کہتے ہیں کہ کسی بزرگ کے پاس سے ایک جنازہ گذر رہا تھا ، بزرگ اس مرنے والے پر بہت افسوس کرکے رونے لگے کسی نے ان سے رونے کا سبب پو چھا تو انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی اور فرمانے لگے کہ افسوس جیسا آیا تھا ویسا ہی چلا گیا ،مرنے والا اپنے اندر ایک بڑا خزانہ لایا تھا مگر زندگی میں اس کو کبھی کھول کر نہ دیکھ سکا کہ اس میں کیا کچھ پوشیدہ رکھا ہوا ہے. یونہی اس پُرے کو کھولے بغیر جوں کا توں اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہے ۔اسکی حالت پر افسوس کر کے رورہا ہوں کہ خود شناسی کے بغیر ہی چلا گیا. اس کے برعکس سالک ( خدا کی تلاش میں نکلا ہوا) کے لیے دل کی بند کلی کھِل کر پھول بن جاتی ہے اس کا دل ہی اس کے حق میں سدا بہار گلزار بن جاتا ہے اسی قدر بصارت نورِ فراست سے مشرف ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسم فرشی ہے اور خاک سے پیدا ہوا ہے اور خاک کے ذروں سے اس کی پرورش اور تندرستی کا انتظام ہے لیکن قلب عرشی ہے اس کی غذا بھی عرش ہی سے مل سکتی ہے اور وہ تعلق مع اللہ ( اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق) اور ذکر وفکر سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو معرفتِ خداوندی کہتے ہیں۔اس نور کے چمکنے کا نام شرحِ صدر ہے یہ شیخ کی صحیح رہنمائی و تربیت سے حاصل ہوتا ہے. اس تربیت گاہ کو خانقاہ کہتے ہیں کیونکہ یہ شیخ کی جائے قیام ہوتی ہے .
جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ ضروری ہے ،عمل کیلئے مسجد ضروری ہے اور اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے ۔اہل اللہ کی تربیت سے لوگوں کے پاس قلب قلبِ سلیم بنتا ہے ۔ مولانا رومؒ نے فرمایا تھا کہ
قطرہ نوری سراپا نور با ش بگذار کود ائما مسرور باش
یعنی نور کا قطرہ ہے سراپا نور بن جا, اپنی ہستی کو مٹادے اور غیر اللہ کے وجود کا موہوم شائبہ تک نہ ہو اور ہمیشہ خوش رہ ۔
طریقت نام ہی ان طریقوں کا ہے جو شریعت کے ذریعے بندے کو خالق سے جوڑ دیں ۔بزرگوں نے شریعت ، طریقت اور حقیقت کی مثال یوں بیان کی ہے کہ بادام کے اندر تین چیزیں ہوتی ہیں پوست، مغز اور روغن یہ تینوں ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ ایک دوسرے کا خلاصہ ہیں پوست کا خلاصہ مغز ہے اور مغز کا خلاصہ روغن اسی طرح شریعت کا خلاصہ طریقت اور طریقت کا خلاصہ حقیقت ہے ۔مولانا روم فرماتے ہیں ۔
آئینہ ہستی چہ باشد نیستی نیستی بگزیں گر ابلہ نیستی
ایک آئینہ ہستی کا ہو تا ہے اور وہ کیا ہے نیستی۔ اگر تو بے وقوف نہیں ہے تو نیستی کو اختیار کر کہ مراد اس سے فنا ہے جب اپنے کو فنا کر ے تواپنی ہستی کو مٹا کر بقا حاصل کر نے کا درس صرف بزرگوں سے ہی حاصل ہو تا ہے ۔اگر مرض شدیدہو تا ہے تو شفا خانے میں داخل ہو نا پڑتا ہے ۔یہی حال روحانی امراض کا بھی ہے کہ اس کے لئے بھی شفا خانے ہیں اور وہ یہی بزرگوں کی خانقاہ ہے۔ خانقاہی نظام مسلمانوں کی تاریخ کا شاندار باب رہا ہے. مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنی کتاب ”سیرۃ المصطفیٰ“ میں لکھتے ہیں کہ صفہ اصل میں سائبان اور سایہ دار جگہ کو کہتے ہیں۔ وہ ضعفاء مسلمین فقراء شاکرین جو اپنے فقر پر فقط صابر ہی نہ تھے بلکہ امراء و اغنیاء سے زیادہ شاکر و مسرور تھے جب احادیث قدسیہ اور کلمات نبویہ سننے کی غرض سے بارگاہ نبوت و رسالت میں حاضر ہوتے تو یہاں پڑے رہتے تھے ، لوگ ان حضرات کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ گویا یہ اس بشیر و نذیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ”خانقاہ “تھی جس نے باہزار رضاء و رغبت فقر کو دنیا کی سلطنت پر ترجیح دی" اور پھر خواجہ عبیداللہ احرار رحمہ اللہ ”طبقات صوفیاء“ میں لکھتے ہیں : دوسری صدی ہجری زمانہ تابعین میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم عصر شیخ ابو ہاشم رحمہ اللہ کےلیے ذکر و شغل اور تعلیم و تزکیہ و سلوک کے واسطے باقاعدہ ”خانقاہ “کے نام سے مکان کی بنیاد رکھی گئی۔" تاریخ سے عیاں ہے کہ خلفائے راشدین کے عہد میں مدارس کی تدریس تعلیم و تربیت دونوں پر مشتمل رہی لیکن آہستہ آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہونے لگا تو صوفیاء نے خانقاہوں کے ذریعے باطنی تعلیم و تربیت دینا شروع کر دی .
برصغیر پاک و ہند میں بھی خانقاہی نظام نےیہاں کی تہذیبی ، سماجی ، سیاسی ،معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کیے.اپنی اصل صورت میں یہ نظام یہاں خوب پھلا پھولا۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ یہ نظامِ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوا بلکہ تاحال اس زوال کا شکار ہے. اندرونی خرافات سے شروع ہونے والی تباہی میں شدت انگریزوں نے اپنے عہد میں خانقاہ کی سربراہی کو وراثت کے قانون سے جوڑ کر پیدا کی. انگریزوں نے کمال عیاری کے ساتھ وراثت کے قانون کے تحت خانقاہ کی سربراہی کو ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی وارث کسی اہل و کامل کی بجائے اس کے فرزند کے سپرد کر دیا خواہ و اس کا اہل ہو یا نہ ہو . اس موروثی سجادہ نشینی نے گدی نشینی کے جھگڑوں کو جنم دیا اور پھر روحانیت کاروبار میں بدلنے لگی ، جاہل مریدوں نے شخصیت پرستی اور اندھی تقلید سے موروثی طور پر مسلط گدی نشینوں کے ہر فعل کو اپنے لیے ولی کی ایمانی ادا سمجھنا شروع کر دیا. چڑھاوے اور نذرانے غالب آئے تو خانقاہ سے وابستہ معاشی مفادات نے کاروباری حرکیات سے مستفید ہونا شروع کر دیا اور پھر روح سے محروم ہوتے اس خانقاہی نظام پر سوال اور انگلیاں اٹھنے لگیں جنہوں نے اس کے خلاف محآذ قائم کر لیا اور مبالغات و خرافات کی مذمت کی بجائے خانقاہی نظام کو ہی غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیا جانے لگآ. قبر پرست عقیدتمندوں اور ناقدین میں کشمکش بڑھتی جا رہی ہے. حتیٰ کہ امن کے مبلغین کی خانقاہیں بھی شدت پسندوں کے نشانے پر آگئ ہیں ۔
وقت اور مناقشوں نے نئے تقاضوں کو جنم دیا تو مذکورہ بالا بدلتے تناظر میں دردمند دل رکھنے والے کئ مصلح مزاج علمائے دین نے خانقاہی نظام کی مٹتی حقیقتوں کا ناقدانہ جائزہ لینا شروع کیا. ایسے ہی اصلاحی مقاصد سے اس نظام کے مستقبل کے لیے تجاویز پیش کر کے بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے علامہ ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ نے روحِ عصر کی ترجمانی کی اور خلوص نیت سے خانقاہی نظام کے اثرات کو اپنی تحقیق و تحریر کا موضوع بنایا اور اس طرح قلمی محاذ پر خانقاہی نظام کے عقیدے کے تحفظ بلکہ نشاۃِثانیہ کے لیے سرگرم ہوئے. خانقاہی نظام کے وسیع موضوع کے تحصیل گجرات کے دائرے کو محور تحقیق بنایا اس پر ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اب اس مقالے کو مفاد عامہ کے لیے کتابی صورت میں
” تحصیل گجرات کے خانقاہی نظام کے اثرات : (اایک تحقیقی ،تنقیدی و شماریاتی جائزہ” کے نام سے تزکیہ پبلی کیشنز کڑیانوالہ کی جانب سے شائع کیا ہے.
میری خوش بختی کہ مصنف نے کتاب کی تقریب رونمائ میں مجھے شریک کیا اور محبت سے کتاب پیش کی . ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ متوازن خیال کے درویش منش مذہبی عالم ہیں اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں. ایک مؤثر مقرر کی حیثیت سے ان کے بیان کا محور اصلاح معاشرہ اور حُسن معاشرت ہوتا ہے. انکی پہلی کتاب بھی اس فکر اور تاثر کی حامل ہے.
ان کی کتاب 260 صفحات پر محیط ہے جس کا انتساب انہوں نے اپنے والد مکرم ممتاز عالم دین علامہ حافظ مشتاق احمد جلالی اور والدہ محترمہ کے نام کیا ہے. ابتداء میں اظہار تشکر میں انہوں نے اپنے علمی و تحقیقی سفر میں اپنی رفیقہ حیات امِ طلحہ کے مالی ایثار کی روشن اور قابل تحسین مثال کا ذکر بڑے کھلے دل اور اعلیٰ ظرفی سے کر کے اپنی وسعت نظری و قلبی کا اظہار کیا ہے.پہلے 19 صفحات 11 اصحاب الرائے قلمکاروں کی تقاریظ و تاثرات پر مبنی ہیں. اس کے بعد کتاب کے موضوع کے تعارف ، تحقیقی اصولوں اور ناقدانہ جائزے کے اجمالی خاکے کی وضاحت و مقاصد کے لیے 6 صفحات پر مشتمل مقدمہ رقم کیا گیا ہے. صفحہ 36 سے شروع ہو کر صفحہ 151 تک پھیلے باب اوّل میں خانقاہی نظام کی لغوی و لسانی معنویت ، تاریخی ارتقاء اور خانقاہی نظام کی سرگرمیوں کا جامع تذکرہ ہے ، اسی باب کے آخری حصے میں بڑی مہارت سے امام احمد رضا خان بریلوی اور اصلاح خانقاہی نظام کے عنوان سے خانقاہی نظام میں پائ جانے والی خرافات کا ایکسرے پیش کیا ہے. ان سطور میں مصنف نے مدعائے تحقیق کو بین السطور پیش کر دیا ہے. باب دوئم جو صفحہ 152 سے 229 تک ہے جس میں مصنف نے تحصیل گجرات کی 46 خانقاہوں پر کیے جانے والے تحقیقی سروے کا ماحصل خانقاہی نظام کے روحانی ،تبلیغی ، علمی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی اثرات کا شماریاتی تجزیہ پیش کیا ہے. اہم بات یہ ہے کہ سوالنامہ کے جوابوں پر مبنی سروے رپورٹ کو شمارتی جدول بنا کر واضح کیا گیا . قاری کی سہولت کے لیے اگلے 20 صفحات میں کتاب کا خلاصہ نتائج بحث کے عنوان سے بیان کیا ہے. جس میں اس نظام کے محاسن اور اصلاح طلب پہلووں پر روشنی ڈالی گئ ہے.آخر میں تجاویز و سفارشات کے عنوان کے تحت اقرار کیا گیا ہے کہ یہ خانقاہیں آج تربیت کے نصب العین سے دور نظر آتی ہیں جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. مزارات پر لائبریوں کے قیام ، خانقاہوں پر موجود شیوخ کے قلمی نسخے اور مخظوطے پڑے ہیں جو وقت کے جبر کی وجہ سے خراب ہو کر معدوم ہوتے جا رہے ہیں ان مخطوطوں پر کام کرنے کی ترغیب دینے کی تجویز ہے.خانقاہوں کے بانیوں کی سیرت و ملفوظات پر کتب کی اشاعت کی کمی کو دور کرنے کی سعی کرنا ہو گی .مزارات اور گنبدوں کی جدید تعمیر پر اسراف کی بجائے خانقاہی نظام کی بقا کے لیے علمی و تحقیقی کام کی سرپرستی کی مثبت تجویز دی گئ ہے..ایسی بہت سی قابل عمل تجاویز پیش کی گئ ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر خانقاہی نظام کی برکات و فیوض کو عام کیا جا سکتا ہے. آخر میں تحقیق کے مصادر و مراجع کی فہرست بھی دی گئ ہے .
ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ نے خانقاہی نظام کو تحقیق و تنقید کی سان پر چڑھا کر اس کی اصلاح و بہتری کے لیے کارِ خیر انجام دیا جس پر وہ مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں. ان کی کتاب کی ورق گردانی شاہد ہے کہ صوفیاء کی خانقاہیں ہمیشہ سے ﷲ کے بندوں کی داد رسی ، تربیت ، تعلیم اور ذکر و فکر کا مرکز رہی ہیں جہاں سے لاتعداد تشنگان معرفت فیض یاب ہوئے اور بہت سے گم گشتہ راہیوں کو محبت الہٰی کی منزل کا سراغ ملا ، بدقسمتی یہ رہی کہ خانقاہیت قبر پرستی ، شخصیت پرستی اور موروثیت کی بھینٹ چڑھ گئ اور فیض رساں نظام خرافات کی بدولت دین و دانش سے وابستہ افراد کی تنقید کی نذر ہونے لگا ہے. اس نظام کو اصلاحات کی توانائ سے ہی پھر سے روحانی تربیت کا منبع بنایا جا سکتا .یہ کتاب اس حوالے سے جراتمندانہ تحیقیق اور خیال افروز تحریر کا قابل تحسین امتزاج ہے .
Leave a Reply