WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives August 2022

شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔{عرس فقیہ اعظم ہندکے حسین موقع پر خصوصی تحریر}✍️_آصف جمیل امجدی6306397662

[امجدی ڈاٸری]

حضور شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی ولادت 11/ شعبان 1339ھ/ 20/ اپریل 1921ٕ ء/ میں مشہور و معروف اور مردم خیز خطہ ، قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور اعظم گڑھ حال ضلع مئو میں ہوئی۔
آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے ۔ مفتی محمد شریف الحق امجدی بن عبد الصمد بن ثناء اللہ بن لعل محمد بن مولانا خیرالدین اعظمی۔
مولا نا خیرالدین علیہ الرحمہ اپنے عہد میں پاے کے عالم اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ۔ ان کا یہ روحانی فیض آج تک جاری ہے کہ ان کے عہد سے لے کر اس دور میں پانچویں پشت تک ان کی نسل میں اجلہ علماے کرام موجود ہیں ۔ انہیں میں سے ایک شارح بخاری ، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی بھی تھے ۔ جو ماضی قریب میں ہندو پاک کے مسلمانان اہل سنت کے صف اول کے مقتدا اور پوری دنیاۓ اہل سنت کے مرجع فتاوی اور مرکز عقیدت تھے ۔ آپ کی کثیر الجہات شخصیت کے متعلق استاذی الکریم حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفى قادری امجدی اطال اللہ عمرہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : ”حضرت مفتی صاحب قبلہ مدظلہ جماعت کے ممتاز ترین صاحب علم و بصیرت باقیات صالحات میں سے ایک ہیں۔ ذکاوت طبع اور قوت اتقان ، وسعت مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں تعمق نظر ، قوت فکر ، زور استدلال اور حسن بیان ، زودنویسی میں بھی آپ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ معلومات کی گیرائی و گہرائی میں بھی بلند رتبہ ہیں۔ خطابت ، جدل ومناظرہ میں بھی آپ کو امتیاز حاصل ہے ۔ کئی موضوعات پر آپ کی معلومات افزا تصانیف آپ کی تصنیفی خوبیوں کی مظہر ہیں۔“
مفتی شریف الحق امجدی کی ابتدائی تعلیم قصبہ گھوسی کے مقامی مکتب میں ہوئی ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1934ء میں دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور حضور حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مراد آبادی ( م 1976 ء ) کے زیر سایہ رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی ۔ 1942 ء میں آپ مدرسہ مظہر اسلام مسجد بی بی جی محلہ بہاری پور ، بریلی شریف پہنچے جہاں ابوالفضل حضرت علامہ سردار احمد گورداس پوری ثم لائل پوری محدث اعظم پاکستان کا خورشیدعلم تمام تر تابانیوں کے ساتھ اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا ۔ محدث اعظم پاکستان سے آپ نے صحاح ستہ حرفاً حرفاً پڑھ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی اور 15/ شعبان 1362ھ /1934 ء کو درس نظامی سے آپ کی فراغت ہوئی۔

  اساتذہ و مشائخ کرام میں جن حضرات کی تعلیم وتربیت کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر تھا ان میں  *حضور صدر الشریعہ مولا نا امجد علی اعظمی،  حضورمفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں ، حضورحافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ،  حضور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی سرفہرست ہیں۔*

خصوصیت کے ساتھ آپ نے حافظ ملت سے سب سے زیادہ فیض پایا ۔ درس نظامی کے علاوہ فتوی نویسی کی تعلیم و تمرین ایک سال سے زائد حضور صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی سے حاصل کی اور حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی بارگاہ میں گیارہ سال رہ کر فتویٰ نویسی سیکھی اور اس کا عمل جاری رکھا۔
اکتساب علم کے بعد مفتی شریف الحق امجدی نے تقریبا پینتیس (35)سال تک نہایت ذمہ داری کے ساتھ بڑی عرق زیزی و جاں سوزی اور کمال مہارت کے ساتھ ہندوستان کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ ہرفن کی مشکل سے مشکل ترین کتابیں پڑھائیں ۔ برسہا برس تک دورۂ حدیث بھی پڑھاتے رہے اور اخیر میں درس و تدریس کا مشغلہ چھوڑ کر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبہ افتا کی مسند صدارت پر متمکن ہوکر چوبیس برس تک رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ جن درس گاہوں کی مسند تدریس و افتا پر جلوہ افروز ہوکر آپ نے علم و حکمت کے گوہ آبداران لٹاۓ ان کے اسما یہ ہیں مدرسہ بحر العلوم مئوناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ ، مدرس شمس العلوم گھوسی ضلع مٸو ، مدرسہ خیرالعلوم پلامو بہار، مدرسہ حنفیہ مالیگاؤں مہاراشٹر ، مدرسہ فضل رحمانی گونڈہ، مدرسہ عین العلوم گیا بہار، جامعہ عربیہ انوار القرآن بلرام پور ، دارالعلوم ندائے حق فیض آباد، دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف ، الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور۔

آپ کی درسگاہ فیض سے شعور و آگہی کی دولت حاصل کرنے والے طلبہ اتنے کثیر ہیں کہ ان سب کا شمار تقریبا ناممکن ہے ان میں سے چندمشہور حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔ جو اس وقت اہل سنت و جماعت کے نامور علما میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی، مولانا مجیب اشرف اعظمی ثم ناگپوری، قاضی عبدالرحیم بستوی ، مولانا رحمت حسین کلیمی پورنیہ، مولانا قمرالدین اشرفی اعظمی، مولانا عزیز الحسن اعظمی ، مولانا رضوان احمد شریفی، مفتی محمد نظام الدین رضوی، مولانا حافظ عبدالحق رضوی، مفتی محمد معراج القادری ، مولانا محمد مرتضی نعیمی، مولانا حفیظ اللہ اعظمی، مولانا سلطان احمد ادروی ، مولانا امام الدین مصطفوی، مولانا محد کوثر خان نعیمی، مولانا افتخاراحمد قادری، مفتی شفیق احمد گونڈہ ، مولانا محمدعمر بہرائچی

تصنیف و تالیف:

مفتی شرایف الحق امجدی کی فکر وقلم تحریر و تصنیف اور زبان و ادب سے گہری وابستگی ابتدائی عمر سے ہی رہی ۔ ان کی تحرو تصنیف نصف صدی پر محیط ہے۔ ابتدا ہی سےآپ نے وسیع مضامین و مقالات لکھے ہیں ۔ مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آ پکی قیمتی اور جامع تحریر میں اور وقیع ومؤثر مقالے دبد بہ ٕ سکندری رام پور ، نوری کرن بریلی شریف ، پاسبان الہ آباد ، جام کوثر کلکتہ ، استقامت کانپور ، اشرفیہ مبارک پور، رفاقت پٹنہ، حجاز جد ید دہلی وغیرہ رسالوں میں چھپ کر عوام و خواص کے درمیان مقبول ہوتی رہیں۔ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور میں التزام وتسلسل کے ساتھ آپ کے منتخب فتاوی شائع ہوتے رہے ۔ جس کی وجہ سے ماہنامہ کا وقار بلند اور قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ مفتی شریف الحق امجدی سے قلم کے مختلف عنوانات پر متعدد کتابیں معرض وجود میں آئیں ۔جن میں چند مشہور کتابوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جا تا ہے۔

نزهة القاری شرح صحیح البخاری:
یہ صحیح بخاری کی اردو شرح ہے جو پانچ ہزارصفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ اسلامی علوم و معارف اور حدیث وسنت کی تحقیقات و تدقیقات کا دائرۃ المعارف ، علماۓ متقدمین و متاخرین اور سلف صالحین کی عربی و فارسی شروح کا عطر مجموعہ ہے ۔ جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے۔

اشرف السير:
اس کتاب میں سیرت نبوی کے بنیادی ستون محمد بن اسحق ( 151ھ / 768 ٕ ) محمد بن عمر الواقدی ( 207ھ / 822ٕ ) محمد بن سعد ( م 320ھ / 844) محب الدین بن جریر طبری ( 301 ھ ) پرفن تاریخ و حدیث اور سیرت کے حوالے سے مخالفین کے اعتراضات کے دندان شکن علمی جوابات ہیں ۔ سیرت پاک سے متعلق مغربی ظالمانہ اور جاہلانہ اورمشرق کے مرعو بانہ اور معذرت خواہانہ طرزعمل پر سیر حاصل تنقیدی وتحقیقی کلام اور ابتدا سے بعثت نبوی تک سرکار دو عالم ﷺ کے احوال وکوائف اور آپ کے آبا واجداد کے تعلق سے جامع پرمغز اور معلوماتی گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ کتاب حصہ اول کا نصف ہے، باقی کام دیگر مصروفیات کی وجہ سے انجام نہ پا سکا۔

اشک رواں :

آزادی ہند سے پہلے کا نگریس میں اور مسلم لیگ کی خود غرضی اور مفاد پرستی پر مبنی پر فریب سیاست پر ضرب کاری اور اس کی مخالفت اور مسلمانوں کے لیے اسلامی وشرعی نقطہ نظر سے تیسرے متبادل کی تجویز، تقسیم ہند کے بعد ہونے والی مسلمانوں کی جان و مال ، عزت وآبرو کی تباہی و بربادی اور بعد میں انہیں در پیش سیاسی و سماجی ، مذہبی وملی پریشانیوں اور رسوائیوں کو اپنی دور بین نگاہوں سے بھانپ کر اس پر اپنے قلبی و ذہنی خطرات ، بے کلی اور بے چینی کا اظہار اور پھر اس کے تدراک کے لیے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل ، یہ سب کچھ اس کتاب میں شامل ہے۔
شارح بخاری نے پچیس برس کی عمر میں اسلامی سیاست کے موضوع پر یہ کتاب تحریر فرامائی ہے ۔ آزادی ہند وتقسیم ہند سے پہلے 1946 ء کے پر آشوب و پرفتن دور میں اس کی اشاعت ہوئی ۔ پھر آج تک اس کا دوسرا ایڈیشن نہ شائع ہوسکا۔

اسلام اور چاند کا سفر :

شرعا انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہے ۔ اسلامیات اور فلکیات کے اصول وقواعد اور قوانین و مباحث کی روشنی میں اس مدعا پر محققانہ گفتگو کی گئی ہے ۔ جو آپ کے وسعت مطالعہ ، ژرف نگاری ، قوت استدلال اور زور بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ محققانہ و عالمانہ تحقیقات وابحاث کا حسین گلدستہ ہے۔

تحقیقات(دوحصے) :

اس میں وہابیوں ، دیوبندیوں اور معاندین اہل سنت کے کچھ لا یعنی اعتراضات کے مدلل تحقیقی والز امی جوابات ہیں یہ کتاب دوحصوں میں ہے۔

فتنوں کی سرزمین کون ، نجد یا عراق ؟:

اس کتاب میں نجد وعراق کا ایک گراں قدر حقیقت افروز اور ایمان افرا تاریخی ، جغرافیاٸی اور دینی و سیاسی جاٸزہ پیش کیا گیا ہے۔

سنی ، دیو بندی اختلاف کا منصفانہ جائزہ :

یہ سنی و دیو بندی اختلاف کی بنیاد اور اکابر علماے دیو بند کی کفری عبارتوں پر غیر جانب دارانہ فیصلہ کن ابحاث کا خوبصورت علمی گلدستہ ہے ۔ آپ کی یہ کتاب اپنے موضوع پر لا جواب اور بے مثال ہے۔

اثبات ایصال ثواب :

یہ رسالہ ایصال ثواب کے موضوع پر مصنف کی ایک نئے انداز میں بحث ، میلا دو قیام ، نیاز و فاتحہ کے سلسلے میں شکوک وشبہات کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کے اطمینان کلی کے لیے ایک بیش قیمت ، زوردارعلمی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

مقالات شارح بخاری :

یہ دینی و مذہبی علمی وادبی تاریخی وسوانحی فکری و حقیقی گونا گوں عنوانات پر حضرت کے سیکڑوں بوقلموں مضامین کا مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا :

اپنے موضوع پر نہایت شاندار گراں قدر اور اچھوتی محققانہ و متکلمانہ تحریر جو موضوع کے تمام زاویوں کو حاوی اور شبہات کے سارے تار و پود بکھیر دینے والی ہے۔

فتاویٰ شریفیہ:

آپ کی زندگی بھر کے علمی تحقیقی فتاوی کا مجموعہ جو ایک انداز کے مطابق پچھتر ہزار سے زائد فتاوی کو محیط ہوگا ۔ جو لوگوں کے عقائد و اعمال میں رہنمائی کرتا ہے اور اہل علم اور ارباب فقہ و فتاویٰ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔

1359ھ میں مفتی شریف الحق امجدی نے صدرالشریعہ مولانا امجد اسمی کے دست حق پر بیعت کیا۔
آپ کا شمار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے سابقین اولین مریدوں میں ہوتا ہے ۔ حضرت صدرالشریعہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت سے بھی نوازا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا بریلی اور احسن العلما مولانا مصطفی حسن حیدر مارہرہ نے بھی اجازت و خلافت سے نوزا تھا۔
حضور شارح بخاری متعدد بار حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوۓ 1985 ء میں پہلا حج اور 1997 ء میں دوسرا حج فرمایا 1996 ء اور 1998 ء میں دو مرتبہ سفر عمرہ پر بھی گیے۔
6/ صفرالمظفر 1421ھ/ 11/مٸ 2000 ٕ بروز جمعرات آپ اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کر گئے ، اور یہ علم وفن کا راز داں اور استقامت و ثابت قدمی کا کوہ ہمالہ ہمیشہ کے لیے آغوش زمین میں محو خواب ہو گیا۔ آپ کا مزار مبارک گھوسی ضلع مئو میں مرجع خلائق ہے۔(بحوالہ علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]

منقبت در شانِ حضرت سید حاجی علی وارث رحمة اللہ علیہ،، راقم الحروف ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

غموں سے بچاتے ہیں سرکار وارث
خوشی سے ملاتے ہیں سرکار وارث

مقدر کے مارو چلے جاؤ دیوا
مقدر جگاتے ہیں سرکار وارث

مرے سر پہ جب دیکھتے ہیں مصیبت
تو فوراً بھگاتے ہیں سرکار وارث

سدا علم و عرفان و زہد و ورع کے
خزانے لٹاتے ہیں سرکار وارث

نہ گھبرا اے دل قیدِ غم سے چھڑانے
لے وہ دیکھ آتے ہیں سرکار وارث

بھٹکنے نہیں دیتے منزل سے مجھ کو
سدا رہ دکھاتے ہیں سرکار وارث

سنور جاتی ہے عاقبت جن کو سن کر
وہ باتیں بتاتے ہیں سرکار وارث

چلو جھولیاں بھرنے جود و سخا کے
سمندر بہاتے ہیں سرکار وارث

ابھرتا ہے جب دل میں گنبد کا نقشہ
مجھے یاد آتے ہیں سرکار وارث

سنا دے کوئی مژدہ آکر یہ مجھ کو
جا در پر بلاتے ہیں سرکار وارث

برائی سے بچنے کی دیتے ہیں تعلیم
بھلائی سکھاتے ہیں سرکار وارث

اے فانی ثنا تجھ سے اپنی کرا کر
ترا قد بڑھاتے ہیں سرکار وارث

راقم الحروف ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا،از قلم : شیخ منتصر احسنی متعلم – جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے اور تاریخ تھی 15 اگست کی، پورا ملک آزادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اچانک غیر معروف (unknown) نمبر سے دو تین کالیں (calls) آئیں لیکن آزادی کے جشن میں محو تھا کہ جس کی وجہ سے کال ریسیو نہ کرسکا ۔ اور یوں بھی کال ریسو ( receive) نہ کر پانا معمولی سی بات ہے، لیکن بعد میں جب اس نمبر پہ ریٹرن کال کیا تو پتا چلا کہ وہ دار العلوم مینائیہ سے ہے –
ایک جانب تو دل کی دھڑکنیں اس اندیشے کے زیر اثر بڑھ چکی تھیں کہ خدا جانے کیا خبر آنے والی ہے؟ ریجیکشن کی مایوسی چہرے بگاڑ دے گی یا سلیکشن کا مژدۂ جاں فزا اچھلنے پہ مجبور کردے گا-
مگر ابھی کچھ کنفرم نہ ہوا، کیوں کہ ادھر سے صرف آدھار کارڈ طلب کرنے کے لیے فون آیا تھا ۔ مگر اس طلب پر ہمارے بعض احباب نے یہ امید دلائی کہ آدھار کارڈ کی طلب یہ انتخاب کی دلیل ہے ۔ پھر بھی ابھی دل مکمل مطمئن نہیں تھا-
بالآخر رات گیارہ بجے کے بعد ہاشم بھائی کے واٹس ایپ پر یہ خوشخبری موصول ہوئی کہ آل انڈیا مسابقۂ خطاب میں ساڑھے چھ سو طلبہ میں سے ٹاپ ٹین منتخب شرکاء میں آپ نے پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے –
یہ خبر سنتے ہی جماعت فضیلت میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی – ہمارے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں حالانکہ اس سے پہلے کچھ طلبہ کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہیں تھیں کہ ملکی پیمانے پر ہونے والے تقریری مقابلہ میں نمبر حاصل کرنا محال ہے۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے زبان پر قفل لگ گئے اور خوشی کا دیکھاوا کرنے لگے اور کچھ تو ہاشم احسنی کو سپورٹ کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے انشاءاللہ ہو جائے گا- –
پھر 26 / اگست بروز جمعہ برادر محترم نے احباب و اساتذہ کی دعاؤں کا توشہ لیے خانقاہ برکاتیہ سے خانقاہ مینائیہ گونڈہ پہنچے اور وہاں پہنچنے کے بعد آخر کار وہ گھڑی آہی گئ جس کا تمام طلبہ اور اساتذہ کو انتظار تھا یعنی مقابلے کا پروگرام شروع ہوا، مدرسے کے بہت سے طلبہ یوٹیوب کے ذریعے لائیو پروگرام ملاحظہ کر رہے تھے، اور بڑی بے صبری اور اضطراب کے ساتھ ہاشم بھائی کے نمبر کا انتظار کر رہے تھے بالآخر سوا بارہ بجے ان کے نام کا اعلان ہوا اور بھائی نے بہت ہی شاندار اور اچھوتے انداز اور مقررانہ لب و لہجے میں اعتماد سے بھرپور خطاب کیا اور اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ۔
اب ایک اور آزمائش تھی رژلٹ کی، ہم تو پر اعتماد تھے کہ ٹرافی تو مارہرہ ہی آئے گی مگر اپنے اس اعتماد کے تارو پود بکھرنے سے ڈر بھی رہے تھے ۔ اگلے دن رزلٹ آوٹ ہونا تھا ۔
جامعہ کے تمام طلبہ اور اساتذہ رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ نتیجہ کب برآمد ہو گا؟ اس میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور کچھ طلبہ کہہ رہے تھے کہ ٹاپ ٣ میں آنا اتنا آسان نہیں ہے۔
آخر کار اگلی صبح کا سورج نوید مسرت لے کر افق عالم پر چمکا ۔ ٨/ بجے رزلٹ آؤٹ ہوا اور ہاشم بھائی کی تقریر نے ان تمام بدگمانیوں اور حوصلہ شکنیوں سے لبریز خیالات کو مسترد کرتے ہوئے دوم پوزیشن حاصل کی – اور پچیس ہزار کی خطیر رقم، توصیفی سند اور خوبصورت ٹرافی سے بطور انعام و اکرام سرفراز کیا گیا ۔
استاذ مکرم مفتی شاداب امجدی صاحب کا حوصلہ افزائی سے لبریز اعلان خوش خبری سوشل میڈیا پہ مبارکبادیاں بٹورنے لگا، استاذ مکرم فرط شادمانی کےساتھ ہشاش بشاش ہوکر جب درسگاہ میں آئے تو ہم نے انہیں بھی مبارکباد دی، کیوں کہ تقریری مواد کی فراہمی انہیں کی طرف سے تھی ۔ حضرت نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے مگر ہاشم کی تقریر سننے کے بعد مجھے ایک نمبر کی امید تھی-
سرپرست جامعہ ابا حضور، پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و طلبہ کے سینے اس کامیابی سے چوڑے ہورہے ہیں ۔ اس کامیابی کو صرف ایک طالب علم کی کامیابی نہیں قرار دیا گیا بلکہ پورے جامعہ کی کامیابی قرار دیا گیا، کیوں کہ اس سے پورے جامعہ اور خانقاہ کا نام روشن ہوا ہے-
ہاشم بھائی یہ کامیابی حاصل بھی کیوں نہ کرتے جس کو خانقاہ برکاتیہ کے مخدوموں نے اپنی دعاؤں سے نوازا ہو، چاہے وہ سرکار امین ملت ہوں یا رفیق ملت (ابا حضور) ہوں یا شرف ملت –
آج مجھے وہ لمحہ رہ رہ کے یاد آ رہا ہے جب ابا حضور نے 15/ اگست کو ہاشم بھائی کو انعام سے نوازتے وقت فرمایا تھا: بیٹا! اللہ تمہارے زبان و قلم دونوں کو مضبوط کرے –
اور میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ہاشم بھائی کو اگر دوم پوزیشن حاصل ہوئی ہے تو ان کی محنت تو مسلم ہے ہی مگر ابا حضور کی اس دعا کی قبولیت کا یہ اعلان بھی ہے اور یہ مخدوموں اور ہمارے مشفق و مہربان اساتذہ کی محنت اور ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
بالخصوص ہمارے جامعہ کے پرنسپل حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کی حوصلہ افزائیاں اور حضرت مولانا شاداب امجدی صاحب قبلہ کی محنت بھری رہنمائیاں بھی پشت پناہی کرتی رہیں –
اللہ رب العزت ہاشم احسنی کو مزید ترقیوں سے نوازے اور حاسدین کے حسد سے محفوظ رکھے اور ان مخدومان گرامی اور اساتذہ کے صدقے ہمیں بھی دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین –
اقبال کے اس شعر پہ اپنی بات سمیٹتا ہوں کہ :
توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

کیا ماہ صفر منحوس ہے؟،، از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور 7030786828


ماہ صفر المظفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے اس مہینے میں شریعت مطہرہ نے نہ تو کوئی خاص عبادت مقرر کی ہے اور نہ ہی اس مہینے کے بارے میں کوئ خاص توہم پرستی کی تعلیم دی ہے مگر بد قسمتی سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مہینہ بدبخت اور منحوس ہے اسی وجہ سے اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے انعقاد سے پرہیز کیا جاتا ہے یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے ماہ صفر المظفر کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یعنی صفر المظفر کے مہینے کو منحوس سمجھنے کی کوئ حقیقت نہیں۔ اسلام میں بد شگونی اور نحوست کا کوئ تصور نہیں اسلام میں اگر کوئی بد شگونی اور نحوست کی چیز ہے تو وہ انسان کے بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحاشی عریانی اور اللہ و رسول کی نافرمانیاں ہیں جو گھر گھر میں ہو رہی ہیں اگر ہم واقعی نحوست و بد شگونی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحش و عریانی سے بچنا پڑے گا
دن اور مہینے اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے ہیں اس لیے کسی خاص وقت، دن یا مہینے کو منحوس قرار دینا سراسر جہالت ہے،علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں دور جاہلیت میں ماہ صفر کے بارے میں لوگ اس قسم کے وہمی خیالات بھی رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت نازل ہوتی ہیں، اسی وجہ سے وہ لوگ ماہ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے
( عمدۃ القاری ج 7 ص 110)
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل خیال کی تردید ان الفاظ میں فرمائی ” لاصفر” یعنی صفر کچھ نہیں ہے۔ (اس میں کوئی مصیبت و آفت نہیں ہے)اس حدیث کی تشریح میں محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں عوام اسے بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وقت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے
( اشعۃ اللمعات ج ٣ / ص ٦٦٤)۔حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں حدیث میں فرمایا کہ ’’صفر کوئی چیز نہیں یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے( بہار شریعت حصہ ١٦ / ص ٥٦٩) صاحب تفسیر روح البیان علامہ شیخ اسمٰعیل حقی لکھتے ہیں”صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وقت کو منحوس سمجھنا درست نہیں، تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں ۔ جس وقت میں بندۂ مومن اللہ کی اطاعت و بندگی میں مشغول ہو وہ وقت مبارک ہے اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ وقت اس کے لیے منحوس ہے ۔ در حقیقت اصل نحوست تو گناہوں میں ہے ۔ ( تفسیر روح البیان ج ٣ ص ٤٢٨)اخیر میں ان لوگوں کے لیے عرض ہے جو اس مہینے میں شادی کرنے سے منع کرتے ہیں کہ :پہلی ہجری کے اسی مہینے ( صفر المظفر) میں مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا خاتون جنت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے عقد نکاح یعنی شادی ہوئی
صفر المظفر یعنی کامیابی کا مہینہ کہا جاتا ہے،اس مقدس اور برکت والے مہینے میں کئی عظیم الشان تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ماہ صفر المظفرمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی ہوئی ،صفر کے مہینے میں مسلمانوں کو فتخ خیبر نصیب ہوئی ، صفر کے مہینے میں سیف اللہ حضرت خالد بن ولید ،حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا ،صفر کے مہینے میں مدائن جس میں کسریٰ کا محل تھا کی فتح ہوئی۔صفر المظفرکے مہینے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم کے دور خلافت میں 16ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایوان محل کسریٰ میں جمعہ کی نماز ادا کی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق کی مملکت میں پڑھا گیا ،صفر المظفر کے مہینے میں 11ھ میں ہی جھوٹی نبوت کے دعویدار اسود عنسی کذاب سے مسلمانوں نے نجات پائی
جس مقدس مہینے میں ایسے ہم اواقعات ہوئے ہوں وہ مہینہ کس طرح منحوس ہوسکتا ہی افسوس علم دین سے دوری اور بری صحبت کے سبب لوگوں کی ایک تعداد صفر المظفر جیسے بارونق اور بابرکت مہینے کو بھی مصیبتوں اور آفتوں کے اترنے کا مہینہ سمجھتی ہے باالخصوص اس کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کے بارے میں بہت سی خلاف شریعت باتیں مشہور ہیں
ماہ صفر کے آخری بدھ
ماہِ صفرُالمظفّر کے آخری بدھ کو منحوس سمجھتے ہوئے کئی انداز اختیار کئے جاتے ہیں،مثلا اس دن لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں،سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں،پوریاں پکتی ہیں نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ ان دنوں میں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرض شِدَّت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلافِ واقع (جھوٹی)ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔ بہارشریعت، حصہ۱۶،۳/۶۵۹
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں سُوال کیا گیا کہ اس دن عورتیں بطورِسفرشہر سے باہر جائیں اور قبروں پر نیاز وغیرہ دلائیں جائز ہے یانہیں؟ تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :(ایسا ) ہر گز نہ ہو( کہ اس میں)سخت فتنہ ہےاور چہار شنبہ(بدھ کا دن منانا ) محض بے اصل۔( فتاوی رضویہ،۲۲/۲۴۰)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:بعض لوگ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشیاں مناتے ہیں کہ مَنحوس شَہْرچل دیا یہ بھی باطل ہے۔

از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت
خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور
7030786828

منقبت در شان: حضور تاج الاولیا مجذوبِ زمانہ حضرت خواجہ سید تاج الدین اولیا چشتی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ ناگپور شریف مہاراشٹرا بموقع: عرس صد سالہ ◇◇عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

عام تر ہے آپ کا فیضان تاج الاولیا

شادماں ہے ہر تہی دامان تاج الاولیاء

طالبِ نورِ معارف ہے لہذا کیجیے
سوے دل پرنالۂ عرفان تاج الاولیا

جب ورق گردانیِ طومارِ ہستی میں نے کی
حاضری کا بڑھ چلا ارمان تاج الاولیا

لب پہ آیا بے محابا دیکھ کر شانِ غِنا
آپ پر قرباں ہے میری جان تاج الاولیا

ہے بہت معروف روحانی ضیافت آپ کی
کیجیے اپنا کبھی مہمان ، تاج الاولیا

ہے تمھارا قلزمِ مجذوبیت پر جوش آج
جذب کا بھر دیں بس اک فنجان تاج الاولیا

بندۂ محتاج ہے امید وارِ التفات
ہو رہی ہے زندگی ہلکان تاج الاولیا

دیکھ لو تو خرمنِ آلام جل کر خاک ہو
کہہ رہا ہے یہ مرا وجدان تاج الاولیا

دیکھ کر اک وقت میں دو دو جگہ دو تین بار
فوج کا افسر ہوا حیران تاج الاولیا

کر دیا تم نے دھنی دے کر بہ تعدادِ بنات
برہمن کو مژدۂ ولدان تاج الاولیا

نوریِ دریوزہ گر ہی کیوں ہو محرومِ مراد
پاتے ہیں جب فیض بے ایمان، تاج الاولیا
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۴/ محرم الحرام ۱۴۴۴ ہجری
۲۳/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

منقبت در شانِ سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمة اللہ علیہ،، رشحات قلم ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

بزم برکات نوری

عارفِ ذاتِ خدا مخدوم اشرف آپ ہیں
شمعِ عشقِ مصطفی مخدوم اشرف آپ ہیں

پیکرِ رشد و ہدی مخدوم اشرف آپ ہیں
شانِ بزمِ اولیا مخدوم اشرف آپ ہیں

کوہِ زہد و اتقا مخدوم اشرف آپ ہیں
بحرِ عرفانِ خدا مخدوم اشرف آپ ہیں

کیجیے آزاد قیدِ غم سے بہرِ پنجتن
دافعِ رنج و بلا مخدوم اشرف آپ ہیں

زہد و تقوی عزم و ہمت صبر و استقلال میں
پرتوِ شیرِ خدا مخدوم اشرف آپ ہیں

وہ جگہ ہے خلد کے باغات میں سے ایک باغ
جس جگہ جلوہ نما مخدوم اشرف آپ ہیں

سارے عالم پر عیاں ہے آپ کا جاہ و جلال
کیا کہے فانی کہ کیا مخدوم اشرف آپ ہیں

رشحات قلم ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں ہوا محفل ایصال ثواب کا انعقاد،، رپورٹ :محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف


ہندوستان کی مشہور و معروف خانقاہ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ میں 26 اگست بروز جمعہ کی شام حضور احسن العلماء حضرت سید مصطفی حیدر حسن رحمہ اللہ تعالی علیہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی یاد میں ایک پر کیف اور روح پرور محفل کا انعقاد کیا گیا جس کی سرپرستی حضور رفیق ملت دامت برکاتہم القدسیہ نے فرمائی اور صدارت ان کے برادر مکرم حضور شرف ملت حضرت سید اشرف میاں قادری برکاتی دام ظلہ العالی نے فرمائی۔ یہ نورانی و عرفانی محفل جامعہ احسن البرکات کے صدر المدرسین حضرت علامہ مولانا محمد عرفان ازہری کی زیر نگرانی ہوئی۔
محفل پاک کی ابتداء اسلاف کے طور طریقے کو اپناتے ہوئے تلاوت قرآن پاک سے ہوئی۔جس کے لیے حافظ و قاری نعمان برکاتی (جماعت اولیٰ) کو بلایا گیا اور انہوں نے بہترین انداز میں تلاوت قرآن پاک کرکے حاضرین کے دلوں کو محظوظ فرما یا پھر اس کے بعد جماعت ثالثہ کے طالب علم محمد رفیع نے کلام اعلی حضرت” ہے کلام الہی میں شمس الضحیٰ تیرے چہرئےنور فزا کی قسم”کو پرکشش انداز میں پڑھا اس کے بعد پھر نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لیے محمد اکرم (جماعت اعدادیہ) تشریف لائے بعدہ جماعت کی فضیلت کے ایک ہونہار طالب علم فخر عالم نے حضور شرف ملت کی ایک بہترین منقبت “اس سخی کے ہاتھوں نے خوب خوب بانٹا تھا” جوانہونے اپنی والدہ ماجدہ کی یاد میں رقم فرمائی تھی ۔جس کو سن کر محفل پر ایک سکتہ طاری ہوگیا۔فری وی نعت و منقبت کا سلسلہ چلتا رہا اور ناظم بزم حضرت قاری عرفان صاحب برکاتی نے جامعہ کے ایک بہترین عالم و فاضل حضرت علامہ مولانا محمداسلم نبیل ازہری صاحب کو نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت سخن دی حضرت اسلم نبیل ازہری صاحب حضرت نظمی علیہ الرحمہ کا مشہور زمانہ کلام”بسی ہے جب سے وہ تصویر یار آنکھوں میں”کو اپنی بہترین لب و لہجہ میں پیش فرما کر محفل کو لطف اندوز فرمایا، پھر اس کے بعد محفل کا رخ نظم سے نثر کی طرف منتقل ہوا اور خطاب نایاب کے لیے جامعہ کی ایک نہایت قابل عالم دین حضرت مولانا مفتی انیس القمر صاحب امجدی حفظہ اللہ ورعاہ کو دعوت دی گئی جنہوں نے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی زندگی کے انمول لمحات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، اور انہونے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی وہ عادات کریمہ بیان فرمائی جن کا اب کسی عورت میں پایا جانا نا ممکن نظر آتا ہے اور موصوف کی خطاب سے مجلس پر کیف وسرور فرحت وانبساط کی لہر دوڑ پڑی بعدہ ابا حضور نے اپنی والدہ محترمہ کے اوصاف کریمانہ بیان فرمائے اور تمام حاضرین کو یہ درس دیا کہ جس طرح اپنے استاد، پیر اور دیگر علماء کرام کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیتے ہو یونہی اپنے والدہ کے ہاتھ پیر کو بوسہ دیا کرو پھر اباحضور نے حضرت قاری عرفان صاحب کو نعت پڑھنے کے لئے مدعو فرمایا اس کے بعد حضور شرف ملت نے اپنے مشفقہ سیدہ عابدہ زاہدہ والدہ ماجدہ کے کچھ قصائص بیان فرمائے اور انہوں نے اپنی گفتگو ایک مشہور شاعر نور کے اس شعر “میں تو غزل سناکے اکیلا کھڑا رہا_ سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے”پر مکمل فرمائی،اس کے بعد صلاۃوسلام و فاتحہ خوانی پر محفل اختتام پزیر ہوئ اور چلتے چلتے ابا حضور نے حیدر آباد کے ایک بی جے پی لیڈر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہنے کی بنا پر پر زور مذمت فرمائی ۔
رپورٹ:
محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)
متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف.

عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین: وقت کی اہم ضرورت،، از: حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر(راجستھان)

کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے،اتحاد ایک زبر دست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد و متفق ہو جائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تو دور کی بات آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتی ،حضور نبی کریم ﷺ،خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کے عہد کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس کام کو بڑی بڑی قومیں اپنی طاقت کے بَل بوتے پر نہیں کرسکیں،اُس کو مسلمانوں نے باہمی اتحاد و اتفاق ،اخوت وہمدردی آپسی بھائی چارگی اور اجتماعیت سے کر دکھایا۔

آج کے دور میں مسلمان جس قدر ذلیل و خوار اور رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں رہا ہو، اور جتنا کمزور آج کا مسلمان ہے شاید ہی اتنا کمزور کبھی رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر ہی حملہ آور ہورہی ہیں۔ ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، ان کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے، ان کے املاک تباہ و برباد کئے جا رہے ہیں، بہت سارے ممالک میں انہیں تہ وتیغ کیا جارہا ہے ،جن میں قابل ذکر فلسطین، افغانستان،عراق، سیریا،حلب اور میانمار ہے۔ وطن عزیز میں بھی مسلمانوں کو مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے ہراساں و پریشاں کیا جاتا ہے ،کبھی شریعت میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،تو کبھی گائے کے نام پر ،معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اسلامی قلعے مدارس و مساجد کی طرف انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری ایسی درگت کیوں ہو رہی ہے؟ہمیں ہر طرف سے دبانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟جب کی اللہ نے مسلمانوں کو ان کے گناہوں اور معصیتوں کے باوجود بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے ،اور یہ نعمتیں مختلف انواع و اقسام کی ہیں، جیسے اللہ نے مسلمانوں کو زراعتی،حیوانی،آبی، معدنی غرضیکہ ہر قسم کے دولت وثروت سے نوازا ہے، پیٹرول کا ایک وافر مقدار مسلمانوں کے پاس موجود ہے، مسلمانوں کی تعداد بھی ایک عرب سے زائد ہے،ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور ان کا محل وقوع بھی بہت اہم ہے، اہم آبی گزر گاہیں مسلمانوں کے پاس ہیں۔ پھر بھی مسلمان اتنا بے بس، مجبور، کمزوراور ذلیل و خوار کیوں ہیں ؟ان کے خون کی قیمت پانی سے بھی ارزاں کیوں ہے ؟ا ن کے متعدد وجوہات ہو سکتے ہیں مگر ان میں سب سے اہم اور اصل وجہ آپسی اختلاف و انتشار اورتفرقہ بازی ہے ،یہی وہ بیماری ہے جس نے آج مسلمانوں کو مفلوج کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے آج اغیار ہم پر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف سے اتحاد اتفاق اور باہمییکجہتی کی جو میراث ملی تھی ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے اوراس کے بر عکس آج دوسری قومیں متحد و متفق ہو کر اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول میں کوشاں نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے ۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اور ویسے بھی اسلام نے مسلمانوں کے سامنے آپسی اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور پیش کیا ہے اور مسلمانوں کے مضبوط تعلقات پر خاص زور دیا ہے۔آج عالمی سطح پر دعوتِ دین اور غلبۂ دین کے لئے امت مسلمہ میں مضبوط اجتماعیت اور منظم اتحاد کی ضرورت ہے۔قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر اجتماعیت اور آپسی اتحاد پر صاف صاف وضاحتیں ملتی ہیں۔جیسا کہ سورۂعمران آیت/ ۱۰۳،میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: “وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا“اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔ یہاں مفسرین کے نزدیک ’’حبل اللّٰہ ‘‘سے مراد کتاب اللّٰہ اور سنت رسول ہے۔ اسی طرح سورۂانفال آیت/۴۶ میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: “وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ”یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جگھڑا و اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” اللہ کے رسول ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنے تمام صحابۂ کرام کے سامنے فرمایا ’’تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں چیزوں کو تم مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور رسول کی سنت ہے۔(مسلم)

لہذا مسلمانوں کے پاس کتاب اللّٰہ اور سنت رسول کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ایک مصرعہ ہم نے اکثر سنا ہوگا “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے” یہ مشہور مصرعہ شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کا ہے،ڈاکٹر اقبال نے بھی اُمت اسلامیہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ر ہے ہیں کہ قومیت کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔لیکن مقام افسوس صد افسوس ہے! کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ گمراہ اور بھٹکی ہوئی راہ پر گامزن ہیں ، ذلت و رسوائی اور ذہنی محکومی ہمارا مقدر ثابت ہورہی ہے۔ آج دشمنان ِ اسلام عالمی سطح پر ملت کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں پر عرصۂ دراز سے ظلم وزیادتی کا سلسلہ شروع ہے۔ عالم اسلام کے بے شمار قائدین کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے ،اور بہت سی شخصیتیں شہید کردی گئیں ہیں۔ اسی طرح اب ہندوستانی مسلمانوں پر بھی خوف کے کچھ بادل منڈلانا شروع ہوچکے ہیں۔یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشیش جاری ہیں۔ جس کے لئے مختلف قانون وضع کئے جارہے ہیں۔اس ملک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں کے اکثر بےقصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرکے ان کے مستقبل کو برباد کیا جاتا رہا۔ انہیں جیلوں کے اندر طرح طرح کی اذیتوں سے گزارا گیا۔ اور اب براہِ راست تمام ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے این آر سی کے نام پر مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مآب لیچنگ کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی ایک منظم پروپگنڈے کا حصّہ ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت ملک کی جو موجودہ حکومت ہے وہ فسطائیت پر کھڑی ہوئی ہے۔ ایسے نازک ترین حالات میں ملت اسلامیہ کے اندر آپسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپسی اتحاد و اتفاق کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ دین اسلام ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا ،خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگالیں۔ آج ہمیں اسی یقیں محکم کے ساتھ مسلمانوں کے اندر آپسی اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔

   لیکن افسوس بالائے افسوس ! آج ایک طرف عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ہم مسلمان آپس میں ہی خانہ جنگی کے شکار ہیں ،ہم مختلف گرہوں اور ٹکڑوں و ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں،ذات پات اور قومیت کا الگ مسئلہ ،ہم میں کا ہر ایک فرد وسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے،معمولی معمولی باتوں کو ایشو بنا کر ہم ایک دوسرے سے بر سر پیکار یا کم از کم بد ظن ضرور ہوجاتے ہیں ،اور بد ظنی اِس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی بات تک سننا گوارہ نہیں ہوتا،اِس طرح کے اختلافات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اِس سے ہماری داخلی طاقت و قوت کمزور ہوتی  جا رہی ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے اِسلام کی نشر و اشاعت بھی متاثر ہورہی ہے،غیر مسلموں کے ذہن و دماغ میں اسلام کے خلاف مختلف طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں ،جن لوگوں کے دلوں  میں ملّت ِاسلامیہ کا درد ہے وہ ہمیشہ اِس فکر میں سر گرداں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں کیونکہ بقول شاعر مشرق

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی،قرآن بھی اللہ بھی ایک

کیا بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک

آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ باطل طاقتیں اپنے پورے وسائل کے ساتھ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے لئے صف آراہوچکی ہیں۔ اس وقت گروہی تعصبات کو ہوا دے کر ملّی وحدت کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔رنگ و نسل،حسب و نسب اور قومیت کے نام پر ملت کو تقسیم کرنے کا منصوبہ زور وشور سے جاری ہے۔تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہماری اس زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی کیا وجوہات ہیں؟ ہم جو کبھی قافلۂ سالار ہوا کرتے تھے اب بھٹکے ہوئے آہو کی طرح مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب ہمارے اسلاف کے ناموں سے قیصر و کسریٰ کے در و دیوار بھی دہل جاتے تھے، پھر آج کیوں ہم خوف و ڈر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟؟ تاریخ گواہ ہے ماضی میں ہماری قوم نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دئیے اور ساحل پر کشتیاں جلا ڈالی تھیں،پھر اسی قوم کے ماننے والے آج کیوں پست حوصلہ اور کمزور ہوگئے ہیں؟؟؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیئے کہ جو قومیں آپسی اختلافات کا شکار ہوگئیں، ان کے اتحاد کا سورج ڈوب گیا، محکومی ان کا نصیب بن گیا ،اور زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے آپسی اتحاد پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے،ہزاروں تقریریں کی جاچکی ہیں، سمینار اور کانفرنسیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ہمیں آج اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ اس وقت ہماری زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ آپسی انتشار اور گروہ بندی ہے۔ آج ہم نے خود کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہم حالات کی سنگینی سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں ۔ ہماری موجودہ پستی اور بے بسی کا سبب یہی ہے کہ ہم اس پیغام کو بھول رہے ہیں جس نے ماضی کے مسلمانوں کو محبت و اخوت کے ابدی رشتوں میں جکڑ دیا تھا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی صورت میں پرو دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ چودہ سو سال قبل سر زمینِ عرب سے ایک”قوم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃ”ٌ کا پیغام لے کر اُٹھی تھی جو شرک و کفر کے اندھیروں سے نکل کر توحید اور انصاف کی علمبردار بن گئی۔ کچھ ہی عرصے میں کفر وشرک کا زور مٹ گیا۔ فتح و کامرانی اور عزت و توقیر صرف اہل ایمان کو نصیب ہوئی۔لیکن آج جب ہم امت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔آج ہماری اجتماعیت بکھر چکی ہے ، ہم مغربی تہذیب کو اپنا شعار بناچکے ہیں،اور نظامِ کفر کی غلامی کو اپنی سعادت سمجھ رہے ہیں۔اسی وجہ سے آج ہماری صفوں سے اتحاد و اتفاق کا تصور کمزور ہوتا جارہا ہے۔اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ فکری سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے”واعتصموا بحبل اللہ”کے مفہوم و تقاضے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہم نے اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر گزارنے کی بجائے اپنی خواہشات نفس پر نچھاور کردی ہے۔ہم نے دینی تعلیمات سے کم اور اپنے نظریات سے زیادہ محبت رکھی۔ اجتماعیت اور “واعتصموا بحبل اللہ “کے سبق کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی پر چلنے والی اور “بنیان مرصوص” صفت کی حامل قوم سمجھتی ہے لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

ہائے افسوس!ہماری عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں۔ ہم نے غور و فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔کیا یہ بات غور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ ہندوستان کے سینکڑوں فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے متعلق یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ کونسے مکتبۂ فکر سے وابستہ تھے۔ عراق،شام، فلسطین،افغانستان،برما اور کشمیر کے علاقوں میں شہید ہونے والے لاکھوں مسلمانوں سے کبھی ان سے جماعتی پہچان نہیں پوچھی گئیں۔ کاش ہم دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کو سمجھ پاتے۔! اب سوال یہ ہے کہ جب امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی وجہ معلوم ہوچکی ہے تو اس کے حل کی کوششیں کیوں نہیں ہورہی ہیں؟ اور اگر ہورہی ہیں تو وہ کامیاب اور بااثر کیوں نہیں ہیں؟ اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہی نہیں چاہتے۔ آج ہر جماعت کے پاس اپنی ہی پالیساں بنی ہوئیں ہیں۔ آج جماعتوں اور ملی تنظیموں کے پاس اتحاد کا طریقۂ کار بس یہی ہے کہ ہمارے پرچم تلے آجاؤ، ہماری دکان کے خریدار بن جاؤتبھی تم فلاح پاؤگے۔آج ہر جماعت نے دین کے کسی نہ کسی ایک جُز کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور ساری توانائیاں اسی ایک جُز کی ترویج و اشاعت میں لگارہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو متبادل نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا یا زندگی کے تمام شعبوں پر اسلامی احکام و قوانین کو نافذ کرنا، اس مقصد حقیقی سے آج ملت کی بے شمار جماعتیں اور ادارے ناواقف ہیں۔بے شمار جماعتوں نے اسلام کے کسی ایک ہی جُز کو اپنا مقصد و نصب العین بنادیا ہے۔چند عبادتوں اور فرائض سے آگے سوچنے اور کرنے کی کسی جماعت کے پاس آج مہلت ہی نہیں ہے۔ بعض جماعتوں نے شرک و بدعت کی کمر توڑنے کے لیے لاٹھی اُٹھا رکھی ہے تو کچھ لوگ صرف نماز کے لیے دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں خانقاہوں میں صرف پیر ی مریدی اور اللہ ہُو اللہ ہُو کی صدا تک بات محدود ہے،تو بعض ملی جماعتوں کے نزدیک صرف سیاسی کوشیش ہی دین کی سربلندی کا واحد راستہ ہے۔ کسی گروہ نے صرف خدمتِ خلق کو ہی اپنا حقیقی نصب العین بنالیا ہے۔ آج کئی دینی جماعتیں اور ملی تنظیمیں اپنے اپنے خودساختہ نکاتوں پر کام کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں انتشار و افتراق پیدا ہورہا ہے۔عوام فروعی معاملات میں الجھ کر اصل دین سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ ہم غیر شعوری طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارگی، آپسی رواداری، خلوص،باہمی محبت جیسی اصطلاحوں کی اب کوئی معنویت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ہماری صفوں سے اتحاد ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور متنفر ہی ہوسکتا ہے۔مسلمانوں کے درمیان ایثار،قربانی،محبت اور خلوص جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ذہن نشین رہے !کہ مسلمانوں کا آپسی اختلاف اور تفرقہ تمام مشکلات اور مسائل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے (جس کا مفہوم یہ ہے ) کہ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے، تفرقہ کرو گے، اتفاق و اتحاد کو پس پشت ڈال دو گے تو پھر کمزور ہوجاؤ گے، تمہاری طاقت وقوت،شان و شوکت سب ختم ہوجائیگی، تمہاری عظمت و عزت خاک میں مل جائیگی،اور تم ذلیل و خوار ہو جاؤ گے۔لہذا اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوکر حق و باطل کو خلط ملط کرنے سے بچنا ہوگا۔ اسلامی نظامِ زندگی کو نافذ کرنے کا مقصد ہی آج ملت میں آپسی اتحاد و اتفاق کو پیدا کرسکتا ہے۔جب تک ہم اسلامی نظام کو قائم کرنا اپنا مقصد نہیں بنالیں گےتب تک ہمارا آپسی اتحاد کمزور ہی رہے گا۔ امت مسلمہ کی طاقت،قوت،عزت، غلبہ، کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ آپسی اتحادو اتفاق ہی ہے۔اور صرف اسی کے ذریعہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ ورنہ ہم ایسے ہی ذلت ورسوائی، کمزوری،بے بسی،محکومی اور ذہنی غلامی کی پستی میں گرتے رہیں گے۔

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے فروعی و جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی وحدت و اخوت اور بھائی چارگی کے رشتہ کو مضبوط و مستحکم کریں، کیوں کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی مضبوط اور منظم قیادت اتحاد کی شکل میں ابھرے،جو مستقبل میں اسلامی نظامِ زندگی کے نفاذ کا ذریعہ بن سکے۔

امام احمد رضا ریسرچ سینٹر ناسک میں عرس مخدومی کا انعقاد

ناسک سے دی گئی اطلاع کے مطابق مورخہ 28 محرم الحرام 1444ھ کو قدوۃ الکبری غوث العالم سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے 636 ویں عرس سراپا قدس کے حسین وپربہار موقع پر جماعت رضائے مصطفے شاخ ناسک کے بینر تلے امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام میرج کر نگر اوپن اسپیس وڈالا روڈ سہیادری ہاسپیٹل کے سامنے عظیم الشان پیمانہ پر عرس مخدومی کا انعقاد کیا گیا،محفل کا آغاز بعد نماز عشا قرآن خوانی سے کیا گیا ،پھر حمد باری تعالی اور نعت ومنقبت کے اشعار پیش کیے گیے بعدہ ادارہ ہذا کے فقہی ریسرچ اسکالر مولانا محمد عارف حسین غوثی نے صاحب عرس کی سیرت وسوانح پر تفصیلی روشنی ڈالی اور سمنان سے کچھوچھہ تک منزل بہ منزل حضرت مخدوم قدس سرہ کا پورا سفر نامہ پیش کیا اخیر میں ادارہ کے صدرالمدرسین اور صدر شعبہ افتا فاضل علوم اسلامیہ حضرت ابوالاختر مفتی مشتاق احمد امجدی زید مجدہ نے خصوصی خطاب فرمایا، آپ نے اپنے مختصر خطاب میں صاحب عرس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا : حضرت مخدوم سمناں نہ صرف ایک ولی کامل،نجیب الطرفین سید اور صاحب دل صوفی با صفا تھے بلکہ علوم وفنون کی ہفت اقلیم کے بے تاج بادشاہ بھی تھے،قرآن کریم کا فارسی زبان میں سب سے پہلے ترجمہ کرنے کا شرف آپ کو حاصل تھا، آپ کثیر التصانیف مصنف اور بالغ نظر فقیہ بھی تھے، آپ نے حضرت مخدوم کے دعوتی وتبلیغی مشن پر گفتگو کرتے ہوئے عوام اہل سنت کو نیکی کی راہ پر گامزن ہونے کی صلاح دی،آپ نے فرمایا حضرت مخدوم قدس سرہ نے محض سات برس کی عمر میں صرف ایک سال کی قلیل مدت میں قرات سبعہ کے ساتھ پورا قرآن حفظ فرمالیا تھا اورجب مسند تدریس میں جلوہ افروز ہوئے اور بساط تدریس بچھائی تو اللہ تعالی نے آپ کی تدریس میں وہ برکت عطا فرمائی تھی کہ آپ کی درسگاہ میں آنے والا ہر بچہ محض ایک سال کی مدت میں حافظ قرآن بن جاتا،اس تناظر میں آپ نے سامعین کو اپنے بچوں کو قرآن سیکھنے اور سکھانے پر زور دیتے ہوئے یہ نعرہ بھی دیا “گھر گھر قرآن، ہر گھر کنزالایمان” بعدہ صلاۃ وسلام اور آپ کی خصوصی دعا پر محفل اختتام پذیر ہوئی، بعد محفل لنگر مخدومی تقسیم کیا گیا، عرس کی اس تقریب سعید میں عوام وخواص نے بڑی تعداد میں شرکت کی،اس موقع پر امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے تمام شعبہ جات کے معلمین خصوصا مولانا محمد عرفان رضا قادری، حافظ وقاری جیش محمد رضوی اور شعبہ تحقیق کےمتخصصین مولانا محمد شفیق خان امجدی، مولانا محمد مبین قادری، مولانا عیسی رضا امجدی، مولانا محمود رضا حنفی، مولاناشہرالحق مصباحی، مولانا محمد توفیق علی غوثی، مولانا محمد کلیم سبحانی،مولانا محمد نورشاد رضا مظہری اور مولانا مرجان مصباحی وغیرہ موجود تھے۔

منقبت در شان: تارک السلطنت، قدوۃالعارفین، آفتاب ولایت حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ، عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

◇◇◇~~◇◇◇~~◇◇◇
ہر دل میں تیری عظمت، اے والیِ کچھوچھہ
ہر لب پہ تیری مدحت، اے والیِ کچھوچھہ

باغِ ارم کی غیرت، آماج گاہِ عالم
بے شک ہے تیری تربت اے والیِ کچھوچھہ

تیرے حسب نسب میں صد آفریں، ہے شامل
بوے گلِ سیادت اے والیِ کچھوچھہ

پھولا پھلا جہاں میں لا ریب تیرے دم سے
گلزارِ اشرفیت اے والیِ کچھوچھہ

تانتا لگا ہوا ہے شیدائیوں کا در پر
ہے خوب مرکزیت اے والیِ کچھوچھہ

للہ ہو میسر مصباحِ معرفت سے
مشکوۃِ دل کو طلعت اے والیِ کچھوچھہ

ہو ساتویں صدی میں رحلت کی آج لیکن
ہر دل پہ ہے حکومت اے والیِ کچھوچھہ

چھائی ہے آشیاں پر بومِ الم کی شامت
بھیجو ہُماے فرحت اے والیِ کچھوچھہ

مدت سے مبتلا ہے آفاتِ جاں میں، کیجیے!
بیکس پہ چشمِ رحمت اے والیِ کچھوچھہ

ٹوٹا ہوا ملا ہے دہلیزِ آستاں پر
ہر اک طلسمِ کلفت اے والیِ کچھوچھہ

بہرِ صلاحِ ہستی نوری کو بھی عطا ہو
مرآتِ حسنِ سیرت اے والیِ کچھوچھہ
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۸/ محرم الحرام ۱۴۴۴ ہجری
۲۷/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: سنیچر