سوال ایک امام صاحب جو کافی بیمار ہیں ان کے علاج ومعالجہ کے لئے اجتماعی رقم اکٹھا کی گئی. انکے علاج کے لیے رقم کافی ہوگئی اور بچ بھی گئی
اسی دوران دوسرے امام کے بیماری کی اطلاع ملی اب سوال یہ ہے کہ بچی ہوئی رقم امام ثانی کے علاج میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں جبکہ امام ثانی امام اول سے زیادہ تعاون کے مستحق ہیں. جواب عنایت فرمائیں
محمد رضوان الرضوی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ جس نیک کام کے لۓ چندہ کیا گیا ہے دیانت کے ساتھ اسی میں صرف کیا جاۓ اگر کام کرنے کے بعد بھی کچھ رقم بچ گئ تو چندہ دینے والوں کو واپس کردے یا پھر جس نیک کام کی اجازت چندہ دہنگان دیں اس میں خرچ کرے بلا اجازت چندہ دہندگا اس رقم کو دوسرے کام میں صرف کرنا اگرچہ وہ بھی کار قربت ہو جائز نہیں
۔سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”چندہ کا روپیہ چندہ دینے والوں کی ملک رہتا ہے جس کام کے لئے وہ دیں جب اس میں صرف نہ ہو تو فرض ہے کہ انھیں کو واپس دیا جائے یا کسی دوسرے کام کے لئے وہ اجازت دیں ان میں جو نہ رہا ہو ان کے وارثوں کو دیا جائے یا ان کے عاقل بالغ جس کام میں اجازت دیں،ہاں جو ان میں نہ رہا اور ان کے وارث بھی نہ رہے یا پتا نہیں چلتا یا معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس کس سے لیا تھا ،کیا کیا تھا،وہ مثل مال لقطہ ہے،مصارف خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت و مطبع اہل سنت وغیرہ میں صرف ہو سکتا ہے۔ (فتاوی رضویہ ج 16 ص247. مطبوعہ رفاونڈیشن۔)
(فتاوی امجدیہ ج 3 ص 42.) لہذا اگر چند دہنگان اجازت دے دیں تو امام ثانی کو دینا جائز ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
۔کتبہ احمد رضا قادری منظری۔
Leave a Reply