WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار-از، حسن نوری گونڈوی

مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار-از، حسن نوری گونڈوی

*مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار*

میرے پیارے ملک میں آئے دن کچھ شرپسند عناصر نفرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم علاقوں میں ریلی نکالنا، مسلح ہو کر نکلنا، گندی گندی گالیاں دینا، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگانا، مزارات کو منہدم کرنا، مسلم عورتوں کی عصمت دری کی دھمکی دینا، بھڑکاؤ نعرے لگانا شرپسندوں کا محبوب مشغلہ ہے

سوال یہ ہے کہ مسلم علاقوں کی پرمیشن انہیں کیوں دی جاتی ہے؟

دھار دار ہتھیار لے کر ریلی نکالنے کی اجازت کیا پرشاشن دیتی ہے اگر نہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کرتی؟

کیا مسلم علاقوں میں بھڑکاؤ نعرے لگانے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے اگر نہیں تو لگانے والوں پر اب تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

جب پولیس ریلی میں ساتھ ہوتی ہے پھر بھی جھڑپ کیوں ہوتی ہے؟

مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے پر اب تک پورے ملک میں سیکولر لوگوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائ؟

پولس جھنڈا لہرانے والوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی؟؟

اس وقت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ یہ سوال اٹھائیں👇

کیا ہندو دھرم دوسروں کی عبادت گاہ پر اپنے مخصوص جھنڈے لہرانے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم مسلح ہو کر دوسرے دھرم والوں کی گلیوں میں جاکر انہیں ہراساں کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم اجازت دیتا ہے کہ مسلم بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جائے؟

کیا ہندو دھرم کے مطابق بھڑکاؤ نعرے لگانا درست ہے؟

جو لوگ پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہیں کیا ہندو دھرم کی بنیادی کتابیں اس کی اجازت دیتی ہیں؟

کیا یہ سب دھرم کے مطابق ہو رہا ہے؟؟

ان *سوالات کو معمولی نہ سمجھیں اس کے “ہاں” اور “نا” میں ہزاروں سوالوں کے جوابات موجود ہیں اہل علم اپنے قلم کا رخ اس طرف کریں

*📝حسن نوری گونڈوی

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *