WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2023

گھر میں بچہ پیدا ہو تو کیا پورا گھر ناپاک ہو جاتا ہے؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں
کے گاؤں میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو بچا ہو تو وہ جس کمرے میں ہو اس جگہ کو اس کمرے کو ناپاک مانا جاتا ہے اور اس عورت یا بچّے کو چھونا بھی ناپاک مانتے ہیں تو

کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔المستفتی۔حافظ۔محمد وسیم ۔جھاڑکھنڈ۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔یہ سب جھالت ہے غیر مسلم کی رسمیں ہیں۔جیساکہ بہارے شریعت حصہ دوم ص ٧٩ پر ہے کہ نفاس میں عورت کو زچہ خانے سے نکلنا جاٸز اسکو ساتھ کھلانے یا اس کا جھوٹا کھانے میں حرج نہیں ۔ہندوستان میں عورتیں جو بعض جگہ ان کے برتن تک الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں کو مثل نجس جانتی ہیں یہ ہندوں کی رسمیں ہیں ایسی بے ہودہ رسموں سے احتیات لازم ۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا قادری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔٢٧\١\١٩۔

غزل‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

خواہشوں کو وہ مری خوب جگانے آیے
دن‌ ہو یا رات یہی خواب سہانے آئے

بادہ ، دیدار ، جنوں ، حوصلہ و جوش و خروش
“پھر مرے ہاتھ محبت کے خزانے آئے”

ان کی آمد ہے مرے دل میں بہت کار آمد
کعبہء دل کو وہ شفاف بنانے آئے

آئے بادل تو ہے امکان بھی ہمدردی کا
یہ نہ سمجھو کہ فقط بجلی گرانے آئے

سیکھیے گھونسلوں سے آپ پرندوں کے ذرا
اجنبی شہر میں بھی گھر وہ بسانے آئے

پہلے حالات جو تھے اس سے ہیں بد تر حالات
کیسے کہتے ہو کہ پھر اچھے زمانے آئے

زندگی پر جو مری ظلم کے توڑے تھے پہاڑ
بیچ کر قبر مری اب وہ کمانے آئے

ان کا در منبع انوار ہے سورج جیسا
بارش نور میں ہم “عینی” نہانے آئے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

دو لوگ ایک ساتھ کھڑے ہو گئے امام با ئیں مقتدی داہنے کیا ان کو مکمّل جماعت کا ثواب ملےگا؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام عليكم و رحمت اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیانے کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کی دو لوگ ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا دونو حضرات نے کہا نماز پڑھ لیا جائے ظہر کا وقت تھا سنّت ادا کیا اور تکبیر کہکے جماعت قائم کی اب بتانا یہ ہے کی دو لوگوں پے ایک ساتھ دونوں کھڑے ہو گئے امام با یں مقتدی دہنے کیا ان کو مکمّل جماعت کا ثواب ملیگا کی نہیں اور نیت کس طرح مقتدی کریگا پیچھے اس امام کے کہیگا کی نہیں مکمّل جواب دیکر عنداللہ مشکور ہوں 🌹 المستفتی🌹 محمّد اسلم قادری حنفی ارکاپور پیاگپور بہرائچ شریف یو پی الھند 🌴بتا ریخ 25 جنوری 2019🌹 مطابق🌷 18 جمادی الا ول 1440ہجری بروز جمعہ 🌴
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔
باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتی کہ اگر دو آدمی بھی ہو۔ں تو جماعت قائم کی جائے، ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی نیت میں پیچھے امام ہی کے کہے گا؛ جیسا کہ حضرت ابوموسيٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.
(سنن ابن ماجة، کتاب اِقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة، 1: 522، رقم: 972)
’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘
دو آدمیوں کی جماعت ہو سکتی ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.

ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة، 1 : 522، رقم : 972

’’دو یا دو سے زیادہ (مردوں) پر جماعت ہے۔‘‘
اس صورت میں امام، مقتدی کو اپنے دائیں جانب کھڑا کرے گا، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے :
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر کو پیچھے کی طرف سے پکڑ کر مجھے دائیں طرف کر دیا۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب اذ قام الرجل عن يسار الإمام، 1 : 255، رقم : 693۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ احمدرضا۔قادری۔دارالفکر۔بہراٸچ۔٢٦۔١۔١٩۔

دورانِ حمل الٹرا ساؤنڈ کروانا درست ہے یا نہیں؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ الٹرا ساونڈ جو بچے کی پیدائش سے پہلے ایک جانچ کی جاتی ہے بچے کی ماں پر تو یہ جانچ کروانا سہی ہے یا نہیں تفصیل کے ساتھ اسکا جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟
المستفتی محمد شیر علی قادری
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ الٹراساوٴنڈ یا سونو گرافی کرانا کہ جس میں عورت کے ناف کے نیچے کا حصہ کھولنا یا چھونا پڑے، شرعا ناجائز ہے، الٹرا ساوٴنڈ کی اجازت مجبوری میں دی گئی ہے، اس لیے کہ اس میں عورت کے ستر کو کھولنا ہا چھونا لازم آتاہے۔جیساکہ الاشباہ والنظاٸر میں الضرورات تبیح المحظورات۔اھ۔لہذا بلاضرورت شرعیہ حرام ہے۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا منظری۔دارالفکر۔بہراٸچ۔

نعت سرکار کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


عرب کے ماہ کی شہرت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
نبی کی خوبیء رفعت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں میں ہے محمد نام ان کا عرش پر احمد
مرے سرکار کی عظمت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

پڑھو قرآں ، پڑھو توریت ، انجیل و زبور نور
شہ کونین کی مدحت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

قیادت کی ہے غزووں میں ، شفاعت ہوگی محشر میں
کہ محفوظ آپ سے امت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں میں وحی اتری ، دید رب ہوتی ہے اسریٰ میں
خدا سے آپ کی قربت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں والے نثار ان پر فلک والے بھی ہیں قربان
ہر اک کو شاہ سے الفت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

ہیں غاروں میں بھی غزووں میں بھی صدیق آپ ہی کے ساتھ
کہ ان کا جذبہء خدمت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں پر کنکری بولے ، فلک میں چاند ہو ٹکڑے
اے عینی شاہ کی قدرت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

علامہ مفتی شیر محمد خانصاحب رضوی کی 53 سالہ خدمات کے سلسلے میں خصوصی نششت کا انعقاد و امام احمد رضا ایوارڈ تتفویض… رپورٹ :جمشیدخان قادری

جودھپور/مرکزی دینی درسگاہ ازہر راجستھان الجامعۃ الاسحاقیہ جودھپور کے وسیع وعریض احاطے میں آج صبح ہی صبح علماء وفضلاء کا ہجوم رواں دواں تھا شہر کی سیاسی سماجی کارکنان بھی رفتہ رفتہ جامعہ کی طرف قدم بڑھارہے تھے قریب 11.45 پہ ہمارا چھوٹا سا قافلہ جامعہ کےاندرونی واقع (اسحاقیہ اسکول)چوک میں وارد ہوا چاروں طرف سے بہترین سجاوٹ اور بیچوبیچ خالی اور کچھ علماء بیٹھے, کرسیاں اور سامنے چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت اور دلآویز اسٹیج اپنے معزز مہمانوں کا منتظر تھا رفتہ رفتہ ضیوفِ باوقار اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ تشریف لارہے تھے اسٹیج کے پاس مندوبین خاص کی چند کرسیاں رکھی ہوئیں، یکایک مائیک اسٹارٹ ہوتا ہے اپنے معمول کے مطابق جامعہ کے شعبۂ حفظ کے استاذ حافظ وقاری مسیح الزماں صاحب اشفاقی کی آواز میں نظامت شروع ہوئی موقع تھا جانشین مفتئِ اعظم راجستھان علامہ شیرمحمد خان رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ الاسحاقیہ جودھپور کی 53سالہ خدمات جلیلہ کے اعتراف واحترام میں ایک اعزاز واستقبالیہ پروگرام کا،
الغرض پروگرام شروع ہوا اور حمد ونعت مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کے بعد جامعہ کے ایک مؤقر استاذ مصباح الفقہاء علامہ مفتی محمدعالمگیر صاحب قبلہ رضوی مصباحی نے شیر راجستھان کی ٥٣سالہ خدمات پر روشنی ڈالی، مصباحی صاحب نے فرمایا کہ حضرت شیر راجستھان نے گزشتہ نصف صدی سے زائد خطابت وتدریس وسیاسی سماجی خدمات انجام دی ہیں جنکوکبھی فراموش نہیں کیا سکتا مزید فرمایا کہ حضرت شیر راجستھان جیسی شخصیت زمانوں بعد تشریف لاتی ہے اور ایک عہد کو روشن وتابناک بنادیتی ہے بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
خطابت کے نیرتاباں علامہ سید نور اشرف اشرفی نے حضرت جانشین مفتئی اعظم راجستھان کی خدمات پہ شاندارخطاب فرمایا جسے برسہا برس یاد رکھا جائیگا سید صاحب قبلہ نے فرمایا مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں صرف چندکا یہاں ذکر کرنا مناسب ہی نہیں ضروری سمجھتا ہوں
خطابت ۔ہندوستان کے طول وعرض میں جس کی تقریر کا سلسلہ لمبا چلا ہے اور آج بھی چل رہا ہے الحمدللہ وہ ذات شیر راجستھان کی ہے جیسلمیر کے دھوروں سے لیکر کنیا کماری کی وادیوں تک اور باڑمیرکے ریگزاروں سے لےکر لکھنؤ کی علمی جولانیوں تک مفتی صاحب کے خطابت کا سکہ رائج الوقت ہے گجرات میں چند سال قبل
خطیب الہند کی موجودگی میں جو تقریر ہوئی وہ اگر بغدادکا راشٹر پتی بھی سنتا تو کلیجہ پھٹ جاتا
مصالحت ۔راجستھان میں کہیں افتراق وانتشار کے گرم جھونکے کہیں بھی سننے میں آتے ہیں تو مفتی شیر محمد خان صاحب قبلہ کی ذات مظہر اشفاق بن کر پہونچ جاتی ہے فریقین کی آپس میں صلح کراتی ہے 1968سے لےکر آج تک قال اللہ وقال الرسول وخطابت وفتوی نویسی جیسی خدمات انجام دی ہیں آنے والا مؤرخ سنہرے لفظوں میں آپ کو جگہ دےگا-
مولانا برکت صاحب اشرفی مدرس الجامعۃ الاسحاقیہ نے حضرت کی جودھپور میں کی گئی سماجی وقومی خدمات کا بحسن وخوبی تذکرہ کیا آپ نےدوران گفتگو کہا کہ جب کبھی بھی جودھپورمیں طوفان بداماں کی چنگاری لگی شیر راجستھان قبلہ نےسیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اس کو سرد کیا کئی ایک حوادث کا ذکر کرکے بتایا کہ مفتی شیر محمد صاحب قبلہ کی ذات راجستھان کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے حال ہی میں باڑمیر کے سیڑوا میں جماعت غوثیہ وجیلانیہ کی طرف سے مفتی صاحب کو ان کے ہم وزن سکوں میں تولا اور اس سے پہلے باڑمیر کے سانولور گاؤں میں حضرت مولانا علیم الدین اشفاقی کی سربراہی میں اسی طرح آپکی عزت افزائی کی گئی جس پر مولانا برکت صاحب نے شکریہ ادا کیا
باسنی سے تشریف لائے مفتئی اعظم باسنی مفتی ولی محمد صاحب ،قاری عبدالوحیدصاحب بانی و مہتمم فیضان اشفاق ناگور۔ حضرت سید محی الدین اشرفی جیلانی ناظم دارالعلوم فیاضیہ اور دارالعلوم کے علما وطلبہ ودیگر علماء وشہر کے ائمہ کے علاوہ سابق iGافسرجناب مراد علی ابڑا صاحب، صدر سندھی الحاج ابراہیم صاحب، سماجی کارکن اقبال بینڈ باکس، جناب خورشید صاحب، سابق کونسلر وسماجی کارکن جناب عبدالکریم جونی صاحب اور چھوٹو استاد کے علاوہ درجنوں علماء ومشائخ نے شرکت کی
اخیر میں عوام الناس نے ہار پھول پیش کرکے مفتی صاحب سے اپنی عقیدتوں کے خراج پیش کئے، غلامان اشرف سوسائٹی جودھپور کی جانب سے مفتئی اعظم راجستھان علامہ شیر محمدصاحب کو امام احمد رضا ایوارڈوسپاس نامہ پیش کیا گیا-

نعت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

جو بشر ان کی سیرت میں ڈھل جائےگا
سوۓ خُلدِ بریں وہ نکل جائےگا

جب رخ شاہ کی ہوگی ہم پر نظر
رخ مخالف ہوا کا بدل جائےگا

ان کی چشم شفاعت میں ہے یوں تپش
ہر گنہ میرا محشر میں جل جائےگا

ان کے فیضان کے کوہ کو دیکھ کر
کرب کا سارا لشکر دہل جائےگا

لائینگے دل میں تشریف جان جہاں
جب بھی شوق ملاقات ابل جائےگا

جس طرف ہے ادائے حبیب خدا
اس طرف ہی خیال غزل جائیگا

جس کے دل میں ہے پیوست ذوق سلیم
وہ سلام رضا سے مچل جائےگا

تو نے چھینا ہے حق تو ادا کر اسے
مت سمجھ توبہ سے ہی نکل جائےگا

جام عشق نبی عینی ہے جام وہ
جس کے پینے سے انساں سنبھل جائےگا
۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

قرآن مقدس کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟از:محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

قرآن مقدس اللہ ربّ العزّت کا کلام ہے، اس کی حفاظت کا ذمّہ خود خالقِ کائنات نے اپنے ذمّۂ کرم پر لے رکھا ہے، یہ وہ کتابِ ہدایت ہے جس میں لوگوں کی رہ نمائی اور دنیا کے تمام علوم کا ذکر موجود ہے-

    حضور نبی رحمت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ “میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک اللہ کی کتاب [قرآن مقدس] اور دوسری اس کے نبی کی سنت ہے-
  پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن اللّٰہ عزّوجلّ کا لاریب اور بے مثل کلام ہے ،عرب کے فصحا و بلغا جن کو اپنی زبان دانی پر فخر تھا وہ قرآن کی ایک چھوٹی سی چھوٹی سورت کے مثل بھی کلام پیش کرنے سے قاصر وعاجز رہے، اور یہ صرف عرب کے فصحا و بلغا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام جناتوں و انسانوں کو قرآن کا یہ چیلنج ہے جیسا کہ خود اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے کہ ترجمہ:”اے محبوب: فرما دیجئے کہ اگر سب انسان اور تمام جن مجتمع[ اکٹھے ]ہو جائیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور پھر وہ اس قرآن مجید جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے!(سورۂ بنی اسرائیل )۔

قرآن کا یہ دعویٰ [ چیلنج ]صدیوں سے قائم ہے، اور اس دعویٰ کی موجودگی میں مخالفینِ اسلام چاہے جتنا زور کیوں نہ لگالیں وہ قرآن کے دعویٰ کے سامنےبے بس ہیں اور رہیں گے-

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

   یہ کتاب جہاں فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے وہیں اس کتاب کو امت کے عروج وزوال کا پیمانہ بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب پر عمل کے ذریعہ لوگوں کو عروج عطا کرے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ذلت و رسوائی کے کھائی میں ڈھکیل دے گا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب الہی کے پیغامات و احکامات کو آسان انداز اور پیرائے میں عام کیا جائے، اور اس کی روشنی سے پوری دنیاکو منور کیا جائے، کیوں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں قرآن مقدس کی بڑی اہمیت ہے، یہ اس کی امراض روحانی کی شفا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ایمان کے لیے ہدایت و رحمت کا نسخہ اور ہمیشہ باقی رہنے والی ایک ایسی جامع آسمانی والہامی کتاب ہے جو سب کے لیے رہنما اور رہبر اور ایسا نور ہے جس کی روشنی قیامت تک مدھم نہیں ہوسکتی-

    اللّٰہ عزّوجلّ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رہ نمائی کے لیے قرآن مقدس اور اسوۂ رسول ﷺ کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے-

قرآن مجید کو اللّٰہ تعالیٰ نےانسانی زندگی کے لیے اصلاحی نظام کے طور پر نازل فرمایا اور اس کو ایسا جامع و کامل بنایا کہ اس نظام میں اب کسی طرح کے تبدیلی کی ضرورت باقی نہ رہے اور نزول کے وقت سے لے کر قیامت تک خیر و شر کے تمام معاملات میں کتابِ الٰہی اور حدیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے!۔

    حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ قرآن مقدس کی عملی شکل اور اس کا پرتو ہے ،حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اقوال، فرمودات، افعال و اعمال حدیث ہے، اور حدیث قرآن مقدس کے اجمال کی تفصیل ہے، لہٰذا جب تک انسانیت کا تعلق دونوں سرچشموں سے گہرا نہیں ہوگا وہ صراط مستقیم (سیدھی اورحق راستے)پر ہرگز گامزن نہیں ہوسکتی!۔ 

قرآن پر عمل کرنا دونوں جہان میں کام یابی کی ضمانت: قرآن مقدّس دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس پر عمل کرنا یقیناً دنیا و آخرت کی فلاح اور کامیابی کی ضمانت ہے ہی مگر اس کا پڑھنا [تلاوت کرنا]پڑھانا یہاں تک کہ سننا بھی باعثِ خیر و برکت اور موجبِ ثواب ہے-
اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے” اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ قرآن مجید جو جتنا زیادہ پڑھے گا اور اس کی تعلیم حاصل کرے گا وہ اتناہی بڑااور قابل قدر ہوتا چلا جائے گا- مطلب یہ ہے کہ جو قرآن مقدس کے الفاظ کو پڑھے یا پڑھائے وہ دوسرے علوم یا کتابوں کے الفاظ کے پڑھنے یا پڑھانے والے سے بہتر و افضل ہے-
یہ ہمارےجومدارسِ اسلامیہ ہیں یہ دراصل قرآن وحدیث اور ان کے ضمن میں دیگر علوم و فنون پڑھنے اور پڑھانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں اس لیے ان کا مقام سبھی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ و ارفع ہے-

    دنیا کے اندر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے کلام کا آغاز اس عظیم دعویٰ سے کرتا ہے کہ ” اس کا ایک ایک لفظ شک و شبہ سے پاک ہے اور “لاریب فیه” اس کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی بھی دوسری کتاب کو حاصل نہیں ہے، اور ایک دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کتاب سے زیادہ کوئی کتاب نہیں پڑھی جاتی, اس بات کا اعتراف و اقرار ہمارے دوسرے برادران وطن بھی کرتے رہتے ہیں-

قرآن کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟: قرآن احکم الحٰکمین کا کلام، مسلمانانِ عالَم کے لیےکام یابی کاسرچشمہ ہے، علم و حکمت،عقل مندی ودانائی کا خزینہ ہے، یہ کسی ایک علم و فن کی کتاب نہیں، بلکہ یہ علم و فن کے تمام شعبوں میں رہ نمائی کرتا ہے، یہ علم و حکمت کے لیے منبع و مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے تمام گوشے چاہے تحقیق ہو یا جستجو، علم فلکیات ہو یا ارضیات، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا طب وجراحت، اقتصادیات ہو یامعاشیات، سب کے لیے نورِ بصیرت فراہم کرتاہے-

       قرآن نے ہر موضوع کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، یہ صرف معلومات مہیا کرنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ کتاب ہدایت ہے یہ اس حکیم کا کلام ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، قرآن بتوں کے سامنے جھکی ہوئی انسانیت کو خدائے واحد کے سامنے جھکانا چاہتا ہے

وہ اخلاقی بیماریوں کاقلع قمع کرکے حسنِ اخلاق کے گلشن کھلانا چاہتاہے وہ انتشار وافتراق[ لڑائی جھگڑا اورآپسی پھوٹ] کی بھٹی میں سلگتی ہوئی نسل آدم [انسانوں] کو وحدت واخوّت[بھائی چارگی]کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے یہ عقل کو روشن اور دل کوآزادی کی نعمت عطا کرناچاہتاہے-
وہ امیر و غریب،شاہ وگدا،آقا ومولیٰ اورگورے اور کالے کے امتیازات [فرق/ بھید بھاؤ] کومٹاکر نسلِ آدم میں مساوات [برابری] قائم کرنا چاہتا ہے ،وہ عورتوں کی زبوں حالی اور غلاموں کی بے بسی کو ختم کرکے انہیں دوسرے انسانوں کے برابر مقام عطا کرنا چاہتا ہے-
قرآن مقدس کے سامنے مقاصدکی ایک لمبی فہرست ہے جس قرآن کے مقاصد اتنے اہم اوراعلیٰ ہوں، اگر اس کے احکامات و فرمودات پر مسلمان کماحقہٗ عمل کرے تو کیوں نہ وہ فائز المرام[کام یاب] ہو-
مگر ہائے افسوس : آج کے مسلمانوں نے قرآن کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا، موجودہ دور میں مسلمانوں پر جو افتاد[پریشانیاں و مصیبتیں] واقع ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر جو حالات درپیش ہیں وہ کتاب مبین [قرآن] سے دوری کی وجہ سے ہے-

اے کاش: مسلمان قرآن کی جامع احکامات کو اپنے لیے مفید سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ،اور قرآنی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا،قرآن ہی کو اپنا حقیقی مشیر،خیر خواہ اور مخلص رہنما جانتا!

 اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ و طفیل ہم سبھی مسلمانوں کو قرآن وسنت کا عامل بنائے-آمین

سال نو:دراصل وقت احتساب ہے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے.. از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر (راجستھان)

       جنوری سے عیسوی کلینڈر کی شروعات ہوتی ہے جب کہ محرم الحرام سے قمری و ہجری سال کا آغاز ہوتاہے،عموما ماہ جنوری کے آنے سے پہلے ہی نئے سال کی آمد کا لوگوں کو انتظار رہتاہے،دسمبر کی آخری تاریخ اور جنوری کی پہلی تاریخ،دن ورات کو لوگ جشن وطرب کی محفلوں کو سجاکر خوب موج ومستی کرتے ہیں اور نہ جانے کتنے واہیات وخرافات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور "نیو ایئر" کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا کرکے اس کااستقبال کرتے ہیں اور اس موقع پر یہ بالکل ہی بھول جاتے ہیں کہ سال نو کی آمد صرف خوشی  ومسرت ہی نہیں بلکہ دراصل وہ ہمیں فکر واحتساب کی دعوت دیتی ہے،ہم اپنی منزل حقیقی کی طرف رواں دواں ہیں،ہماری بہار عمر خزاں کی طرف تیزی کےساتھ بڑھ رہی ہے،ہم قبر کے قریب ہورہے ہیں اور دنیا سے داغ مقارقت دینے کا وقت نزدیک سے نزدیک تر آرہاہے،فیاض ازل نے ہماری جو متعینہ زندگی لکھی تھی وہ اختتام کوپہنچنے والی ہے اس لیے سال نو کی آمد پر بےجارسوم وخرافات پر عمل کے بجائے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے،بہر حال سالِ نو کے موقع پر لایعنی خرافات اور عیاشی وفحاشی سے پر مجالس کے انعقاد اور ان میں شرکت کے بجائے   خود احتسابی سے انسان کوکام  لینا چاہیے۔کیونکہ حقیقی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان مسافر ہے اس کی زندگی مسافرانہ ہے بالکل اسی طرح کہ ہم سب گویا کسی اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی گاڑی آئی وہ اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگیا اور باقی مسافر اپنی اپنی گاڑی کے انتظار میں ہیں کہ کب گاڑی آ جائے اور تمام اسباب وسامان سمیٹ کر چل دیا جائے-

ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو غفلت اور لاپرواہی میں اپنی عمر کے بیش قیمت لمحات گزار رہے ہیں، اپنی موت کو بھول کر انجام سے بے پرواہ ہوکر اپنے کھانے ،پینے، کھیلنے ،کودنے اور اپنی دھن میں مصروف ہیں حالانکہ سانسوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی عمر کی مقدار گھٹ رہی ہے رفتہ رفتہ انسان اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے اعمال وافعال کا جائزہ لینا بہتر ہے نا کہ محض مبارکبادیاں دے کر دل کو تسلی کا سامان مہیاکرنا،ہر گزرا ہوا دن آئندہ کی یاد دلانے والا ہے اور جو وقت گزر گیا وہ واپس آنے والا نہیں، دَراصل سال نو ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ جس وقت کو گزرنا تھا وہ گزر گیا اب آئندہ کا خیال کرنا ہے اور غفلت ولاپرواہی کے ماحول کو چھوڑ کر اپنا سمتِ سفر متعین کرکے زادِ راہ کا انتظام کرنا ہے-اور ویسے بھی نیاسال صرف وقتی مسرتوں اور خوشیوں کے جذبات لے کر ہی نہیں آتا بلکہ ایک نیے سفر کی شروعات، تازہ دم ہوکر زندگی کو آگے بڑھانے کے شوق کو بیدار بھی کرتاہے،دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ پرعزم اور بلند حوصلہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام گزرے ہیں، جن کی پوری حیات ظاہری مضبوط عزائم اور بادمخالف کے مقابل دیوار آہنی بن کر گزری ہیں، اور انہوں نے اپنے متبعین کو بھی انہیں عزائم سے آراستہ کیا،خود نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی اس کی واضح دلیل ہے،کن حالات میں اور کیسی مخالفتوں میں آپ نے دین حق کی تبلیغ کی اور انسانیت تک اللہ وحدہ لاشریک کے پیغام کو پہنچایا،عزائم اگر سرد ہوجائیں اور ارادوں میں تھکن آجائے تو پھر کامیابی وکامرانی ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائےگی-اسی لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
ٹہرو نہ ارادوں کی تھکن جاگ پڑےگی
ایک لمحہ کو رکنابھی قیامت ہے سفر میں
اس لیے ہر نیا سال خفتہ عزائم کو بیدار کرنے، سوئے ہوئے جذبات کو جگانےکاپیغام دیتا ہے،مضبوط قوت ارادی کے ساتھ کچھ کرنے اور غفلتوں سے دامن جھاڑ کر میدان عمل میں قدم رنجہ ہونے کی دعوت دیتا ہے-

      یوں تو نیا سال ہمیں بہت سی باتوں کی جانب متوجہ کرتا ہے مگر بنیادی طور پر اس موقع پر ہم مسلمانوں کو دو اہم باتوں پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے-

(1) ماضی کا احتساب: نیاسال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات،معاملات، اعمال،حلال و حرام، حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کی مکمل تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں،کیوں کہ انسان دوسروں کی نظر سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”حاسبو ا انفسکم قبل ان تحاسبوا“(کنزل العمال:۳۰۴۴)
”تم خود اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے“

 اس لیے ہم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنا مواخذہ ومحاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔قبل اس کے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔اسی کو قرآن نے سورہ منافقون میں  اپنے مخصوص انداز میں کہا ہے جس کاترجمہ یہ ہے

”اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے(ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں۔اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھراسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے“

(2)آگے کا لا ئحہ عمل: اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کی روشنی میں ہمیں منصوبہ طے کرنا ہوگا کہ سال گزشتہ ہماری کمزوریاں کیا رہی ہیں اور ان کو کس طرح سے دور کیا جا ئے ؟دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان خطا کا پتلا ہے ، اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی لیکن کسی غلطی کا مرتکب ہونا اس قدر زیادہ بری بات نہیں ہے۔جتنی بری بات یہ ہے کہ اس سے سبق نہ حاصل کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے اوریہ منصوبہ بندی دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں ہوں۔جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:”اغتنم خمساً قبل خمسٍ:شبابک قبل ھرمک، وصحّتک قبل سقمک، و غناک قبل فقرک،و فراغک قبل شغلک، وحیاتک قبل موتک“(المستدرک الحاکم:۶۴۸۷)

”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کا فائدہ اٹھا لو : اپنی بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی (کا فائدہ اٹھا لو) ،اوراپنی بیماری سے پہلے اپنی صحت(کا فائدہ اٹھا لو)،اوراپنی غربت سے پہلے اپنی مالداری(کا فائدہ اٹھا لو)،اوراپنی مشغولیت سے پہلے اپنی فراغت(کا فائدہ اٹھا لو) ،اوراپنی موت سے پہلے اپنی زندگی(کا فائدہ اٹھا لو)“۔

اور یہ بھی طے ہے کہ اس دنیا کے اعمال ہی پر ہماری کام یابی اور ناکامی مشروط ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”و ان لیس للانسان الاّ ما سعیٰ۔و ان سعیہ سوف یریٰ۔ثم یجزٰہ الجزآءالاوفیٰ“(النجم:۹۳،۰۴،۱۴)

”اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ۔پھر اسے پوراپورا بدلہ دیا جائے گا“

    وہ وقت جوگزرگیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرگیا،اور وہ وقت جس کاہم نے صحیح استعمال کرلیاوہ توہمارے کام آگیااورہم اس وقت کواستعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے،لیکن جووقت ہمارے ہاتھوں سے خالی چلاگیااورہم نے اس وقت میں کچھ حاصل نہیں کیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرچلاگیااورمستقبل کے لیے ایک سبق دے گیا،ابھی ہم جس وقت میں کھڑے ہیں یہ ہمارے لیے اپنے گزرے ہوئے لمحات کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرنے کاوقت ہے،ہمیں اپنے گزرے ہوئے اوقات کوسامنے رکھ کراپنی زندگی کامحاسبہ کرنا چاہیے، اور پھراس کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرناچاہیے،ہمیں ماضی کااحتساب کرتے ہوئے آئندہ کاپروگرام طے کرناہوگا،یہ محاسبہ ہمیں ہرپہلوسے کرناہوگا،ہمیں اپنے دنیاوی امورکے بارے میں بھی محاسبہ کرناچاہیے کہ اگرہم تاجرہیں توہم نے ان سالوں میں کیاکھویاکیاپایا؟اگرہم نوکری پیشہ ہیں توہم نے اپنی نوکری میں کوئی ترقی کی یا نہیں؟ اگر ہمیں ان میں ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتواس کے کیااسباب ہیں؟ان اسباب پرغوروفکر کرنے کے بعدہم اپناپروگرام تیارکریں کہ آئندہ ان پہلوؤں سے بچ کررہنا ہوگاجس کی وجہ سے ہم ناکام ہوئے۔انسان کا کسی چیز میں ناکام ہونا برانہیں ہے،بر ی بات یہ ہے کہ انسان بے حسی میں مبتلا ہوجائے۔ وہ ناکام ہو اور اپنی ناکامی کے اسباب پر غور نہ کرے اس کے قدم پیچھے ہٹیں ، اور فکر مندی کی کوئی چنگاری اس کے دل ودماغ میں سلگنے نہ پائے ، وہ ٹھوکر کھائے ، لیکن ٹھوکر اس کے لیے مہمیز نہ بنے ۔جو شخص اپنے نقصان کا جائزہ لیتا ہے ، اپنی کتاب زندگی پر نظرڈالتے ہوئے ، اپنی کمیوں اورکوتاہیوں کو محسوس کرتا ہے ، وہی گرکر اٹھتا اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ۔ جس میں اپنے احتساب اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف کی صلاحیت ہی نہ ہو وہ کبھی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا ۔

           جس طرح دنیاوی امورمیں محاسبہ ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دینی امورکے بارے میں محاسبہ کرے، انسان یہ غورکرے کہ اس کے دین واخلاق،اعمال وکردارمیں کہیں کوئی کمی تونہیں آئی ہے،عبادات میں کوئی کوتاہی تونہیں رہ گئی،اپنے معاملات پرغورکرے کہ حلال وحرام اور مستحبات ومکروہات کے جواحکام شریعت نے دییے ہیں ،ان سب میں کہیں کوئی غفلت یالاپرواہی تونہیں برت رہاہے کہ اپنے کھانے اورکمانے میں حلال وحرام کی تمیزنہ کر پارہو،اپنے والدین اورقریبی رشتہ داروں کے حقوق میں کوئی کمی تونہیں کررہاہے،اپنی اولاداوربیوی کے جوفرائض وحقوق ہیں وہ سب برابرسے اداکررہاہے یانہیں؟اگرکہیں کوئی کمی یاکوتاہی ملے تواس کے اسباب پرغوروفکرکرتے ہوئے اس کمی کودورکرنے کی کوشش کرے،غرضیکہ انسان کوہرلحظہ اپنامحاسبہ کرناچاہیے-

       حاصل کلام یہ ہے کہ سال کی تبدیلی،کلینڈر کی شروعات دراصل خوشی ومسرت نہیں بلکہ خوداحتسابی و جائزہ کی دعوت دیتے ہیں،بچا کتنا ہے؟ اور کھویا کیاکیا ہے؟ اس پر نظر دوڑانے کی طرف متوجہ کرتے ہیں،جس طرح ایک دکان دار شام کو جب دکان بندکرتا ہے تو اپنی آمدنی اور دن بھر کی وصولی وغیرہ پر نظر ڈال کر حساب کرتا ہے،مسافرِ دنیا کو بھی سال کے اختتام پر اپنے گزرے ہوئے لیل ونہار پر نظر ڈال کر کمیوں کو دور کرنے اور کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی فکر کرنی چاہیے-آج ہم ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا،اللہ وحدہ لاشریک کو جب تک مقصود ہے کائنات کا نظام چلےگا،انسان بدلتے رہیں گے،کوئی پیدائش کی خوشیاں لے کر آئےگا،کوئی جدائی کاغم دےکر جائےگا،اس میں کامیاب وبامراد وہ ہے جس نے اپنی دین ودنیا کو سنوارنے، بہتر بنانے اور مقصود کو حاصل کرنے میں اپنی زندگی لگائی، وہ دنیا میں نیک نام رہا اور دین میں قابل قدر سمجھا جاتا رہا ہے،اس کارشتہ خالق سے اچھاتھا اور مخلوق سے بہتر، وہ غافلوں،مدہوشوں کی طرح نہیں بلکہ فکرمندوں اور ہوشیاروں کی طرح زندگی گزارتا رہا،اس نے اپنے مقصد تخلیق کو فراموش نہیں کیا-نئے سال کی آمد عبرت ہے،موعظت ہے اور دعوت فکر وعمل ہے-مرزاغالب نے کیا خوب کہا ہے:

رومیں ہے رخش عمر،کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے،نہ پا ہے رکاب میں