قرآن مقدس اللہ ربّ العزّت کا کلام ہے، اس کی حفاظت کا ذمّہ خود خالقِ کائنات نے اپنے ذمّۂ کرم پر لے رکھا ہے، یہ وہ کتابِ ہدایت ہے جس میں لوگوں کی رہ نمائی اور دنیا کے تمام علوم کا ذکر موجود ہے-
حضور نبی رحمت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ “میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک اللہ کی کتاب [قرآن مقدس] اور دوسری اس کے نبی کی سنت ہے-
پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن اللّٰہ عزّوجلّ کا لاریب اور بے مثل کلام ہے ،عرب کے فصحا و بلغا جن کو اپنی زبان دانی پر فخر تھا وہ قرآن کی ایک چھوٹی سی چھوٹی سورت کے مثل بھی کلام پیش کرنے سے قاصر وعاجز رہے، اور یہ صرف عرب کے فصحا و بلغا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام جناتوں و انسانوں کو قرآن کا یہ چیلنج ہے جیسا کہ خود اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے کہ ترجمہ:”اے محبوب: فرما دیجئے کہ اگر سب انسان اور تمام جن مجتمع[ اکٹھے ]ہو جائیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور پھر وہ اس قرآن مجید جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے!(سورۂ بنی اسرائیل )۔
قرآن کا یہ دعویٰ [ چیلنج ]صدیوں سے قائم ہے، اور اس دعویٰ کی موجودگی میں مخالفینِ اسلام چاہے جتنا زور کیوں نہ لگالیں وہ قرآن کے دعویٰ کے سامنےبے بس ہیں اور رہیں گے-
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
یہ کتاب جہاں فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے وہیں اس کتاب کو امت کے عروج وزوال کا پیمانہ بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب پر عمل کے ذریعہ لوگوں کو عروج عطا کرے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ذلت و رسوائی کے کھائی میں ڈھکیل دے گا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب الہی کے پیغامات و احکامات کو آسان انداز اور پیرائے میں عام کیا جائے، اور اس کی روشنی سے پوری دنیاکو منور کیا جائے، کیوں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں قرآن مقدس کی بڑی اہمیت ہے، یہ اس کی امراض روحانی کی شفا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ایمان کے لیے ہدایت و رحمت کا نسخہ اور ہمیشہ باقی رہنے والی ایک ایسی جامع آسمانی والہامی کتاب ہے جو سب کے لیے رہنما اور رہبر اور ایسا نور ہے جس کی روشنی قیامت تک مدھم نہیں ہوسکتی-
اللّٰہ عزّوجلّ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رہ نمائی کے لیے قرآن مقدس اور اسوۂ رسول ﷺ کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے-
قرآن مجید کو اللّٰہ تعالیٰ نےانسانی زندگی کے لیے اصلاحی نظام کے طور پر نازل فرمایا اور اس کو ایسا جامع و کامل بنایا کہ اس نظام میں اب کسی طرح کے تبدیلی کی ضرورت باقی نہ رہے اور نزول کے وقت سے لے کر قیامت تک خیر و شر کے تمام معاملات میں کتابِ الٰہی اور حدیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے!۔
حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ قرآن مقدس کی عملی شکل اور اس کا پرتو ہے ،حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اقوال، فرمودات، افعال و اعمال حدیث ہے، اور حدیث قرآن مقدس کے اجمال کی تفصیل ہے، لہٰذا جب تک انسانیت کا تعلق دونوں سرچشموں سے گہرا نہیں ہوگا وہ صراط مستقیم (سیدھی اورحق راستے)پر ہرگز گامزن نہیں ہوسکتی!۔
قرآن پر عمل کرنا دونوں جہان میں کام یابی کی ضمانت: قرآن مقدّس دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس پر عمل کرنا یقیناً دنیا و آخرت کی فلاح اور کامیابی کی ضمانت ہے ہی مگر اس کا پڑھنا [تلاوت کرنا]پڑھانا یہاں تک کہ سننا بھی باعثِ خیر و برکت اور موجبِ ثواب ہے-
اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے” اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ قرآن مجید جو جتنا زیادہ پڑھے گا اور اس کی تعلیم حاصل کرے گا وہ اتناہی بڑااور قابل قدر ہوتا چلا جائے گا- مطلب یہ ہے کہ جو قرآن مقدس کے الفاظ کو پڑھے یا پڑھائے وہ دوسرے علوم یا کتابوں کے الفاظ کے پڑھنے یا پڑھانے والے سے بہتر و افضل ہے-
یہ ہمارےجومدارسِ اسلامیہ ہیں یہ دراصل قرآن وحدیث اور ان کے ضمن میں دیگر علوم و فنون پڑھنے اور پڑھانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں اس لیے ان کا مقام سبھی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ و ارفع ہے-
دنیا کے اندر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے کلام کا آغاز اس عظیم دعویٰ سے کرتا ہے کہ ” اس کا ایک ایک لفظ شک و شبہ سے پاک ہے اور “لاریب فیه” اس کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی بھی دوسری کتاب کو حاصل نہیں ہے، اور ایک دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کتاب سے زیادہ کوئی کتاب نہیں پڑھی جاتی, اس بات کا اعتراف و اقرار ہمارے دوسرے برادران وطن بھی کرتے رہتے ہیں-
قرآن کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟: قرآن احکم الحٰکمین کا کلام، مسلمانانِ عالَم کے لیےکام یابی کاسرچشمہ ہے، علم و حکمت،عقل مندی ودانائی کا خزینہ ہے، یہ کسی ایک علم و فن کی کتاب نہیں، بلکہ یہ علم و فن کے تمام شعبوں میں رہ نمائی کرتا ہے، یہ علم و حکمت کے لیے منبع و مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے تمام گوشے چاہے تحقیق ہو یا جستجو، علم فلکیات ہو یا ارضیات، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا طب وجراحت، اقتصادیات ہو یامعاشیات، سب کے لیے نورِ بصیرت فراہم کرتاہے-
قرآن نے ہر موضوع کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، یہ صرف معلومات مہیا کرنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ کتاب ہدایت ہے یہ اس حکیم کا کلام ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، قرآن بتوں کے سامنے جھکی ہوئی انسانیت کو خدائے واحد کے سامنے جھکانا چاہتا ہے
وہ اخلاقی بیماریوں کاقلع قمع کرکے حسنِ اخلاق کے گلشن کھلانا چاہتاہے وہ انتشار وافتراق[ لڑائی جھگڑا اورآپسی پھوٹ] کی بھٹی میں سلگتی ہوئی نسل آدم [انسانوں] کو وحدت واخوّت[بھائی چارگی]کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے یہ عقل کو روشن اور دل کوآزادی کی نعمت عطا کرناچاہتاہے-
وہ امیر و غریب،شاہ وگدا،آقا ومولیٰ اورگورے اور کالے کے امتیازات [فرق/ بھید بھاؤ] کومٹاکر نسلِ آدم میں مساوات [برابری] قائم کرنا چاہتا ہے ،وہ عورتوں کی زبوں حالی اور غلاموں کی بے بسی کو ختم کرکے انہیں دوسرے انسانوں کے برابر مقام عطا کرنا چاہتا ہے-
قرآن مقدس کے سامنے مقاصدکی ایک لمبی فہرست ہے جس قرآن کے مقاصد اتنے اہم اوراعلیٰ ہوں، اگر اس کے احکامات و فرمودات پر مسلمان کماحقہٗ عمل کرے تو کیوں نہ وہ فائز المرام[کام یاب] ہو-
مگر ہائے افسوس : آج کے مسلمانوں نے قرآن کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا، موجودہ دور میں مسلمانوں پر جو افتاد[پریشانیاں و مصیبتیں] واقع ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر جو حالات درپیش ہیں وہ کتاب مبین [قرآن] سے دوری کی وجہ سے ہے-
اے کاش: مسلمان قرآن کی جامع احکامات کو اپنے لیے مفید سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ،اور قرآنی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا،قرآن ہی کو اپنا حقیقی مشیر،خیر خواہ اور مخلص رہنما جانتا!
اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ و طفیل ہم سبھی مسلمانوں کو قرآن وسنت کا عامل بنائے-آمین