WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives August 2022

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کلام طویل ۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

سرور کونین کے شہکار ہیں میرے حسین
واسطے حق کے سپہ سالار ہیں میرے حسین

آپ کی توصیف میں اشعار ہیں ،میرے حسین
نور سے معمور خوب افکار ہیں ، میرے حسین

کہتا ہے ہر شخص خوش گفتار ہیں میرے حسین
پرتو شہ حیدر کرار ہیں میرے حسین

سر بلندی دائمی حق کو ملی جس کے سبب
حق بیانی کے وہی کہسار ہیں میرے حسین

پیار کا مرہم لگایا ہر دل بیمار پر
پرتو خلق شہ ابرار ہیں میرے حسین

عزم و استقلال میں ہے شان عالی آپ کی
چرخ استحکام کے معمار ہیں میرے حسین

دی شکست فاش باطل کو ، ہوئے گرچہ شہید
آسماں میں سرخیء اخبار ہیں میرے حسین

غم‌ سب آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ جب
ہر حسینی کے لیے غم خوار ہیں میرے حسین

رب نے فرمایا مودۃ آیت قرآن میں
سرور دیں کے قرابت دار ہیں میرے حسین

خیمہء باطل کو چھوڑا ، آگیے حق کی طرف
کہہ دیا حر نے مرے غمخوار ہیں میرے حسین

لے لیا دامن میں اپنے حر کو بھی شبیر نے
مہرباں ، مشفق، بہت دل دار ہیں میرے حسین

مل گئے شبیر تو سمجھو کہ آقا مل گئے
منزل مقصود راہ یار ہیں میرے حسین

منعقد اس واسطے کرتے ہیں محفل آپ کی
وجہ تسکیں آپ کے اذکار ہیں میرے حسین

کامیابی کا ہے باعث فلسفہ شبیر کا
آج کے بھی دور میں درکار ہیں میرے حسین

ہے شباب اہل جنت آپ کا پیارا لقب
خاندان شاہ کے شہکار ہیں میرے حسین

انتہائے ظلم بھی اور منتہائے صبر بھی
کہتے ہیں سب نازش صبار ہیں میرے حسین
۔
جس نے دیکھا آپ کو بے ساختہ وہ کہہ اٹھا
پرتو حسن و جمال یار ہیں میرے حسین

خطبے کو موقوف کردیں مصطفیٰ ان کے لیے
سرور کونین کے یوں پیار ہیں میرے حسین

اپنی جرآت کا انہیں وارث کہا آقا نے خود
اللہ اللہ وارث سرکار ہیں میرے حسین

دیں بشارت جن کی پیدائش کی خود شاہ زمن
خوش نصیب ایسے شبیہ یار ہیں میرے حسین

آپ کی ہے تربیت ایسی، شہادت کے لیے
عابد‌ بیمار بھی تیار ہیں، میرے حسین

راہ رخصت کے عوض قائم عزیمت پر رہے
ظالموں سے برسر پیکار ہیں میرے حسین

استعارہ حق کا ہے ذات مبیں شبیر کی
رہبری کے واسطے مینار ہیں میرے حسین

واسطے دیں کے کیا قربان سارا خاندان
دہر میں یوں حامل ایثار ہیں میرے حسین

کانپتے ہیں سامنے ان کے سبھی فسق و فجور
نور حیدر ، صاحب کردار ہیں میرے حسین

حکم دیں تو آب خود آجائے ان کے سامنے
اے یزیدی مت سمجھ لاچار ہیں میرے حسین

ذوالفقار حیدری کہتے ہیں جس کو دہر میں
ہاں وہی اسلام کی تلوار ہیں میرے حسین

دی اذاں خود سرور عالم نے ان کے کان میں
کس قدر فخر گل گلزار ہیں میرے حسین

دوش پر لے کر کریں تعریف جن کی مصطفیٰ
بہترین ایسے سوار یار ہیں میرے حسین

ابتدائی ہوگئی تعلیم شہہ کی گود میں
کہہ رہا ہے علم خود، سردار ہیں میرے حسین

خود عزیمت کا پرندہ آپ کا مداح ہے
یوں فضائل سے سدا سرشار ہیں میرے حسین

معرفت کا اک محل اونچا بنایا آپ نے
رب کی یوں پہچان کے معیار ہیں میرے حسین

کم سنی کی بھی روایت معتبر ان کی رہی
یوں محدث منفرد سرکار ہیں میرے حسین

تربیت دی ہے انھیں شہزادیء سرکار نے
امتحاں کے واسطے تیار ہیں میرے حسین

کی تھی ہجرت طیبہ سے کوفے کی جانب شاہ نے
سنت ہجرت سے بھی ضوبار ہیں میرے حسین

کردیا مسمار شر کو جب یزیدی سر اٹھا
سب ہیں شاہد ، ماحیء اشرار ہیں میرے حسین

مجھ سے ہیں میرے حسین اور میں بھی ہوں شبیر سے
یہ کہا آقا نے ، یوں ضوبار ہیں میرے حسین

صرف دنیا میں نہیں جنت کے بھی وہ پھول ہیں
خوشبوؤں کے گنبد و مینار ہیں میرے حسین

باقر و موسی’ و جعفر آپ کے شہزادے ہیں
کیوں نہ کہہ دوں مخزن انوار ہیں میرے حسین

سب صحابہ کے دلوں میں آپ کی الفت رہی
آپ کے مداح چاروں یار ہیں ، میرے حسین

دیکھ کر منظر تمھارے چہرہء پرنور کا
تم پہ قرباں پھول کے رخسار ہیں میرے حسین

اس میں آئےگا یزیدی خار کیسے بولیے
زیست کے گلزار کے سردار ہیں میرے حسین

حکم آقا نے دیا جس کی حفاظت کے لئے
شرع کے سر کی وہی دستار ہیں میرے حسین

خواب کے عالم میں بھی کوئ نہ چھیڑے شرع کو
واسطے دیں کے سدا بیدار ہیں میرے حسین

تھے مشابہ سرور پرنور کے وہ ، ہے حدیث
اس لیے اے” عینی” خوشبو دار ہیں میرے حسین
۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ مطہرہ میں “جشن یوم آزادی” تزک واحتشام کےساتھ منایا گیا”” محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)


غیر منقسم ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ”خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ شریف” کے تحت چلنے والے ادارہ “جامعہ احسن البرکات” کے وسیع و عریض گراونڈ میں یوم آزادی کی مناسبت سے ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا،جس میں جامعہ کے سرپرست حضور رفیق ملت (ابا حضور) سید شاہ نجیب حیدر نوری برکاتی مد ظلہ النورانی ورعاہ اور جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی-صاحب سجادہ(جنہیں ہم تمام طلبہ اور اساتذۂ جامعہ پیار کی بولی میں ابا حضور کہتے ہیں) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پرچم کشائی فرمائی، اور جامعہ کے دو شاہین صفت طلبہ (محمد برکت علی برکاتی راجستھانی درجہ سادسہ اور محمد اکرم علی برکاتی گجراتی درجہ اعدادیہ) نے شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا لکھا ہوا مشہور زمانہ ترانۂ ہندی “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا… ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا” اپنی دل نشیں اور اچھوتے انداز میں پیش کیا- اس کے بعد جامعہ کے سرپرست صاحب سجادہ حضور رفیق ملت نے جنگ آزادی کا مطلب سمجھایا اور تحریک آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں ہمارے علما اور ہمارے آباء و اجداد نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں ملک ہندوستان ہمارا ہے اور اس ملک میں ہمارے آباء واجداد اور اولیائے کرام کے مزارات ہیں- الحمدللہ ہم بائی چوائز ہندوستانی ہیں اور اخیر میں صاحب سجادہ (ابا حضور) حضور رفیق ملت نے اپنی گفتگو کے دوران مجھ احقر کو نام لے کر پکارا کہ محمد ہاشم برکاتی سلمہ جہاں بھی ہوں آگے آئیں، جیسے ہی ابا حضور کی زبان مبارک سے اپنا نام سنا دل باغ باغ سا ہوگیا اور فوراً آگے آیا پھر ابا حضور نے مائک میں بتایا کہ ہاشم برکاتی نے ابھی حال ہی میں جو مضمون لکھا تھا اسے میں نے حضور امین ملت،حضور شرف ملت، احمد مجتبیٰ صدیقی اور جناب عتیق برکاتی کانپوری اور اس کے علاوہ بڑے بڑے ادیبوں کے پاس بھیجا جن کو آپ جانتے بھی نہیں ہیں سب نے اس مضمون کی خوب خوب تعریف کی،اور شرف ملت نے خصوصی طور پر دادو تحسین سے نوازا اور کہاکہ ماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالٰی میرے بچے کو سلامت رکھے اور حضور امین ملت مد ظلہ النورانی ورعاہ نے دعائیہ وحوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت مارہرہ شریف میں نہیں ہوں ورنہ میں خود اس بچہ کو انعام و اکرام سے نوازتا. آپ میری طرف سے اس بچہ کو 1100 دے دینا. آپ نے یہ کلمات ارشاد فرماتے ہوئے 1100 گیارہ سو روپیے اپنی جیب سے نکالے اور مجھے عطا فرمایا. اس کے بعد دوبارہ 1100 نکالا اور جامعہ کے پرنسپل استاذگرامی وقار حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعہ کی طرف سے آپ اپنے ہاتھ سے اس بچے کو بطور انعام دے دیجیے. اس کے بعد جب فقیر انعام حاصل کرکے جانے لگا تو آپ نے اپنے پیارے اور مخصوص لہجے میں ارشاد فرمایا کہ بیٹا ابھی کہاں جا رہے ہو؟ تو فقیر وہیں کھڑا ہو گیا بعدہ ابا حضور نے اپنے گلے سے رومال نکالا اور فرمایا کہ یہ مدینہ شریف کا رومال ہے میں اپنی طرف سے یہ رومال عطا کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے میرے کندھے پر رومال رکھ دیا اور دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم اور آپ کی زبان(چونکہ ابا حضور کے سامنے کئی مرتبہ تقریر کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے اور آپ میری تقریر کو کافی پسند بھی فرماتے ہیں) دونوں کو تقویت عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تر پریشانیوں کو دور فرمائے- ابا حضور کے یہ جملے سن کر فقیر کے دل کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ آج کے بعد ان شاءاللہ کبھی بھی فقیر کو کم از کم کوئی بڑی پریشانی لاحق نہیں ہوگی- پھر ابا حضور نے نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ شاگرد چاہے جتنا بھی قابل ہو جائے اپنے استاذ کے سامنے ہمیشہ چھوٹا سا چوزہ ہی رہتا ہے (چونکہ میری اس تمام کامیابی کے پیچھے خصوصی طور پر ہمارے مشفق و مہربان استاد حضرت علامہ مفتی شاداب امجدی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے) اس کے بعد ابا حضور نے مفتی صاحب قبلہ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا اور مفتی صاحب قبلہ کو بھی مدینہ منورہ کا مصلی عطا فرمایا. اور ارشاد فرمایا کہ آپ اس مصلی پر نماز پڑھ کر اپنے شاگردوں کے لئے دعا فرمایا کریں. اسکے بعد جامعہ کے کانفرنس ہال میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا اس میں اول پوزیشن جماعت اعدادیہ نے حاصل کی اور دوم پوزیشن جماعت خامسہ نے حاصل کی. اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں کو بھی جامعہ کی طرف سے گراں قدر انعام و اکرام سے نوازا گیا-
صلوٰة و سلام اور دعا پر پروگرام تکمیل کو پہنچا-

محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

مدحتِ مصطفی درود شریف، ازقلم زاہد رضا فانی بدایونی

مکمل کلام براۓ بزم کعب بن مالک رضی اللہ عنہ

بندگئ خدا درود شریف
مدحتِ مصطفی درود شریف

سنتِ کبریا درود شریف
مصطفی کی رضا درود شریف

نسخۂ کیمیا درود شریف
“دافعِ ہر بلا درود شریف

ہوگی مقبولِ بارگاہِ رب
پڑھئے قبلِ دعا درود شریف

کام بن جائیں گے سبھی بگڑے
کیجیے مشغلہ درود شریف

اے شہنشاہِ انبیاء و رسل
تم پہ بے انتہا درود شریف

قبر میں خود حضور سنتے ہیں
صدق دل سے پڑھا درود شریف

شیس کو تھی نصیحتِ آدم
بیٹے پڑھنا سدا درود شریف

بخشوا کر خدا سے روزِ حساب
خلد پہنچاۓ گا درود شریف

بالیقیں ہے ہر اک وظیفے کا
قائد و پیشوا درود شریف

تیرگیِ “” لحد “”‘ مٹاۓ گا
نور پھیلاۓ گا درود شریف

بھیجتا ہے ملائکہ کے ساتھ
مصطفی پر خدا درود شریف

ہم نے پایا براۓ کل امراض
نسخۂ کیمیا درود شریف

غم نہیں گردشِ زمانہ کا
ہے مرا ہم نوا درود شریف

خواب میں دیدِ مصطفی ہوگی
پڑھ کے سوئیں سدا درود شریف

پڑھنا ہر دن بنائیے عادت
ایک دو مرتبہ درود شریف

نام سن کر حضور کا فانی
اپنے لب پر سجا درود شریف

تراوشِ قلم ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو علامہ فضل حق خیر آبادی،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


فلسفہ اور منطق کے امام ،عربی اور فارسی کے جید عالم، بلند مرتبت شاعر و ادیب اور آزادی کے سرخیل مولانا فضل حق خیر آبادی کی عظیم شخصیت سے کون واقف نہیں ہوگا۔ ان کا تعلق خیر آباد ضلع سیتا پور کے گہوارہ علم وادب کے خاندان سے تھا۔ جن کا نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ہندوستانی صوفی و مفتی مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند علامہ فضل حق شہید بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔
ولادتِ باسعادت ۔۔ علامہ فضل حق 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔،
تحریک آزادی کو فتویٰ “جہاد” سے ملا نیا رخ
مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار فوج جمع ہوگئی تھی
فتویٰ “جہاد” مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد محسوس ہوا- دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی.الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی و مددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مددگاروں کو مرتد و بے دین سمجھتے تھے۔ وہ علم و فضل کے بحرِ بےکنار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا حق ادا کر دیا۔ سنتِ حسین پر عمل پیرا ہوکر اپنی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوئے۔
وصال: جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر “آزادی” کی آذانیں سنا رہی ہے۔

یوم آزادی اور ہماری ذمہ داری،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

ہمارا ملک “ہندوستان” بیش بہا قربانیوں اور ہندوستانیوں کے آپسی اتفاق و اتحاد اور طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 ء کو آزاد ہوا تھا، اس اعتبار سے 15 اگست تاریخ ہند کا ایک انتہائی سنہرا باب ہے، باشندگان ومحبان وطن آج سے 74 سال قبل ہندوستان کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے تھے، اور 15 اگست 1947 ء کو ہندوستان کے تمام شہریوں کو انگریزوں کی غلامی سےنجات ملی ‘اس لیے 15 اگست ہمارا قومی دن ہے-
یقینا ملک کی آزادی ملک کے ہر شہری کے لئے قابل فخر اور باعث صد افتخار ہے، آزادی کے تعلق سے اپنے والہانہ جذبات کا اظہار اور مجاہدین آزادی کی سرفروشانہ جد وجہد اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا حب الوطنی اور وطن دوستی کا تقاضا ہے- آزادی کی جدوجہد میں جس طرح مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر ملک کے سبھی انصاف پسند اور محب وطن شہریوں نے اپنی متحدہ قوت اور جوش و جذبات کی اجتماعیت کا مظاہرہ کیا وہ ملک کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس اجتماعیت و یکتائیت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح مٹھی بھر شر پسند و ملک دشمن عناصر نے انگریزوں کی وفاداری اور چاپلوسی کی مگر وہ مجاہدین آزادی کے آہنی عزم و استقلال کے سامنے ناکام و نامراد رہے آج بھی اسی طرح فرقہ پرست و شر پسند عناصر کو اسی متحدہ قوت اور عزم و استقلال سے ناکام و نامراد بنایا جا سکتا ہے اور ملک کو ٹوٹنے اور برباد ہونے سے بچایا جاسکتا ہے-
ہمارے وطن عزیز میں ہر سال جیسے ہی یوم آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے ہر چہار جانب خوشیوں کے شادیانے بجنے لگتے ہیں اور ہندوستان کا قومی پرچم “ترنگا” آن بان اور شان سے لہرایاجاتا ہے، سرفروشان حریت کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ مجاہدین آزادی کو سلامی دی جاتی ہے، ملک و ملت کے لیے اپنی جان کو نچھاور کرنے والے جیالوں کو یاد کیا جاتا ہے- اور یہ سب کچھ ہونا بھی چاہییے کیونکہ انہیں عظیم سپوتوں کی وجہ سے سامراجیوں وفرنگیوں کا غرور خاک میں ملا، طاغوتی قوتوں کے پرخچے اڑے، تمام تر سکوت و سطوت کی ہوا نکل گئی، ظلم و عدوان کی منہ زور آندھی کا منہ پھر گیا، غلامی کے طوق و سلاسل پرزہ پرزہ ہوگئے، اور ہمارا عظیم ملک ہندوستان آزاد فضا میں سانس لینے لگا- مگر یہ سب کچھ یکبارگی نہیں ہوگیا بلکہ اس کے لیے ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی، ہمارے جاں بازوں نے اپنے پیارے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی زندگیوں کو تج دیا، جان و مال بھینٹ چڑھائے، تختۂ دار پر چڑھے، اور پھانسی کےپھندوں کو بخوشی گلے لگایا اور انگریزوں کے خلاف باقاعدہ منظم تحریک چلائی تب کہیں جاکر آزاد ہندوستان کا یہ حسین شیش محل اپنے تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نکھر کر سامنے آیا- اس تحریک میں ہندو مسلم سکھ وجملہ برادران وطن بالخصوص علمائے کرام سب نے مل کر حصہ لیا اور ہندوستان کو انگریزوں کے دور اقتدار سے آزاد کرایا-
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 15 اگست جسے ہم یوم آزادی کہتے ہیں یہ ہم سبھی برادران وطن کے لیے انتہائی فرحت وشادمانی کا دن ہے اور اب تو الحمد للہ سبھی باشندگان ہند یہاں تک کہ نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یا برادران وطن سبھی یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ۲۶/جنوری اور ۱۵/اگست ہماری قومی تاریخ میں مسرت کے دنوں میں سے انتہائی عظیم اور یادگار دن ہیں، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں، لیکن ان خوشی کے دنوں میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم “یوم آزادی” محض رسماً نہیں بلکہ جوش وخروش سے منائیں اور ایسی تقاریب میں سبھی برداران وطن کے سامنے آزادی کی مستندتاریخ پیش کریں، اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں، ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے ان کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں اور برادران وطن کو علماء اور مسلمان مجاہدین آزادی کی وطن پرستی،اور وطن کے لیے جذبۂ صادق اور تڑپ سے روشناس کرائیں، انھیں بتائیں کہ اگر آزادی وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح ختم ہوجائے گی-

دعائیہ ترانۂ وطن، از تاج الشعراء حضرت علامہ سلمان فریدی صدیقی مصباحی بارہ بنکوی صاحب مسقط عمان


یہ ترانہ آج کی ضرورت کے اعتبار سے لکھا گیا ہے،ملکی وقومی مسائل کو لیکر دعا کی گئ ہے، جو یقینا ہر مُحبّ وطن کے دل کی آواز ہے، اسلوب سادہ اور الفاظ سہل ہیں تاکہ بچے بھی آسانی کے ساتھ یاد کرسکیں ،
اللہ تعالی ہمارے وطن کو گہوارۂ امن و اماں بنائے اور اِس گلشن کو فتنوں کی خزاں سے بچاکر ہمیشہ شاداب رکھے … آمین
🌹🇳🇪🌹
پھولوں سا مسکراتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
تاروں سا جگمگاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

یا رب دلوں سے ختم ہوں آپس کی دوریاں
ہر ایک کو ملاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

بھارت کی آنکھ روئے نہ دکھ درد سے کبھی
بس ہنستا کِھلکِھلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

اِس ملک سے اندھیرا جہالت کا دور ہو
علم وہنر سکھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

سارے برادران وطن امن سے رہیں
الفت کے گیت گاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

لیکر اونچائیوں پہ چڑھے سب کو ساتھ ساتھ
گِرتوں کو بھی اٹھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

تکلیف ہو کسی کو تو سب مل کے کم کریں
خوشیوں سے گُنگناتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

سب کو برابری سے ہی دیکھیں عدالتیں
ہر اک کا حق دلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

آٸیں نہ لوگ اھل سیاست کی چال میں
ہر فتنے کو مٹاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ہرگز کسی ستم پہ نہ خاموش ہو زباں
آوازِ حق اٹھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ظالم پہ سخت اِسکی ہمیشہ رہے نظر
مظلوم کو بچاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

فتنہ اٹھانے والوں کی کرکے سدا پکڑ
اِس آگ کو بجھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

پیغام شانتی کا بڑوں نے دیا ہے جو
نغمے وہی سناتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ہم میں کبھی یہ پیار یہ سَدبھاؤ کم نہ ہو
سیدھی ڈگر چلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

جامِ وفا جو پی کے جیالوں نے جان دی
سب کو وہ مے پلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

دنیا کی شانتی کے لیے یہ بنے سفیر
امن واماں بڑھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ٹوٹے نہ اے فریدی کبھی ایکتا کی ڈور
سب کو گلے لگاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

جنگ آزادی ،، اور خدمتِ وطن میں سچے مسلمانوں کا کردار…از فریدی صدیقی مصباحی، بارہ بنکوی، مسقط عمان 96899633908+

🇮🇳🇮🇳❣🇮🇳🇮🇳

             °°°°°°°°

سامناظلم کا،بے خوف وخطرہم نے کیا
وقت آیا تو فدا ہند پہ سر ہم نےکیا
🇮🇳❣🇮🇳
آج جو پھول نظر آتے ہیں آزادی کے
اِن گلوں کیلیے،کانٹوں کا سفر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
کیسے جاتے نہ بھلا ہند سے ظالم انگریز
انکومجبور ہر اک شام و سحر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
پھیکاپھیکا تھا غلامی سے وطن کا چہرہ
دےکے آزادی، منور یہ قمرہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ملک وملت کیلیے،ہنس کے چڑھے دار پہ بھی
خوف کھایا، نہ اگر اور مگر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
سرفروشی میں رہے ہم بھی برابر کے شریک
آئ مشکل، تو فدا جان و جگر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ایک بالشت بھی،دشمن کو نہیں دے سکتے
جس زمیں کیلیے،شعلوں کا گزر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
فضلِ حق،کافی،واشفاق و عنایت جیسا
نذر ، اِس خاک کی، ہر ایک گہر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
اک طرف،اِسپہ نچھاور ہوئےشیرِ میسور
دوسری سمت،، فدا شاہ ظفر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ہستیاں جنکی تھیں، سرمایۂ ملک وملت
فخر سے،ہند پہ قربان وہ زر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
خانقاہوں سے مدارس سے اٹھائ آواز
لڑ کے انگریز کو یوں ملک بدر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
نفرتیں بانٹنے والوں سے رہے ہم بیزار
ملک والوں کوسدا، شِیر و شَکَر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
زخم پر زخم دئیے اہلِ عداوت نے ہمیں
پھربھی اِس مُلک کومحبوبِ نظر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
امتحاں لیتے رہے ہم سے، ہمارے دشمن
پیش ہربار ہی،جرأت کاہنر، ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
جیتےجی کون چُھڑاپاے گا یہ ملک بھلا ؟
موت کےبعد بھی،اِس خاک کو گھر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
لوگ تو ہمکو مٹانےکی سدا تاک میں ہیں
ہم مٹے ،، اور نہ کوئی دوسرا در ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
صبر،خودداری،دلیری، ہے ہماری فطرت
جس سےگلزار،ہراک غم کا شرر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
آج کہتےہیں کہ پھل پھول پہ کچھ حق ہی نہیں
جبکہ خوں دیکے، گھنیرا یہ شجر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
سن لیں! غداری کاالزام لگانے والے
خدمتِ ملک میں، ہرلمحہ بسر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ہم فریدی، کبھی پیچھے نہیں ہٹنے والے
جوکیا،جب بھی کیا،ہوکےنِڈرہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳

قومی ترانہ۔۔از قلم ،سید خادم رسول عینی قدوسی بھدرک اڈیشا

میرے آقا کی نسبت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

سرور دیں کو آءی تھی ٹھنڈی ہوا
جس جگہ سے وہی ہند کی ہے جگہ
اس لیے پاک ہے ہر سو اس کی فضا
خوشبوؤں کی نفاست سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

تیری دھرتی پہ گل الفتوں کے کھلیں
خار سارے تعصب کے جھڑتے رہیں
جو بھی بچھڑے ہوئے ہیں وہ سب پھر جڑیں
ایکتائی کی فطرت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

تیری دھرتی میں آئے تھے خواجہ معین
وہ جو پھیلائے چاروں طرف رب کا دین
تیرے باشندے ان کے رہے ہیں رہین
تجھ میں اسلامی صورت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

تیری دھرتی میں پیدا ہوئے تھے رضا
وہ رضا پیکر عشق و خلق و وفا
جن کی کاوش سے ایمان سالم رہا
تجھ میں حق کی اشاعت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

آریہ بھٹ سے زیرو کا ایجاد ہے
تیرے استادوں سے علم آباد ہے
“عینی” کی اپنے رب سے یہ فریاد ہے
سارے عالم میں شہرت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ ،،از قلم ،سید خادم رسول عینی قدوسی بھدرک اڈیشا

ہے آپ کی زباں پہ ثنا مصطفی’رضا
ہر دم ہے نعت شاہ ہدی’ مصطفی’رضا

بچپن میں ہی خلافت نوری ملی تمھیں
کیا خوب ہے یہ نوری ادا مصطفی’رضا

تعویذ آپ کے قلم ناز کا ہے خوب
ہے خلق کے لیے یہ شفا ، مصطفی’رضا

عالم کے وہ تھے مفتیء اعظم بھی وقت کے
سب مفتیوں کے راہ نما مصطفی’رضا

ملت میں اتحاد کے داعی رہے سدا
سب اس لیے ہیں تم پہ فدا ، مصطفی’ رضا

روشن ہیں ان سے عارف باللہ سینکڑوں
تقوی’ کے چرخ کی ہیں ضیا مصطفی’رضا

بند آنکھوں سے مرید نے دیکھا تھا غوث کو
جب تم نے اس کو حکم دیا، مصطفی’رضا

سنگم تھے علم ظاہر و باطن کے باکمال
آءینہء جمال رضا مصطفی’رضا

حامد رضا نے دیکے خلافت حبیب کو
مہکایا خوب باغ رضا ، مصطفی’ رضا

سامان بخشش آپ کی ، راحت کا ہے سبب
عینی کے واسطے ہے ردا ، مصطفی’رضا
۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔{عرس مفتی اعظم ھند پر خصوصی تحریر}✍️ آصف جمیل امجدی

دوسری قسط

جب فتویٰ اصلاح کی غرض سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو امام احمد رضا نے خط پہچان لیا ۔ دریافت فرمایا کس نے دیا ہے ؟ لے جانے والے نے بتایا کہ چھوٹے میاں نے ( گھر میں لوگ پیار میں حضرت مفتی اعظم کو چھوٹے میاں کہتے تھے ) امام احمد رضا نے طلب فرمایا ۔ مفتی اعظم ہند خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ اعلی حضرت باغ باغ ہیں ۔ پیشانی اقدس پر بشاشت سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔فرمایا اس پر دستخط کرو ۔ دستخط کروانے کے بعد امام احمد رضا قدس سرہ نے صح الجواب بعون الله العزيز الوهاب لکھ کر اپنے دستخط فرماۓ ۔اس طرح اگر ایک طرف حضرت مفتی اعظم رضوی دارلافتاء کے مفتیان کرام پر سبقت لے گئے ۔ تو دوسری طرف امام احمد رضا بریلوی کی طرف سے فتوی نویسی کی باقاعدہ اجازت مل گئی ۔جانشین مفتی اعظم حضرت علامہ اختر رضاخاں ازہری، مفتی اعظم کے فتاوی نویسی کے متعلق ارشادفرماتے ہیں:
”مفتی اعظم علم کے دریاۓ ذخار تھے ۔جزئیات حافظے سے بتادیتے تھے فتاوے قلم برداشتہ لکھ دیا کرتے تھے۔“ مولا نا مصطفی رضا خاں قادری اپنی بہت سی علمی وعملی خوبیوں میں امتیازی مقام و مرتبہ پر فائز ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک جامع کمالات شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی پوری زندگی ایک تحریک آفریں زندگی تھی۔ آپ ہر جگہ متحرک نظر آتے تھے ۔ ملت اسلامیہ کو جب بھی اپنی بقا اور تحفظ کی ضرورت درپیش ہوئی آپ اس کے تدارک کی ہرممکن سعی کرتے نظر آۓ ۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم رقم طراز ہیں :
”۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کر عبادت وریاضت سے لے کر میدان کے ہنگاموں تک انہوں ( مولا نا مصطفی رضاخاں ) نے جو نمایاں خدمت انجام دیں ہیں ۔ رہتی دنیا تک ان خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ ملک وملت سے متعلق ایسے ایسے مسائل پیش آۓ جسے سوچنے کے بعد آج بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ مگر جس جرأت اور مجاہدانہ عزیمت کے ساتھ مفتی اعظم نے اس کا مقابلہ کیا وہ تاریخ ہند کے اوراق پر زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس درویشانہ زندگی بسر کرنے والے شخص کا اس طرح میدان میں آ کر اسلام دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور پھر اعلائے کلمہ حق کر کے فتح و کامرانی سے ہمکنار ہونا بقول شیخ سعدی اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا
”ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نه بخشد خدائے بخشندہ“

مولا نا مصطفی رضا خاں نے اہل سنت و جماعت کے نظریات کی خوب خوب نشر و اشاعت کی اور اس کے لیے متعد تحریکات کا مقابلہ کیا اور نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس سلسلے کی چند تحریکات کا ایک تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں جس سے آپ کی سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

1911 ء میں امام احمد رضا بریلوی نے ”انصار الاسلام“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد حمایت خلافت و حفاظت سلطنت اسلامی تھی ۔ مظلومین تُرک کی اعانت کے لیے عملا اقدام کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا ۔ جماعت انصارالاسلام کے ناظم اعلی مولانا حسنین رضا ( برادرعم زادمولانا احمد رضا بریلوی ) تھے ۔ عالم شباب میں مولانا مصطفی رضا خاں اس کے خاص رکن تھے۔ 1920 ء میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ کا قیام عمل میں آیا ۔ فتنہ ارتداد کے انسداد اور عوام میں راسخ الاعتقادی پیدا کرنے میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ نے مثالی اور موثر کام کیا ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں اس کے رکن رکین تھے ۔ اس جماعت کے ساتھ منسلک رہ کر مولانا نے اشاعت وتبلیغ اسلام اور تحریک آزادی کے سلسلےمیں اہم کردار ادا کیا۔ چناچہ 1343ھ/1924ٕٕ ٕ میں شردھانند کے فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا اور تبلیغی مشن میں مصروف رہے
اور مولا نا مصطفی رضا خاں نے فتنہ ارتداد کے دور میں پانچ لاکھ ہندٶں کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا۔
1919 ء میں تحریک خلافت اور 1920 ء میں تحریک ترک موالات کے ہیجانی دور میں اسلامی تشخص کے تحفظ کی خاطر مولانا مصطفی رضا خاں اپنے والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی اور دوسرے ہمنوا علما کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ 1935 ء میں سکھوں نے انگریز حکام کی پشت پناہی میں لاہور کی مسجد شہید گنج کومسمار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ جگہ اور عمارت گورو دوارہ ہے ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں نے اس ضمن میں ایک اہم فتوی دیا اور آپ نے دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ اس تحریک میں حصہ لے کر مسلمانوں پر فرض ہے کہ مسجد کو سکھوں سے آزاد کرائیں ۔اس فتوی کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور انہوں نے دوبارہ اپنی اصل جگہ پر مسجد کی تعمیر کی ۔ 1938 ء میں آپ نے اشتراکیت کے فتنے کے خلاف موثر آواز بلند کی۔
1925ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس کی داغ بیل پڑی۔مولا نا مصطفی رضا خاں اس کانفرنس کے مرکزی سر پرست تھے ۔ آپ کی سربراہی اور رہنمائی میں آل انڈیا سنی کانفرنس نے برصغیر کی سیاست میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا۔آل انڈیاستی کانفرنس کا ایک اہم اجلاس 1946 ء میں بنارس میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں پانچ سومشائخ عظام ، سات ہزار علماء اور لاکھوں سے زائد عوام اہل سنت شریک ہوۓ ۔ یہ اجلاس قیام پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ نے اس اجلاس میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
1960 ء میں حکومت ہند نے ایک وقف ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے تدارک کے لیے 1961 ء میں دہلی میں آل انڈیاسنی اوقاف کانفرنس کا انعقاد مولانا مصطفی رضا خاں نے کیا ۔ اور حکومت پر ایسا دباؤ بنایا کہ بالآخر حکومت یہ بل واپس لینے پر مجبور ہوگئی ۔ اس طرح مذہبی ادارے اپنا اسلامی شخص بر قرار رکھ سکے۔
1920ء میں امام احمد رضا محدث بریلوی نے ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کی بنیاد ڈالی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تحر یک بھی حوادث روز گار کا شکارہ ہوتی گئی۔ 1963ء میں جبل پور میں ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کا مرکزی انتخاب عمل میں آیا ۔ اس طرح مولا نا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں جماعت رضاۓ مصطفی نے مسلمانان ہند کی مذہبی قومی اور اسلامی ضرورت کو پورا کر دیا۔
1963ء میں کان پور میں مولانا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کانفرنس کا انعقادعمل میں آیا ۔ اس اجلاس میں تقریبا 4/لاکھ افراد نے شرکت کی اور یہ اعلان کیا گیا کہ آل انڈیاسنی جمعیۃ العلماء مسلمانوں کی معتمد اور نمائندہ جماعت ہے ۔اور پر زور الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانان ہند کی دینی، تعلیمی، اقتصادی ، لسانی اور اوقاف کے تحفظ کی خاطر حکومت کوئی اقدام جلد از جلد اٹھاۓ۔
1977 ء میں ملک میں ایمرجینسی نافذ تھی اس دوران مسلمانان ہند کے لیے ایک بھیانک طوفان کا دور تھا ۔ حکومت کے حامی مفتیان نے نسبندی کے جواز کا حکم نافذ کر دیا ۔ ایسے پر آشوب ماحول میں مولا نامصطفی رضاخاں اپنے علمی وروحانی وقار سے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کھڑے ہوۓ ۔آپ نے بے با کی اور حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ نسبندی کے عدم جواز کا حکم دیا۔ اس طرح مولا نامصطفی رضا خاں کی پوری زندگی ایک تحریک آمیز زندگی تھی ۔ آپ نے قدم قدم پر مسلمانوں کی صحیح رہنمائی فرماتے ہوۓ اسلام کے پر چم کو بلند رکھا۔(علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں۔}
jamilasif265@gmail.com
6306397662