حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (یقینًا اﷲ تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا
“مجدد”_ مجدد کا مطلب ہے دین میں تجدید کرنے والا دین کے مزاج نکھار نے والا امت کو بھولے ہوئے احکام شریعہ کی یاد دلانے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مردہ سنتوں کو زندہ کرنے والا۔ مجدد نائب نبی ہوتا ہے مجدد نائب رسالت ہوتا ہے اسلئے مجدد کی ذمہ داری وہی ہوتی ہے جن ذمہ داریاں کو انبیاء کرام پورا کرتے ہیں مجدد جس دور میں آتا ہے اس دور کے سارے حالات پر اسکی نظر ہوتی ہے اور جہاں سے گمراہی آپنا منھ کھولتی ہو وہی سے گمراہیاں کی آپریشن کرتا ہے مذکورہ بالا حدیث پاک کی رہنمائ کے مطابق جب ہم چودہویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ایسا مجدد نظر آتا جو چاند کی طرح اپنی شان میں و علم میں چمکتا ہےہر ایک علم و فن میں اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دین کے اس مجدد کو وہ بلند مقام عطا فرمایا جسکے سامنے بڑے بڑے علماء کرام سرخم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو جانتے ہیں اس مجدد کا نام کیا ہے ہم سے سنو اس مجدد کا نام اعلی حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : کسی بزرگ کے مُجَدِّد ہونے کا فیصلہ ان کے ہم زمانہ عُلما کے بیان سے ہوتا ہے جو ان بزرگ کی دینی خدمات اور ان کے علم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر اپنے غالب گمان کے مطابق انہیں مُجَدِّد قرار دیتے ہیں۔ حضور مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : کسی کے مُجَدِّد ہونے پر اب کوئی دلیلِ مَنصُوص نہیں ہوسکتی ، وحی کا سلسلہ مُنْقَطِع ہے۔ اب یہی دلیل ہے کہ اس عَہْد کے علما ، عوام ، خَواص جسے مُجَدِّد کہیں وہ مُجَدِّد ہے صرف غیر منقسم ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکۂ مکرّمہ ، مدینۂ منوّرہ ، شام ، مصر اور یمن وغیرہ کئی ممالک کے اکابر علمائے کرام ، مفتیانِ عظام اور شُیُوخُ الحدیث نےامامِ اہلِ سنّت کی علمی و دینی خدمات کا اعتراف کیا اور آپ کو مُجَدِّد قراردیا۔ تفصیل جاننے کے لئے حُسَّام ُ الْحَرَمَین اور اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ وغیرہ امامِ اہلِ سنّت کی کتابوں پر عرب دنیا کے عُلمائے کرام کی تَقریظات کا مطالعہ فرمائیں خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہے کہ امامِ اہلِ سنّت کے زمانے کے علما و مشہور شخصیات نے آپ کے عُلوم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر آپ کو مُجَدِّد مانا۔ سب سے پہلے 1318ھ میں پٹنہ شہر میں منعقدہ ایک عظیم اجلاس جس میں اس وقت کے تمام اکابرِ اہلِ سنّت موجود تھے ، اسی اجلاس میں خانقاہِ قادریہ بدایوں شریف کے سجّادہ نشین مُطیعُ الرّسول مولانا شاہ عَبْدُ الْمُقْتَدِر صاحب قادری رحمۃُ اللہِ علیہ نے امامِ اہلِ سنّت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : جناب عالمِ اہلِ سنّت ، مُجَدِّدِ مائۃ حاضرۃ (موجودہ صدی کے مُجَدِّد) مولانا احمد رضا خان صاحب۔ یہ ارشاد سُن کر تمام علما نے قبول فرمایا ، کسی نےرد و انکار نہیں فرمایا۔ یہ حقیقت میں ہندوستان کے علمائے اہلِ سنّت کا اس پر اجماع ہے کہ 14ویں صدی کےمُجَدِّداعلیٰ حضرت ہیں۔ علامہ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجدد اسلامی صدی کے آخری حصے میں پیدا ہو اور صدی کے آغاز میں اس کا کام بطور مجدد شروع ہو چکا ہو۔ جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی ولادت تریسٹھ (63 ہجری)، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اسی (80 ہجری)، غوث الا عظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ (470 ہجری)، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (971 ہجری) اور امام اہلسنت سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (1272ہجری)۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مجدد ہونے پر علمائے اہل السنہ والجماعت کا اجماع ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ چودہویں صدی کے مجدد ہیں _مجدد مجدد کو اپنی صداقت کا ثبوت اپنے عزم و استقلال اور کام کی انجام دہی سے دینا ہوتا ہے۔ مجدد کے لیے اپنی مجددیت کا اعلان کرنا لازم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ہم عصر علما و صوفیا اس کے علم و فضل اور تجدیدی کام کو دیکھ کر اس کے مجدد ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مجددین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی تجدیدی کوششوں کو ان کی زندگی میں معلوم نہ کیا جا سکا بلکہ بعد میں آنے والے علما نے ان کے مجدد ہونے کی تصدیق کی۔ دین میں بدعات کو ختم کر کے روشن سنت کو تازہ کر دینے کا نام تجدید ہے اور اس کام کو سر انجام دینے والی ہستی کو مجدد کہتے ہیں جو بالفاظ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی کوششوں یا اپنی جماعت کے پروپیگنڈے کے زور پر مجدد کے مرتبہ پر فائز نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ علم و فضل ،فقاہت، علم اور کشف وکرامت میں اعلیٰ مقام کیوں نہ رکھتا ہو، مجدد کے فرائض میں سے ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ان اعمال کو زندہ کرے جو متروک ہو چکے ہوں، افراط و تفریط، تحریفات و تاویلات اور بدعات سے دین کو پاک کرے، حق و باطل میں تمیز کرا کے دین کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کے مطابق بنائے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی فیضان سے لوگوں کو مستفیض کرے۔
Leave a Reply