نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
اسلام میں خانقاہی نظام کا تصور ہمیں قرون اولیٰ میں ملتا ہے وہ تو در حقیقت تلاوت آیات تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت پر مبنی ایک تربیتی ادارہ کا تصور ہے ایک ایسا ادارہ جہاں سے گمراہ لوگوں کو نور ہدایت نصیب ہو گنہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملے سیہ کاروں کو روشنی کی کرن نظر آئے عصیاں شعاروں کو ذوق عبادت نصیب ہو جبکہ مروجہ نام و نہاد خانقاہوں میں تو چکر ہی الٹا چل رہا ہے یہاں تو جہالت کو فروغ ملتا ہے اِنسانیت کی تذلیل ہوتی ہے شرفاء کی پگڑی اچھالی جاتی ہے غرباء و مساکین کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں علم و عمل کا مذاق اڑایا جاتا ہے روحوں کو داغ دار کیا جاتا ہے دلوں کو سیاہ فام کیا جاتا ہے ظلمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اندھیرو کو سلامی پیش کی جاتی ہے دولت کی پوجا کی جاتی ہے علماء اہل سنّت کی تحقیر کی جاتی ہے بدمعاشوں کی سرپرستی کی جاتی ہے ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا جاتا ہے ان کے میلوں ٹھیلوں سے ایسی سڑ انڈاٹھتی ہے کہ کسی سمجھدار آدمی کیلئے وہاں ایک لمحہ ٹھہر جانا بھی محال نظر آتا ہے . ہے کوئی چشم بینا جو ان معاملات کی طرف بھی توجہ کرے ؟ ہے کوئی دل درد مند جو ان خرابیوں کے خاتمہ کیلئے بھی مضطر ہو . آج کے زمانہ میں حقیقی خانقاہیں اہل سنت و الجماعت کے وہ دینی مدارس اسلامیہ ہیں جہاں قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے انہیں نماز روزہ کا پانبد علم و تحقیق کا خوگر اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے جدو جہد کا پیکر بنایا جاتا ہے یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ ہم ان میلوں ٹھیلوں کو ملیا میٹ کر کے اپنے دینی مدارس کی سرپرستی کریں علمائے اہل سنت سے رابطہ بحال کریں طلباء مدارس کو ہر طرح کی آسائش مہیا کریں مدرسین کے لئے تنخواہوں کا خاطر خواہ انتظام کریں تاکہ حقیقی خانقاہی نظام کا دوبارہ احیاء ہو سکے ورنہ مروجہ خانقاہوں سے خیر کی توقع رکھنا بیل سے دودھ کی امید رکھنے کے مترادف ہے.
مزارات کے گلّے اور صندوقچے
یہ ایک عجیب ترین بات ہے کہ مزارات اور خانقاہوں کے دروازے پر بڑے بڑے گلے اور صندقچے رکھے ہوتے ہیں جہاں بڑے ہی بد اطوار قسم کے مجاور زائرین کی آمد پر ان گلوں کو کھڑ کھڑا کر نذرانہ طلب کر تے ہیں جس پر جاہل اور احمق قسم کے لوگ ان گلوں میں ہزاروں روپے ڈال جاتے ہیں بعد میں یہ پیسے یا تو محکمہ اوقاف والے اٹھا کر لے جاتے ہیں یا پھر سجادہ نشین صاحبان ان سے گلچھرے اڑاتے ہیں یاد رکھنا ہے کہ ان پیسوں کا مصرف سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں ہوتا یہ تمام اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ جاہل لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ گلوں میں ڈالے ہوئے ان کے پیسے در اصل افسروں اور سجادہ نشینوں کے پیٹوں کا جہنم بھر نے کے کام آتے ہیں ان پیسوں سے جہلاء کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہر گز نہیں ملتا نہ ہی دنیوی نہ ہی اخروی بلکہ الٹا دونوں جہانوں کا خسارہ ہوتا ہے دنیا کا اس لئے کہ وہی پیسے جو انہوں نے گلے میں ڈالے وہ ان کے اہل خانہ یا دیگر امور خیر میں کام آ جاتے جو نہ ہوسکے اخروی اس لحاظ سے کہ یہ پیسے ناجائز کاموں میں صرف ہوتے ہیں اس طرح ناجائز کاموں میں ان کا حصہ بھی شامل ہوجا تا ہے لہذا قیامت کے دن غلط کار افسروں اور سجادہ نشینوں کے ساتھ ان کا بھی مواخذہ ہوگا اس لئے ان گلوں میں پیسے ڈالنے کے بجائے انہیں راہ خدا میں خرچ کیا جائے اور خاص طور پر اہل سنت کے مدارس کو مضبوط کیا جائے فی زمانہ مدارس کا بھی یہی حال ہے
Leave a Reply