بندوں کی ہدایت و رہنماٸ کے لۓ ہر زمانے میں انبیاۓ کرام مبعوث ہوتے رہے ، اسی سلسلۂ نور کی آخری کڑی بنکے ہمارے نبی سیدنا مُحَمَّد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تشریف لائے ان کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا تولوگوں کی ہدایت ورہنماٸ کی عظیم ذمہ داری دو گرہوں کے سپرد کر دی گٸ ان میں سے ایک تو علماۓ کرام کی مقدس جماعت ہے اور ایک اولیاۓ کرام کا نورانی قافلہ ہے انہیں اولیاۓ کرام میں سے ایک مشہور و معروف نام حضرت مجاھد ملت کا ہے۔
اولیاۓ کرام کے تعلق سےاللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ہے کہ ” سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی غم”۔(پ،11،سورہ یونس)
حضور مجاہد ملت کی ولادت 8/ محرم الحرام 1322ھ بمطابق 22/مارچ 1904ء میں ہوئی۔اور وصال مبارک 6/جمادی الاول 1401ھ بمطابق 13/مارچ 1981ء میں ہوا۔ آپ کی 78 سالہ زندگی میں سے 28/سالہ زندگی تعلیم و تربیت کے لیے نکال دیۓ جائیں تو 50/سال بچ جاتے ہیں۔یعنی آپ پورے پچاس سال تک پورے آب و تاب کے ساتھ مذہب و مسلک کی ترویج و اشاعت اور قوم وملت کی فلاح کامیابی کے لئے نمایاں خدمات انجام دیتے رہے، جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی آپ نے ملک وملت کے لئے خود کو پیش کیا۔ آپ کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات کے تابندہ نقوش سے خالی ہو۔ آپ کے دینی ملی اور جماعتی درد کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے آپ جس شہر میں جاتے تھے قیام کے لیے کسی مسجد کا انتخاب فرماتے۔ عقیدتمندوں کی جماعت یہ چاہتی کہ حضور کسی کے گھر پرقیام کریں ۔ عقیدتمندوں کو آپ جواب دیتے کہ گھر کے دروازے عموماً دس بجے رات میں بند ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے گھر کے دروازہ ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت قوم کو نہ جانے کس وقت پیش آجائے۔گھر میں قیام کرنے سے صاحب خانہ کو ہمارے لئے پوری پوری رات بیدار رہنا ہوگا اوریہ دقت طلب کام ہے۔ مسجد میں نہ آنے کی پابندی ،نہ جانے کی پابندی، مصلحین امت کی تاریخ میں ایسی مثال بہت کم ملے گی آپ کی اس طرزِ زندگی پر جس قدر غور کیجئے حیرانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔آپ نے اپنی دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات سےایک عالم کو متاثر کیا ہے
بلا شبہ آج عہدکے مصلحین امت کے لیے آپکی زندگی کا ہر لمحہ مشعل راہ ہے،
حضور مجاہد ملت علم و عمل،عشق وعرفان اور ایمان وایقان کی اس منزل رفیع پر فائز تھے جہاں تک رسائی کے لئے بڑے بڑے صاحبان فضل و کمال منتظر کرم ایستادہ رہتے ہیں
علوم و فنون کی کوئی ایسی شاخ نہیں،عشق وعرفان کی کوئی ایسی سرحد نہیں،جرات وہمت کی کوئی فصیل نہیں اور زہد و پارسائی کی کوئی ایسی منزل نہیں جہاں آپ نے اپنے وجود مسعود کا احساس نہ دلایا ہو۔اگر آپکی حیات کے سنہرے اوراق الٹے جائیں،تاریخ کے دفاتر کھنگالے جائیں اور زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے آپ کے نقوش یکجا کیے جائیں تو حکمت ودانائی کے درجنوں ابواب مرتب ہوسکتے ہیں، آپکی کتاب حیات کا ہر ورق چاند کی چاندنی سے زیادہ صاف وشفاف اور سورج کی طرح درخشاں و تابندہ ہے، حضورمجاہد ملت یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم کی عملی تفسیر تھے، حوادث سے الجھتے ہوۓ مقاصد تک پہنچنا انکی فطرت تھی، انکی ذات معمار سنیت بھی تھی اور شعار سنیت بھی۔ زمین پر بیٹھ کر افلاک کی وسعتوں میں ٹہلنا آپ کے معمولات میں داخل تھا۔ آپ کی ذات جماعت اہلسنت کے لیے انعام الہی بھی تھی اوراسرار الہی بھی، آپ کو آپکے عہد نے نہیں سمجھا، آپکو آپکا عہد سمجھ لیتا تو بر صغیر میں آج مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی، جس طرح ماضی میں آپ کے نقوش پا مینارہ نور تھے،اسی طرح آج بھی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک مینارہ نور بنے رہیں گے، آج کی قیادت آپکے نقوش حیات کو رہنما بناکر جماعتی مسائل کی بہت ساری پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتی ہے۔آپکی زندگی کے تمام تر نقوش روشن ہیں لیکن ان نقوش کو اپنی حیات کا حصّہ بنانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ آپکی ذات تاحیات فانوس عشق وعرفان کی صورت میں روشن رہی۔ آپ نے جماعت اہلسنت کو وقار و اعتبار بخشا ہے اسکی کوئی دوسری مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے، باطل قوتیں آپ کے وجود سے ہراساں رہا کرتی تھیں۔ بلا ضرورت شرعیہ کسی بھی باطل قوت سے اشتراک کے آپ سخت مخالف تھے۔
مجاہد ملت کی بیشمار خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مسند درس و تدریس پر بیٹھ کر نہایت قیمتی اور باصلاحیت علماء کی جماعت تیار کی۔ فرقہ باطلہ اور دوسرے مذاہب کے درمیان دین اسلام کی شوکتوں کو اجاگر کیا۔آپکی زندگی کے بیشتر لمحات حمایت حق اور اماتت باطل میں گزرے۔آپ نے قدم قدم پر قوم وملت کو بالغ شعور کا اجالا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کا ہنر عطاکیا۔آپکی ذات میں درد ملت کو مجسم دیکھا جاسکتا ہے۔
گود سے گور تک کا کوئی لمحہ آپکا خدمت دین متین سے خالی نہیں ملتا۔آپکی زندگی کی ہر سانس سے اتباع شریعت کی خوشبو پھوٹتی ہے۔جبھی تو ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
حضور مجاھد ملت نے کبھی ظلم کے خلاف مصلحت سے کام نہ لیا بلکہ حق کی اواز بن کر ہمیشہ گرجتے اور برستے رہے یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر جیل میں ہوتے۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی لئے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے اور ظلم کا سر کچلنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک محاذ کھڑا کررکھا تھا جسے وہ خاکساران حق کا نام دیا تھا
جو نہایت منظم طریقے سے اپنا کام انجام دے رہا تھا
سرکار مجاھد ملت تنہا یہ بوجھ قوم وملت کی سربلندی کے لئے اٹھاتے تھے اور اپنے جیب خاص سے اس صرفے کو انجام دیتے تھے۔
مجاہد ملت جس دور میں اپنے مجاھدانہ کردار وعمل سے ملک وملت کی عظیم خدمات انجام دے رہے تھے اس دور میں سواد اعظم اہلسنت وجماعت کے بڑے بڑے علماء وفضلاء صاحبان شریعت وطریقت موجود تھے مگر مجاہد ملت پیرانہ سالی کے باوجود نوجوانوں کی طرح ہر مسئلے کے حل کے لئے تن تنہا میدان میں پہاڑ بنکر کھڑے ہوجاتے۔
مجاھد ملت کے ہم عصر علماء وصاحبان بصیرت منھ بھر بھر کے دعائیں دیتے
اور من ہی من میں اعلیٰ حضرت کا شعر گنگنا اٹھتے۔
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
Leave a Reply