ایک شہر میں اک نیک ضعیفہ رہتی تھی ۔وہ بہت نیک اور عبادت گزار تھی ۔سارے لوگ اس ضعیفہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ضعیفہ جس کسی کے لیے دعا مانگتی تھی اس کی دعا قبول ہوتی تھی۔ ہر شخص اس ضعیفہ کےپاس آتا اور دعائیں کرواتا تھا۔
اس ضعیفہ کی دعا سے کوئ کلکٹر ، کوئ افسر، کوئ تحصیلدار، کوئ عہدیدار تو کوئ طبیب بن گیا۔ سب اس ضعیفہ کو بہت مانتے تھے آور وہ ضعیفہ بہت نیک ، عبادت گزار اور صاف دل کی مالک تھی۔ وہ ہنستے مسکراتے ہر کسی کے لئے دعائیں مانگتی تھی۔ جس شہر میں وہ رہتی تھی، اس شہر میں کبھی کوئ فساد آفت مشکلیں نہیں آءے، سب سےلوگ اچھے سے رہا کرتے تھے ۔
کسی دوسرے شہر میں ایک ندیم نامی شخص رہتا تھا۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری کے لیے بہت مشہور تھا ، لیکن جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا وہاں کا افسر ندیم کی قدر نہیں کرتا تھا، نہ کبھی کوی تعریف کرتا تھا اور نہ ہی اس کو پروموشن دیتا تھا۔
بار بار ندیم پر کام کا بوجھ ڈال دیا کرتا تھا۔ ندیم افسر کے سامنے خاموش رہ جاتا تھا ۔ کچھ سوال نہیں کرتا تھا۔ ندیم کے ایک دوست نے ندیم سے کہا تم اتنی محنت کرتے ہو پھر بھی تمہاری کوئ قدر نہیں تم کہیں اور کام کیوں نہیں کرتے؟ ندیم نے کہا یہ میری آخری جاب ہے اگر یہ چلی گءی تو کہیں اور جاب نہیں ملے گی۔ تو ندیم کے دوست نے کہا ٹھیک ہے پاس کے شہر میں اک ضعیفہ رہتی ہے، سنا ہے وہ جس کے لئے بھی دعا کرتی ہے اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے ،تم اس ضعیفہ سے ملو اور دعا کرو الو.
ایک دن دفتر سے چھٹی لے کر ندیم پاس والے شہر چلا جاتا ہے اور سب لوگوں سے اس ضعیفہ کا پتہ پوچھنا ہے۔ اسی دوران یہ پتہ چلتا ہے ک ضعیفہ بہت بیمار ہے، اب کوئ اس کے پاس نہیں جاتا ،وہ ضعیفہ اب عبادت بھی نہیں کرتی۔ لوگوں نے اس کےپاس جانا بند کردیاہے۔ ندیم نے جب سنا تو واپس لوٹنا چاہا، مگر خیال ایا کہ جب اتنی دور آگیا ہوں تو ضعیفہ سے ملکر ہی جاونگا۔ پھر ندیم کے اصرار پر لوگوں نے ضعیفہ کا پتہ دیا اور ندیم ضعیفہ کے گھر پہونچا۔
دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئ آواز نہیں آءی، دوبارہ کھٹکھٹایا تو دھیمی سی آواز آءی ،
کون ہو بیٹا میں اٹھ نہیں سکتی دروازہ کھول کر اندر آجاؤ، تب ندیم آہستہ سے دروازہ کھولتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت سے اندر جاتا ہے۔
اور ضعیفہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے، امّاں جی آپ کیسی ہیں، کیا ہوا آپ کو ؟ ضعیفہ نے کہا بوڑھی ہو گئ ہوں بیمار ہوں ۔ ندیم نے پوچھا کیا آپ کا کوئ رشتہ دار نہیں ہے؟ ضعیفہ نے کہا جب ٹھیک تھی تو سارے لوگ ملنے آتے تھے، اب بیمار ہوں تو کوئ نہیں آتا ۔
ضعیفہ کی ان
باتوں سے ندیم سوچنے لگتا ہے، کیسے خود غرض لوگ ہیں، صرف اپنے مطلب کے لیے آتے ہیں اور اس بات پر ندیم کو بہت دکھ ہوتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت لےکر ضعیفہ کی خدمت میں کئ دن گزار دیتا ہے ۔شہر کے سارے لوگ شرمندہ رہتے ہیں ، لیکن کچھ نہیں کہتے ،
آہستہ آہستہ ضعیفہ ٹھیک ہونے لگتی ہے ۔جب وہ بلکل ٹھیک ہو جاتی ہے تو کہتی ہے بیٹا تم اجنبی ہوکر میری اتنی خدمت کررہے ہو، بتاو تم کو کیا چاہیے؟ ندیم نے کہا امّاں جی مجھےکچھ نہیں چاہیے ، بس آپ ٹھیک ہوجائیں۔ ضعیفہ نے کہا بیٹا میں ٹھیک ہوجاونگی ، تم اپنا گھر چھوڑ کر کب تک یہاں رہوگے ، تم کو اپنے گھر جانا چاہئے، وہ لوگ پریشان ہوتے ہونگے۔ ندیم نے کہا امّاں جی میرا بھی کوئ نہیں ہے، میرے ماں باپ بھی نہیں ہیں، میرے ماں باپ ہوتے تو شاید …..اتنا کہکر ندیم خاموش ہوجاتا ہے۔ اور ضعیفہ سمجھ جاتی ہےکہ یہ کسی پریشانی میں ہے ، پھر ضعیفہ مسکراکر ندیم کو بہت ساری دعائں دیتی ہے۔
اور کہتی ہے تمہاری خدمت کو اللہ تعلیٰ نے قبول کیا ہے، اب لوگ تمہاری عزّت کرینگے، تم اب واپس جاؤ، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ سنکر ندیم ضعیفہ سے اجازت لےکر اپنے گھر واپس لوٹتا ہے اور دوسرے دن دفتر جاتا ہے اور وہاں اس کا افسر ندیم کے انتظار میں رہتا ہے اور اور جب ندیم کو دیکھتا ہے تو ندیم کو گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے تم اتنے دن کہاں تھے تمہارے نہ ہونے کی وجہ سے دفتر میں بہت سارا نقصان ہوا ہے، مجھے تمہاری بہت ضرورت ہے ،تمھارے بغیر کوئ کام پورا نہیں ہوتا، آج سے تم میری کرسی پر بیٹھوگے اور سارا کام سنبھالوگے، سب کچھ اب تمہارے کنٹرول میں ہے اور میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نےتمھارے ساتھ بہت سختی کی ۔ندیم کو حیرانی ہو رہی تھی ک اک خدمت کے بدلے اسے اتنی عزت اور شہرت مل رہی ہے اور ندیم سمجھ جاتا ہے کہ یہ سب ضعیفہ کی خدمت اور ان کی دعاؤں کا اثر ہے ۔ندیم اپنے دوست سے مل کرسارا واقعہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک کامیابی صرف محنت سے نہیں ملتی ، بلکہ بزرگوں کی خدمت اور انکی دعاؤں سے ملتی ہے اور ندیم اس ضعیفہ کو اپنے گھر لے کر آتاہے اور اپنی ماں کی طرح خدمت کرتا ہے۔
Leave a Reply