WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

“جماعت کے ائمہ سے چند تلخ باتیں “خلیل احمد فیضانی

“جماعت کے ائمہ سے چند تلخ باتیں “خلیل احمد فیضانی

مضمون پورا پڑھیں

سوشل میڈیا پر ابھی قاضی نیپال حضرت مولانا مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی کا ایک مضمون بشکل”پملفٹ” پڑھنے کو ملا- اس مضمون میں آپ نے ائمہ حضرات کی حقیقی پروبلمز کو طشت از بام کیا ہے
میرے خیال سے اماموں کی حد سے متجاوز حمایت بھی ٹھیک نہیں ہے اور ہر مسئلہ کا ذمہ دار امام ہی کو ٹھہرادینا, یہ بھی ٹھیک نہیں ہے بلکہ جادہ اعتدال پر قائم رہ کر ہمیں ہر فریق کے رویوں کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کس مقام پر کمیٹیاں ظلم ڈھا رہی ہیں اور کہاں پر ائمہ حضرات اپنی من مانیاں کرکے تفویض شدہ ذمہ داریوں سے بھی عہدہ بر آ نہیں ہوپارہے ہیں-
میں چاہتا ہوں کہ مسطورہ بالا ان تمام باتوں کی پوائنٹ وائز تفصیل کروں تاکہ قارئین, بالخصوص ائمہ حضرات، قاضی صاحب کی ان باتوں کو بآسانی سمجھ سکیں –

پہلے آپ قاضی صاحب کے کلمات ہو بہو ملاحظہ فرمائیں پھر آگے بڑھتے ہیں-

لکھتے ہیں:
ائمہ کی تنخواہیں بڑھانے پر جتنا زور لگادیجیے کچھ نہیں ہوگا البتہ ائمہ حضرات اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرلیں تو کچھ امید کی جاسکتی ہے

اکثر اماموں میں امامت کی اہلیت کم ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ہے جس سے مقدیوں میں محترم نہیں ہوپاتے ہیں
مثلاً 1/۔ کم عمر لڑکوں سے دوستی گانٹھنا
2/ کرکٹ میں دلچسپی رکھنا
3/۔ نمازوں کی پابندی نہیں کرنا
4/۔ اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس نہیں کرنا
5/۔ جوکڑ جیسا لباس پہننا
6/ اپنی وضع قطع درست نہیں رکھنا
اپنے بیڈروم میں کتب مسائل کی بجائے صرف شبستان رضا اور نقش سلیمانی رکھنا
7 بغیر تربیت کے منصب امامت پہ بحال ہوجانا
مقتدیوں کے ساتھ وعظ و نصیحت کی بجائے مذاق مسخرہ کرنا وغیرہ وغیرہ بہت ساری کمی کمزوری ہیں آخری ساتویں نمبر کا تو بالکل فقدان ہے اسکول کالج میں بحالی کے لیے گورنمنٹ نے دوسالہ کورس تربیت کا رکھا ہے مدارسِ دینیہ سے نکلنے والوں کے لیے کوئی تربیت نہیں جبکہ قوم کی امامت کہیں زیادہ اہم ہے
عدم تربیت کا نتیجہ ہے کہ کم عمر کم علم ائمہ جگہ جگہ فتنہ فساد بھی پھیلاتے رہتے ہیں نہ درست مسائل بتاتے ہیں اور نہ ہی کسی بڑے عالم سے رابطے میں رہتے ہیں نہ ہی اپنے مقتدیوں کو کسی بڑے عالم سے جوڑتے ہیں جو مشکل وقت میں انکے کام آسکیں اپنے اپنے گاؤں کے خود ہی قطب بن بیٹھتے ہیں
یہ اکثر کی باتیں کیا ہوں سب کی نہیں.۔—
قاضی صاحب کا مضمون یہاں مکمل ہوتا ہے-
اب ہم ان پوانٹس کی قدرے تفصیل کرتے ہیں-
(1) اپنے بیڈ روم میں کتب مسائل کی بجاۓ صرف شبستان رضا اور نقش سلیمانی رکھنا-
یہاں قاضی صاحب نے گویا رستے زخم کے عین اوپر انگلی رکھ دی ہے
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک امام جہاں رہے وہاں علم کی شمع روشن کرکے رکھے مگر آج کل اماموں نے العوام کا الانعام کی نقل کرنی شروع کردی ہے
لوگ اپنے گھروں میں کتابیں نہیں رکھتے تو اماموں نے بھی اپنے حجروں میں کتابیں رکھنی بند کردیں۔۔
یہی وجہ ہے کہ اماموں کے حجروں میں جہاں کتابیں ہونی چاہیے آج وہاں کرتوں پر کرتے،جبوں پر جبے اور دستاروں پر دستاریں لٹک رہی ہوتی ہیں۔

تعویذات کی دو تین کتابیں اورچند عدد کورے کاغذات کے بنڈل ہی ان کی لائبریری کا کل اثاثہ ہوتا ہے-
اور اگر کسی امام کے حجرے میں پانچ دس کتابیں رکھی رہتی بھی ہیں تو گرد و غبار میں اٹی ہوئیں اس قدر مظلومانہ انداز میں کہ چو طرف تار عنکبوت کا حصار رہتا ہے اور یہ حصار زبان حال سے گویا یوں گویا رہتا ہے کہ خبردار امام صاحب!
ہمارے پاس پھٹکنے کی ذرا سی ہمت بھی جو کی-
امام صاحب بھی اس حکم پر سختی سے عمل پیرا رہتے ہیں-
اور جب کبھی اپنے حجرہ خاص کی صفائی کرتے ہیں تو اسی بہانے سے ان پردہ نشینوں(کتابوں) کی بھی زیارت فرمالیتے ہیں-
سنجیدہ مذہبی طبقہ شاکی ہے اس بات کا کہ جمعہ کے بیانات افادہ و استفادہ سے خالی ہوتے ہیں
ہمارے ائمہ کو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی ہے کہ ہفتہ بھر میں دس صفحات ہی کا مطالعہ کرلیں اور پھر حاصل مطالعہ کو مرتب کرکے عوام کے سامنے اس سلیقے سے پیش کریں کہ عوام دین سے قریب ہونے لگے –
مگر اس قدر انتظام کی زحمت ہمارے نازک بدن ائمہ کہاں کر پائیں!

بہر حال!ہمارے ائمہ حضرات کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر توجہ دینی چاہیے اور دینی کتابوں کے مطالعہ کے لیے وقت نکالنا چاہیے-

(2) کرکٹ میں دلچسپی رکھنا
ہلکی پھلکی جسمانی ورزش کے لیے کرکٹ کھیلا جاسکتا ہے مگر اس کھیل کے پیچھے لٹو ہوجانا اور ipl و دیگر ٹورنامنٹس میں حد سے زیادہ روچی لینا یا خود ہی شریک مقابلہ ہوجانا ایک امام کے لیے تو قطعی طور پر نا مناسب ہے لہذا اس سے اجتناب ہی اولی ہے-
کرکٹ سے عام طور مذہبی افراد کو
دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں-:
ایک تو تضییع اوقات،کہ اگر اس وقت کو کسی دینی کتاب کے مطالعے میں صرف کیا جاۓ تو بشرط استقامت چند دنوں میں ڈھیر ساری دینی معلومات حاصل کی جا سکتی ہے-
اور دوسرا نقصان یہ کہ اس سے امام کی نوجوانوں کے ساتھ بلا کی بے تکلفی ہوجاتی ہے –
ظاہر ہے کہ جب سماج کی اساس کہا جانے والا طبقہ یعنی کہ نوجوان، ہی اگر امام صاحب سے بے تکلف ہوجائیں گے تو پھر امام صاحب کی مصلحانہ کاوشیں اور داعیانہ کوششیں کیسے ان پر اثر انداز ہوپائیں گی ۔لہذا احوط یہی ہے اور عافیت بھی اسی میں ہے کہ ایک امام کو اس کھیل سے دور ہی رہنا چاہیے تاکہ وقار مجروح بھی نا ہو اور تبلیغ دین کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دیا جاسکے –
3 کم عمر لڑکوں سے دوستی گانٹھنا
ہمارے دین نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ: “اتقوا مواضع التھم”
یعنی تہمت والی جگہوں سے بھی بچو-
کم عمر لڑکوں سے دوستی گانٹھنا اور موٹر سائیکل وغیرہ پر ان کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے نکل جانا امام کے لیے کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں ہے-
کسی جنس کا اگر کوئی ایک فرد بدنام ہوتا ہے تو ساری برادری تشکیک کی زد میں آتی ہے
اور ویسے بھی ائمہ حضرات پر بعض علاقوں میں ناقابل بیان الزامات عائد بھی ہوۓ ہیں اور لوگ گھات میں رہتے ہیں کہ امام کب غلطی کرے کہ ہم اس پر چڑھ دوڑیں!
ایسے نازک حالات میں خاص کرکے ایک امام کو کتنا محتاط رہنے کی ضرورت ہے میرے خیال سے محتاج بیان نہیں ہے –
ایک شخص کی حیا شکن حرکتوں کے نتیجے میں لوگ اگر ساری مذہبی برادری سے بلکہ دین سے ہی دور ہوجاتے ہیں تو یہاں محتاط رہنے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے یہ سوچ کر کہ کہیں میری وجہ سے لوگ دین سے ہی برگشتہ نا ہوجائیں-
اس لیے امام صاحبان سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ کسی بھی صورت میں نامحرم بچی یا کم عمر لڑکے سے تعلقات استوار نہ کریں۔اور نا ہی انہیں اپنے آپ سے بے تکلف ہونے دیں-
بصورت دیگر فضیحت کے لیے تیار رہنا چاہیے-
(4) اپنی وضع قطع درست نہیں رکھنا
بڑی معذرت کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ آج کل اماموں نے اپنی وضع قطع کی کچھ اس انداز میں قطع و برید کی ہے کہ امام لوگ امام کم اور فیشن کے شیدائی زیادہ نظر آتے ہیں –
قمیص زرق برق اور آستینوں میں مختلف کلرز کا جال اس قدر کہ دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں
اور پائجامہ چست و تنگ ایسا کہ دیکھنے والا دیکھ کر شرما جائے –

بعض نو خیز ائمہ ڈاڑھی رکھنے میں ایک طرح کی عار محسوس کرتے ہیں
اس لیے وہ خشخشی ڈاڑھی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں
اس غیر شرعی حرکت کی وجہ سے ان کے مقتدیوں میں گروہ بندی ہوجاتی ہے نتیجتا آدھے امام کی حمایت میں کود پڑتے ہیں تو بقیہ آدھے امام کی مخالفت شروع کردیتے ہیں
رژلٹ یہ نکلتا ہے کہ مقتدیوں کے باہمی مجادلوں کے سبب امام کو ہی مستعفی ہونا پڑتا ہے-
لہذا نہایت ضروری ہے کہ ائمہ حضرات نہایت ایمان داری کے ساتھ شرعی خطوط پر گامزن رہیں اور دائیں بائیں کی رنگینیوں سے قطعاً متاثر نا ہوں-
(5)نماز کی پابندی نہیں کرنا
امام جب تک امام ہے تب تک وہ نمازی ہے
تعطیل کے دن جیسے ہی گھر پہنچتا ہے نماز کا شیڈول تقریباً تقریباً اس کی ڈائری سے غائب جاتا ہے-
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نا سکا
یہ ایک بڑا المیہ ہے جو بدقسمتی سے اس گروہ کے اندر بھی در آیا ہے-
کیا ہماری حالت اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ ہم نماز جیسی مخفم عبادت بھی چند پیسوں کی خاطر کرتے رہے؟

بعض حضرات (ائمہ)اپنے اوپر غیر ضروری کاموں کا بوجھ اتنا بڑھا لیتے ہیں کہ امام ہوتے ہوۓ بھی ساری نمازیں نہیں پڑھ پاتے ہیں-
کبھی فجر چھوڑدی تو کبھی مغرب میں دعوت اڑانے چلے گئے، اور ذرا تاخیر سے پہنچے تو عشا بھی گئی-.
نائب امام یا ناظرہ خواں مقتدی کب تک امام کی جگہ پر کرتے رہیں گے؟
اس لیے حزم و احتیاط اسی میں ہے کہ امام صاحب خود پہلے پکے نمازی بنیں-
کسی نے کہا کہ ایک کہاوت ہے کہ وہ کون سا امام ہے جو نماز نہیں پڑھتا
لوگ بتا نہیں پاۓ تو پیچھے سے مسجد کا ایک نحیف ونزار مقتدی عصا کے سہارے کھڑا ہوا اور کہا
یہ ہماری مسجد کا امام ہے جو امام ہونے کے باوجود بھی نمازوں کا پابند نہیں ہے
مذکورہ پہیلی مفروضہ زاویوں پر ہی ایستادہ سہی
مگر ہمارے معاشرے کی یہ وہ تلخ سچائی ہے جو
سنجیدہ مزاج اہل علم پر مخفی نہیں-

(6)اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس نہیں کرنا
امامت ایک بہت بڑا منصب ہے اس لیے اس منصب کے کچھ تقاضے بھی ہیں
ائمہ حضرات ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں میں نہیں جانتا
مگر گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنے پر حقیقت یہی منکشف ہوتی ہے کہ امام صاحبان اکثر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہوپاتے ہیں
صرف نماز،نکاح اور جنازہ پڑھانے سے ایک امام بری الذمہ نہیں ہوسکتا
بلکہ ایک کام یاب امام وہ ہے کہ جس کے انڈر میں آنے والے سارے گھر علم و عمل کے گہوارے بن جائیں-
اورامام کو کسی پنچ پٹیل کا ذرا بھی باک نہیں ہونا چاہیے
اس لیے اسے چاہیے کہ لومہ لائم کی پرواہ کیے بغیر حکمت عملی کے ساتھ وہ اپنی بات(مسائل) کو رکھے اور پھر اس کے حل کے لیے کوشاں ہوجاۓ
ایک امام کا انداز خطاب اوراسلوب تخاطب مصلحانہ ہونا چاہیے جارحانہ نہیں
جرح سے معاملات بگڑتے ہیں جب کہ نرمی سے سنگ بھی موم ہوجاتے ہیں-
امام کی ایک منصبی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ پہلے وہ اپنے بیانات کو سنجیدگی کے سانچے میں ڈھالےاور پھر بیان کرے
ذاتی مشاہدہ ہے کہ بعض ائمہ جمعہ کے بیان میں اس قدر چیختے چلاتے ہیں کہ سامعین اوبنےلگتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیان سننے کا پابند مقتدی بھی ناغہ کرنے لگتا ہے-
بہت سارے ائمہ وہی سنے سناۓ قصے
بیان کررہے ہوتے ہیں ۔ان کی تقریروں میں نا تو کوئی علمیت ہوتی ہے نہ ہی کوئی خاص پیغام اور نا ہی قابل اعتنا مواد-
صد بار معذرت کے ساتھ!
یہ مذکورہ سطحیت بڑی اونچی اونچی پگڑیوں والے حضرات کے ہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے
کہ جنہیں ہمہ دانی کا بڑا زعم ہے

(7) بغیر تربیت کے منصب امامت پہ بحال ہوجانا
بہت ساری مسجدوں میں امام صرف حافظ ہوتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ حافظ صاحب کہیں سے تربیت یافتہ بھی نہیں ہوتے ہیں
اب عوام کے مسائل کون حل کرے گا؟ ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ کون انجام دے گا؟

امامت ایک عظیم منصب ہے
اس لیے ہر ایرے غیرے کو یہ منصب تفویض نہیں کیا جاسکتا
مگر المیہ دیکھیے کہ
جو لوگ مدرسوں میں محنت سے جی چراتے ہیں اور
بالکل کورے ہی نکل جاتے ہیں
ان کی زبانی سننے کو ملتا ہے کہ :کیا ٹینشن! امامت تو مل ہی جاۓ گی-
ایسے لوگ جب عہدہ امامت پر براجمان ہوں گے تو اپنے منصب سے کیا انصاف کریں گے؟
ظاہر ہے اس سراپا مذہبی امانت کا جو مس یوز کریں گے وہ بھلانے کی چیز نہیں ہوگی –
بنا اہلیت اور بغیر تربیت کسی کو امامت یا کوئی بھی عہدہ سپرد کردینا بذات خود قیامت کی نشانی ہے
جس کی نشاندہی حدیث رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں واضح طور پر کر دی گئی ہے-
مصلحین ملت اور ارب علم کے پاس اب دو ہی آپشن بچتے ہیں
یا تو ان غیر تربیت یافتہ لوگوں کا متبادل تلاش کریں اور قوم کو پیش کریں
یاپھر ہچکولے کھاتی قوم کا یہ سفینہ نا اہل ملاحوں کو سپرد کردیا جاۓ تاکہ وہ اسے کسی جزیرے میں لے جاکر گرادے یا بیچ منجدھار میں ہی تہ نشیں کردے اور پھر ہمیں کچھ کرنا نا پڑے-

اخیر میں عرض ہے کہ یہ اکثر کی باتیں کیا ہوں سب کی نہیں-

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *