WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives May 2022

بھونیا پور،اسکابازار،سدھارتھ نگر میں “جشن ادائے مصطفیٰ ومحفل میلاد پاک” منایا گیا-رپورٹ:صغیر احمد انصاریساکن:بھوانیا پور،پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

 ’’ایجاب وقبول‘‘کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ قرآن مجید میں اور اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جابجا نکاح کے لئے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے ‎تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں، بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے، اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اور اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے۔۔۔
اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ! اے لوگو ، اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ (سورۂ نسآء)‏‎متعدد احادیث میں بھی نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے، ایک حدیث مبارکہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے، کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے،(مسلم شریف) دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے (ترغیب) اس طرح مختلف احادیث میں شادی نہ کرنے پر وعید آئی ہے، ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو شخص باوجود تقاضائے نفس وقدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے (کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے کہ وہ نفس نکاح کو وصول الی اللہ سے مانع سمجھ کر اس کے ترک کو (نکاح نہ کرنے کو) عبادت سمجھتے ہیں-اس لیے سبھی مسلمانوں کو چاہییے کہ جب ان کے بچے بالغ اور شادی کے لائق ہو جائیں تو اوّل فرصت میں ان کے لیے مناسب اور دیندار گھرانا دیکھ کر رشتہ ونکاح کروادیں اس طرح جہاں سنّت رسول کی بجاآوری ہوگی وہیں وہ بہت ساری برائیوں سے بچ بھی جائیں گے اور نکاح خوانی کے صدقے ان شاءاللہ العزیز آپ کے گھروں میں خیروبرکت بھی ہوگی- ساتھ ہی ساتھ ہمیں چاہییے کہ جب کبھی بھی ہم اپنے بچوں کی شادی بیاہ کریں تو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نکاح میں پائی جانے والی خرابیوں اور رسم و رواج کے خلاف طاقتور آواز بلند کریں اور ہر قسم کے مفاسد اور بری باتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ بیجا رسومات جوڑے گھوڑے اور مروجہ جہیز کی لعنت سے بچتے ہوئے نکاح کو آسان بنائیں، کیوں کہ کم خرچ، ہلکی پھلکی اور آسان شادیوں کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘وہ نکاح بہت ہی بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم ہو’۔(بیہقی)

لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہماری شادیاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بالکل برعکس ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں ہم نت نئے خانگی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
ازدواجی زندگی کو خوشگوار، خوش حال اور کامیاب بنانے کے لیے اسلام نے جن باتوں کا ہمیں حکم دیا ہے، آج ہم انہی باتوں کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں جس کے سبب ہم فساد وبگاڑ کی طرف نہایت تیزی سے رواں دواں ہیں۔ شادی کے شرعی معیار کو نظر انداز کر دینے کے سبب ہم مصیبت عظمیٰ میں گرفتار ہو گئے ہیں۔
اسلامی شادیاں جو کبھی سنت نبوی کے مطابق انجام پانے کی وجہ سے مبارک تھیں آج رسومات مروجہ کے مطابق ہونے کی وجہ سے نامبارک ہو گئی ہیں، ہماری شادیاں جو خانہ آبادی اور مسرت و شادمانی کا ذریعہ و وسیلہ تھیں آج شرعی معیار کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے خانہ بربادی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ آج شادی کے بعد دو خاندانوں کے درمیان محبت کے بجائے عداوتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ اس لیے اگر ان ساری باتوں سے بچنا ہے تو ہمیں شریعت اسلامیہ کی پاسداری کرنی ہوگی-
مذکورہ خیالات کا اظہار مورخہ 14 مئی 2022 عیسوی بروز اتوار بعدنمازعشاء عالی جناب ریاض احمدانصاری ساکن بھونیا پور، پوسٹ:اسکابازار،ضلع سدھارتھ نگر کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر منعقدہ “محفل میلاد پاک وجشن ادائے سنّت مصطفیٰ” میں فاضل جلیل حضرت مولانا حافظ وقاری معین الدین صاحب مصباحی استاذ جامعہ شمسیہ تیغیہ برہڑیا، سیوان،بہار اور حضرت مولانا محمد شاہدرضا نوری فیضی صدرالمدرسین دارالعلوم غوثیہ فیض الرسول سمرہنا نے اپنے خطاب کے دوران کیا-
اس محفل میں درج ذیل حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا-
حضرت مولانا سراج احمدصاحب قادری علیمی،مولوی احمد حسین قادری،مولوی مجاہدرضا،محمداشرف رضا،محمدعارف رضا وغیرہم
اس مجلس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک رہے-
حضرت مفتی محمدامتیاز احمد صاحب قادری،حضرت مولانا عبیدالرضاصاحب قادری،حضرت مولاناارشاداحمدصاحب مصباحی، حافظ فیروز احمدبرکاتی،حافظ محمدفاروق، جناب مشتاق احمد صاحب انصاری، جناب نثاراحمد صاحب،جناب قمرالدین صاحب انصاری،جناب اسراراحمد انصاری،جناب اشفاق احمد وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-

رپورٹ:صغیر احمد انصاری
ساکن:بھوانیا پور،پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

جھوٹ مت بولو۔۔از: سید خادم رسول عینی

۔۔۔۔۔

ہے یہ ہدایت رحمان ، جھوٹ مت بولو
بناؤ زیست کو آسان ، جھوٹ مت بولو

دیا ہے دین‌ نے ام الخبائث اس کا نام
بچاو اپنا تم ایمان جھوٹ مت بولو

گنہ کبیرہ اسے شرع کہتی ہے، خود کو
بناؤ سچا مسلمان جھوٹ مت بولو

نہ باندھو کذب نہ ہی افترا کبھی رب پر
یہ کہتا ہے تمھیں قرآن ، جھوٹ مت بولو

بناؤ زیست میں اپنی ہمیشہ قصر حق
گرے عمارت شیطان جھوٹ مت بولو

ملیں گے فائدے ہی فائدے تمھیں سچ میں
اگر گھٹانا ہے نقصان ، جھوٹ مت بولو

ذرا سا یاد کرو سیرت جناب غوث
بڑھیگی دہر میں بھی شان ، جھوٹ مت بولو

ہمارے دل میں اے “عینی “خشیت رب ہو
بنایا ہم نے بھی عنوان جھوٹ مت بولو
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

ہرپالیہ[باڑمیر،راجستھان] میں اجتماعی شادیوں کی مثالی تقریب،نکاح خوانی 15 مئی کو

ایک ہی دن 92 دولہا دولہن بنیں گے زندگی کے ہم سفر!

باڑمیر ضلع کے سیڑوا تحصیل کے تحت ہرپالیہ نامی گاؤں میں دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے مجلس منتظمہ کے زیر نگرانی اور دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلّہ العالی کی قیادت وسرپرستی میں 15 مئی 2022 عیسوی بروزاتوار حضرت پیر سید کبیراحمدشاہ بخاری علیہ الرحمہ کے اوطاق میں بہت بڑے پیمانے پر اجتماعی نکاح وشادی کے پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے-
یہ گرام پنچایت ہرپالیہ کے لوگوں کا ایک مثالی وتاریخی اور لائق تعریف وتحسین وتبریک عمل واقدام ہے کہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی پنڈال کے نیچے 92 بچوں کی شادی ہوجائےگی-اس لائق تعریف اور نیک عمل سے جہاں قوم کے لوگوں کا وقت برباد ہونے سے بچے گا وہیں شادی بیاہ کے مواقع پر جو فضول خرچی اور بے جا وغیر شرعی رسم ورواج پر عمل کیاجاتاہے اس پر لگام لگ جائے گا اور لوگ بہت ساری پریشانیوں سے بچ جائیں گے-
بلاشبہ ہرپالیہ گاؤں کے زندہ دل لوگوں نے سندھی سماج اور دوسرے برادران وطن کے لیے ایک بہترین عملی نمونہ پیش کیا ہے-
باشندگان ہرپالیہ کے اندر ایسی مثبت اور بہترین واصلاحی سوچ وفکر پیدا کرنے والے شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کو اللہ تعالیٰ عمر خضری عطافرمائے اور آپ کے علم وعمل اور اقبال میں مزید بلندیاں عطافرمائے-

علاقے کے معزز لوگوں کا کہنا ہے کہ “ہمیں باشندگان ہرپالیہ پر ناز ہے کیونکہ اس گاؤں کے لوگوں نے سماج کو مالی نقصان سے بچانے اور وقت جیسی انمول دولت کی بربادی سے بچانے کا اپنے اس عمل و پیش قدمی سے ہماری سماج کو بہت ہی اچھا پیغام دیا ہے”-
اگر یہ اجتماعی شادی کا پروگرام نہ ہوتا تو اتنے سارے لوگوں کی شادیاں کم از کم 2 مہینے میں ہوتیں،جسے صرف ایک دن میں انجام دے دیا جائےگا،اس اجتماعی شادی سے کس قدر وقت اور پیسوں کی بچت ہے یہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں-
امید کی جارہی ہے کہ یہ اچھی رسم اب بتدریج پورے علاقۂ تھار میں رائج ہوگی [ان شاءاللہ تعالیٰ]
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی فضول چیزوں اور غلط رسم ورواج سے بچائے،سماج ومعاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کرنے اور قوم وملت کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے قائد ولیڈر نصیب کرے جو حالات کی نزاکت کو سمجھنے کا شعور رکھتے ہوں-

हरपालिया [बाड़मेर,राजस्थान] में पहली बार विशाल सामूहिक विवाह समारोह 15 मई को।

62 परिवार के 92 दुल्हा दुल्हन शादी के बंधन में बंधेंगेबाड़मेर जनपद में पहली बार सेड़वा तहसील के अंतर्गत ग्राम पंचायत हरपालिया में दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा शिक्षण संस्था सेहलाऊ शरीफ की देख रेख और संस्था के संस्थापक हजऱत पीर सैयद नूरुल्लाह शाह बुखारी की अध्यक्षता में 15 मई 2022 ईस्वी रविवार को हज़रत पीर सैयद कबीर अहमद शाह बुखारी अ़लैहिर्रहमा के ओताक़ में विशाल सामूहिक विवाह समारोह का आयोजन किया गया है। यह ग्राम पंचायत हरपालिया के लोगों का एक इतिहासिक व बहुत ही सराहनीय कार्य है कि एक ही जाज़म पर 92 बच्चों की शादी हो जाएगी, इस सराहनीय व नेक कार्य से जहाँ क़ौम के लोगों का समय बरबाद होने से बचेगा वहीं शादी विवाह के मौक़े पर जो फुज़ूल खर्ची की जाती है उस पर लगाम लग जाएगा और लोग बहुत सी परेशानियों से बच जाएंगे।बिला शुब्हा हरपालिया गाँव के ज़िंदा दिल लोगों ने सिंधी समाज और दोसरे बिरादराने वतन के लिए एक नमूना पेश किया है!हरपालिया ग्राम वासियों के अंदर एसी सोच व फिक्र पैदा करने वाले हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी को अल्लाह तआ़ला लंबी ज़िंदगी अ़ता फरमाए।इलाक़े के लोगों का कहना है कि “हमें हरपालिया वासियों पर नाज़ है क्यों कि इस गाँव के लोगों ने समाज को माली [आर्थिक] नुक़सान से बचाने और वक़्त [समय] जैसी अनमोल दौलत की बरबादी से बचाने का समाज को बहुत अच्छा पैग़ाम व संदेश दिया है।अगर यह सामूहिक विवाह प्रोग्राम न होता तो इतने सारे लोगें की शादियाँ कम से कम लगातार 2 महीने में होतीं जिसे सिर्फ 01 दिन में अंजाम दे दिया जाएगा, इस सामूहिक विवाह समारोह से किस क़दर वक़्त और पैसों की बचत है यह किसी से पोशीदा नहीं।उम्मीद की जा रही है कि यह अच्छी रस्म अब पूरे इलाक़े में राइज [प्रभावी] होगी। [इन शा अल्लाह तआ़ला]अल्लाह तआ़ला हमें हर तरह की फुज़ूल बातों और ग़लत रस्म व रिवाज से बचाए,समाज में व्याप्त बुराइयों को खतम करने और क़ौम को आला मक़ाम पर पहुंचाने वाले मुहसिन व लीडर नसीब करे जो हालात की नज़ाकत को समझने का शऊ़र [सूझ बूझ] रखते हों।

منقبت در شان حضرت ارشد ملت دامت برکاتہم العالیہ۔۔از: سید خادم رسول عینی،ناظم نشر و اشاعت،خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند٥ مئی ٢٠٢٢

رضا کی فکر پہ قربان ارشد ملت
ہیں سنیت کی عظیم آن ارشد ملت

حضور فیض اویسی بھی معترف ان کے
علوم دیں میں ہیں ذیشان ارشد ملت

شفا وہ دیتے ہیں روحانی سب مریضوں کو
ہیں ایسے مظہر لقمان ارشد ملت

وہ وقت کیسا مقدس تھا جب کہ آپ بنے
ابو النعیم کے مہمان ارشد ملت

اسیر ملت و مذہب نہ کیوں کہیں ان کو
عزائموں کے ہیں فاران ارشد ملت

ہیں ماہنامہء ارشدیہ کے وہی بانی
ادب کے یوں ہیں نگہبان ارشد ملت

مبارک آپ کو ! من جانب ابو الانوار
ملی خلافت ذی شان ارشد ملت

در کچھوچھہ و بغداد و نور طیبہ سے
ملا ہے آپ کو فیضان ارشد ملت

عبادت اور ریاضت ہیں آپ پر نازاں
کتاب‌ زہد کے عنوان ارشد ملت

تمھاری صحبت اقدس سے دہر میں لاکھوں
بنے ہیں صاحب عرفان ارشد ملت

ہیں آپ رشد و ہدایت کے مطلع پرنور
عظیم رب کے ثنا خوان ارشد ملت

تمھارے اسم گرامی سے سب مریدوں کا
تھما ہے درد کا طوفان ارشد ملت

وہ اپنے پیر کے “عینی “خلیفہء اعظم
ہیں باغ بخت کے ریحان ارشد ملت
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی،
ناظم نشر و اشاعت،
خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند
٥ مئی ٢٠٢٢

منقبت در شان والد مفتی اعظم اڑیسہ حضرت علامہ سید محمد علی علیہ الرحمہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ولی باکرامت‌ محمد علی ہیں
علی کی عنایت محمد علی ہیں

وقار سیادت محمد علی ہیں
قرار قیادت محمد علی ہیں

امین شریعت یہ کہتے تھے اکثر
بہار شجاعت محمد علی ہیں

خدا نے دیا ہے انھیں حسن ایسا
کہ جان وجاہت محمد علی ہیں

ہیں اقوال ان کے بہت کار آمد
جمال لطافت محمد علی ہیں

سخی ایسے، چرچا ہے ان کا ابھی تک
عروج سخاوت محمد علی ہیں

شہ دریا کے در سے آواز آئی
کہ میری امانت محمد علی ہیں

کتابوں کے انبار کہتے ہیں عینی
امین فصاحت محمد علی ہیں

از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ—از: سید خادم رسول عینی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و سنیت کے اے حامی تجھے سلام
بدعات و منکرات کے ماحی تجھے سلام

مداح مصطفائے گرامی تجھے سلام
حسان ہند ، وقت کے جامی تجھے سلام

علم حدیث و فقہ میں ہے لاجواب تو
اے وقت کے بخاری و شامی تجھے سلام

تجھ کو کہوں‌ مفکر اعظم زمانے کا
اے وقت کے امام غزالی تجھے سلام

تیرے کلام کی ہے زمانے میں دھوم دھام
اے ماہر سلام و رباعی تجھے سلام

تو محو عشق شاہ مدینہ میں تھا سدا
ہے معرفت میں ایسی رسائی ! تجھے سلام

اے شہرہء بسیط کے حامل سخن طراز
کہتے ہیں سب ردیف و قوافی تجھے سلام

“عینی”, کے دل میں ہے یہی ارمان جاگزیں
دے جاکے در پہ تیرے سلامی تجھے سلام
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

ڈاکٹر سید وحید کوثر کرنولی ، منفرد لہجے کا شاعر۔۔۔۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی

ڈاکٹر سید وحید کوثر دکن کے ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ۔آپ کا مجموعہء کلام عکس شفق نظر نواز ہوا۔
عکس شفق کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر اردو شاعری کی کئی اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔حمد، نعت، غزل، آزاد نظم ، معری’ نظم وغیرہ ۔

تبصرہ کی ابتدا حمد سے کرتے ہیں ۔آپ کے مجموعۂ کلام کے شروع میں دو حمد الہی ہیں ۔پہلی حمد میں ردیف ہے: تیرا اور قوافی ہیں : جلوہ ، قصیدہ دعوی’ وغیرہ ۔
یہ حمدیہ کلام دیکھ کے مجھے حسان الہند حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا نعتیہ کلام یاد آگیا :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

ڈاکٹر کوثر نے یہ حمدیہ کلام جس بحر میں کہا ہے اس بحر کا نام ہے:بحر کامل مثمن مزاحف مخبون محذوف اور اس کے افاعیل یوں ہیں : فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن۔
اس کلام میں ایک مصرع یوں ہے:

بخش دے اپنے کرم سے تو ہے رحمان و رحیم

اس کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلان
گویا شاعر محترم نے اس مصرع میں زحاف تسبیغ کا استعمال کیا ہے۔
مقطع کا ثانی یوں ہے:

ترا کوثر ہے فقط چاہنے والا تیرا
اس کے افاعیل ہیں ۔۔۔فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اس مصرع میں زحاف خبن کا استعمال ہوا ہے ۔

عکس شفق میں ایک اور حمدیہ کلام ہے جو بحر متقارب میں قلم بند کیا گیا ہے۔اس کلام میں کہیں زحاف قبض کا استعمال کیا گیا ہے تو کہیں زحاف حذف کا۔
مثلاً:

تجھی سے ہیں عالم میں سب رونقیں ۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعل۔۔۔۔بحر متقارب مثمن مزاحف محذوف

تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر

۔۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعول
بحر متقارب مثمن مزاحف مقبوض

ان‌ حمدیہ کلاموں میں مختلف زحافات کے استعمال سے آشکارا ہے کہ شاعر محترم کو علم عروض میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے،کیوں نہ ہو ؟ آپ ایک استاد شاعر ہیں ۔آپ نے شاعری کے سمندر میں نہ جانے کتنے گوہر آبدار بنائے ہیں ۔ان گوہر آبدار میں سے ایک عطا کوثر بھی ہیں جو آپ کے نامور شہزادے ہیں اور اپنے والد اور اپنے اسلاف کی وراثت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھانے کی سعیء کامل کر رہے ہیں ۔

خیر، اس حمدیہ کلام کا حاصل کلام شعر مجھے یہ لگا:

تجھ سے مانگیں ترے آگے ہی جھکائیں سر کو
اپنے بندوں سے ہے خاموش تقاضہ تیرا ۔

یہ شعر قرآن مجید کی آیت کا ترجمانی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
قرآن میں ہے:
ایاک نعبد وایاک نستعین ۔
یعنی اے پرور دگار، ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد طلب کریں ۔
اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ۔کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک ‌مستحق عبادت نہیں ہوسکتا۔
اس شعر میں رد شرک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لیے نہیں ہوسکتی۔
استعانت خواہ بالواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔حقیقی مستعان وہی ہے۔
بندہ کو چاہیے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کارکن دیکھے۔

کس قدر خوب صورتی سے ڈاکٹر کوثر نے قرآن کے ایک مضمون کو شعری سانچے میں ڈھالا ہے ۔ الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا کہ شاعر کا بہترین شعر وہ جو قرانی مفہوم پیش کرتا ہو۔ حالی کے قول کے مطابق بھی یہ شعر بہترین اشعار کے زمرے میں آتا ہے۔

عکس شفق میں تقریباً بیس نعتیہ کلام شامل ہیں ۔
ان کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس لطیف ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہیں ۔بغیر عشق رسول کے نعت نگاری ممکن نہیں ۔عشق رسول پر مبنی ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جھاڑوں میں گزرگاہ سرکار یہ پلکوں سے
اشکوں سے قلم دھودوں ارمان نرالا ہے

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایئے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے

جذبہء عشق و محبت کو بڑھاکر دیکھیے
دل کے آءینے میں عکس رویے انور دیکھیے

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفیٰ کو نہ حاجت شفا کی ہے

جذبات مچل اٹھے جب ان کا نگر آیا
سجدے میں گریں نظریں محبوب کا در آیا

ہجر میں ان کے روتی ہیں آنکھیں مری
دل میں طوفاں نہاں ہے خدا کی قسم

عشق میں تپ کے ہوگیا کندن
دل کی بھٹی میں غم محمد کا

سمجھنا جس کا نہیں ہے مشکل کرامتوں کا میں جس کی قائل
جو تجھ کو کوثر ولی بنا دے
وہ جذب عشق رسول ہی ہے

جادہء عشق نبی میں دل مرا مہجور ہے
لمحہ لمحہ ان پہ مٹنا عشق کا دستور

عشق رسول سے لبریز یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جس کا دل عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ہے ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر عاشق رسول بھی ہیں اور آل رسول بھی ۔ایک آل رسول جب عشق رسول کے عنوانات کو شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اس کو پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے

ڈاکٹر کوثر کے نعتیہ کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ ادراک ہوتا ہے کہ سیرت رسول پر آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔جابجا اشعار میں سیرت و کردار و عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر محترم کے علم و فضل کو داد و تحسین سے نوازیں :

دے کے دشمن کو بھی دنیا میں دعائیں آقا
ہم کو انداز محبت کے سکھانے آئے

تا حشر جن کی مل نہ سکے گی مثال بھی
لاریب بے مثال ہیں اطوار مصطفیٰ

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ہر سو تھی جہالت کی گھنگور گھٹا چھائی
خورشید عرب لےکر تنویر سحر آیا

استراحت کے لیے جز بوریا کچھ بھی نہیں
مالک کون و مکاں کا آپ بستر دیکہیے

آپ کے کردار اعلیٰ کی ضیا کے سامنے
کس قدر بے نور ہیں یہ ماہ و اختر دیکھیے

کفر غارت ہوگیا اور بجھ گئے آتش کدے
ہوگیا ہر ایک پر فضل خدا سرکار سے

یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جو مطالعہ میں وسعت رکھتا ہو ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر کے اشعار ان کی وسعت مطالعہ کے آءینہ دار ہیں

ڈاکٹر کوثر یقیناً ایک منفرد لہجے کے شاعر ہیں ۔آپ کا کلام میں لفظی خوبی بھی ہے اور معنوی حسن بھی، فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، لفظی صنعتوں کا جمال ہے اور معنوی صنعتوں کی رعنائی بھی۔

صنعتوں کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
صنعت تضاد:یہ وہ صنعت ہے جس کے ذریعہ شعر میں ایسے الفاظ لاءے جاءیں جن میں بہ اعتبار معنی ضد پاءی جاءے۔اس کو طباق بھی کہتے ہیں۔ایسی خوبی ڈاکٹر کوثر کے کلاموں کے کءی اشعار میں ملتی ہے۔
جیسے:

اس سے پڑھ کر نہیں پھر کوءی تعارف میرا
تو میرا مولیٰ و آقا میں ہوں بندہ تیرا
اس شعر میں میرا ، تیرا اور آقا، بندہ کے استعمال کی وجہ سے صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوگیا ہے ۔

تو حاکم ہے آقا ہے مخلوق کا
تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر

اس شعر میں اعلی’ ، ادنی’ اور ارفع ، صغیر حسن صنعت تضاد کے باعث ہیں ۔

کلمہء طیب کو بھی رتبہ ملا سرکار سے
ابتدا سرکار سے اور انتہا سرکار سے

اس شعر میں ابتدا اور انتہا دو متضاد الفاظ کے استعمال سے شعر کے حسن میں‌ اضافہ ہوگیا ہے۔

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایءے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے۔

ایک مصرع میں صبح اور شام کا اجتماع شعر کی خوب صورتی کا باعث ہے۔

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفی’ کو نہ حاجت شفا کی ہے

اس شعر میں بیمار اور شفا ایک دوسرے کی ضد ہیں

ساری مخلوق پر آپ کا ہے کرم
کیا فلک کیا زمیں سید المرسلیں

اس شعر میں زمین اور فلک کی اجتماعیت بہت لطف دے گئی۔

ان کے در سے فاصلوں کو قربتیں حاصل ہوئیں
پھر مدینہ سے بتاؤ عرش کتنا دور ہے

اس شعر میں فاصوں ، قربتیں کے سبب صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوا

صنعت تلمیح:
صنعت تلمیح اسے کہتے ہیں کہ مجموعہء الفاظ کے ذریعہ کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا جاءے۔صنعت تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے ۔اس صنعت کے ذریعہ کسی مکمل واقعہ کو ایک شعر کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔
جیسے:

آپ کا سایہ اور ثانی دونوں یہاں
ہم نے دیکھا نہیں سید المرسلیں

کل کائنات میں نہیں جس کی کوئی مثال
صناع دوجہاں کا وہ صناع ہیں حضور

تخلیق کائنات کا منشا حضور ہیں
عظمت عظیم تر مرے خیر الورا کی ہے

ہاں قربت نبی سے علی کیا سے کیا ہوا
یعنی ابو تراب سے شیر خدا ہوا

عکس شفق میں ڈاکٹر کوثر کا ایک نادر و نایاب کلام ، معنویت سے بھر پور، شعریت کے حسن سے مزین نظر سے گزرا۔
اس کلام کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں :

حق بھی رطب اللساں ہے خدا کی قسم
تم سا کوئی کہاں ہے خدا کی قسم

حسن یوسف مقید فقط ذات تک
تم سے روشن جہاں ہے خدا کی قسم

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ان کے دامن کے سایے میں ڈھونڈو سدا
رحمت بیکراں ہے خدا کی قسم

کوثر بے نوا‌ ، فکر عقبی’ عبث
حامیء بےکساں ہے خدا کی قسم

پورا کلام مطلع سے مقطع تک صنعت تلمیح و صنعت اقتباس سے مزین ہے۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مختلف واقعات کو ایک ہی شعر کے اندر مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کردینا ڈاکٹر کوثر کی خصوصیت ہے ۔اس کلام میں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لاثانی ہونے کا ذکر ہے تو کسی شعر میں آپ کے سایہ نہ ہونے کا بیان ،کسی شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہا گیا ہے تو کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے اوصاف سے متصف بتایا گیا ہے ۔کسی شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت عالمین کہا گیا ہے تو کہیں حامی ء بےکساں ۔

ڈاکٹر کوثر کا یہ کلام فصاحت و بلاغت کا گنجینہ ہے۔آپ کے اس کلام میں صنعتوں کے حسن و جمال کی فراوانی ہے ۔ صنعت اقتباس اور صنعت تلمیح کی جلوہ گری ہے۔

ڈاکٹر کوثر کے‌ اس کلام کا ہر مصرع / شعر جملہء خبریہ پر مبنی ہے ۔آپ نے ہر شعر میں خدا کی قسم کھائی ہے۔آخر خدا کی قسم کھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ آئیے اس موضوع پر کچھ بلاغتی گفتگو کرتے ہیں۔

فائدہ خبر کی تین صورتیں ہیں :

١.خبر ابتدائی
٢.خبر طلبی
٣.خبر انکاری

١.خبر ابتدائی وہ خبر ہے جس میں مضمون کسی بھی قسم کی تاکید کے بغیر پیش کیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں اگر تاکید کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ حشو ہوگا اور اہل تنقید کے نزدیک عیب کلام کا باعث ہوگا ۔جیسے : کل نفس ذاءقۃ الموت یعنی ہر متنفس کے لیے موت ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ۔اس لیے اس جملے کے ساتھ کلمہء تاکید لگانے کی ضرورت نہیں۔

٢.خبر طلبی وہ خبر ہے جس میں مضمون ایک متردد شخص کے سامنے تاکیدی کلمات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ اردو میں تاکیدی کلمات یہ ہیں: بیشک، ضرور،ہر گز, قسم‌،زنہار،
اصلا” ،بالیقیں وغیرہ

قرآن میں کئی مقامات پر رب کریم نے قسم یاد فرمائی ہے ، جیسے والضحی’ ، والیل اذا سجی’ وغیرہ۔جب ہم ان قسم والی آیتوں کی تفسیر پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن حالات میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں ، ان حالات کا تقاضہ تھا کہ کلمہء تاکید کا استعمال کیا جائے۔اس لیے قرآن نے کبھی سرکار کی رہگزر کی قسم کھائی تو کبھی چڑھتے دن کی اور کبھی رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔ مثال کے طور پر: سورہء والضحی’ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہیں آئی تو کفار نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے ۔اس کے جواب میں رب کی آیت نازل ہوئی کہ تمہارے رب نے نہ تمھیں چھوڑا نہ تمہیں ناپسند کیا ۔چونکہ کفار نے چیلنج کیا تھا اس لیے اس جملے سے پہلے کلمہء تاکید آیا؛
والضحی’ والیل اذا سجی’.

قرآن میں کلمہء تاکید کے استعمال کی چند اور مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
انا‌ انزلنہ فی لیلۃالقدر۔۔۔۔۔بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔۔۔۔بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا

ولسوف یعطیک ربک فترضی۔۔۔۔اور بے شک قریب ہے کہ تمھارا رب تمھیں اتنا ‌دےگا کہ تم راضی ہوجاوگے۔

ان سعیکم لشتی۔۔۔۔بیشک تمھاری کوشش مختلف ہے

قد افلح من ذکھا۔۔۔۔۔بیشک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا

لقد خلقنا الانسان فی کبد۔۔۔۔۔بےشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا

ھل اتک حدیث الغاشیۃ۔۔۔۔۔بیشک تمھارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائےگی

انہ یعلم الجھر وما یخفی۔۔۔۔۔بیشک وہ جانتا ہے ہر کھلے اور چھپے کو

٣.خبر انکاری وہ خبر ہے جس میں مضمون منکر حکم کے سامنے ایک مؤکد وجوبی یا چند موکدات کے ساتھ پیش کیا جائے۔
علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا مشہور و معروف شعر ہے:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں تاکید کے لیے دو بار رب کی قسم کھائی گئی کیونکہ اعلیٰ حضرت کے دور میں حیات نبی کے منکرین پیدا ہوگئے تھے اور اعلیٰ حضرت نے ان منکرین کو جواب نثر میں بھی دیااور نظم میں بھی ۔اس قسم کے جوابوں کی ایک مثال یہ ہے:

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

قرآن میں بلاغت کے اس قرینے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

والسماء والطارق۔۔۔۔آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی

والفجر ولیال عشر والشفع والوتر والیل اذا یسر۔۔۔۔۔اس صبح کی قسم اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب چل دے

لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذاالبلد ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو

والشمس وضحہا والقمر اذا تلہا والنھار اذا جلھا۔۔۔۔۔سورج اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے اور دن کی جب اسے چمکائے۔

والیل اذا یغشی والنھار اذا تجلی وما خلق الذکر والانثی۔۔۔۔۔اور رات کی قسم جب چھاءے اور دن کی جب چمکے اور اس کی جس نے نر و مادہ بنائے۔

والتین والزیتون وطور سینین وھذاالبلد الا مین۔۔۔۔۔انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی

والعصر ۔۔۔۔ اس زمانہ محبوب کی قسم

زیر تبصرہ کلام میں ڈاکٹر کوثر نے جو مضامین پیش کیے ہیں وہ سب اہل سنت کے عقائد پر مبنی ہیں ۔آج کے دور میں ان عقائد حقہ کے منکرین جابجا منڈلا رہے ہیں ۔اور کئی افراد ایسے ہیں جو ان معاملات میں تردد کے شکار ہیں ۔
کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی کا انکار کرتا ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت عالمیں ہونے پر اعتراض ہے۔کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر تردد ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل ہونے پر شک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان مخالفین کو معقول جواب دینے کی غرض سے ڈاکٹر کوثر نے اپنے اشعار میں اہل سنت کے عقاید کلمہء تاکید ،خدا کی قسم کے ساتھ پیش کیے تاکہ متردد کے تردد کا خاتمہ ہو اور منکر کو کرارا جواب ملے۔جب شاعر خدا کی قسم کھا کر کوئی جملہ باندھتا ہے تو وہ زیادہ پر اثر ہوتا ہے اور اس میں مزید مضبوطی اور مقناطیسیت ہوتی ہے اور شاعر کے پاس اشعار میں پیش کیے دعووں کے دلائل بھی موجود رہتے ہیں ۔تبھی تو رب کی قسم کھائی جارہی ہے:
رب کی قسم کہ آپ سا کوءی نہیں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ سے روشن جہاں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ نور ہیں ۔رب کی قسم کہ آپ کا سایہ نہیں تھا۔رب کی قسم آپ حق کے اوصاف سے متصف ہیں ۔رب کی قسم آپ رحمت عالمیں ہیں ۔رب کی قسم آپ شافع محشر ہیں ۔

عکس شفق کے ایک نعتیہ کلام میں ڈاکٹر کوثر کا ایک شعر یوں ہے:

نہ رضا ہیں نہ تو حسان ہیں حضرت کوثر
پھر بھی دربار میں اشعار سنانے آئے

اس شعر سے یہ آشکارا ہوا کہ
نعت نگاری میں ڈاکٹر کوثر اعلی’ حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ سے متاثر ہیں ۔

علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے دیوان حدائق بخشش میں ایک کلام ایسا بھی ہے جس کی ردیف ہے : کی قسم ۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

ان اشعار میں اعلیٰ حضرت نے جن مضامین کو پیش کیا ہے انہیں ثابت کرنے کے لیے آپ نے قلمی جہاد کیا تھا ۔کچھ افراد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہا اور آپ کی بے مثلیت پر تردد کا اظہار کیا ۔اس لیے ان افراد کے باطل عقائد کی تردید کرتے ہوئی کلمہء تاکید کے ساتھ اعلی’ حضرت نے کہا:
ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ بات روز روشن کی طرح‌ عیاں ہوگئی کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں فصاحت بھی ہے بلاغت بھی ، صنعت طباق بھی ہے اور صنعت ترصیع بھی ، صنعت تلمیح بھی ہے اور صنعت اقتباس بھی ، ندرت خیالی بھی ہے اور الفاظ کے تراکیب کی عمدگی بھی ، علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی پیروی بھی ہے اور سنت الٰہیہ کا اظہاریہ بھی۔

ڈاکٹر کوثر کی غزلوں کا مطالعہ کیا۔ اشعار سے بہت متاثر ہوا۔آپ کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدت انگیزی بھی۔غم ذات کا بیان بھی ہے اور غم کائنات کا بھی۔رنگ تغزل بھی ہے اور نعت رنگ بھی۔رومانیت بھی ہے اور رنگ تصوف بھی ۔ رجاءیت کی تلقین بھی ہے اور یاس و امید بھی ۔تشبیہات و استعارات بھی ہیں اور علامات بھی ۔حسن معنویت بھی ہے اور تراکیب الفاظ کی عمدگی بھی ۔

رومانیت پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

غرور حسن کو دینے کیا شکست مگر
ادا پہ ان کی اک اک دل کو ہار آیا ہے

ملا ہے پھر سے دوانے کو عشق کا ساماں
کلی کلی پہ چمن کا نکھار آیا ہے

جو نہ ان سے بتا سکا کوثر
اب بھی دل کی وہ بات باقی ہے

کیا حسیں ہے ان کی یادوں کا سلسلہ بھی
لگتا ہے مجھ کو ایسا دل سے برات نکلی

اس کا خیال دل سے مرے ہے لگا ہوا
کوثر نصیب مجھ کو یہ گلزار ہے تو بس

لیکے دل پھر گئے ہیں وہ ہم سے
سلسلہ آج بھی یہ جاری ہے

اک حسن پسندیدہ کو محبوب کہا ہے
ہر برگ گل تازہ کو مکتوب کہا ہے

رخسار شفق زار کو معتوب کہا ہے
لالے کو ترے حسن کا مغلوب کہا ہے

تمھیں خود پتہ چلے گا کہ تمھارا حسن کیا ہے
ذرا آکے آءینے کے کبھی روبرو تو دیکھو

آپ نے اپنے کلاموں میں اصلاحی مضامین خوب قلم بند کیے ہیں ۔کہیں ذکر ہے عزم و استقلال کا تو کہیں تدابیر کا۔

نمونہ کے طور پر شعر/ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کبھی منزل نہیں مل پائیگی آسانی سے
عزم کی راہ میں جب ایک بھی پتھر ہوگا

وہ منزل کا پہلے تعین تو کرلیں
سفر یوں خلاؤں کا اچھا نہیں ہے

بدل سکا نہیں کوئی جہاں میں ان کو آج تک
اصول جن کا ٹھوس ہے ارادہ استوار ہے۔

ملک میں پیار کے اخوت کے
آج قحط الرجال آیا ہے

محبت مروت اخوت صداقت
بہت خوشنما ہیں یہ کہنے پرانے

آپ نے اشعار کے ذریعہ غم کائنات کا بھی بیان کیا ہے اور اپنے دل کی بات دل کے باہر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نمونہ کے طور پر شعر / چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

دھوپ میں نفرتوں کی اے کوثر
پاس کس کے وفا شعاری ہے

رجاءیت اور امید پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

پھر بھی ٹوٹی نہ تری آس ترے در سے حبیب
لاکھ امید کے جھانسوں کو ہے باطل باندھا

خوابوں کو اندھیروں کے سمندر میں نہ پھینکو
سورج نیا پھوٹےگا تمناءے سحر سے

ایک تم سا رقیب کیا چھوٹا
میرے کتنے رقیب جاگے ہیں

ڈاکٹر کوثر کے مجموعہء کلام کو پڑھنے سے اس کا ادراک ہوتا ہے کہ آپ غزل کے روایتی انداز سے کنارہ کشی اختیار کرکے جدت کی راہ پر گامزن ہیں ۔اس انداز کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جوہر فکر دھنک بن کے نکھر آئیگا
تم روایات غزل گوئی سے ہٹ کر دیکھو

جیسے ہی نشہ اترا شراب کہن کا آج
میں نے نئے نظام کا ساغر اٹھا لیا

ہر نئی بات زمانے کے قلم سے نکلی
تو کہ فرسودہ روایات کی تحریر نہ دیکھ

ڈاکٹر کوثر ایک عاشق رسول ہیں ۔آپ نعت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دریا میں ڈوب کر نعتیں کہتے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ جب آپ غزل کہتے ہیں غزل کے اشعار میں بھی نعت کا رنگ آجاتا ہے۔
نعت رنگ سے مزین غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نظر ادھر بھی کیجیے حضور پیار سے کبھی
تمھارا کوثر حقیر کب سے اشک بار ہے

مشتاق دید کے لیے لازم ہے تاب دید
بے وجہ کیوں کرے کوئی ہنگامہ طور کا

جب سے ان کی متاع محبت ملی
یوں سمجھنے لگا ہوں حکومت ملی

اس کو کیا ہو ضرورت کسی چیز کی
جس کو دنیا میں اک تیری الفت ملی

جب تصور میں در یار نظر آتا ہے
ہم وہیں اپنا سر عجز جھکا لیتے ہیں

ہے میر کارواں سے وابستگی ضروری
راہوں میں لٹ گئے وہ بچھڑے جو کارواں سے

جب بھی محفل میں ترا نام لیا جاتا ہے
دل مرا اور بھی بے تاب ہوا جاتا ہے

کوثر نہ چھوڑ ان کی محبتوں کا راستہ
آنکھیں اگر چہ تجھ کو دکھلا رہی ہیں دھوپ
یہ ایک علامتی شعر ہے۔ دھوپ سے مراد ہے گمراہی، رکاوٹ، کفر، بد عقیدگی، بد نیتی، بری صحبت وغیرہ۔

غرض یہ کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں خوبیء علامات بھی ہے اور تشبیہات و استعارات کا حسن و جمال بھی۔
روایت کی رعنائی بھی اور جدت کا اجالا بھی ۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

सिरिजपुरवा में अ़क़ीदत व एहतिराम के साथ जश्ने सुन्नते रसूल मनाया।

07 मई 2022 ईस्वी बरोज़ सनीचर मदरसा अ़रबिया अहले सुन्नत सिद्दीक़िया फैज़ुल उ़लूम सिरिजपुरवा के सामने मरहूम व मग़्फूर अ़ब्दुर्रशीद अंसारी के बड़े साहबज़ादे मुहम्मद आ़लम की शादी खाना आबादी के मौक़े पर निहायत ही अ़क़ीदत व मुहब्बत के साथ “जश्ने सुन्नते रसूल व महफिले मीलादे पाक” का इन्इक़ाद किया गया।इस बा बरकत महफिल की शुरुआ़त हज़रत हाफिज़ व क़ारी अहमद रज़ा ज़ियाई मुदर्रिस: मदरसा अ़रबिया अहले सुन्नत सिद्दीक़िया फैज़ुल उ़लूम सिरिजपुरवा के ज़रिया तिलावते कलामुल्लाह से की गई।फिर यके बाद दीगरे कई लोगों ने बारगाहे रसूले अकरम सल्लल्लाहु अ़लैहि वसल्लम में नअ़तों के नज़राने पेश किए।शुरुआ़ती तक़रीर हज़रत मौलाना मुहम्मद अ़ालमगीर साहब आ़सिम फैज़ी ने दीनी व अ़सरी तअ़लीम के हासिल करने की फज़ीलत,ज़रूरत और अहमियत के उ़़न्वान पर किया।आप ने लोगों को खानक़ाहे बरकातिया मारहरा शरीफ के पैग़ाम “आधी रोटी खाइये बच्चो को पढ़ाइये ” पर अ़मल करने की ताकीद व तल्क़ीन की।बादहू नाज़िमे मज्लिस हज़रत मौलाना शअ़बान साहब अ़ज़ीज़ी ने फिर कई मद्दाहाने रसूल को लोगों के सामने पेश किया-नअ़त ख्वाँ हज़रात ने मीठे लब व लेहजे मे उ़म्दा नअ़त ख्वानी का शर्फ हासिल किया, और लोगों ने खूब दाद व दहिश से नवाज़ा।खास तौर पर इन हज़रात ने नअ़त ख्वानी का शर्फ हासिल किया।हज़रत मौलाना सेराज अह अहमद साहब क़ादरी अ़लीमी, हज़रत हाफिज़ व क़ारी अहमद रज़ा ज़ियाई,हाफिज़ व क़ारी कमाल अहमद,-जब कि हज़रत मौलाना आ़बिद अ़ली साहब निज़ामी अ़लीमी सदरुल मुदर्रिसीन दारुल उ़लूम फैज़ाने रज़ा नराएन जोत,महराज गंज ने भी लोगों को मुख्तसर खिताब किया।आखिर में खुसूसी खिताब खतीबे खुसूसी आ़लिमे बा अ़मल हज़रत मौलाना महबूब आ़लम साहब निज़ामी सदर मुदर्रिस:मदरसा अ़लीमिया लोटन बाज़ार, सिद्धार्थ नगर ने की-आप ने अपने खिताब के दौरान लोगों को अपने माँ बाप की इज़्ज़त व तौक़ीर और उन की खिदमत करने के साथ शादी विवाह को इस्लामी तौर तरीक़े से करने की गुज़ारिश की और साथ ही साथ शरीअ़ते मुस्तफा के मुताबिक़ अपनी ज़िंदगी बसर करने की ताकीद की।इस मज्लिस में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।हज़रत मौलाना मुहम्मद शाहिद रज़ा साहब नूरी सदर मुदर्रिस: दारुल उ़लूम ग़ौषिया फैज़ुर्रसूल सेमरहना, हाफिज़ व क़ारी मुहम्मद अनीस साहब,जनाब अ़ब्दुल हई साहब,जनाब अ़ब्दुल्लाह साहब,जनाब अ़ब्दुल मुईद साहब, जनाब मुहम्मद आज़म साहब,जनाब नबीहुल्लाह साहब,जनाब अफरोज़ अहमद,सरवरे आ़लम वग़ैरहुम…सलातो सलाम और हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही नाज़िमे तअ़लीमात:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ की दुआ़ पर यह मज्लिसे सईद इख्तिताम पज़ीर हुई।रिपोर्टर:मुहम्मद तौसीफ रज़ा बरकातीसाकिन:भवनिया पुर [सेमरहना] पो:उस्का बाज़ार, ज़िला:सिद्धार्थ नगर [उ:प्र:)

سرجپوروہ میں جشن سنّت رسول، رپورٹ:محمدتوصیف رضابرکاتی بھوانی پور،سمرہنا پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

7 مئی 2022 عیسوی بروز سنیچر مدرسہ عربیہ اہلسنت صدیقیہ فیض العلوم سرجپوروہ،
اسکابازار،سدھارتھ نگر کے سامنے مرحوم ومغفور عبدالرشید انصاری کے صاحبزادے عزیزم محمدعالم کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر نہایت ہی عقیدت واحترام کے ساتھ “جشن سنّت رسول ومحفل عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم” کا انعقاد کیا گیا-
اس محفل پاک کی شروعات حضرت حافظ وقاری احمدرضا ضیائی مدرس:مدرسہ عربیہ اہلسنّت صدیقیہ فیض العلوم سرجپوروہ کے ذریعہ تلاوت کلام ربّانی سے کی گئی-

پھر یکے بعد دیگرے کئی لوگوں نے بارگاہ رسول اکرم میں نعتہائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نذرانے پیش کیے-

افتتاحی مگر انتہائی جامع و اصلاحی خطاب حضرت مولانا محمدعالمگیر صاحب عاصم فیضی لوٹن بازار نے”دینی وعصری تعلیم کاحصول: وقت کی اہم ترین ضرورت” کے عنوان پر کیا-آپ نے قوم مسلم بالخصوص شرکائے محفل کو دینی وعصری تعلیم کی اہمیت وفضیلت بتاتے ہوئے لوگوں کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے پیغام “آدھی روٹی کھائییے بچوں کو پڑھائییے” پر عمل پیرا ہونے کی تاکید وتلقین کی-

بعدہ ناظم مجلس حضرت مولانا شاہ عالم صاحب عزیزی مہندوپار نے یکے بعد دیگر ے کئی مداحان رسول کو لوگوں کے سامنے پیش کیا- نعت خواں حضرات نے عمدہ نعت خوانی کاشرف حاصل کر کے مجلس میں چارچاند لگادیا-

خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا-
حضرت مولاناسراج احمد صاحب قادری علیمی،حضرت حافظ وقاری احمد رضاضیائی،حضرت حافظ وقاری انیس احمد صاحب-جب کہ حضرت مولاناعابدعلی صاحب نظامی صدرالمدرسین:دارالعلوم فیضان رضا نرائن جوت،مہراجگنج نے بھی لوگوں کو مختصر خطاب کیا-

آخر میں خصوصی خطاب خطیب شہیرعالم باعمل حضرت مولانا محبوب عالم صاحب نظامی صدرالمدرسین مدرسہ اہلسنت علیمیہ لوٹن بازار نے کی-آپ نے اپنے خطاب کے دوران لوگوں کو اپنے والدین کی عزت وتوقیراور ان کی خدمت کرنے کے ساتھ شادی بیاہ کو اسلامی طور طریقے سے کرنے کی گذارش کی اور ساتھ ہی ساتھ شریعت مصطفیٰ کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی تاکید کی-

اس مجلس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت مولانا محمدشاہدرضا صاحب نوری صدرالمدرسین:دارالعلوم غوثیہ فیض الرسول سمرہنا،حضرت حافظ وقاری کمال احمد صاحب-جناب عبدالحی صاحب،جناب عبداللہ صاحب، جناب عبدالمعیدصاحب، جناب نبیہ اللہ صاحب، افروزاحمد صاحب-جناب سرور عالم صاحب،

صلوٰة وسلام اور حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی دعاپر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی!

رپورٹ:محمدتوصیف رضابرکاتی
بھوانی پور،سمرہنا پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)