جب تصور میں پیمبر کی گلی آتی رہی
میرے ذہن و فکر میں آسودگی آتی رہی
میں فدا ہونے چلا تھا راہ حق میں ، اس لیے
ہاتھ باندھے پیچھے پیچھے زندگی آتی رہی
الفت شاہ زمن میں جب کیا سیر چمن
باغ کے پھولوں سے خوشبوئے نبی آتی رہی
تھی عنایات نبی کے چاند کی یوں چاندنی
زیست کے آنگن میں شب بھر روشنی آتی رہی
انگلیاں آقا کی یوں دریا بہانے لگ گئیں
تشنگی جاتی رہی ، آسودگی آتی رہی
ہورہا تھا محفلوں میں جان جاں کا تذکرہ
عشق میں آقا کے ، آنکھوں میں نمی آتی رہی
دیکھ کر حالات ان کے حشر کے میدان میں
دشمنان شاہ پر ہم کو ہنسی آتی رہی
کیفیت ضدین کی اس جمع کی کیا خوب ہے
ہجر کے غم میں بھی مجھ کو اک خوشی آتی رہی
آمد شاہ دو عالم ہوگئی یثرب میں جب
سب مصائب کے گھروں میں مفلسی آتی رہی
ان پہ نازل ہوگئی اقرا کی آیت مرحبا
آیت قرآں سے عینی آگہی آتی رہی
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی
Leave a Reply