شعر و شاعری اور مضمون نگاری کی طرح اظہار خیال و رائے کا ایک اہم اسلوب اور موثر ذریعہ خطابت ہے، جس کے ذریعےاحساسات وتخیلات کی ترجمانی کی جاتی ہے، اور اس کو مبلغین اسلام نے بھی اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے لئے اپنا ہتھیار بنایا ہے-
اگر خطاب اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق ہو تو موثر اور قابل تعریف ہے،بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کار کو انجام دیا ہے ۔ جب حضورﷺ خطاب فرماتے تو مجلس انسانی سروں سے بھر جاتی تھی اور لوگوں کا ایک جم غفیر ہوجاتاتھا ، تاریخ اسلام میں آپ کے خطبات کو ایک خاص مقام و اہمیت حاصل ہے جو آج بھی مبلغین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
یہ خطابت صرف عہد رسالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر دور میں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت سے برتا گیا ہے، خلفا اور سلاطین اسلام کے خطبے تاریخ کے صفحات پہ منقش ہوکر اس دعوے کی دلیل فراہم کر رہے ہیں ۔
اس لیے قوم و ملل کے زعماء کےلئے فصیح اللسان ہونا لازمی امر ہے، تاکہ وہ قیادت و امامت کا حق ادا کرسکیں اور قوم کو صحیح سمت گامزن کریں۔
اس پس منظر میں اگر ہم غور کریں تو بطور تجزیہ یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے طلبہ کو خطابت کا ذوق رہا ہے، میدان خطابت میں جامعات و مدارس کے لائق وفائق فارغین کا کردار اظہرمن الشمس ہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہمارے جامعہ کے طلبہ بھی ہیں، چند دن پہلے دارالعلوم مینائیہ گونڈہ میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسابقہ خطاب میں مادر علمی جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف میں ہمارے ہم سبق ساتھی محمد ہاشم نے شرکت کی اور اپنی کدو کاوش سے دوسری پوزیشن حاصل کی،
جب یہ خوشخبری میرے کانوں سے ٹکرائی کہ عزیزم محمد ہاشم نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے تو دل مسرت و شادمانی سے معمور ہو گیا۔ اور میں اسی وقت سے مبارک بادی پیش کرنے کا مشتاق تھا ۔ پھر جب وہ جامعہ تشریف لائے اور ابھی کمرے میں داخل نہ ہوئے تھے کہ مبارکبادیوں کی برسات ہونے لگی، جب وہ اپنی محنتوں اورکوششوں کا ثمرہ ہاتھوں میں لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو سارے احباب دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھےاور سبھی لوگوں نے مصافحہ و معانقہ کرنے کے بعد ہدیۂ تبریک پیش کی اور اخیر میں میں نے سکون واطمنان کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کیا اور صمیم قلب کے ساتھ مبارک بادی پیش کیا۔ پھر مغرب کے بعد عزیزم اپنے پورے انعامات کے ساتھ سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے کمرے میں گئے پھر یکے بعد دیگرے سب اساتذۂ کرام کے پاس جا کر ملاقات کی اور سبھی معزز ومکرم اساتذہ نے مبارک بادی کے ساتھ دعاؤں سے بھی نوازا۔
جناب محترم نے سب کا اور جامعہ کا شکریہ ادا کیا.
اور میں پھر سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ،اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اور تمام طلبہ کیے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاء گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی طلبہ کو خوب خوب عروج و ارتقاء عطاء فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-
واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
(فہیم جوگاپوری)
Leave a Reply