WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

اعلی حضرت کا وعظ و بیان سے احتراز.. ✒️ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت 7030786828

اعلی حضرت کا وعظ و بیان سے احتراز.. ✒️ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت 7030786828


سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ وعظ و بیان سے بہت احتراز فرماتے تھے کبھی کوئی اہم موقع اور اہم دینی ضرورت و منفعت پیش نظر ہوتی تو وعظ و بیان فرماتے ورنہ عموماً سال بھر میں صرف مندرجہ ذیل تین تقریبات میں آپ کا نہایت عالمانہ و عارفانہ وعظ و بیان ہوا کرتا تھا
(1) جلسئہ دستار بندی (طلبئہ دارالعلوم منظر اسلام بمام مسجد بی بی محلہ بہاری پوری بریلی شریف)
(2) محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آبائ مکان میں
(3) عرس حضرت خاتم الاکابر مارہروی اپنے مکان میں.
ان تینوں مواقع پر آپ کا مؤثر ایمان افروز روح پرور وعظ و بیان ہوا کرتا تھا
امام اہل سنت، سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ زیادہ وعظ نہ فرمایا کرتے- آپ کا معمول تھا کہ سال میں تین وعظ مستقلاً فرمایا کرتے تھے-
“ہر کسی کی تقریر نہیں سنتے تھے”حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اعلی حضرت کی عادت تھی کہ دو تین آدمیوں کے علاوہ کسی کی تقریر نہیں سنتے تھے؛ ان دو تین آدمیوں میں ایک میں بھی تھا- اعلی حضرت یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ “عموماً مقررین اور واعظین میں افراط و تفریط ہوتی ہے، احادیث کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا دیا کرتے ہیں اور ان کو حدیث قرار دیا کرتے ہیں جو یقیناً حدیث نہیں ہیں- الفاظ حدیث کی تفسیر و تشریح اور اس میں بیان نکات امر آخر ہے اور یہ جائز ہے مگر نفس حدیث میں اضافہ اور جس شے کو حضور اکرم ﷺ نے نہ فرمایا ہو اس کو حضور ﷺ کی طرف نسبت کرنا یقیناً وضع حدیث ہے جس پر سخت وعید وارد ہے لہذا میں ایسی مجالس میں شرکت پسند نہیں کرتا جہاں اس قسم کی خلاف شرع بات ہو ” فتاوی رضویہ میں ہے
وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا جائز نہیں— ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٣٧٩) منبر مسند نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کہ تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈہ وغیرہ نہ ہو کہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقت وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتار دیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے — ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ)
اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:واعظ(مقرر) کے لئے (چار شرائط ہیں)
پہلی شرط: یہ ہے کہ مسلمان ہو،
دوسری شرط۔ اہل سنت
تیسری شرط ۔۔عالم ہونا
چوتھی شرط۔ فاسق نہ ہونا

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *