WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

دعائیہ ترانۂ وطن، از تاج الشعراء حضرت علامہ سلمان فریدی صدیقی مصباحی بارہ بنکوی صاحب مسقط عمان


یہ ترانہ آج کی ضرورت کے اعتبار سے لکھا گیا ہے،ملکی وقومی مسائل کو لیکر دعا کی گئ ہے، جو یقینا ہر مُحبّ وطن کے دل کی آواز ہے، اسلوب سادہ اور الفاظ سہل ہیں تاکہ بچے بھی آسانی کے ساتھ یاد کرسکیں ،
اللہ تعالی ہمارے وطن کو گہوارۂ امن و اماں بنائے اور اِس گلشن کو فتنوں کی خزاں سے بچاکر ہمیشہ شاداب رکھے … آمین
🌹🇳🇪🌹
پھولوں سا مسکراتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
تاروں سا جگمگاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

یا رب دلوں سے ختم ہوں آپس کی دوریاں
ہر ایک کو ملاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

بھارت کی آنکھ روئے نہ دکھ درد سے کبھی
بس ہنستا کِھلکِھلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

اِس ملک سے اندھیرا جہالت کا دور ہو
علم وہنر سکھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

سارے برادران وطن امن سے رہیں
الفت کے گیت گاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہمارا چمن رہے
🌹🇳🇪🌹

لیکر اونچائیوں پہ چڑھے سب کو ساتھ ساتھ
گِرتوں کو بھی اٹھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

تکلیف ہو کسی کو تو سب مل کے کم کریں
خوشیوں سے گُنگناتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

سب کو برابری سے ہی دیکھیں عدالتیں
ہر اک کا حق دلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

آٸیں نہ لوگ اھل سیاست کی چال میں
ہر فتنے کو مٹاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ہرگز کسی ستم پہ نہ خاموش ہو زباں
آوازِ حق اٹھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ظالم پہ سخت اِسکی ہمیشہ رہے نظر
مظلوم کو بچاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

فتنہ اٹھانے والوں کی کرکے سدا پکڑ
اِس آگ کو بجھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

پیغام شانتی کا بڑوں نے دیا ہے جو
نغمے وہی سناتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ہم میں کبھی یہ پیار یہ سَدبھاؤ کم نہ ہو
سیدھی ڈگر چلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

جامِ وفا جو پی کے جیالوں نے جان دی
سب کو وہ مے پلاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

دنیا کی شانتی کے لیے یہ بنے سفیر
امن واماں بڑھاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

ٹوٹے نہ اے فریدی کبھی ایکتا کی ڈور
سب کو گلے لگاتا ہمارا وطن رہے
یہ ہماراچمن رہے
🌹🇳🇪🌹

جنگ آزادی ،، اور خدمتِ وطن میں سچے مسلمانوں کا کردار…از فریدی صدیقی مصباحی، بارہ بنکوی، مسقط عمان 96899633908+

🇮🇳🇮🇳❣🇮🇳🇮🇳

             °°°°°°°°

سامناظلم کا،بے خوف وخطرہم نے کیا
وقت آیا تو فدا ہند پہ سر ہم نےکیا
🇮🇳❣🇮🇳
آج جو پھول نظر آتے ہیں آزادی کے
اِن گلوں کیلیے،کانٹوں کا سفر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
کیسے جاتے نہ بھلا ہند سے ظالم انگریز
انکومجبور ہر اک شام و سحر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
پھیکاپھیکا تھا غلامی سے وطن کا چہرہ
دےکے آزادی، منور یہ قمرہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ملک وملت کیلیے،ہنس کے چڑھے دار پہ بھی
خوف کھایا، نہ اگر اور مگر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
سرفروشی میں رہے ہم بھی برابر کے شریک
آئ مشکل، تو فدا جان و جگر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ایک بالشت بھی،دشمن کو نہیں دے سکتے
جس زمیں کیلیے،شعلوں کا گزر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
فضلِ حق،کافی،واشفاق و عنایت جیسا
نذر ، اِس خاک کی، ہر ایک گہر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
اک طرف،اِسپہ نچھاور ہوئےشیرِ میسور
دوسری سمت،، فدا شاہ ظفر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ہستیاں جنکی تھیں، سرمایۂ ملک وملت
فخر سے،ہند پہ قربان وہ زر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
خانقاہوں سے مدارس سے اٹھائ آواز
لڑ کے انگریز کو یوں ملک بدر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
نفرتیں بانٹنے والوں سے رہے ہم بیزار
ملک والوں کوسدا، شِیر و شَکَر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
زخم پر زخم دئیے اہلِ عداوت نے ہمیں
پھربھی اِس مُلک کومحبوبِ نظر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
امتحاں لیتے رہے ہم سے، ہمارے دشمن
پیش ہربار ہی،جرأت کاہنر، ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
جیتےجی کون چُھڑاپاے گا یہ ملک بھلا ؟
موت کےبعد بھی،اِس خاک کو گھر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
لوگ تو ہمکو مٹانےکی سدا تاک میں ہیں
ہم مٹے ،، اور نہ کوئی دوسرا در ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
صبر،خودداری،دلیری، ہے ہماری فطرت
جس سےگلزار،ہراک غم کا شرر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
آج کہتےہیں کہ پھل پھول پہ کچھ حق ہی نہیں
جبکہ خوں دیکے، گھنیرا یہ شجر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
سن لیں! غداری کاالزام لگانے والے
خدمتِ ملک میں، ہرلمحہ بسر ہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳
ہم فریدی، کبھی پیچھے نہیں ہٹنے والے
جوکیا،جب بھی کیا،ہوکےنِڈرہم نے کیا
🇮🇳❣🇮🇳

قومی ترانہ۔۔از قلم ،سید خادم رسول عینی قدوسی بھدرک اڈیشا

میرے آقا کی نسبت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

سرور دیں کو آءی تھی ٹھنڈی ہوا
جس جگہ سے وہی ہند کی ہے جگہ
اس لیے پاک ہے ہر سو اس کی فضا
خوشبوؤں کی نفاست سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

تیری دھرتی پہ گل الفتوں کے کھلیں
خار سارے تعصب کے جھڑتے رہیں
جو بھی بچھڑے ہوئے ہیں وہ سب پھر جڑیں
ایکتائی کی فطرت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

تیری دھرتی میں آئے تھے خواجہ معین
وہ جو پھیلائے چاروں طرف رب کا دین
تیرے باشندے ان کے رہے ہیں رہین
تجھ میں اسلامی صورت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

تیری دھرتی میں پیدا ہوئے تھے رضا
وہ رضا پیکر عشق و خلق و وفا
جن کی کاوش سے ایمان سالم رہا
تجھ میں حق کی اشاعت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے

آریہ بھٹ سے زیرو کا ایجاد ہے
تیرے استادوں سے علم آباد ہے
“عینی” کی اپنے رب سے یہ فریاد ہے
سارے عالم میں شہرت سلامت رہے
اے وطن تیری عظمت سلامت رہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ ،،از قلم ،سید خادم رسول عینی قدوسی بھدرک اڈیشا

ہے آپ کی زباں پہ ثنا مصطفی’رضا
ہر دم ہے نعت شاہ ہدی’ مصطفی’رضا

بچپن میں ہی خلافت نوری ملی تمھیں
کیا خوب ہے یہ نوری ادا مصطفی’رضا

تعویذ آپ کے قلم ناز کا ہے خوب
ہے خلق کے لیے یہ شفا ، مصطفی’رضا

عالم کے وہ تھے مفتیء اعظم بھی وقت کے
سب مفتیوں کے راہ نما مصطفی’رضا

ملت میں اتحاد کے داعی رہے سدا
سب اس لیے ہیں تم پہ فدا ، مصطفی’ رضا

روشن ہیں ان سے عارف باللہ سینکڑوں
تقوی’ کے چرخ کی ہیں ضیا مصطفی’رضا

بند آنکھوں سے مرید نے دیکھا تھا غوث کو
جب تم نے اس کو حکم دیا، مصطفی’رضا

سنگم تھے علم ظاہر و باطن کے باکمال
آءینہء جمال رضا مصطفی’رضا

حامد رضا نے دیکے خلافت حبیب کو
مہکایا خوب باغ رضا ، مصطفی’ رضا

سامان بخشش آپ کی ، راحت کا ہے سبب
عینی کے واسطے ہے ردا ، مصطفی’رضا
۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔{عرس مفتی اعظم ھند پر خصوصی تحریر}✍️ آصف جمیل امجدی

دوسری قسط

جب فتویٰ اصلاح کی غرض سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو امام احمد رضا نے خط پہچان لیا ۔ دریافت فرمایا کس نے دیا ہے ؟ لے جانے والے نے بتایا کہ چھوٹے میاں نے ( گھر میں لوگ پیار میں حضرت مفتی اعظم کو چھوٹے میاں کہتے تھے ) امام احمد رضا نے طلب فرمایا ۔ مفتی اعظم ہند خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ اعلی حضرت باغ باغ ہیں ۔ پیشانی اقدس پر بشاشت سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔فرمایا اس پر دستخط کرو ۔ دستخط کروانے کے بعد امام احمد رضا قدس سرہ نے صح الجواب بعون الله العزيز الوهاب لکھ کر اپنے دستخط فرماۓ ۔اس طرح اگر ایک طرف حضرت مفتی اعظم رضوی دارلافتاء کے مفتیان کرام پر سبقت لے گئے ۔ تو دوسری طرف امام احمد رضا بریلوی کی طرف سے فتوی نویسی کی باقاعدہ اجازت مل گئی ۔جانشین مفتی اعظم حضرت علامہ اختر رضاخاں ازہری، مفتی اعظم کے فتاوی نویسی کے متعلق ارشادفرماتے ہیں:
”مفتی اعظم علم کے دریاۓ ذخار تھے ۔جزئیات حافظے سے بتادیتے تھے فتاوے قلم برداشتہ لکھ دیا کرتے تھے۔“ مولا نا مصطفی رضا خاں قادری اپنی بہت سی علمی وعملی خوبیوں میں امتیازی مقام و مرتبہ پر فائز ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک جامع کمالات شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی پوری زندگی ایک تحریک آفریں زندگی تھی۔ آپ ہر جگہ متحرک نظر آتے تھے ۔ ملت اسلامیہ کو جب بھی اپنی بقا اور تحفظ کی ضرورت درپیش ہوئی آپ اس کے تدارک کی ہرممکن سعی کرتے نظر آۓ ۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم رقم طراز ہیں :
”۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کر عبادت وریاضت سے لے کر میدان کے ہنگاموں تک انہوں ( مولا نا مصطفی رضاخاں ) نے جو نمایاں خدمت انجام دیں ہیں ۔ رہتی دنیا تک ان خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ ملک وملت سے متعلق ایسے ایسے مسائل پیش آۓ جسے سوچنے کے بعد آج بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ مگر جس جرأت اور مجاہدانہ عزیمت کے ساتھ مفتی اعظم نے اس کا مقابلہ کیا وہ تاریخ ہند کے اوراق پر زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس درویشانہ زندگی بسر کرنے والے شخص کا اس طرح میدان میں آ کر اسلام دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور پھر اعلائے کلمہ حق کر کے فتح و کامرانی سے ہمکنار ہونا بقول شیخ سعدی اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا
”ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نه بخشد خدائے بخشندہ“

مولا نا مصطفی رضا خاں نے اہل سنت و جماعت کے نظریات کی خوب خوب نشر و اشاعت کی اور اس کے لیے متعد تحریکات کا مقابلہ کیا اور نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس سلسلے کی چند تحریکات کا ایک تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں جس سے آپ کی سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

1911 ء میں امام احمد رضا بریلوی نے ”انصار الاسلام“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد حمایت خلافت و حفاظت سلطنت اسلامی تھی ۔ مظلومین تُرک کی اعانت کے لیے عملا اقدام کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا ۔ جماعت انصارالاسلام کے ناظم اعلی مولانا حسنین رضا ( برادرعم زادمولانا احمد رضا بریلوی ) تھے ۔ عالم شباب میں مولانا مصطفی رضا خاں اس کے خاص رکن تھے۔ 1920 ء میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ کا قیام عمل میں آیا ۔ فتنہ ارتداد کے انسداد اور عوام میں راسخ الاعتقادی پیدا کرنے میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ نے مثالی اور موثر کام کیا ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں اس کے رکن رکین تھے ۔ اس جماعت کے ساتھ منسلک رہ کر مولانا نے اشاعت وتبلیغ اسلام اور تحریک آزادی کے سلسلےمیں اہم کردار ادا کیا۔ چناچہ 1343ھ/1924ٕٕ ٕ میں شردھانند کے فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا اور تبلیغی مشن میں مصروف رہے
اور مولا نا مصطفی رضا خاں نے فتنہ ارتداد کے دور میں پانچ لاکھ ہندٶں کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا۔
1919 ء میں تحریک خلافت اور 1920 ء میں تحریک ترک موالات کے ہیجانی دور میں اسلامی تشخص کے تحفظ کی خاطر مولانا مصطفی رضا خاں اپنے والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی اور دوسرے ہمنوا علما کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ 1935 ء میں سکھوں نے انگریز حکام کی پشت پناہی میں لاہور کی مسجد شہید گنج کومسمار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ جگہ اور عمارت گورو دوارہ ہے ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں نے اس ضمن میں ایک اہم فتوی دیا اور آپ نے دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ اس تحریک میں حصہ لے کر مسلمانوں پر فرض ہے کہ مسجد کو سکھوں سے آزاد کرائیں ۔اس فتوی کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور انہوں نے دوبارہ اپنی اصل جگہ پر مسجد کی تعمیر کی ۔ 1938 ء میں آپ نے اشتراکیت کے فتنے کے خلاف موثر آواز بلند کی۔
1925ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس کی داغ بیل پڑی۔مولا نا مصطفی رضا خاں اس کانفرنس کے مرکزی سر پرست تھے ۔ آپ کی سربراہی اور رہنمائی میں آل انڈیا سنی کانفرنس نے برصغیر کی سیاست میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا۔آل انڈیاستی کانفرنس کا ایک اہم اجلاس 1946 ء میں بنارس میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں پانچ سومشائخ عظام ، سات ہزار علماء اور لاکھوں سے زائد عوام اہل سنت شریک ہوۓ ۔ یہ اجلاس قیام پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ نے اس اجلاس میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
1960 ء میں حکومت ہند نے ایک وقف ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے تدارک کے لیے 1961 ء میں دہلی میں آل انڈیاسنی اوقاف کانفرنس کا انعقاد مولانا مصطفی رضا خاں نے کیا ۔ اور حکومت پر ایسا دباؤ بنایا کہ بالآخر حکومت یہ بل واپس لینے پر مجبور ہوگئی ۔ اس طرح مذہبی ادارے اپنا اسلامی شخص بر قرار رکھ سکے۔
1920ء میں امام احمد رضا محدث بریلوی نے ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کی بنیاد ڈالی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تحر یک بھی حوادث روز گار کا شکارہ ہوتی گئی۔ 1963ء میں جبل پور میں ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کا مرکزی انتخاب عمل میں آیا ۔ اس طرح مولا نا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں جماعت رضاۓ مصطفی نے مسلمانان ہند کی مذہبی قومی اور اسلامی ضرورت کو پورا کر دیا۔
1963ء میں کان پور میں مولانا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کانفرنس کا انعقادعمل میں آیا ۔ اس اجلاس میں تقریبا 4/لاکھ افراد نے شرکت کی اور یہ اعلان کیا گیا کہ آل انڈیاسنی جمعیۃ العلماء مسلمانوں کی معتمد اور نمائندہ جماعت ہے ۔اور پر زور الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانان ہند کی دینی، تعلیمی، اقتصادی ، لسانی اور اوقاف کے تحفظ کی خاطر حکومت کوئی اقدام جلد از جلد اٹھاۓ۔
1977 ء میں ملک میں ایمرجینسی نافذ تھی اس دوران مسلمانان ہند کے لیے ایک بھیانک طوفان کا دور تھا ۔ حکومت کے حامی مفتیان نے نسبندی کے جواز کا حکم نافذ کر دیا ۔ ایسے پر آشوب ماحول میں مولا نامصطفی رضاخاں اپنے علمی وروحانی وقار سے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کھڑے ہوۓ ۔آپ نے بے با کی اور حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ نسبندی کے عدم جواز کا حکم دیا۔ اس طرح مولا نامصطفی رضا خاں کی پوری زندگی ایک تحریک آمیز زندگی تھی ۔ آپ نے قدم قدم پر مسلمانوں کی صحیح رہنمائی فرماتے ہوۓ اسلام کے پر چم کو بلند رکھا۔(علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں۔}
jamilasif265@gmail.com
6306397662

قومی ترانہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

خاک وطن ہے پیاری ہم سب کو اپنی جاں سے
کرتے ہیں پیار جیسے افراد اپنی ماں سے

ہندوستاں سے مجھ کو کیونکر نہ ہو محبت
میر عرب کو آءی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

ہے مادر وطن کے قدموں کی خوشبو ایسی
آتی ہے اس کی خوشبو ہر قلب کے مکاں سے

پودے نرالے اس کے اور گل بھی ہیں نرالے
مجھ کو لگا ہے بھارت نیارا ہر اک جہاں سے

ٹیگور ہو کہ بنکم، بیکل ہو یا وہ اجمل
ہم کو ہے پیار ہر اک بھارت کے مدح خواں سے

پیدا ہوءے ہیں اس میں ، اس میں ہی دفن ہونگے
مت پوچھنا اے ظالم ، آءے ہو تم کہاں سے

صدیوں سے اس وطن میں ہے بود و باش اپنی
پڑھ کے تو دیکھو تاریخ اور پوچھو نکتہ داں سے

آپس میں کررہے ہیں سرگوشیاں ستارے
دیکھو زمین بھارت اونچی ہے آسماں سے

حق کی حصول یابی کے واسطے لڑیں گے
اور فرض بھی نبھاءینگے دل‌سے اور جاں سے

حب وطن کو جزو ایماں بتایا شہ نے
کرتا ہوں خوب توصیف اس واسطے زباں سے

یہ کہہ کے رکھ دیا ہے ہم نے قلم بھی عینی
تعریف کیا کروں میں ، باہر ہے یہ بیاں سے

۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

جنگ آزادی میں علماۓ کرام کی قربانیاں{ موجِ فکر }✍ آصفــ جمیل امجدی

………..75/ویں یوم آزادی کا سورج اپنی پوری آب و تاب کیساتھ افق ہند پر جلوہ پاشی کررہاہےـ
ہر سال ہم 15/ اگست کو یوم آزادی اور 26/ جنوری کو یوم جمہوریہ مناتے ہیں ـ اس دن ہم اپنے ان رہنماؤں کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا تھاـ آزادی حاصل ھوۓ 75/ برس ھوگئے جسے ہم بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں یہ ہمارا فریضہ ہے اور نصب العین بھی.

  74/سال قبل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • جب ساون اور بھادوں کے مہینے میں آسمان پر بدلیاں چھائی تھیں۔
  • جب گھٹائیں ہندوستان کے دامن سے غلامی کی نجاستوں کو پاک کررہی تھیں۔
  • جب ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں پر ہماری آزادی کا سورج جلوہ فگن ہورہاتھا۔
  • جب غلامی کی بیڑیاں کٹ رہی تھیں۔ اس وقت ملک کے لوگ یہ فیصلہ کررہے تھے کہ یہ ملک کسی ایک فرقے کا نہ ہوگا، یہاں ہر مذہب و ملت کا احترام ہوگا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔

آج پھر گھنگور گھٹائیں چھائی ہیں اور پانی کی بوندیں تازہ ترانا گنگنارہی ہیں اور ہم اس ملک کی یوم آزادی کی 75/ ویں سال گرہ منارہے ہیں۔
لیکن یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان کو نظر انداز کردیاگیا تاریخ کی کتابوں سے لے کر عجائب خانوں تک ان کے نام و نشاں مٹا دیئے گئے…..
اب ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بیان کی جاتی ہے یا لکھی جاتی ہے اس سے مسلم اور غیر مسلم نوجوان طلباء یہی تأثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں “مولانا عبد الکلام آزاد اور شہید اشفاق اللہ خاں” کے علاوہ بس ایک دو مسلم اورتھے۔ ایسے تاثر لینے پر نئی نسل مجبور ہے کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جد و جہد کی ہے۔ مصیبتیں جھیلیں ہیں اور جان کی بازیاں لگائی ہیں پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی ہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف جنگ چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان ، قید کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیلے جانے والے مسلمان رہے ہیں۔
بھارت کے بٹوارے کے وقت ہمیں حق تھا پاکستان جانے کا آپ کونہیں تھا۔ ہمیں حق تھا، لیکن ہمارے اسلاف نے یہ طے کیا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارے اجداد کی قبریں ہیں یہاں، ہمارے بزرگوں کے مزارات ہیں یہاں۔ جامع مسجد ہے دلی کی، تاج محل ہے، قلعیں ہیں بزرگوں کی یادیں ہیں یہاں اور یہ سب بھارت کی شان ہیں آج انہیں مسلمانوں کو غدار ٹھہرایا جارہا ہے۔ انہی کا نام لے کر سڑکوں پر مارا جارہا ہے ۔ ہم اپنی مرضی سے رکے تھے، ہمیں کسی نے زبردستی نہیں روکا تھا، جو اپنی مرضی سے رکے ان کے لیے آج یہ کہا جارہاہے کہ جو “وندے ماترم” نہیں کہے گا اسے بھارت میں رہنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ حالانکہ سپرم کورٹ کہہ رہا ہے کہ “وندے ماترم” کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاۓ گا سب سے بڑی عدالت تو وہ بھی ہے ۔

بھارت کو آزاد کرانے کےلیے ”ریشمی رومال تحریک“ میں لاتعداد علماۓ کرام نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا آج بھی اس بھارت ملک کی مٹی میں نہ جانے کتنے آزادی کے متوالے مسلم شہداء کی لاشیں دفن ہیں ۔
حضرت مولانا ہدایت رسول قادری برکاتی رحمتہ اللہ لکھنوی متوفی 1915ع نے لکھنؤ میں انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی تھی اور “لکھنؤ بند” کا اعلان عام کیا تھا۔ لکھنؤ بند کے دن ساری دکانیں بند تھیں پورے شہر میں کسی طرح کی خرید و فروخت نہیں ہوتی تھی ۔ کسی انگریز نے ایک بوڑھیا خاتون سے (جو سبزی بیچا کرتی تھی) کہا کہ مجھے سبزی کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔ بوڑھیا نے برجستہ اور بلاخوف و خطر انگریز کو جواب دیا ”نہیں! آج کچھ نہیں مل سکتا ہے“ ہمارے مولانا نے آج لکھنؤ والوں کو منع کیا ہے کہ کوئی بھی دوکان نہیں کھول سکتا ہے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکتا ہے؎
شیر میسور ٹیپو سلطان (شہادت 1799ع) پورے متحدہ ہندوستان کا یکلوتا بادشاہ جنھوں نے انگریزوں سے لڑتے ہوۓ میدان جنگ کے اندر عین حالت جنگ میں شہادت پائی۔ اور انگریز کمانڈر نے سلطان ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا “آج سے ہندوستان ہمارا ہے” اسی شیرِ دل نے للکار کر دہاڑا تھا کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“
16/رمضان المبارک 1274ھ مطابق 30/ اپریل 1858ع کو مفتی کفایت اللہ کافی رحمتہ اللہ علیہ کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا 4/مئ
1858ٕٕع کو آپ کا مقدمہ پیش ہوا اور سر سری سماعت کے بعد 5….6/مئ کو آپ کے پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا۔
نہایت صبر و استقلال اور خندہ پیشانی کے ساتھ آپ نے یہ ظالمانہ فیصلہ سنا۔ مفتی کفایت اللہ کافی جب پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے تھے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔

؏ ۔۔۔۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جاۓ گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جاۓ گا۔

سن 1942ء میں جب ہندو مسلم نے ایک برتن میں کھانا کھایا تھا تب انگریزوں کو لگا تھا کہ اب ہم ہندوستان میں راج نہیں کرپائیں گے۔اور سن 1942ء سے ہی انگریز اپنا بستر باندھنا شروع کردیئے تھے ۔
سن 1947ء میں ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔

(ناچیز زخمی قلب و جگر کیساتھ آگے کی منظر کشی کررہا ہے۔)

سن 1870ع کی تحریک میں تنہا مسلمان انگریزوں سے آزادی کیلئے لڑتے رہے ـ جس میں علمائے اہلِ سنت کی مقدس جماعت پیش پیش تھی.
(1) جلیاں والا باغ میں مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھاکر یہ بتایا کہ مسلمان ملک کا کیسا وفادرا ہے۔

(2) نمک تحریک میں 78 ہزار مسلمان گرفتار ہوۓ، گرفتاری بھی مسلمانوں کی وفاداری کی عکاسی ہے۔

(3) سن1920 سے 1922ع تک کی تحریک آزادی میں 20ہزار مسلمان گرفتار ھوئے۔

ان گنت مسلمانوں کو کالا پانی کی قید میں ڈالا گیا. بے شمار علما کی لاشوں کو درختوں سے لٹکایا گیا.
اس طرح بے شمار قربانیاں جو مسلمانوں نے انجام دیں وہ سب مٹانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں.
ہماری یہ قربانیاں شاید آج لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہیں یا پھر چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے.

دہلی میں چار ہزار دینی مدرسےقائم تھے۔
تحریک آزادئِ ھند 1857ء کی لہر اٹھی تو نہ صرف یہ سارے مدرسے گرا دیئے گئے بلکہ پورے دلی شہر میں ایک بھی طالب علم زندہ نہ بچ سکا
انگریز مورخ لکھتاہےکہ
میں نے دلی شہر اور مضافات میں 50 کلومٹر فاصلے کا چکر لگایا ایسا کوٸی درخت اور شاخ نظر نہ آیا جس پر ایک عالم دین اور تحریک آزادی کے جانثار کی لاش نہ لٹکی ہوئی ہو۔

نادان! پوچھتے ہیں تحریک آزادی میں علما کا کیا کردار رہا۔

مسلمانو! اٹھو اور اپنی قربانیوں کی داستانیں بچے بچے تک پہنچادو تاکہ دوبارہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس ملک کے لیے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. نسل نو پھر سے محبت کا پیغام لیکر اٹھے, جو ہمارے ملک کو عظمت کی بلندیوں تک لے جائے۔

{مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
9161943293/6306397662

جنگ آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیاں، از قلم ،محمدہاشم رضا متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف


ملک ہندوستان جہاں اپنی زرخیزی ،صنعت وحرفت کی وجہ سے ہمیشہ ایک خاص شہرت کا مالک رہا ہے ۔ وہیں اہل فضل و کمال کا گہوارہ بھی رہا ہے ۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی ہندوستان پوری دنیا کے لئے قابل رشک بنا ہوا تھا ، دنیا کے بیش قیمتی سامان ہندوستان میں تیار ہوا کرتے تھے ، کھیتوں میں بھی طرح طرح کے اناج اور غلے ہوا کرتے تھے ، جب ہندوستان کی اس حیثیت کو دوسرممالک کے لوگوں نے دیکھا تو انکی بھی رال ہندوستان پر ٹپکنے لگی کہ ہمیں بھی ہندوستان سے کچھ ملنا چاہیے ۔ کیونکہ ہندوستان کو اس زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔اور پوری دنیا کے تاجروںکی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ، پندرہویںصدی سے غیرملکی تاجروں نے یہاں تجارت کا آغاز کیا ۔۱۶۰۰میں انگریزبھی بغرض تجارت ہندوستان پہنچے اور ساحلی علاقوں میں تجارت شروع کردی مگر ٹیکس کی واجبی ادائیگی کی وجہ سے انہیں خاص نفع حاصل نہ ہوا کہ انہیں دنوں شاہجہاں کی شہزادی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوئی جسکا ہندوستانی طبیبوں سے علاج ممکن نہ ہو سکا ، اور ایک انگریز طبیب نے کامیاب علاج کیا جسکی خوشی میں بادشاہ نے بنگال میں انگریزوں کو کمپنی شروع کرنے کی اجازت دی ۔ اور ٹیکس بھی معاف کر دیا ۔ بنگال میں انہوںنے ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی ، یہ انگریزوں کے ہندوستان میں عروج کی خشت اولین تھی ، کمپنی میں انہوںنے ملازمین کو جنگی تربیت بھی دی ۔ اور ۱۷۵۷ء؁ میں بنگال کے نواب سراج الدولہ پہ الزام لگا کر اعلان جنگ کر دیا اور نواب کے وزیر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح سازشی انداز میں نواب کو پلاسی کے میدان میں شکست دیکر انگریزبنگال میں قابض ہو گئے ۔ پھر اس وقت کے مغل بادشاہ شاہ عالم کے پاس جاکر جبرا یہ فرمان جاری کروادیا کہ بنگال ،بہار ،اڑیسہ ،اور الہ آباد پر انگریزوں کی حکومت رہے گی ۔ ان شہروں پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چا ل (لڑاؤ اور حکومت کرو) کے پیش نظر دوسرے نوابوں اور راجاوں میں پھوٹ ڈالنا شروع کردی ۔ انگریزوں نے اپنی پالیسی پر عمل کرکے ۱۸۵۶ء؁ میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے جو ظلم و بربریت کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی ہے وہ یقینا بھلائی نہں جا سکتی ۔ پھر ۱۸۵۷ء؁ میں جنگ آزادی لڑی گئی ۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے ملک کی ہر قوم اپنی بساط کے مطابق جدو جہد میں لگ گئی ۔ مگر ہندوستانی عوام اس کشمکش میں تھی کہ پہل کرے اس وقت ہمارے علمائے اہلسنت نے جنگ آزادی میں نہ صرف اپنا قائدانہ کردار ادا کیا ہے بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ۔ ملک کی آزادی میں جن مایہ نازہستیوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ان میں سے چند علماکی قربانیوں کو آنے والی سطروں میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱)علامہ فضل حق خیر آبادی : آپ کو اللہ تعالی نے جس ذہانت وفطانت کی وافر دولت سے مالا مال کیا تھا وہ آاب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ آپ علوم عقلیہ میں امامت واجتہاد کے منصب پر فائز تھے ۔ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آپ کے علم و فضل کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ جس وقت انگریزہندوستان میں مسلمانوں کے خو ن کے ساتھ ہولی کھیل رہے تھے اسوقت سب سے پہلے دہلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جسنے جہاد کی آواز بلند کی وہ علامہ فضل حق خیر آبادی ہی کی ذات تھی ۔ جیسے ہی یہ خبر شائع ہوئی پورے ہندوستان میں شورش بڑ گئی ۔ ۹۰ ہزار سپاہی دہلی کی جامع مسجد میں ہو گئے ۔علامہ صاحب دل و جان سے انگریزی استعمار کے خلاف ڈتے رہے انکی اشتعال انگیزیوں سے متأثر ہوکر شہزادے بھی میدان میں نکل آئے ۔ لیکن حالت یہ تھی کہ اپنوں میں کئی دغاباز تھے علامہ صاحب نے جو فتوی دیا تھا اسکی خبر انگریزوں تک پہنچا دی گئی ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کی بڑے زوروں سے تلاشی کی جا رہی تھی۔ اسی حالت میں وہ اپنے خاندان کو لیکر دہلی نکل گئے ،اور علی گڑھ کے نواب کے یہاں پناہ لی ۔ وہاں اٹھارہ دن رہنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ بدایوں تشریف لے گئے ۔ علامہ صاحب تقریبا ۲سال تک ادھر ادھر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے رہے۔پھر کچھ دنوں بعد گرفتار کر لئے گئے ۔ مقدمہ چلایا گیا ْ ْ ۔اتفاق سے جج علامہ صاحب کا شاگرد تھا ۔اس نے چاہاکہ علامہ صاحب جھوٹ بول دیں اور انکو چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن آپ نے جھوٹ بولنے سے انکارکر دیا ۔جج نے آپ کے لئے انڈمان میں کالے پانی کی سزا تجویز کی ۔۱۸۶۱ء؁میں وہیں علامہ صاحب کا انتقال ہو گیا ۔
خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی فرماتے ہیں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی زندگی کے دو پہلو ہیں ۔آپ کی علمی و ادبی زندگی دیکھ کر بو علی سینا ، غزالی ، رازی ، ابو حنیفہ کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ اور آپکے مجاہدانہ کردار سے حسین ابن علی کی مظلومیت کی خونی داستان آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے(۲)مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی صاحب قبلہ :آپکی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ شیخ طریقت بھی تھے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ انگریز ہندوستانی باشندوں کے خاندانی وقار اور عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں تو آپ اپنے مریدوں کے ساتھ میدان کارزار میں تشریف لے آئے ۔ اور آپنے آزادی کے متوالوں کی ٹیم تیار کی ۔ اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ۔ جہاد کرتے کرتے آدھے لکھنؤ پر قبضہ کر لیا تھا ۔ لیکن یہاں بھی وہی معاملہ پیش آیا کہ ایک نا اہل شخص انگریزوں کے ساتھ مل گیا۔ اور آپ شہید کر دیے گئے ۔ مولانا مدراسی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے آزادی کا صور پھونکنے کے لئے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ ہندوؤں کو بھی منتخب کیا تھا ۔ انگریزوں کے لئے آپکی شخصیت قہر ذوالجلال بنی ہوئی تھی ۔ ہزاروں انگریزوں کو آپنے کیفر کردار تک پہچایا تھا (۳)سید کفایت علی کافی مرادآبادی :مجاہد آزادی ،چشم و چراغ خاندان رسالت حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مراد آبادی ایک جیداور ممتازعالم دین تھے ۔ جس وقت آپنے آنکھیں کھولی وہ انگریزوں کے ظلم وبربریت کے عروج کا دور تھا ۔انگریز پورے ملک میں اپنی مکاری کا جال پھیلا چکے تھے ۔ ایسے پر آشوب دور میں آپنے جب اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو آپکی وطنی اور مذہبی غیرت نے آ پ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ پھر اسکے بعد آپنے انگریزوں کے ناپاک وجود سے مادر وطن کو پاک کرنے کا جو عزم مصمم کیا تھا آخری دم تک اس پر دٹے رہے ۔ ہزاروں آندھیاں چلیں ۔لاکھوں طوفان آئے ۔ مگر آپکے ارادہ میں ذرہ برابر بھی جنبش نہ آئی ۔آخر کار انگریزوں نے آپ کو گرفتار کرکے قید خانہ میں بڑی درد ناک اذیتیں دیں ۔آپکو مراد آباد کے بیچ چوراہے پر پھانسی دے دی مگر آپکے چہرے پر ذرہ برابرا خوف کے آثار ظاہر نہ ہوئے بلکہ راضی برضائے الٰہی یہ کہتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا ۔
کو ئی گل با قی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا پررسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہندوستان کی جنگ آزادی میں ایسے سورماؤں کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی مگر اسکے باوجود جب بھی آزادی کا جشن منایا جاتاہے تو برادران وطن انکی قربانیوںکو خراج عقیدت پیش نہیں کرتے ۔لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے علما کی ان قربانیوں کو جانیں اور عام کریں ۔

حسن اخلاق کے فضائل و برکات، ،✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ،اتردیناجپور مغربی بنگال

       ’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’پسندیدہ عادتیں،اچھی خصلتیں،اچھابرتاؤ،اور ملنساری وغیرہ(فیروز اللغت) ‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔ 
           حسن اخلاق ایک ایسی پیاری اور اعلی خصلت ہے جس کی وجہ سے صاحب خصلت کو ہر معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج کے اس نفرت آمیز فضا میں حسن اخلاق کی ضرورت واہمیت اور بھی اشد ہوجاتی ہے، 
        ہر مسلمان کو حسن اخلاق کی دولت سے آراستہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے خصوصاً علمائے دین اور مبلغین حضرات کے لیے تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ باخلاق بن کر ہی دین کو پھیلانا ممکن ہے بداخلاقی ہمیشہ تبلیغ دین میں مضر ثابت ہوتی ہے 
    مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے بل بوتے پر نہیں بلکہ حسن اخلاق اور نرمی کی بدولت پھیلا ہے آج پوری دنیا میں جو ہمیں اسلام کا حسین گلشن لہلہاتا نظر آرہا ہے اس میں نبی اکرم نور مجسم ﷺکے اخلاق کریمہ اور آپ کی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے حسن اخلاق اور خوش گفتاری کا بہت بڑا عمل دخل ہے 
*حسن اخلاق کے فضائل احادیث کی روشنی میں*
           احادیث کریمہ میں حسن اخلاق کے فضائل کے متعلق بے شمار روایات پائے جاتے ہیں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں   
  حضرت سیدنا ابو داؤد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صاحب لولاک ﷺنے ارشاد فرمایا:میزان عمل میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی (سنن ابی داؤد باب فی حسن الاخلاق الحدیث 4799)
        بندہ حسن اخلاق کے ذریعے اعلی مقام مرتبہ حاصل  کر سکتا ہے چنانچہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا بندہ حسن اخلاق کی وجہ سے تہجد گزار اور سخت گرمی میں روزے کے سبب پیاسا رہنے والے کے درجہ کو پا لیتا ہے (مکارم الاخلاق صفحہ۱۶ لامام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفّٰی 360ھ) 

اسی صفحہ میں ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی رحمت شفیع امتﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں تم میں سب سے بہتر شخص کے بارے میں خبر نہ دوں،ہم نے عرض کی:کیوں نہیں_ فرمایا:وہ جو تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے
بااخلاق لوگوں کے درمیان صرف بہتر شخص ہی نہیں بلکہ افضل مومن بھی ہے
چنانچہ بارگاہ رسالت ﷺمیں عرض کی گئی:کہ یا رسول اللہ ﷺ أیّ المؤمنين افضل إيماناً یعنی باعتبار ایمان سب سے افضل مومن کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا أحسنهم خلقاً،یعنی جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں
(سنن ابن ماجہ باب ذکر الموت الحدیث 4259)
حسن اخلاق کے دنیاوی اور اخروی فوائد
حسن اخلاق کے گوناگوں دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں دنیاوی فوائد تو یہ ہیں کہ حسن اخلاق سے ہی لوگوں کے درمیان عزت مل سکتی ہے بداخلاق شخص کو لوگوں کے درمیان عزت ملنا ناممکن ہے،حسن اخلاق ہو تو دنیا عزت کی نظر سے دیکھتی ہے، اور تو اور بااخلاق آدمی اپنے کاروبار میں بھی بآسانی ترقی کر لیتا ہے مثلاً جب کوئ دکاندار اہنے گاہکوں (customers) سے خوش گفتاری اور خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے تو لوگوں کے دل اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی دکان کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور اسی طرح اس باخلاق شخص کی کاروبار ترقی ہوجاتی ہے
حسن اخلاق کے اخروی فوائد ملاحظہ کریں
آقاۓ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں زیادہ قریب اچھے اخلاق والے ہونگے (احیاء العلوم ج 3ص 157)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم بارگاہ رسالت میں حاضر تھے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں پر جھکا ہوا ہے اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان ایک حجاب حائل ہے اس کا حسن اخلاق آیا اور اس نے اسے اللہ کے بارگاہ میں پہنچا دیا (احیاء العلوم ج 3ص 159)

اچھے اخلاق کس سے سیکھیں؟

   اس کا جواب اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں صاف لفظوں میں ارشاد فرمادیا 

   لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب 21)

 ترجمۂ کنز العرفان:
بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے
تاجدار رسالت ﷺ کے اخلاق کریمہ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہم آپ ﷺ کے اخلاق مبارکہ پر مکمل طور پر گامزن ہوجائیں تو یقیناً ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں گے
آئیےحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اخلاق حسنہ کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ہم ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو کامل بنا کر ایک مکمل مسلمان بن جائیں
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟آپ نے کہا کہ اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے یعنی گھر والوں کا کام کرتے تھے پھر جب نماز آجاتی تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے(مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص519 الحدیث5816)
اس حدیث کی شرح میں مفسر شہیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضور انورﷺ کی بیرونی اور اندرونی زندگی کے حافظ ہونا چاہتے تھے اور امت تک پہنچانا چاہتے تھے اس لیے بیرونی زندگی شریف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھتے تھے اور اندرونی زندگی ازواج پاک سے خصوصاً ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (مراٰۃ المناجیح جلد ہفتم ص 71)
معلوم ہوا اپنے گھر کا کام کاج کرنا اور اپنی بیوی کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہمارے پیارے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت مبارکہ ہے،لیکن صد افسوس آج جب کوئی شخص اس سنت کو ادا کرتا ہے تو محلے کے لوگ اسے بیوی کا غلام یا مرید کہتے ہیں اللہ تعالی ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
حضورﷺ کا اپنے خادموں کے ساتھ حسن سلوک
ایک حدیث پاک میں حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبئ کریم رؤف الرحیم ﷺکی دس سال تک خدمت کی کبھی مجھ سے تف نہ فرمایا اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ یہ کہ کیوں نہ کیا (مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص 518 الحدیث 5801)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص خادم تھے آپ رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال تھی اس وقت ان کے والد حضور انور ﷺکی خدمت میں لاۓ اور بولے ہم نے انہیں آپ کی خدمت میں وقف کر دیا،(مراۃالمناجح جلد ہفتم ص 62)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کم عمراور کم سمجھ کی وجہ سے قصور ہوتے تھے اور کبھی نقصان بھی ہو جاتا تھا مگر اس سراپا رحم و کرم نے ان کو کبھی جھڑکا نہیں اور ملامت کے طور پر یہ نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کر دیا یہ کیوں چھوڑ دیا
مال داروں اور اہل ثروت کے لیے یہ سبق آموز حدیث شریف ہے انہیں بھی چاہیے کہ اپنے نوکروں اور خادموں کے ساتھ سختی اور غصے سے پیش آنے کے بجائے نرمی سے پیش آئے اور حسن سلوک کا معاملہ کرے
حضورﷺنے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا
کفار مکہ جو آپ علیہ السلام کے بہت بڑے دشمن تھے اور اتنے بڑے دشمن تھے کہ شاید کوئی ایسی تکلیف اور ظالمانہ برتاؤ باقی ہوگا جو آپ علیہ السلام کے ساتھ نہ کیا ہو لیکن فتح مکہ کے دن جب انصار و مہاجرین تمام ظالموں کافروں کا محاصرہ کر لیا تو سب کے سب حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے سب کے جسم لرزہ بر اندام ہو رہے تھے اس وقت رحمت دو عالمﷺ نے ان تمام مجرموں کو چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا اور سب کو آزاد کردیا
یہ تھا حضور علیہ الصلاة والسلام کا اپنے گھر والوں، خادموں اور دشمنوں کے ساتھ حسن اخلاق،اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حبیب ﷺ کے حسن اخلاق کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

       

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔از حضرت سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی صاحب قبلہ

حیراں ہیں سب حسین کے تیور کو دیکھ کر
ہوتے تھے جیسے فاتح خیبر کو دیکھ کر

سب سر جھکے تھے نائب حیدر کو دیکھ کر
سبط رسول ، نور کے پیکر کو دیکھ کر

گوہر ملے ہیں کرب و بلا کی ہی ریت پر
ہم کیا کریں گے گہرے سمندر کو دیکھ کر

آتی ہے یاد خوشبوئے سبط رسول کی
باغات میں گلاب و صنوبر کو دیکھ کر

شبیر خیر کے ہیں مبلغ جہان میں
بیعت وہ کیسے کرتے اس اک شر کو دیکھ کر

کرتا گیا وہ جذب لہو ، بن گیا شفق
حیراں فلک تھا خون کے منظر کو دیکھ کر

رکھتے ہیں بغض جو مرے آقا کی آل سے
پچھتائینگے وہ حشر میں کوثر کو دیکھ کر

سب خور سلامی دینے چلے آئے چرخ سے
سبط رسول کے رخ انور کو دیکھ کر

کرنے لگی ہے رشک ہر اک بلبل چمن
“عینی “حسین شہ کے ثناگر کو دیکھ کر
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی