متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ
“اسمِ گرامی” تاجدار اہل سنت شہزادہ اعلیٰ حضرت سیدی سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا پیدائشی اور اصلی نام محمد ہے۔ والد ماجد نے عرفی نام مصطفٰی رضا رکھا۔فنِ شاعری میں آپ اپنا تخلص”نوری” فرماتے تھے۔
القاب۔ مفتیِ اعظم ہند ہے۔
آپ امامِ اہلسنت مجددین وملت شیخ الاسلام امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔
:تاریخِ ولادت: حضور مفتی اعظم قدس سرہ 22/ذی الحجہ 1310ھ 7/جولائی 1893ء بروز جمعہ بوقتِ صبح صادق دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی جائے ولادت محلہ رضا نگر، سوداگران شہر بریلی شریف ، یوپی انڈیا ہے۔ :تحصیلِ علم: حضرت مفتی اعظم قدس سرہٗ نے اصل تربیت تو اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہٗ سے پائی۔ علوم دینیہ کی تکمیل بھی اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے کی۔
“تصنیف وتالیف” اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ قلمی قوت سے نوازا تھا آپ کی تحریروں میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قد سرہ کے اسلوب کی جھلک اور ژرف نگاہی نظر آتی ہے تحقیق کا کمال بھی نظر آتا ہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی۔امام غزالی کی نکتہ سنجی ،امام رازی کی دقت نظر اور امام سیوطی کی وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے آپ نے اپنی گونا گوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل کے باوجود مختلف موضوعات پر تصنیفات و تالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ اول ودوم(۲)وقعات السنان (۳)ادخال السنان (۴)الموت الاحمر(۵)ملفوظات اعلیٰحضرت (۶)الطاری الداری لھفوات عبد الباری (۷)القول العجیب فی جواب التثویب(۸)سامان بخشش(۹)تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ (۱۰)ہشتاد بید وبند(۱۱)طرق الھدیٰ والارشاد (۱۲)وقایہ اہل السنۃ وغیرہ
“علوم وفنون” بر صغیر میں معقول ومنقول علوم وفنون کی جتنی مشہور اسناد ہیں ان میں سے سلسلہ تلمذ بریلوی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ہر فن اور ہر علم کی سند عالی ہے ۔اور پھر اسی ایک سلسلے سے تمام معقول ومنقول کی سند حاصل ہو جاتی ہے ۔ گویا سلسلہ تلمذ بریلوی جمیع علوم وفنون کا جامع ہے ۔ذیل میں ان علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بریلوی سلسلہ تلمذ کے واسطے سے نہ صرف حاصل کئے بلکہ ان میں درجہ اختصاص حاصل کیا ۔اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مہارت بہم پہنچائی جو درج ذیل ہیں ۔
(١)علم القرآن(٢)علم الحدیث(٣)اصول الحدیث (٤)فقہ حنفی (٥)جملہ کتب فقہ متداولہ مذاہب اربعہ(٦) اصول فقہ(٧)علم تفسیر (٨) علم العقائد والکلام (٩)علم النحو(١٠)علم صرف(١١)علم معانی(١٢)علم بیان (١٣)علم بدیع(١٤)علم منطق(١٥)علم مناظرہ(١٦)علم فلسفہ(١٧)علم حساب (١٨)علم ہندسہ(١٩)علم سیر(٢٠)علم تاریخ(٢١)علم لغت(٢٢) ادب(٢٣)اسماء الرجال(٢٤)نظم عربی(٢٥)نظم فارسی(٢٦)نظم ہندسہ (٢٧)نثر عربی(٢٨)نثر فارسی(٢٩)نثر ہندی(٣٠)خط نستعلیق(٣١)تلاوت مع تجوید(٣٢)علم الفرائض (٣٣)علم عروض(٣٤)علم قوانی(٣٥)علم تکسیر(٣٦)علم التوقیت(٣٧)زیجات(٣٨)ہیات کی والد ماجد سے تحصیل کی(٣٩)علم تصوف اور سلوک کی تعلیم حضرت ابو الحسین احمد نوری میاں اور والد ماجد سے لی۔ دیگرعلوم و فنو ن کی تحصیل اساتذہ سے کی۔
“بیعت و خلافت” 25 جمادی الثانی 1311ھ چھ ماہ تین یوم کی عمر شریف میں سید المشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے داخلِ سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
:مرشد کامل کی بشارت: سید المشائخ نے حضرت مفتیِ اعظم کو بیعت کرتے وقت ارشاد فرمایا:”یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا۔ اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے ۔ یہ فیض کا دریا بہائےگا”۔
“پابند شریعت” حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ شریعت پر اتباع کا خاص اہتمام فرماتے ۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی احکام پر عمل کی تنبیہ فرماتے بایں وجہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو نے والا احکام شرع کا پابند ہوجاتا اور نمازوں کا اہتمام بھی کرنے لگتا۔حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور مفتی اعظم قدس سرہ اس سے متصف تھے اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال تھے اور اپنی حیات طیبہ سے اسی کا درس بھی دیا۔ مولانا قاضی عبدالرحیم بستوی تحریر فرماتے ہیں :’’حضور مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کے عالی کردار ، بلند اخلاق ، علمی بصیرت ، جودت طبع ، حسن حافظہ، خدمت دینی کے واقعات کثرت سے ہیں اور ان امور میں آپ یگانۂ روز گار تھے فرائض و واجبات، سنن و مستحبات کی محافظت میں نمایاں خصوصیت کے حامل تھے، اتباع سنت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، خدمت خلق آپ کا عظیم کارنامہ ہے ۔ ‘‘( ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کا نپور ، مفتی اعظم نمبر مئی ۱۹۸۳ء ، ص۱۶۷)
“سیرتِ مبارکہ” اسلام کا وہ بطل جلیل اور استقامت کا جبل عظیم جس کے جہاد بالقلم نے دینِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبیاری فرمائی۔ جس کی نگاہ کیمیا اثر نے لاکھوں گم گشتگان راہ کو جادۂ حق سے ہم کنار کیا۔ جس کے درکی جبیں سائی وقت کے بڑے بڑے مسند نشینوں نے کی۔جس کے ناخن ِادراک میں لا ینحل مسائل کا حل تھا۔ جو بیک وقت علم ظاہر و باطن کا ایسا سنگم تھا جہاں ہر تشنہ لب کو سیرابی و آسودگی کی دولتِ گراں مایہ ملتی تھی۔ جو رسول پاک ﷺ کا سچا نائب، تصدیق حق میں صدیقِ اکبر کا پرتو، باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر، باطل شکنی میں حیدری شمشیر۔ جس میں امام اعظم ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف اور مولائے روم کا سوز و گداز تھا۔
جو علم و فضل میں شہرۂ آفاق، معقولات میں بحر ذخار، منقولات میں دریاے ناپیدار کنار، فقہ روایت میں امیر المومنین اور سلطنت قرآن و حدیث کا مسلم الثبوت وزیر المجتہدین، اعلم العلما عند العلماء، افقہ الفقہا عند الفقہا، قطب عالم علی لسان الاولیاء، فانی فی اللہ، باقی باللہ عاشقِ کاملِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مولانا الشاہ الحاج محمد ابو البرکات محی الدین جیلانی محمد مصطفی رضا قادری قدس سرہ جسے دنیا تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم کے نام نامی اسمِ گرامی سے یاد کرتی ہے۔
“وصال باکمال” اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 14/محرم الحرام 1402ھ، بمطابق 12 نومبر 1981ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
Leave a Reply