ہر دور میں حق وباطل کے درمیان بڑی بڑی جنگیں واقع ہوئ ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ ہر جنگ میں کامیابی و کامرانی حق کو ہی حاصل ہوئی ہے اور باطل ہر زمانے میں ذلیل و خوار ہوا ہے جیسا کہ ابلیس، فرعون اور نمرود وغیرہ پر آج بھی لعنتیں بھیجی جاتی ہیں،ان ہی معرکوں میں سے ایک عظیم معرکہ میدانِ کربلا ہے جہاں حق و باطل اور خیر و شر کی ایک ایسی لڑائی ہوئی کہ آج بھی باطل کو یزیدیت اور حق کو حسینیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے ،جنگِ کربلا مسلمانوں کے لئے درسِ عبرت ہے محض محرّم کے مہینے میں محفل امام حسین کا انعقاد کرنا ،سبیل ،شربت، نیاز ،غریبوں اور مسکینوں کے لئے لنگر کا اہتمام کرنا، اگرچہ کار ثواب ہے لیکن محبت کی اصل دلیل نہیں ہے بلکہ امام حسین اور شہدائے کربلا کے تعلیمات پر عمل پیرا ہونا یہ محبت کی اصل دلیل ہے ،امام عالی مقام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما نے جو دین اسلام کے لیے اپنے گھر والوں اور دوست و احباب کی قربانی دے دی اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے
(1) دین اسلام اور شریعت پر جب بھی کوئی حملہ کرے تو ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر نہ بیٹھنا بلکہ دین کے نام پر چل پڑنا اور دین کی سربلندی کے لئے ہر جائز کوشش کرنا
(2) جب دین کی حفاظت کے لیے اپنے گھر والوں دوست و احباب بلکہ اپنی جان کو بھی راہ خدا میں قربان کرنا پڑے تو الٹے قدم نہ آنا ،کیونکہ امام حسین نے تو اپنے چھ ماہ بچے حضرت علی اصغر کو بھی راہ خدا میں پیش کر دیا ۔
(3) اگر اس مختصر سی دنیا میں اپنے اوپر ہزاروں مصائب و آلام اور تکالیف آ پڑے تب بھی احکام شریعت کو ترک نہ کرنا بلکہ ان پر عمل کر کے خدا کا شکر بجالانا، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشکل گھڑی میں بھی نماز تو نماز جماعت کو بھی بلکہ سنن و مستحبات کو بھی ترک نہ کیا بلکہ آخری وقت میں جب کہ آپ کا جسم اطہر خون سے تر بتر تھا اس وقت بھی آپ نے اپنے رب کے حضور سجدہ کیا،اور آج وہ لوگ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے اور ان کا نعرہ لگاتے ہیں ہفتہ مہینہ بلکہ سال گزر جاتا ہے اللہ کے حضور سجدہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں،اللہ ایسے مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ،آمین
(4) جب بھی شریعت مصطفوی پر حملہ ہو تو یہ کہہ کر احساس کمتری کا شکار مت ہونا کہ ہماری تعداد مٹھی بھر ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھنا،کیونکہ میدان کربلا میں جہاں دشمنوں کی تعداد ہزاروں کی تھی وہیں ایمان والے صرف بہتر تھے ،یہ حضرات دشمنوں کی بھاری تعداد کو دیکھ کر رمق برابر بھی پیچھے نہ ہٹیں اور نہ خوفزدہ ہوئیں بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل یقین کر کے آخری سانس تک لڑیں،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ،”بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئ ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے”
(سورة البقرہ الآیت 249)
(5) یہ سب سے اہم درس ہے کہ کبھی بھی اقتدار، مال ودولت اور شہرت کے لیے اپنے ایمان کو مت بیچنا، جب یزید پلید نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اقتدار، مال و دولت اور شہرت کی لالچ دینے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دے دو تو آپ نے کہا تھا کہ حسین سر تو دے سکتا ہے لیکن اپنا ہاتھ کبھی نہیں دے سکتا،
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
یہی وجہ ہے کہ آپ نے جب دنیاوی بادشاہت کو ٹھوکر ماری تو اللہ تعالی نے آپ کو ایسی دائمی بادشاہت عطا کردی کہ قیامت تک ہر مسلمان یہی کہے گا جو بات ہند کے بادشاہ میرے خواجہ علیہ رحمۃ نے کہی تھی :
شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دیں است حسین، دیں پناہ است حسین
Leave a Reply