WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی…از قلم۔محمد توحید رضا اویسی احسنی متعلم: جامعہ احسن‌البرکات مارہرہ شریف

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی…از قلم۔محمد توحید رضا اویسی احسنی متعلم: جامعہ احسن‌البرکات مارہرہ شریف

گزشتہ چند برسوں میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والی ترقّی نے انسان کو جن بلندیوں پر پہونچا دیا ہے یہ تمام کتاب و مطالعہ کی مرہونِ منّت ہیں لیکن جس کتاب کی بدولت یہ کامیابیاں حاصل ہوئیں،اسی کتاب سے بحیثیتِ مجموعی ہمارا رِشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
آج تمام نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اتنی بری طرح سے گرفتار ہیں کہ جو وقت کتاب بینی کا حق تھا وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذر ہو گیا۔ اور اب فیس بُک ،وہاٹس ایپ ،ٹویٹر موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کُتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آ گئی ہے۔انسان اور کتاب کا پرانا تعلق ماند ہوتا جا رہا ہے۔نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے جو ہمارے اسلاف کے دور میں تھا۔
اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اور طالب علم کا تعلق صرف نصابی کُتب تک محدود ہو کر ره گیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیرِ اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیر نصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی اور نصابی کُتب کا مطالعہ بھی صرف امتحان پاس کرنے کے لیے کیاجاتا ہے۔
اگر چہ آج کمپیوٹر و موبائل میں مطالعہ کرنے کے متعدّد مواقع موجود ہیں۔لیکن مطالعے کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے۔اس کا مقابلہ دیگر ذرائع نہیں کر سکتے۔کتاب اور انسان کا رِشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تہذیبِ انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جو کتاب سے تہی دامن رہا ہو۔
یاد رکھیں کُتب بینی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچا دیتا ہے۔علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لئے بھی مشعل راہ کا کام دیتا ہے،یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ، لگن، شوق اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہوں وہ اس عمل کو پروان چڑھا کر علم کے سمندر سے در نایاب چن سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف میں یہ اوصاف حمیدہ بدرجہ اتم موجود تھے اسی لیے آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود بھی ان کے نام آسمان علم کی افق پر جگمگا رہے ہیں۔
امام غزالی،ابو نصر الفارابی، ابن رشد،جابر بن حیان اور الکندی جیسے جلیل القدراشخاص کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں کی زینت ہیں، ویسے تو ہمارے علاقے میں علمی دنیا کے وہ قدآور ستون موجود ہیں جن کے ناموں اور کاموں کا احصاء دشوار ہے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے مطالعہ اور کتب بینی کا ذوق ابھارنے کا درس دیا۔
اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر گوشوں میں علم کی تابانی سے عالم کو منور کرنے والے اور ہر سو اجالا پھیلانے والے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا۔
اقوالِ دانشوراں: ذوق مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے حکیم ابو نصر الفارابی فرماتے ہیں: کہ تیل کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا
تھا‌۔
امام زہری کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اِدھر اُدھر کتابیں ہوتیں اور ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی۔ بیوی ان کے اس عادت سے سخت ہیچ و تاب کھاتی۔ ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔
میں کالے کا قول ہے کی وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کومطالعہ کا شوق نہیں۔
“مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے” مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اور اس کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔”امریکا کا مشہور صدر ابراہم لنکن کہتا ہے” کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے.
“والٹیئر کا قول ہے”وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں.
اپنے ڈیسک کارٹیس کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے: کہ تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کے بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
کتب بینی ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسی زندہ کردار موجود ہیں، جو کتب بینی جیسے عظیم الشان کام کو بطور مشغلہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اور دن دوگنی رات چوگنی علم کے خزانوں میں سے موتی چننے میں مصروف اور اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہیں، ان لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
کُتب بینی کے نقصانات: ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق تقریبا دم توڑ چکا ہے بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو ذوق کتب بینی کی حلاوت سے آشنا،کتاب دوستی پے نازاں اور کتابوں کی معیت میں فرحاں و شاداں ہیں ورنہ اکثر نوجوان کتب بیزار ہی واقع ہوئے ہیں وہ اپنی نظروں کے سامنے “کتاب” کے علاوہ ہر چیز کی موجودگی برداشت کرسکتے ہیں۔
کتاب پڑھنا ان کے لئے ہاتھ میں انگارہ لینے کے مترادف ہے وہ دنیا کی رنگینیوں، فضول اور واہیات مجلسوں، ڈراموں اور فلموں کو کتب بینی کے عوض خرید چکے ہیں اور اس سودا پر بہمہ وجوہ راضی و قانع ہیں۔
ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی بھی ہے جو کھیل کود، ناچنے تھرکنے، نت نئی فیشن اختیارکرنے، ملبوسات کے نئےاسٹائلز زیب تن کرنے، بالوں کی تراش و خراش درست کرنے اور خوب سے خوب تر بلکہ خوب رو ہونے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ان امور سے کئی گنا اہم کام ان کی نگاہ میں فضول، بے معنی،بےوقعت اور ہیچ ہیں۔
عدمِ رغبت کے اسباب اور انکا تدارک: لوگوں کے ان معاشرتی رویوں اور بے کار مشغولیات کا ایک سبب ان کے والدین بھی ہیں جو ان کی اصلاح و تربیت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ چکے ہیں وہ اپنے بچوں یا نوجوان بیٹوں کو عمر عزیز کی بہاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا درس دے کر ان کی مستقبل کو ہی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو بھی مخدوس کر دیتے ہیں۔
اس لئے کہ یہی نونہالان قوم کل ملک و ملت کی کشتی کے ناخدا بنیں گے۔ نتیجہ کے طور پر ایک ایسی نسل پیدا ہورہی ہے جو تعلیم کے زیور سے محروم اور لغویات کی بھرمار کا پلندہ ہے۔
یہ کتب بینی سے دوری اور بُعد ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدردانی اور مرتبہ شناسی کا عنصرناپید ہے۔
اساتذہ اور ہمسایہ کے حقوق سے عدمِ واقفیت اپنے عروج پر ہے اس سے زیادہ پُرخطر، باعث تشویش، قابل غور اور قابل اصلاح بات یہ ہے کہ نئی نوجوان نسل کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ بھی قابل افسوس، قابل ماتم،اور قابل مذمت ہے۔
رغبت کے اسباب:کُتب بینی انسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہے اور دوسروں کے خیالات کو جاننے میں موقع فراہم کرتی ہے۔ کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں اور بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں اسرار موتی بند
ہیں۔
کتابیں شخصیت سازی کا ایک کارساز ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر ہیں۔زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں جو قومیں کتابوں سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں جن کا تعلق کتب بینی سے مضبوط رہا ہو۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل رک جاتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا جب تک کہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرہ کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے ۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کی لذت، حلاوت، شیرینی اور چاشنی سے آگاہ کریں اور انہیں مطالعہ کا خوگر بنائیں۔ اپنے مشرقی روایات کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ سچے مسلمان ہونے کا درس دیں تو قوی امید اور مہذب ترین اقوام میں شمار ہونے لگے گا- [ان شاءاللہ]

      کاغذ کی یہ مہک،یہ نشہ روٹھنے کو ہے
    یہ آخری صدی ہے ،کتابوں سے عشق کی ۔

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *