🌈 روبرو 🌈
مذہبی گھرانے اور احمدرضا خاں کے معتقد شاعر سید خادم رسول عینی صاحب کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں ! ادبی حلقے میں موصوف بنیادی طور پر ثنائے مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں –
🪶 مصاحبہ گو :- جبیں نازاں
سوال: – سب سے پہلے آپ اپنا مختصر تعارف قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟
جواب: – میں سید خادم رسول عینی، سید منزل مرزا پور ‘بھدرک’ (اڈیشا) میں ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوا۔میرے والد گرامی مفتی سید عبد القدوس علیہ الرحمہ اڑیسہ کے مفتیء اعظم تھے۔ہم لوگ سات بھائی ہیں ان میں سے بیشتر علماء ہیں اور دین و ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
سوال:- آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں ، اور کس زباں میں حاصل کی ؟
جواب:
میں نے ابتدائی تعلیم ‘بھدرک’ (اڑیسہ )میں اڑیا میڈیم میں حاصل کی۔اسکول میں ایک سبجیکٹ اردو کا بھی رہتا تھا، اور ایک فارسی کا بھی ۔
سوال :- آپ نے شاعری کی ابتدا کس عمر سے کی ؟
جواب: – میرے شاعری کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میری عمر سترہ سال کی تھی ۔میں نے اپنے پیر و مرشد علامہ شاہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی شان میں منقبت کے طور پر پہلا کلام کہا ۔
سوال:- آپ کے خاندان میں آپ سے قبل بھی کوئی شاعر گزرا ہے ؟
جواب:- ہمارے والد گرامی کے نانا حضرت علامہ سید عبد العزیز علیہ الرحمہ ایک نعت گو شاعر تھے۔آپ کے کلاموں کے مسودے کی میں نے زیارت کی ہے۔ہمارے برادر اکبر حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی ایک عظیم صاحبِ دیوان شاعر ہیں ۔
سوال:- آپ نے سب سے پہلا مشاعرہ کب اور کہاں پڑھا ؟؟
جواب :-سب سے پہلا مشاعرہ میں نے دھام نگر ، اڑیسہ کے آل انڈیا مشاعرے میں پڑھا تھا جب میری عمر سترہ سال کی تھی ۔
سوال :- مشاعرہ اردو ادب کی تہذیب اور روایت کہی جاتی ہے -لیکن سنجیدہ طبقہ زوال آمادہ مشاعرہ سے بیزار نظر آتا ہے- مشاعرے کی سیاست اور پھر متشاعرہ /متشاعر کو اولیت دینا اردو ادب کے لیے کتنا سود مند ثابت ہورہا ہے؟
جواب :- مشاعرہ کو متشاعروں سے دور رکھنا چاہئے۔شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن عروض کی بنیادی باتوں کا علم ضرور رکھتا ہو ۔
سوال :- بہار کی مساجد میں نوٹ یا نظام الاوقات وغیرہ اردو میں درج مل جاتا ہے – لیکن دہلی کی مساجد میں دیوناگری داخل ہوچکی ہے کیا کہنا چاہتے ہیں آپ ؟
جواب:
دہلی اردو کا مرکز رہا ہے ۔عوام میں اردو کے تعلق سے پھر سے بیداری لانا ضروری ہے۔
سوال : – ایک وقت تھا اردو زباں طبقہ اشرافیہ کی زباں کہی جاتی تھی ، آزادی کے بعد صورت حال بدل گئی مسلمان کی زباں ٹھہرانے کی سیاسی کوششوں کے پس پردہ بہت کچھ ہوا پھر یہ مدرسہ اور خانقاہوں کی زباں بتائی گئی ، اب صورت حال یہ ہے کہ خانقاہوں اور اہل مدرس کے بچے بھی انگریزی میڈیم سے تعلیم پاکر سجادہ بن رہے ہیں گو کہ خانقاہ میں مدرسہ چل رہا ہے لیکن اس میں انتہائی غریب یعنی کی غریبی لائن سے نیچے طبقے کے مریدوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ کڑوی حقیقت ہے یعنی کی اردو زباں اب غریبی لائن سے نیچے آگئی ہے ؟
جواب: – درست فرمایا آپ نے ۔اردو پر اردو والے ہی ظلم کررہے ہیں ۔
آپ اپنے بچوں کو کسی بھی میڈیم میں پڑھاءیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ بچوں کو گھر میں اردو ضرور پڑھاءیں اور اس طرح اپنی مادری زبان کو زندہ و جاوید رکھیں ۔
سوال :- آپ نے کسی استاد سے اصلاح لی؟گر ہاں تو استاد محترم کے نام بتانا پسندکریں گے؟
جواب :- میرے استاد میرے برادر اکبر علامہ سید اولاد رسول قدسی ہیں ، جو امریکہ میں مقیم ہیں اور تقریباً پچیس کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کے کءی دیوان منظر عام پر آچکے ہیں ۔میں نے استاد گرامی پر ایک شعر کہا تھا :
عینی شعر و شاعری سے جو ہے رشتہ استوار
میرے استاد گرامی قدسی کا فیضان ہے
سوال: -آپ کی پسندیدہ کتاب جسے بار بار پڑھنا چاہتے ہوں؟
جواب :_میری پسندیدہ کتاب قرآن مجید ہے۔یہ میرا روز مرہ کا معمول ہے کہ ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن مجید ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتا ہوں ۔قران سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کتاب ہے ۔ قرآن پڑھنے سے دونوں دینی و دنیاوی فائدے ہیں ۔اسی لیے ہم نے کہا ہے :
رب کے قرآن مقدس کو پڑھیں ہم بار بار
اس طرح ہم امتیاز خیر و شر پیدا کریں
سوال :- آپ اردو ادب اور عالمی ادب کے ان قلم کاروں کے نام بتائیں ! جنھوں نے آپ کو متاثر کیا ؟؟
جواب :- اردو:
علامہ رضا بریلوی، حسن رضا بریلوی، ڈاکٹر اقبال،امیر میناءی، داغ دہلوی، میر تقی میر ، مرزا غالب۔
غیر اردو: حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد الرحمان جامی،جان ڈان، ورڈز ورتھ، جان کیٹس۔
سوال :- آج ذرائع ابلاغ کے موثر وسائل ہمیں دستیاب ہیں ، پھر بھی ہم اردو زباں و ادب کے حوا لے سے خاطر خواہ مطمئن کیوں نہیں ؟
جواب: _ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشمولیات کا معیار گرتا جارہا ہے ۔ہمیں معیار پر دھیان دینا چاہیے اور مزید محنت سے کام کرنا چاہیے
سوال:-حالانکہ ہم گلوبل ولیج دور کے پروردہ ہیں ۔اب دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہوچکی ہے تو ایسے میں وطن سے دور رہنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ، یہ خیال کہاں تک درست ہے ؟
جواب :- درست فرمایا آپ نے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے دوریاں سمٹ گئی ہیں ، فاصلے مٹ گیے ہیں ۔اب کثرت سے آن لاین مشاعرے ہورہے ہیں جس میں لندن، امریکہ ، آسٹریلیا وغیرہ کے ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ان سے تبادلہء خیال بھی بہ آسانی ہوجاتا ہے
سوال :- جاپانی زباں ، چائنز زباں ، فرانسیسی زباں لاطینی زبان ۔فرانسیسی زباں عبرانی زباں پڑھ کر سائنس داں ،انجینئر بن سکتے ہیں ، اردو زباں پڑھ کر کیوں نہیں بن سکیں ۔۔۔؟
جواب: – ۔بالکل ۔اردو میں پڑھ کے بھی ساءینس داں بن سکتے ہیں ۔مرزا غالب کے اشعار دیکھیں ان میں سائینسی مفاہیم کی فراوانی ہے ۔اردو میڈیم کو اہمیت دینی چاہیے اور بچوں کو عصری علوم اردو میں بھی دیے جاسکتے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں ۔
سوال :- عالمی زباں میں اردو کاتیسرا مقام تھا کبھی باوجود اس کے اب تک نوبل انعام سے محروم ہے جب کہ بنگالی زباں کا مقام سب جانتے ہیں لیکن نصف صدی قبل نوبل انعام سے بنگالی ادب نوازا جا چکا ہے ، آپ کی نظر میں کیا خاص وجہ رہی ؟؟
جواب: – ۔میرے خیال میں ڈاکٹر اقبال اور ان جیسے کءی اردو شعرا نوبل انعام کے حقدار ہیں ۔
لیکن تعصب کی وجہ سے انھیں نظر انداز کیا گیا۔یا تو ہوسکتا ہے عالمی سطح میں ہم اپنی آواز مؤثر طریقے سے پہنچا نہیں سکے ۔
سوال : -اردو زباں شعر و ادب کے دم پر زندہ رہنے کی طاقت رکھتی ہے ؟
جواب: – بیشک۔شعر و ادب اردو زبان کی جان اور پہچان ہے ۔جو دلکشی اور جاذبیت اردو شاعری میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں ناپید ہے ۔
سوال :-آپ اپنی زندگی کے خوشگوار یا یاد گار لمحے قارئین کو بتانا چاہیں گے؟
جواب :- میری ادبی زندگی کی خوشگوار یادیں لکھنؤ سے جڑی ہوئی ہیں جہاں میری شاعری کی نشو نما ہوءی ۔تین سال میں لکھنو میں رہا اور لکھنؤ کے مختلف طرحی مشاعروں میں باضابطہ میری شرکت ہوتی رہی اور میرے کلام لکھنؤ کے اخبار و رساءیل اودھ نامہ ، راشٹریہ سہارا، صحافت ، نیا دور وغیرہ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔لکھنؤ کے میرے دوست احسن اعظمی مرحوم بھلائے نہیں جاسکتے ۔تقریبا” ہر مشاعرے میں ان کی رفاقت رہتی تھی ۔احسن اعظمی کے ساتھ ہماری ایک خوشگوار ادبی دوستی تھی ۔افسوس کہ گزشتہ سال کورونا سے ان کا انتقال ہوگیا ۔اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے۔آمین۔
سوال:-اب تک آپ کی نثری/شاعری پر مبنی کتنی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں؟
جواب: -میرے نعتیہ کلاموں کا مجموعہ رحمت و نور کی برکھا شائع ہو کر مقبول عام بن چکی ہے۔اس کتاب میں میرے تقریباً دو سو کلام ہیں ۔اس کتاب میں علامہ قدسی ، علامہ ہاشمی، ڈاکٹر مشاہد رضوی، علامہ رفیق مصباحی ، احسن اعظمی کی تقاریظ شامل ہیں ۔الحمد للہ ، ان بڑی شخصیات نے میری شاعری کی پذیرائی کی ہے اور میرے زود گوئی اور خوب گوئی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔
اس کے علاوہ نظر عمیق (نقد و نظر) اور مناقب مفتیءاعظم ( منقبتوں کا مجموعہ ) کی ترتیب میں نے دی ہے ۔
سوال :-ہر سال انگریزی زباں اپنی لغت میں پانچ نئے الفاظ کا اضافہ کرتی ہے ، ہندی زباں تین الفاظ کا ۔۔اردو والے اضافہ تو دور سابقہ الفاظ متروک کیے جارہے ہیں ہمیں اس پہلو پر غور کرنا چاہئے یا نہیں؟
جواب: -یہ درست ہے کہ اردو کے کچھ الفاظ متروک کیے جارہے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ نءے الفاظ بھی شامل ہورہے ہیں ۔
سوال:_ ہم روزمرہ اور عام بول چال میں دوسری زباں کے الفاظ اسی صورت میں قبول کرنے کے عادی بن چکے ہیں ،جو اردو زباں کے الفاظ بن چکے ہیں مثلاً، پولیس ، ایف آئی آر ، کمشنر ، جج، کانسٹبل بینک ، اسٹیشن ، پلیٹ فارم ، پولنگ بوتھ، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش وغیرہ یہ ہماری غفلت ہے یا کچھ اور؟
جواب:
اردو کا دامن اتنا وسیع ہے کو وہ کسی بھی غیر اردو زبان کے لفظ کو بحسن و خوبی اپنے دامن میں سمیٹ سکتی ہے ۔اور یہ زبان کی خوبی ہے ۔
سوال :-اہل اردو کی خاص توجہ صنف شاعری پر مرکوز رہتی ہے غزل پر ساری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں غزل شعرا کی ایک تہائی آبادی گر اصطلاح وغیرہ وضع کرنے میں منہمک ہوتی اردو کا دائرہ کار وسیع نہیں ہوتا کیا خیال ہے آپ کا؟
جواب :- الحمد للہ! آج کل غزل کے علاوہ نظم ، آزاد نظم ، نثری نظم، ہائیکو، دوہا ، رباعی پر توجہ دی جارہی ہے ۔مثال کے طور پر ہمارے استاد گرامی علامہ قدسی کے دیوان رباعی ، دوہا، ہائیکو میں منظر عام پر آچکے ہیں۔
دیگر شعرا کو بھی اس پر مزید توجہ دینی چاہیے۔
سوال :-اردو زباں کی پیشانی سے “یہ شعروادب کی زباں ہے”کی مہر’مٹانے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟
جواب:- شعر و ادب کے علاوہ ہمیں نثر پر بھی توجہ دینی چاہیے۔افسانہ نگاری، انشا پردازی وغیرہ پر بھی کام کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ نقد و تبصرہ پر توجہ مرکوز رہے ۔نقد و تبصرہ سے زبان کی بہت ترقی ہوتی ہے ۔
علم عروض ، علم معانی ، علم بلاغت پر بھی مزید کام ہونا چاہیے۔
سوال:-عالمی پیمانے پر گر دس اردوشعراء کے نام کا انتخاب کیا جائے تو آپ کسے منتخب کریں گے؟
جواب :-علامہ رضا بریلوی
ڈاکٹر اقبال
حسن رضا بریلوی
امیر میناءی
میر تقی میر
مرزا غالب
الطاف حسین حالی
مومن خان مومن
میر درد
میر انیس
سوال :- یوں تو اردوشعرا ستاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن میرؔ و غاؔلب اقباؔل فیضؔ و فراقؔ کے بعد نام کے انتخاب میں تنازع شروع ہوجانے کا احتمال ۔۔پھر یہ کہنا عافیت کہ جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے ‘کیا خیال ہے؟
جواب:-استاد شعرا کا اپنا اپنا مقام ہے ۔سبھوں کا رنگ جدا ہے ۔کسی میں معانی میں خوبی ہے تو کسی میں سوز و گداز ہے ۔کسی کے کلام میں سہل ممتنع ہے تو کسی میں مشکل پسندی ، کوءی علامت کی دنیا کا سلطان ہے تو کوءی تشبیہات و استعاروں کا بے تاج بادشاہ
سوال:- ایک بار پھر رخ کرتے ہیں نجی سوال کی طرف ادبی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہوگا اس کی تفصیل قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟
جواب: -الحمد اللہ!
ہمیں حسان بن ثابت ایوارڈ اور نسیم ملت ایوارڈ سے نوازا گیا ہے
سوال :- آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟
جواب:
جی نہیں ۔
چونکہ میں سرکاری ملازمت میں ہوں ، اس لیے کماحقہ مطالعہ کا وقت نہیں ملتا۔ مطالعہ سے شاعری میں مزید نکھار آئےگا ۔دعا فرمائیں ۔
سوال:-چونکہ یہ مصا حبہ ” واٹس ایپ ادبی تنظیم ” کی جانب سے کیا جارہا ہے ‘ آپ قرطاس ادب تنظیم ‘کے تعلق سے اردو زباں کے تناظر میں کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب :- بزم قرطاس ادب اردو کی بہت عمدہ انداز سے خدمت انجام دے رہی ہے ۔ہر روز بہت معلومات افزا مضامین اور کلام پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
ہمارا پیغام یہ کہ
اردو والوں کو چاہیے کہ اردو اخبار و رساءیل خرید کے پڑھیں ۔شاعر ہو یا ادیب یا محض اردو داں سب اگر اردو اخبار و رسائل خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں تو اردو کی ترقی ضرور ہوگی اور موجودہ بحران سے بچ جائےگی ۔
سوال: -آپ اپنے چند منتخب کلام قارئین کرام کی نذر کرنا چاہیں گے؟
جواب:_ لیجئے!
پانچ غزلیں پیش خدمت ہیں:
غزل
۔۔۔۔۔۔
تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ
نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ
ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ
زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ
نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ
کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ
سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ
گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ
از: سید خادم رسول عینی
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے
حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے
حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے
آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے
دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے
دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے
غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے
“عینی” رکھنا رب پہ ہر دم اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
غزل
۔۔۔۔۔۔۔
نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا
سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا
لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا
شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا
درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی
بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا
روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو
پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو
ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو
تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد میں محبت کی اذاں رہنے دو
آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو
دل کرو فتح تم اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو
درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
غزل
۔۔۔۔۔
دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف
بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف
تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف
ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف
خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف
دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر خموش سمندر ہے ہر طرف
دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
سوال:-اردو زباں کا مستقبل آپ کی نظر میں ؟؟
جواب :- ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اردو کا مرکز کبھی دہلی اور لکھنؤ ہوا کرتا تھا ۔اب یہ مرکزیت ممبئی، مہاراشٹرا اور دکن کی جانب منتقل ہورہی ہے ۔نیو یارک اور لندن بھی اردو کے مراکز بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
اردو زندہ تھی ، زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔
ان شاء اللہ
ختم شد
منجانب:_ قرطاس ادب ( کراچی ، پاکستان)
ناظم اعلیٰ: –سید فرخ جعفری
منتظم: -مہرو لونا ٰ
منتظمہ، مصاحبہ گو:– جبیں نازاں_ نئی دہلی