بزرگان دین کے اقوال و فرمودات ہمارے لئے ایک نعمت ہے, ان کے اقوال اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ پڑھنے والے کے دل میں فوراً وہ بات کارگر ثابت ہوتی ہے ,ان کی باتیں اگرچہ بہت مختصر ہوتی ہیں ,لیکن ایسا لگتا ہے کہ سمندر کو کوزے میں سمیٹ دیا گیا ہے ,جو بات ضخیم و طویل کتابوں میں بھی نہیں ملتی, ان کے مختصر ملفوظات میں مل جاتی ہے ,ایک سادہ اور عام فہم بات جس کے اندر زیادہ اشکال بھی نہ ہو ,اگر ان کی مبارک زبان سے ادا ہو جائے تو لوگوں کی تقدیریں بدل دیتی ہے, اس لئے کہ
گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
یعنی اللہ تعالی کے دوستوں کا بولنا دراصل اللہ تعالی کا بولنا ہے اگرچہ زبان بندے کی ہو –
ایک جملے میں حقیقت و معرفت کے خزانے کو سمو دینا اللہ والے اور عارفین کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے –
ان عظیم ہستیوں کا ہم پریہ احسان ہے کہ جنہوں نے بزرگوں کے اقوال و فرمودات کو سپرد قرطاس کیا اور ہم تک وہ موصول ہوئیں,
انہیں میں سے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات مبارکہ ہے ,جنہوں نے اپنے پیر و مرشید خواجہ خواجگان ,عطائے رسول, خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری علیہ الرحمۃ کے حسین ملفوظات کو جمع کیا اور ایک کتابی شکل دی جس کا نام “دلیل العارفین” ہے
فی زمانہ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے چاہنے والوں کا برصغیر پاک و ہند اور دیگر ممالک میں ایک ایسا ہجوم ہے جس کا شمار کرنا شاید کے ممکن ہو ,اور ایسے ایسے اور عاشق موجود ہیں کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر ہمہ وقت جان و مال قربان کرنے کے لئے مستعد و کمر بستہ رہتے ہیں ,ہزاروں لاکھوں روپے جلسے ,جلوس اور چادروں میں خرچ کرتے ہیں, اور جوش وخروش کے ساتھ “خواجہ کا دامن نہیں چھوڑیں”کا نعرہ لگاتے ہیں, لیکن افسوس بالاےافسوس! کہ انہیں عقیدت مندوں کا حال یہ ہے کہ جب خواجہ پیا کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کی باری آتی ہے تو بہت دور نظر آتے ہیں,ان کی روشن تعلیمات سے کوئی شغف ہی نہیں رکھتے, ہمارے قوم کے مقررین حضرات بھی محفلوں میں صرف خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے فضائل و کرامات کا تذکرہ کر کے عوام خوش کرتے ہیں الاماشاء اللہ –
تو اس امر کی نہایت ہی سخت حاجت ہے کہ جس طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فضائل و کرامات عام اور مشہور ہیں, اسی طرح ان کی موثر تعلیمات کو بھی عام اور مشہور کیا جائے-
ذیل میں چند ایسے گراں قدر اور قیمتی اقوال کو تحریر کیا جاتا ہے جس پر عمل کر کے ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور سکتی ہیں- ملاظہ فرمائیں
(۱)خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مقامات پر نماز کا تذکرہ اور تاکید فرمائی ,فرماتے ہیں کہ :” کوئی شخص بھی اللہ تعالی کے بارگاہ عزت میں نماز کے بغیر قرب حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ مومن کی معراج یہی ہے” (دلیل العارفین اردو ص ۱۵ مطبوعہ ,ضیاء القرآن پبلی کیشنز داتا دربار لاہور)
اور فرماتے ہیں کہ:” جو شخص اللہ تعالی کی فرض نماز ادا نہیں کرتا اللہ تعالی کی حفاظت سے باہر آ جاتا ہے”(ایضاً ص ۱٦)
ایک جگہ فرماتے ہیں “نماز تو پروردگار عالم کی طرف سے تمام بندوں پر امانت ہے اللہ تعالی کی اس امانت کی حفاظت کرنا تمام بندوں پر واجب ہے اور اس طرح ادا کریں کہ کہیں بھی خیانت کا شائبہ نہ ہو ” (ص ۲۵)
ان مقامات کے علاوہ بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ نے نماز کی پرزور تاکید فرمائی, اب اگر کوئی آدمی خواجہ پیا سے محبت کا دعویٰ کرے اور نماز سے غافل ہو تو پھر یہ جھوٹا دعویٰ ہے –
(۲) آج لوگ تو اپنے پیر صاحب سے حد درجہ محبت کرتے ہیں, ان کی دل و جان سے تعظیم کرتے ہیں, پیر چومتے ہیں اور ان کے جھوٹوں کو تبرکاً کھاتے ہیں, لیکن پیر صاحب کی نصیحت آموز باتوں کو اپنانے سے محروم رہتے ہیں ,مرید ہوتے وقت جو وعدے کئے تھے ان کے خلاف ورزی کرتے ہیں ,خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ:” جس نے بھی کچھ حاصل کیا خدمت ہی سے حاصل کیا, لہذا مرید کے لیے ضروری ہے کہ پیر کے حکم سے ذرہ بھر بھی تجاوز نہ کرے وہ جو نماز, تسبیح اور اوراد و وظائف بتائے ان پر دل و جان سے عمل پیرا ہو” (ایضاً ص ۱٦)
(۳)باوضو سونے کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :”جب کوئی آدمی طہارت (وضو) کے ساتھ سوتا ہے تو اس کی روح فرشتے عرش کے نیچے تک لے جاتے ہیں وہاں حکم ملتا ہے, اسے نیا لباس پہنایا جائے, پھر اس کی روح سجدہ کرتی ہے تو حکم ہوتا ہے کہ اسے اب واپس لے جاؤ یہ نیک بندہ ہے جو کہ با وضو سوتا تھا (ص۱۸)
لیکن افسوس! ہے خواجہ غریب نواز کے ان عقیدت مندوں پر جن کو میوزک کے بغیر اور جب تک گندے اور فحاشی فلموں کو نہ دیکھ لے نیند آتی ہی نہیں-
(٤)آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک حدیث پاک ارشاد فرمائی:” کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن شیطان سے پوچھا کہ تم اتنے غمگین کیوں؟ ہو تو جواب دیا کہ تیری امت کے چار کاموں کی وجہ سے ,
ان میں سے دو کو ملاحظہ فرمائیے
(۱) موذنوں کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ جب وہ اذان دیتے ہیں تو جو بھی اذان سنتا ہے تو جواب میں موذن کے الفاظ دہراتے ہیں ,اس طرح کرنے سے اذان دینے والا اور سننے والا دونوں بخشے جاتے ہیں-
(۲)جب کوئی شخص صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک وہی بیٹھا رہتا ہے اور اشراق کی نفل بھی پڑھتا ہے -(ص۲٠)
لیکن آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ اذان کے وقت بھی بحث و مباحثہ, ٹی وی اور گانے باجے چلتے رہتے ہیں, رات دو ,تین بجے تک موبائل اور ٹی وی میں گزارتے ہیں اور فجر کی نماز قضا کر کے دس گیارہ بجے تک بستر پر ہی پڑے رہتے ہیں-
(۵) جو شخص جھوٹی قسم کھاتا ہے وہ اپنے گھروں کو ویران کرتا ہے اس کے گھر سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے (ص۳۳)
اس فرمان سے ان تاجروں کو خاص طور پرعبرت حاصل کرنی چاہیے جو اپنا سامان طرح طرح کی جھوٹی قسمیں کھا کر بیچتے ہیں-
(٦) قبرستان میں ہنسنا قطعی منع ہے ۔ کیوں کہ قبرستان عبرت کی جگہ ہے لہو لعب کا مقام نہیں ہے, حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص قبرستان سے گزرتا ہے تو اہل قبور کہتے ہیں کہ اے غافل! اگر تجھے علم ہوتا کہ کونسا مرحلہ مجھے درپیش ہے تو خوف کےمارے تیرے جسم سے گوشت اور پوست دونوں گر پڑتے،(ص۳۷)
لیکن آج لوگ جب قبرستان سے ہوکر گزر تے یا کسی کو دفنانے کیلئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ہنسی, مذاق اوردنیا داری کی باتوں میں مشغول و مصروف ہوجا تے ہیں ، اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ۔
(۷) ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بے وجہ تکلیف و اذیت پہنچائے تو اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی الہ علیہ وسلم کو اذیت پہونچانے کے مترادف ہے (ص٤۲)
لیکن آج مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا عام ہو گیا ہے ,کبھی زبان تو کبھی ہاتھ پیر سے دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں-
(۸) “پانچ چیزوں کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے
(۱) ماں باپ کی طرف دیکھنا”پھر ایک حدیث پاک بیان فرمائ کہ :”جو فرزند اپنے والدین کی طرف اللہ تعالی کی رضا کی خاطر دیکھتا ہے اس کے نامہ اعمال میں حج کا ثواب لکھا جاتا ہے” پھر فرمایا کہ حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے فرمایا:” مجھے یہ ساری ولایت اور سعادت میری ماں کی دعا کی وجہ سے ملی ہے”(ص٤۷)
محترم قارئین!غور کیجئے کہ والدین کی کتنی فضیلت ہے ,وہ شخص کس قدر بے وقوف ہو گا جو اپنے والدین کو تکلیف پہنچائے اور گالی دے, ایسا شخص گویا کہ اپنی دنیا و آخرت دونوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں-
(۲)قرآن کو دیکھنا بھی عبادت ہے ,پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :”جو شخص قرآن میں دیکھتا ہے یا تلاوت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے نامہ اعمال میں دو ثواب درج کرنے کا حکم فرماتا ہے ایک پڑھنے کا, دوسرا دیکھنے کا (ص٤۹)
افسوس بالاے افسوس! کہ وہ لوگ جو گھنٹوں گھنٹوں موبائل ,اخبار ,فحش اور فضول گوئی میں نکال دیتے ہیں دن میں ایک بار بھی قرآن پاک دیکھنے اور پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی –
(۳)”اگر کوئی شخص علمائے حق کی طرف دیکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی نگاہوں سے ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو کہ قیامت تک اللہ تعالی سے اس شخص کی بخشش کی دعا کرتا رہتا ہے” پھر ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک بیان کی گئی کہ :”آپ علیہ السلام نے فرمایا:”جو شخص علمائے کرام کی طرف بربنائے عقیدت دیکھتا ہے اور ان کے ساتھ اس کا آنا جانا بھی ہو اور سات دن تک ان کی خدمت کرے تو اللہ تعالی ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور سات ہزار سال تک نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے اور وہ نیکیاں بھی ایسی کہ دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور رات کو ہمیشہ قیام کرے “(ص۵۱)
(٤)”خانہ کعبہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت(ص۵۲)” “
(۵) “اور پانچویں چیز یہ کہ اپنے پیر کو دیکھنا ان کی خدمت کرنا بھی ایک عبادت ہے(ایضاً)”
اللہ تعالی ہم سب کو خواجہ غریب نواز رحمتہ کی تعلیمات اور فرمودات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے
اور ان کا فیضان ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم عطافرمائے-
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
Leave a Reply