ کر اٹھے تو سجدہ سہو واجب ہوگیاجیسا کہ کتب فقہ میں ہے کہ کوئی شخص بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں بیٹھ گیا  اور تین بار سبحان الله  کہنے کے مقدار سے کم بیٹھ کر اٹھا  تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور تین بار سبحان الله کہنے کی مقدار تاخیر کر  کے اٹھا تو سجدہ سہو واجب ہے؛فتاوی عالمگیری جلد 1صفحہ  65ایسا ہی مسائل سجدہ سہو صفحہ 86 پر ہے ۔۔واللہ تعالی اعلم۔(2) سجدہ سہو واجب نہیں ہاں اگر بھولا اور اور تین مرتبہ سبحان الله کہنے کی مقدار چپ رہا تو سجدہ سہو واجب ہے، جیسا کہ سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں :امام جب نماز میں یا قرآت میں غلطی کرے تو اسے بتانا لقمہ دینا مطلقاً جائز ہے خواہ نمازِ فرض ہو یا واجب یا تراویح یا نفل اور اس میں سجدہ سہو کی بھی کچھ حاجت نہیں ہاں اگر بھولا اور تین بار سبحان الله کہنے کی دیر چپ کھڑا رہا تو سجدہ سہو آئے گا، {فتاویٰ رضویہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۹ / رضا فاؤنڈیشن لاہور } واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری ۔مدرس المر کزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہرائچ شریف۔ 2/ رمضان المبارک 1443

روزہ نہ رکھنے والے کیا مسجد میں روزہ داروں کی افطاری کھا سکتے ہیں؟ کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔

کیا بے روزے دار کو روزے دار کی افطاری مسجد میں کھانا حرام ھے کوئی کہتا ہے کہ جو افطاری مسجد میں آتی ہے یہ مال وقف ہے اور مال وقف اسی میں استعمال ہو جسکے لیے وقف کیا گیا ہو لہذا آپ سب کے بارگاہ میں عرض ہے کہ اس مسئلے کو ضرور دیکھیں اور جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔۔۔۔ سائل۔۔۔محمد رضا دھلی۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں اگر افطار کرانے والے جانتے ہیں کہ سب آتے ہیں اور اس کی طرف سے اجازت بھی ہے تو سب افطاری کر سکتے ہیں اگر افطار کرانے والے کی طرف سے اجازت نہ ہو تو غیر روزہ دار کا کھانا جائز نہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : اور افطاری میں غیر روزہ دار اگر روزہ داربن کر شریک ہوتے ہیں متولیوں پر الزام نہیں۔ بہتیرے غنی فقیر بن کر بھیک مانگتے اور زکوٰۃ لیتے ہیں دینے والے کی زکوٰہ ادا ہوجائے گی کہ ظاہر پر حکم ہے اورلینے والے کو حرام قطعی ہے یونہی یہاں ان غیر روزہ داروں کو اس کاکھانا حرام ہے۔وقف کا مال مثل مال یتیم ہے جسے ناحق کھانے پر فرمایا:انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا۔ ترجمہ:اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے۔ (پارہ 4 سورہ نساء آیت 10)۔ ہاں متولی دانستہ غیر روزہ دارکو شریک کریں تو وہ بھی عاصی ومجرم وخائن ومستحق عزل ہیں۔ رہا اکثر یاکل مرفہ الحال ہونا اس میں کوئی حرج نہیں۔ افطاری مطلق روزہ دار کے لئے ہے اگرچہ غنی ہو جیسے سقایہ مسجد کاپانی ہر نمازی کے غسل ووضو کو ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔ انتظامات متولیوں کے ہاتھ سے ہوں گے جبکہ وہ صالح ہوں ۔ متولی معزول معزول ہے۔( جلد 16 صفحہ 487)واللہ تعالی اعلم۔

کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔

زکات وصدقہ فطر کے اہم مساٸل-قسط چہارم-منجانب۔شرعی عدالت دارالفکر گروپ بہرائچ-از۔احمدرضاقادری، منظری،مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ شریف۔

مسٸلہ 👈۔کسی شخص کے پاس سونا نصاب (ساڑھے سات تولہ ) سے کم ہو، لیکن ساتھ میں ضرورت سے زائد کچھ نقد رقم بھی ہو ( چاہے پانچ ، دس ہزار ہی کیوں نہ ہو) اور سونے کی قیمت کو نقدی کے ساتھ ملانے سے مجموعی قیمت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو سال پورا ہونے پر زکات واجب ہوگی، اور اگر مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت سے کم ہو تو پھر زکات واجب نہیں ہوگی۔ملخصا ۔(بہارے شریعت حصہ 5.ص 31. فتاوی رضویہ جلد 4.ص 417.)=======

مسٸلہ 👈 ۔صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد مالک نصاب پر جس کی نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے۔اس میں عاقل بالغ اور مال نامی ہونے کی شرط نہیں ۔(درمختار۔ج٢۔ص ٩٩۔بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ٥٥۔)یعنی کسی کے پاس سونا چاندی کا نصاب نہ ہو اور نہ ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت و روپیہ ہو مگر حاجت اصلیہ سے زاٸد سامان غیر تجارت ہو تو صدقہ فطر واجب ہوجاۓ گا۔اھ۔(فتاوی فیض الرسول ۔ج اول۔ص ٥٠٦۔)

مسٸلہ ✍️ عورت شوہر کو شوہر عورت کو زکوة نہیں دے سکتے اگرچہ طلاق باٸن بلکہ تین طلاقیں دے چکا ہو جب تکہ عدت میں ہے۔اور عدت پوری ہونے ہوگٸ تو اب دے سکتا ہے۔اھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ٥٠۔)=======

مسٸلہ 👈 ۔ماں باپ محتاج ہوں اور حیلہ کر کے زکوة دینا چاہتا ہے کہ فقیر کو دے دے پھر فقیر انہیں دے مکروہ۔اھ(۔ردالمحتار۔ج ٢ ص ٨٧۔بہارے شریعت۔ج ٥۔ص ٥٠۔)اگرصدقۂ فطر واجب ہونے کے بعد مال ہلاک ہوجائے توپھر بھی دیناہوگاکیونکہ زکوٰۃوعشر کے برخلاف صدقۂ فطر ادا کرنے کے لئے مال کا باقی رہنا شرط نہیں۔ (الدر المختار، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۶ )===========

فوت شدہ شخص کا فطرہ)=========== مسٸلہ👈 اگر کسی شخص نے وصیت نہ کی اورمال چھوڑ کر مر گیا توورثہ پراس میت کے مال سے فطرہ ادا کر نا واجب نہیں کیونکہ صدقۂ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں ، ہاں ! اگر ورثہ بطورِ احسان اپنی طرف سے ادا کریں تو ہوسکتا ہے کچھ اُن پر جبر نہیں۔(الفتاوٰ ی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب فی صدقۃ الفطر، ج۳، ص۱۹۳)====== ( مہما نوں کا فطرہ)======= عید پر آنے والے مہمانوں کا صدقۂ فطر میزبان ادا نہیں کرے گااگر مہمان صاحب ِ نصاب ہیں تو اپنا فطرہ خود ادا کریں۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَّہ، ج۱۰، ص۲۹۶)==============

شادی شدہ بیٹی کا فطرہ

مسٸلہ 👈 اگر شادی شدہ بیٹی باپ کے گھر عید کرے تو اس کے چھوٹے بچوں کا فطرہ ان کے باپ پر ہے جبکہ عورت کا نہ باپ پر نہ شوہر پر ، اگر صاحب ِ نصاب ہے تو خود ادا کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَّہ ، ج۱۰، ص۲۹۶)============

بلااجازت فطرہ ادا کرنا

مسٸلہ اگربیوی نے شوہرکی اجازت کے بغیراس کافطرہ اداکیاتوصدقۂ فطر ادا نہیں ہوگا ۔جب کہ صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہ ہو۔(ملخَصٍّاالفتاوٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۳ )==========

مسٸلہ اگرشوہرنے بیوی یا بالغ اولاد کی اجازت کے بغیران کافطرہ اداکیاتو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں ہو۔(ماخوذ ازالدر المختارو رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۰)

استقبال رمضان۔۔از: سید خادم رسول عینی۔۔

اس کا استقبال کیجیے مومنو سنت ہے یہ

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام

اس شعر میں کہا گیا ہے کہ اے مومنو ! ماہ رمضان کا استقبال کرو کیونکہ یہ نیکی کا تحفہ لےکر آیا ہے اور ماہ رمضان کا استقبال کرنا سنت مصطفی’ ہے ۔استقبال کا مطلب کیا ہے اور ماہ رمضان کا استقبال کیوں اور کیسے کیا جائے، آئیے اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا استقبال ہے ۔مہمان نوازی کو استقبال کہا جاتا ہے ۔استقبال ماہ رمضان ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کا نام ہے ۔ مشہور حدیث ہے کہ شعبان کے آخری دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے صحابہء کرام کو ماہ رمضان کی اہمیت اور فضیلت سے روشناس فرمایا۔الغرض استقبال ‌ماہ رمضان حدیث سے ثابت ہے۔جب کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو اس کے استقبال کے لئے ہم‌ انتظامات و انصرامات کرتے ہیں، گھر کے در و بام‌ کو سجاتے/ سنوارتے ہیں، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں۔چونکہ ماہ رمضان بہت قیمتی، معظم اور بابرکت مہمان ہے اس لیے اس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنی روح کو سنوارنا ہے ، اپنے اعمال و کردار کو بہتر بنانا ہے ۔ماہ رمضان کی آمد سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار صدق دل سے کرلیں تاکہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ایک نئی اور صاف ستھری زندگی کا آغاز کر سکیں ۔ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی شب میں پہلی تراویح، پھر دیر رات میں سحری اور آنے والے دن میں روزے اور پھر شام کو افطار، پھر دوسری شب میں نماز تراویح ۔یہ ایک معمول ہے ، روز مرہ کا کام ہے جو پورے مہینے چلتا ہے الحمد لللہ۔

ماہ رمضان اتنا اہم کیوں ہے؟ ہم اس کا استقبال کیوں کریں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماہ مومنوں کے لئے تحفے لیکے آتا‌ ہے۔کون سا تحفہ؟ نیکیوں کا تحفہ۔ماہ رمضان صرف نیکی لےکر نہیں آتا ، بلکہ نیکیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہوا آتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر مومن ماہ رمضان میں نفل ادا کرتا ہے تو اس کو ثواب فرض کا ملتا ہے۔اگر مومن ایک فرض ادا کرتا ہے تو اس کو ستر فرض کا ثواب ملتا ہے۔تو پھر ایسے خیر خواہ اور مہربان مہمان کا پرتپاک انداز سے ایک مومن استقبال نہ کرے؟بیشک ہر مومن ، ہر مسلمان بڑی بے صبری کے ساتھ اس ماہ کا منتظر رہتا ہے ۔آئیے ہم سب مل کر اس ماہ کا استقبال کرتے ہیں جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔آئیے اس کا استقبال کرتے ہیں جس کو ایمان کا مہینہ کہا گیا۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے گئے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔اس ماہ کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور اتری۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اترا ۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو ماہ انوار بھی ھے اور ماہ بخشش و مغفرت بھی۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو درجات جنت کے حصول کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو دوزخ کے طبقات کی نجات کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو عابدوں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو توبہ کرنے والوں کا مہینہ ہے۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جو اہل معرفت کا مہینہ ہے۔اس‌ کا استقبال کرتے ہیں جو عارفوں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جو امن و اماں کا مہینہ ہے۔اس کا استقبال کرتے ہیں جس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے جسے قدر والی رات کہتے ہیں اور اس رات کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:انا انزلنا ہ فی لیلۃالقدروما ادراک ما لیلۃ القدرلیلۃ القدر خیر من الف شھر الحمد لللہ پھر سے ہماری زندگی کے باغ میں بہار دلکش بن کر ماہ رمضان آیا ہے ۔آئیے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر اس کا استقبال کریں اور پورے انتیس / تیس دن اس کی قدر کریں ، اس مہینے کا کوئی بھی لمحہ ضائع ہونے نہ دیں ۔ پتہ نہیں کل ہو یا نہ ہو، آئندہ ماہ رمضان تک زندگی باقی رہے یا نہ رہے ۔خیر ، اللہ سب کو امن و اماں میں رکھے ۔آمینماہ رمضان میں عبادت کئی انداز سے کی جاتی ہے ۔روزہ رکھنا خود ایک اہم عبادت ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا فرمائے گا ۔اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

صائموں کی افضلیت عینی اس سے جان لو

اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں ، جس میں کل فرض نمازیں سترہ رکعتوں کی ہیں۔ایک فرض ادا کرینگے تو ستر فرائض کا ثواب ملےگا۔سترہ کو ستر میں ضرب دیجئے۔گیارہ سو نوے ہوئے۔۔پھر معراج کا واقعہ یاد کریں ۔ معراج کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہم دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھیں گے ، لیکن پچاس وقت کا ثواب ملےگا۔ لہذا اس کو اکاؤنٹنگ میں لاتے ہوئے گیارہ سو نوے کو دس پر ضرب دیں ۔کتنا ہوتا ہے ؟ گیارہ ہزار نو سو ہوتا ہے۔گویا ماہ رمضان میں ہم روزانہ سترہ رکعت فرض نماز ادا کرینگے ، لیکن ثواب گیارہ ہزار نو سو فرض نمازوں کا ملےگا۔ اس سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ، یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے ، خدا صرف رحیم نہیں بلکہ رحمان بھی ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں کہ آپ کے صدقے آپ کی امت کو یہ شرف عظیم حاصل ہوا۔سحری کرتے ہیں اور افطار کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔لیکن ہم ماہ رمضان کی شروعات کس عبادت سے کرتے ہیں ؟ اس عبادت کا نام کیا ہے؟ اس عبادت کا نام ہے نماز تراویح۔آئیے پہلے معلوم کرتے ہیں تراویح کی فضیلت کیا ہے۔نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ تراویح بیس رکعات پر مشتمل ہے۔ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نماز تراویح باجماعت قائم فرمائی۔وہ عمر جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ وہ عمر جن کو فاروق کا لقب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا اہتمام کیا اور اسے سنت قرار دیا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس قدر اہتمام سے تراویح پڑھنے کی ہدایت کیوں دی؟ کجھ خاص وجہ تو ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی تھی کہ عرش الٰہی کے اردگرد ایک جگہ ہے جس کا نام ہے حضیرۃ القدس ، جس میں فرشتے عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ فرشتے ماہ رمضان کی راتوں میں خدا سے اجازت لےکر زمین پر اترتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ۔ امت محمدیہ میں جس نے ان کو چھوا یا انھوں نے جس کو چھوا تو وہ ایسا نیک بخت اور سعید بن جاتا ہے کہ وہ کبھی بد بخت و شقی نہیں بنتا ۔ یہی وہ حدیث رسول ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ متأثر ہوئے اور آپ نے امت مسلمہ کو جماعت کے ساتھ نماز تراویح کا اہتمام کرنے کے لیے کہا۔نماز تراویح کی خاصیت یہ ہے کہ نمازی قیام کے دوران پورا قرآن سنتے ہیں ۔قرآن سننا بھی ایک عبادت ہے اور قیام کی حالت میں سننا مزید باعث ثواب و برکت ہے۔پورے رمضان میں تراویح کی نماز میں قرآن ختم اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان قرآن کی بتائی ہوئی ہدایتوں کو از سر نو سن لیں ، سمجھ لیں اور پورے سال ان ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔لیکن ہمارے ملک کے کتنے مسلمان قرآن کی آیات کو سن کے سمجھتے بھی ہیں ۔بہت کم تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو تراویح کے دوران قرآن سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں ۔آخر اس کا حل کیا ہے ؟ قرآن کے نزول کا مقصد انسان کی ہدایت ہے ۔لیکن بیشتر مسلمان قرآن پڑھتے یا سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔اس مسءلہ کا حل یہ ہے ماہ رمضان میں جب بھی وقت ملے ، نماز سے پہلے یا نماز کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھیں ، ترجمہ کی تفسیر پڑھیں ۔کنز الایمان پڑھیں ، تفسیر نعیمی پڑھیں۔اپنے گھر میں ، اپنے سماج میں ، اپنی بستی میں ، اپنے شہر میں قرآنک کلچر قائم کریں ۔اگر ایسا ہوا ، اگر عوام قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر بھی پڑھنے لگی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت عوام کو گمراہ نہیں کرسکتی۔سلمان رشدی ہو یا ملعون وسیم ، ان کے لٹریچر سے عوام بہک نہیں سکتی، کیونکہ ان کے اعتراضات کے جوابات ترجمہء قرآن اور تفسیر میں مل جائیں گے۔ہو سکتا ہے آگے چل کر ہمارے ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہو ۔اگر ایسا ہوا تو بھی مسلمان جن کو قرآن کا علم ہے کبھی بہک نہیں سکتے کیونکہ مسءلوں کا حل قرآن میں ہے۔وہ نکاح، طلاق ، پروپرٹی کے مسائل کا حل قرآنی احکام کے ذریعہ آپس میں طے کرلیں گے یا اپنے شہر کے مفتی / مسجد کے عالم امام سے مسئلے کا حل کروالیں گے، وہ ملک کی عدالت کا دروازہ کبھی نہیں کھٹکھٹائینگے ۔ اس طرح یونیفارم سیول کوڈ مسلم سماج کے لیے بے معنی رہ جائےگا۔ہوسکتا ہے آئندہ سالوں میں گیتا کی پڑھائی کو اسکول میں لازمی قرار دے دیا جائے۔ایسی صورت میں اگر مسلم طلباء اپنے گھر / مسجد/ مدرسے میں قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ نہ پڑھے ہوں تو کیا ان کے بہکنے کا امکان نہیں ہوگا؟ اگر قرآن کی تعلیم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ انہیں دیا گیا ہوگا تو انھیں یہ محسوس ہوگا کہ جو اخلاقی اقدار کے اسباق گیتا کے شلوک کے ذریعہ اسکول میں سکھائے جارہے ہیں وہ قرآن و حدیث میں بہتر انداز سے بتائے گئے ہیں ۔ہمارے اکابرین سرکار اعلیٰ حضرت، حضرت صدر الافاضل ، مفتی احمد یار خان نعیمی علیہم الرحمہ وغیرہ نے اردو زبان میں اسلامی لٹریچر کا ایک ضخیم اثاثہ چھوڑا ہے تاکہ ہم پڑھیں اور راہ حق پر قائم رہیں ۔کیا یہ کتابیں صرف علماء کے استفادہ کے لیے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ یہ کتابیں پڑھیں تاکہ مختلف اقسام کی گمراہیوں کی حربوں سے بچ سکیں ۔مشہور حدیث ہے:طلب العلم فریضۃ علی’ کل مسلم و مسلمۃ۔یعنی علم دین حاصل کرنا ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے۔ایک کالج میں پڑھا ہوا شخص / پڑھتا ہوا شخص بھی اگر چاہے تو علم دین سیکھ سکتا ہے اگر وہ ہمارے اکابرین کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔بہر حال ، بات چل رہی تھی نماز تراویح کی فضیلت کی۔ چونکہ نماز تراویح مستحب ہے، سنت رسول ہے اس کا پڑھنے والا ، اس کا اہتمام کرنے والا بہت ثواب کا حقدار بن جاتا ہے الحمد لللہ ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز تراویح کے دنیاوی فوائد بھی ہیں ۔ہم نے ممبئی میں ڈاکٹروں کے ایک سیمینار میں شرکت کی تھی۔سمینار کے سوال و جواب سیشن میں ایک سامع نے سوال کیا :اگر کوئی شوگر کا مریض ہے کیا وہ ماہ رمضان میں روزہ رکھ سکتا ہے؟اس سوال کا جواب ایک غیر مسلم ڈاکٹر نے یوں دیا تھا: ہاں ، ایک شوگر کا مریض ماہ رمضان میں روزے رکھ سکتا ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے جو ہدایتیں دی ہیں ان سب ہدایتوں پر عمل کرے : سحری کرے لیکن کم مقدار میں کھانا کھائے، سحری کے بعد‌ فورا” سو نہ جائے بلکہ پیدل مسجد جائے اور نماز فجر جماعت سے ادا کرے ،پورا دن حسب معمول نارمل دن کی طرح گزارے اور ظہر و عصر کی نماز باجماعت ادا کرے،افطار میں بسیار خوری نہ کرے ، افطار میں پھل ، سبزی ، ہائی فائبر فوڈ شامل کرے اور متوازن غذا کا استعمال کرے،مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھے ۔بیس رکعت نماز تراویح مسجد میں باجماعت پڑھے۔اگر کوئی شخص ان سب چیزوں کی پابندی کرے تو وہ اگرچہ شوگر کا مریض ہے ، روزہ رکھ سکتا ہے ۔ان شا ء اللہ ایک ماہ کے روزے کے بعد اس کے مرض میں بہتری آئیگی اور اس کے شوگر کی سطح بھی نارمل ہوتی ہوئی نظر آئیگی۔البتہ تجویز کردہ دوا اسے ترک نہیں کرنا ہے ۔پتہ یہ چلا کہ نماز اور روزے کے دینی فوائد بھی ہیں اور دنیاوی فائدے بھی ۔ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ماہ رمضان کا روزہ ہم خود بھی رکھیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی رکھوائیں، نماز پنجگانہ اور تراویح جماعت کے ساتھ خود بھی ادا کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی تاکید کریں ۔اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

دے رہا ہے مسلموں کو ضابطہ ماہ صیام

نور ایماں اور تقویٰ کی ضیا ماہ صیام

اس کا استقبال کیجیے مومنو ، سنت ہے یہ

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام

Eulogy of Ghause Azam–By: Sayed khadime Rasul Aini

Greatest arbitrator our Ghause Azam
The truth propagator our Ghause Azam

He is flourishing like flower of the heaven
Progeny of Haider our Ghause Azam

He quenches the thirst of many many people
The soul heart nourisher our Ghause Azam

He converted many dacoits to wise saints
The greatest creditor our Ghause Azam

He was enabled to see the world even
In the womb of mother,our Ghause Azam

Do not fearful! disciples of master
Saver and rescuer our Ghause Azam

Followers are eligible for heaven
“Aini “great leader our Ghause Azam
………………
By: Sayed khadime Rasul Aini

زکات کے مساٸل -از -:احمدرضا قادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ شریف 1443ھ

زکوٰۃ کے مسائل (ماہِ رمضان قسط سوم)

مسٸلہ👈روپیہ کہیں جمع ہو کسی کے پاس امانت ہو مطلقا اس پر زکوة واجب ہے۔اھ(۔فتاوی رضویہ۔ج ۔٤۔ص ٤١٥۔)

مسٸلہ👈۔ آج کل عورتوں کا مہر عام طور پرمہر مٶخر ہوتا ہے جسکا مطالبہ بعد موت یا طلاق ہوگا۔مرد کواپنے تمام مصارف میں کبھی خیال نہیں آتا کہ مجھ پر دین ہے ایسا مہر مانع وجوب زکوة نہیں ہوتا اگر مالک نصاب ہے تو اس پر زکوة واجب ہوگی۔ملخصا ۔(فتاوی رضویہ۔ج ٤۔ص ٤١٧۔)

مسٸلہ 👈 نابالغ لڑکیوں کا جو زیور بنایا گیا اگر ابھی انھیں مالک نہ کیا گیا بلکہ اپنی ہی ملک پر رکھا اور ان کے پہنے کے صرف میں آتا ہے اگرچہ نیت یہ ہو کہ بیاہ ہوۓ پر ان کے جہیز میں دے دینگے جب تو وہ زیور ماں باپ جس نے بنایا ہے اسی کی ملک ہے۔اگر تنہا یا اس کےاور مال سے مل کر قدرنصاب ہے اسی مالک پر اس کی زکوة ہے۔ اور اگر نابالغ لڑکیوں کی ملک کردیا گیا تواسکی زکات کسی پر واجب نہیں۔ماں باپ پر یوں نہیں کہ ان کی ملک نہیں اور لڑکیوں پر یوں نہیں کہ وہ نابالغہ ہیں ۔اھ۔ ( فتاوی رضویہ۔ج ٤۔ص ٤١٩۔)

مسٸلہ 👈 ۔زکاة اعلان کے ساتھ دینا بہتر اور خفیہ دینا بھی بے تکلف رواہے۔اور اگر کوٸ صاحب عزت حاجت مندہوکہ اعلانیہ نہ لےگا یا اس میں سبکی سمجھے گا تو اسے خفیہ بھی دینا بہتر ہے۔اھ۔(فتاوی رضویہ ج۔٤۔ص ٤٢٦۔)

مسٸلہ 👈۔جو روپیہ قرض میں پھیلا ہے اسکی بھی زکوة لازم ہے مگر جب بقدر نصاب یا خمس نصاب وصول ہو اس وقت اداواجب ہوگی۔جتنے برس گزرے ہوں سب کا حساب لگا کر۔اھ
(۔فتاوی رضویہ ج ٤ ص٤٣٢۔)

مسٸلہ 👈معجل مہر سے جب بقدر خمس نصاب ہو اس وقت عورت پر زکوة واجب الادا ہوگی اور پہلے دیتی رہے تو بہتر ہے اوریہ مہر جو عام طور پر بلا تعین وقت ادا باندھا جاتا ہے جس کا مطالبہ عورت قبل موت وطلاق نہیں کر سکتی اس پر زکوة کی صلاحیت بعد وصول ہوگی۔اھ۔ (فتاوی رضویہ۔ج ٤۔ص٤٣٣۔)واللہ تعالی اعلم۔

*ماہ رمضان میں عورتوں کےمخصوص مسائل===قسط دوم-منجانب-شرعی عدالت دارالفکر بہراٸچ۔از-احمدرضا قادری۔منظری ۔استاذ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ۔۔۔یکم۔رمضان المبارک ١٤٤٢ھ

۔=== 👈حیض و نفاس کے دنوں میں عورت کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے‘البتہ ان روزوں کی قضا فرض ہے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔)

===👈 اگر کسی عورت کو روزہ کے دورانmenses (حیض) شروع ہوجائے تو اس کا روزہ ختم ہوجاتا ہے اور اس کی قضا اس پر لازم ہے۔(بہارے شریعت۔ص ١١٠۔)

=== 👈حاملہ عورت کو روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی یا اپنے بچے کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے ‘لیکن بعد میں ان روزوں کی قضا لازم ہےاھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١٠٩۔)

===…👈 اسی طرح اگردودھ پلانے والی عورت کا روزہ رکھنے کی وجہ سے دودھ کم ہوجاتا ہے اور بچے کا پیٹ نہیں بھرتا تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے‘لیکن بعد میں قضا لازم ہے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥ ص ١٠٩۔)

===👈… اگر عورت مندرجہ بالاکسی عذر کی بنا پرروزہ نہیں رکھتی تب بھی اُس کے لیے مستحب ہے کہ وہ روزہ دار کی طرح رہے اور کسی کے سامنے کھانے پینے سے پرہیز کرے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١١٠۔)

===👈 اگر عورت کو سالن چکھنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایسا کرسکتی ہے، لیکن ایسا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر جائز ہے اور بغیر کسی مجبوری کے ایسا کرنا مکروہ ہے، نیز صرف سالن چکھ سکتی ہے اگر سالن یا اس کا ذائقہ حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔اھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥ ص ١٠٤۔)

===👈… اسی طرح مجبوری میں عورت اپنے بچے کو کھانے کی کوئی چیز چبا کر دے سکتی ہے‘لیکن اگر اس نے اتنا چبایا کہ اس چیز کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١٠٥۔)

===👈۔عورت اگر نفل روزہ رکھنا چاہتی ہے تو وہ اپنے خاوند سے اجازت لے اور اگر وہ بغیر اجازت کے نفل روزہ رکھتی ہے اور اس کاخاوند اعتراض کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس نفلی روزہ کو توڑ دے اور بعد میں اس کی اجازت سے قضا کرے،رمضان کے روزے چوں کہ فرض ہیں، اس لیے ان میں اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔(درمختار۔ج دوم ص ١٦٧۔بہارےشریعت۔حصہ پنجم ص ١١٢۔)

واللہ تعالی اعلم۔

رمضان المبارک کے مسائل:قسط اول-منجانب۔شرعی عدالت دارالفکر گروپ۔بہراٸچ شریف۔یو۔پی۔از :احمدرضا قادری۔منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر ۔درگاہ روڈ بہراٸچ شریف۔

مسئلہ: افطارکرنے کی دعا افطارکے بعدپڑھنا سنت ہے قبل افطار نہیں۔(فتاوی رضویہ ج۴ص۶۵۱)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں انار اور بانس کی لکڑی کے علاوہ ہر کڑوی لکڑی کی ہی مسواک بہتر ہے۔(ردالمحتار ج ۱ص۲۳۵)

مسئلہ: گلوز کا ڈراپ یا طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہ ہو گا اگر چہ بھوک پیاس ختم ہو جائے،ہاں اگر بھوک پیاس سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو مکروہ ہے۔(مستفاداز فتاوی ہندیہ ج۱ص۲۰۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔(مستفادازشامی ج۲ص۳۹۵)

مسئلہ: بغیرسحری کے روزہ رکھنا جائز ہے۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۳)

مسئلہ: روزه کی حالت میں عطر لگانا،پھول سونگھنا،سرمہ لگانا، تیل لگانا،بال ترشوانا،موئے زیر ناف مونڈنا،بام لگانا،ویسلین یاکریم لگانا،تیل کی مالش کرنا یہ سب جائز ہیں ان سب چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(فتاوی مرکزی دارالافتاء بریلی شریف ص۳۵۸)

مسئلہ: سورج ڈوبنے کے بعدبلا تاخیر فوراً افطار کریں،اذان کا انتظار نہ کریں۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۴)

مسئلہ: ماہ رمضان کی راتوں میں بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔(قرآن مجیدپ۲ رکوع۷)

مسئلہ: روزہ رکھنے کے لئے حائضہ عورت اگر ٹیبلیٹ کا استعمال کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے البتہ اس کا یہ فعل جائز نہیں کہ بہت ساری بیماریوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔(مستفاد از ہدایہ اولین ص۶۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(بہار شریعت وغیرہ)

مسئلہ: عید ،بقرعیداورایام تشریق۱۱،۱۲،۱۳، ذی الحجہ کو روزہ رکھناحرام ہے۔(بہار شریعت ح۵ص۱۴۲)

مسئلہ: جو شخص روزہ نہ رکھے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔(شامی ج۲ص۷۶)

مسئلہ: ادائے رمضان کا روزہ اور نذر معین ونفلی روزہ کی نیت رات سے کرناضروری نہیں اگر ضحوۂ کبری یعنی دوپہر سے پہلے نیت کرلی تب بھی یہ روزے ہو جائیں گے اور ان تینوں روزوں کے علاوہ قضائے رمضان نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یارات میں کرنا ضروری ہے ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا(عالمگیری ج۱ص۱۳۸)

مسئلہ: حالت جنابت میں روزہ درست ہے۔اس سے روزے میں کوئی نقص وخلل نہیں آئے گا کہ طہارت باجماع ائمہ اربعہ شرط صوم نہیں ہے البتہ وہ شخص نمازیں قصدا چھوڑنے کے سبب اشد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔(فتاوی رضویہ ج۴ ص۶۱۵)

واللہ تعالی اعلم۔

اسلام کا مقدس مہینہ ہوا ہم سب پر سایہ فگن ۔۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریلیز {مہراج گنج}آج ٢ \اپریل سن ٢٠٢٢ء ۔مطابق ٢٩ \شعبان المعظم سن١٤٤٣ ھ کی شام افق غربی پر ہلال رمضا ن کی رویت ہوتے ہی اسلام کا مقدس مہینہ ہم سب پر سایہ فگن ہوگیا۔مسرت وشادمانی کے نور سے ہر دل منور ہوگیا ۔لذت سجود کے پاکیزہ خیال سے جبین نیاز بارگاہ الہی میں خم ہونے لگے،بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنے میں تقوی شعاری،وپرہیز گاری کا ربانی وعدہ ذہن وفکر کے دروازے پر دستک دینے لگا۔یکا یک انتییس شعبان شریف کی وہ حدیث پاک زبا ں زد ہونے لگی جسے آقاۓ نعمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابئہ کرام کی محفل میں بیان فرمائ اور رمضا ن شریف اور روزے کی مکمل فضیلت واہمیت جاگزین قلب وجگر فرمادی۔راوئ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتیسویں شعبان شریف کو فرمایا ،اے لوگو تم پر ایک ایساعظیم،بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہاہے ،جس میں ایک ایسی مبارک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اللہ تعالی نے اس ماہ کے روزے فرض ،اور رات کو تراویح کی نماز نفل{سنت}قرار دیۓ ۔جو اس ماہ میں کوئ نفل عبادت کرے تو وہ ایسی ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کۓ۔اور جس نے اس ماہ میں فرض ادا کۓ تو وہ دوسرے ماہ کے ستر فرض کے برابر ہے۔ یہ{رمضان} ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق{روزی} بڑھا دیا جاتاہے، یہ صبر کا مہینہ ہے،اور صبر کا ثواب جنت ہے،صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے ۔اور صبر کرنے والوں کو بے حساب دیا جاۓگا۔جو اس ماہ میں کسی روزے دار کو افطار کراۓتو یہ افطار کرانا ان کےلۓ گناہوں سےبخشش کاسامان اور جہنم سے آزادی کا پروانہ ہوجاۓ گا۔مگر روزہ دار کے ثواب میں کوئ کمی نہ کی جاۓگی۔اور افطار کرانے والے کو اس کے علاوہ ثواب دیا جاۓگا۔صحابئہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم میں سے ہر شخص اس کی استطاعت{طاقت} نہیں رکھتا ۔بوجہ غربت کسی کو افطار نہیں کراسکتا تو کیاوہ اس ثواب سے محروم رہے گا ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالی اسے بھی یہ ثواب دےگا جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ ۔یا ۔ایک چھوہارہ ۔یا۔پانی سےہی افطار کرادے۔جو اس ماہ میں کسی روزہ دار کو شکم سیر {پیٹ بھر}افطار کراۓ تواللہ تبارک و تعالی اسے میرے حوض سے ایک ایسا شربت پلاۓگا کہ کبھی پیاسانہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاۓگا۔اس ماہ کا اول عشرہ رحمت ،درمیانی عشرہ مغفرت{بخشش}اورآخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔جو اس ماہ رمضان میں کسی ماتحت ملاز م پر کام میں تخفیف{نرمی}کرےگا تواللہ اسے بخش دےگااور اسے جہنم سے آزاد کردے گا۔رمضان کی فضیلت واہمیت سے متعلق مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب اس ماہ مبار ک کا احترام بجا لاکر رضاۓ الہی کے طلب گار بنیں ۔اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں۔