ایک وقت وہ بھی تھا جب اس ملک کا پہلا وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کو بنایا گیا تھا ، انقلاب زندہ باد کے نعرے کے ساتھ آزادی ہند کی مشعال ملک کے ہیرو مولانا حسرت موہانی نے سنبھالی تھی، انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیکر علامہ فضل حق خیرآبادی کالا پانی کی سزا کاٹ رہے تھے ، لیکن انکے فتویٰ کا اثر اتنا تھا کہ انگریزوں کی نیند حرام ہو گئ تھی، اٹھارہ ہزار حق گو علماء کو درختوں پر لٹکا دیا گیا تھا،
رہتی دنیا تک یہ سارا کچھ تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہیگا،
مگر افسوس کہ موجودہ دور میں علمائے کرام کی علمی بساط و حیثیت دونوں کی قدر نہیں ہے،
اسکے پیچھے کوئ باطل قوت کار فرما نہیں بلکہ بعض علمائے کرام خود ہیں،
انکی صاف دلی اور حد سے زیادہ نرمی نے نا اہلوں کو انکی(علماء) جگہ حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئ، مسجدوں میں صدر ،سکریٹری ،خزانچی، سب کے سب غاصب و فاسق ہی ہیں اور وہ لوگ اماموں کے سروں پہ غزاب بنے بیٹھے ہیں، ایسے ہی درگاہوں پر بھی غنڈوں کا قبضہ نظر آتا ہے جہاں چادر گاگر کے نام پر زائرین سے زبردستی پیسے وصول کئے جاتے ہیں، وہاں کسی میں ہمت نہیں کہ انکے خلاف آواز بلند کر سکے،
مسلمان یا تو مسجد یا پھر درگاہ ان دونوں جہگوں پر سب سے زیادہ جاتا ہے،
دین کا کام ان دونوں جہگوں سے بہت اچھا ہو سکتا تھا ، جہاں آمدنی بھی ہے اور وسائل بھی،
لیکن کروڑوں روپے درگاہوں پر ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں اور ان پیسوں سے سے کچھ خاندان پلتے ہیں ، انکے بچے لگژری گاڑیوں عالیشان بنگلوں اور ملک بیرونی ممالک میں سیر سپاٹا کرتے نظر آتے ہیں،
بڑے شہروں میں بھی مسجد کی آمدنی کم نہیں ہوتی ،
وہاں بھی ٹرسٹی اپنی غنڈہ گردیوں سے اللہ کے گھر کا نظام خراب کئے ہوئے ہیں،
مسجد میں نہ تو لائبریری نظر آئیگی نہ ہی مہمان خانہ بلکہ اگر بھولا بھٹکا مسافر مسجد میں چلا جاتا ہے تو اسکو ایسے بھاگاتے ہیں جیسے کچھوچھہ سے بھوت بھگایا جاتا ہے،
اب مدرسوں کی طرف رخ کرتے ہیں، چند مدارس کو چھوڑ کر بقیہ مدسے تجارت ہی کے لئے کھولے گئے ہیں ، نہ تو طلبہ کی تعلیم کا صحیح انتظام ہے اور نہ ہی دعوت و تبلیغ کے شعبے ،
کسی طرح دستار بندی کرکے فارغین کو ٹائٹل دے دیا جاتا ہے کہ تم آج سے مولانا ،مفتی،حافظ قاری ہو گئے،
یہی لوگ جب مدرسے سے باہر نکلتے ہیں تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی آگے جا چکی ہے، انکے لئے روزگار کا بڑا مسلہ در پیش ہوتا ہے،
مسجدیں پہلے سے پر ہیں مدرسوں میں جگہ نہیں اب کہاں جائیں کیا کریں،
نہ کوئ ہنر ہے اور نہ ہی کوئ ایسی ڈگری جس سے انہیں انکی حیثیت کے مطابق کام مل سکے،
ذریعہ معاش کے لئے چند مہینوں بھٹکنے کے بعد کوئ سعودی دبئ تو کوئ دیگر شہروں میں وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جسکی اسے توقع نہیں تھی،
انہیں میں کچھ شاعر بن جاتے ہیں تو کچھ خطیب اور کچھ خانقاہوں کے جاروب کش،
ملک میں اب بھی اکثر مساجد خانقاہوں کے کنٹرول میں ہیں ، لیکن وہاں بھی اماموں کو قابل گزارا اجرت نہیں ملتی، خانقاہی مدرسوں کے اساتذہ کا بھی یہی حال ہے ،
جبکہ وہاں کی آمدنی دیگر مدارس سے گئ گنا زیادہ ہوتی ہے ،
لیکن افسوس کہ علمائے کرام کے بارے میں سوچنے والا کوئ نہیں، جبکہ مستری اپنی اجرت مانگنے میں نہیں ڈرتا، گاڑی والا کرایے میں کوئ کمی نہیں کرتا، ڈاکٹر دوا سے پہلے اپنی فیس لے لیتا ہے،
بے چارے ان علماء کو حق بھی نہیں کہ یہ قابل گزارا اجرت کی بات کر سکیں،
فوراً انہیں نکال کر اس سے کم تنخواہ میں امام رکھ لیا جاتا ہے،
اب ذرا ان سادہ دل بندوں کا بھی حال لے لیا جاے جنہیں علمائے کرام کہتے ہیں،
انہیں حضرات میں سے کچھ لوگوں نے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں قوم کو عقیدہ دیا کہ انکے بغیر جنت نہیں مل سکتی، انکے چہرے کو دیکھ لینے سے ہزاروں سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، جسکا کوئ پیر نہیں اسکا پیر شیطان ہے، عرس سراپا قدس میں شرکت لازمی و باعث نجات ہے، جس نے اپنے شیخ کو خوش کر لیا گویا اس نے خدا کو خوش کر لیا، اس قسم کی غیر شرعی باتوں سے عوام کا ذہن بنایا گیا،
اب عوام نے سوچا کہ جب سب کچھ میاں ہی کرینگے تو علما کا کیا کام ؟
ان سے وہی کام لو جس میں یہ ماہر ہیں ، لہاذا انکو معمولی اجرت پہ مکتب میں ،مدرسوں میں، مسجدوں میں بطور ملازم رکھ لیا ، ساری عزت ساری نوازشات سب میاں کے لئے مختص ہو گئیں،
سال سال بھر محنت اساتذہ کریں لیکن سالانہ اجلاس میں صرف پگڑی باندھنے کے لئے خطیر رقم خرچ کرکے میاں کو بلایا جاتا ہے اور اسٹیج پر پہنچتے ہی سارا سسٹم چینج کر دیتے ہیں،
خطیب قرآن و حدیث کے لبریز مدلل خطاب کر رہا ہوتا ہے اچانک میاں کی انٹری ہوتے ہی آن واحد میں سارا موضوع تبدیل ہو جاتا ہے ،
اب یہاں سے وہ کام شروع ہوتا ہے جہاں سے انکی بربادی شروع ہوئ تھی،
وہی پرانا گھسا پٹا موضوع، انکا چہرہ دیکھو، انکا ہاتھ چومو، جنت انکی جاگیر ہے، یہ فلاں کی اولاد ہیں انکا شجرہ ہی بخشش کے لئے کافی ہے وغیرہ وغیرہ،
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی سے جلسے کو سمیٹ دیا جاتا ہے اور دستار بندی کی رسم شروع کر دی جاتی ہے،
طلبہ جنکو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہار پھول چمک دمک صرف ایک رات کے لئے ہیں ،مستقبل بہت ہی تاریک ہے، دستار بندی ختم ہو جاتی ہے لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،
اب صاحبان دستار باہر نکل کر دین کا کام کریں یا گھر کا خرچ دیکھیں،
کیونکہ انکے پاس کوئ ذریعہ معاش تو ہوتا نہیں، اور نہ ہی وہ ڈگری سماج مانتا ہے، یہ دنیا کی پہلی ڈگری ہوگی جو صرف مسجد مدرسوں میں ہی کام آتی ہے باقی سماج میں اسکی کوئ قیمت نہیں اور نہ ہی اسکے لئے کوئ جگہ ہے،
علماء کی زبوں حالی کو دیکھکر آج پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں نہیں پڑھاتا، اور نہ ہی وہ خود جلسہ جلوس میں جانا پسند کرتا ہے،
ایک ننگے پاؤں پیدل آدمی سوار کو کیا نصیحت کر سکتا ہے، اور اسکی نصیحت کتنا اثر انداز ہوگی یہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں،
اب تو اکثر دولت مندوں نے ہمارے مدرسوں کو چندہ دینا بھی بند کر دیا ہے ، انکے سوسائٹی میں خود کوئ نہ کوئ چیریٹی تنظیم ہوتی ہے وہ وہیں تعاون کر دیتے ہیں،
اب تو شہروں میں جگہ جگہ عوام نے زکوٰۃ فاؤنڈیشن بنا لیا ہے اللہ جانے وہ لوگ اس رقم کا کہاں اور کیسے استعمال کرتے ہونگے،
ہمیں اپنے مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت نصاب میں ترمیم کرنی ہوگی، یونیورسٹیوں سے مدرسوں کا تعلق مظبوط ہونا چاہئے تاکہ گاہے بگاہے مدرسوں کے پروگرام میں وہاں کے اسکالرز بچوں کو گائیڈ کرتے رہیں اور بعد فراغت آسانی سے یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی ہو جایا کرے،
اسکے لئے بھی مدرسوں کو اضافی رقم کا انتظام کرنا ہوگا،
خانقاہوں سے علمائے کرام کا وفد مطالبہ کرے کہ وہ اس طرز پر مدرسوں کو چلائیں ،
افسوس کہ تعلیم میں وہ قوم ہے پیچھے،
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا،
ٹرسٹیان مساجد و عمائدین شہر کے ساتھ علمائے کرام میٹنگ کریں اور ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے دباؤ بنائیں،
جلسوں میں لبرل و کمیونل خطیبوں پر پابندی لگائیں، پیشہ وارانہ گویوں کو بھی سختی سے روکا جاے،
سوشل میڈیا پر آپسی اختلاف کو شیئر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مسلہ حل ہو جائے گا؟
نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل کھڑے ہوتے جا رہے ہیں،
یہ سوشل میڈیا کی جنگ ہی کا نتیجہ ہے کہ لوگ سلسلوں میں بٹکر کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں،
اس پر علما کو بولنا چاہئے بلکہ میدانوں میں آکر اس کے لئے کام کرنا چاہئیے،
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں،
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں،
مدرسوں کی کثرت اور تعلیم کی قلت پر بھی اگر بر وقت کچھ نہ کیا گیا تو اس کے بھی بہت خراب نتائج بھگتنے ہونگے،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ ہائ رڈار پر مدرسوں کو رکھا گیا ہے،
بنام مدرسہ ہماری گنتی دیکھی جا رہی ہے نہ کہ بنام تعلیم،
اسلئے غیر ضروری مدرسوں پر بھی روک لگانا ضروری ہے،
Leave a Reply